’’یعقوب حضرت عیسیٰ کا بھائی جو مریم کا بیٹا تھا وہ درحقیقت ایک راستباز آدمی تھا۔وہ تمام باتوں میں توریت پر عمل کرتا تھا اور خدا کو واحد لاشریک جانتا تھا اور سور کو حرام سمجھتا تھا۔اور یہودیوں کی طرح بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتا تھا اور جیسا کہ چاہیے تھا وہ اپنے تئیں ایک یہودی سمجھتا تھا۔صرف یہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا۔‘‘ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) قدیم آرامی زبان کے فرانسیسی ماہر Andre Lemaire ایک تابوت کی تصویر کا جائزہ لے رہے تھے۔ آثار قدیمہ کو جمع کرنے والے اسرائیلی انجینئر اوڈڈ گولان کے پاس یہ تابوت کئی سالوں سے پڑا تھا اور اب وہی یہ تصویر انہیں دکھا رہے تھے۔ اس قدیم رسم الخط کو پڑھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ایسی عبارت کو صرف خاص ماہرین ہی پڑھ سکتے تھے۔ Andre Lemaire نے ایک ایک حرف کا جائزہ لے کر اس عبارت کا ترجمہ کیا۔ اور اس کے بعد یہ عبارت سامنے آئی: ‘‘Ya‘akov bar Yosef akhui di Yeshua’’ یعنی یعقوب، یوسف کا بیٹا اور یسوع (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) کا بھائی۔ یہ مختصر عبارت اس فرانسیسی ماہر کو چونکا دینے کے لیے کافی تھی۔ کیا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب کا تابوت تھا ؟ یا یہ تابوت صرف ایک جعلسازی تھی؟ ہڈیوں کے تابوت قدیم ترین زمانہ سے اب تک مختلف اقوام اپنے اپنے طریق پر مرنے والوں کو دفن کرتی رہی ہیں۔دنیا کی تمام اقوام اور ممالک میں مختلف اوقات میں مردے کو دفن کرنے کے طریقے کچھ نہ کچھ بدلتے بھی رہے ہیں۔ جب ہم اِس پہلو سے فلسطین کے علاقہ کا جائزہ لیتے ہیں تو سامنے آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں اوراس کے کچھ عرصہ بعد فلسطین میں یہودیوں اور عیسائیوں کے خاص طور پر امیر طبقہ میں تدفین کا ایک طریق یہ بھی تھا کہ پہلے مرنے والے کو ایک غار کی دیوار کی مٹی میں دفن کیا جاتا تھا اور پھر جب اس کے جسم کی صرف ہڈیاں باقی رہ جاتی تھیں تو ہڈیوں کو مٹی سے نکال کر چونے کے پتھر کے ایک چھوٹے سے صندوق میں محفوظ کردیا جاتا تھا۔ اس صندوق کے لیے Ossuaryکی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ اس طرح ایک ہی خاندان کے بہت سے مُردوں کی یہ یادگاریں ایک غار کی دیواروں میں محفوظ کردی جاتیں۔ فلسطین کے علاقہ میں دریافت ہونے والے آثار قدیمہ میں ایسے بہت سے صندوق ملے ہیں۔ جس طرح آثار قدیمہ کو جمع کرنے والے سکوں، مجسموں اور قدیم برتنوں کو جمع کرتے ہیں کئی لوگوں نے نجی طور پر ایسے صندوقوں کو بھی جمع کیا ہے۔ یروشلم اور دوسرے شہروں میں کئی قدیم اشیاء کو فروخت کرنے والے ایسے تابوتوں کو بھی فروخت کرتے رہےہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ نے بھی ایسے بہت سے تابوتوں کو دریافت اور محفوظ کیا ہے۔ان میں سے بہت سے اس قسم کے تابوتوں پر مردے کا نام بھی کندہ کیا جاتا تھا۔اس کو پڑھنے سے یہ علم ہوجاتا تھا کہ اس تابوت میں کس شخص کی ہڈیاں محفوظ کی گئی تھیں۔ گولان کی گرفتاری اور مقدمہ اسرائیل میں ایک انجینئر اوڈڈ گولان (Oded Golan) کو بھی ایسے آثار قدیمہ جمع کرنے کا شوق ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ۱۹۷۰ء میں ایک ایسا چھوٹا تابوت خریدا تھا جس پر قدیم طرز میں آرامی زبان کے کچھ الفاظ کندہ تھے لیکن انہوں نے اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی کہ کسی ماہر سے پڑھوا کر یہ دیکھیں کہ اس پر کیا لکھا ہوا ہے۔چونکہ اس قسم کے تابوت میں صرف ہڈیاں رکھی جاتی تھیں، اس لیے اس کا نچلا حصہ صرف انیس انچ لمبا اور اوپر والا حصہ بائیس انچ لمبا ہے اور اس کی چوڑائی دس سے بارہ انچ ہے۔ کئی دہائیوں تک اس تابوت میں کسی نے دلچسپی نہیں لی۔۲۰۰۲ء میں اس کے مالک نے اس کی تصویر قدیم عبرانی کے اس مشہور ماہر Andre Lemaireکو دکھائی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا اس ماہر نے جب اس تابوت کے اوپر لکھے ہوئے الفاظ کا جائزہ لیا تو اس کا ترجمہ یہ تھا:‘‘Ya‘akov bar Yosef akhui di Yeshua’’ یعنی یعقوب یوسف کا بیٹا اور یسوع (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) کا بھائی۔جب اس ماہر نے اس دریافت کو آثار قدیمہ کے ایک جریدہ میں شائع کرایا تو یہ اشاعت تہلکہ انگیز ثابت ہوئی۔کیا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی کا تابوت ہے؟ بہت سے ماہرین شروع ہی سے اسے جعلی قرار دے رہے تھے۔ اس کے اگلے سال ہی اسرائیل کے آثار قدیمہ کے محکمہ نے اس کا جائزہ لیا اور چند ماہرین نے یہ بیان جاری کیا کہ یہ Ossuary جعلی ہے۔ ایک دو ماہ بعد پولیس رات کے وقت اوڈڈ گولان کے گھر میں داخل ہوئی اور ان کو گرفتار کیا گیا لیکن چند روز بعد رہا بھی کر دیا گیا۔سائنسی طور پریہ تو واضح تھا کہ یہ تابوت اتنا قدیم ہے کہ اس کا تعلق پہلی صدی عیسوی سے ہے۔ لیکن بعض کا دعویٰ تھا کہ اس کے اوپر کھدی ہوئی تحریر اب لکھی گئی ہے۔ کچھ کا الزام تھا کہ تابوت اور یعقوب بن یوسف کے الفاظ تو قدیم ہیں لیکن یسوع (یوشع) کے بھائی کے الفاظ اب جعلی طور پر کندہ کیے گئے ہیں۔ اور بعض ماہرین کا نظریہ تھا کہ یہ تابوت اور تمام تحریر کا تعلق پہلی صدی عیسوی سے ہی ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی اَور یعقوب ہو اور والد اور بھائی کے نام بھی اتفاقی طور پر وہی ہوں۔ کئی سال اسرائیلی عدالت میں مقدمہ چلا کہ اوڈڈ گولان نے جعلسازی کی ہے۔بہت سے ماہرین نے عدالت میں اپنی گواہیاں پیش کیں۔ حکومتی ادارے آئی اے اے کی طرف سے ماہرین پیش ہوئے۔ دوسرے ماہرین نے ان پر جرح کی تو ان کی گواہی تبدیل ہوتی رہی۔