میں اپنے پیارے ابا جان محترم ڈاکٹر حاجی سید جنود اللہ صاحب کے ذکر خیر کا آغاز حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے ان الفاظ سے کروں گی ۔ 1982ء میں مسجد مبارک ربوہ میں ایک موقع پر میرے بھائی سید شعیب احمدجنود کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی خدمت میں یہ نظم : ’’ ملتِ احمد کے ہمدردوں میں غم خواروں میں ہوں بے وفائوں میں نہیں ہوں میں وفاداروں میں ہوں‘‘ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ نظم کے اختتام پر حضورؒ نے فرمایا : ’’یہ سید شعیب جنہوں نے نظم پڑھی ہے۔ ان کا خاندان بھی احمدیت کے نشانات میں سے ایک نشان ہے اور ایک ایسا نشان ہے جس کا تعلق براہِ راست حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی اور ایک نصیحت سے ہے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم امام مہدی کے ظاہر ہونے کی خبر سنو تو برف کے تُودوں پر سے گھٹنوں کے بل بھی تمہیں چل کر جانا پڑے تو اُس تک پہنچو اور اُسے میرا سلام کہو۔ اور دوسری حدیث میں آتا ہے کہ اُس کی بیعت کرو۔ حاجی جنود اللہ صاحب مرحوم جن کے یہ بیٹے ہیں وہ اور اُن کے بڑے بھائی سیّد آل احمد صاحب اور اُن کی والدہ یہ روسی ترکستان میں جب انہیں خبر پہنچی کہ امام وقت ظاہر ہو گئے ہیں تو احمدی ہو گئے۔ اور پھر وہاں سے ہجرت کر کے واقعتاً برف کے تَودوں سے گزر کر آئے اور انتہائی مشکلات برداشت کیں، راستے کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن اس عزم سے پیچھے نہیں ہٹے کہ ہم دیارِ مہدی تک پہنچیں گے اور سلام کہیں گے۔ ان کے حالات وہاں بہت اچھے تھے۔ بہت ہی اچھا معزز خاندان تھا لیکن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہ قادیان آئے۔ میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ راستہ میں آپ کے اوپر سب سے زیادہ مشکل وقت کیا آیا تھا؟ اب ہر قوم کے رہن سہن کا اپنا اپنا ایک طریق ہوتا ہے۔ اُن کے ہاں رواج تھا کہ کبھی کسی نے پانی نہیں پیا تھا، چائے یا قہوہ پیتے تھے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ سب سے زیادہ دردناک وقت وہ آیا تھا جب ہم نے پانی پیا اور ہماری آنکھوں سے اپنی بیچارگی کے اوپر آنسو جاری ہوگئے کہ یہ وقت بھی ہمیں دیکھنا پڑا کہ ہمیں پانی پینا پڑ رہا ہے۔ اُن کے لئے بڑی قربانی تھی۔ جنہیں ساری عمر عادت نہ ہو اُن کے لئے یہ بھی ایک قربانی بن گئی۔ بہرحال خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ خاندان ایک نشان والے خاندان میں سے ہے۔ آیات میں سے ہے۔ اللہ کے فضل سے حاجی صاحب کے سب بچے سلسلہ کے نہایت مخلص اور فدائی ہیں‘‘۔ میرے پیارے اباجان کو ترکستان کاپہلا احمدی ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔آپ شہر کا شغر کے ایک نہایت معزز سیّد خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔یہ خاندان گدی نشین بھی تھا۔ الفضل 9ستمبر 1939ء صفحہ نمبر 5پر آپ کے خاندان کا اس طرح ذکر ہے’’ حاجی جنود اللہ صاحب کاشغر کے ایک ایسے مقتدر خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کا شمار وہاں کے چوٹی کے سربرآوردہ اورمعزز خاندان میں ہوتا تھا‘‘۔ میرے ابّاجان نے اوائل عمر ہی میں حج بیت اللہ کی سعادت پائی تھی۔یہ وہ دَور تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیوں کی وجہ سے لوگ مسیح کی آمد کے شدت سے منتظر تھے۔چنانچہ میرے دادا سید جلال شاہ صاحب نے خواب میں دیکھا کہ مسیح آنے والا ہے۔ انہوں نے گھر میں نصیحت کی کہ جب کوئی مسیح ہونے کا دعویٰ کرے تو تحقیق کرکے اس کی بیعت کرلینا۔ خدا کی قدرت کہ 1934ء قادیان میں حضرت مصلح موعود ؓ نے میں تحریک جدید کے آغاز کا اعلان فرمایا اوریوں دومجاہد چینی ترکستان کی طرف تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں سے محترم محمد رفیق صاحب جب کاشغر پہنچے تو وہ سلائی کا کام کرتے تھے۔ وہ میرے اباجان کے ہاں ملازم ہوگئے۔ محمد رفیق صاحب میرے اباجان ہی کے گھر رہتے اورجب بھی موقع ملتا آپ کو احمدیت کی تبلیغ کرتے۔ میرے اباجان حیا ت مسیح کے قائل تھے۔ اس لئے جب رفیق صاحب وفات مسیح کا ذکر کرتے آپ کو سخت غصہ آتا۔ آپ کہا کرتے کہ مجھے رفیق پر اتنا غصہ آتاتھا کہ میں سوچتا میرے گھر میں رہتا ہے میرا کھاتا ہے اورمیرا ہی دین خراب کرتا ہے۔ اگریہ میراملازم نہ ہوتا تو ٹھیک کرکے رکھ دیتا۔ پھریہ بھی دیکھتے کہ نیک آدمی ہے، نمازیں پڑھتاہے، روزے رکھتا ہے، کوئی عیب نہیں ہے۔ چونکہ اباجان کے گھر کا ماحول بھی مذہبی تھااورپھر آپ لوگ مسیح کی آمد کے منتظر بھی تھے اس لئے عجیب کشمکش میں تھے کوئی فیصلہ نہ کرپاتے۔ ایک دن قرآن پڑھ رہے تھے جونہی اباجان سورۂ المومن کی آیت نمبر :29 (ترجمہ: ’’کیا تم محض اس لئے ایک شخص کو قتل کروگے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اوروہ تمہارے پاس تمہارے ربّ کے کھلے کھلے نشان لے کر آیا ہے ۔اگر وہ جھوٹا نکلا تو یقینا ا س کا جھوٹ اسی پر پڑے گا اوراگر وہ سچا ہوا تو جن چیزوں سے وہ تمہیں ڈراتا ہے ان میں سے کچھ ضرور تمہیں آپکڑیں گی۔ یقینا اللہ اسے ہدایت نہیں دیا کرتا جو حد سے بڑھا ہواسخت جھوٹا ہو‘‘۔)پر پہنچے تو لرز اُٹھے۔ اس لئے کہ آپ جانتے تھے کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے۔ اس کا ہرحکم ہرزمانہ میں لاگو ہوتا ہے ۔فوراً ہی محمد رفیق صاحب کو بلایا اورگلے لگالیا۔ اسی وقت بیعت کا خط لکھوایا اور کچھ عرصہ کے بعد نہایت دشوارگزار راستوں اوربر ف کے تودوں پرسے گزر کرحضرت مصلح موعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کاسلام پہنچایا اوریوں ترکستان کے پہلے احمدی ہونے کا اعزاز پایا۔ آپ جب قادیان پہنچے توآپ کو حضرت مصلح موعودؓ اور اُمّ طاہرکے مہمان ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے میرے اباجان کے قبول احمدیت کا ذکر اپنی ایک تقریر میں فرمایا ہے۔حضور اپنی تقریر میں 1934 ء میں تحریک جدید کے نتیجہ میں احمدی نوجوانوں کی تبلیغی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ عدالت خان فوت ہوگیا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے بیج کو ضائع نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے شخص نے جسے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا احمدیت کے جھنڈے کو پکڑ کرآگے بڑھنا شروع کردیااور مشرقی شہر کاشغر میں پہنچ گیا اوروہاں تبلیغ شروع کردی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے ایک دوست کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمادی۔ حاجی جنوداللہ صاحب ان کانام ہے۔ وہ اسی تبلیغ کے نتیجہ میں قادیان آئے اور احمدیت میں شامل ہوگئے۔ پھر کچھ کم عرصہ بعد حاجی جنوداللہ صاحب کی والدہ اورہمشیرہ بھی احمدی ہوگئیں اوراب تو وہ قادیان ہی آئے ہوئے ہیں۔ تو عدالت خان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکہ احمدیت کو اس علاقہ میں پھیلانے کا موجب بن گئی۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس میں احمدیت کی اشاعت کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایسے ایسے خطرناک اوردشوار گزار راستے ہیں کہ ان کو عبور کرنا ہی بڑی ہمت کاکام ہے۔ حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ صاحبہ نے بتایا کہ راستہ میں ایک مقام پر وہ تین دن تک برف پر گھٹنوں کے بَل چلتی رہیں ۔ایسے سخت راستوں کوعبور کرکے ہماری جماعت کے ایک نوجوان کا اس علاقہ میں پہنچنا اورلوگوں کو تبلیغ کرنا بہت بڑی خوشی کی بات ہے۔تو تحریک جدید کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے عدالت خان کو پہلے یہ توفیق دی کہ وہ افغانستان جائے۔ چنانچہ وہ افغانستان میں کچھ عرصہ رہا اورجب واپس آیا تومیری تحریک پر وہ چین کے لئے روانہ ہوگیا اورخود ہی ایک اورنوجوان کو اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ راستہ میں عدالت خان کو خداتعالیٰ نے شہادت کی موت دے دی مگر اس کے دوسرے ساتھی کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ آگے بڑھے اورمشرقی ترکستان میں جماعت احمدیہ قائم کردے۔‘‘ (اقتباس از تقریر فرمودہ 7اپریل1939 ’’تحریک جدید ایک الٰہی تحریک‘‘ جلد اول صفحہ 723 ) کچھ عرصہ کے بعد میرے والد صاحب نے حضرت مصلح موعود ؓ سے اپنے خاندان کے باقی افراد کو قادیان بلوانے کی درخواست کی۔ اس وقت تک کاشغر کے حالات سخت خراب ہوگئے تھے۔ روس اپنا تسلط جما رہا تھا۔ مسلمانوں کے خاص طورپر رؤ سااور بااثر لوگوں کو شدید خطرہ تھا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت اور سرمحمد ظفرا للہ خان صاحب کی طرف سے ان کی مشکلات کودور کروانے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح یہ مختصر قافلہ قادیان پہنچا۔ہمارے بزرگوں کے سفر کے حالات تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ 565تا 568میں کچھ اس طرح درج ہیں ۔ ترکستان سے ہجرت اب تک ترکستان کے علاقہ میں احمدیت کی آواز نہ پہنچی تھی۔ مگر مجاہد تحریک جدید محمد رفیق صاحب کی تبلیغ سے 1938ء میں احمدیت کا بیچ بویا گیا اورسب سے پہلے کا شغر کے ایک نوجوان حاجی جنود اللہ صاحب حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ جو اپنے وطن سے چل کر چینی ترکستان اور کشمیر کے برفانی اوردشوار گزار کوہستانی علاقے طَے کرتے ہوئے ستمبر1938ء میں واردِ قادیان ہوئے اور حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے دستِ مبارک پر بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ حاجی صاحب موصوف کی اپنے وطن سے روانگی ایسے موسم میں ہوئی جب برف پگھلنی شروع ہوگئی تھی۔ آپ پید ل چلتے ہوئے کئی بار گلے تک برف میں دھنس گئے۔ ان خطرات اور مصائب کے علاوہ کئی ماہ کے اس لمبےسفرکے اخراجات اورراہداری اورپاسپورٹ کے ملنے میں تکالیف کو برداشت کرکے اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم سے آخر منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ حاجی صاحب کے ساتھ ان کی معمر والدہ اورہمشیرہ بھی آنا چاہتی تھیں۔ لیکن پاسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے رُک گئیں۔ حاجی صاحب کے واردِ قادیان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اورحضرت امیر المومنین ؓ کی دعائوں کی برکت سے ان کو بھی پاسپورٹ مِل گیا۔ اوروہ بھی 18؍ اکتوبر 1938ء کو ایک دوسرے قافلہ کے ہمراہ قادیان کے لئے روانہ ہوگئیں اوربذریعہ تار اپنی روانگی کی اطلاع حاجی صاحب کودی۔ اس پر حاجی صاحب قادیان سے گلگت تک چودہ پندرہ روز کا سفر آٹھ نو روز میں طے کرکے پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کی والدہ اور ہمشیرہ کرایہ کشوں کی سستی اورغفلت کے باعث ترکستان سے آنے والے پہلے قافلہ سے رہ گئیں ہیں۔ اس بات کا معلوم ہونے پر آپ گلگت سے روانہ ہوگئے۔ تیسری منزل طے کررہے تھے کہ راستہ میں آپ کو وہ دوسرا قافلہ ملا جس میں آپ کی والدہ اور ہمشیرہ سفر کررہی تھیں۔ حاجی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جس وقت اس قافلہ کو میں نے دیکھا تو خیال کیا کہ ممکن ہے یہ وہی قافلہ ہو۔ جس کے ہمراہ میری والد ہ اورہمشیرہ آرہی ہیں۔ اور جب آپ نے قافلہ کے افراد پر نگاہ ڈالی تو پہاڑ کی چوٹی پر دوسیاہ بُرقع پوش سوار نظر آئے۔ جن کے گھوڑوں کی لگامیں دو کرایہ کشوں نے تھامی ہوئی تھیں۔ قافلہ کے نزدیک پہنچنے پرجب انہوں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی ان کی والدہ اور ہمشیرہ ہی ہیں۔ یہ 24؍ نومبر 1938 ء کی تاریخ اور عید الفطر کا مبارک دن تھا۔ مگرجب آپ گلگت پہنچے تو معلوم ہوا کہ کشمیر کی طرف جانے کاراستہ برف باری کی وجہ سے بند ہوچکا ہے۔ آپ نے گلگت میں دس روز قیام کیا اوراس کے بعد اپنی والدہ اورہمشیرہ کو لے کر گیارہ دن میں چترال پہنچے۔ یہ تمام سفر بھی گھوڑوں پرکیا گیا۔چترال میں پانچ چھ روز ٹھہرنے کے بعد بذریعہ لاری مالا کنڈ او ر درگئی کی طرف چل پڑے اورجب اشرت نام ایک پڑائو تک پہنچے تو پشاور کی طرف سے آنے والے ایک سرکاری افسر سے معلوم ہوا کہ برف باری کی وجہ سے دِیر اوردرگئی کاراستہ سخت خطرناک اورناقابلِ عبور ہے۔ نیز اسی افسر نے کہا کہ میں ایک سو قلی کے ساتھ بڑی مشکل سے پہنچا ہوں۔ آپ کے قافلے میں تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں راستے میں پچیس پچیس فٹ برف پڑی ہے اورپیدل چلنے کے سوا چارہ نہیں۔ اس لئے آپ واپس دروش چلیں۔ وہاں سے آپ کے جانے کے لئے جلال آبادوالے راستے سے انتظام کر دیا جائے گا۔ آخر پچیس میل واپس آکر دروُش نامی پڑائو میں آٹھہرے لیکن پندرہ روز تک انتظار کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ کسی دوسرے راستے سے جانے کا کوئی امکان نہیں اوربہر صورت واپسی والے راستہ ہی کو طَے کرنا پڑے گا۔ آخر اسی راستہ پر دوبارہ چل پڑے اورپہلے اسرات اورپھر چھ میل کا سفر پیدل برف پر طے کرکے شام زیارت نامی پڑائو پر پہنچے۔ اگلے دِن کا سفر نہایت ہی مشکل تھا کیونکہ چھ سات میل کی چڑھائی تھی۔ اوربرف نے راستہ کو زیادہ دشوار گذار بنادیاتھا۔ لیکن سوائے اس کے کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ آخر علی الصبح تین قلیوں اور حاجی صاحب کی مد د سے ان کی والدہ اور ہمشیرہ نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ دوسرے افراد قافلہ کے ساتھ بھی بیس بائیس قلی تھے۔ برف بہت گہری تھی پھربمشکل صبح سے لے کر ظہر تک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے۔ راستہ میں حاجی صاحب کی والدہ بلکہ ان کی ہمشیرہ اور خود حاجی صاحب بھی کئی دفعہ برف سے پھسل کر گرتے اورچوٹیں کھاتے رہے۔ لیکن اس خطرہ کے پیش ِ نظر کہ کہیں موسم زیادہ خراب نہ ہوجائے اورمزید برف باری نہ شروع ہوجائے یہ پُرمشقت سفر جاری رہا۔ حاجی جنود اللہ صاحب کا بیان ہے کہ اس سے زیادہ سخت دِن ہم پر کم آیا ہوگا۔ آخر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کرکچھ دیرآرام کیا۔ اورآگ جلا کر گرمی حاصل کی۔ پھرتمام قافلہ نومیل کی اترائی کی طرف روانہ ہوا۔ جس طرح چڑھائی سخت مشکل تھی اسی طرح برف پر جو ڈھلوان تھی اس میں اُترنا اس سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ حاجی صاحب کی والدہ اب چلنے سے بالکل عاجز آگئیں اس لئے قلیوں نے ان کو اٹھا اٹھا کر اتارنا شروع کیا۔جوں جوں رات قریب ہوتی جاتی تھی خطرہ بڑھتا جاتاتھا۔ تاہم ایمان اورجذبہ کی بدولت خداتعالیٰ کے فضل سے تمام مشکلات کوبرداشت کرتے ہوئے رات کو اگلی منزل گوجر پڑائو پر پہنچ گئے۔ لیکن رات کوحاجی صاحب کی والدہ کو سفر کی بیحد تکلیف کی وجہ سے بخار، سردی اوراعضاء شکنی کی تکلیف شروع ہوگئی اوربعد کاسفر اورمشکل نظرآنے لگا۔ حاجی صاحب تمام رات اپنی والدہ کی تیمارداری میں مصروف رہے۔ صبح تک ان کی طبیعت قدرے بحال ہوگئی۔ اوروہ تھوڑا بہت سفر کرنے کے قابل ہوگئیں۔گوجر پڑائو سے چل کر دوتین میل کے فاصلہ پر گھوڑے کی سواری مل گئی جس پر حاجی صاحب کی والدہ سوار ہوگئیں اوراس کے بعد تھوڑی دور جانے پر ہمشیرہ کے لئے بھی سواری کاانتظام ہوگیا۔ سامان وغیرہ قلیوں نے اٹھایا ہواتھا۔ اس روز کا سفر نسبتاً آرام سے ہوا۔ اورعصر کے وقت یہ قافلہ ریاست دِیر میں پہنچا۔ یہاں رات آرام سے بسر کرکے صبح 12؍ جنوری کو لاری پر درگئی پہنچ گئے۔ وہاں سے ریل پرسوار ہوکر 13؍جنوری کوامرتسر آپہنچے اور14؍جنوری کی صبح قادیان دارالامان میں وارد ہوئے۔ اس کے بعد27ستمبر 1939ء کوحاجی صاحب کے بڑے بھائی حکیم سید آل احمد صاحب اورحکیم صاحب کے بیٹے امان اللہ خان بھی انہی دشوار گذار راستوں سے گزرتے ہوئے قادیان آپہنچے۔ اورحضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کرلی۔ اورپھر یہ خاندان قادیان میں ہی رہائش پذیر ہوگیا۔ مگر 1947ء کے فسادات میں اسے دوسرے احمدیوں کے ساتھ ہی پاکستان میں پناہ گزین ہونا پڑا۔ پاکستان آکر حاجی جنود اللہ صاحب نے سرگودھا میں بودو باش اختیار کرلی اورحکیم سید آل احمد صاحب مسجد احمدیہ راولپنڈی (واقع مری روڈ)کے ایک کمرہ میں مقیم ہوگئے۔ جہاں آپ کا 17؍ دسمبر1958ء کوانتقال ہوا۔ اورموصی نہ ہونے کے باجود محض اپنے تقویٰ، پرہیز گاری اوردینداری کے سبب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی اجازت سے بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے۔ اُن کے بیٹے امان اللہ جلد ہی ایک قافلہ کے ہمراہ واپس چلے گئے۔ جب یہ قافلہ قادیان پہنچاتو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشا د پر حضرت اُمِّ طاہر ؓ کے مہمان ہونے کا شرف حاصل کیااور جب تک ان کا اپنا بندوبست نہیں ہوگیا وہیں قیام پذیر رہے۔ میرے اباجان نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے مشورہ سے کچھ عرصہ بعد میں قادیان میں باقاعدہ میڈیکل پریکٹس شروع کردی۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کوبڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ کلینک آتے جاتے میرے ماموں حمید احمد صاحب کی دوستی اباجان سے ہوگئی اورجب خاندان کے دوسرے افراد یعنی پھوپھی جان اوردادی جان قادیان آئے تو میری نانی امی ماموں کے ساتھ دادی جان سے ملنے ان کے گھر گئیں اورجاتے ہوئے اپنے ساتھ پھلوں کے علاوہ گوشت کا تحفہ بھی لے گئیں۔ میری دادی جان گوشت دیکھ کر حیران ہوئیں اورپھربتانے لگیں کہ میرے ملک میں رواج ہے کہ جب کسی کے گھر جائیں تو گوشت بھی تحفۃً لے جاتے ہیں۔ پھر کوئلے کوباریک گول گول کرکے کہنے لگیں مجھے یہ چاہئے۔ میری نانی جان بڑی زیرک خاتون تھیں۔ واپس آکر آپ نے کالی مرچیں دادی جان کو بھجوادیں جس پر دادی جان بے حد خوش ہوئیں اوریوں تعلقات کا آغاز ہوا جو بڑھتے بڑھتے رشتہ داری میں بدل گیا۔ دادی جان کہا کرتی تھیں جب میں محمودہ(میری نانی جان) کے گھر گئی تومیری امی جان قرآن مجید پڑھ رہی تھیں ۔ میری امی کی آواز بے حد پیاری تھی جسے سن کر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یہ میری بہو ہواوراسی خواہش کے تحت دادی جان نے امی جان کارشتہ مانگ لیا۔ ابھی رشتہ کی بات چل رہی تھی کہ بعض لوگوں نے غلط فہمیاں پیدا کرنی شروع کردیں۔ میری نانی جان نے رشتہ دینے سے انکار کردیا تومیرے اباجان نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو رشتہ کے بارہ میں تفصیلاً لکھا اوردعا کی درخواست کی۔ حضور کا جواب یہ آیا’’ جہاں تک میرے علم میں ہے رشتہ میں کوئی عیب نہیں خدا اس رشتہ کومبارک وبابرکت کرے‘‘ حضور کا یہ خط لے کر اباجان سیدھے نانی جان کے پاس گئے اوررشتہ پر نظر ثانی کے لئے کہا۔ شام کا وقت تھا سورج ڈھل رہاتھا۔ اباجان نے خط دکھا کر نانی جان سے کہا ’’ والدہ میں ان دووقتوں کی قسم کھاتا ہوں اب اگر شادی کروں گا تو مسعودہ سے کروں گا ورنہ کبھی نہیں کروں گا۔‘‘میری نانی جان بھلا کیسے انکار کرسکتی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد دونوں کی شادی ہوگئی اورباوجود مختلف ماحول اور زبان کے دونوں نے کامیاب زندگی گزاری۔ اباجان نے امی جان سے اردو زبان سیکھی ان کے ماحول کواپنا یااورکچھ کچھ رنگ اپنا بھی دیا۔ مزیدار ترکی کھانے بنانے امی جان نے اباجان ہی سے سیکھے۔ مثلاً ترکی پلائو ،سوکش، مانتوہ، شوربہ برینج، یغلازااور خوشے۔ یہ کھانے اب بھی ہمارے گھر وں میں بڑے شوق سے پکائے اورکھائے جاتے ہیں۔ بلکہ جب بھی ہم بہن بھائی اکٹھے ہوں تو زیادہ التزام سے یہ کھانے تیار کئے جاتے ہیں۔ اوراگر کسی کو زکام بخار ہوجائے تو پھر شوربہ برینج ضرور ہی بنتا ہے۔ شادی کے بعد اباجان نے بے مثال داماد بن کردکھایا۔ میری امی کے بہن بھائیوں سے اپنے بہن بھائیوں کا سا سلوک رکھا اورنانی جان کو ہمیشہ والدہ کہ کر پکارتے تھے۔ جب کبھی نانی امی ہم بچوں میں سے کسی کو اپنے ہمراہ ربوہ لے جانا چاہتیں تو اباجان فقط اتنا کہتے والدہ میرا تو سیٹ خراب ہو جاتا ہے مگرپھر اجازت بھی دے دیتے۔ 1947ء میں پارٹیشن کے بعد پہلے لاہو ر میں کلینک بنائی مگر حضرت بھائی محمود صاحب عرف بھائی جی اوران کے بیٹے محترم ڈاکٹرحافظ مسعود صاحب کی تحریک پر سرگودھا آگئے اوربالکل ان کے گھر کے ساتھ کلینک بنالی۔ خدا نے میرے اباجان کے ہاتھ میں بے حد شفا رکھی تھی۔ بے حد شفیق، خوبصورت اورخوب سیرت انسان تھے۔ ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ رہتی اورسونے کے دانت آپ کی مسکراہٹ کو مزید خوبصورت بنادیتے۔ کبھی کسی غریب سے پیسے نہیں لیتے تھے اوراگر کوئی زبردستی دے دیتا تو چپکے سے اس کی دوائی کے ساتھ واپس کردیتے۔ نہ ہی کسی امیر سے اپنی اجرت سے زیادہ پیسے لئے۔خدا کا فضل ہمیشہ آپ کے شامل حال رہا۔ لوگ دوردور سے آپ کے پاس علاج کے لئے آتے۔ آپ کے مریضوں میں مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان اوران کے اہل خانہ بھی شامل تھے۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد بھی آپ کے پاس علاج کے لئے آتے اور آپ سے بے حدمحبت بھی کرتے۔ اَبّاجان کی وفات کے بعد ہم سب بہن بھائی خلیفۂ وقت اور خاندان مسیح موعود کی محبت اور دعائوں میں شامل رہے۔ میں یہاں تحدیث نعمت کے طور پر حضرت صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ کاذکر کروں گی جنہیں ہم پھوپھی جان کہتے۔ خاکسارہ جب کبھی ربوہ ان کے پاس حاضر ہوتی تو ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے جاتیں۔ خوب باتیں کرتیں اور ضرور پوچھتیں تم خوش ہو۔ تمہیں پتا ہے میں نے تمہارا استخارہ کیا تھا اور حاجی صاحب کو ہی خواب میں دیکھا تھا۔جب کبھی لندن جاتیں ضرور ہمارے لئے تحفے لاتیں۔ عید پر پاکستان میں مقیم بہن بھایئوں کو عیدی بھجواتیں اور گرمیوں میں اسلام آبادہم بہنوں کو آم ضرور بھجواتیں جنہیں ہم برکت کے طور پر اپنے دوستوں کو بھی دیتے۔ اباجان کا حلقۂ احباب بے حدوسیع تھا۔ جو ایک مرتبہ آپ سے ملتاآپ ہی کا ہو کر رہ جاتا۔ تمام دوست آپ پر جان چھٹرکتے اس لئے آپ کا ہردوست ہمارا چچا تھا۔ چچا انور، چچا بشیر، چچا ایوب، چچا غلام محمد، چچا محمد علی اور چچاجان ڈاکٹرحافظ مسعود صاحب۔ میرے بھائی سید شعیب جنود کہتے ہیں کافی بڑے ہونے پر میں نے سوچنا شروع کیاکہ ہم سیّد ہیں تو چچا بشیر چوہدری کیوں ہیں، چچا ایوب میرے اباجان کی طرح سفید کیوں نہیں؟ تو پتا چلا یہ سب سگے بھائی نہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ سگوں سے بڑھ کر تھے۔ سب ہی بے حد مخلص اور بے حد پیارکرنے والے۔ یہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے اباجان سے بغیر کسی مذہبی، لسانی اورقومی تفریق کے رشتہ نبھایا اورآج تک ان چچائوں کی اولادوں در اولادوں سے ہمارے تعلقات برابر قائم ہیں۔ فیّاضی، فراخدلی اورمہمان نوازی آپ میں کُوٹ کُوٹ کربھری ہوئی تھی۔ جب بھی سرگودھا میں کوئی ڈی سی تعینات ہوکر آتا آپ اپنے تمام دوستوں کے ہمراہ ان کی دعوت کا اہتمام کرتے اور اپنے خاندانی اورروائتی طریقے سے فرشی دریاں بچھواتے جن پر سفید چادریں ہوتیں، درمیان میں پھولوں کے گلدستے اورسماوار میں قہوہ ہوتا۔ ان تمام دعوتوں کاانتظام میر ی امی جان اورایک باورچی (باباجی سلطان)کرتے۔ مگر کھانے کے وقت بڑے بڑے لوگوں کے درمیان باباجی کو بلواتے اور اپنے پاس بٹھاتے۔ یہی وجہ تھی کہ آخر ی وقت میں باباجی ہمارے پاس ہی آگئے تھے اورخود ہی ہمارے کچھ کام کرتے۔ کبھی سبزی دودھ لادیتے۔ کبھی کلینک کی صفائی کرتے اور کبھی میرے بھتیجوں کو گود میں لے کر سیرکرواتے۔ کسی نے ایک دفعہ انہیں کہا کہ آپ میرے پاس آکر کام کریں میں زیادہ پیسے دوں گا۔ توجواباً کہنے لگے میں ان کے پاس حاجی جنود اللہ کی وجہ سے ہوں۔ ان کی اولاد مجھے بہت بڑی پیاری ہے میں آ پ کے گھر آکر کام نہیں کرسکتا۔ میرے ابّا جان نہایت وقار اور سادگی کے ساتھ ہر امیر وغریب سے تعلق رکھتے۔ اکثر غریب لوگوں کے ساتھ مختلف دفاتر میں اپنا کلینک چھوڑ کر کام کروانے چلے جاتے۔ کبھی کسی کی ضمانت کروا دیتے۔ غرض ہر وقت ہرکسی کا کام کرنے کے لئے تیار رہتے۔ کلینک سے گھر پیدل آتے اور ہر دکاندار سے ملتے۔ طبیعت میں مزاح کا رنگ بھی نمایاں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اباجان کی وفات کے عرصے بعد تک لو گ ہم سے کسی کام کی اجرت نہیں لیتے تھے۔ ہمیں کسی سے کام کروانا مشکل ہوجاتا۔ میرے بھائی سید محبوب جنود نے بتایا کہ اباجان کو شوق ہوا میرا یہ بیٹا حافظ قرآن بنے۔ چنانچہ جب مدرسہ میں داخلہ کا وقت آیا تو احمدیت کی وجہ سے مشکل پیش آئی۔ اس پر وہاں کے مدرس مولانا الف اللہ نے باوجود مخالفت کے بھائی کوداخلہ دے دیا جہاں انہوں نے 15 سیپارے حفظ کئے۔ خدا نے میرے والد کو بڑی عزت اور شہرت دی۔ سرگودھا میں ’جنود کلینک‘ کا کہنا کافی ہوتا اور ہر رکشہ والا، ٹانگہ والا بغیر مزید کچھ پوچھے ہمارے گھر مہمان چھوڑ جاتا۔ ڈاک کے لفافے پر فقط ’جنودکلینک‘ سرگودھا، لکھنا کافی ہوتا اور خط گھر پہنچ جاتا۔ محترم والد صاحب کو اپنی والدہ ، بھائی اور بہن سے شدید محبت ہی نہیں عقیدت بھی تھی۔ جلسے کے دنوں میں جب سب اکٹھے ہوتے تو خوب باتیں کرتے، ساتھ ساتھ قہوہ پیتے اور سماوار ٹھنڈا نہ ہونے دیتے۔ دادی جان جنہیں ہم اَنّاکہتے تھے کا بڑا احترام کرتے۔ کبھی اونچی آواز سے اپنی والدہ سے بات نہ کی۔ اگر آپ کا دوپٹہ زمین پر گرا دیکھ لیتے تو فوراً اُٹھا کر چوم لیتے اور کہتے دوپٹہ تو عزت ہوتا ہے۔ دادی جان بھی جان چھڑکتی تھیں۔ اگر کلینک سے آنے میں دیر ہو جاتی تو پیار سے کہتیں ادھر آؤ کان کھینچوں دیر کیوں کی۔ محترم تایا جان سیّد آل احمد صاحب کا باپ کی طرح احترام کرتے اور پھوپھی جان سے والہانہ پیار کیا۔ کوئی جمعہ ایسا نہ ہوتا جو ربوہ جا کر نہ پڑھتے اور جمعہ کے بعد پھلوں سے بھری ٹوکری پھوپھی جان اور بچوں کے لئے ضرور لے جاتے اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس آجاتے۔ جب کبھی پھوپھی جان ہمارے گھر سرگودھا آتیں تو آپ بڑے ہی پیار اور عقیدت سے والہانہ خدمت کرتے۔ آپ کا بس نہ چلتا کہ اپنی بہن کے لئے کیا کچھ نہ کریں۔ پھوپھی جان کو ’ خا نم ‘ کہہ کر پکارتے۔ اور کچھ دن بعد باقاعدہ اپنے کلینک پر بھی آپ کی اور ہم سب بچوں کی چائے کا انتظام کرتے۔ چائے خود بناتے جو کہ اُن کی مشہور تھی۔ پھوپھی جان کے بچوں اور اپنے بچوں میں کبھی فرق نہ کیا۔ پھوپھی جان بھی اپنے بھائی کی عاشق تھیں اس لئے ابا جان کی وفات کے بعد کہا کرتی تھیں کہ میں جب نماز کے لئے اُٹھتی ہوں تو یوں لگتا ہے بھائی ساتھ ساتھ ہیں۔ ابا جان کی وفات کے بعد محترمہ نانی امی کی تحریک اور پھوپھی جان کے بے حد اصرار پر میری بڑی بہن سیّدہ مسرت جنود پھوپھی جان کے بڑے بیٹے سیّد نصیر احمد شاہ سے بیاہی گئیں۔ آپ (والد صاحب) بحیثیت بیٹا اور بھائی تو بہترین تھے ہی بحیثیت خاوند اور والد بھی بے مثال تھے۔ حضرت امی جان کی بے حد عزت کرتے اور بے حد خیال رکھتے۔ جب کبھی میری امی جان تھک کر سو جاتیں تو اُن کے ہاتھ چوم لیتے کہ ان ہاتھوں نے مجھے اور میرے بچوں کو کھانا بنا کر دیا ہے۔ آپ کی عادت تھی کہ کبھی خالی ہاتھ گھر واپس نہ آتے۔ امّی کہا کرتیں بڑی عجیب بات تھی جب کبھی کسی پھل کو کھانے کا دل کیا شام کو وہی پھل ڈاکٹر صاحب لے کر آجاتے۔ ابا جان کا تعلق چونکہ مذہبی گھرانے سے تھا اس لئے شدید پردے کے پابند تھے اور میری امی جان اُن سے بڑھ کر پردہ کرنے والی۔ اپنے تمام کزنز حتیٰ کہ پھوپھا جان سے بھی پردہ کیا۔ گھر اور بچوں میں گم صرف محترمہ خالہ جی (صدر لجنہ سرگودھا)کے ساتھ کسی بھی جماعتی کام کرنے کے لئے وقت بے وقت جانے سے ابا جان نے کبھی نہ روکا۔ آپ کہتے جس عورت کا گھرجنت ہو اُسے کہیں جانے کی کیا ضرورت ہے۔ امی کہا کرتی تھیں کبھی غصہ نہ کیا۔ صرف اس بات پر ناراض ہو جاتے کہ میرے گھر آنے سے پہلے بچے کیوں سوئے ہیں۔ بے حد جان چھڑکنے والے باپ تھے۔ امی کہتیں کبھی ایسا بھی ہوتا کہ دوپہر کو کھانے کے لئے کلینک سے جلد آجاتے اور کھانا تیار نہ ہوتا مگر مجھے کبھی فکر نہ ہوئی کیونکہ مجھے معلوم ہوتا کہ بچوں کو دیکھ کر بھوک بھول جائیں گے اور کھیل میں لگ جائیں گے۔ تب تک کھانا تیار ہو جائے گا۔ اُن کا معمول تھا کہ جو بچہ سب سے چھوٹا ہوتا اُسے گود میں لے کر خود کھانا کھلاتے۔ رات کو جب گھر آتے توBell دینے پر تمام بچے بھاگ کر ابا جان کو سلام کرتے اور ابا جان جواب دے کر بچوں کو پکڑنے دوڑتے۔ بچے آگے آگے شور مچاتے دوڑتے۔ ہمارے ہمسائے کہتے کہ ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب گھر آگئے ہیں۔ بچوں کے ساتھ لُڈّو شوق سے کھیلتے۔ اس کے لئے بڑی سی گول شیشے کی میز پر لُڈو بنوائی ہوئی تھی۔ اس تمام لطف و کرم اور بے تحاشا پیار کے ساتھ ساتھ بے حد اصول پرست اور سخت بھی تھے۔ کسی بھی قسم کی بدتمیزی برداشت نہیں کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ کلینک سے واپسی پر میرے بھائی ابا جان سے چند قدم آگے بڑھ گئے تو ناراض ہوئے اور کہنے لگے اپنے باپ سے آگے چلتے ہو؟۔ بڑوں کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کبھی بیٹھنے نہ دیتے کہ یہ بدتمیزی ہے اور اگر کوئی مہمان آجاتا اور اُس کے سامنے کوئی بچہ ذرا بھی بدتمیزی کرتا یا میز سے کوئی چیز اُٹھا لیتا تو پھر مہمان کے جانے کے بعد بچوں کی خیر نہیں ہوتی تھی۔ مگر بچوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔ اچھا کھلایا اچھاپہنایا۔ کالے رنگ سے لگاؤ نہ تھا مگر سرخ رنگ بہت پسند تھا۔ چاہتے تھے جو کپڑا میری بیٹیاں پہنیں اُس میں کالا رنگ نہ ہو۔ سرخ زیادہ ہو۔ کبھی کسی بیٹی یا بیٹے میں تفریق نہیں کی تھی۔ امی کہتی تھیں ہر بچہ کی پیدائش پر خواہ لڑکی ہو یا لڑکا ضرور مٹھائی بنوا کر بانٹتے۔ ایک دفعہ میری ایک بہن سیّدہ طلعت نصیرکی پیدائش پر خاص لڈو گھر بنوا کر بانٹے تو ہمسائے سمجھے لڑکا ہوا ہے۔ اس پر وہاں کے دستور کے مطابق ہیجڑے آگئے۔ ابا جان کو جب معلوم ہوا تو آپ گھر سے باہر آئے اور آکر کہا معاف کرنا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے لیکن خدا کی قسم اگر میں احمدی نہ ہوتا تو لڑکی کی پیدائش پر بھی ہیجڑوں کو نچواتا۔ دینی غیرت بہت زیادہ تھی۔ ایک دفعہ کسی بورڈ پر ربوہ لکھا ہوا تھا میرے بھائی نے اسے مٹوا کر کچھ اور لکھوانا چاہا تو اس بات کو پسند نہ کیا کہ ربوہ (کے لفظ کو )مٹایا جائے۔ جب ابا جان پر دل کاپہلا حملہ ہوا تو آپ نے کلینک ختم کروا کر نیچے دکانیں اور اوپر گھر تعمیر کروانا شروع کر دیا اور پھر فوراً ہی اس گھر کو امی جان کے نام کر دیا۔ امی جان اس بات پر خوش نہیں تھیں۔ اس پر محترمہ خالہ جی صدر لجنہ سرگودھا کو بلوایا اور کہنے لگے کہ والدہ اختر کو سمجھائیں۔ میرے بعد اگر انہیں کسی نے نہ پوچھا تو یہ میرے بچوں کو لے کر باعزت بیٹھی رہیں گی۔ پھر وصیت کی کہ جیسے حضرت مسیح موعود ؑ کشتی نوح میں فرماتے ہیں :۔ ـ (1)ـ’’جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ ‘‘ اسی طرح وہ میری اولاد میں سے نہیں ہے۔ (2) ’’جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہےــ‘‘ اسی طرح وہ میری اولاد میں سے نہیں ہے۔ پھر اس وصیت پر حضرت مرزا عبد الحق صاحب اور ڈاکٹر حافظ مسعود صاحب کے دستخط کروائے اور بڑا سا فریم کروا کر اپنے کمرے میں رکھ دیا تاکہ ہر ایک پر وصیت واضح ہو جائے۔ 24 اگست1968ء کا دن عجیب دن تھا۔ میری باجی نے بتایا اُس دن رات کا کھانا کسی نے نہ کھایا۔ ہم بچے اوپر چھت پر سونے چلے گئے اور باجی معمول کے مطابق جب دعا پڑھنے ابا جان کے کمرے میں گئیں تو اُنہیں تکلیف میں دیکھ کر چھت پر آئیں اور حافظ مسعود صاحب کو آوازیں دینے لگیں۔ چچا جان!چچا جان! جلدی آئیں میرے ابا جان کو کچھ ہو گیا ہے۔ میں اور میرا بھائی ان چیخوں کو سن کر اُٹھ گئے اور رونے لگے اور جب تک ہم نیچے ابا جان کے کمرے تک پہنچے چچا جان بھی آگئے اور فوراً ہی اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور دیوار کی طرف منہ کر کے رونے لگے۔ وفات کے وقت میرے عظیم والد صاحب صرف چھپن( 56) سال کے تھے اور ہم گیارہ بہن بھائی (سات بھائی اور چار بہنیں ) کوئی شادی شدہ نہ تھا۔ میں اور میرا چھوٹا بھائی ابھی سکول بھی نہیں جاتے تھے مگر ہمارے خدا نے ہمیں بے آسرا نہ کیا۔ کسی کی محتاجی نہ دکھائی۔ پیارے اللہ نے سب کام خود کر دیئے اور سب بہن بھائی اپنے اپنے گھر مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ الحمد للہ۔خدا کے فضل سے آپ موصی تھے اس لئے بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ ابا جان جو احمدیت کی خاطر اکیلے نکلے تھے خدا نے اُنہیں اس طرح نوازا کہ مورٔخہ 2؍ نومبر 1990ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے تحریکِ جدید کے سالِ نَو کا اعلان کرتے ہوئے تحریکِ جدید کے ابتدائی واقفین اور میرے پیارے اباجان اورخاندان کا ذکر کچھ اس طرح فرمایا: ’’ آج یہ حسین اتفاق ہے کہ ہمارے امسال کے جمعے بھی ان ہی تاریخوں میں واقع ہو رہے ہیں جن تاریخوں میں 1934ء کے جمعے واقع ہوئے تھے۔ پس اگر وہ اعلان2 نومبر کو تھا تو آج 2 نومبر ہے اور2نومبر کو میں اس پہلی تحریک کی یاد جماعت کو دلانی چاہتا ہوں۔ کبھی کبھی پرانی تاریخ کو دہرا دینا چاہئے۔ تین دوستوں کا ذکر حضرت مصلح موعود ؓ نے خاص طور پر اپنے خطبے میں فرمایا جن کی قربانی سے حضرت مصلح موعود ؓ بہت متاثر تھے ۔ (1) ولی یار خان صاحب (2) عدالت خان صاحب (3) محمد رفیق صاحب عدالت خان صاحب کے متعلق حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے اس جذبے کو ہی قبول کرنا تھا کر لیا اور شاید اسی لئے ان کو یہ تحریک ہوئی کہ یہ اپنے ساتھ محمد رفیق کو لے جائیں۔ چنانچہ محمد رفیق صاحب کو موقع ملا اور وہ کاشغر پہنچ گئے۔ کاشغر جا کر اُنہوں نے تبلیغ کی اور اس کے نتیجہ میں حاجی جنود اللہ احمدی ہوئے اور پھر اُن کے بڑے بھائی اور والدہ بھی احمدی ہوئیں۔ وہ لوگ ہجرت کر کے قادیان آگئے۔ حاجی جنود اللہ صاحب کی ہمشیرہ ہمارے خاندان میں بیاہی گئیں۔ بھابھی فرخ ہم اُن کو کہا کرتے تھے۔ سیّد بشیر شاہ صاحب جو میرے خالہ زاد بھائی تھے۔ دواخانہ خدمت خلق کے ایک لمبا عرصہ کارکن انچارج رہے ہیں اُن کے ساتھ اُن کا رشتہ طے ہوا۔ بھابھی فرخ کی اولاد تو تقریباً کینیڈامیں ہے سوائے ایک بچی کے جو یمن میں بیاہی گئی اور ایک ابھی پاکستان میں ہے۔ لیکن حاجی جنود اللہ صاحب کی اولاد میں سے دو انگلستان کے ممبر رہے ہیں۔ ایک کینیڈا جا چکے ہیں اور ایک کی عنقریب شادی ہونے والی ہے۔ باقی بچے اُن کے کینیڈا میں ہیں۔‘‘ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1990ء میں میرے صرف ایک بھائی سیّد شعیب جنود جن کا حضور نے ذکر کیا اور بڑی بہن سیّدہ مسرت نصیر کینیڈا میں تھے مگر پیارے خدا نے حضور کے الفاظ کو اس طرح پورا کیا کہ بعد میں میرے بڑے بھائی سیّد جنود احمدضیاء، بہن سیّدہ رفعت احمداور حضور پُرنور کے ارشاد پر خاکسارہ خود بھی کینیڈا آگئی۔ اور یوں ہم پانچ بہن بھائی اوربچوں کو ملاکرہمارے خاندان کے چھیالیس(46) افراد یہاں کینیڈا میں ہیں۔ الحمد للہ۔ حضورنے مزید فرمایا: ’’اس طرح یہ خاندان بھی خدا کے فضل سے دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گیا۔ ایک بچہ جاپان میں ہے۔ ( سیّد طاہر جنود) اور یہ جو مختلف جگہ ان کے بوٹے لگے ہیں اس کا خدا تعالیٰ کے فضل سے سہرا عدالت خان صاحب کے سر جاتا ہے جن کی دعائوں اور اخلاص کے نتیجہ میں یہ خاندان احمدی ہوا ‘‘۔ الحمد للہ دو بھائی آسٹریلیا میں ہیں، ایک جاپان میں، ایک بہن اور بھائی لندن میں اور پانچ بہن بھائی کینیڈا میں، جبکہ ماشاء اللہ 37پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں اور 36اُن کے آگے بچے ہیں۔ یوں خدا نے میرے ابّاجان کی قربانیوں کو قبول فرمایا اور ان کی اولاد کو بہت بڑھایا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ابا جان کی اولاد کو حقیقت میں جنود اللہ یعنی اللہ کا لشکر بنادے اور ہمیشہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو احمدیت اور خلافت سے صدق و وفا کے سا تھ وابستہ رکھے۔ آمین ثم آمین۔ ٭…٭…٭