ایمان کی وہ دولت جو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے آپ کوعطا فرمائی ہے اس کو تمام بنی نوع انسان تک پھیلا نے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اپنی نسلوں اور بچوں کی تعلیم وتر بیت کی طرف بھی خاص توجہ دیں ۔ ایم ٹی اے خدا تعالیٰ کا خاص انعام ہے ۔اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر میرے خطبات اور تقاریراور ایم ٹی اے کے دیگر پروگرام دیکھا کر یں ۔ پیغام سیّدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز بر موقع ڈائمنڈ جوبلی مجلس انصار اللہ بھارت بسم اللہ الرحمن الرحیم نَحۡمَدُہ وَنُصَلِّیۡ عَلٰی رَسُوۡلِہِ الۡـکَرِیۡمِ وَعَلٰی عَبۡدِہِ الۡمَسِیۡحِ الۡمَوۡعُوۡد خداکے فضل اور رحم کے ساتھ ھو الــنّـــاصــر لندن z-04-06-15 پیارے ممبران مجلس انصار اللہ بھارت ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کا تہ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ مجلس انصار اللہ بھارت ڈائمنڈ جو بلی کے مو قعہ پر مختلف تقریبات کا انعقاد کر رہی ہے اور اس کے لئے مجھ سے پیغام بھجوانے کی درخواست کی گئی ہے ۔ میں اس موقعہ پر آپ کو چند نصا ئح کر نا چا ہتا ہو ں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کو بھیجا ۔ اور آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ کو انہیں ما ننے کی توفیق ملی۔ ایمان تبھی ترقی کر تا ہے جب کسی سلسلہ کے مر یدین کی جماعت اپنے روحانی پیشواکی تعلیمات پر عمل کر نے والی ہو ۔ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کی تعلیمات میں سے ایک خدمت دین کے کاموں میں حصہ لینے کی نصیحت بھی ہے ۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں : جو حالت میری توجہ کو جذب کرتی ہے اور جسے دیکھ کر میں دعا کے لئے اپنے اندر تحریک پاتاہوں وہ ایک ہی بات ہے کہ میں کسی شخص کی نسبت معلوم کر لوں کہ یہ خدمت دین کے سزاوار ہے اور اس کا وجود خداتعالیٰ کے لئے، خداکے رسول کے لئے، خداکی کتاب کے لئے اور خدا کے بندوں کے لئے نافع ہے۔ ایسے شخص کو جو دردوالم پہنچے وہ در حقیقت مجھے پہنچتا ہے ۔ فرمایا:ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے دلوں میں خدمت دین کی نیّت باندھ لیں جس طرز اور جس رنگ کی خدمت جس سے بن پڑے کرے۔(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 215جدید ایڈیشن) اس لئے پہلی نصیحت تو یہی ہے کہ انصارِدین بنیں ۔ جو خدمت آپ کے سپرد کی جائے اس کو خدا کا فضل سمجھیں اور اسے بہتر ین رنگ میں بجالانے کی کو شش کریں ۔سلسلہ کے کا موں سے آپ کو قلبی اطمینان نصیب ہو گا۔آپ کی روحانی ترقی کے سامان ہوں گے اور آپ کے نمونہ کو دیکھ کر آپ کی اولاد کو بھی نیک کاموں کو بجالا نے کی ترغیب ملے گی اور ان کے اندر خدمت دین کاشوق اور جذبہ پیدا ہوگا۔ اسی طرح تبلیغ کا کام بہت اہم اور وسیع کام ہے۔چند رابطے بنا کر مطمئن ہو جا نا اور کچھ لوگوں تک فولڈرز تقسیم کر لینا ہی کا فی نہیں ہے ۔ اپنے رابطے بڑھائیں ۔لوگوں کو جماعتی کتب ،ویب سائٹ اور ایم ٹی اے سے متعارف کرائیں ۔ہمارا کام ساری دنیا تک حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کی تعلیمات اور عقائد کی نشرواشاعت کر نا ہے ۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں : خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیاایشیاان سب کوجو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے۔یہی خداتعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیامیں بھیجا گیا ہوں ۔سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعائوں پر زور دینے سے۔(رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد20صفحہ 306، 307) پس ایمان کی وہ دولت جو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے آپ کو عطا فرمائی ہے اس کو تمام بنی نوع انسان تک پھیلا نے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں ۔ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھیں اور احمدیت کا پیغام فعّال رنگ میں پھیلا نے کے لئے ہنگا می بنیادوں پر پروگرام بنائیں ۔ پھر ایک اور ضروری نصیحت یہ ہے کہ اپنی نسلوں اور بچوں کی تعلیم وتر بیت کی طرف بھی خاص توجہ دیں ۔ اس زمانہ میں جو ٹی وی،انٹر نیٹ،فون وغیرہ نئی سے نئی ایجادات ہوئی ہیں اس میں کو ئی شک نہیں کہ ان کے فوائد بھی ہیں اور ان سے علمی ترقی بھی ہوئی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان چیزوں نے لوگوں کی مصروفیات اور رجحانات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے ۔اس لئے اپنے بچوں کی سر گرمیوں اورمصروفیات پر نظر رکھیں اور انہیں پیار سے سمجھاتے رہیں ۔انہیں دینی تعلیمات کے تابع رہ کر زندگی بسر کر نے کی نصیحت کر تے رہیں ۔انصار چونکہ گھروں کے سربرا ہ ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے جہاں خود کو دینی تعلیمات کا پابندبنانا ہے وہاں اپنے اہل وعیا ل سے بھی ان تعلیمات پر عمل کروانا ہے ۔نیک نمونہ کا وعظ و نصیحت کی نسبت زیادہ اثر ہوتا ہے۔آپ کو نمازوں میں باقاعدگی اوردعائوں کی طرف خاص توجہ کر نی ہو گی۔ تلاوتِ قرآن کریم اور حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کو اپناروزمرہ کا معمول بنانا ہو گا ۔خود کو خلافت سے چمٹائے رکھنا اور اس کی برکا ت اور اہمیت کو وقتاً فوقتاً اپنے اہل وعیال پر واضح کر تے رہنا ہو گا ۔اس زمانے میں ایم ٹی اے خدا تعالیٰ کا خاص انعام ہے ۔اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر میرے خطبات اور تقاریراور ایم ٹی اے کے دیگر پروگرام دیکھا کر یں ۔ اسی طرح انہیں دینی خدمت کے کاموں میں مصروف کریں اور ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں ۔ حضرت اقدس مسیح مو عود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اوراولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کر تا۔لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں مگر نہ اس لئے کہ وہ خادم دین ہو بلکہ اس لئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو۔ اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تر بیت کا فکر نہیں کیا جاتا۔نہ اس کے عقائد کی اصلا ح کی جاتی ہے۔اورنہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتاہے ۔یہ یاد رکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہوسکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا۔ جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی اُمید اس سے کیا ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایاہے رَبَّنَاھَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَاوَذُرِّیّٰتِنَاقُرَّۃَاَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا (الفرقان:75) یعنی خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرمادے اور یہ تب میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کر تے ہوں بلکہ عبادُالرّحمٰن کی زندگی بسر کر نے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدّم رکھنے والے ہوں ۔ (ملفوظات جلد اوّل۔صفحہ562، 563) اللہ تعالیٰ آپ کو میری ان نصائح پر عمل کر نے کی توفیق دے اور آپ کے ڈائمنڈ جوبلی کے تمام پروگراموں کو ہر لحاظ سے کا میاب اور بابرکت فرمائے۔ آمین والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس