(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئےحضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات،گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) مکر م غانم الاثوری صاحب (2) قسط گزشتہ میں ہم نے مکرم غانم الاثوری صاحب کے احمدیت کی طرف سفرکا ایک حصہ پیش کیا تھا، اس قسط میں ان کے اس سفر کے باقی واقعات پیش کئے جائیں گے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ: ازالۂ مخاوف اور بیعت میں مختلف نشانات اوردلائل کی بناء پر احمدیت کی صداقت کے بارہ میں مطمئن ہو چکا تھاچنانچہ بیعت کے لئے میں نے ایم ٹی اے کے نمبر پر فون کر کے کچھ سوال پوچھے اور بیعت کا طریق جاننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے بیعت کا طریقہ بتایاگیا۔ وفور شوق سے میرا دل بیعت کرنے کی طرف کھنچا چلا جارہا تھالیکن بعض انتہائی فوری نوعیت کے ضروری امور کی انجام دہی میں مصروف ہونے کی وجہ سے میں کچھ دن تک بیعت نہ کر سکا۔ بیعت سے ایک دن پہلے مجھے خیال آیا کہ احمدی ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ ہوگیا تو میری بیوی کا کیا بنے گا۔ مجھے جماعت کے خلاف لوگوں کے مظالم کا علم تھا کہ قبول احمدیت کے جرم میں بعض سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ اور ہمارے ملک یمن میں تکفیر، شدت پسندی ودہشتگردی کی ترویج کرنے والی جماعتوں کی کمی نہیں ہے۔بہر حال وہ رات میں نے بہت غم اور کرب میں بسر کی، تہجد کے لئے اٹھا اور اسی غم واندوہ کی حالت میں دعا کی۔ صبح میں حزن وملال کی تصویر بنا جائے نماز پر بیٹھا تھا کہ میرے دل میں بڑی شدت سے یہ خیال آیا کہ اٹھو اور دیکھوکہ اللہ تعالیٰ کیا کہتا ہے۔ میں نے یہ خیال آتے ہی قرآن کریم کھولاتو میرے سامنے سورہ طٰہٰ کی درج ذیل آیات آئیں : وَأَنَااخۡتَرۡتُکَ فَاسۡتَمِعۡ لِمَا یُوحٰی* إِنَّنِی أَنَا اللّٰہُ لَاإِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعۡبُدۡنِی وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ لِذِکۡرِی*… قَالَ لَاتَخَافَا إِنَّنِی مَعَکُمَا أَسۡمَعُ وَأَرٰی ۔ ترجمہ: اور میں نے تجھے چن لیا ہے۔ پس اُسے غور سے سُن جو وحی کیا جاتا ہے۔ یقینا میں ہی اللہ ہوں ۔ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ پس میری عبادت کر اور میرے ذکر کے لئے نماز کو قائم کر… اس نے کہا کہ تم ڈرو نہیں ۔ یقینا میں تم دونوں کے ساتھ ہوں ۔ سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں ۔ میں یہ آیات پڑھ کر زارو قطار رونے لگ گیا ۔کلام الہٰی پڑھ کر مجھے انشراح صدر نصیب ہوا اورہر قسم کا ہمّ وغم اطمینان وسکون اور خوشیوں میں بدل گیا، کیونکہ اس میں میرے لئے پیغام تھا کہ خدا کی خاطر بیعت کرو اور کسی قسم کا خوف کھانے کی ضرورت نہیں خدا تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ میں نے یہ پیغام سمجھنے کے بعد فورًا شکرانے کے نوافل ادا کئے ۔ اس وقت ایک غیر معمولی قوت مجھے بیعت کرنے پر آمادہ کررہی تھی۔چنانچہ میں نے دوسرے دن بیعت فارم پُر کرکے بھجوا دیا ، جس کاحضور انور کی طرف سے نہایت مشفقانہ اور دعاؤں بھرا جواب موصول ہوا اور عدن میں دیگر احمدیوں سے بھی میرا رابطہ ہوگیا۔ شیطان اور شہاب ثاقب بیعت کے چند ہفتوں کے بعد ایک دن میں انٹرنیٹ کیفے گیا۔ قبل اس کے کہ میں جماعتی ویب سائٹ کھولتا ایک احمدیت مخالف ویب سائٹ کھل گئی۔ یہ ویب امارات سے کسی ڈاکٹر کی تھی جو اس کے بقول ربوہ اور قادیان کا وزٹ بھی کرچکا تھا۔ میں پہلے بھی کئی احمدیت مخالف ویب سائٹس دیکھ چکا تھا لیکن کسی کا مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا تھا،اس طرح کے ہتھکنڈوں سے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت میں تو کبھی بھی شک وشبہ نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کی صداقت میرے دل میں اس قدر راسخ ہو چکی تھی کہ میں نے اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل کے بارہ میں سوچنا اور پڑھنا بھی چھوڑ دیا تھا کیونکہ میں نے جب سے آپ کو دیکھا اور آپ کے کلام اور قصائد کو سنا تھا اس لمحے سے آپ کی دل سے تصدیق کی تھی۔تاہم اس نئی ویب سائٹ والے ڈاکٹر نے غیر مبائعین اور جماعتی اختلافات کو کچھ اس طرح نمایاں کر کے پیش کیاکہ اس نے میرے دل پرگہرا اثر کیا۔چنانچہ میں اس روز بڑا کبیدہ خاطر ہو کر گھر لَوٹا، بیوی سے بھی کوئی بات نہ کی، اسی انقباض کی حالت میں رات بسر کی، تہجد کے لئے اٹھا، لیکن اس رات میں توجہ سے دعا بھی نہ کرپایا۔ اسی کرب اور انتشار کی حالت میں جائے نماز پر بیٹھا تھا کہ کسی مسجد سے سورۃ العلق کی تلاوت کی آواز آئی اوراس کی یہ آیات بطور خاص میری توجہ کا مرکز بنیں : {أَرَأَیۡتَ الَّذِی یَنۡہیٰ * عَبۡدًا إِذَا صَلّیٰ} یعنی کیا تو نے اس شخص کو دیکھا ہے جو خدا کے بندے کو اس کی عبادت سے روکتا ہے ۔پھرجب قاری اس آیت پر پہنچا {أَلَمۡ یَعۡلَمۡ بِأَنَّ اللّٰہَ یَرٰی* کَلَّا لَئِنۡ لَمۡ یَنۡتَہِ لَنَسۡفَعًا بِالنَّاصِیَۃِ} تو میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے میری نصرت کے لئے یہ شہاب بھیج کر شیطان اور اس کے شیطانی وساوس کوبھسم کر دیا تھا۔ گویا اللہ تعالیٰ مجھے تسلی دے رہا تھا کہ ایسے شیطان صفت انسان لوگوں کو عبادت سے روکتے ہیں لیکن کیا انہیں احساس نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے۔ اور اگر یہ باز نہ آیا تو ہم اسے سخت سزا دیں گے۔ ان آیات کو سن کرمیری پریشانی جاتی رہی اور خدا کی رحمت وعظمت اور رأفت و عنایت کو دیکھ کر دل سجدہ ریز ہوتا جارہا تھا۔ چنانچہ میں اٹھا اور دو رکعت نماز بطور شکرانہ ادا کی۔ بیعت کی برکات اور تبلیغ بیعت کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سی برکات نازل ہوئیں ۔ میں نے غیرمتوقع طور پر جلد ہی اپنا گھر بنا لیا اور اس میں رہائش پذیر ہوگیا۔ میں نے تبلیغ کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایم ٹی اے کی فریکوئینسی اور ویب سائٹ کا ایڈریس ہاتھ سے لکھ لکھ کر لوگوں میں تقسیم کیا کرتا تھا۔ازاں بعد میں نے سیکنڈ ہینڈ لیپ ٹاپ اور پرنٹر خرید لیا اور مذکورہ بالا دونوں چیزیں پرنٹ کرکے تقسیم کرنے لگا۔ بعض متشددنوجوانوں نے مجھے دیکھا تو سخت مخالفت اور دھمکیاں دینے لگ گئے لیکن میں نے کوئی پرواہ نہ کی۔ مخالفین او ران کاانجام ایک دفعہ 2010ء کے رمضان میں میرا ہمسایہ اور اس کے چند دوست اصرار کر کے مجھے جامعۃ الایمان کے شیخ سے بات کرنے کے لئے لے گئے۔ وہاں ایک اور مولوی بھی آگیا۔ میں نے پہلے حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کے دلائل پڑھ کر سنائے لیکن وہ نہ مانے۔ پھرمیں نے قتلِ مرتد، جہاداور وفاتِ مسیح کے موضوعات پر بات کی۔ میں قرآن وحدیث سے دلائل پیش کرتارہاجبکہ وہ بغیر دلیل کے اپنے عقائد پر اصرار کرتے رہے۔ بڑا شیخ تو کچھ احترام سے پیش آیا لیکن دوسرا مولوی بہت بدزبانی کرتا تھا اور اس نے جوش میں آکر مباہلے کا چیلنج دیدیا۔ میں نے کہا کہ مباہلہ تو امام سے ہوتا ہے، لیکن وہ بار بار اصرار کررہا تھا اور میرا کوئی جواب نہ دینا یہ تاثر دیتا تھا جیسے مجھے صداقتِ مسیح موعودؑ پر یقین نہیں جبکہ یہ بات میرے لئے ہرگز قابل برداشت نہ تھی۔اس وقت مجھے جماعتی پالیسی کا علم نہ تھا اور جماعت سے رابطہ کر کے راہنمائی لینے کا وقت نہ تھا اس لئے اس کے بار بار مباہلہ مباہلہ کہنے پر میں نے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے دیکھ لیں گے۔اور اسی پر بات ختم ہوگئی۔وہ مجھے کار میں واپس تو چھوڑنے کے لئے آئے لیکن راستے میں ڈراتے دھمکاتے رہے اور گالیاں دیتے اور تبلیغ سے روکتے رہے۔ 27 یا 28 رمضان کو میں باہر نکلا تو ایک لڑکے نے مجھے بتایا کہ چچا یہ لوگ آپ کے خلاف منصوبہ تیار کر رہے ہیں ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ان میں سے بعض نے آکر مجھے مارنے کی دھمکی دی اور حضرت مسیح موعودؑ کی شان میں گستاخی کی۔ اس روز میں گھر لوٹا تو میرا دل زخم زخم تھا۔ میں نے دو رکعت نماز ادا کی اور دعا کی کہ یااللہ!تو ان کی نسبت اپنی قدرت دِکھا۔ چنانچہ ایک دو دن بعد ہی ان مخالفین کی آپس میں لڑائی ہوگئی اورانہوں نے ایک دوسرے کے خلاف خنجر نکال لیے۔ ان کی لڑائی کے دوران ایک بچے کے منہ پر خنجر لگ گیا۔پھر اس واقعہ کے ایک ماہ بعد ہی یہ لوگ کہیں چلے گئے اور اس کے بعد اب تک نظر نہیں آئے۔ اب جامعۃ الایمان کے مولوی باقی تھے۔اس جامعہ کا مالک یمن کا بڑا شیخ عبدالمجید الزندانی ہے۔ اس جامعہ پر حوثی باغیوں کا قبضہ ہو گیا او رمذکورہ شیخ بھاگ کر سعودیہ چلا گیا۔عربی اتحاد نے حوثی باغیوں کے خلاف اس جامعہ پر بمباری کی جس سے یہ جامعہ ملبہ کا ڈھیر بن گیا ۔ دوسرے لوگوں کی طرف سے مخالفت جاری رہی۔ بعض مخالف نوجوان حزب الاصلاح گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جوقبائل، باغی فوجیوں اور اخوان المسلمین کا مجموعہ ہے۔ یہ کبھی مجھ سے پمفلٹ لے کر پھاڑ دیتے ہیں ، کبھی رستہ روکتے ہیں ۔ جب شیعہ عسکری گروپ صنعاء شہر میں آئے تو انہوں نے دو دفعہ مجھے قید کرنا چاہا، لیکن اللہ کے فضل سے میں بچ گیا۔ جنگ کی وجہ سے پمفلٹ وغیرہ کی تقسیم کا سلسلہ بند ہوگیا تو میں نے انٹرنیٹ پر تبلیغ شروع کردی۔ ایک نہیں تین! میں اپنے علاقے میں اکیلا احمدی تھا۔ اس لیے جمعہ نہیں پڑھ سکتا تھا جس کا مجھے بہت رنج تھا۔ لوگ بھی تنقید کرتے تھے کہ جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا حالانکہ مسجد میرے گھر کے قریب ہی ہے۔میں نے لوگوں کو بہت تبلیغ کی لیکن لوگ مولوی کی بات کو زیادہ اہمیت دیتے اور حق بات کو سمجھنے کے قریب نہ پھٹکتے تھے۔ میں نے بہت دعائیں کیں کہ اللہ میرے علاقے میں بھی جماعت قائم کردے۔ تقریباً ساڑھے تین سال قبل قریبی محلے میں ایک دوست مکرم حمید حمود صاحب نے بیعت کرلی، لیکن ہمارے پاس نماز پڑھنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کی بیعت کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد میں نے گھر میں نماز کے لئے جگہ تیار کر کے جمعہ کے دن حمید صاحب کو فون کیا لیکن وہ بوجوہ نہ آسکے۔ دوسرے ہفتے بھی یہی ہوا۔ تیسرے ہفتے جب میں نے فون کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ایک بس پر کام کرتا ہے اس لئے نہیں آسکتا۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں لَاحَوْل اور حَسْبُنَا اللّٰہ پڑھنے لگا۔ پندرہ منٹ بعد خود حمید صاحب نے فون کیا اور بڑی خوشی سے بتایا کہ اللہ نے تمہاری دعا سن لی ہے۔ تم جمعہ کے لئے ایک آدمی کو بلا رہے تھے لیکن ہم تین آدمی آرہے ہیں ۔ دوسرے دو آدمی مکرم احمد یحییٰ متوکل صاحب اور مکرم قاسم المدومی صاحب تھے جواسی وقت حمید صاحب کو اسی بس میں ملے تھے جس میں وہ سوار تھے۔ان دونوں نے چند ماہ پہلے بیعت کی تھی۔ان سے تعارف کی تقریب یوں ہوئی کہ دوران سفر حمید صاحب ان سے گفتگو کرنے لگے اور اثنائے کلام کہا کہ کسی مذہب پر لعنت کرنا جائز نہیں خواہ وہ یہود ونصارٰی ہی کیوں نہ ہوں ۔یہ سنتے ہی ان دونوں نے پوچھا:تم کس جماعت سے تعلق رکھتے ہو؟حمید صاحب نے کہا :میں امام مہدی ؑ کی جماعت سے تعلق رکھتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ کیا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی جماعت سے؟ حمید صاحب نے کہا: ہاں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی احمدی ہیں ۔چنانچہ وہ گلے ملے اور فورًا نماز جمعہ پڑھنے کے لئے میرے گھر آگئے۔ حَبِیْبِی حَبِیْبِی میرا بھانجا جس نے مجھے ایم ٹی اے کے بارہ میں بتایا تھا اس کا بیٹا ابھی پیدا ہونے والا تھا کہ میں اس کے لئے دعا کیا کرتا تھا۔اس کا اثر یوں ظاہر ہوا کہ اب وہ تقریباً دو سال کا ہے اور حضور کو ٹی وی پر دیکھتا ہے تو بہت خوش ہوتا ہے اور حضور انور کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے: حَبِیْبِی حَبِیْبِی۔ اللہ اسے سچا،مخلص احمدی اور خلافت کا عاشق وخادم بنائے۔ اس بچے کی ماں بھی نیک ہے۔ اللہ اسے بھی ہدایت دے۔ بوجھ اتر گیا میرے پاس انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہ تھی اور انٹرنیٹ کیفے پر بیٹھ کر حضور انور کی خدمت میں خط لکھنے میں یکسوئی میسر نہ آتی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے گھر میں انٹرنیٹ لگوایاتو پہلا کام یہ کیا کہ حضور انور کی خدمت میں اپنی بیعت کے واقعہ پر مشتمل خط لکھا ۔اس خط کو ارسال کرنے پر ایسا محسوس ہوا جیسے ایک بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔جب اس خط کا حضور انور کی طرف سے نہایت مشفقانہ اور پیار و دعاؤں بھرا جواب موصول ہوا تو اسے پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی خادموں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ……………… (باقی آئندہ)