( ازکتاب ’ الہام،عقل،علم اور سچّائی، مصنّفہ :حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ) تعارف :تاریخی تناظر میں دینی اور لا دینی (سیکولر) نظریات کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں سے بڑے بڑے فلاسفر، دانشور اور مذہبی رہنما عقل،منطق اور الہام کی تقابلی حیثیت کے بارہ میں مختلف خیالات کے حامل رہے ہیں۔ اس لحاظ سے انہیں مختلف مکاتبِ فکر میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جو عقل کو اس حد تک اہمیت دیتا ہے کہ اس کے نزدیک صداقت تک پہنچنے کا یہی ایک واحد اور مستند طریق ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک صرف وہی نتیجہ تسلیم کئے جانے کے قابل ہے جو عقل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہو۔ لہٰذا ان کے مطابق صداقت کی جو بھی تعریف کی جائے، اس تک رسائی صرف عقل اور استدلال کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ لیکن کچھ مفکّرین وہ ہیں جو آسمانی ہدایت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک آسمانی ہدایت انسانی فکر کی صحیح رہنمائی کے سلسلہ میں بنیادی اور معیّن کردار ادا کرتی ہے اور بہت سے الجھے ہوئے اور حل طلب سوالات کے جواب فراہم کرتی ہے۔ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حقیقت کو باطنی تجربات کے ذریعہ صرف اپنی ذات میں ڈوب کر ہی تلاش کیا جا سکتا ہے جسے وِجدان کہا جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خود اپنے نفس کے گہرے مطالعہ کے ذریعہ حقیقت کو پایا جا سکتا ہے۔ گویا اس کی چھاپ ہر انسانی روح پر نقش ہے۔ یہ لوگ اپنے نفس کی گہرائی میں غوطہ زن ہو کر خود اپنی ذات کے مطالعہ سے قوانینِ قدرت کے بنیادی حقائق تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت تک پہنچنے کا ایک اور طریق تصوّف ہے جسے مذہبی اور غیر مذہبی دونوں مکتبہ ہائے فکر نے اپنایا ہے۔ زندگی کے اسرار و رموز کو صوفیانہ رنگ میں دیکھنے کا رجحان مذہب کے ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں گروہوں میں پایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ تمام مکاتبِ فکر میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا انداز فکر فلسفیانہ بھی ہو سکتا ہے اور مذہبی بھی۔ لیکن اِخفاء اور اسراریت ان سب میں قدرِمشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ پھر وہ نام نہاد فلسفی ہیں جنہوں نے ایسی پیچیدہ اور اَدَق اصطلاحیں وضع کر رکھی ہیں جو عام آدمی کے فہم سے بالاتر ہوتی ہیں۔ اور اس طرح ان لوگوں نے اپنے نظریات کو پُراسرار لفّاظی کے پردوں میں چھپا رکھا ہے۔ تاہم فیثاغورث اور ابن رشد کی طرح کے ایسے مفکّرین بھی ہیں جو فی الحقیقت سائنسی ذہن کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ صوفیانہ رنگ بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔ یہ لوگ حقائق الاشیاء کی تلاش میں بہت گہرائی تک جاتے ہیں اور محض اشیاء کے ظواہر پر ہی اکتفا نہیں کرتے۔ ان کا بالاستیعاب مطالعہ ہمیشہ نتیجہ خیز اور مفید مطلب ہوتا ہے۔ مذہبی دنیا میں بھی کئی طرح کے درویش صفت اور صوفی منش بزرگ پائے جاتے ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو مذہب کی طرف سے عائد کردہ عبادات کو ان کی ظاہری شکل میں بجالانے کے ساتھ ساتھ گہرے مطالب کی تلاش میں بھی کوشاں رہتے ہیں۔ اور کچھ وہ ہیں جو اندرونی سچائی پر اتنا زور دیتے ہیں کہ بسا اوقات عبادات سے بھی بکلی انکار کر دیتے ہیں۔ لیکن وہ مذاہب جن کی بنیاد الہام پر ہے ان کے پیروکار بھی ہمیشہ اپنے مباحث میں الہامی صداقتوں تک ہی محدود نہیں رہا کرتے۔ انجام کار ہر مذہب کے بعد کے دور میں ایسے مباحث بھی زیر بحث آنے لگتے ہیں جن کو یکسر مذہبی قرار دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہی صدیوں پرانے سوالات نئے سیاق و سباق میں ازسرِنَو زندہ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً عقل کیا ہے؟ انسانی معاملات میں اس کا کیا کردار ہے؟ الہام کا عقل اور منطق سے کیا رشتہ ہے؟ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بلا استثناء ہر مذہب کے دَورِ انحطاط میں مختلف نظریات کا باہمی تعامل لازماً اس انتشار پر منتج ہوتا ہے جو مذہب کے ظہور سے پہلے موجود تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی دست برد کے نتیجہ میں مذہب بالآخر مختلف فرقوں میں تقسیم ہوتا رہا ہے اور اس طرح ایک حد تک قدیم اساطیری تصوّرات اور فلسفوں کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس صورت حال میں مذہبی شکست وریخت سے پیدا ہونے والے مختلف مکاتبِ فکر شاذ ہی اتحاد اور یکجہتی کا رستہ اختیار کرتے ہیں۔ اور یوں لگتا ہے کہ انحطاط کے اس عمل کا رخ موڑا نہیں جاسکتا۔ جن مذاہب کا آغاز خداتعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان کامل سے ہوتا ہے وہ بعد میں رفتہ رفتہ مشرکانہ گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ مذہبی نظریات میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور خداتعالیٰ کی وحدانیت کے دنیا میں ازسر نو قیام کے لئے انسان کبھی کبھار اپنی سی کوشش بھی کر دیکھتا ہے لیکن افسوس کہ ایسی کوششیں پوری طرح بار آور نہیں ہوتیں۔ اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی خاص تائید اور رہنمائی کے بغیر اس انحطاط کا رخ کبھی بھی موڑا نہیں جا سکا۔ گزشتہ فلسفیوں اور صوفیا کے مختلف نظریات پر یہاں مفصّل بحث تو نہیں کی جا سکتی تا ہم ماضی کے کچھ ممتاز دانشوروں نے الہام، عقل اور ان کے باہمی تعلق کے بارہ میں جو کچھ بیان کیا ہے اس کا مختصر ذکر ضرور کریں گے۔ ابدی صداقت کیا ہے،علم کسے کہتے ہیں اور اگر ان کے درمیان کوئی تعلق ہے تووہ کیا ہے؟ کیا الہام ایسا علم عطا کرتا ہے جو بالآ خر ابدی سچائی تک لے جاتا ہو یا ہر دو یعنی علم اور ابدی سچائی کے حصول کے لئے مجرد عقل ہی کافی ہے؟ زمانۂ قدیم سے ہی کیا فلاسفر اور کیا مذہبی رہنما اور کیا سیکولر مفکّرین ان سوالوں اور ان جیسے دیگر سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن پیشتر اس کے کہ ہم بنظر غائر اِن موضوعات کا مطالعہ کریں مناسب ہو گا کہ پہلے ابدی سچائی کے بارہ میں مختلف مفکّرین کے نظریات کی مزید وضاحت کر دی جائے۔ خداتعالیٰ پر ایمان رکھنے والے تمام لوگ جو ابدی صداقت کے علمبردار ہیں اس کو ماضی، حال اور مستقبل کے حوالہ سے ایک غیر مبدّل حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے ابدی صداقت سے ان کی مراد بنیادی طور پر خداتعالیٰ اور اس کی صفات ہیں لیکن جب سیکولر (خدا کو نہ ماننے والے) فلسفی اِس پر بحث کرتے ہیں تو وہ اکثر خداتعالیٰ کے حوالہ سے بات نہیں کیا کرتے۔ ان کی بحث بالعموم بعض اقدار مثلاً سچائی، دیانت، امانت، خلوص اور وفا وغیرہ کے حوالہ سے ہی ہوا کرتی ہے۔ فلسفیوں کے نزدیک سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ ہر آن تغیر پذیر کائنات میں کیا کسی غیرمبدّل حقیقت کا وجود ہے بھی یا نہیں۔ اسی طرح اگر ایک مسلّمہ سچائی کی حیثیت کو بھی چیلنج کیا جائے جیسا کہ اکثر اوقات ہوتا ہے تو انسان سوچنے لگتا ہے کہ مختلف حالات میں سچائی کا مفہوم کہیں مختلف تو نہیں ہو جاتا۔ اسی سوال کا ایک اور پہلو بھی ہے جو سچائی کے اس تصور سے تعلق رکھتا ہے جو عالم شہود کے پس پردہ عالم غیب کے بارہ میں قائم کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر ہم سورج کی روشنی کو فی ذاتہٖ ایک مستقل حقیقت سمجھیں تو عین ممکن ہے کہ ہم غلطی پر ہوں۔ روشنی سے زیادہ اہم، روشنی پیدا کرنے والا ریڈی ایشن (Radiation) کا وہ عمل ہے جس کے بہت سے مظاہر میں سے روشنی تو صرف ایک ہے۔ دراصل بنیادی حقیقت تو ریڈی ایشن ہے جو طیف یعنی spectrumمیں ارتعاش پیدا کرنے یا نہ کرنے کے سبب کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ رہتی ہے۔ دراصل لہروں کا یہی ارتعاش ہے جو ہمیں روشنی کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے سورج کی تابانی کو اپنی ذات میں ایک مستقل حقیقت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے اگر سورج کی تابانی کے اصول کو بخوبی سمجھ لیا جائے تو جہاں کہیں بھی ایسا عمل ہو گا وہ ایک ہی نتیجہ پیدا کرے گا اور اس لحاظ سے اس کو ایک ایسی دائمی حقیقت کا نام دیا جا سکے گا جو تابکاری اور روشنی کے قوانین میں کارفرما ہے۔ اس مثال سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ’ابدیّت‘ کی اصطلاح ہر جگہ کسی نہ ٹوٹنے والے اور ہمیشہ جاری رہنے والے تسلسل کو ظاہر نہیں کرتی۔ ابدیّت سے مراد وہ سبب ہے جس کی موجودگی ہمیشہ ایک جیسے نتائج پیدا کیا کرتی ہے۔ ابدی صداقت کی اس سادہ تفہیم کے بعد جو خارجی حقائق سے متعلق ہے کشش ثقل کو بجا طور پر ایک دائمی حقیقت قرار دیا جا سکتا ہے۔ تا ہم اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ کشش ثقل کے عمل میں خفیف سا ردّوبدل بھی اس کی غیر مبدّل اور بنیادی حیثیت کو جھٹلا نہیں سکتا۔ اس تمام بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگرچہ ہر ابدی صداقت سے علم حاصل ہوتا ہے لیکن ہر علم کو ابدی صداقت نہیں کہہ سکتے۔ علم کسی شے کا وہ ادراک ہے جو ہمارے دماغ میں مستند معلومات کے ایک جزو کے طور پر محفوظ ہو جاتا ہے۔ انسانی علم کا تمام تر ذخیرہ ایسی جزئیات سے مل کر ہی تشکیل پاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یقینی علم کیسے حاصل ہو سکتا ہے اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کو کیسے پرکھا جا سکتا ہے؟ مزید برآں ان علوم کو مختلف شاخوں مثلاً وقتی،نسبتی، ٹھوس اورابدی صداقتوں میں کیسے تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ یہ انسان کی قوتِ استدلال اور قوت ِفکر ہی ہے جو دماغ تک پہنچنے والے پیغامات پر مختلف ممکنہ پہلوؤں سے بار بار غور کرنے کے بعد مختلف نتائج اخذ کرتی ہے۔ یہی وہ ذہنی عمل ہے جو صحیح کو غلط سے اور واضح کو مبہم سے جدا کرتا ہے اور عقل کہلاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم کے اجزائے ترکیبی کی دریافت کا یہ طریق کار کس حد تک قابل اعتماد ہے؟ جب ہم عقل انسانی کی تفہیم کی اس منزل پر پہنچتے ہیں تو بہت سے پیچیدہ سوال سر اٹھانے لگتے ہیں۔ مثلاً ہم جانتے ہیں کہ انسانی ذہن کے اخذ کردہ نتائج میں رد ّو بدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جس بات کو ایک عہد میں معقول خیال کیا جائے ضروری نہیں کہ کسی اور عہد میں بھی اسے بعینہٖ قابلِ قبول سمجھا جائے۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمل ارتقا کے نتیجہ میں جب سے انسان اپنے حیوانی دور سے نکل کر انسانی دور میں داخل ہوا ہے اس کی قوتِ استدلال بتدریج بالغ نظری کے مقام پر جا پہنچی ہے۔ بعد ازاں ایک طرف توبنی نو ع انسان کے علم و صداقت کے اجتماعی تجربہ میں وسعت پیدا ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی کاوشوں اور عقلی نتائج کے معیار میں بھی بہتری پیدا ہوتی چلی گئی۔ جس طرح جسمانی ورزش عضلات کو طاقت بخشتی ہے اسی طرح دماغی ورزش کے نتیجہ میں ذہنی، فکری اور یادداشت کی صلاحیتیں بھی نشو ونما پاتی ہیں۔ غالباً اس مشق ہی کا نتیجہ ہے کہ ارتقائی عمل کے دوران جانوروں کے دماغ کی جسامت بڑھتی چلی گئی۔ ہماری ذہنی استعدادوں کی نشوو نما کا یہ احساس جہاں ایک لحاظ سے خوش آئند ہے وہاں ایک لحاظ سے پریشان کُن بھی ہے۔ کیونکہ اس طرح تو انسان کی عہد بعہد ترقی کے دوران اس کی ذہنی اور فکری کاوشیں اور ان سے اخذ کردہ نتائج ہی مشکوک ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کیا یہ قرینِ قیاس نہیں کہ انسانی دماغ نے ارتقا کی جو مختلف منازل طے کی ہیں ان کے دوران ایک ہی قسم کے حقائق سے مختلف نتائج اخذ کئے ہوں؟ اگر معروضی حقائق مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے مختلف دکھائی دیں اور اگر غیرمتعصّب ذہن بھی مختلف ادوار میں ان سے مختلف نتائج اخذ کرے تو کیا ایسے نتائج کو مسلّمہ حقائق قرار دینا درست ہوگا؟ لہٰذا محض منطق کے عمل استخراج اور استدلال سے حاصل کردہ علم کو مطلق سچائی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اب ہم ان مسائل پر گفتگو کریں گے جن کا تعلق ان ذرائع سے ہے جو علم کی جانب ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور اس طریق کار سے متعلق ہیں جس سے کسی بھی علم کی صداقت کو پرکھا جا سکے۔ اگر لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے تمام ممکنہ زاویہ ہائے نگاہ کو ایک متحرک پلیٹ فارم پر رکھ دیا جائے تو کیسے ممکن ہے کہ ہم کسی بھی علم کو پورے یقین کے ساتھ حتمی قرار دے سکیں۔ البتہ ایک زاویۂ نگاہ ایسا ہے یعنی خالقِ کائنات کا جو ازلی ابدی ہے۔ لہٰذا اگر ایک علیم و خبیر، قادر مطلق اور حاضر ناظر ہستی کے وجود کو ثابت کیا جا سکے جو ازلی ابدی ہو، ہر کمزوری سے پاک ہو، اعلیٰ و ارفع، سب طاقتوں کی مالک اور تمام تنزیہی صفات سے متّصف ہو تو صرف اور صرف ایسی ہستی کے حوالہ ہی سے دائمی سچائی کا عرفان ممکن ہے۔ لیکن یہ مفروضہ اس امکان کے ساتھ مشروط ہے کہ نہ صرف یہ کہ ایک قادر مطلق خدا موجود ہے بلکہ وہ بنی نوع انسان کو مکالمہ مخاطبہ سے بھی مشرف فرماتا ہے جسے مذہبی اصطلاح میں الہام کہا جاتا ہے۔ اتنے اہم موضوعات پر خالصۃً سیکولر اور منطقی بنیادوں پر بحث کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر اس کے ساتھ یہ سوال بھی شامل کر لیا جائے کہ کیا الہام نے انسان کی رہنمائی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کیاہے تو اس مسئلہ کا حل اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ بایں ہمہ اس راہ میں حائل تمام تر دقّتوں کے باوجود ہم اس پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔ اس مرحلہ پر قاری کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بحث کی باریکیوں کو سمجھنے کی پو ری کوشش کرے۔ جب وہ ایک بار فلسفیانہ اور عقلی دلائل کی بھول بھلیوں سے واقف ہوجائے گا تو اس معمّہ کو حل ہوتے دیکھ کر وہ یقینا لطف اندوز ہوگا۔ مذہب کے حوالہ سے جدید مفکّرین اور ماہرین عمرانیات کا ایک مکتب فکر ایسا بھی ہے جو مذہب کے ظہور اور ارتقا کو انسان کے عقلی ارتقا کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ ان کے خیال میں ماضی بعید کے ابتدائی دور میں انسان اپنی کمتر عقلی استعداد کے باعث بہت سے دیوتاؤں کی پرستش کی طرف مائل ہوا اور ان شروعات سے بالآخر ایک معبود کے تصور نے جنم لیا جسے خدا، اللہ یا پرماتما وغیرہ مختلف ناموں سے پکارا جانے لگا۔ اگر اس نظریہ کو تسلیم کر لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ تاریخ کے ہر دور میں انسان کی بدلتی ہوئی استعدادوں کے مطابق ہی مذہب اپنے ارتقا کی منازل طے کرتا چلا آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خیال مذاہب عالم کے اس نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر متصادم ہے جس کے مطابق مذہب کا منبع و ماخذ الہام الٰہی ہے۔ اس عقیدہ کی رو سے یہ ازلی ابدی اور حکیم خدا ہی ہے جس نے انسان کو مذہب یعنی آسمانی ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے۔ اہل مذہب کے نزدیک انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں شرک کی موجودگی مذہبی انحطاط ہی کی مرہون منت ہوا کرتی ہے۔ انبیاء کے ذریعہ قیام توحید کے بعد یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بعد میں آنے والے زمانہ میں انحطاط کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس امر پر مزید بحث آگے آئے گی۔ قریباً تمام بڑے مذاہب ایک ایسی وراء الوریٰ ہستی پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں جو انسان سے ہمکلام ہوتی اور اپنے نمائندے خود منتخب کرتی ہے۔ اور اس کی بھیجی ہوئی ہدایت ہی حقیقی علم کے حصول کا واحد اور قابل اعتماد ذریعہ ٹھہر تی ہے۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ محض انسانی تجربہ اور عقلی استنباط سے حاصل کر دہ علم کو پورے وثوق سے کامل سچائی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تفصیل اس اجمال کی آئندہ ابواب میں آئے گی۔ (باقی آئندہ)