ملکہ الزبتھ ثانی سال میں دو مرتبہ اعزازات کا اعلان کرتی ہیں۔ ایک تو سالِ نَو کے موقع پر اور پھر اپنی رسمی سالگرہ کے موقع پر جو سرکاری طور پر جون کے د وسرے ہفتہ کے روز منائی جاتی ہے۔ ملکہ معظمہ کی تاریخ پیدائش تو 21اپریل 1926ء ہے لیکن سرکاری طور پر اس کو جون میں منایا جاتا ہے۔ اعلانات کے بعد اعزازات دینے کی تقاریب ہوتی ہیں جسے Investiture کہتے ہیں۔ سال کے دوران 25 Investitures منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک ایڈنبرا سکاٹ لینڈ میں Holy rood house میں ہوتا ہے۔ باقی سارے بکنگھم پیلس لندن میں ہوتے ہیں۔ جب ملکہ خود Investitureکے لئے نہ آسکیں تو ان کی جگہ ان کے بیٹے پرنس چارلز یا شاہی خاندان کا کوئی اور فرد آجاتا ہے۔ ایک Investiture میں قریباً 120لوگ اعزازات حاصل کرنے کے لئے شامل ہوتے ہیں۔ بکنگھم پیلس کا ذکر ہوا ہے۔ اس کے بارہ میں بھی کچھ بتا دینا دلچسپ ہو گا۔ لندن جو بھی سیر کے لئے آتا ہے وہ بکنگھم پیلس تو ضرور دیکھ کر جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ ہر سال شاہی خاندان کی یہ رہائشگاہ دیکھنے آتے ہیں۔ خاص طور پر وہ پریڈ جب گارڈز بدلتے ہیں یعنی جب ایک دستہ دوسرے دستے کو ذمہ داری دے کر رخصت ہوتا ہے۔ ان کی یونیفارم اور پریڈ کا انداز ایک دلکش منظر ہوتاہے۔ اس پیلس کی جو صورت آج نظر آتی ہے اس میں کافی ردّ و بدل ہوتا رہا ہے۔ اصل بلڈنگ کوئی خاص نہیں تھی۔ یہ 1703ء میں ڈیوک آف بکنگھم کی ذاتی رہائش کے لئے بنائی گئی تھی۔ اس پر اس کا نام بکنگھم ہاؤس رکھا گیا تھا۔ یہ گھر جارج ثالث نے 1761ء میں اپنی بیگم ملکہ شارلٹ کی رہائش کے لئے خرید لیا۔ اس پر بکنگھم ہاؤس کے بجائے اس کا نام کوئینز ہاؤس رکھ دیا گیا۔ 1762ء میں ملکہ شارلٹ نے اپنی سہولت کے لئے اس مکان میں کافی تبدیلیاں کرائیں اور کثیر رقم خرچ کی جو تھی تو 73ہزار پونڈ لیکن اس وقت کے حساب سے بڑی رقم تھی۔ پھر جب جارج ثالث کا بیٹا تخت پر آیا تو اس نے کوئینز ہاؤس کو وسیع کرنے کے لئے پارلیمنٹ کو تین چار لاکھ پونڈ منظور کرنے کے لئے کہا اور ایک آرکیٹیکٹ جان نیش کو کہا کہ وہ اس ہاؤس کو پیلس میں بدل دے جو شاہی خاندان کی رہائش کے لائق ہو۔ نیش نے کافی حصے گرا کر دوبارہ تعمیر کرائے اور صحن میں ایک ماربل آرچ بھی بنوائی۔ یہ ماربل آرچ اب پیلس کے باہر ہائیڈ پارک کارنر میں ہے۔ یہ منصوبہ 1826ء میں شروع ہوا اور اس پر لاپرواہی سے خرچ کیا گیا۔ 1829ء تک پانچ لاکھ پونڈ سے اوپر خرچ کیا جا چکا تھا۔ یہاں تک کہ نیش کو برطرف کر دیا گیا۔ اور چند سال تک یہ مکان خالی پڑا رہا۔ 1837ء میں جب ملکہ وکٹوریہ کا دور شروع ہوا تو اس نے دیکھا کہ جو عمارت بنائی گئی تھی اس میں بہت سی خامیاں ہیں اور وہ رہائش کے قابل نہیں چنانچہ ایک اور آرکیٹیکٹ رکھا گیا اور کافی ردّ و بدل کیا گیا۔ یہ سلسلہ جنگِ عظیم تک چلتا رہا۔ جنگ عظیم کے دوران 1940ء میں اس پیلس پر سات دفعہ بم گرائے گئے اور عبادت کے لئے اس میں جو چرچ بنایا تھا وہ تباہ کر دیا گیا۔ آج جو بکنگھم پیلس ہمارے سامنے ہے اس میں 775 کمرے ہیں۔ ان میں 19 کمرے شاہی رہائشگاہ کے لئے ہیں۔ 240 بیڈروم ہیں۔ 92 دفتر ہیں۔ 78 غسلخانے ہیں۔ ہر سال قریباً پچاس ہزار لوگ مختلف تقاریب کے لئے پیلس میں آتے ہیں۔ ویسے روز مرہ کے معمول میں اس پیلس میں ملکہ کے دفاتر چلتے ہیں۔ ملکہ کے خاوند پرنس فلپ کے الگ دفتر ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں پیلس کی سیر کے لئے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور اس میں پیلس کی عمارت سے بڑھ کر ملکہ کی کشش ہے۔ Investituresکی تقاریب بکنگھم پیلس کے Ball روم میں ہوتی ہیں۔ ملکہ تقریب کے لئے دو افسروں کے ساتھ آتی ہیں۔ یہ طریق ملکہ وکٹوریہ نے 1876ء میں شروع کیا تھا۔ علاوہ ازیں سٹیج پر ملکہ کے پانچ باڈی گارڈ ہوتے ہیں۔ یہ طریق کنگ ہنری ہفتم کے زمانہ میں 1485ء میں شروع ہوا تھا۔ کنگ ہنری نے Bosworth Field کی فتح کے بعد اپنے لئے پانچ باڈی گارڈز کا دستہ مقرر کیا تھا اور یہ دستہ اب بھی پانچ باڈی گارڈز پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ چارافسرملکہ کے ساتھ ڈیوٹی پرہوتے ہیں اور وہ اعزاز لینے والوں اور ان کے مہمانوں کی نشستوں اور تقریب کے انتظامات کا خیال رکھتے ہیں۔ موسیقی کا انتظام بھی ہوتا ہے جو ملٹری کا ایک آرکیسٹرا پیش کرتاہے۔ ملکہ کے آنے پر قومی ترانہ پیش کیا جاتاہے اور پھر ایک افسر ملکہ کے دائیں ہاتھ کھڑا ہو کر مائیک پر ہر ایک اعزاز کا باری باری اعلان کرتا ہے اور اعزاز حاصل کرنے والا ایک ساتھ والے دروازے سے بال روم کے اندر داخل ہو کر ملکہ کے قریب کھڑا ہو جاتا ہے۔ مائیک پر یہ بھی بتایا جاتاہے کہ یہ اعزاز کس وجہ سے دیا جارہا ہے۔ ملکہ کے قریب کھڑے ایک اور افسر کے ہاتھ میں Velvetکا ایک تکیہ ہوتا ہے جس کے اوپر وہ تمغہ یا جو بھی اعزازی نشان ہو رکھ کر ملکہ کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ ساتھ ایک دوسرا سینئر افسر بھی ہوتا ہے جو چیک کرتا ہے کہ صحیح تمغہ پیش کیا جارہا ہے۔ ملکہ تمغہ لے کر اعزاز حاصل کرنے والے یا والی کو لگا دیتی یا پہنا دیتی ہے۔ ان لمحات کے دوران وہ بات بھی کرتی ہے اور بعض دفعہ یہ گفتگو تمغہ لگا دینے کے بعد بھی ایک دو منٹ کے لئے جاری رہتی ہے۔ جن کو نائٹ ہُڈ (Knighthood) کا اعزاز ملتا ہے ان کے لئے ایک چھوٹا سا سٹول ہوتاہے جس کے اوپر ایک خوبصورت ویلویٹ کا تکیہ ہوتاہے۔ وہ اس کے اوپر دایاں گھٹنا رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ملکہ ان کو اپنے Knights میں شامل کرنے کے لئے ایک تاریخی تلوار سے پہلے ان کے دائیں اور پھر بائیں کندھے کو چھوتی ہے۔ یہ تلوار ملکہ کے والد محترم کنگ جارج ششم کے استعمال میں تھی جب وہ بحیثیت ڈیوک آف یارک سکاٹس گارڈز کے کرنل تھے۔ اس طرح اعزازات دینے کی یہ کارروائی چلتی رہتی ہے۔ اعزازات مختلف آرڈرز کے تحت دیئے جاتے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ معروف آرڈر۔ آرڈرآف دی برٹش ایمپائر ہے۔ اکثر لوگوں کو ممبر آف دی برٹش ایمپائر (MBE) کا اعزاز ملتا ہے۔ اس سے بڑھ کر افسر کا رتبہ ہے اور پھر کمانڈر کا اور اس آرڈر کا اعلیٰ ترین ایوارڈ KBE یعنی نائٹ کمانڈر ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نائٹ ہڈ کسی کو زندگی میںایک ہی مرتبہ ملتا ہے۔ بعض اور بھی اعزازات ہیں جو مخصوص آرڈرز سے باہر ہیں۔ ان میں ملکہ کے سروس میڈل ہیں۔ جیسے پولیس میڈل، ریڈ کراس میڈل۔ اسی طرح بہادری اور شجاعت کے میڈل بھی ہیں۔ اگر کوئی اپنا میڈل حاصل کرنے سے پہلے فوت ہو جائے تو میڈل اس کے ورثاء کو دے دیا جاتا ہے لیکن آرڈر کے تحت جو اعزازات دیئے جاتے ہیں جیسے ایم بی ای یا او بی ای وغیرہ وہ وفات کی صورت میں ورثاء کو نہیں دیئے جاتے۔ ان اعزازات کی دفتری کارروائی کے لئے اور پھر اعزازات کی تقریب کے انتظامات کے لئے ایک الگ ڈیپارٹمنٹ ہے جو سارا سال انہی کاموں میں مشغول رہتا ہے۔ اگر کوئی ملک سے باہر ہو اور ملکہ سے اعزاز حاصل کرنے کے لئے موجود نہ ہو سکے تو ملکہ کے نمائندے یعنی گورنر سے یہ اعزاز حاصل کر سکتا ہے یا پھر برٹش ایمبیسڈر سے لے سکتا ہے۔ شاہی اعزازات میں سب سے اعلیٰ برٹش ایمپائر کا آرڈر ہے۔ اس کے تحت برٹش فرمانروا کی طرف سے بہادری اور اولوالعزمی پر اعزازات دیئے جاتے ہیں۔ فوج میں خدمات کے علاوہ سول سوسائٹی کی خدمات یا سائنس یا ٹیکنالوجی میں خاص خدمات پر بھی اعزازات دیئے جاتے ہیں۔ برٹش ایمپائر کا آرڈر کنگ جارج پنجم نے 4جون 1917ء کو جاری کیا تھا۔ اس کے تحت پانچ ملٹری اور سول اعزازات دیئے جاتے ہیں۔ ان میں سے اعلیٰ ترین نائٹ کا اعزاز ہے۔ یہ اعزازات ایم بی ای سے شروع ہوتے ہیں۔ اس سے اوپر او بی ای ہے اور پھر سی بی ای اور پھر کے بی ای اور جی بی ای ۔نائٹ ہڈ کے ساتھ سر (SIR) کا خطاب ہے۔ عورتوں کو DAMEکا خطاب دیا جاتا ہے۔ ان اعزازات کے لئے وزیراعظم یا گورنرز کی طرف سے ملکہ کی خدمت میں سفارش پیش کی جاتی ہے۔ ایک سال میں ساری دنیا میں جہاں جہاں بھی ملکہ ہیڈ آف سٹیٹ ہے زیادہ سے زیادہ 845نائٹ کمانڈرز بنائے جا سکتے ہیں۔ 858او بی ای اور 1464 ایم بی ای لیکن عموماً تعداد کم ہی ہوتی ہے۔ جب سے اس آرڈر کا 1917ء میں آغاز ہوا تھا اب تک قریباً ایک لاکھ لوگوں کو اعزازات مل چکے ہیں لیکن ان میں نائٹ کا اعزاز ملنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ امسال 13جون کو ملکہ کے برتھ ڈے کے موقع پر مجھے KBE کا یعنی نائٹ کمانڈر کا اعزاز دیا گیا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اوراحمدیت اور خلافت احمدیہ کی برکات کے باعث تھا۔ اس اعزاز کے ساتھ سر کا خطاب بھی ہے۔ اعزازات دیئے جانے کے لئے بکنگھم پیلس میں تقریب یعنی Investiture Ceremony کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مجھے اس کے لئے 10نومبر2015ء کو Investiture میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ اس کے لئے صبح دس بجے پیلس گئے۔ میرے ساتھ میری بیگم لیڈی امۃ الباسط اور دو بیٹیاں بشریٰ اور فرزانہ تھیں۔ پیلس میں داخل ہوتے ہی خوبصورت یونیفارم میں ملبوس گارڈز نے ہمارا استقبال کیا اور گارڈز مہمانوں کو الگ ہال میں لے گئے اور مجھے الگ ہال میں جہاں اعزاز حاصل کرنے والوں کے لئے Receptionکا انتظام تھا۔ یہ ہال پیلس کے بال روم کے ساتھ تھا اور اس میں ایک دروازہ تھا جس میں سے بال روم میں داخل ہوسکتے ہیں۔ یہاں اعزاز حاصل کرنے کی جو تقریب ہے اس کی تفصیل بتاتے ہیں اور ریہرسل بھی کرا دیتے ہیں۔ بال روم میں مہمانوں کے لئے قریباً 150کرسیاں ہیں۔ سامنے سٹیج ہے جس پر ملکہ کھڑے ہو کر اعزازات دیتی ہے۔ اس تقریب میں KBE کا صرف ایک اعزاز تھا جو احمدیت کے اس ادنیٰ ترین خادم افتخار ایاز کے لئے تھا۔ آڑدر آف برٹش ایمپائر کا یہ اعلیٰ ترین ایوارڈ ہے۔ اس کے لئے ملکہ نے سب سے پہلے مجھے بلایا۔ بلانے کا طریق یہ ہے کہ ملکہ کے دائیں ہاتھ ایک افسر مائیک پر اعزاز اور اس کے حاصل کرنے والے کا نام پڑھ کر سناتا ہے اور اس پر اعزاز حاصل کرنے والا بال روم کے اندر داخل ہو جاتاہے۔ جب میں بال روم کے اندر آیا تو میرے دل سے یہ آواز نکلی کہ یا اللہ میں تیرے مسیح کا ایک ادنیٰ غلام ہوں تو اس ملکہ اور اس کے خاندان کو مسیح الزمان کا نور عطا کر۔ پھر جب میں ملکہ کے پاس آیا تو وہاں ایک چھوٹا سا سٹول تھا جس کے اوپر ویلویٹ کا ایک خوبصورت تکیہ تھا اس پر دایاں گھٹنا ٹیک کر مجھے بیٹھنا تھا تا ملکہ اپنی روایتی تلوار سے پہلے میرے دائیں کندھے اور پھر بائیں کندھے کو چھو سکے۔ اس کے بعد میں ملکہ کے قریب اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ ملکہ نے میرے گلے میں نائٹ ہڈ کا میڈل ربن کے ساتھ پہنایا اور پھرنائٹ کمانڈر کا بہت ہی خوبصورت ستارہ نما Insignia میرے کوٹ پر لگا دیا۔ پھر خود ہی کہنے لگیں تم پہلے بھی مجھ سے اعزاز لے چکے ہو (اوبی ای کااعزاز 1998ء میں دیا تھا) تم نے Realms کی بہت خدمت کی ہے۔ میں نے ملکہ کو برطانیہ کی سب سے زیادہ لمبا عرصہ فرمانروا رہنے پر مبارکباد دی۔ ان سے پہلے سب سے زیادہ لمبا عرصہ تخت پر رہنے والی ان کی دادی ملکہ وکٹوریہ تھیں اور 8ستمبر 2015ء سے اب یہ ہیں۔ مبارکباد کے ساتھ دعا دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں جہانوں کی برکتیں عطا کرے۔ مختصرسی گفتگو تھی۔ اس کے بعد ایک شاہی گارڈ نے مجھے ایک مخصوص جگہ پر بٹھا دیا۔ پھر دوسرے لوگوں کو اعزازات دیئے جانے کا سلسلہ جاری رہا اور یہ تقریب تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔ پھر نیشنل اینتھم (National Anthem) ہوا اور ملکہ اپنے گورکھا محافظوں کے ساتھ واپس چلی گئیں۔ پیلس کے اندر تصویریں لینی منع ہیں لیکن ایک کمپنی کو اجازت ہے۔ انہوں نے پیلس کے اندر کیمرے لگائے ہوئے ہیں جو نظر نہیں آتے لیکن وہ سارا پروگرام وڈیو کرتے ہیں اور پھر ان سے یہ وڈیو خریدا جاسکتا ہے۔ پیلس کے باہر کورٹ یارڈ میں تصویریں لی جا سکتی ہیں اور کمرشل فوٹوگرافر بھی ہوتے ہیں جن سے تصویریں بنوائی جاسکتی ہیں۔ اعزا زملنے کے بعد جب میں بال روم میں بیٹھا ہوا تھا تو مَیں نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور بہت دعا کی کہ یہ اعزاز جماعت کے لئے بہت بہت مبارک ہو اور پھر سارا وقت درود شریف پڑھنے میں گزارا۔ قارئین سے بھی دعا کی درخواست ہے کہ یہ اعزاز ہر لحاظ سے مبارک ہو۔ آمین