https://youtu.be/Fc1Zw0IskBo دنیا بھر میں ہر سال ۲۹؍اگست ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں آگاہی دینا اور ان کی روک تھام کے لیے ممکنہ اقدامات اٹھانا ہے۔ پسِ منظر: قازقستان میں ۲۹؍اگست ۱۹۹۱ء کو سوویت یونین کے دور کے سیمیپالاٹنسک ایٹمی ٹیسٹ سائٹ (جو دنیا کے سب سے بڑے ایٹمی تجربہ گاہوں میں سے ایک تھی) کو باضابطہ طور پر بند کر دیا گیا تھا۔ قازقستان نے اس دن کو ایٹمی تجربات کے خلاف عالمی جدوجہد کی علامت کے طور پر اپنایا اور اقوام متحدہ میں بھی یہ تجویز پیش کی۔ چنانچہ دسمبر ۲۰۰۹ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو باقاعدہ طور پر ’’ایٹمی دھماکوں کے خلاف عالمی دن‘‘کے طور پر تسلیم کیا۔ اور پہلی مرتبہ ۲۰۱۰ء میں یہ دن منایا گیا۔ مختلف ممالک ایٹمی تجربات اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے، نئے ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ کے لیے، سیاسی دباؤ اور عالمی اثر و رسوخ بنانے کے لیے کرتے ہیں۔بعض اوقات قومی سلامتی کا بہانہ بنا کر اور بعض اوقات سائنسی تحقیق کے نام پر بھی یہ دھماکے کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان تجربات کے تباہ کن اثرات سامنے بھی آتے ہیں۔سب سے بڑا نقصان طویل مدتی تابکاری (ریڈی ایشن) ہے جو کہ صدیوں تک انسانوں، ماحول اور آنے والی نسلوں کو متاثر کرتی ہے۔ تابکاری کی وجہ سے کینسر اور دیگر مہلک بیماریاں کئی نسلوں تک متاثرہ علاقے کے انسانوں کو لاحق ہوتی رہتی ہیں علاوہ ازیں پیدائشی نقائص کے بھی متعدد کیسز سامنے آئے ہیں۔ ان تجربات کی وجہ سے متاثرہ زمین ناقابل رہائش ہوجاتی ہے،تابکاری والے علاقوں کی صفائی اور متاثرین کے علاج پر کھربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ایسے علاقے دوبارہ معمول پر نہیں آ سکتے۔ ایٹمی تجربات کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ یہ صرف ایک وقت یا ایک جگہ کو نہیں بلکہ آنے والی کئی نسلوں اور کرہ ارض کو تباہ کردیتے ہیں۔ اس حوالے سے پریشان کن امر یہ بھی ہے کہ جب ایک ملک ایٹمی دھماکہ کرتا ہے تو دوسرے ممالک بھی اپنی حفاظت کے لیے مزید ہتھیار بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ایٹمی ہتھیار بنانے اور ان کی نمائش کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور غیر شعوری طور پر سب ایک ایسی دوڑ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں جس کے اختتام پر سب کی شکست یقینی ہے۔چھوٹی سی غلطی یا غلط فہمی بین الممالک جنگ کا خطرہ بڑھا دیتی ہے جو کہ کسی بھی وقت عالمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ معاہدہ CTBT: دنیا بھر میں تمام ایٹمی دھماکوں پہ مکمل پابندی لگانے کے لیے اقوام متحدہ میں ۱۹۹۶ء میں ایک معاہدہ پیش کیا گیا جسے CTBT (Comprehensive Nuclear-Test-Ban Treaty) کا نام دیا گیا۔اس معاہدے کے تحت کسی بھی ملک کو زمین، سمندر، خلا یا زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کر نے کی اجازت نہیں ہے۔ اب تک اس معاہدے پر ۱۸۶ ممالک نے دستخط کیے ہیں جن میں سے ۱۷۸ ممالک نے معاہدے کی توثیق بھی کی ہے۔امریکہ، چین، اسرائیل اور ایران ان ممالک میں سے ہیں جنہوں نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں لیکن ابھی تک توثیق نہیں کی۔ جبکہ انڈیا، پاکستان اور شمالی کوریا جوہری طاقت رکھنے والے وہ ممالک ہیں جنہوں نے اس معاہدے پر نہ دستخط کیے ہیں نہ توثیق کی ہے۔ ۱۹۴۵ء سے لے کر آج تک دنیا بھر میں دو ہزار سے زائد ایٹمی تجربات کیے جا چکے ہیں، جن میں سے اکثریت امریکہ اور روس (سابق سوویت یونین) کے ہیں۔ ہر ایٹمی دھماکہ لاکھوں انسانی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس لیے ایسے مہلک تجربات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات اٹھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ آنے والی نسلوں کے بہتر اور پرامن مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کو کم سے کم کیا جائے۔ ۲۹؍اگست کے حوالے سے سرگرمیاں: ۲۹؍اگست کو اقوام متحدہ کی جانب سے نیویارک مرکز میں خصوصی تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے،دنیا کے کئی ممالک میں امن مارچ نکالے جاتے ہیں، جبکہ ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے شہروں میں یادگاری تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور سابق ایٹمی تجربہ گاہوں پر بھی لوگ شمعیں روشن کر کے متاثرین کو یاد کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر NoMoreNukeTests# اور BanNuclearTests# جیسے ہیش ٹیگز کے تحت آگاہی مہمات چلائی جاتی ہیں۔نیز اسکولوں اور کالجوں میں مضمون نویسی اور مباحثوں کے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ دن ایٹمی تجربات کے خلاف عالمی یکجہتی کا دن ہوتا ہے، جس میں ہر سطح پر آگاہی اور احتجاجی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔جن میں ہر خاص و عام اپنے دائرہ کار میں رہ کر حصہ لے سکتا ہے اور اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ (حافظ ذیشان لاشاری۔سینیگال) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: جامن