رسول اللہﷺ کا خاتم الانبیاء ہونا حضرت عیسیٰ ؑکی موت کو چاہتا ہے اور لَا نَبِیَّ میں نفی عام ہے پس خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا ناقابل تسلیم ہے ما سوا امّتی کے تبصرہ نگار کی پانچ اقساط کے ۲۵ صفحات کا اغلاط نامہ: اب آئیے! رسالہ الاعتصام میں موجود خود تبصرہ نگارکی اغلاط کی طرف تاکہ آئینہ میں وہ اپنی صورت تو دیکھ لیں۔ موصوف نے حوالوں کی خامیوں پر پہلا لغو اور فرضی اعتراض کتاب کے کسی معیّن صفحہ کے بغیربطور مثال یہ کیا کہ مثلاً مصنف نے مجمع الزوائد ۸؍۲۱۸لکھا تھا کمپوزر نے اپنے اجتہاد سے۸؍۸۱۲ کردیا۔ تو حیرا نی بجا ہوتی ہے کہ کتاب کے اس حصّے کی تو اتنی ضخامت ہی نہیں۔ الحمد للہ اسوۂ انسان کامل ؐمیں تو ایسا کوئی حوالہ موجودنہیں، البتہ’’الاعتصام‘‘ میں موصوف کے تبصرہ کی پانچ اقساط کے محض ۲۵ صفحات میں ایسی بے تحاشا فاش اغلاط موجودہیں۔ خود تبصرہ نگار نے قسط اوّل صفحہ ۲۵ کالم نمبر۱ میں اسوۂ انسان کامل ؐصفحہ ۶۱۰ پر ایک اعتراض کیاہے جو وہاں سِرے سے موجود ہی نہیں، یہاں آ کر محقق حیران ہی نہیں بلکہ پریشان ہوجاتا ہےکہ یہ کیا مذاق ہے؟پھر آخر کار صفحہ ۹۱ پر وہ اعتراض نکلا بھی تو کھودا پہاڑ والا معاملہ ! کہ’’ مفرد کا صیغہ رسول اللہﷺ کے لیے استعمال کیا‘‘ جو ایک اور کذب بیانی تھی۔ تبصرہ نگار نے لفظی تحریف کرتے ہوئے پہلے فقرہ کے شروع سے لفظ ’’رسول کریمؐ ‘‘ کاٹ کر پھر اعتراض کر دیا حالانکہ اصل فقرہ یوں تھا۔ ’’ رسول کریم ﷺ کی عبادت کا معراج حج بیت اللہ کے موقع پر بھی دیکھا گیا جب آپؐ اپنے ربّ کریم کے پاک گھر کا طواف کرتے تھے۔‘‘ اس سے اگلے حوالے میں بھی تحریف کرکےتبصرہ نگار نے صیغۂ مفرد کے استعمال کا غلط الزام لگایا۔ مکمل عبارت ملاحظہ ہو ’’ہمارے سیدو مولاؐ کے شہر (مکہ) میں داخل ہونے کا منظر بھی دیکھنے کے لائق تھا۔…جب محمد مصطفیٰ ﷺ کی شاہی سواری آئی … ربّ جلیل کا یہ پہلوان… اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھا … رسول خداؐ نےسفید جھنڈا لہرایا…مکہ میں داخلہ کے وقت رسول اللہ ﷺسورۃ فتح کی آیات تلاوت فرما رہے تھے‘‘(اسوۂ انسان کامل ؐصفحہ ۳۹۱۔۳۹۲) تبصرہ نگار نے صرف مذکورہ بالا دوحوالوں میں ہی نہیں اپنےسارے تبصرہ میں مسلسل یہودیانہ تحریف سے کام لیا ہے۔ وہ اعتراض تو یہ کرتے ہیں کہ احمدی رسول یا نبی کی بجائے ’’انسان کامل‘‘ لکھتے ہیں۔مگر وطیرہ یہ ہے کہ مصنف نے جہاں رسول یا نبی لکھا پہلے اسے موصوف نے حذف کیا پھر اعتراض کر دیا۔ ملاحظہ ہو اسوۂ انسان کامل ؐصفحہ ۵۴۲:’’شعب ابی طالب سے باہر آئے تو اہل مکہ سے مایوس ہو کر طائف کا رخ کیا اس سفر میں بھی دنیا نے آپؐ کے عجیب شان توکل کا نظارہ دیکھا، خدا کا نبی تن و تنہا کس مردانگی اورشجاعت سے ایک اجنبی بستی میں جاکر سرداران طائف کو مخاطب کرتااور بےدھڑک خدا کا پیغام دیتا ہے، نہ اپنی جان کا خوف ہے نہ کسی اور خطرے کی پرواہ۔ بس ایک ہی لو لگی ہے کہ کسی طرح حق تبلیغ ادا ہوجائے۔بھروسہ ہےتو ایک اللہ کی ذات پر۔‘‘ (صفحہ ۵۴۲ ) یہاں تبصرہ نگارالفاظ ’’خدا کا نبی ‘‘ حذف کرکے تحریف وتوہین کے مرتکب ہوئے۔ قسط نمبر۴ صفحہ ۱۴ کالم ۱میں تبصرہ نگارنے فاش اغلاط کے زیر عنوان اسوۂ انسان کامل ؐصفحہ ۵۵۲ کا حوالہ دیا ہے جو اس صفحہ کتاب پر موجود ہی نہیں اورجو خودتبصرہ نگار کے معیار کے مطابق کذب بیانی ہے۔ پھر جب یہ حوالہ بعد تلاش بسیار ملا تو پتا چلا کہ لفظ ’’حلم‘‘ اور’’حمد‘‘ کے سہوکاتب کی تصحیح کےعلاوہ حضرت زیدؓ اور ام ایمنؓ کی شادی کے زمانہ اورچھوٹی بیٹی ام کلثومؓ کی وفات کا ذکرہے اورحضرت عائشہؓ کے گیارہ عورتوں کی کہانی سنانے کی درستی جو اگلے ایڈیشن میں ہوچکی ہے۔ موصوف کی نکتہ چینی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے زیرنظر دس سالہ پرانا ایڈیشن ہے۔ الاعتصام میں دیگر فاش اغلاط: تبصرہ کی قسط نمبر ۵ صفحہ۱۰ پرموصوف نے اسوۂ انسان کاملؐ کے صفحہ ۳۸۴ کا حوالہ دیا ہے جو متعلّقہ صفحہ پر موجود نہیں۔ یہ ایک اورکذب بیانی ہوئی۔’’ماہر اہلحدیث‘‘ شمار فرماتے جائیے! اسی صفحہ پر ایک اور اعتراض حوالہ خطبات محمود جلد۸ صفحہ ۴۵۱، ۸۵۰پر کیا گیاہے۔ موصوف نے اپنی عجلت میں سات سو صفحات کی کتاب ’’اسوۂ انسان کاملؐ ‘‘ پرجب تنقید شروع کی تو بطورطنز لکھا تھا کہ ’’حوالہ میں ایسا صفحہ نمبر کہ کتاب کی اتنی ضخامت ہی نہ ہو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے ‘‘اب خود موصوف نے خطبات محمودکا صفحہ ۸؍۸۵۰ دیا جوضخامت کتاب سے ہی باہر ہے۔ کیونکہ خطبات محمود جلد ۸ کےصرف۵۶۰صفحات ہیں اور حوالہ دیاصفحہ ۸۵۰ کا۔الامان والحفیظ مزیدفاش اغلاط: اب آئیے!تبصرہ نگار کی مزید فاش اغلاط کی طرف۔تبصرہ کی قسط ۴ میں اسوۂ انسان کاملؐ کے صفحہ ۱۴۸ کے حوالے سے موصوف نے جس فاش غلطی کی نشاندہی کی تھی وہ دراصل خود ان کی اپنی فاش غلطی نکلی۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ابو جہل کے چچا عیاش بن ابی ربیعہ کوابوجہل کا بھائی لکھا ہے۔ حالانکہ امر واقعہ یہی ہے کہ عیاش ابوجہل کے چچا نہیں بھائی ہی تھے جس کی تائید وتوثیق طبقات ابن سعد جلد ۴ صفحہ ۱۲۹ اور اسد الغابہ صفحہ ۸۸۴ اور استیعاب صفحہ ۳۸۱ سے ثابت ہے۔ ایک اورفاش غلطی تبصرہ نگار نے اسوۂ انسان کاملؐ سے یہ منسوب کی ہےکہ رسول کریمؐ کی ساری اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے ہے۔ ماسوا سہوکاتب یہ اعتراض بھی باطل ہےکیونکہ کتاب میں چار مقامات پر صاحبزادہ ابراہیم کی صراحت موجود ہے۔یہ چار گواہ پیش ہیں۔ (۱)صفحہ ۵ پرلکھا ہے کہ آنحضرتؐ کی ساری اولاد حضرت خدیجہؓ سے ہوئی سوائےصاحبزادہ ابراہیم کے جو حضرت ماریہؓ کے بطن سے تھے۔(۲)پھر صفحہ ۴۳۱ حضرت خدیجہؓ کی اولاد کی تفصیل کے ساتھ حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے صاحبزادہ ابراہیم ہوئے جو ۹ھ میں فوت ہوئے۔(۳)پھر کتاب کے صفحہ ۳۶۰ پر حضرت خدیجہؓ کی اولاد کے ساتھ حضرت ماریہ ؓکے بیٹے ابراہیم کی وفات کا ذکر ہے۔(۴)پھر صفحہ ۴۳۸ میں ہے کہ صاحبزادہ ابراہیم کی وفات کے ذکر میں رسول کریمؐ نے آیت خاتم النبیین کے نزول کے بعد فرمایا کہ’’اگر (صاحبزادہ)ابراہیم زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا‘‘(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الصلوٰۃ علیٰ ابن رسول ا ذکر وفاتہ) اس کے باوجود موصوف کا اعتراض برائے اعتراض کیاحقیقت رکھتا ہے۔ اسوۂ انسان کاملؐ میں زیر عنوان اہلی زندگی میں رسول کریمﷺ کا بہترین نمونہ بطور شوہر بھی پیش کیا گیا ہے۔تبصرہ نگار نے اپنی چوتھی قسط میں کہانیوں کی بےتکلف مجلس کے زیرعنوان صفحہ۴۵۱پر حضرت عائشہؓ سے گیارہ عورتوں کی کہانی سننے کے واقعہ میں بڑا علمی معرکہ یہ مارا کہ وہ عورتیں گیارہ تھیں نہ کہ تیرہ، اور اس سہو کاتب پر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ اگلے ایڈیشن میں اس کی درستی ہو چکی ہے۔ پھر تبصرہ نگار نے آنحضرتؐ کے فرمان كُنْتُ لَكِ كَاَبِی زَرْعٍ لِأُمِّ زَرْعٍ کےترجمہ پر اعتراض برائے اعتراض کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا میں تمہارے لیے ایسا ہوں جیسے ابوزرع، امّ زرع کے لیے۔ شاید موصوف نے عجلت میں متعلقہ صفحہ مکمل نہیں پڑھا جہاں صاف لکھا ہے کہ رسول کریمﷺ فرماتے تھے’’ میں تمہارے لیے ایسے ہوں جیسے (کہانی میں)ابوزرع امّ زرع کے لیے تھا۔اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کیا نہیں یارسول اللہﷺ! آپ میرے لیے ابو زرع سے کہیں بہتر ہیں‘‘ یہی بات بخاری کے حوالے سے بھی کتاب میں بیان ہے۔مگر موصوف نے لفظی تحریف کرتے ہوئے پہلا فقرہ حذف کر دیا کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ میری اور عائشہؓ کی مثال ابوزرعہ کی سی ہے۔ الغرض موصوف نے لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ کی طرح خط کشیدہ فقرہ حذف اور محض آخری فقرہ پیش کر کے اعتراض کیے ہیں،جس سے ان کی دیانتداری صاف ظاہر ہے۔ ایک اورغلط اعتراض موصوف نے اسوۂ انسان کاملؐ صفحہ۴۵۸پردرج حدیث کے درست ترجمہ پر کیاہے کہ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ حضرت حفصہؓ کو چھوٹی انگلی دکھا کر ان کے پست قد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹھنگنی کا طعنہ دیا تو آپؐ نے فرمایا کہ ایسا سخت کلمہ تم نے کہا ہے کہ’’ تلخ سمندر کے پانی میں بھی اس کو ملایا جائے تو وہ اور کڑوا ہو جائے‘‘یہی ترجمہ اہلحدیث کی شاملہ اردو پر علامہ ابو عمار عمر فاروق سعیدی شیخ اہلحدیث فاضل مدینہ یونیورسٹی میں لکھا ہے فرمایا :’’ تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو کڑوا ہوجائے گا ۔‘‘ پھراسوۂ انسان کامل ؐصفحہ ۹۷ کے ایک حوالہ پر غلط اعتراض کیاہےجہاں رسول اللہؐ کی خشیت اور خوف الٰہی کا بیان ہے کہ آپؐ نماز میں یہ کلمات پڑھتے تھے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔یعنی اے اللہ!تُو پاک ہے اے ہمارے ربّ! اپنی حمد کے ساتھ اے اللہ! مجھے بخش دے۔(بخاری کتاب صفۃ الصلاۃ باب ۴۰) موصوف کےمطابق کتاب صفۃ الصلاۃ ان کے بخاری کے نسخہ میں نہیں ہے۔موصوف نادانی اورتہوّر میں دوسروں کو تو سرزنش کرتے ہیں کہ ’’بخاری پڑھی ہے یا صرف زیارت کی؟‘‘ اپنا یہ حال ہے کہ بخاری کے مختلف نسخوں کی زیارت تو کیا تعارف بھی نہیں اور طعنہ دے بیٹھے کہ شاید قادیان یا ربوہ کے کسی نسخہ بخاری میں کتاب صفۃ الصلاۃ مذکور ہو۔اس کا جواب ہے کہ’’ ماہر اہلحدیث صاحب‘‘ ! خود آپ کی مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند کی مترجم بخاری از محمد داؤد دراز میں کتاب صفۃ الصلاۃ موجود ہے۔ جس کا درست حوالہ دیا گیاہے۔ دراصل موصوف نے عجلت میں پوری کتاب تو کیا اس کا دیباچہ (طبع چہارم )ہی نہیں پڑھا جس میں یہ صراحت موجود تھی کہ حوالہ جات کے لیے اصل کتاب کے علاوہ سی ڈی المکتبۃ شاملہ الاصدار الثانی(۲.۱) سے مدد لی گئی ہےاس میں بھی کتاب صفۃ الصلاۃ موجود ہے۔ اسوۂ انسان کامل ؐصفحہ۱۳۳ حوالہ نمبر ۳۵ پرتبصرہ نگار نےیہ اعتراض کیا کہ بیہقی کی عبارت درج کر کے بخاری کا حوالہ دیا گیا لیکن یہاں بھی موصوف نےعجلت کی اور صفحہ ۱۵۰ غور سے ملاحظہ نہیں کیا جہاں بیہقی اور بخاری دونوں کے مفصل حوالے موجود ہیں۔ تبصرہ نگار نے ایک اور اعتراض اسوۂ انسان کامل ؐصفحہ ۲۵۶ پر کیااورپہلوان رکانہ کے قبول اسلام کا واقعہ ہی جھوٹا قراردے دیا۔ حالانکہ یہ حدیث ابو داؤد کتاب اللباس اور ترمذی کتاب اللباس میں بھی موجود ہے۔صحاح ستہ کی حدیث کو کوئی اہلحدیث ہی جھوٹا کہہ سکتا ہے۔مزید برآں اس حدیث کے راویوں کی تعدیل بھی ثابت ہے اوربطور تائید مفصل حوالہ سیرت ابن ہشام کا صفحہ ۲۸۳پرموجود ہے جس کا ذکر ازراہ خیانت موصوف نے نہیں کیا۔ البتہ جو سہواً ابوداؤد اورترمذی کی بجائے بخاری لکھا گیا اس کی آئندہ ایڈیشن میں تصحیح ہو چکی۔ فنّی لحاظ سے بھی کسی حدیث کے راوی کے مجہول اور غیر معروف ہونے کی وجہ سے واقعہ کو جھوٹا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خصوصاً جبکہ اس حدیث کےراویوں ابوالحسن عسقلانی کو ابو حاتم رازی نے ثقہ اور محمد بن رکانہ کو ابن حبان نےثقہ لکھا ہے۔ اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کےمضمون سے رسول اللہﷺ کی مردانگی اور بہادری ظاہر ہوتی ہے جس کی تائیداحادیث نبویؐ میں رسول اللہﷺ کی جنگوں میں شجاعت کے باب میں بھی موجود ہے۔ نیزصحابہ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ کی تیس مردوں کے برابر طاقت ہے۔(بخاری کتاب الغسل) اس کے باوجود اس حدیث کی توہین آمیز جرأت تکذیب اہل حدیث کےماہر ہی کر سکتے ہیں۔ البتہ چوتھی قسط میں تبصرہ نگار نے اسوۂ انسان کاملؐ سے آنحضرت ﷺ کے بطور انسان کامل معلّم اور مربی اعظم کے عنوان کے تحت بیان کردہ ایک واقعہ میں موصوف کا یہ واحد مشورہ قابلِ قبول ہے کہ لفظ شراب کا ترجمہ پانی کی بجائے مشروب مناسب ہے۔ کیونکہ دودھ ملا پانی پیش ہوا تھا۔ دراصل یہ روایت بخاری و مسلم میں بیان ہونے والے دو واقعات پر مشتمل ہے۔ بخاری کے واقعہ کے راوی حضرت سہیل بن سعدساعدیؓ ہیں اور مسلم کے راوی حضرت انس بن مالکؓ ہیں۔ پہلے واقعے میں دائیں طرف بچے اور بائیں طرف کسی بزرگ کی موجودگی کا ذکر ہے جبکہ دوسرے واقعہ میں دائیں طرف بدو اور بائیں طرف بزرگ۔ پہلے واقعہ میں شراب یعنی پینے کی کوئی چیز یا مشروب اور دوسرے میں دودھ مِلے پانی کی وضاحت ہے۔ انسان کامل یا نبی کامل: تبصرہ نگار نےکتا ب کے نام ’’اسوۂ انسان کاملؐ ‘‘ پر اعتراض کرتے ہوئے سارا زور اس پر لگایا تھاکہ رسول اللہؐ کوانسان کامل نہیں صرف نبی یا رسول کہنا چاہیے۔اور اس کی تائید میں یہ حدیث پیش کی ہے کہ دیگر مذاہب کی عورتیں حضرت مریم صدیقہ اور فرعون کی بیوی آسیہ کامل تھیں اور مردوں میں سے بھی بہت سے کامل ہوئےلیکن موصوف اگر کامل نہیں مانتے تو ہمارے آقاومولا حضرت محمد مصطفےٰﷺکو۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اپنے اس غلط مؤقف کی تائید میں موصوف جماعت احمدیہ کےمشہور شاعرحضرت قاضی محمد ظہورالدین صاحب کو کامل سےبڑھ کر’’اکمل‘‘بھی ماننے کےلیے تیار ہیں (جو ان کا تخلّص تھا)۔ جیسا کہ تبصرہ نگار کے نام داؤد کے ساتھ ’’ارشد ‘‘ ہونے کے باوجود کتاب پران کا منفی تبصرہ انہیں’’رجل رشید‘‘ ثابت نہیں کرتا،کیونکہ ارشد کا یہ مطلب نہیں کہ وہ’’رجل رشید ‘‘بھی ہیں۔ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي کے ترجمہ پر اعتراض: تبصرہ نگار نے دوسری قسط میں رسول اللہﷺ پر آغاز وحی کے حوالے سے اسوۂ انسان کامل ؐکی اس عبارت پر اعتراض برائے اعتراض کیاکہ’’ پہلے الہام سے آپؐ کی گھبراہٹ اس لیے تھی کہ کہیں یہ کلام محمدؐ پر آزمائش بن کر نہ اترے۔‘‘ (اسوۂ انسان کامل ؐصفحہ ۵۵۵) اور یہاں بھی حسب عاد ت لفظی تحریف سے کام لیا اور اصل کتاب کے فقرہ ’’مجھ پر آزمائش ‘‘کو’’محمدؐ پر آزمائش‘‘ میں بدل دیا۔ ناظرین انصاف فرمائیں اصل فقرہ میں کون سی بات قابل اعتراض ہے۔ یہی بات تمام سیرت نگاروں نے لکھی۔علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں : آنحضرت ﷺ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے مجھ کو ڈر ہے لیکن یہ تردد، یہ ہیبت، یہ اضطراب، جلال الٰہی کا تأثر اور نبوت کےبارگراں کی عظمت کا تخیل تھا آپ نےکیا دیکھا؟…یہ وہ نازک باتیں ہیں جو الفاظ کا تحمل نہیں کرسکتیں۔(سیرت النبیﷺ شبلی نعمانی جلد اول صفحہ۳۰۳ مطبوعہ آرمی بک کلب) اسی طرح علامہ صفی الرحمٰن مبارک پوری صاحب ؒنے لکھا کہ ’’آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے کہا مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے حضرت خدیجہ ؓنے کہا! بخدا اللہ تعالیٰ آپؐ کو رسوا نہ کرے گا۔‘‘(الرحیق المختوم صفحہ ۹۹) حضرت خدیجہؓ کے جواب سے ظاہر ہے کہ آپؐ کو کسی نادیدہ رسوائی کا ڈر تھا جس کی حضرت خدیجہؓ تسلی دلا رہی تھیں، اگر یہ قتل یا موت کا ڈر ہوتا تو آپؐ بارہا اپنے آپ کو ہلاک کرنے کا ارادہ نہ کرتے۔ چنانچہ علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں:’’رسول اللہؐ نے وحی کی آمد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا اللہ کی مخلوق میں شاعر اور پاگل سے بڑھ کر میرے نزدیک کوئی قابل نفرت نہ تھا۔میں شدت نفرت سے ان کی طرف دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اب جو وحی آئی تو میں نے جی میں کہا کہ یہ ناکارہ یعنی خود آپؐ شاعر یا پاگل ہیں۔ میرے بارے میں قریش ایسی بات کبھی نہ کہہ سکیں گے۔ میں پہاڑ کی چوٹی پر جا رہا ہوں وہاں سے اپنے آپ کو نیچے لڑھکا دوں گا اور اپنا خاتمہ کر لوں گا اور ہمیشہ کے لیے راحت پا جاؤں گا۔آپؐ فرماتے ہیں میں یہی سوچ کر نکلا جب بیچ پہاڑ پر پہنچا توآسمان سے ایک آواز سنائی دی اے محمدؐ تم اللہ کے رسول ہو میں جبرائیل ہوں۔‘‘(الرحیق المختوم صفحہ۱۰۰) اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ وہ وجود جو بخوشی موت کو گلے لگانے کے لیے تیار تھا اسےقتل یا موت کا کیا ڈر ہوسکتاتھا؟ بلکہ قریش کی طرف سے شاعر یا پاگل کے ممکنہ الزامات اور رسوائی سے بچنے کے لیے آپؐ اپنا خاتمہ کرنےوالے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو بھیج کر یہ وسوسہ دُور فرما دیا کہ یہ کسی جنون یا دیوانگی کا حملہ نہیں اورنہ ہی کوئی شیطانی مکر ہے کیونکہ آپ تو راستبازہیں اور شیطان توجھوٹوں پر اترتے ہیں جیسے فرمایا: ہَلۡ اُنَبِّئُکُمۡ عَلٰی مَنۡ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیۡنُ۔ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ۔(الشعراء: ۲۲۲-۲۲۳)(یعنی )کىا مىں تمہىں اس کى خبر دوں جس پر شىاطىن بکثرت اترتے ہىں۔ وہ ہر پکے جھوٹے (اور) سخت گنہگار پر بکثرت اترتے ہىں۔ یہی بات اگر حضرت بانئ جماعت احمدیہ نے لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي میں واضح فرمائی کہ یہ اندیشہ یا خوف تھا کہ کوئی شیطانی مکر نہ ہو تو اس میں اعتراض کیا؟ الرحیق المختوم کے علاوہ اس کی مزید تصدیق علامہ مبارکپوری صاحب یوں کرتے ہیں: ’’وحی بند ہوگئی رسول اللہ ﷺ اسقدرغمگین ہوئے کہ کئی بار بلند وبالاپہاڑ کی چوٹیوں پر تشریف لےگئے کہ وہاں سے لڑھک جائیں۔تو حضرت جبرائیلؑ نمودار ہوتے اور فرماتے اےمحمدﷺ ! آپ اللہ کے رسول برحق ہیں اور اس کی وجہ سے آپ کا اضطراب تھم جاتا۔نفس کو قرارآجاتا جب حیرت کےسائے سکڑے حقیقت کے نقوش پختہ ہوئے اورنبی ﷺ کویقینی طورپر معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ خدائے بزرگ وبرتر کےنبی ہوچکے ہیں اور آپؐ کے پاس جو شخص آیا وہ وحی کا سفیر اورآسمانی خبر کا ناقل ہے…توحضرت جبرائیل دوبارہ تشریف لائے۔(الرحیق المختوم صفحہ۱۰۱۔۱۰۲) ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری کے نزدیک بھی شک یا اندیشہ وحی کے سفیر کے بارے میں تھا کہ وہ آسمانی ہے؟ شیطانی تو نہیں۔جب یہ وسوسہ دور ہوکر یقین ہوگیا تو اگلی وحی ہوئی۔ روایت لَسْتُ نبئُ اللّٰه کی بحث: بہرحال ارشد صاحب مانیں یا نہ مانیں ہراحمدی کا ایمان ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ؐنہ صرف کامل نبی بلکہ تمام کاملوں کے بھی سردار ہیں یہی مطلب حدیث’’ لَسْتُ نبئُ اللّٰه وَلٰکِنِّی نَبِیُّ اللّٰه ‘‘کا ہے۔ مگرتبصرہ نگار کالفظ نَبِئ سے غیب کی نفی کرنا لغت سےان کی لاعلمی ہے۔ بصورت صحت حدیث ا س جملہ کا صرف اتنا مطلب ہےکہ رسول کریمﷺ نے ہمزہ کے ساتھ نَبِئُ اللّٰه کہناپسند نہ کیا جیسا کہ دوسری روایت میں فرمایا لَاتَنْبِرْ بِاِسْمِيْ فَاِنَّمَا اَنَا نَبِيُّ اللّٰهِ (لسان العرب زیر لفظ ’’نبر‘‘) یعنی مجھے( ہمزہ کےساتھ ) نَبِئُ اللّٰه نہ پکارو۔ کیونکہ میں اللہ کا نبی ہوں۔یعنی اللہ تعالیٰ نے خودمیرا نام نبی اللہ رکھا ہے۔نَبِئُ اللّٰه اور رسول اللہؐ کےمعنی اخبار غیبیہ دینے والے کے ہوتے ہیں ان معنی سے انکا ر رسالت ونبوت سے انکار ہے کیونکہ قرآن شریف اور احادیث میں متعدّد اخباراور پیشگوئیاں ہیں جورسول اللہ ﷺ کی نبوت پر روشن دلیل ہیں۔ اگر تبصرہ نگار کو عجلت نہ ہوتی اور اسوۂ انسان کاملؐ کا مضمون ’’مخبر صادقؐ کے رؤیا و کشوف اور پیشگوئیاں ‘‘ بغورمطالعہ کیا ہوتا تو ان پر رسول اللہؐ کی بطور نبی و رسول’’کامل ‘‘ہونےکی شان بھی ظاہر ہو جاتی۔ آنحضرت ﷺ کے اخبار غیب سے انکار عملاً قرآن اور رسول اللہ ﷺکی نبوت و رسالت سے انکار کا ناپاک عقیدہ ہے۔ علامہ ابن تیمیّہ نے اپنی کتاب ’’النبوات‘‘ میں یہ مدلّل بحث کی ہے کہ لفظ نبی انباء سے ماخوذ ہے نبوہ سے نہیں۔ لفظ نبأ کی ( ہمزہ کے ساتھ)حضرت نافعؓ کی قراءت نبی کریمﷺسے ثابت ہے لیکن کثرت استعمال کی وجہ سے ہمزہ مدغم ہو کرنبیّ ہو گیاجیسے لفظ ذریّت اور بریّۃ کےالفاظ ہیں۔ ایک کمزور رائے یہ بھی ہے کہ نبی کا لفظ نبوہ سے بمعنی بلندی ہے۔اور نبی کے معنی ہیں اونچا اور بلند مرتبت۔ علامہ ابن تیمیہ کی تحقیق کےمطابق یہ معنے پہلے معنے میں داخل ہیں کیونکہ جسےاللہ خبر دے اور خبر دینے والا بنائے وہی عالی شان اور بلند مرتبت ہوتا ہے۔ابن تیمیّہ لکھتے ہیں کہ میں نے لَسْتُ نبئُ اللّٰه کی کوئی سند مرفوع یا مرسل نہیں دیکھی،نہ ہی میں نے اسے کتب احادیث یا معروف کتب سیرت میں دیکھا ہے لہٰذا ایسی روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ پس قطعی فیصلہ یہی ہے کہ نبی کا لفظ انباء سے ماخوذ ہےنبوہ سے نہیں۔(کتاب النبوات لابن تیمیہ صفحہ۸۸۳مطبوعہ دار ابن حزم بیروت) مزید برآں مستدرک حاکم کی روایت ابوذرؓ لَسْتُ نَبِئُ اللّٰه کوعلامہ ذہبی نے منکر کہا ہے کیونکہ اس کا ایک راوی حمران ثقہ نہیں بلکہ رافضی و شیعہ تھا۔ نیزعقیلی نے کتاب الضعفاء میں کہا کہ ابن عباسؓ سے بیان کردہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ علامہ ابو علی نے بھی اس روایت کی سند ضعیف قرار دی۔ جس کی مزید تائیدایک عرب شاعر سے ہوتی ہے جس نے رسول کریمؐ کی مدح میں آپؐ کے سامنے ایک شعر میں پڑھا؎ یَا خَاتَمَ النَبَآءِاِنَّکَ مُرْسِلٌ(یعنی اےخبریں دینے والوں !میں آخری مقام کے حامل نبی کامل تُو یقیناً رسول ہے) اور نبی کریم ؐنے اس سے منع نہیں فرمایا۔(تفسیر ابن عطیہ جلد ۱ صفحہ۱۵۵) علامہ ابو حفص فرماتے ہیں ’’نبأ خبر کو کہتے ہیں اور نبی کا لفظ بر وزن فعیل بمعنی فاعل ہو تو اس کا مطلب اللہ کےپیغام کی خبر دینے والا اور بمعنی مفعول ہو تواس کے معنے اللہ سے اس کے اوامر ونہی کی خبر پانےوالا ہوں گے۔‘‘(اللباب فی علوم الکتاب ابو حفص سراج الدین عمر المتوفیٰ ۷۷۵ھ جلد۲ صفحہ۱۲۷) اہلحدیث کی ویب سائٹ محدّث فورم میں بھی نبأ کے معنی خبر دینے کے معنے بحوالہ ابن فارس،جوہری،ابن اثیروغیرہ لکھے ہیں۔ مزید برآں خبر دینے کے یہی معنے اہل لغت میں سے علامہ راغب اصفہانی،علامہ زجاج اورمفسرین میں علامہ خازن،علامہ نسفی اور علامہ ثناء اللہ پانی پتی نے بھی بیان کیے۔ اور نبی کےمترادف لفظ رسول کے یہی معنے خود قرآن کریم سے بھی ثابت ہیں۔ فرمایا:عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا۔ اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ (الجن:۲۷-۲۸)ترجمہ:وہ عالم الغیب ہے وہ خدا اپنے علم غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا مگر انبیائےکرام میں سےجس رسول کو پسند کرتا ہے اطلاع دیتاہے۔(تفسیر ثنائی جلد۳ صفحہ۴۳۰مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ رسولوں اور نبیوں کےبارے میں یہ اصول بیان فرماتاہے کہ وَمَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَمُنۡذِرِیۡنَ(الانعام: ۴۹) یعنی تمام انبیاء،مرسل،بشیر ونذیر یا مبشر یا منذر ہوتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ سےبشارت یا انذار کی خبریں دینے پرہی مامور ہوتے ہیں لہذا نبی کا لفظ نبأ سے ہی ہے۔ تبصرہ نگار کے اعتراضات میں بھی تضاد ہے،اگر کسی حدیث میں وفات عیسیؑ یا نبوت کا ذکر ہو تو وہ معترض ہوتے ہیں کہ یہ ذکر کیوں کیا اور اگر کہیں سیرت کے موضوع میں اختلافی مسئلہ نبوت کا ذکرنہ ہو تو اعتراض کرتے ہیں کہ نبوت کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ جیسا کہ ’’آنحضرتؐ کی صحابہ سے محبت‘‘کے مضمون میں صفحہ ۲۲۶پر دیگر صحابہ کے ذکر کے بعد حضرت علیؓ کے ساتھ محبت رسولؐ کے ذکر میں یہ ارشاد نبویؐ نقل ہے کہ ’’علیؓ کا میرے ساتھ تعلق ایسے ہے جیسے ہارونؑ کا موسیٰؑ سے۔‘‘(بخاری کتاب المغازی) اب محبت صحابہ کےاس مضمون میں مسئلہ نبوت کی کوئی بحث چھیڑنے کی ضرورت نہ تھی مگر تبصرہ نگار تو معترض ہیں کہ یہاں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ حالانکہ اس حدیث بخاری کے الفاظ ہیں اِلَّا اَنَّہٗ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ یعنی سوائے اس کے کہ میرے بعد تم نبی نہیں ہوگےاور دوسری روایت میں ہے اِلَّا اَنَّکَ لَسْتَ نَبِیًّا۔(کتاب السنۃ لابن ابی عاصم(متوفی۲۸۷ھ) جلد۲ صفحہ ۵۶۵، الشریعۃ للاجری (متوفی ۳۶۰ھ) جلد ۴ صفحہ۲۰۲۱) پس موعود مسیح نبی اللہ نے چونکہ امت محمدیہ میں سے امام ہو کر آنا تھا۔ فوت شدہ(اسرائیلی )مسیح اپنی شریعت کے ساتھ خاتم النبیین کےبعدنبی ہوکر نہیں آ سکتا۔ چنانچہ حضرت موسیٰؑ نے جب امت محمدیہ کا نبی ہونے کی درخواست کی تھی تو بارگاہ الٰہی سے یہی جواب ملاتھا کہ نَبِیُّھَا مِنْھَا (خصائص الکبریٰ جلد اول صفحہ۳۰) کہ اس امت کا نبی امت میں سے ہوگا۔ پس نبی اللہ حضرت عیسیٰ ؑکا جسمانی نزول آیت خاتم النبیین اور حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے خلاف ہے۔(ملاحظہ ہو ایک غلطی کا ازالہ جلد ۸ صفحہ ۲۰۷) کیونکہ رسول اللہﷺ کا خاتم الانبیاء ہونا حضرت عیسیٰ ؑکی موت کو چاہتا ہے اور لَانَبِیَّ میں نفی عام ہے۔ پس خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا ناقابل تسلیم ہے ما سوا امّتی کے۔(دیکھیں ایام الصلح ،روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۳۹۲) اور جب لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں لا نفی کمال کا لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کی شان اور مقام والا تشریعی نبی نہیں آ سکتا ما سوائے آپ کے فرمانبردار خادم اور امتی نبی کے۔پس کوئی نبی نبوت کے حقیقی معنوں کے رو سے آنحضرتﷺ کے بعد نہیں آسکتا۔اسی لیے فرمایا:لَانَبِیَّ بَعْدِی اِلَّا اَنْ یَّشَاءَاللّٰہُ۔ یعنی میرے بعد اب کوئی اور نبی نہیں سوائے اس کے جو اللہ چاہے( یعنی امّتی نبی)۔ (تذکرۃالموضوعات صفحہ ۸۸) یہی وجہ تھی کہ آیت خاتم النبیین کے نزول کے بعد صاحبزادہ ابراہیم کی وفات پر۹ھ میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگرابراہیم زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الصلوٰۃ علیٰ ابن رسول اﷲ ذکر وفاتہ ) اسی لیے حضرت ملّا علی قاری نے خاتم النبیین اور لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے معنی کی یہ وضاحت فرما دی کہ آنحضرتﷺ کے بعداب کوئی نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت منسوخ کرے اور آپ کی امّت میں سے نہ ہو۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ اگر موسیٰؑ اور عیسیٰؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا۔(الموضوعات الکبری از ملاعلی قاری صفحہ۲۸۵) پس حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ جہاں وفات عیسٰیؑ پر دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کےبعد کوئی نبی بشمول حضرت عیسیٰ نہیں آ سکتا وہاں بخاری کی دوسری روایت میں بَعْدِي کے معنی ’’معاً بعد‘‘ بھی ثابت ہوتے ہیں۔ جیسے فرمایا لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء)یعنی میرے معاًبعد نبی نہیں بلکہ خلیفےہوں گے۔ چنانچہ یہ پیش گوئی خلفائے راشدین کے حق میں پوری ہو گئی اور حضرت عمرؓ حدیث نبوی کے مطابق خلیفہ تو ہوئے مگر باوجود استعداد نبوت نبی نہ کہلائے ’’بعدیت‘‘ کا یہ زمانہ اس مسیح موعود کی آمد کے زمانہ تک ممتد تھا جسے رسول اللہﷺ نے حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِي کے باوجود چار بار نبی اللہ کے الفاظ سے یاد فرمایا۔(مسلم کتاب الفتن ) اس حدیث کی مزید وضاحت ارشاد نبویؐ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ (بخاری کتاب الانبیاءبَابُ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا)نے کردی، یعنی اس آنے والے مسیح اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں، مگر وہ آنے والانبی ہوگا۔ اس طرح آپؐ نے فرمایا ابوبکر سب سے بہتر اور افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو۔ (جامع الصغیرجلد۱ صفحہ۱۱) رسول کریمؐ نے صرف امتی نبی کا دروازہ کھلا رکھا اور مسیح نبی اللہ کےبارے میں فرمایا:’’ إِمَامُكُمْ مِنْكُمْ‘‘(بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ) یعنی تمہارا مام تم(مسلمانوں) میں سے ہوگا۔ تبصرہ نگا ر نے تیسری قسط میں ایک اعتراض اسوۂ انسان کاملؐ کے صفحہ ۱۸۶ میں اس حدیث کےترجمہ پر کیاجہاں آنحضرت ؐکو بحیثیت تاجر انسان کامل ثابت کرتے ہوئے یہ حدیث مذکور ہے کہ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ (سنن ترمذی كتاب البيوع باب مَا جَاءَ فِي التُّجَّارِ وَتَسْمِيَةِ النَّبِيِّ إِيَّاهُمْ)یعنی امانتدار، سچا تاجر نبیوں یا صدیقوں یا شہیدوں میں سے ہے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ یہا ں مَعَ النَّبِيِّينَ میں مع کا لفظ بمعنی ظاہری معیّت ہے یعنی سچا تاجر ان مرتبہ والوں کےساتھ بروز قیامت ہوگا۔ معیت مکانی و زمانی کے یہ معنے یہاں ممکن ہی نہیں، صرف معیّت رتبی کے معنی ہی قابل قبول ہوسکتے ہیں کیونکہ حدیث کا یہ جملہ اسمیہ ہےجس میں زمانہ حال کا ہونا ضروری ہے لہٰذااس کے معنی یہ ہوں گے کہ سچا اور امین تاجر اس وقت بھی نبیوں، صدیقوں اورشہیدوں میں سے ہے اور آئندہ بھی ہوگااور یہ صرف مرتبہ کےلحاظ سے ہوسکتا ہے جبکہ معیت مکانی و زمانی کے معنی عملاً ممکن نہیں اور معیت رتبی کے لحاظ سے یہ معنی ظاہر وباہر ہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰؐ جو صدوق و امین تاجر تھے تو آپؐ نےنبوت کا مقام پایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ امین تاجر تھے وہ صدیقیت کے مقام پر فائز ہوئے، حضرت عثمانؓ صدوق و امین تاجر تھے انہوں نے شہادت کا مقام پایا تو حدیث کے جو معنی عملی طور پر ثابت ہیں ان پر اعتراض کیوں اورکیسے؟ ایک اور فاش غلطی: تبصرہ نگار نے ایک اوراعتراض اسوۂ انسان کاملؐ پر یہ کیا ہے کہ مصنف نے اپنے عقائد وافکار سیرت،اس کتاب میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے جیسےوفات رسولؐ کے ذکر میں وفات مسیحؑ از خو د ثابت ہوگئی اور جہاں مسئلہ نبوت کا ذکر نہیں کیا وہاں یہ اعتراض کر دیا کہ یہاں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کا ذکرکیوں نہیں کیا جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ اس سےتبصرہ نگار کی ذہنی کیفیت کا نقشہ ان کے اعتراضات سے خوب ہوتا ہے۔ حالانکہ اسوۂ انسان کامل ؐکی اصل خوبی ہی یہ ہے کہ اس میں احادیث نبویہؐ کے حوالے سے نبی کریمؐ کا اسوہ آپؐ کے اخلاق فاضلہ اور ارشادات کا بیان ہے۔ وفات رسولؐ کے ضمن میں محض خطبہ ابوبکرؓ کا ذکر دیگر سیرت نگاروں کی طرح کرنے پر یہ اعتراض کہ وفات مسیحؑ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، معترض کےدل کا چورہے۔ ’’اسوۂ انسان کامل ؐ‘‘سیرت النبیؐ کی کتاب ہے جس کے آغاز میں رسول اللہؐ کی مختصر سوانح نبویؐ بیان کرتے ہوئے آپؐ کے وصال مبارک کا واقعہ صفحہ۴۰پر صحیح بخاری سےمنْ وعَنْ درج ہے جیسےاہلحدیث کی کتب مختصر سیرۃ الرسول عبدالوہاب صاحب اور الرحیق المختوم از علامہ صفی الرحمان مبارکپوری صاحب میں بیان ہے اور کہیں وفات عیسٰی کا کوئی عنوان نہیں، مگر چور کی داڑھی میں تنکا۔ خطبہ صدیق اکبرؓ: فی الحقیقت تبصرہ نگار کو ’’اسوۂ انسان کاملؐ ‘‘میں خطبہ ابوبکر صدیقؓ دیکھتے ہی از خود احساس ہوا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کا رسول اللہؐ کی وفات کے پر وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران:۱۴۵) تلاوت کرنا خود رسول اللہؐ اور دیگر انبیاء بشمول حضرت عیسیٰؑ کی وفات کی دلیل توبنتی ہے۔ سومناظرانہ بحث اورتکرار پر اتر آئے۔ موصوف مناظرہ حافظ والا میں پہلے بھی ہزیمت تو اٹھا ہی چکے تھے۔ حسبِ عادت تاویلات رکیکہ پیش کرنے لگےکہ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ سے حضرت عیسیٰؑ مستثنیٰ ہیں اور دلیل نامعقول یہ دی کہ لفظ رسول کے معنی چونکہ فرشتہ کے بھی ہوتے ہیں اورجس طرح فرشتہ وحی جبرائیلؑ اس سے مستثنیٰ اورزندہ ہے اسی طرح عیسیٰؑ بھی زندہ ہے یعنی کوّا سیاہ ہے لہٰذا زمین گول ہے۔ (یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موصوف فرشتہ وحی کو زندہ توتسلیم کرتے ہیں مگر ان سے سلوک مردے والا ہی کرتے ہیں کہ وہ قیامت تک وحی نہیں لائے گا) ہردانا اور ’’رجل رشید ‘‘جانتا ہے کہ اس آیت میں الف لام معرفہ کے ساتھ لفظ’’ الرسل‘‘سے وہ خاص رسول ہی مراد ہیں جو محمد مصطفیٰؐ کی طرح صاحبِ رسالت تھے نہ کہ فرشتے کیونکہ قرآن شریف میں’’الرسل‘‘ کا لفظ کل ۱۹؍مرتبہ آیا ہے اور ان میں کسی ایک جگہ بھی فرشتہ مراد نہیں اور خود اس آیت میں ’’أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ‘‘کے الفاظ بھی اس بات پر کافی دلیل ہیں کہ یہاں رسل مراد ہے نہ فرشتے۔ رسول بشمول حضرت عیسٰیؑ (یعنی اگر مرجائےیا قتل ہو) مراد ہیں جن پر قتل اورموت وارد ہوتی ہے۔فرشتوں پر یہ حالت وارد ہی نہیں ہوتی۔ وفد نجران سے گفتگو: اب چور کی داڑھی میں دوسرا تنکاملاحظہ ہو۔اسوہ انسان کاملؐ کے مضمون بحیثیت داعی الی اللہ میں نجران کے عیسائیوں سے ملاقات کا ذکر ہےکہ نبی کریمؐ نے دوران گفتگو انہیں الوہیت مسیح کے خلاف دلیل دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ مسیح خدا نہ تھے بلکہ ایک انسان تھے اور ان پر موت آچکی۔ (جیسا کہ خود عیسائی عقیدہ کے مطابق موت مسیح عیسائیوں کے لیے کفارہ ٹھہری ) جبکہ ہمارا خدا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔ تبصرہ نگار کو خدشہ ہوا کہ قاری یہ حوالہ پڑھ کر ضروروفات مسیح کا قائل ہوگا۔ اس لیےانہوں نے بے دلیل یہ اعتراض کردیا کہ حوالہ میں“اَتَی عَلَیۡہِ الفَنَاءُ” (یعنی عیسیٰؑ فوت ہوگئے) کے الفاظ ماضی اصل میں یَاتِیْ عَلَیۡہِ الفَنَاءُ صیغہ مضارع تھا۔ یعنی عیسیٰؑ پر موت آئے گی۔ مگر ؎ این خیال است و محال است و جنون موصوف کے دعویٰ کے مطابق بفرض محال اگر یَاتِیْ فعل مضارع کےمعنی ’’موت آئے گی ‘‘کے لیے جائیں تو رسول اللہؐ کی رد ّالوہیت کے لیے پیش کردہ یہ دلیل بے کار ہو کر رہ جاتی ہے کیونکہ وفد نجران میں شامل پادریوں نے رسول اللہﷺ کے سوال کہ عیسٰیؑ پر موت آئی ؟ کا جواب ’’نعم ‘‘ کہہ کر ہاں میں دیا۔ اگر یہاں مستقبل کے معنے کریں کہ عیسٰیؑ پر موت آئے گی ؟ توعیسائی پادری اس کےجواب میں ہاں نہیں کہہ سکتے کیونکہ کوئی عیسائی پادری آئندہ وفات عیسٰیؑ کا قائل نہیں۔پس جب تک صیغۂ ماضی میں عیسیٰؑ پر موت نہ آ جائے تو عیسائیوں کا الٰہ زندہ ہے۔ قلمی قدیمی نسخہ جات اسباب النزول کی تحقیق سے بھی موصوف کا دعویٰ باطل ثابت ہوجاتا ہے۔ اسباب النزول کے درج ذیل قلمی نسخہ جات اس کتاب کا اصل ماخذ ہیں۔جن میں“اَتَی عَلَیۡہِ الفَنَاءُ ”کے ہی الفاظ ہیں یعنی عیسیٰؑ پر موت آچکی۔ (۱)۔ اسباب النزول از علامہ واحدی قلمی نسخہ ۶۱۰ھ صفحہ ۵۶ (۲)۔ اسباب النزول قلمی نسخہ ۶۹۷ھ صفحہ ۶۹ مطبوعہ قاہرہ (۳)۔ اسباب النزول قلمی نسخہ صفحہ ۵۷ (۴)۔ اسباب النزول قلمی نسخہ ۱۰۳۹ھ صفحہ ۹۴ مطبوعہ نسخے: اسی طرح درج ذیل قدیمی مطبوعہ نسخوں (از مصر وسعودی عرب و شام)میں بھی صیغۂ ماضی میں حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات کا ذکر ہے۔ ۱۔اسباب النزول کا پہلا مطبوعہ نسخہ۱۳۱۶ھ از مطبع ھندیہ مصر ۲۔اسباب النزول نسخہ مطبع مصطفی البابی الحلبی مصر ۱۳۷۹ھ ۳۔اسباب النزول مطبوعہ۱۴۱۲ھ ازدار الاصلاح الدمام سعودیہ مطبوعہ نسخہ جات کے علاوہ عصر حاضر کے ممتاز مصری مفسر علامہ وھبۃ زحیلی (متوفی۱۴۳۶ھ) کی تصنیف التفسیر المنیر جلد ۲ صفحہ ۱۵۸مطبع دارالفکر دمشق ۱۴۳۰ھ میں بھی یہی مذکور ہےکہ حضرت عیسیٰ ؑکی وفات ہو چکی۔( یہ کتاب پنجاب یونیورسٹی کے نصاب اسلامیات کا حصہ ہے۔) رسول اللہؐ کی نصرانی وفد سے گفتگو کا اردو ترجمہ لفظی کی بجائے تشریحی کرنے پر بھی تبصرہ نگار کو اعتراض ہے جواس لیے قابل ردّ ہےکہ لفظی ترجمہ کا نتیجہ بھی وفات عیسیٰؑ ہی ہے۔ روایت ثعلبی کی حقیقت: تبصرہ نگار کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ علامہ واحدی نے حضرت عیسیٰؑ پر موت آنے کی روایت علامہ ثعلبی سے لی ہے جس میں ’’یأتی‘‘کے الفاظ ہیں اسی طرح علامہ واحدی جب کہتے ہیں کہ مفسرین نے یہ کہا توا س سے بھی امام ثعلبی مراد نہیں ہوتے۔ چنانچہ محقق السید احمد صقر نے علامہ واحدی کا طریق روایت یہ بیان کیا کہ وہ بلاسند روایات سے پہلے حسن شعبی یا قرظی کا نام لیتے یا کہتے ہیں روایت کیا گیا یا مفسرین نے کہا۔ مگر امام ثعلبی سے اخذکردہ روایات سے پہلے بصراحت یہ سند دیتے ہیں۔“ أخبرنا احمد بن محمد بن ابراهيم الثعلبي” مزید برآں علامہ واحدی (متوفی:۴۶۸ھ) کا زمانہ پانچویں صدی ہےاورچوتھی صدی ہجری کے معروف مفسرابومحمدعبد الرحمان بن ابوحاتم الرازی(متوفی:۳۲۷ھ) کی تفسیر القرآن العظیم قلمی نسخہ ۷۴۸ھ جلد ۲صفحہ ۴پر بھی یہ روایت بصیغہ ماضی اَتَی عَلَیۡہِ الفَنَاءُ ہےیعنی حضرت عیسیٰؑ فوت ہوچکے۔ تبصرہ نگار کی ایک اور تاویل بعیدہ یہ ہےکہ ماضی اَتَی کے معنے یأتیمستقبل کے بھی ہو سکتے ہیں جواس لیے درست نہیں کہ اول اس کےلیےیہ قرینہ چاہیے کہ اس امر متعلق کا وقوع ماضی کی بجائے مستقبل سے ثابت ہو۔ مناظرہ نجران میں نہ صرف فریقین کو ماضی میں موت عیسیٰؑ مسلّم ہے اور مستقبل کے معنوں کا کوئی قرینہ بھی موجود نہیں،جبکہ اس کے برعکس کئی قرائن قویّہ اسی گفتگو کے سیاق وسباق میں موجود ہیں کیونکہ نصاریٰ نجران سے تمام سوالات واقعات ماضی کے بارے میں ہیں یعنی حضرت عیسی ٰؑ کا کھانا پینا،پیشاب پاخانہ کرنا وغیرہ جو ان کی الوہیت کی بجائے آپ کی بشریت کو ثابت کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ طبعی موت جو حضرت عیسیٰؑ پر وارد ہوا، نصاریٰ کو تسلیم ہے۔اس لیے اس ماضی کو مستقبل کے معنی میں لینا خلاف قاعدہ ہو گا۔ورنہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي (المائدة:۱۱۸) میں یقینی وفات عیسیٰؑ کا ترجمہ ذرا مستقبل میں کر کے دکھادیں۔جہاں تک روایت اسباب النزول کے ضعیف ہونے کا تعلق ہے یہ اعتراض اس لیے باطل ہے کہ قرآن شریف کی تیس آیات اس حدیث کی سچائی پر گواہ ہیں جو وفات عیسیٰؑ کو ثابت کرتی ہیں۔ اسوۂ انسان کامل ؐصفحہ ۶۰۶ کے مضمون آنحضرتؐ کی خداداد فراست و بصیرت کے تحت اپنے صحابہ کی طبع شناسی کا ذکر ہے کہ آپؐ نے اپنے صحابہ کے بارے میں فرمایا کہ’’کوئی نبی نہیں گزرا مگر میری امت میں اس کی نظیر موجود ہے حضرت ابوبکرؓ حضرت ابراہیم ؑکی نظیر حضرت عمرؓ حضرت موسی ؑکی نظیر حضرت علیؓ حضرت ہارونؑ کی نظیر اور حضرت علیؓ میرے نظیر ہیں اور جسے یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت عیسٰی ابن مریمؑ کو دیکھے تو وہ حضرت ابوذر غفاریؓ کو دیکھ لے۔ (معجم ابن الاعرابی جلد۱ صفحہ ۳۰۱) تبصرہ نگار نے الاعتصام کی تیسری قسط میں مذکورہ بالا کی صحت حدیث پر اعتراض کیا ہے حالانکہ یہ حدیث حضرت انس بن مالک ؓسے مرفوعا ًمروی ہے مگر موصوف کو فکر لاحق ہوئی کہ اس سےتو’’ مثیل ابن مریم ‘‘کا مضمون ثابت ہوگا۔ اس لیے اس کے راویوں میں سے ایک کو ضعیف قرار دے دیا۔ حالانکہ اس حدیث کے شاہد موجود ہیں اور یہی بات رسول کریمﷺ نے بعض اور مواقع پر بھی حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کےبارے میں فرمائی کہ وہ ابراہیم ؑاور موسیٰؑ کے مثیل ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ قرآنی گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا سورت نور کی آیت استخلاف (۵۶) میں مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ’’وہ انہیں زمین میں جانشین بنائے گا۔ جس طرح ان لوگوں کو جانشین بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے۔(مکتبہ شاملہ اہلحدیث) پس یہ قرآنی آیت حدیث مذکورہ بالا کی مؤید ہے۔ مگر اہل حدیث تبصرہ نگار گذشتہ امتوں کے اعلیٰ افراد کے امت محمدیہؐ میں مثیل و نظیر کی یہ خوشخبری محض ایک راوی پر فنّی جرح کی بنا پر ردّ کر رہے ہیں جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ البتہ تبصرہ نگار کو یہ توتسلیم ہے کہ سورت حدید کی آیت ۲۰ کے مطابق پہلی امتوں کے رسولوں پر ایمان لانے والے تو صدیقوں اورشہیدوں کا مقام پا گئے ہیں مگر امت محمدیہ (جو خیرالامت ہے) کے خوش قسمت افراد کو سورۂ نساء کی آیت ۷۱ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت کے نتیجے میں نبی، صدیق،شہید اور صالح کے انعامات روحانیہ کا جو وعدہ کیا گیا ہے وہ اس دنیا کی زندگی میں پورا نہیں ہوگا بلکہ محض بعد موت اگلے جہان میں ایسے افراد کو اپنے ہم مرتبہ ساتھیوں کی معیّت حاصل ہو جائے گی۔ یہ تو بڑی ناقص تقسیم ہوئی۔ تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی(النجم :۲۳) بقول اقبال ؎ قہر تو یہ ہے کہ کافر کو مِلیں حُور و قصور اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور ایک اور فاش غلطی: اسوۂ انسان کاملؐ میں غزوۂ خیبر میں رسول کریمﷺ کےاخلاق فاضلہ کے بیان میں حضرت عرباض بن ساریہؓ کی ایک روایت ہے جس سے حدیث کے مقام و عظمت کا بھی علم ہوتاہے۔اس پر اہلحدیث تبصرہ نگار نےبجائے خوش ہونے کے الٹا ایک اور غیر متعلق اعتراض کیا ہے۔چنانچہ پانچویں قسط میں اپنے’’مولانا‘‘بٹالوی صاحب کےحضرت بانئ جماعت احمدیہ ؑسے مباحثہ لدھیانہ کے بارے میں یہ اعتراض کر دیا کہ’’ بٹالوی صاحب نے یہی حدیث بروایت مقداد بن اسود ابوداؤد رقم ۴۶۰۷ مناظرہ لدھیانہ میں نقل کی تھی۔‘‘مگرموصوف کا یہ اعتراض مع بیان کردہ حوالہ غلط ہے۔یہ موصوف کی ایک اور فاش غلطی ہے البتہ اس سے ملتی جلتی روایت ابوداؤد ۴۶۰۷ کی بجائے ۴۶۰۴پر ہے مگر اس کے راوی مقداد بن اسود نہیں بلکہ مقدام بن معدیکربؓ ہیں۔ راوی صحابی کے نام کےمتعلق یہ ایک اور فاش غلطی ہے۔اور مزیدغلط بیانی یہ کہ تبصرہ نگار کےمطابق’’یہی حدیث‘‘ مولوی بٹالوی صاحب نے مباحثہ لدھیانہ میں بیان کی تھی حالانکہ وہ ایک دوسری روایت ہے اوردونوں روایات میں زمین وآسمان کا فرق ہے، البتہ ایک فقرہ کا اشتراک ہے۔کیا آجکل اہلحدیث کی ’’روایت حدیث ‘‘ کا یہی معیار باقی رہ گیاہے۔ گر ہمیں مکتب و ہمیں مُلّا کار طفلاں تمام خواہد شد تبصرہ نگار کی فاش غلطی کا تحقیقی و تفصیلی موازنہ: اس جگہ اسوۂ انسان کاملؐ میں موجود روایت عرباض اور تبصرہ نگار کی غلط محوّلہ حدیث مقداد بن اسود(جو دراصل مقدام بن معدیکرب کی ہے) کا تقابلی جائزہ پیش ہے۔