( ازکتاب ’ الہام،عقل،علم اور سچّائی‘ مصنّفہ :حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ) فرد اور معاشرہ آزادی ہر ذی روح کا بنیادی حق ہے۔ چنانچہ انسان بھی اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں ۔ آزادی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ انسانیت آزادی سے عبارت ہے۔ آزادی انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ اس کا تانا بانا آزادی ہی سے بُنا ہوا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود انسان کے تمام خود ساختہ ادارے آزادی ہی کے خلاف مصروفِ عمل نظر آتے ہیں ۔ روایت،رواج اور قانون کی عہد بعہد ترقی کا بغور مطالعہ اس دعویٰ کی تصدیق کے لئے کافی ثابت ہوگا۔ ریاست کے ارتقا کا اگر غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا جائے تو غلامی کی طرف یہ ایک منظم اور مرحلہ وار سفر دکھائی دیتا ہے۔ اس گُتھی کو سلجھانے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آزادی سے غلامی کی جانب اس تدریجی سفر کے اسباب کا تعیّن کر لیاجائے۔ سب سے پہلے یہ امر ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ انسان طبعاً اپنے ذاتی فائدہ کی خاطر ہی معاشرہ کی حاکمیت تسلیم کرتاہے۔ بصورت دیگر اسے جبر سے ہی اطاعت پر مجبور کیا جاسکتاہے۔ لیکن گروہی زندگی صرف انسان ہی سے مخصوص نہیں ہے۔ اگر عالم حیوانات کا نچلی سطح سے اُوپر کی سطح تک بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آغاز میں تو ایک گونہ ابتری کی کیفیت موجود ہے لیکن جوں جوں حیات کی اعلیٰ سطح کی طرف سفر کریں تو بتدریج ہمیں زیادہ منظم، مرتّب اور مرکزیت کی طرف مائل نظامِ حیات سے واسطہ پڑتا ہے۔ کبھی کبھی یہ رجحان بھی ہمارے مشاہدہ میں آتا ہے جیسے کچھ جانوروں نے ضرورت کے تحت بقائے باہمی کی خاطر اکٹھا رہنا سیکھ لیا ہو۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جاندار مخلوق کی ایسی انواع بھی ہیں جن کا ارتقائی لحاظ سے تو مرتبہ اتنا بلند نہیں لیکن ان کی جبلّت اور سرشت میں معاشرتی رکھ رکھاؤ اور نظم وضبط کا ایک عمدہ نمونہ پایا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کے اتنے منظم اور منضبط معاشرہ میں کسی تدریجی ارتقاکے آثار نظر نہیں آتے بلکہ یوں لگتا ہے جیسے یہ معاشرہ اپنی آخری مکمل شکل میں اچانک معرض وجود میں آ گیا ہو۔ ایسی مربوط اور مرتّب طرزِ حیات سے زیادہ سے زیادہ یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نظم و ضبط کایہ ملکہ انہیں فطرتاً ودیعت کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ حشرات الارض ہی کو لیں ۔ آپ شہد کی مکھی کے معاشرتی نظام کو ارتقا کی کس منزل پر رکھیں گے؟ اگر شہد کی مکھی نے اپنی ارتقائی منازل مرحلہ وار تدریجاً طے کی ہیں تو اس سے پہلے اس کی کیا شکل تھی اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حشرات الارض کا ایک ایسا سلسلہ بھی موجود تھا جو درجہ بدرجہ ترقی کر تا ہوا بالآخر شہد کی مکھی کی تخلیق پر منتج ہوا؟ اسی طرح دیمک اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کا مطالعہ کرتے وقت بھی ہمیں ایسی ہی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ یہاں بھی کسی تدریجی ارتقاکے آثار نظر نہیں آتے۔ یہ مخلوق ابتداء ہی سے ایک طے شدہ اور معین نظام کے تحت اپنے مخصوص وظائف پوری تندہی سے بجالارہی ہے جو اُن کے RNA اور DNA پر اس طرح نقش ہے کہ وہ اس سے سرمُوبھی انحراف نہیں کر سکتے یہاں تک کہ انتہائی منضبط اور منظم اشتراکی معاشرے بھی ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ ایسی استثنائی اور منظم تخلیق کے عجائبات ہیں جن کے بارہ میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے جن سے ثابت ہوسکے کہ انہوں نے کسی ابتدائی شکل سے رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے ایک انتہائی منظم معاشرہ کی صورت اختیار کر لی ہو۔ لہٰذا تخلیق حیات کا دو طرح سے مطالعہ کرنا ہو گا۔ اوّل یہ کہ حیات خداتعالیٰ کے تخلیقی ارادہ سے یکدم عدم سے وجودمیں آگئی۔ ہوسکتا ہے کہ سائنسدان اسے بیک وقت ہونے والے بہت سے جینیاتی تحوّلات کا نتیجہ قرار دیں ۔ لیکن یہ مفروضہ سائنسی لحاظ سے قابل اعتنا نہیں ہے۔ عالم حیوانات کی اجتماعی ترقی کی دوسری قسم عمومی ہونے کے ساتھ ساتھ ارتقائی بھی ہے۔ اگرچہ اس کے نتائج اوپر بیان کردہ مثالوں کی طرح اتنے ڈرامائی نہیں ۔ کتوں ، بھیڑیوں اور چکاروں میں بھی اجتماعی بقا کی خاطر مل جل کر رہنے کا مثبت رجحان پایا جاتا ہے۔ وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں ، یہی میلان پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اسی طرح مچھلیوں ، کچھووں اور بحری خارپشت میں بھی ایسی ہی خصوصیات دیکھنے میں آتی ہیں ۔ پس اجتماعیت زندگی کا خاصہ ہے۔ نظم و ضبط کے نتیجہ میں ہی حاکمیت کا تصور جنم لیتا ہے،قیادت ابھر کرسامنے آتی ہے اور معاشرہ کی ہر سطح پر جرم و سزا کے قانون کا دھندلا سا خاکہ اُبھر نے لگتا ہے۔ لہٰذا انسان کا معاشرتی حیوان کی حیثیت سے ارتقا کوئی منفرد اور اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ کم و بیش اکثر جانوروں کی طرح پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے عین مطابق معرضِ وجود میں آیا ہے۔ یہ سوال کہ دنیا بھر میں معاشرتی زندگی کا ایک ہی وقت میں ارتقا کیسے ممکن ہوا، ایک لمبی بحث کا متقاضی ہے۔ ہم یہاں انسانی معاشرہ کے ارتقا کے بعض ان پہلوؤں کا ذکر کریں گے جن کا ہمارے موضوع سے براہ راست تعلق ہے۔ شخصی آزادی فی ذاتہٖ ہمیشہ سے معاشرتی پابندیوں سے بر سرِ پیکار رہی ہے۔ ان قوّتوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے اس کشمکش کا گہرا ادراک ضروری ہے جو بالآخر شخصی آزادی اور معاشرہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مابین حدود کا تعین کرتی ہیں ۔ مثال کے طور پر فرد سے خاندان، فرد سے قبیلے اور فرد سے ریاست کے تعلقات اس بات پر گواہ ہیں کہ زندگی کو اس کی منظم معاشرتی شکل ہی میں زیر غور لایا جاسکتا ہے۔ اگر انسان فطرتاً آزاد اور آزادی پسند ہے تو پہلے اس بنیادی سوال کا جواب دینا ہو گا کہ آخر معاشرہ کی حاکمیت کے سامنے کیوں سر تسلیم خم کیا جائے؟ جب بھی کوئی سماجی، نسلی، اقتصادی یا سیاسی نظام اپنی ارتقائی منازل طے کرتا ہے تو یہ عمل ہمیشہ سوسائٹی اور ان افراد کے ما بین جن سے یہ سوسائٹی تشکیل پاتی ہے ’کچھ لو کچھ دو‘ کے ایک ایسے سمجھوتہ کا مرہون منت ہوا کرتا ہے جو تحریری شکل میں موجود نہیں ہوتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کوئی فرد بھی اس وقت تک اپنی آزادی سے رضا کارانہ طور پر دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوتا جب تک اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ اس سودے میں نقصان کی نسبت فائدہ زیادہ ہے۔ بنیادی طورپر وہ اپنے تحفّظ کی خاطر اپنی شخصی آزادی کا سودا کرتا ہے۔ ایک طرف تو وہ اپنے کچھ حقوق سے اس نظام کی خاطر دستبردار ہوجاتا ہے جس کا وہ رکن بنتا ہے۔ دوسری طرف اسے اپنے تحفّظ اور آسان تر زندگی کی ضمانت مل جاتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب معاشرہ کی تشکیل کا عمل شروع ہوتا ہے تو ہر سطح پر افراد ہی زیادہ تر فائدہ میں رہتے ہیں ۔ اسی طرح حیوانات میں بھی یہ اصول کارفرمانظر آتا ہے جس طرح انسانی معاشرہ کی ابتدائی سطح پر۔ البتہ انسانی معاشرہ جوں جوں زیادہ منظم ہونے لگتاہے فرداور معاشرہ کے مابین طاقت کا توازن بھی بگڑنے لگتا ہے۔ عوام اور ان پر حکومت کرنے والے چند افراد کا باہمی تناسب جوں جوں بڑھنے لگتا ہے معدودے چند اربابِ اختیار کے ہاتھوں استحصال اور طاقت کے غلط استعمال کا خطرہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگرچہ اصولاً یہ تو ممکن ہے کہ فرد اپنی آزادی کے عوض کچھ نہ کچھ فائدہ بھی حاصل کرے لیکن عملاً اس کی یہ توقع پوری نہیں ہوتی۔ شخصی آزادی کا بنیادی اصول بتدریج معاشرہ کے مفاد پر قربان کر دیا جاتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معاشرہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول جہاں ایک طرف تحکّمانہ ہوتا چلا جاتا ہے وہاں فرد کے حقوق بھی سلب ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اس مضمون پر جامع بحث آگے آئے گی جب ہم مارکس کے نظریہ پر گفتگو کریں گے۔ یہاں صرف اس انحطاط کی بنیادی وجہ تلاش کرنا مقصود ہے کہ ایک نسبتاً ترقی یافتہ اور منظم معاشرہ میں فرد اپنے آپ کو محفوظ و مامون کیوں نہیں سمجھتا؟ جانوروں کے معاشرتی رویّہ میں تو ہمیں کہیں بھی ایسا منفی اور بیمار رجحان نظر نہیں آتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انسانی معاشرہ ہی فرد کے حقوق اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں قاصر رہتا ہے؟ بنی نو ع انسان اور حیوانات میں ایک حدّ فاصل اور واضح مابہ الامتیاز تو بہرحال موجود ہے یعنی یہ کہ حضرت انسان ہی ہے جس میں دھوکہ دہی اور قوانین قدرت کو تہ وبالا کرنے کا خوفناک رجحان پایا جاتا ہے۔ اس معاملہ میں انسان باقی تمام جانوروں کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ بے شک بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے جانور بھی دھوکہ دہی کے مرتکب ہورہے ہوں لیکن دراصل یہ مجرمانہ دھوکہ دہی نہیں بلکہ ایک قسم کی حکمت عملی ہوا کرتی ہے۔ جانوروں کے ہاں انسانوں کی مانند دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا تصور نہیں ملتا۔ وہ قوانین قدرت کے مطابق اور ان کی حدود میں رہتے ہوئے ایک منظم اور طبعی زندگی گزارتے ہیں ۔ اگر کبھی وہ دھوکہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو جینیاتی قوانین کے تحت ہی ایسا کرتے ہیں ۔ اور یہ چیز جرم کی تعریف میں نہیں آتی۔ جرم کا شعور تو بالواسطہ نتیجہ ہے ارادہ کی آزادی اور خودمختاری کا۔ جانور تو مکمل طور پر فطرت کے تابع ہوتے ہیں ۔ نہ تو وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکتے ہیں اور نہ ہی اچھائی اور برائی ان کے لئے کوئی معنی رکھتی ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے دیدہ دانستہ پہلو تہی کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ دوسروں کے حقوق غصب کرنے میں بھی کوئی عارنہیں سمجھتا۔ کسی نظام کے جزو کے طور پر انسان پر جو اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کے پس منظر میں انسان کی شخصی آزادی اس لئے بری طرح مجروح ہو کر رہ جاتی ہے کہ انسان کے اندر فطری طور پر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ بسا اوقات دھوکہ دہی کا مرتکب ہو اور عمداً غلط رستہ اختیار کرے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی رکھے کہ وہ اپنی غلط کاریوں کے باوجود بچ کر نکل جائے گا۔ کارل مارکس کا مقولہ ہے کہ ’’انسان ایک بد دیانت مخلوق ہے‘‘۔ بالکل بجا، لیکن اس صورت میں کیا وہ خود بھی بد دیانت قرار نہیں پائے گا اور کیا وہ سوشلسٹ قیادت کو جس کی بنیادیں ہی بددیانتی پر استوار ہیں اس تعریف سے مستثنیٰ قرار دے سکے گا؟ انسانی معاشرہ کا ہر دَور میں یہی المیہ رہا ہے اور کوئی بھی نظام اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ فرد اور معاشرہ کے تعلق میں پائی جانے والی یہ خرابی ہی بڑھتی ہوئی قانون سازی کے رجحان کو جنم دیتی ہے۔ بظاہر ہر نئے قانون کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف فرد کے حقوق کی حفاظت کی جائے تو دوسری طرف معاشرہ کے حقوق کوتحفّظ دیا جائے تا کہ وہ ناجائز طور پر ایک دوسرے کے حقوق میں دخل اندازی نہ کر سکیں ۔ لیکن بد قسمتی سے قانون ساز ادارے کامل انصاف کی فراہمی میں اس وجہ سے نا کام رہتے ہیں کہ انسان کی اپنی بدعنوانی آڑے آ جاتی ہے۔ اکثر ہوتا یہ ہے کہ قانون سازی کے اس اجتماعی عمل کے دوران فردکے حقوق کی حفاظت کے لئے وضع کئے گئے قوانین کے ذریعہ ہی فرد کو اس کے حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ سر دست ہم مذہبی معاشروں کے بارہ میں کسی لمبی چوڑی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے لیکن معاشرتی فلسفہ کے سیکولر نقطۂ نگاہ سے کسی حد تک مذہب کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ماہرین عمرانیات مِن حیثُ الجماعت تسلیم نہیں کرتے کہ مذہب خداتعالیٰ کی قائم کردہ ایک حقیقت ہے۔ ان کے نزدیک مذہب بھی دراصل انسان کے معاشرتی عمل کا ایک گُونہ اظہار ہے۔ اگربفرضِمحال مذہب کے ارتقا سے متعلق ان کا نظریہ درست تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس صورت میں تمام مذہبی معاشروں کو انسان کے معاشرتی طبقات میں ایک انوکھی حیثیت حاصل ہو جانی چاہئے۔ بالفاظِ دیگر مذہب، معاشرہ اور فردکے خلاف ایک مجسّم فریب کی علامت بن کر رہ جاتا ہے۔ بظاہر اس سے وہ ثابت یہ کرنا چاہیں گے کہ تمام بانیان مذاہب (نعوذباللہ من ذالک) پرلے درجہ کے مکّار تھے جو خود تراشیدہ خداؤں کے نام پر جان بوجھ کر عوام الناس کو دھوکہ دیتے رہے۔ کیا کہنے اس منطق کے! یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بانیان مذاہب قوانین خود بناتے ہیں اور نام خداتعالیٰ کا لیتے ہیں تاکہ بقول ان کے سادہ لوح عوام کو نام نہاد شرعی قوانین کی زنجیروں میں جکڑا جا سکے اور اس طرح یہ دھوکہ باز گروہ (نقل کفر، کفر نہ باشد) خداتعالیٰ کے نام پر اپنے مفاد ات کے لئے حکومت کرتا رہے۔ مذہبی معاشرہ کے بارہ میں یہ تصور توماہرین عمرانیات کا ہوا۔ کارل مارکس بھی مذہب کے اس تصور سے پوری طرح متفق دکھائی دیتاہے۔ اس کے نزدیک مذہب محنت کش طبقہ کو ہمیشہ حال مست رکھنے کا ایک نشہ ہے تا کہ متوسّط طبقہ کے ہاتھوں اسے اپنے بے رحم استحصال کا شعور ہی پیدا نہ ہو سکے۔ اس کے نزدیک یہ طاقتور نشہ جو محنت کش طبقہ کو مدہوش رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اُس ضابطۂ اخلاق پر مشتمل ہے جسے جملہ مذاہب عالم کی تائید حاصل ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہمیشہ سے اخلاقیات کا اللہ تعالیٰ کے تصور کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اس حوالہ سے اخلاقیات انسانی کردار کی تہذیب و تشکیل کا باعث بنتی ہے۔ (باقی آئندہ)