https://youtu.be/G6p8Pf-uSnY (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍اپریل ۲۰۱۳ء) یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْااللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ (آل عمران: 103)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا اس کے تقویٰ کا حق ہے اور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔ اس آیت میں ایک حقیقی مومن کی حالت بیان کی گئی ہے۔ ایک حقیقی مومن کو تقویٰ کی تمام شرائط کو پورا کرنے والا ہونا چاہئے اور تقویٰ کا حق یا اُس کی تمام شرائط کیا ہیں؟ اس کی جو وضاحت ہمیں قرآنِ کریم سے ملتی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام حقوق اور بندوں کے تمام حقوق کا خیال رکھنا، ہر قسم کی نیکی کو بجا لانے کے لئے تیار رہنا، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو زندگی کے آخری لمحات تک بجا لانے کی کوشش کرنا۔ اللہ اور رسولؐ نے جو حکم دئیے ہیں، جو باتیں کی ہیں، جو پیشگوئیاں کی ہیں اُن پر ایمان لانا اور اُن پر یقینِ کامل رکھنا اور اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرنا۔ صرف مسلمان کا نام اپنے ساتھ لگانا یا اپنے آپ کو مسلمان کہنا ایمان لانے والوں میں شمار نہیں کرواتا۔ بلکہ یہ عمل ہے اور مسلسل عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل ہے اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنا ہے جو تقویٰ کی شرائط کو پورا کرنے والا بنا سکتا ہے اور حقیقی مسلمان بھی وہی کہلاتا ہے جو یہ عمل کرنے والا ہو۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے مذاہب اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے نکل گئے کیونکہ انہوں نے ان باتوں کا خیال نہیں رکھا۔ اگر تم نے بھی تقویٰ کا خیال نہ رکھا، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر توجہ نہ دی، اپنے فرائض کی ادائیگی پر غور نہ کیا، تو تم بھی ایسے لوگوں میں شمار ہو گے جو خدا تعالیٰ کی سزا کے مورد بنے۔ اور تمہاری موت بھی ایسی موت ہو گی جو نیک اعمال بجا نہ لانے والوں کی موت ہوتی ہے۔ مسلمان ہونا کامل فرمانبرداری چاہتا ہے۔ پس ایک مسلمان کو ان باتوں کو اپنے مدّنظر رکھنا چاہئے۔ ایک حقیقی مومن کو خدا کا خوف ہمیشہ رہنا چاہئے اور اُن باتوں کی تلاش رہنی چاہئے جو خدا تعالیٰ کا فرمانبردار بنائیں، حقیقی مسلمان بنائیں۔ اس کے لئے خواہ دنیاوی نقصان اٹھانا پڑے، ایک حقیقی مسلمان کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ ماں باپ، عزیز، رشتہ دار، معاشرہ، لیڈر، سیاسی لیڈر، مذہبی لیڈر غرض کہ کوئی بھی ہو، ایک حقیقی مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے احکام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے دور کرنے والا نہیں ہونا چاہئے۔ ہر شخص نے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر اپنا حساب خود دینا ہے۔ کوئی سیاسی لیڈر، کوئی عزیز، کوئی مولوی کسی کوبچانے والا نہیں ہو گا۔ کوئی پیر، کوئی گدی نشین کسی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنا، اُس کے نشانات کو دیکھ کر اُن پر غور کرنا، اُس کے رسولؐ نے جو تقویٰ کے راستے بتائے ہیں اُن پر چلنا، ظلموں اور زیادتیوں میں اپنے آپ کو شامل ہونے سے بچانا، اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا، یہ ہے ایک حقیقی مسلمان کی حالت۔ ورنہ ایمان لانے کا دعویٰ صرف دعویٰ ہے جو تقویٰ سے خالی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات سے دُور ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ایسے تقویٰ سے عاری لوگوں کی نہ عبادتیں قبول ہوتی ہیں، نہ قربانیاں، بلکہ ظاہری نمازیں بھی خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کی بجائے ہلاکت کا موجب بن جاتی ہیں۔ اور جو خدا تعالیٰ کے فرمانبردار ہوتے ہیں، اُس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوتے ہیں، اُس کی رضا کی خاطر ہر کام بجا لانے والے ہوتے ہیں اُن کے دشمنوں کا بھی خدا تعالیٰ دشمن ہو جاتا ہے اور اُن کے دوستوں کا دوست ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو بھی کام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُس میں برکت ڈالتا ہے اُن کو کامیابیاں عطا فرماتا ہے۔ پس خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو اس کوشش میں رہتے ہیں کہ جب موت آئے تو ایسی حالت میں آئے کہ خدا تعالیٰ کے فرمانبردار اور حقیقی مسلمان بننے کی کوشش ہو۔ ہم احمدیوں کے لئے تو یہ نصیحت ہے ہی اور ہمیں اس کی کوشش میں لگا رہنا چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرماتے ہوئے زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ آخرین میں جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے نبی مبعوث ہو گا اُسے مان لینا اور ہم نے مان لیا تو اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنانا اور ڈھالنا اور اس پر قائم رہنا ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس کے لئے ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ ہم نے یہ ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ ہر احمدی کو یہ سامنے رکھنا چاہئے لیکن جیسا کہ میرے بعض الفاظ اور بعض فقروں سے ظاہر ہو رہا ہو گا کہ میں عامۃالمسلمین کو بھی اس حوالے سے توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ چنانچہ جب میں نے سیاسی لیڈروں یا مولویوں کا حوالہ دیا تو یہ اُن کے لئے بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ ایک طبقہ ایسا ہے جو ہمارے پروگرام دیکھتا اور سنتا ہے اور اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے کہ اُن تک جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ پس اس حوالے سے مَیں اُن لوگوں تک بھی یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں جو یہ سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مجھے پاکستان سے ہی ایک خط آیا اور اس طرح کے بعض دفعہ آتے رہتے ہیں۔ چند دوست جو غیر از جماعت ہیں اکٹھے بیٹھ کر ایم ٹی اے دیکھتے ہیں یا انہوں نے احمدیت کا کچھ مطالعہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تمام باتیں جو آپ کرتے ہیں، یہ سن کر اور زمانے کے تمام حالات دیکھ کر ہمیں یقین ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام سچے ہیں اور جماعت احمدیہ حق پر ہے۔ ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں لیکن ہم میں معاشرے کا اور مولوی کا خاص طورپر مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں بزدل سمجھ لیں کہ ہماری تمام ہمدردیوں کے باوجود، ہماری خواہش کے باوجود ہم جماعت میں اس خوف سے شامل نہیں ہو سکتے۔ مزید پڑھیں: حضرت یاسر، حضرت سُمیّہ اورحضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم