٭…حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اُس (یعنی خدا ) نے یہ سلسلہ قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا کہ زمین میں طوفانِ ضلالت برپا ہے تُو اس طوفان کے وقت میں یہ کشتی تیار کر جو شخص اس میں سوار ہوگا وہ غرق ہونےسے نجات پاجائے گا اور جو انکار میں رہے گا اس کے لیے موت درپیش ہے۔ جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا اس نے تیرے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ٭… کھلم کھلا مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ اس جماعت کی مسلسل تائید و نصرت فرما رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ تائید بتا رہی ہے کہ وہ کس طرح حضرت مسیح موعودؑ سے کیے گئے وعدے پورے کر رہا ہے ٭… آپ لوگ جنہوں نے اس دور میں حضرت مسیح موعودؑ کو مانا ہے آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ دنیا تک یہ پیغام پہنچائیں کہ مسیح موعود جو آنے والا تھا وہ آچکا ہے۔ جو یہ پیغام پہنچا سکتے ہیں وہ مسلمانوں کو خاص طور پر یہ پیغام پہنچائیں، جہاں کُھل کر تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہے وہاں کے لوگ کم از کم دعا تو کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے سینے کھولے اور انہیں مسیح موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے (۳۱؍اگست۲۰۲۵ءاسلام آباد، ٹلفورڈ، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) آج جلسہ سالانہ جرمنی کا تیسرا اور آخری روز ہے۔ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس جلسے کے اختتامی اجلاس سے خطاب فرمایا۔ عشاق خلافت کی ایک بڑی تعداد خطاب سے پہلے اپنے پیارے امام کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے کے لیے اسلام آباد پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ دو بجے کے قریب جب حضور انور مسجد مبارک میں تشریف لائے اور نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں تو اس وقت مسجد کے علاوہ باہر نصب کی گئی مارکی بھی کافی حد تک پُر ہو چکی تھی۔ نمازوں کے بعد ایوان مسرور میں منظم طریق پر احباب جماعت کو بٹھایا گیا۔ اس کے لیے پہلے سے ہی انتظامیہ کی طرف سے ’پہلے آؤ پہلے پاؤ ‘کے اصول کے تحت ٹکٹس جاری کی گئی تھیں۔ تشریف آوری حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ تین بج کر ۳۵ منٹ پر جرمنی سے لگائے جانے والے ولولہ انگیز نعروں کی گونج میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ایوان مسرور میں رونق افروز ہوئے۔ حضور انور کرسیٔ صدارت پر تشریف فرما ہوئے اور تمام حاضرین کو ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘ کا تحفہ عنایت فرمایا۔ کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ حافظ ذاکر مسلم صاحب نے سورۃ الحشر کے آخری رکوع (آیات۱۹تا۲۵) کی تلاوت کی۔ متلو آیات کا جرمن ترجمہ فولکر قیصر صاحب نے جبکہ اردو ترجمہ ذیشان احمد نعیم باجوہ صاحب نے تفسیر صغیر سے پیش کیا۔ بعد ازاں احمد کمال صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا پُر معارف منظوم کلام بعنوان’’ انذار و تبشیر ‘‘میں سے بعض اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔ان اشعار کا آغاز درج ذیل شعر سے ہوا: پھر چلے آتے ہیں یارو زلزلہ آنے کے دنزلزلہ کیا اِس جہاں سے کُوچ کر جانے کے دن اس کے بعد مکرم سیکرٹری صاحب تعلیم جماعت احمدیہ جرمنی نے تعلیمی اعزاز پانے والے طلبہ کے اسماء پڑھ کر سنائے۔ تعلیمی اعزاز پانے والے طلبہ کے نام میڈیکل میں سپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹر وجاہت احمد وڑائچ، ڈاکٹر عفان احمد غفور، ڈاکٹر عرفان احمد اعظم، پی ایچ ڈی ڈاکٹر یاسر محمود، ڈاکٹر جمال احمد شیخ، ڈاکٹر طلحہ رزاق، ڈاکٹر عبدالصمد، ڈاکٹر عامر سعید خان، ڈاکٹر شہزاد احمد سید State Examination ارسلان احمد، علی فراز چودھری، قمر حمید، ڈاکٹر عادل احمد، حمزہ احمد، اسامہ اعظم ماسٹرز زکریا احمد، وجاہت مطلوب اعوان، عماز خالد، مشرف احمد، ولید خان، ڈاکٹر عرفان احمد بھٹی، مبارز خاور، رانا ماہر احمد خان، حمزہ احمد، دانیال شکور، لبید احمد، محمد طلحہ اکرم، علی مسعود، عقیل بابر، لقمان اللہ وحید، فرید احمد، اَرادش اویس احمد خالد، عمر خان، Aaron Manuel Schwierk ، عطاء الٰہی اسلم، سجیل احمد خان، اسامہ کمال پاشا، عمار افتخار بسراء، فراز احمد علی بیچلرز