https://youtu.be/MG67Zbqa-ng تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام(قسط ۷۰) حضرت مولوی سید احسن صاحب نےجماعت احمدیہ کی بنیاد رکھے جانے کے سال یعنی ۱۸۸۹ء میں ہی ۲۳؍اپریل کو بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ آپ ریاست بھوپال میں مہتمم مصارف تھے۔ نیز آپ نواب صدیق حسن خاں صاحب کی قائم کردہ مجلس علماء کے اہم رکن تھےاورتعلق امروہہ ضلع مرادآباد سے تھا۔ مولوی محمد احسن صاحب کی علمی خدمات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی الہام ’’از پئے آن محمد احسن را تارکِ روزگار می بینم‘‘ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام یہ الہام اور اس کا پس منظر درج کرکے فرماتے ہیں کہ ’’یعنی میں دیکھتا ہوں کہ مولوی سیّد محمد احسن امروہی اِسی غرض کے لئے اپنی نوکری سے جو ریاست بھوپال میں تھی علیحدہ ہوگئے تاخدا کے مسیح موعود کے پاس حاضر ہوں اور اُس کے دعوے کی تائیدکے لئے خدمت بجا لاوے۔…کیونکہ مولوی صاحب موصوف نے کمربستہ ہوکر میرے دعوے کی تائید میں بہت سی کتابیں تالیف کیں اور لوگوں سے مباحثات کئے اور اب تک اسی کام میں مشغول ہیں خدا اُن کے کام میں برکت دے اور اِس خدمت کا اُن کو اجر بخشے۔ آمین‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۳۴۶-۳۴۷) الغرض مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے اور مددگار صحابی تھے، گو بعد میں ان کو خلافت ثانیہ کےزمانہ میں مرکز قادیان سے تو اختلاف ہوگیا مگر جو عقیدت اور اخلاص ان کو حضرت مسیح موعودؑ سے تھا وہ اپنے رنگ میں خاص تھا۔ مذکور ہے کہ مولوی احسن صاحب ہر بات میں سے حضرت صاحبؑ کی صداقت کا ثبوت نکالا کرتے تھے۔چنانچہ ان کی اس عادت کو دیکھ کر ایک دفعہ یہاں تک کہا گیا کہ ان سے اگر اینٹ کی تعریف پوچھی جائے تو اس سے بھی وہ حضرت صاحبؑ کی تائید کا پہلو نکال دیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے یوں ہوا کہ عمر کے آخری حصہ میں جب وہ مرض فالج سے علیل تھے اور ان کے قویٰ مضمحل ہو چکے تھے وہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے وابستہ ہونے پر مجبور کردیے گئے تھے۔مگر جولائی ۱۹۲۶ء میں ان کی وفات کی اطلاع ملنے پر حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی مخصوص مجبوریوں کا ذکر کرکے ان کے کمزوری دکھانے کو قابل معافی قرار دیا۔ (الفضل قادیان، مورخہ ۳؍اگست ۱۹۲۶ء، صفحہ ۱۰) الغرض مولوی سید احسن امروہی اپنے وقت کے ایک جید عالم اور اسلامی علوم میں گہری بصیرت رکھنے والے محقق تھے۔ ان کی علمی خدمات کا ایک اہم پہلو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں تیار کی گئی تصنیفات ہیں جن میں انہوں نے نہ صرف دعاوی حضرت مسیح موعودؑ اور متفرق اسلامی اصولوں کا دفاع کیا بلکہ مخالفین کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کا بھی مدلل اور علمی انداز میں ردّ فرمایا۔ زیر نظر کتاب کو دیکھیں تو سامنے آتا ہے کہ ۱۹۰۳ءمیں شاہجہان پور سے ایک معاند نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک رسالہ ’’البرہان‘‘ شائع کیاچونکہ اس میں بعض بے بنیاد الزامات اور علمی مغالطے پیش کیے گئے تھے تو ایک مخلص احمدی حضرت بابو محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کی محبت و غیرتِ سلسلہ نے نہ چاہا کہ یہ کتاب لا جواب رہے اور انہوں نے حضرت مولوی محمد احسن امروہی صاحب سے گزارش کی کہ وہ اس کتاب کا جواب لکھیں۔چنانچہ مولوی صاحب نے دسمبر۱۹۰۳ء میں اس کا جواب ’’الفرقان فی جواب البرہان‘‘ نام سے لکھا اور ٹائٹل پر لکھا: ’’حسب فرمائش منشی محمد علی خان صاحب احمدی شاہ جہان پوری۔‘‘ ۲۵؍دسمبر۱۹۰۳ء کو مکمل کی گئی اس کتاب کے ۴۰؍ صفحات ہیں، جسے باراول میں ۳۰۰؍کی تعداد میں مطبع گلشن پنجاب راولپنڈی سے لالہ بوٹا مل صاحب مالک و مینیجر مطبع کے زیر اہتمام شائع کیا گیا۔ مصنف نے آغاز میں لکھا کہ ’’ آج میرے مطالعہ میں ایک رسالہ مسماۃ البرہان گزرا، جس نے شاہجہانپور سے امام آخر الزمانؑ پر خروج کرنا چاہا ہے، یہ خروج تو جائے تعجب نہیں ہے کیونکہ کوئی مصلح تب ہی مبعوث ہوتا ہے کہ جب دنیا میں ضلالت پھیل جاتی ہے۔‘‘ اس کے بعد مصنف صحیح البخاری کی روایت لاتے ہیں: ’’یذھب ا لصالحون الاول فالاول وتبقی حفالۃ کحفالۃ الشعیر او التمر لایبالیھم اللّٰہ بالۃ۔ رواہ البخاری۔ ترجمہ آخری زمانہ میں جاتے رہیں گے نیک لوگ۔ اول پس اول۔ اور باقی رہیں گے لوگ مانند بھوسا جو یا کھجور کے۔ نہیں پروا کرےگا ان کی اللہ تعالیٰ کچھ۔وہ یہ نہیں سمجھتا کہ جس چراغ کو اللہ تعالیٰ روشن کرنا چاہتا ہے وہ کسی کے پھونک مارنے سے بجھ نہیں سکتا ہے بلکہ اُس چراغ الٰہی کو پھونک مارنے والے کا ہی منہ جل کر سیاہ ہوجاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد کتاب کے صفحہ ۲ پرلکھا ہے کہ’’پھر مجھ کو ان مخالفوں کی مخالفت پر افسوس پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ اور دیگر علوم نقلیہ و عقلیہ کو نہیں جانتے یا اُس کی سمجھ نہیں رکھتے تو اس مثل مشہور کو ہی سمجھ لیتے کہ من جرب المجرب فقد حَلت بِہِ الندامۃ۔ تو پھر ان کو یہ مصائب اور دکھ اٹھانے نہ پڑتے کیونکہ مدت تیرہ یا چودہ سال کی تجربہ کرتے ہوئے گزر چکی کہ جن نام کے علماء یا مولویوں نے اس نور الٰہی کا مقابلہ… بڑے زور و شور سے کیا اُن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بموجب الہامات صادقہ شائع شدہ کے کیا کیا نتائج مل چکے ا کثر تو ہلاک ہوگئے اور بعض ذلیل و خوار ہوئے اور بعضوں کی پردہ دری لیاقت علمیہ کی مثل طشت ازبام افتادہ کے ہوچکی لیکن اس سراج منیر کی روشنی وقتاً فوقتاً عالمگیر ہوتی چلی جاتی ہے… غرضکہ ہم کو ایسے کاغذ ہائے بادی کی کچھ پروا تو نہیں ہے جو اس کے جواب کی طرف ہم اپنی تضیع اوقات کریں… مگر چونکہ مؤلف نے اول ہی سے نام رسالہ کا ’’البرہان‘‘…رکھا ہے اور اس کے اول ہی بسم اللہ غلط کی اور ایسی ابتری شروع کی ہے کہ بغیر بسم اللہ لکھنے کے بحث منطقی یعنی تناقض شروع کردی اور پھر نتائج ہیں بھی گفتگو کے جس سے عوام کو دھوکا ہوگا کہ مؤلف رسالہ فنون منطقیہ اور دیگر علوم رسمیہ سے بھی واقف اور خبردار ہے لہٰذا ہم اس وقت صرف یہ چاہتے ہیں کہ مؤلف رسالہ کی لیاقت منطقیہ اور نیز دیگر علوم رسمیہ کی واقفیت عوام پر واضح کردیں۔