جس سےدونوں روایات کا باہم اختلاف عیاں ہے کہ یہ مختلف الراویۃ والمتن حدیث ہے مگر اہلحدیث تبصرہ نگار اسے’’وہی حدیث‘‘ گردانتے ہیں۔ ببیں تفاوت را از کجا است تا بہ کجا روایت عرباض بن ساریہؓ: روایت مقداد نہیں روایت مقدام بن معدیکربؓ: دونوں روایات میں نمایاں اختلاف حضرت عرباض بن ساریہؓ بیان کرتے ہیں کہ (۱)ہم رسول اللہﷺکے ساتھ غزوہ خیبر میں شریک تھے۔ (۲)حاکمِ خیبر درشت رو اور بے لحاظ انسان تھا۔ (فتح کے بعد) اس نے رسول اللہﷺکے پاس آکر کہا اے محمدﷺ! کیا تم لوگوں کو حق پہنچتاہے کہ ہمارے جانور ذبح کرو،ہمارے پھل کھاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو۔ (۳) نبی کریمﷺیہ سن کر بہت ناراض ہوئے اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے فرمایا کہ آپؓ گھوڑے پر سوار ہوکر یہ اعلان کریں کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہونگے۔ (۴) لوگوں کو نماز کے لیے جمع کیاجائے۔ جب وہ اکٹھے ہوگئے۔ (۵)تو آپؐ نے صحابہؓ سے خطاب فرمایا کیا تم میں کوئی تکیہ پر ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ نے سوائے اس کے جو قرآن میں ہے،کوئی چیز حرام نہیں کی۔سنو میں نے بھی کچھ احکام دیے ہیں اور بعض باتوں سے روکا ہے وہ بھی قرآن کی طرح ہی ہیں۔ (۶) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جائز نہیں رکھا کہ تم اہل کتاب کے گھر وں میں بلا اجازت داخل ہو۔ نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے کی اجازت دی ہے اورنہ ان کے پھل کھانے کی۔ (۷)جب (معاہدہ کے مطابق )وہ تمہیں وہ کچھ دے رہے ہوں جو ان کے ذمہ ہے یعنی جزیہ۔(سنن ابوداؤد؛ كتاب الخراج، باب فِى تَعْشِيرِ أَهْلِ الذِّمَّةِ إِذَا اخْتَلَفُوا بِالتِّجَارَاتِ) حضرت مقدام بن معد یکربؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“سنو! مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت)، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے۔ اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پاؤ، اسی کو حرام سمجھو، سنو! تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لیے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہو جائے، اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے۔ (سنن ابوداؤد كتاب السنۃ، باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ ) (۱) حدیث عرباضؓ سفر بابت غزوہ خیبر ہے جبکہ روایت مقدام کا اس سے تعلق نہ ہے۔ (۲) راویت عرباضؓ میں حاکم خیبر کی رسول اللہ ﷺ سے اپنے جانور ذبح کرنے اور پھل کھانے کی شکایت ہے، جبکہ روایت مقدامؓ میں ایسی کوئی بات نہیں۔ (۳) روایت عرباضؓ میں شکایت کےبعد رسول اللہﷺ کا حضرت عبدالرحمانؓ کے ذریعہ گھوڑے پر سوار ہوکر اعلان کرنے کا ذکر ہے جو روایت مقدام میں نہیں ہے۔ (۴) پھر لوگوں کو نمازکےلیے جمع کرنے کا اعلان ہے جو روایت مقدام میں نہیں۔ (۵)روایت عرباضؓ میں رسول اللہؐ کےخطاب میں قرآن کےعلاوہ احکام رسولﷺسے انکار پر ناراضگی ہے۔ رسول کے اوامر ونواہی مثل قرآن کا ذکر ہے۔عرباض کی صرف یہ ایک بات روایت مقدامؓ سے مشترک ہے۔ (۶) روایت عرباضؓ میں اہل کتاب کے گھروں میں بلااجازت داخل ہونے اور ان کی عورتوں کو مارنے اور ان کے پھل کھانے سے ممانعت ہے جو روایت مقدا مؓ میں نہیں۔ (۷) راویت عربا ضؓ میں یہ ممانعت اہل کتاب کےجزیہ دینے سے مشروط ہے جس کا حدیث مقدامؓ میں ذکر نہیں۔ (۸) حدیث مقدامؓ میں گدھے کی حرمت اورنوکیلے دانت والے درندوں کی حرمت وغیرہ کا ذکر ہے جو روایت عرباضؓ میں نہیں۔ اس موازنہ سے ظاہر ہے کہ اس قدر اختلاف متن کےباوجود تبصرہ نگار کا دونوں احادیث کو ایک حدیث اور عرباض کا ایک مشابہ فقرہ حدیث مقدام بن معدیکربؓ کی بجائےروایت مقداد ابن اسودؓقرار دینا بہت بڑی فاش غلطی ہے۔ حضرت بانئ سلسلہ احمدیہ کی اس حدیث کی لطیف تشریح: تبصرہ نگار کا ایک اور غلط اعتراض یہ ہے کہ مناظرہ لدھیانہ میں یہ حدیث پیش ہونے پر حضرت مرزا صاحب نے اسے حیلوں سے ٹال دیااور کوئی جواب نہ دیا۔یہ ایک اور بددیانتی اورغلط الزام ہےکیونکہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے اس مختلف المتن حدیث کےواحد مشترک المعنی الفاظ حدیث ’’إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ‘‘ کونہ صرف تسلیم کیا بلکہ مباحثہ لدھیانہ میں ’’حدیث کے قرآن کی مثل ہونے کی‘‘ جو نہایت اعلیٰ درجہ کی لطیف تشریح اپنے ذاتی تجربہ کی رُو سے فرمائی ہے وہ اہل بصیرت کےلیے خاص توجہ کےلائق ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں : ’’وحی متلو کا خاصہ ہے جو اس کے ساتھ تین چیزیں ضرور ہوتی ہیں۔ اول :مکاشفات صحیحہ جو اخبارات اوربیانات وحی کو کشفی طورپر ظاہر کرتے ہیں۔… دوئم :وحی متلو کے ساتھ رؤیا ئے صالحہ دی جاتی ہے جو نبی اور رسول اورمحدث کےلیے ایک قسم کی وحی میں ہی داخل ہوتی ہے۔… سوئم:وحی متلو کے ساتھ ایک خفی وحی عنایت ہوتی ہے جو تفہیمات الہیہ سے نامزد ہوسکتی ہے۔..سو یہ وہ تینوں چیزیں ہیں جوآنحضرت ﷺ کےلیے أُوتِيتُ الْكِتَابَ کےساتھ مثلہ کا مصداق ہیں۔اورہر ایک رسول اور نبی اور محدَّث کو اس کی وحی کےساتھ یہ تینوں چیزیں حسب مراتب اپنی اپنی حالت قرب کےدی جاتی ہیںچنانچہ اس بارے میں راقم تقریرہٰذا صاحبِ تجربہ ہے یہ مؤید ات ثلاثہ یعنی کشف اور رؤیا اور وحی خفی دراصل امور زائدہ نہیں ہوتے بلکہ وحی متلو کے جو متن کی طرح ہے مفسر اور مبیّن ہوتے ہیں۔(مباحثہ لدھیانہ ،روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ۱۰۸۔۱۰۹) یہ اس حدیث کی بےنظیر تشریح ہےجو وحی میں ایک صاحب تجربہ نے کی مگر تبصرہ نگار الزام تراش ہیں کہ مرزا صاحب نےکوئی جواب نہ دیا اورٹال گئے۔بددیانتی اورکذب بیانی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ (جاری ہے) (‘ابو احمد’) مزید پڑھیں: اہلحدیث ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘کے تنقیدی تبصرہ کا جائزہ(قسط اوّل)