۳۱؍اگست ۲۰۲۵ء بروز اتوار (جلسہ گاہ Mendig جرمنی، ۳۱؍اگست ۲۰۲۵ ، نمائندہ انٹرنیشنل) آج ۴۹ویں جلسہ سالانہ جرمنی کا تیسرا دن ہے۔ دن کا آغاز حسب روایت صبح ساڑھے چار بجے باجماعت نماز تہجد سے ہوا جو مکرم عمران احمد بشارت صاحب مربی سلسلہ نے پڑھائی۔ سوا پانچ بجے عزیزم باسل احمد متعلم جامعہ احمدیہ نے فجر کی اذان دی۔ مکرم مبارک احمد تنویر صاحب مشنری انچارج جرمنی کی اقتداء میں ساڑھے پانچ بجے نماز فجر ادا کی گئی۔ جس کے بعد مکرم انصر بلال چٹھہ صاحب مربی سلسلہ نے سورۃ الانعام کی ۸۳ویں آیت کا درس دیا۔ آپ نے ظلم کو شرک ہی کی ایک قسم قرار دیتے ہوئے اس کی تفصیل میں ایمان کی مضبوطی اور استقامت کے حوالہ سے بعض دعاؤں کا ذکر کیا۔ اجلاس چہارم اتوار کے روز صبح ساڑھے دس بجے شروع ہونے والے اجلاس کی صدارت کے لیے حضور انور ایدہ اللہ نے امیر جماعت احمدیہ گھانا مکرم الحاج محمد بن صالح صاحب کو مقرر فرمایا تھا۔ ان کے کرسی صدارت پر متمکن ہونے کے بعد اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کی سعادت حافظ عطاء الرزاق بھٹی صاحب کے حصہ میں آئی۔ جس کا جرمن ترجمہ مکرم احمد نوید لون صاحب اور اردو ترجمہ مکرم نبیل احمد شاد صاحب مربی سلسلہ نے پیش کیا۔ مکرم رضوان احمد صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام لوگو سنو کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں جس میں ہمیشہ عادتِ قدرت نما نہیں میں سے چند اشعار ترنم سے پڑھے۔ آج کی پہلی تقریر مکرم محمد حماد ہیرٹر صاحب نے جرمن زبان میں زندہ خدا کے عنوان سے کی۔ انہوں نے بتایا کہ تمام مذاہب میں مشترکہ بات زندگی کو بامقصد گزارنے کا عمل ہے۔ آنحضرتﷺ نے اللہ پر ایمان لانے اور استقامت دکھانے کے جو طریق بتائے ہیں ان کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہ فرمائی ہے اس ضمن میں آپ نے حضور کی کتب نسیم دعوت، چشمۂ معرفت اور حقیقۃ الوحی کے اقتباس بھی پیش کیے۔ آپ نے مختصراً حقیقۃ الوحی میں زندہ خدا کی حقیقت کے دو سو سے زائد نشانات کا تذکرہ بھی کیا۔ آپ نے زندہ خدا کے حوالہ سے بائبل کا بھی تذکرہ کیا۔ آپ کے بعد مولانا شمشاد احمد قمر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی نے تقریر کی جس کا موضوع تھا ’’نظام جماعت کی برکات‘‘۔ آپ نے تقریر کے شروع میں کائنات زمین و آسمان کی پیدائش بطور نشان کے ہونے اور پھر شروع ہونے والے مختلف نظاموں کا ذکر کیا۔ ان نظاموں میں روحانی زندگی کی اہمیت، خلافت کا روحانیت سے تعلق اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی وحدت اور اس کے فوائد کا تفصیل سے ذکر کیا۔ آپ نے فرمانبرداری کے اصول اختیار کرنے سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک زور دار اقتباس بھی پیش کیا۔ آپ نے حضرت مصلح موعود ؓ کی طرف سے احباب کے سامنے اطاعت کا جو مفہوم بیان فرمایا گیا ہے اس کو بھی بیان کیا۔ آپ نے مثالوں سے واحظح کیا کہ خلیفہ وقت کی ہدایات پر عمل کرنے سے کس طرح برکتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ پرنسپل صاحب کی تقریر کے بعد افریقن ملک کیمرون کے صدر جو سٹیج پر موجود تھے کی انگریزی زبان میں لکھی تقریر ان کے سیکرٹری نے ڈائس پر آ کر پڑھی جس میں جماعت کی خدمات دینیہ اور سماجی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مکرم ہدایت اللہ ہبش صاحب مرحوم کی اسلام سے محبت میں لکھی نظم دو احمدی دوستوں Monos Nunez صاحب اور Philip Luka صاحب نے مل کر ترنم سے پڑھی۔ اس اجلاس کے آخری مقرر مکرم عبد اللہ واگس ہاوزر صاحب امیر جماعت احمدیہ جرمنی تھے جنہوں نے جماعت احمدیہ کی تاریخ اور فلسطین کی تاریخ کے خدوخال کے عنوان پر جرمن زبان میں تقریر کی۔ آپ نے ۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے دورہ فلسطین کے دوران محسوس کیے جانے والے خطرات اور ان کے اظہار کا تذکرہ کیا۔ آپ نے ۱۹۲۵ء میں فلسطین کے لیے عدل پر قائم ایک ریاستی حل کی تجویز کو دوہرایا اور اسی سال حیفا میں مسجد کے قیام کا اعلان فرمایا۔ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی عالمی سیاست کی کوششوں سے حضور نے خبردار کیا اور زمینیں فروخت کرنے والوں کو اس کام سے منع فرمایا۔ لیکن جیسا کہ عالمی سازشیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں آجکل بھی فلسطین کی سرزمین صہیونیوں کی سازش کا شکار ہے۔ پہلے بھی ایک احمدی کو ۱۹۴۸ء میں خدمت فلسطین کی توفیق ملی اور اب جبکہ ارض فلسطین بربریت کا شکار ہے خدا ایک احمدی کو نمایاں خدمت کی توفیق دے رہا ہے۔ امیر صاحب نے اس احمدی کی حفاظت کے لیے دعا کی درخواست کی۔ امیر صاحب کی اس تاریخی تقریر کے ساتھ آج کے اس اجلاس کی کارروائی اختتام کو پہنچی۔ جس کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا۔ چار بجے ظہر وعصر کی نمازیں ادا کی گئیں۔ جس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ کی صدارت میں ایوان مسرور، اسلام آباد سے جلسہ سالانہ کی اختتامی کارروائی کا آغاز ہوا۔ https://www.alfazl.com/2025/08/31/129564/