اوڈڈ گولان اور ان کے ساتھ دوسرے ملزمان کی طرف سے بھی ماہرین لسانیات اور ماہرین آثار قدیمہ گواہی کے لیے پیش ہوئے اور کئی سائنسی رپورٹیں پیش کی گئیں۔ یہ اس نوعیت کا طویل ترین مقدمہ تھا۔کئی سال کی کھینچا تانی کے بعد ۲۰۱۲ء میں اس مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا۔ گولان صاحب کو جعلی تابوت یا جعلی تحریر بنانے کے الزام سے بری کر دیا گیا۔ لیکن بغیر لائسنس کے آثار قدیمہ کی خریدو فروخت کے جرم پر معمولی سزا دی گئی۔ یعقوب کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کیا یہ تابوت واقعی اتنا ہی قدیم ہے؟ کیا واقعی یہ تابوت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب کا ہے؟ ماہرین اب بھی اس سوال پر بحث کر رہے ہیں۔ لیکن ان بحثوں سے قطع نظر یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ یعقوب کون تھے اور ابتدائی مسیحیت میں ان کا کیا کردار تھا؟ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تمام انبیاء کی طرح توحید کی تعلیم دی تھی۔لیکن پولوس نے جو کہ آپ کی زندگی میں آپ کا شدید مخالف تھا لیکن واقعہ صلیب کے بعد اس نے دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس پر ظاہر ہوئے اور اس طرح پولوس نے مسیحی مذہب اختیار کر کے، دنیا کے مختلف ممالک میں اس مذہب کی تبلیغ شروع کر دی۔ اورآپ کی تعلیم میں مشرکانہ عقائد شامل کر کے خاص طور پر روم اور روم کے زیر نگین علاقوں میں اپنے عقائد کی تبلیغ شروع کی۔ لیکن جب پولوس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ کو مسخ کر رہا تھا اس وقت کون سا گروہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیم پر قائم تھا ؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام چشمہ مسیحی میں تحریر فرماتے ہیں: ’’یاد رکھنا چاہیے کہ یہ مذہب جو عیسائی مذہب کے نام سے شہرت دیا جاتا ہے۔دراصل پولوسی مذہب ہے نہ مسیحی کیونکہ حضرت مسیحؑ نے کسی جگہ تثلیث کی تعلیم نہیں دی اور وہ جب تک زندہ رہے خدائے واحد لاشریک کی تعلیم دیتے رہے اور بعد ان کی وفات کے ان کا بھائی یعقوب بھی جو ان کا جانشین تھا اور ایک بزرگوار انسان تھا توحید کی تعلیم دیتا رہا۔ اور پولوس نے خواہ نخواہ اس بزرگ سے مخالفت شروع کردی اور اس کے عقائد صحیحہ کے مخالف تعلیم دینا شروع کیا۔اور انجام کار پولوس اپنے خیالات میں یہاں تک بڑھا کہ ایک نیا مذہب قائم کیا اور توریت کی پیروی سے اپنی جماعت کو بکلّی علیحدہ کر دیا اور تعلیم دی کہ مسیحی مذہب میں مسیح کے کفارہ کے بعد شریعت کی ضرورت نہیں اور خون مسیح گناہوں کے دُور کرنے کے لئے کافی ہے۔‘‘(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰، صفحہ ۳۷۴) پھر اسی کتاب میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’یعقوب حضرت عیسیٰ ؑ کا بھائی جو مریم کا بیٹا تھا وہ درحقیقت ایک راستباز آدمی تھا۔وہ تمام باتوں میں توریت پر عمل کرتا تھا اور خدا کو واحد لاشریک جانتا تھا اور سؤر کو حرام سمجھتا تھا۔اور یہودیوں کی طرح بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتا تھا اور جیسا کہ چاہیے تھا وہ اپنے تئیں ایک یہودی سمجھتا تھا۔صرف یہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا۔‘‘(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۷۶) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ’کشتی نوح‘ میں تحریر فرماتے ہیں :’’مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا بلکہ مسیح تو مسیح مَیں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں نہ صرف اسی قدر بلکہ میں تو حضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی مقدسہ سمجھتا ہوں کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۱۷، ۱۸) پھر اسی صفحہ کے حاشیہ میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں یعنی سب یوسف اور مریم کی اولاد تھی چار بھائیوں کے نام یہ ہیں۔یہودا۱،یعقوب۲،شمعون ۳، یوزس ۴، اور دو بہنوں کےنام یہ تھے۔آسیا ۱، لیدیا ۲۔‘‘ ان حوالہ جات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب آپ کی حقیقی تعلیم پر قائم تھے۔ جب پولوس اور اس کے ہمنوا حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات میں مشرکانہ باتیں شامل کر رہے تھے، آپ کے بھائی حضرت یعقوب بنی اسرائیل کو حضرت عیسیٰ کی سچی تعلیم کی طرف بلا رہے تھے۔ اناجیل میں یعقوب کا ذکر گو اناجیل میں تحریف کی گئی لیکن اس کے با وجود ان کتب سے بہت سی تاریخی معلومات مل جاتی ہیں۔اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اناجیل اور نئے عہد نامے میں شامل خطوط اور کتب میں حضرت عیسیٰؑ کے بھائی یعقوب کے بارے میں کیا بیان کیا گیا ہے؟متی کی انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے: ’’تو لوگ تعجب کر نے لگے۔آپس میں کہنے لگے یہ سوچ،سمجھ،حکمت،علم اور معجزے دکھا نے کی قوت کہاں سے پا ئی ہے؟ یہ تو صرف ایک بڑھئی کا بیٹا ہے۔ اور اس کی ماں مریم ہے۔یعقوب،یوسف اور شمعون اور یہودا ان کے بھائی ہیں۔ اور اس کی سب بہنیں ہما رے پاس ہیں۔ اور آپس میں باتیں کر نے لگے کہ اس نے یہ حکمت اور معجزے دکھا نے کی طاقت کہاں سے پا ئی ہے؟ اس کو کسی نے قبول نہ کیا۔ چونکہ ان لوگوں میں ایمان نہ ہو نے کی وجہ سے اس نے وہاں کئی معجزے نہیں دکھا ئے۔‘‘ (متی باب ۱۳) یہی واقعہ مرقس کی انجیل میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: ’’یسوع وہاں سے نکل کر اپنے شاگردوں کے ساتھ اپنے وطن کو واپس ہوئے۔سبت کے دن یسوع نے یہودی عبادت خانہ میں تعلیم دی ان کا بیان سن کر کئی لوگوں نے تعجب کیا اور کہا ، اس علم و معرفت کو اُس نے کہاں سے سیکھا ہے ؟ اس کو کس نے دیا ؟ اور اس کو یہ معجزے کی طاقت کہاں سے آئی ؟ یہ توصرف بڑھئی ہے۔اس کی ماں مریم ہے یہ یعقوب،یوسیس، یہودا اور شمعون کا بھائی ہے اس کی بہنیں یہاں ہمارے ساتھ ہیں۔ ان لوگوں نے یسوع کو قبول نہیں کیا۔ یسوع نے لوگوں سے کہا، دُوسرے لوگ تو نبی کی تعظیم کرتے ہیں۔لیکن نبی کو اپنے وطن میں اور اپنے خاص لوگوں میں اور اپنے ہی گھر میں ہی عزت نہیں ملتی۔ یسوع اس گاؤں میں زیادہ معجزے نہ دکھا سکے۔اُس نے اپنے ہاتھوں کو چند بیماروں کے اوپر رکھ کر ان کو تندرست کیا۔اس کے علاوہ اس نے کوئی معجزے نہیں دکھا ئے۔‘‘ (مرقس باب ۶) انجیل کے ان دونوں حوالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چار بھائی تھے اور ان میں سے ایک کا نام یعقوب تھا۔ اور ان کے علاوہ آپ کی بہنیں بھی تھیں۔اب نئے عہد نامہ میں شامل چوتھی انجیل کے اس حوالے کا جائزہ لیتے ہیں۔یوحنا کی انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائیوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے: ’’اس کے بعد یسوع نے ملک گلیل کے اطراف میں سفر کئے یسوع یہودا میں سفر کرنا نہیں چا ہتے تھے کیوں کہ وہا ں کے یہودی اسے قتل کرنے کی کوشش میں تھے۔ اور یہودیوں کی پناہوں کی تقریب قریب تھی۔ تب یسوع کے بھا ئیوں نے کہا، تو یہ جگہ چھوڑ کر یہودا چلے جا تا کہ جو معجزہ تو دکھا تا ہے وہ تمہارے شاگرد بھی دیکھیں۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ وہ لوگوں میں پہچانا جائے تو پھر ایسے شخص کو جو کچھ وہ کرتا ہے چھپا نا نہیں چاہئے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے ظاہر کرو تاکہ وہ سب تمہارے معجزے دیکھ سکیں۔حتیٰ کہ یسوع کے بھا ئیوں کو بھی ان پر یقین نہیں تھا۔ یسوع نے اپنے بھا ئیوں سے کہا، ابھی میرے لیے صحیح وقت نہیں آیا لیکن یہ وقت تمہارے جانے کے لیے مناسب ہے۔ دنیا تم سے نفرت نہیں کر سکتی وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے کیوں کہ میں ان کو ان کی برائیاں بتا تا ہوں جو وہ کر تے ہیں۔ اس لیے تم تقریب کے موقع پر جاؤمیں اس بار تقریب پر نہیں آؤں گا کیوں کہ ابھی میرے لئے صحیح موقع نہیں آیا۔ یہ سب کچھ کہنے کے بعد یسوع نے گلیل میں قیام کیا۔ اس لئے یسوع کے بھائی ان کے کہنے کے مطابق تقریب کے موقع پر جانے کے لئے روانہ ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد یسوع بھی وہاں چلے گئے اس کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کیا۔بلکہ پوشیدہ ہو گئے۔ تقریب کے موقع پر یہودی یسوع کی تلاش میں تھے کہہ رہے تھے کہ وہ کہاں ہے ؟ وہاں ایک بڑا گروہ لوگوں کا تھا جو خفیہ طور پر یسوع کے بارے میں ہی باتیں کر رہا تھا۔ ‘‘ (یوحنا باب ۷) یوحنا انجیل کے اس حوالے میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کچھ بھائی تھے جو اس وقت تک آپ پر یقین نہیں کر رہے تھے اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے یہود کی عید کے لیے یروشلم روانہ ہو گئے تھے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عید فسح کے لیے یروشلم تشریف لے گئے اور وہاں پر آپ کو گرفتار کیا گیا۔ آپ پر مقدمہ چلایا گیا اور آپ کو صلیب کی سزا سنائی گئی۔ اس دوران حضرت یعقوب اور دوسرے بھائیوں کا کیا کردار تھا ؟ کیا وہ واقعہ صلیب کے وقت وہاں پر موجود تھے کہ نہیں اس کے بارے میں اناجیل میں کچھ بیان نہیں کیا گیا۔ واقعہ صلیب کے بعد حضرت یعقوب کا کردار جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ صلیب سے معجزانہ طور پر بچ جانے کے بعد حضرت عیسیٰؑ مختلف لوگوں کے سامنے ظاہر ہوئے اور ان خاص لوگوں سے ملتے رہے تھے۔ خود پولوس کے بیان کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے واقعہ صلیب کے بعد اپنے بھائی یعقوب سے بھی ملاقات کی تھی۔چنانچہ نئے عہد نامہ میں شامل کرنتھیوں کےنام پہلے خط میں پولوس نے لکھا:’’چنانچہ میں نے سب سے پہلے تم کو وہی بات پہنچا دی تھی جو مجھے پہنچی تھی کہ مسیح صحیفوں کے مطا بق ہما رے گناہ کے لیے مرے۔ اور وہ دفن ہوئے اور صحیفوں کے مطا بق تیسرے دن جی اٹھے۔ اور وہ پطرس کے سامنے ظاہر ہو ئے اور اس کے بعد ان بارہ رسولوں کو دکھا ئی دئیے۔ پھر وہ دوبارہ پانچ سو سے زیادہ بھا ئیوں کو اچا نک دکھا ئی دیا جن میں سے اکثر آج تک زندہ ہیں اور بعض کی موت بھی ہو گئی ہے۔ اس کے بعد وہ یعقوب کے آگے ظاہر ہوا اور دوبا رہ سب رسولو ں کے آگے ظاہر ہوئے۔ اور آخر میں مجھے بھی دکھا ئی دیئے۔ جیسے میں مقررہ وقت سے پہلے پیدا ہو نے وا لابچہ ہوں۔‘‘ (۱کرنتھیوں باب ۱۵) اس عبارت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد بہت سے لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انسانی جسم کے ساتھ دیکھا تھا اور جن پر اعتبار کر کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جن کو شرف ملاقات عطا کیا تھا ان میں ان کے بھائی یعقوب بھی تھے۔لیکن جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ چاروں اناجیل کے مطالعہ سے یہی تاثر لیا جا سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب کم از کم آپ کے قریبی ساتھیوں یا حواریوں میں شامل نہیں تھے۔ اب ہم اناجیل کے علاوہ ان دوسری کتب اور خطوط کا جائزہ لیتے ہیں جنہیں مسیحی دنیا ’نئے عہد نامہ‘ میں شمار کرتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہجرت کے بعد آپ کے حواریوں اور پیروکاروں کے حالات نئے عہد نامہ کی کتاب ’اعمال‘میں درج ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب آپ کے حواری آپ سے رخصت ہوکر یروشلم میں داخل ہوئے تھے، اس وقت کی مختصر سی مسیحی جماعت میں کون سی شخصیات نمایاں سمجھی جاتی تھیں۔اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ’اعمال‘ کی کتاب کے پہلے دو ابواب کی یہ عبارت پڑھتے ہیں: ’’اور جب اُس میں داخل ہوئے تو اُس بالاخانہ پر چڑھے جس میں وہ یعنی پطرس اور یوحنا اور یعقوب اور اِندریاس اور فِلپُّس اور توما اور برتلمائی اور متّی اور حلفئ کا بیٹا یعقوب اور شمعُون زیلوتیس اور یعقوب کا بیٹا یہود رہتے تھے۔ یہ سب کے سب چند عورتوں اور یسوع کی ماں مریم اور اُس کے بھائیوں کے ساتھ ایک دل ہوکر دعا میں مشغول رہے۔ اور اُنہی دنوں پطرس بھائیوں میں جو تخمیناً ایک سَوبیس شخصوں کی جماعت تھی کھڑا ہوکر کہنے لگا۔ اےبھائیو !اُس نوِشتہ کا پورا ہونا ضرور تھا جو رُوح القدس نے داؤد کی زبانی اُس یہودا کے حق میں پہلے سے کہا تھا جو یسوع کے پکڑنے والوں کا رہنما ہؤا۔ کیونکہ وہ ہم میں شمار کیا گیا اور اُس نے اِس خدمت کا حصہ پایا۔ اُس نے بدکاری کی کمائی سے ایک کھیت حاصل کیا اور سر کے بل گرا اور اُ س کا پیٹ پھٹ گیا اور اُس کی سب انتڑیاں نکل پڑیں۔ اور یہ یروشلم کے سب رہنے والوں کو معلوم ہؤا۔ یہاں تک کہ اُس کھیت کا نام اُن کی زبان میں ہَقَل دما پڑگیا یعنی خون کا کھیت پڑگیا کیونکہ زبُور میں لکھا ہے کہ اُس کا گھر اُجڑ جائے اور اُس میں کوئی بسنے والا نہ رہے اور اُس کا عہدہ دوسرا لے لے۔ پس جتنے عرصہ تک خداوند یسوع ہمارے ساتھ آتا رہا یعنی یوحنا کے بپتسمہ سے لےکر خداوند کے ہمارے پاس سے اُٹھائے جانے تک جو برابر ہمارے ساتھ رہے۔ چاہئے کہ اُن میں سے ایک مرد ہمارے ساتھ اُس کے جی اُٹھنے کا گواہ بنے۔ پھر اُنہوں نے دو کو پیش کیا۔ ایک یوسف کو جو برسبا کہلاتا اور جِس کا لقب یوستس ہے۔ دوسرا متیاہ کو۔ اور یہ کہہ کر دُعا کی کہ اے خداوند۔ تُو جو سب کے دِلوں کی جانتا ہے۔ یہ ظاہر کرکہ اِن دونوں میں سے تُونے کس کو چُنا ہےکہ وہ اِس خدمت اور رسالت کی جگہ لے جسے یہودا چھوڑ کر اپنی جگہ گیا۔ پھر اُنہوں نے اُن کے بارے میں قُرعہ ڈالا اور قُرعہ متیاہ کے نام کا نِکلا۔ پس وہ اُن گیارہ رسولوں کے ساتھ شمار ہؤا۔‘‘ (اعمال باب ۱ و ۲) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعہ صلیب کے کم و بیش چالیس روز کے بعد جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں سے رخصت ہوئے تو اس وقت آپ کے بھائی یعقوب مسیحی عقائد سے وابستہ جماعت کے نمایاں افراد میں سے ایک تھے۔ اور ظاہر ہے کہ ان میں پولوس شامل نہیں تھا۔ وہ اس وقت تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کے بد ترین دشمنوں میں شامل ہوتا تھا۔یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ اگر یعقوب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں آپ پر ایمان نہیں لائے تھے تو یکلخت چند روز میں جب یہ نئی جماعت واقعہ صلیب کے بعد بد ترین ابتلا سے گزررہی تھی تو یعقوب اس جماعت کے نمایاں افراد میں کس طرح شامل ہو گئے؟ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہجرت کو کچھ عرصہ گزر گیا اس وقت مسیحی جماعت میں یعقوب کی کیا حیثیت تھی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب واقعہ صلیب کو اور پولوس کو نیا مذہب اپنائے تین سال ہو گئے اس وقت وہ پہلی مرتبہ یروشلم گیا تا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں سے ملے۔ پولوس نے گلتیوں(Galatians) کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ میں اس وقت یروشلم میں صرف پطرس اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب سے ملا تھا۔اور چودہ سال کے بعد اس نے دوبارہ یروشلم کا سفر کیا بقول پولوس کے تا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں سے مل کر انہیں اپنی تبلیغی کاوشوں سے آگاہ کرے۔ اس وقت اس کے ساتھ برنباس اور ایک یونانی مسیحی ططس بھی تھا۔ اس وقت اس نے یروشلم میں ان لوگوں کے ساتھ ملاقات کی جنہیں کلیسا کا ستون سمجھا جاتا تھا۔ پولوس نے کلیسا کہ تین ستونوں کے جو نام لکھے ہیں وہ پطرس، یعقوب اور یوحنا ہیں۔(گلتیوں باب ۱ اور ۲) پولوس کے ان خطوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعہ صلیب کے چودہ سال کے بعد حضرت عیسیٰؑ کے بھائی یعقوب کا شمار مسیحی مذہب کے قائدین میں ہوتا تھا۔دیگر تاریخی تفاصیل کا ذکر چھوڑتے ہوئے اب ہم یہ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت یعقوب کی وفات کس طرح ہوئی۔ آپ کی وفات کا ذکر مسیحی دنیا کے ’نئے عہد نامہ‘ میں نہیں ہے۔ ان تفصیلات کا علم حاصل کرنے کے لیے ہم مسیحی دنیا کی قدیم تاریخی کتب کا جائزہ لیں گے۔ حضرت یعقوب کی شہادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صلیب کے واقعہ کو کم و بیش تیس برس کا عرصہ گذر چکا تھا۔ یہود اور رومی حکمرانوں کی مخالفت کے باوجود مختلف ممالک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ان میں بنی اسرائیل کے لوگوں کے علاوہ دوسری اقوام کے لوگ بھی شامل تھے۔۶۲ء میں ابھی بھی فلسطین اور اس کا مرکز یروشلم رومی سلطنت کا حصہ تھے۔ اس وقت روم پر نیرو کی حکومت قائم تھی۔اور اس فرمانروا کے تحت بھی مسیحی عقائد کے لوگوں پر ہر طرح کے مظالم ہو رہے تھے۔ اس وقت یروشلم میں مسیحی مذہب سے وابستہ لوگوں کی قیادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت یعقوب کررہے تھے اور کلیسا کی تاریخ میں انہیں یروشلم کا بشپ کہا جاتا ہے۔ان روایات میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ خود پطرس اور یوحنا حواری نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب کو یروشلم کی مسیحی جماعت کی قیادت کے لیے منتخب کیا تھا۔ انگریزی کے لٹریچر میں ان کا ذکر James the Justکے نام سے ہوتا ہے۔ نہ صرف مسیحی برادری میں بلکہ یہودیوں میں بھی آپ کی نیکی اور عبادت کا بہت شہرہ تھا۔