‘‘ مقدمہ کتاب میں فضائل قریش پر تحقیق پیش کی ہے اور بعض علماء کی فضائل قریش کے سمجھنے میں اجتہادی غلطی لگی ہے اس کا ازالہ کیا گیا ہے۔ صفحہ ۳ سے شروع ہونے والا یہ مقدمہ ٹھوس معلومات اور دلائل سے پُر ہے اور فاضل مصنف نے اس میں بتایا کہ قرآن مجید اور احادیث صحاح سے فضائل خاندان قریش کے بالضرور ثابت ہیں جن کی طرف سورت قریش اشارہ کررہی ہے اور پھرمصنف نے اس سورت کے تفسیری بیان اور مقدمات مطویہ پر روشنی ڈالی ہے۔ اور صفحہ ۸پر تفصیلی بحث کے بعد لکھا کہ ’’اب خلاصہ تفسیر سورہ قریش کا یہ ہوا کہ قریش بالضرور تمام دینیات میں متبوع اور مقتدا ہیں کہ الفضل للمتقدم اور سائر امت مرحومہ ان کے تابع ہے خواہ امت میں کوئی خلیفہ رسول کا ہو یا امام ہو یا مجدد ہو یا مہدی ہو یا مسیح موعود ہو۔ لیکن سورہ قریش سے یہ ہر گز نہیں پایا جاتا کہ سوائے قریش کے نہ کوئی امام ہوگا اور نہ کوئی مہدی وغیرہ ہوگا بلکہ متعدد مقاموں میں بصراحت بیان فرمایا گیا ہے کہ سوائے قریش کے دوسرے لوگ بھی پیشوا اور مقتداہونگے جیسا کہ سورہ جمعہ میں سوائے قریش کے دوسری قوم کو بلفظ وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ کے بیان فرمایا ہے۔‘‘ اس کے بعد مصنف نے ان احادیث کو لیا ہے جن میں فضائل قریش کے مذکور ہیں اور جن سے علماء کو دھوکا ہوا ہے کہ خلافت نبوت اور امامت سوائے قریش کے دوسری قوم میں نہیں ہوسکتی حالانکہ اس کا رد خود نصوص قرآنیہ میں موجود ہے۔ کتاب کے صفحہ ۱۳ تک پانچ ایسی احادیث کو درج کرکے ان کا عقلی او رنقلی جائزہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مصنف نے رسالہ البرہان کےمندرجات کا قولہ اور اقول کی طرز پر جائزہ لیا ہے جس میں احمدیوں پر تاویل کرنے کے الزام، کتاب عسل مصفّٰی پرایک اعتراض، مناظرہ کی اقسام، علم منطق کے اصول وغیرہ پر روشی ڈالتے ہوئے صفحہ ۳۷ تک یہ حصہ مکمل کیا ہے اور آخری تین صفحات میں مکرر صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قوی دلائل کو قرآن کریم اور احادیث نیز عقل و منطق کی رو سے واضح کیا ہے۔ الغرض یہ کتاب اُس دور کی علمی، روحانی اور فکری کشمکش کانقشہ بھی دکھا رہی ہے، جب مخالفین بے سروپا اعتراض گھڑ رہے تھے تب مخلص احمدی مروجہ علوم و عقلی استدلال کے ذریعے حق کو واضح کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔نیز یہ تصنیف نہ صرف حضرت مولوی سید احسن امروہی کی فکری بصیرت اور متداول علوم پر گہری مہارت کی آئینہ دار ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دفاع میں لکھی گئی کتب میں ایک اہم اضافہ بھی ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: قتل مرتد(از حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ )(قسط ۶۹)