https://youtu.be/Ng3ZyTto0oQ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍اپریل ۲۰۱۶ء میں فرمایا:’’حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ یہ مضمون بیان فرما رہے تھے کہ انسان کے لئے دو چیزوں کی صفائی بہت ضروری ہے جن میں سے ایک سوچ اور فکر ہے اور دوسری لطیف جذبات، نیکی کے جذبات ہیں اور انسان کے گہرے جذبات یعنی جذبات کی حس نہ کہ عارضی جذبے جو قلوب کی صفائی سے پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی مستقل رہنے والے نیک اور پاکیزہ جذبے اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل مکمل طور پر صاف ہو۔ اور افکار کی صفائی، یعنی خیال، سوچ اور غور کا ہمیشہ صاف رہنا جسے عربی میں تنویرکہتے ہیں، دماغ کی صفائی سے حاصل ہوتی ہے۔ تنویر اس بات کو کہتے ہیں کہ انسان کے اندر ایسا نور پیدا ہو جائے کہ ہمیشہ صحیح خیال پیدا ہو۔ تنویر کوشش کر کے پاک خیال پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ایسا ملکہ پیدا ہو جائے کہ ہمیشہ صحیح خیالات پیدا ہوتے رہیں۔ کبھی کوئی غلط قسم کے خیالات آئیں ہی نہ۔ اور ظاہر ہے یہ باتیں مسلسل کوشش اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔‘‘ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ چیز ہے جو تنویر کہلاتی ہے۔ تو تنویر اس بات کو کہتے ہیں کہ انسانی دماغ میں جو خیالات بھی پیدا ہوں وہ بھی درست ہوں۔ جس طرح ایک تندرستی تو یہ ہوتی ہے کہ انسان کہے کہ میں اس وقت تندرست ہوں اور ایک تندرستی یہ ہوتی ہے کہ انسان آگے بھی تندرست رہے۔ تو تنویر وہ فکر کی درستی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ جو خیالات بھی پیدا ہوں درست ہی ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ روحانی ترقی کے لئے تنویرِ فکر ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح روحانی ترقی کے لئے تقویٰ و طہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو تنویر کے معنی دماغ کی نسبت سے ہیں وہی تقویٰ کے معنی دل کی نسبت سے ہیں۔ لوگ عام طور پر نیکی اور تقویٰ کو ایک چیز سمجھتے ہیں حالانکہ نیکی وہ نیک کام ہے جو ہم کر چکے ہیں یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے اندر آئندہ جو جذبات بھی پیدا ہوں وہ نیک ہوں۔ تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ فکر، سوچ اور غور جن کا دماغ سے تعلق ہے، یہ تنویر ہے اور جذبات کا نیکی پر ہمیشہ قائم رہنا تقویٰ ہے۔ اس کا معاملہ دل سے ہے۔ جب بھی کسی انسان کو تنویرِ افکار اور تقویٰ قلب حاصل ہو جائے تو وہ پھر بدی کے حملے سے محفوظ رہتا ہے اور جب بدی کے حملے سے محفوظ رہے تو پھر ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے فضل کے نیچے آ جاتا ہے۔ ‘‘(ماخوذ از الفضل ۹؍مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ جلد ۲۶ شمارہ ۵۵) (الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍مئی ۲۰۱۶ تا ۱۹؍مئی ۲۰۱۶ء صفحہ ۵) مزید پڑھیں: اسلام کا حقیقی مفہوم