لسان العرب اور تاج العروس میں جو لغت کی نہایت معتبر کتابیں ہیں لکھا ہے کہ زبان عرب میں ربّ کا لفظ سات معنوں پر مشتمل ہے اور وہ یہ ہیں۔ مَالِک، سَیِّد، مُدَبِّر، مُرَبِّی، قَیِّم، مُنْعِم، مُتَمِّم۔ چنانچہ ان سات معنوں میں سے تین معنی خداتعالیٰ کی ذاتی عظمت پر دلالت کرتے ہیں منجملہ ان کے مالک ہے اور مالک لغت عرب میں اس کو کہتے ہیں جس کا اپنے مملوک پر قبضہ تامہ ہواور جس طرح چاہے اپنے تصرف میں لا سکتا ہواور بلا اشتراک غیر اس پر حق رکھتا ہو اور یہ لفظ حقیقی طور پر یعنی بلحاظ اس کے معنوں کے بجز خداتعالیٰ کے کسی دوسرے پر اطلاق نہیں پا سکتا کیوں کہ قبضہ تامہ اور تصرف تام اور حقوق تامہ بجز خداتعالیٰ کے اور کسی کے لئے مُسلّم نہیں ۔ (منن الرحمٰن، روحانی خزائن جلد ۹صفحہ۱۵۲-۱۵۳، حاشیہ) دیکھو یہ لفظ ربُّ العالمین کیسا جامع کلمہ ہے اگر ثابت ہو کہ اجرام فلکی میں آبادیاں ہیں تب بھی وہ آبادیاں اس کلمہ کے نیچے آئیں گی۔ (کشتی ٔ نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۴۲حاشیہ) ہمارے خدائے عزّوجلّ نے سورۃ فاتحہ میں نہ آسمان کا نام لیا نہ زمین کا نام اور یہ کہہ کر حقیقت سے ہمیں خبر دے دی کہ وہ ربُّ العالمینہے یعنی جہاں تک آبادیاں ہیں اور جہاں تک کسی قسم کی مخلوق کا وجود موجود ہے خواہ اجسام خواہ ارواح ان سب کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا خدا ہے جو ہر وقت ان کی پرورش کرتا ہے اور ان کے مناسب حال ان کا انتظام کر رہا ہے۔ اور تمام عالَموں پر ہر وقت، ہردم اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور جزا سزا کا جاری ہے۔ (کشتی ٔ نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۴۱-۴۲) مزید پڑھیں: جلسہ سالانہ کا ایک مقصد: دعائے مغفرت