محمد سہراب علی، حاشر احمد ملک، جلیس احمد، عبدالاعلیٰ خان، غلام قادر بندیشہ، سعد احمد، ضیاء مسیح الدین، مغفور الٰہی، جاذب احمد، محمد طلحہ اکرم، اساس وحید اے لیول عُزیر شیراز، تبارک احمد، عاصم احمد ملک، منہاج راٹھور دیگر ممالک سے تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ بلال احمد، مشہود جالو، عرفان احمد بھٹی ٹھیک چار بجے حضور انور نے منبر پر تشریف لاکر تمام حاضرین کو ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘ کا تحفہ عنایت فرمایا اور اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔ خلاصہ خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج دنیابھرمیں پھیلےہوئے احمدیوں کا حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا حق ادا کرنےکی کوشش کرنا اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانےکے لیے جان مال اور وقت کو خرچ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہی وہ شخص ہیں جنہیں اس زمانےمیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ کےلیے بھیجا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے بِنا یہ ممکن نہیں تھا کہ یوں دنیاکے کونے کونے سےلوگ آپؑ کے حلقۂ بیعت میں آجاتے۔ پس آپ تمام یہاں اسی مقصد کےلیے آئے ہیں کہ یہاں چند دن دینی ماحول میں رہ کراپنی روحانی پیاس بجھائیں اور اُن لوگوں میں شامل ہوں جو آخرین کی جماعت ہیں، جو مسیح موعودؑ کے مشن کو پورا کرنے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا تھا اس کی تکمیل دو ہی زمانوں میں ہونی تھی ایک آنحضرتﷺ کا زمانے اور ایک آخری مسیح و مہدی کا زمانہ۔ یعنی ایک زمانے میں تو قرآن اور سچی تعلیم نازل ہوئی لیکن اس تعلیم پر فیجِ اعوج کے زمانے نے پردہ ڈال دیا۔ اس پردے کاا ٹھایا جانا مسیح موعود کے وقت میں مقدر تھا۔ رسول کریمﷺ نے ایک تو جماعت صحابہ کرام کا تزکیہ کیا اور دوسرا آنے والی جماعت کا جس کی شان میں لمّا یلحقوا بھم آیا ہے۔ حضورِانورنے فرمایا کہ جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ (اسلام کے احیائے نَو کی) سب سے زیادہ فکر حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو ہی تھی، جنہوں نے عملی جہاد میں بھی حصہ لیا۔ آپؑ کے دل میں ایک غم تھا، ایک آگ سی لگی ہوئی تھی، کہ کس طرح کوشش کرکے اللہ تعالیٰ کے اس خوبصورت پیغام اور آنحضرتﷺ کی اس خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلاؤں، دنیا کو اس سے آگاہ کروں کہ آج اگر خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کا عرفان دلانے والا کوئی مذہب ہے تو وہ اسلام ہی ہے۔ چنانچہ آپؑ نے اس زمانے میں براہینِ احمدیہ تصنیف فرمائی۔ اس دور کے بہت سے علماء نے اس کتاب کی تعریف کی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ یہ جو اعزاز مجھے ملا ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل اور آنحضرتﷺ کی پیروی کی وجہ سے ملا ہے۔ آپ کی محبت کا یہ عالم صرف بڑی عمر میں نہیں تھا بلکہ چھوٹی عمر سے ہی آپؑ کی محبت کا یہی عالَم تھا۔ آپؑ نے ایک دفعہ اوائل جوانی میں رؤیا میں دیکھا کہ ایک کمرے میں آنحضرتﷺ موجود ہیں اور آپؐ حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بہتر طور پر آپؑ کے سلام کا جواب دیا۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ آپؐ کی محبت نے مجھے فریفتہ کردیا اور آپؐ کے حسین و جمیل چہرے نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا۔ اس رؤیا میں دکھائے گئے مناظر سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو براہینِ احمدیہ اور اس کی بےمثال برکات اور افادیت کا عظیم الشان نظارہ دکھایا یعنی یہ کہ براہینِ احمدیہ کی برکت سے اسلام جو ایک مردے کی مانند تھا زندہ کرکے دکھا دیا گیا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اُس (یعنی خدا ) نے یہ سلسلہ قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا کہ زمین میں طوفانِ ضلالت برپا ہے تُو اس طوفان کے وقت میں یہ کشتی تیار کر جو شخص اس میں سوار ہوگا وہ غرق ہونےسے نجات پاجائے گا اور جو انکار میں رہے گا اس کے لیے موت درپیش ہے۔ جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا اس نے تیرے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دیا۔ حضورؑ فرماتے ہیں اگر تم سچائی اور اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کا صحیح راستہ تلاش کرتے ہو تواللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں آنحضرتﷺ کی غلامی میں مجھے اس کام کےلیے بھیجا ہے میرے پیچھے آؤ اور میری جماعت میں شامل ہوجاؤ۔ حضورؑ نے فرمایا ہے کہ مَیں تمہارا ایک پکا ہمدرد ہوں، سچا ہمدرد ہوں مَیں تمہیں وہ راستے بتاؤں گا جو تمہارے گناہوں کا بوجھ ہلکا کریں گے۔ تمہارے لیے مَیں دعائیں کروں گا جو عرش پر ان شاء اللہ قبول ہوں گی۔ حضورِانورنے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نےآپؑ کو یہ حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان کرو کہ میری بیعت میں آؤ تو آپؑ نے ۱۸۸۹ء میں پہلی بیعت لی۔ اس موقع پر آپؑ نے خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی کہ یہ عہد کرو کہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھو گے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول سے عشق و وفا کا تعلق رکھو گے اور میرے ساتھ بھی ایک خاص تعلق وفا کا رکھو گے تو تب تم اس کشتی میں سوار ہوجاؤ گے جو ان طوفانوں سے تمہیں بچاکر لے جائے گی۔ آپؑ نے یہ واضح اعلان فرمایا کہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوکر آیا ہوں اس لیے تم میری بیعت کرو یہ ایک ایسا دعویٰ تھا جو انسانی بس میں نہ تھا کیونکہ کوئی اور ایسا دعویدار پیدا نہیں ہوا جس نے یہ دعویٰ کیا ہو، اتنی عمر بھی پائی ہو اور اس کی جماعت نے اتنی ترقی بھی کی ہو۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ جماعت ترقیات کی منازل طے کر رہی ہے، دنیا کے ۲۱۵ سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت نے اپنے عہدِ بیعت کو نبھانے کے لیے اپنے مال اور جان کی قربانیاں پیش کی ہیں اور اس بات کو ثابت فرمایا ہے کہ ایسی قبولیت خدا تعالیٰ کی تائید کے بغیر ممکن نہیں۔ جہاں احمدی شہید کیے جاتے ہیں وہاں احمدیت کا بہتر تعارف ہوتا ہے اور وہاں جماعت پھیلتی ہے۔ الٰہی جماعتوں کی نشانی ہے کہ اس کے ماننے والے مالی قربانی کرتے ہیں لہٰذا آج صرف حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت ہے جو مالی قربانیاں کرتی چلی جارہی ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ آج سے چالیس پچاس سال بلکہ دس پندرہ سال پہلے آپ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ آپ لوگ جرمنی میں اتنے بڑے مجمع کی صورت میں جمع ہوسکیں گے ، اور آپ کے جلسے کے انتظامات پر ہی کئی ملین یورو خرچ ہوجائیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے ذرائع پیدا فرمادیے کہ مالی قربانی کرنے والے لوگ موجودہیں جو کئی ملین یورو بھی دے دیتے ہیں اور اس کے ذریعے سے تبلیغِ اسلام کا کام جاری ہے۔ اسلام مخالفین جب آپ لوگوں کی قربانیوں کو دیکھتے ہیں تو وہ حیرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اس طرح ان میں بھی خدا کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح ایم ٹی اے کے ذریعے سے دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ اور تربیت کا کام ہورہا ہے جس پر کئی ملین پاؤنڈ خرچ ہوتے ہیں، یہ سب کام اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہورہے ہیں ورنہ یہ انسانی بس کی بات نہیں تھی۔ حضورؑ نے فرمایا ہے کہ الہٰی جماعتوں کے لیے دشمنوں کا ہونا بھی ضروری ہے یہ بھی ایک سچائی کی نشانی ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ آج دیکھ لیں کہ بحیثیت جماعت اگر کسی کی مخالفت کی جاتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی ہے۔ حضورِانور نے دنیا بھر میں ہونے والی مخالفت کے مختلف واقعات بیان فرمائے اور پھر فرمایا کہ کھلم کھلا مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ اس جماعت کی مسلسل تائید و نصرت فرما رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ تائید بتا رہی ہے کہ وہ کس طرح حضرت مسیح موعودؑ سے کیے گئے وعدے پورے کر رہا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تُو بیعت لے رہا ہے تو تیرے ہاتھ کے پیچھے میرا ہاتھ ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے مطابق مدد بھی فرما رہا ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اگر بعض جگہوں پر کچھ لوگ کمزوری ایمان کی وجہ سے پیچھے ہٹ بھی جاتے ہیں تو بہت سے ایسے بھی ہیں جو بعد میں معافی کے خطوط بھی لکھتے ہیں ، جو مخالف ہوکر پیچھے ہٹتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی جگہ دوسرے مقامات پر مضبوط ایمان والے عطا فرمادیتا ہے اور ہرسال لاکھوں لوگ جماعت میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ آپ لوگ جنہوں نے اس دور میں حضرت مسیح موعودؑ کو مانا ہے آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ دنیا تک یہ پیغام پہنچائیں کہ مسیح موعود جو آنے والا تھا وہ آچکا ہے۔ جو یہ پیغام پہنچا سکتے ہیں وہ مسلمانوں کو خاص طور پر یہ پیغام پہنچائیں، جہاں کُھل کر تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہے وہاں کے لوگ کم از کم دعا تو کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے سینے کھولے اور انہیں مسیح موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آج کل مسلمان ملکوں کی حالت کیسی بےبسی کی ہے باوجود اس کے کہ بعض ممالک کے پاس دولت ہے مگر کیسے ظالم حکومتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں ، ظالم اقوام اور اسرائیل ظلم پر ظلم کیے جارہے ہیں اور مسلمانوں کو بچانے والا کوئی نہیں۔ جہاد اور قتال کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اس کی بھی ہمت نہیں ۔ بہرحال ہم تو اس بات کے قائل ہی نہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ دعاؤں اور اپنے عملوں سے اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچائیں تو اللہ تعالیٰ خود ہمارے لیے وہ انتظام فرمائے گا جو اسلام اور احمدیت کی فتح کا پیش خیمہ ہوں گے۔ ہمیں مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہر قسم کے غم سے نکالے ، اور مسلمان بھی صرف اپنی فکر نہ کریں بلکہ اس فکر میں رہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کس طرح حاصل کرنی ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ خدا نے لکھ دیا ہے کہ مَیں اور میرا رسول ہی غالب رہیں گے ۔ مَیں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ مَیں سچ پر ہوں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے۔ جہاں تک مَیں دُوربین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں۔ قریب ہے کہ مَیں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اورزبان بول رہی ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ آپؑ نے یہ دعویٰ فرمایا کہ آخر میں مَیں ہی کامیاب ہوں گا، جماعت احمدیہ کی گزشتہ ایک سَو چھتیس سالہ زندگی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ترقیاں ہی ترقیاں دیتا چلا جارہا ہے۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اس ترقی کے لیے ہم اپنے فرائض ادا کریں۔ حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں ہمارے غالب آنےکے ہتھیار استغفار،توبہ اور دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو پیشِ نظر رکھنا، اور پانچوں وقت کی نمازوں کو اداکرنا ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں یہ مت خیال کروکہ خدا تمہیں ضائع کرے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہوجائے گا۔پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر یقین رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنی زندگیوں میں جماعت احمدیہ کی ترقیات کے نظارے دیکھتے چلے جائیں۔آمین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب پانچ بجے تک جاری رہا جس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد گروپ کی صورت میں مختلف زبانوں میں ترانے پیش کیے گئے۔ ترانوں کے بعد حضور انور نے حاضری کا اعلان فرمایا کہ کل حاضری جو سکین ہوئی ہے ۴۴؍ہزار ۴۸۴؍ ہے اور جو سکین نہیں ہوئی اسے ملا کر حاضری ۴۶؍ ہزار سے اوپر رہی ہے۔ اسلام آباد ٹلفورڈ کی حاضری ۲؍ہزار ۵۸۵؍ ہے۔ حضور انور نے فرمایا اگر یہ شامل کر لیں تو آپ کی کل ساڑھے اڑتالیس ہزار ہوگئی۔ حضور انور نے فرمایا کہ اس لحاظ سے یوکے کے قریب قریب پہنچ گئے ہیں۔ اور اگر میں وہاں جاتا تو امید ہے چار پانچ ہزار اور ہو جاتی۔ حضور انور نے آخر پر تمام شاملین کو دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سب شاملین کو اپنی حفاظت میں رکھے، خیریت سے آپ لوگوں کو گھروں میں لے کر جائے اور جلسے کی جو برکات آپ نے حاصل کی ہیں ان کو ہمیشہ اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ سوا پانچ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ایوان مسرور سے تشریف لے گئے۔ ٭…٭…٭