کلیسا کی قدیم تاریخ کے مطابق واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پطرس، یوحنا اور یعقوب کو خاص علوم منتقل کیے تھے۔ حضرت یعقوب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا اکثر وقت یروشلم کی ہیکل میں گھٹنوں کے بل گر کر دعا میں گذارتے تھے یہاں تک کہ آپ کے گھٹنے اونٹ کے گھٹنوں کی طرح سخت ہو گئے تھے۔ آپ بہت زیادہ سادہ غذا کھاتے اور سستا کپڑا پہنتے۔باوجود اس کے کہ یہود میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کی بہت زیادہ مخالفت پائی جاتی تھی لیکن آپ کو یروشلم کے ہیکل کے اندرونی حصہ میں جا کر دعا کرنے سے بھی کوئی نہیں روکتا تھا۔ یہ درست ہے کہ خاص طور پر مسیحیت کے ابتدائی دور کے بارے میں بیان کردہ تاریخ میں بہت سی غلط باتیں شامل ہو گئی ہیں اور بہت سے واقعات مہمل اور نامکمل معلوم ہوتے ہیں اور یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ یہ تاریخ ان لوگوں کی لکھی ہوئی ہے جو تثلیث کے عقائد سے متاثر تھے۔ بہر حال تیسری صدی عیسوی کے مسیحی مؤرخ ایسوبیس (Eusebius) اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ یہودی ان سے سوال کیا کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کون تھے ؟ وہ یہ جواب دیتے تھے کہ وہ ہمارے نجات دہندہ تھے۔ اس وقت یہودیوں میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی وہ مسیح تھے جن کا ہم انتظار کر رہے تھے ؟ اور کئی با اثر یہودی بھی یہ سوال کر رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نا معلوم وجہ سے یہودیوں کے مختلف فرقوں نے یہ ترکیب کی کہ یعقوب کے پاس جا کر کہا کہ حضرت عیسیٰ کے بعد بہت سے لوگ گمراہ ہورہے ہیں اور انہیں مسیح سمجھتے ہیں۔ ہم آپ کو نیک انسان سمجھتے ہیں ہم عید فصح کے موقع پر ہیکل میں آپ کو بلند مقام پر کھڑا کر کے یہ سوال کریں گے کہ آپ کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کیا حیثیت ہے؟ سب آپ کو نیک انسان سمجھتے ہیں وہ آپ کے جواب سے مطمئن ہوجائیں گے۔(ہو سکتا ہے کہ ان یہودیوں کی غرض یہ ہو کہ حضرت یعقوب صرف ان مشرکانہ عقائد کی تردید کریں گو جو پولوس کی کاوشوں سے عام ہو رہے تھے۔) چنانچہ عید فصح کے موقع پر یہود نے ہیکل میں آپ کو بلند مقام پر کھڑا کر کے سوال کیا کہ وہ عیسیٰؑ جسے مصلوب کیا گیا تھا وہ کون تھا؟ ہم سب آپ کو نیک سمجھتے ہیں۔ تاریخ کی اس کتاب کے مطابق آپ نے کہا کہ تم آدم کے بیٹے کے بارے میں مجھ سے کیا سوال کرتے ہو وہ خدا کی دائیں طرف بیٹھا ہے اور بادلوں میں دوبارہ واپس آئے گا۔اس پر بہت سے یہودیوں نے اس کا اقرار کیا۔اس پر یہود کے فریسی اور دوسرے مذہبی راہنما مشتعل ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ غلط کیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام ) کے لیے ایسی گواہی مشتہر ہونےدی۔ انہوں نے اوپر جا کر آپ کو نیچے دھکا دے دیا جس سے آپ گرکر زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد آپ پر پتھر برسائے گئے۔ اس زخمی حالت میں آپ خدا سے یہ دعا کر رہے تھے کہ اےخدا! انہیں معاف کردے کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ یہ کیا کام کر رہے ہیں۔ بعض نیک دل لوگوں نے کہا کہ اسے کیوں مارتے ہو یہ تو تمہارے لیے دعا کر رہا ہے۔لیکن ایک شخص نے کپڑے کوٹنے والے ڈنڈے سے آپ کے سر پر وار کیا جس سے آپ شہید ہوگئے۔اور آپ کو ہیکل میں شہادت کے مقام پر ہی دفن کیا گیا۔ (The Ecclesiastical History, by Eusebius, English Translation by Kirssop Lake, published by Heinneman London , p 171-178) اس کتاب کی تالیف سے بھی قبل پہلی صدی عیسوی کے یہودی مؤرخ جوزیفس نے بھی اپنی کتاب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب کی شہادت کا مختصر ذکر کیا ہے۔یہ مؤرخ اس دور میں فلسطین میں موجود تھا۔جوزیفس بیان کرتا ہے کہ روم کی طرف سے فلسطین پر مقرر کردہ گورنر کی موت ہو گئی اور ابھی دوسرا مقرر کیا گیا گورنر راستے میں تھا اور فلسطین نہیں پہنچا تھا۔ حنان بن حنان (Ananus ben Ananus) یہودیوں کی ہیکل کا سب سے بڑا مذہبی راہنما تھا۔ یہ شخص متشدّد مزاج کا تھا۔ اس نے اس موقع پر یہود کی مذہبی عدالت(Sanhedrin) طلب کر کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب اور بعض دوسرے لوگوں پر شریعت کی خلاف ورزی کرنے کے الزام پر مقدمہ چلا کر انہیں سنگسار کروا دیا۔جب نئے رومی گورنر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ بہت ناراض ہوا اور اس نے حنان بن حنان کو اس کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ (The Works of Flavius Josephus, Translated by Willaim Whiston, publishd by Ward, Lock & Co London.p 530-531) پولوس اور یعقوب کے نظریات کا موازنہ اگر مسیحی دنیا کے نئے عہد نامہ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں پولوس کے نظریات حاوی نظر آتے ہیں۔ اس عہدنامہ میں اناجیل کے علاوہ ابتدائی کلیسا کے بعض قائدین کے خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں۔اس میں شامل کتابوں اور خطوط میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بیان کیے ہوئے اتنے الفاظ شامل نہیں ہیں جتنے پولوس کے خطوط کے الفاظ شامل ہیں۔ یہ خطوط دنیا کے مختلف شہروں کے عیسائیوں کو لکھے گئے تھے۔کفارہ، تثلیث، اور شریعت سے آزادی جیسے عقائد کی زیادہ تر بنیاد پولوس کے خطوط پر ہی ہے۔ نئے عہدنامہ میں پولوس کے چودہ خطوط شامل ہیں اور اس کے برعکس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب کا صرف ایک خط شامل ہے۔اگر ہم پولوس کے خطوط اور یعقوب کے ایک ہی خط کا موازنہ کریں تو بعض واضح فرق نظر آتے ہیں۔ یہ موازنہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ارشادات کی اہمیت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جن کا حوالہ اس مضمون میں دیا جا چکا ہے۔ پہلا فرق یہ ہے کہ یعقوب کے خط میں لکھا ہوا ہے کہ’’مسیح کے خادم یعقوب کی طرف سے بارہ قبیلوں کے ایماندار یہودیوں کے نام۔‘‘ اس عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ یعقوب صرف بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے نام اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں اور ان میں سے کئی قبائل فلسطین سے باہر مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے۔اور انجیل کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا:’’مجھے صرف اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس بھیجا گیا ہے۔‘‘ (متی باب ۱۵) اس کے برعکس پولوس خود اپنے خطوط میں اپنا مشن یہ بیان کرتا ہے: ’’جس طرح پطرس کویہودیوں میں خوش خبری سنانے کا کام دیا گیا ہے اسی طرح مجھے غیر یہودیوں میں خوش خبری سنانے کا کام دیا گیا ہے۔‘‘(گلتیوں باب ۲۔آیت ۷)پھر پولوس اپنے ایک خط میں لکھتا ہے: ’’تم شاید جان گئے ہو گئے کہ خدا نے اپنے فضل سے مجھے یہ خاص ذمہ داری دی ہے کہ اس کے فضل کو غیرقوموں تک پہنچائوں۔‘‘ (افسیوں باب ۳ آیت ۲)یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ یعقوب کی تبلیغ کا مرکز بنی اسرائیل تھے اور پولوس کی کاوشوں کا مرکز دوسری اقوام تھیں۔ جیسا کہ اس مضمون کی ابتدا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حوالہ درج کیا گیا ہے کہ یعقوب توریت کی پیروی کرتے تھے مگر پولوس نے اپنی جماعت کو توریت کی پیروی سے بکلی علیحدہ کر لیا تھا۔جب اس حوالے سے یعقوب کے خط کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں لکھا ہے: ’’تمہارا کام شریعت کی تابعداری کرنا ہے نہ کہ اسے دوسروں کی عدالت کے لیے استعمال کرنا۔شریعت خدا کی طرف سے ہے اور اسی کے پاس عدالت کرنے کا اختیار ہے۔‘‘ (یعقوب باب ۴ آیت۱۱و۱۲) ’’مگر جو کوئی اس کامل شریعت پر غور کرتا ہے جو اسے آزاد کرتی ہے اور اسے سن کر بھولتا نہیں بلکہ عمل کرتا ہے خدا اسے اس کے ہر کام میں برکت دے گا۔‘‘ (یعقوب باب ۱ آیت ۲۵) ’’اگر کوئی ساری شریعت پر عمل کرے اور کسی ایک بات میں خطا کرے تو وہ ساری شریعت کا قصوروار ٹھہرتا ہے۔‘‘ (یعقوب باب ۲ آیت ۱۰) اس کے برعکس شریعت کے بارے میں پولوس کے خطوط میں لکھا ہے: ’’مگر اب خدا نے ہم کو شریعت کے بغیر راستباز ٹھہرانے کی ایک راہ تیار کی ہے۔‘‘ (رومیوں باب ۳ آیت ۲۱) ’’پس اے بھائیو اور بہنو!تم جو مسیح کے ساتھ اس کی موت میں شامل ہو کر شریعت کے بندھ سے آزاد ہو تا کہ اس دوسرے کے ساتھ مل کر جو مردوں سے زندہ ہوا خدا کے لیے نیکی کے پھل پیدا کرو۔‘‘(رومیوں باب ۷ آیت ۴) ’’مگر ختنے کا سوال ان جھوٹے بھائیوں کی وجہ سے اٹھا جو چپکے سے کلیسا میں گھس کرہماری آزادی جو مسیح یسوع کے وسیلے سے ہمیں حاصل ہے، چھین کر ہمیں پھر شریعت کا غلام بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ (گلتیوں باب ۲ آیت ۴) ’’کوئی بھی شریعت پر عمل کرنے سے راستباز نہیں ٹھہرتا۔‘‘ (گلتیوں باب ۲ آیت ۱۶) ’’میں نے خود جب شریعت کی دیواروں کو گرا دیا اور اب دوبارہ انہیں تعمیر کرنا چاہوں تو خود ہی گنہگارٹھہروں۔‘‘ (گلتیوں باب ۲ آیت ۱۸) ’’وہ سب جو شریعت پر اعمال کے باعث خدا کے حضور راستباز ٹھہرنا چاہتے ہیں، لعنت کے نیچے ہیں۔‘‘(گلتیوں باب ۳ آیت ۱۰) ’’ اگر تم شریعت پر عمل کرنے کے وسیلے سے راستباز ٹھہرنا چاہتے ہوتو جان جائو مسیح سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں اور خدا کے فضل سے محروم ہو گئے۔‘‘(گلتیوں باب ۵ آیت ۴) ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ پولوس عیسائی دنیا کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ اب تم شریعت سے آزاد ہو اور یعقوب یہ پیغام دے رہے تھے کہ شریعت پر عمل کرنا ضروری ہے۔ موجودہ عہدنامہ میں بھی جویعقوب کا خط درج ہےاس میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ حضرت عیسیٰؑ نے مصلوب ہو کر دوسروں کے گناہوں کا کفارہ ادا کیا ہے۔ اور نہ ہی تثلیث کا کوئی ذکر ہےاور نہ اس بات کا کہ آپ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوئے تھے۔ اس کے برعکس پولوس کے خطوط میں لکھا ہے: ’’بلکہ ہمارے لیے بھی لکھا گیا جو اس خدا پر ایمان لانے سے راستباز ٹھہرے جس نے ہمارے خداوند یسوع مسیح کو مردوں میں سے زندہ کیا۔ وہ ہمارے گناہوں کے بدلے میں مارے جانے کے لیے حوالے کیا گیا اور ہم کو راستباز ٹھہرانے کے لئے پھرزندہ کیا گیا۔‘‘ (رومیوں باب ۴ آیت ۲۴) ’’جب ہم گنہگار تھے تو مسیح ہماری خاطر مؤا۔پس ہم جو مسیح کے خون کے باعث راستباز ٹھہرے ہیں تو وہ ہمیں خدا کے غضب سے ضرور بچائے گا۔‘‘(رومیوں باب ۵آیت۸و۹) ’’اگر مسیح مردوں میں سے جی نہیں اٹھا تو تمہارا ایمان بے فائدہ ہے اور تم ابھی تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہو۔‘‘ (۱کرنتھیوں باب ۱۵آیت ۱۷) ’’یسوع نے خدا باپ کی مرضی کے مطابق ہمارے گناہوں کی خاطر جان دی تا کہ ہمیں اس خراب جہاں سے چھڑائے۔‘‘ (گلتیوں باب ۱ آیت ۴) ’’اس نے اپنی جان فدیے کے طور پر دے کر سب کو مخلصی دلوائی۔‘‘ (۱ تیمتھیس باب ۲ آیت ۶) پولوس کے ان نظریات کے برعکس یعقوب اپنے خط میں گناہوں کے کفارہ یا فدیہ کی بجائے نیک اعمال پر بار بار زور دیتے ہیں:’’پس اسی طرح ایمان بھی اچھے کاموں کے بغیر مردہ اور بیکار ہے۔‘‘ (یعقوب ۲ آیت ۱۷) ’’عزیز بھائیو اور بہنو!اگر کوئی ایمان رکھنے کا دعویٰ کرے اور اس کے مطابق اس پر عمل نہ کرے تو اس کا کیا فائدہ۔‘‘ (یعقوب باب۲آیت ۱۴) ’’اے نادان! اس بات کو سمجھ کہ ایمان بغیر اعمال کے بیکار ہے۔