٭… سینکڑوں بستیاں زیرآب، ۲۰؍لاکھ افراد متاثر فصلیں تباہ، پنجاب اور سندھ میں ہا ئی الرٹ٭… ربوہ کے چاروں اطراف میں تازہ ترین سیلابی صورتحال اور جماعت احمدیہ کی امدادی کارروائیاں گذشتہ چند ہفتوں سےبھارت کے شمالی حصوں اور پاکستان کے صوبہ پنجاب و خیبر پختونخوا میں شدیدبارشوں اور ان کے نتیجے میں سیلاب، مٹی کے تودے گرنے اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات نے تباہی مچا دی۔ بھارت میں ان بارشوں کی وجہ سے جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقوں میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ بھارت میں ہونے والی اس سال کی مون سون بارشوں کو ۲۰۱۳ء کے بعد سب سے زیادہ شدید قرار دیا جا رہا ہے۔ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک اور لاکھوں متاثر ہو چکے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ سڑکیں، پل، اور رہائشی مکانات بڑی تعداد میں تباہ ہو چکے ہیں، جس سے معمول کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ حکام نے آئندہ دو سے تین ہفتے انتہائی نازک قرار دیے ہیں اور عوام کو محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ریسکیو ٹیمیں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں تاکہ سیلابی ریلوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالا جاسکے اور انہیں ضروری سامان فراہم کیا جا سکے۔ بھارت میں جاری ان شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال نے پاکستان میں ہونے والی سیلابی صورتحال کو مزید ابتر کردیا ہے۔ بھارت کے دریاؤں اور بیراجوں سے اضافی پانی چھوڑنے کے نتیجے میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں شدید سیلاب آیا ہے۔ بھارت کی جانب سے راوی دریا پر ماڈھوپور بیراج سے پہلے واقع رنجیت ساگر ڈیم میں بھی پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی اور ایک ہی دن میں ڈیم سے ایک لاکھ ۱۰؍ہزار کیوسک سے زیادہ پانی چھوڑا گیا۔ ہماچل پردیش میں پانڈوہ ڈیم کے گیٹ بھی کھول دیے گئے تاکہ بیاس دریا سے اضافی پانی کو نکالا جا سکے، جس سے نیچے کے علاقوں میں سیلاب مزید بڑھ گیا۔ اسی طرح، تھین ڈیم، بھاکرہ ڈیم، پونگ ڈیم اور سکھنا جھیل کے گیٹ بھی کھولے گئے، جس سے ستلج، راوی اور گھگر دریاؤں میں پانی چھوڑا گیا۔ پاکستان میں سیلابی تباہی خیبرپختونخوا سے شروع ہوئی جہاںضلع بونیر میں فلیش فلڈز کے نتیجہ میں دوسو سے زائد اموات ہوئیں، درجنوں گھر اور گاؤں تباہ ہو گئے۔ وادی سوا ت کے بحرین اور مینگورہ کے علاقوں میں بارشوں اور لینڈ سلائیڈز نے ۲۲؍جانیں لے لیں اور ۴۰۰؍گھروں، ۱۲۴؍سکولوں کو نقصان پہنچایا۔ اس طرح گذشتہ دنوں کراچی میں ۱۷۸؍ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی جس کے باعث سڑکیں ندی نالوں میں بدل گئیں، پروازیں منسوخ ہوئیں اور بجلی کی بندش نے زندگی مفلوج کر دی۔ حالیہ دنوںمیں مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال نے پاکستان کے دیگر حصوں کو متاثر کرنے کے بعد صوبہ پنجاب میں شدید تباہی پھیلانا شروع کردی ہے۔ سیلابی ریلوں نے پنجاب کے متعدد علاقوں میں تباہی مچا دی ہے۔ دریا بپھر گئے ہیں، سینکڑوں دیہات ڈو ب گئے، فصلیں تباہ، مویشی بہ گئےکئی شہروں میں رین ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، ساڑھے سات لاکھ افراد محفوظ مقامات پر منتقل کر دیئے گئےہیں، خیمہ بستیاں قائم کردی گئی ہیں، سکھوں کے مقدس مقام کرتارپور دربار میں پانی داخل ہوگیا ہے۔ ہیڈ قادر آباد بچانے کےليے دریائے چناب کے دو بند توڑنے پڑے۔ پنجاب کے سیلاب سے شدید متاثرہ اضلاع میں امدادی کارروائیوں میں ضلعی انتظامیہ کی مدد کے ليے فوج طلب کرلی گئی ہے۔ متعدد علاقوں میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی اطلاعات ہیں۔ تشویش کی یہ کیفیت اس صورت میں اور بڑھ جاتی ہے کہ راوی اور چناب کےليے ۴۸؍ گھنٹے نہایت نازک قرار دیے گئے ہیں۔ ۲۲۰۰ بستیاں زیر آب، لاکھوں افراد متاثر، سینکڑوں ایکڑرقبے پر کاشت کی گئی تیار فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، لاکھوں ایکڑ زرعی زمین بربادہوچکی ہے، شہریوں کی بڑے پیمانے پرنقل مکانی جاری ہے، اسلام آباد،کراچی، لاہور اور سیالکوٹ سمیت ملک بھر میں چند دنوں میں آنے والی بارشوں کا الرٹ جاری کردیا گیا ہے، تین بپھرے دریاؤں یعنی دریائے چناب، دریائے راوی اور دریائے ستلج نے بڑے پیمانے پر پنجاب کے دیہات اور شہروں میں تباہی مچا دی ہے۔ انتظامیہ، فوج اور رینجرز کی امدادی کارروائیوں میں تیزی آچکی ہے، ملتان شہرکو بچانے کےليے دوبنداڑانے کا فیصلہ کرلیاگیا ہے۔ دریائے راوی میں شاہدرہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ ایک لاکھ ۸۳؍ ہزار کیوسک سے زائد ہو گیا ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ کے مطابق جمعہ کی دوپہر تک دریائے راوی سے ۲ لاکھ کیوسک کا ریلا گزرنے کا امکان ہے۔ دریائے راوی کی گنجائش ۲ لاکھ ۵۰؍ ہزار کیوسک ہے، راوی سائفن سے ایک لاکھ ۹۲؍ ہزار کیوسک کا ریلہ گزر رہا ہے، بہاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سیلابی راستوں سے مٹی ہٹانے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ریسکیو کے مزید اہلکار طلب اور اضافی کشتیاں بھی منگوا لی گئی ہیں۔ کمشنر لاہور کا کہنا ہے کہ راوی سائفن پر پانی کا بہاؤ مستحکم ہو گیا ہے، راوی کے بیڈ سے انخلا مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ قریبی علاقوں سے انخلا جاری ہے۔ دریائے ستلج میں سیلابی پانی کا دباؤ شدید ہونے کے باعث بہاولپور میں بستی یوسف والا اور احمد والا کے عارضی بند ٹوٹ گئے، بند ٹوٹنے سے بستی احمد بخش اور قریبی آبادیاں بھی سیلابی پانی میں گھر گئی ہیں۔ پانی کے بہاؤ میں تیزی کے باعث زمینی کٹاؤ میں تیزی آ گئی ہے، سینکڑوں ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی کپاس، دھان یعنی چاول سمیت کئی فصلیں زیر آب آگئی ہیں جبکہ دریا کے بیٹ(کناروں) میں آباد سینکڑوں افراد اب بھی اپنے گھروں میں بے یارومددگار موجود ہیں۔ دریائے ستلج میں وہاڑی کے مقام پر لڈن کے قریب موضع نون میں حفاظتی بند ٹوٹ گیا جس سے پانی قریبی دیہات میں داخل ہونے سے درجنوں بستیاں زیرِ آب آگئیں۔ دریائے راوی میں ہیڈ بلوکی کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے اور ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ ہیڈ بلوکی کے مقام پر پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ریسکیو ٹیموں کی جانب سے سینکڑوں افراد کو محفوظ جگہ پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ملتان کو بچانے کے لیے ایمرجنسی صورتحال میں رنگ پور سےلے کر علی پور اور دوسری طرف بصیرہ، چوک قریشی، غازی گھاٹ تک پانی کو راستہ دینے کے لیے مختلف کٹ لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈی سی مظفر گڑھ نے ہنگامی میٹنگ میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملتان آرمی ہیڈ کوارٹر اور ڈی جی خان میٹرالرجی اور یورینیم سینٹرز کو بچانے کے لیے پانی کارخ باقی شہروں کی طرف کر دیا جائے گا۔ اگر رنگ پور تک پنجاب، راوی، ستلج اور سندھ کا پانی ۷ لاکھ ہوا تو صرف بیٹ کے علاقے متاثر ہونگے لیکن اگر ۸ لاکھ سے تجاوز کر گیا تو رنگ پور مظفر گڑھ، خان گڑھ، روہیلانوالی، شہر سلطان، بیٹ میر ہزار، جتوئی بھی زد میں آ سکتے ہیں۔ دریائے چناب میں اونچے درجے کا سیلاب ہے جو کہ دریائے چناب کی تاریخ میں سب سے بڑا سیلاب ہے۔ ۲۰۱۴ء میں ۸ لاکھ۶۵ہزار کیوسک پانی ربوہ اور چنیوٹ سے گزرا تھا۔ ڈی سی چنیوٹ نے کہا ہے کہ چنیوٹ شہر کو بچانے کی ہماری پہلی ترجیح ہوگی اگرچنیوٹ، لاہور روڈ کے بند تک آٹھ لاکھ سے زائد کا ریلا آگیا تو چنیوٹ سمیت بہت سے دیہات اور شہروں میں چھ سات فٹ تک پانی آجائے گا۔ اس لیے ہرسہ شیخ اور کوٹ محمد یار کے قریب ڈائنامائیٹ لگا کر بند میں شگاف کرنے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ ان علاقوں کے شہری سراپا احتجاج بن گئے۔ ربوہ کے وہ علاقے جہاں سیلاب کے پانی کے آنے کا امکان ہے وہاں سے احمدی احباب کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جارہاہے۔ ان کی رہائش، خوراک اور دیگر ضروریات کا انتظام کیا جائے گا۔ دریائے چناب میں ربوہ اور چنیوٹ کے درمیانی پُل کے نیچے سے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات کے وقت ساڑھے آٹھ لاکھ کیوسک کے قریب پانی گزر رہا تھا اورآئندہ چوبیس گھنٹوں میں دس لاکھ سے اوپر تک پانی کے ریلےکے گزرنے کی مقدار بتائی جارہی ہے۔ خاکسار نے پانی کی رفتار اور پرانے پل کے پلروں سے ٹکراکر بپھرے پانی کی خوفناک آواز سنی اور اندازہ لگایا کہ اس انتہائی تیز رفتار سے جانے والے پانی کی تباہی مختلف دیہات، شہروں اور فصلوں کو آسانی سے تباہ کرسکتی ہے، اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی محفوظ رکھ سکتی ہے۔ ربوہ اڈہ اور بہشتی مقبرہ دارالفضل کے شمالی طرف کوٹ امیر شاہ سمیت متعدد گاؤں بھی زیر آب آگئے ہیں۔ جب ربوہ اور احمد نگر کے درمیانی پل کا جائزہ لیا گیا تو اس کے نیچے سے پانی کا بہت تیز بہاؤ دیکھنے کو ملا جو شمال سے جنوب کی طرف جارہا تھا، اور جو ریلوے لائن کے نیچے سے گزرتا ہوا دارالصدر غربی حلقہ لطیف، فیکٹری ایریا اور طاہرآباد وغیر ہ کے محلہ جات کے زیریں علاقہ کو ٹچ کرتا ہوا بہ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی ان محلہ جات کے اندر پانی نہیں آیا۔ تاہم خدام کی ٹیمیں مسلسل چوبیس گھنٹے ان محلہ جات میں ڈیوٹی پر موجود ہیں۔ مذکورہ محلہ جات کے گھروں کے دروازوں کے باہر حفظ ما تقدم کے طور پر مٹی اور ریت سے بھری ہوئی پلاسٹک کی بوریاں رکھ دی گئی ہیں۔ دوسری طرف دارالیمن کے بند کو اب بہت پختہ کردیا گیا ہے وہاں ڈیوٹی پر موجود انچارج نے خاکسار کو بتایا کہ اس بند کی اونچائی اور چوڑائی میں بھرپور اضافہ کردیا گیا ہے نیز پتھروں، ریت اور مٹی کی مزید مقدار شامل کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اب وہاں سے سیلابی ریلے کے داخل ہونے کا امکان ختم ہوگیا ہے، طاہرآباد غربی سے آگے ساہیوال روڈ پر موجود پل کے نیچے سے بھی پانی کا بڑا ریلہ گزر رہا ہے۔ اس سے آگے سانگرہ، ڈاور اور ان سے ملحقہ علاقوں اور دیہات کے اندر پانی گھس آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہشتی مقبرہ توسیع سے دس ایکڑ کے فاصلے سے پانی کا ریلہ گزر رہا ہے۔ اس سے ملحقہ بستی بُرجی کی اگلی سائیڈ سے ہوتا ہوا جنوب کی طرف کو مڑ جاتا ہے۔ آگے آئیں تو نصرت آباد، دارالاحسان، چھنی، کھچیاں کی آبادی اور ڈگری کالج کے قریب پانی آچکا ہے۔ اس کے علاوہ محلہ دارلشکر جنوبی اور دارالعلوم شرقی کا نواحی علاقہ باجوہ کالونی کے اندر پانی آچکا ہے۔ جماعت احمدیہ اپنی روایات کے مطابق اس بدترین سیلاب کے موقع پر مختلف جگہوں پر امدادی کارروائیا ں انجام دے رہی ہے۔ ربوہ کے گردونواح میں کشتیوں اور دیگر ذرائع سے سیلاب میں گھرے ہوئے متاثرین کو محفوظ مقامات پر پہنچانے اور ان کو ضروری راشن مہیا کرنے کے کام سرانجام دے رہی ہے۔ مرکزی نظام کے تحت مختلف محلہ جات میں آنے والے متاثرین کو کھانا کھلانے اور ضروریات کی اشیاء دینے کا کام جاری ہے۔ اس سلسلہ میں نصیر آباد عزیز میں ایک مرکزی کیمپ لگایا گیا ہے جہاں بڑے پیمانے پر کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظام کیا گیا ہے۔ جہاں اپنوں اور غیروں کو بلاتمیز مذہب و ملت کھانا کھلایاجاتا ہے، ادویات اور ضرورت کی اشیاء مہیا کی جاتی ہیں۔ وہاں کے انچارج صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے خاکسار نے ان سے ان کے کاموں کی تفصیل دریافت کی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جماعتی روایات کے مطابق وہاں ہر سیلاب کے متاثر سے ایک جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر محلہ جات یعنی دارالیمن اور دارالفضل وغیرہ میں بھی ریلیف کیمپ لگائے گئے ہیں، جہاں کھانا، ادویات اور ضرورت کی اشیاء موجود ہیں۔ یہ تھی ربوہ کے چاروں اطراف میں تازہ ترین سیلابی صورتحال۔ حضرت فضل عمر ؓ کی بسائی ہوئی یہ بستی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر لحاظ سے سیلاب سے محفوظ و مامون ہے۔ یہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر فضل اور احسان ہے۔ ربوہ سے غربی طرف سفر کریں تو ربوہ اور سرگودھا کے درمیانی شہر کوٹ مومن کی حدود میں گذشتہ روز ۶ لاکھ کیوسک کا ریلا داخل ہوا، پانی کھیتوں اور قریبی آبادیوں میں داخل ہونا شروع ہو گیا جبکہ آج ۱۰؍ لاکھ کیوسک کا ریلا کوٹ مومن سےگزرنےکا امکان ہے۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق آج جمعہ ۲۹؍ اگست سے دو ستمبر تک ملک کے بالائی اور وسطی علاقوں میں مزید بارشیں متوقع ہیں۔ سندھ میں بھی سیلاب کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں متعلقہ سرکاری اداروں کو چوکس کرنے کے علاوہ خیموں، مشینری، دواؤں کی فراہمی سمیت ضروری تیاریاں یقینی بنائی گئی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کے جوانوں کے علاوہ ایک انجینئر بریگیڈ، ۱۹؍ انفنٹری، ۷ انجینئرز اور میڈیکل یونٹس امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ اس وقت ملک تباہ کن سیلاب کی صورت میں ایک بڑے چیلنج کا سامنا کررہا ہے۔ (رپورٹ: ابوسدید) مزید پڑھیں: سویڈن کے مختلف شہروں میں مبلغین سویڈن کا پانچ روزہ تبلیغی دورہ