کیا ہمارا باپ ابراہم اپنے اعمال سے راستباز نہ ٹھہرا؟‘‘(یعقوب باب ۲ آیت ۲۱) ’’ انسان صرف ایمان سے نہیں بلکہ اعمال سے خدا کے نزدیک راستباز ٹھہرتا ہے۔‘‘ (یعقوب باب ۲ آیت ۲۴) پولوس اور یعقوب کے خطوط کے حوالے اوپر درج کردیے گئے ہیں۔ ان دونوں کے نظریات اور عقائد کا فرق ہے؟ اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔ لیکن بہت سے مغربی مصنفین نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ اصل میں دونوں کے عقائد میں کوئی فرق نہیں کافی زور لگایا ہے۔ مثال کے طور پر Hershek Shanks اور Ben Witherington III کی تصنیف The Brother of Jesus کا باب James the Just ملاحظہ فرمائیں۔یا کتاب Brother of Jesus, Friend of Godجو کہ Luke Timothy Johnson کی تصنیف ہے، اس کے صفحہ ۳۰؍ پر درج بحث ملاحظہ کریں۔اس میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ پروٹسٹنٹ فرقہ کے بانی مارٹن لوتھر کا نظریہ تھا کہ یعقوب کے خط میں بیان کردہ نظریات باقی نئے عہد نامہ سے مختلف ہیں۔ یروشلم میں ہونے والی کونسل یہ حضرات اپنی رائے کے حق میں کتاب اعمال کا یہ حوالہ درج کرتے ہیں۔ اس حوالے میں اس وقت کا ذکر ہے جب یروشلم میں اس وقت کلیسا کے عمائدین کی کونسل ہوئی کہ اگر کوئی ایسا شخص جو کہ بنی اسرائیل سے تعلق نہ رکھتا ہو وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے تو کیا اس کے لیے ختنہ کرانا ضروری ہے؟ اس بارے میں کتاب ’اعمال‘ کا معین حوالہ درج کیا جاتا ہے۔ ’’پھر بعض لوگ یہودیہ سے آ کر بھائیوں کو تعلیم دینے لگے کہ موسیٰ کی رسم کے موافق تمہارا ختنہ نہ ہو تو تم نجات نہیں پاسکتے۔ پس جب پولس اور برنباس کی اُن سے بہت تکرار اور بحث ہوئی تو کلیسیا نے ٹھہرایا کہ پولس اور برنباس اور اُن میں سے چند اَور شخص اِس مسئلہ کے لئے رسولوں اور بزرگوں کے پاس یروشلم جائیں۔ پس کلیسیا نے اُن کو روانہ کیا اور وہ غیر قوموں کے رجوع لانے کا بیان کرتے ہوئے فینیکے اور سامریہ سے گزرے اور سب بھائیوں کو بہت خوش کرتے گئے. جب یروشلم میں پہنچے تو کلیسیا اور رسول اور بزرگ اُن سے خوشی کے ساتھ ملے اور انہوں نے سب کچھ بیان کیا جو خدا نے ان کی معرفت کیا تھا۔ مگر فریسیوں کے فرقہ سے جو ایمان لائے تھے ان میں سے بعض نے اٹھ کر کہا کہ ان کا ختنہ کرانا اور اُن کو موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنے کا حکم دینا ضرور ہے۔پس رسول اور بزرگ اس بات پر غور کرنے کے لئے جمع ہوئے۔ اور بہت بحث کے بعد پطرس نے کھڑے ہوکر ان سے کہا کہ اے بھائیو! تم جانتے ہوکہ بہت عرصہ ہؤا جب خدا نے تم لوگوں میں سے مجھے چنا کہ غیر قومیں میری زبان سے خوشخبری کا کلام سن کر ایمان لائیں۔اور خدا نے جو دلوں کی جانتا ہے ان کو بھی ہماری طرح روح القدس دے کر ان کی گواہی دی۔ اور ایمان کے وسیلہ سے ان کے دل پاک کر کے ہم میں اور ان میں کچھ فرق نہ رکھّا۔ پس اب تم شاگردوں کی گردن پر ایسا جؤا رکھ کر جسکو نہ ہمارے باپ دادا اٹھا سکتے تھے نہ ہم خدا کو کیوں آزماتے ہو؟س کا حالانکہ ہم کو یقین ہے کہ جس طرح وہ خداوند یسوع کے فضل ہی سے نجات پائیں گے اسی طرح ہم بھی پائیں گے۔ پھر ساری جماعت چپ رہی اور پولس اور برنباس کا بیان سننے لگی کہ خدا نے ان کی معرفت غیر قوموں میں کیسے کیسے نشان اور عجیب کام ظاہر کئے۔ جب وہ خاموش ہوئے تو یعقوب کہنے لگا کہ اے بھائیو میری سنو!۔ شمعون نے بیان کیا ہے کہ خدا نے پہلے پہل غیر قوموں پر کس طرح توجّہ کی تاکہ ان میں سے اپنے نام کی ایک امّت بنالے۔اور نبیوں کی باتیں بھی اس کے مطابق ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ان باتوں کے بعد میں پھر آ کر داؤد کے گرے ہوئے خیمہ کو اٹھاؤں گا اور اس کے پھٹے ٹوٹے کی مرمّت کر کے اسے کھڑا کروں گاتاکہ باقی آدمی یعنی سب قومیں جو میرے نام کی کہلاتی رہیں خداوند کو تلاش کریں۔ یہ وہی خداوند فرماتا ہے جو دنیا کے شروع سے ان باتوں کی خبر دیتا آیا ہے۔پس میرا فیصلہ یہ ہے کہ جو غیر قوموں میں سے خدا کی طرف رجوع ہوتے ہیں ہم ان کو تکلیف نہ دیں۔ مگر ان کو لکھ بھیجیں کہ بتوں کی مکروہات اور حرامکاری اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور لہو سے پرہیز کریں. کیونکہ قدیم زمانہ سے ہر شہر میں موسیٰ کی توریت کی منادی کرنے والے ہوتے چلے آئے ہیں اور وہ ہر سبت کو عبادت خانوں میں سنائی جاتی ہے۔‘‘(اعمال باب ۱۵) ہو سکتا ہے کئی پڑھنے والوں کو اس حوالے اور یعقوب کے خط میں تضاد نظر آئے لیکن ایک چیز اس باب کے آغاز سے ہی واضح ہوجاتی ہے کہ اس موقع پر جو سوال زیر غور تھا وہ غیر اقوام کے بڑی عمر کے ان لوگوں کے بارے میں تھا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے کہ ان کا ختنہ کرایا جائے یا نہیں۔ جیسا کہ اس حوالے سے ہی ظاہر ہے اس وقت بھی یہی ضروری سمجھا گیا تھا کہ یہ لوگ بھی کھانے کے بارے میں توریت کے احکامات کی پیروی کریں۔اور اس موقع پر شریعت کے ہر حکم سے آزاد ہونے پر کوئی بحث نہیں ہو رہی تھی۔ دیگر قدیم لٹریچر کا تجزیہ ابتدائی عیسائیت میں بہت سی اناجیل اور دیگر مقدس تحریریں رائج تھیں۔لیکن جب چرچ کو طاقت حاصل ہونی شروع ہوئی اور عیسائی دنیا کا ’نیا عہد نامہ‘‘مرتب کیا گیا تو ایسی بہت سی تحریروں کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ ان کو تلف کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ جو محفوظ رہ گئیں ان کو ‘Apocrypha’ کہا جاتا ہے۔ اب ان تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان تحریروں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت یعقوب کے بارے میں کیا بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ‘ عبرانیوں کی انجیل ’ (Gospel according to the Hebrews) بھی ہے۔ یہ مکمل طور پر محفوظ تو نہیں رہی لیکن کئی پرانی کتب میں اس کے ٹکڑے محفوظ رہ گئے ہیں۔ان میں سے ایک حصہ کے مطابق واقعہ صلیب کے بعد یعقوب نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت تک کھانا پینا ترک رکھیں گے جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے پاس آئے اور روٹی توڑ کر انہیں دی اور کہا کہ میرے بھائی!کھائو۔ابن آدم سونے والے لوگوں میں سے اُٹھ آیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہاں سونے کا ذکر ہے اور موت سے بیدار ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ (Hershel Shanks & Ben Witherington III. The Brother of Jesus. Published by HarperSan francisco 2003, p184) تاریخ کا علم ساکت نہیں ہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہزاروں سال پرانی تاریخ منوں مٹی تلے دفن ہوتی ہے۔ اور پھر ایک دن کوئی اتفاق یا کسی ماہر آثار قدیمہ کی کاوش اس دفن شدہ راز کو باہر نکا ل کر دنیا کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ ایسی مدفون تحریروں کو نکالنا اتنا مشکل نہیں جتنا اس کا تجزیہ کرنا۔ اور یہ عمل کئی دہائیوں تک چلتا ہے۔ ۱۹۴۵ء میں شمالی مصر کے ایک مقام پر صحرا میں ایک قبرستان میں ایک نو عمر کسان محمد السامان نے ایک مٹی کا بڑا برتن دریافت کیا جس میں کئی پرانی تحریریں محفوظ کر کے دفن کی گئی تھیں۔ ایک سال بعد ماہرین کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس کے ٹکڑے جمع کرکے ان کا مطالعہ شروع کیا۔ ان میں قدیم عیسائی دنیا کی کئی تحریریں شامل تھیں جو کہ نئے عہد نامہ میں شامل نہیں ہیں۔محققین کا خیال ہے کہ ان کو قریب ایک مسیحی خانقاہ کے راہبوں نے چوتھی صدی عیسوی میں اس وقت دفن کیا تھا جب ۳۶۷ء میں سکندریہ کے کلیسا کی طرف سے ایک خط جاری کیا گیا تھا کہ جن کتابوں کو نئے عہدنامہ میں شامل نہیں کیا گیا وہ بدعت ہیں اور گمراہ لوگوں کی اختراع ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اسی دبائو کی وجہ سے ان تحریروں کو صحرا میں دفن کر دیا گیا ہو۔ لیکن ان تحریروں کو اس مرحلہ سے بہت پہلے لکھا گیا تھا۔اس لائبریری کو ناگ حمادی (Nag Hammadi) لائبریری کہا جاتا ہے۔ان تحریروں کے بارے میں ماہرین کا نظریہ ہے کہ یہ ان عیسائی فرقوں کی تحریریں ہیں جو قدیم نظریات سےجنہیں Gnosticنظریات کہا جاتا ہے، متاثر تھے۔ ان میں سے بعض کتب کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب سے بھی ہے۔ان تحریروں میں ایک کتاب ‘‘Secret Book of James’’ یعنی یعقوب کی خفیہ کتاب ہے۔ اس میں ایک خط شامل ہے جو اس خط کا ترجمہ ہے جو یعقوب نے لکھا تھااور اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے اَور خطوط بھی لکھے گئے تھے۔ یہ خطوط جن کو بھی لکھے گئے، انہیں یہی ہدایت تھی کہ جو راز ان میں بیان کیے جا رہے ہیں، بہت زیادہ لوگوں کو ان میں شریک نہ کیا جائے۔اس خط میں یعقوب بیان کرتے ہیں کہ ایک مخصوص طبقہ کو ان خطوط کے معانی کو سمجھنا چاہیے۔وہ لکھتے ہیں کہ واقعہ صلیب کے پانچ سو پچاس روز بعد حضرت عیسیٰ ؑکے بارہ حواری ان باتوں کو یاد کر رہے تھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان سے بیان کی تھیں۔اور یہ باتیں کر رہے تھے کہ یہ اقوال ایک کتاب میں محفوظ کر لیے جائیں۔اور میں بھی کچھ لکھ رہا تھا۔ اس دوران حضرت عیسیٰ علیہ السلام ظاہر ہوئے۔ہم نے ان سے عرض کی کہ کیا آپ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں میں وہیں واپس جائوں گا جہاں سے آیا ہوں اور اگر تم میں سے کسی نے میرے ساتھ جانا ہے تو آجائے۔ اس پر سب نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ جائیں گے۔اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ پطرس اور یعقوب کو میرے پاس چھوڑ دو اور باقی لوگ وہی کر تے رہیں جو کر رہے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پطرس اور یعقوب کو علیحدہ تعلیم دی۔اس خط میں دیگر نصائح کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ میں تمہیں چھوڑ کر جلدی چلا جائوں گا اور میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتا۔اس خط میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ نصائح کر دیں تو وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے لیکن جب یہ دونوں باقی حواریوں کے پاس واپس آئے اور انہوں نے دریافت کیا کہ آقا نے تمہیں کیا بتایا اور وہ کہاں چلا گیا تو ہم نے انہیں یہ کہا کہ وہ اوپر چلا گیا ہے۔اور پھر یعقوب نے انہیں مختلف مقامات کے لیے روانہ کیا اورخود یروشلم آ گئے۔یہ خط اصل خط کا ترجمہ یا ترجمہ درترجمہ اور نقل در نقل ہے۔ اس کے کن مندرجات کو کس حد تک قبول کیا جاسکتا ہے؟ یہ ایک تحقیق طلب بات ہے۔ اس کے علاوہ ناگ حمادی لائبریری میں یعقوب کے دو مکاشفات(Revelations of James) بھی نا مکمل حالت میں ملے تھے۔باقی لائبریری کی طرح اِن کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ Gnostic Christiansکا لٹریچر ہے۔ اور اسی فرقہ کے خیالات اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یعقوب کی گفتگو کی صورت میں لکھے گئے ہیں۔ مضمون کے آخر میں ہم یہی خلاصہ نکال سکتے ہیں کہ جب واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں سے رخصت ہو گئے تو ان میں مختلف گروہ پیدا ہوگئے۔ اب تک تو پولوس اس نئے عقیدہ کا سخت دشمن تھا لیکن بعد میں اس نے یہ دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس پر ظاہر ہوئے اور انہوں نے اسے حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کے علاوہ دوسری اقوام کو اُن کا پیغام پہنچائے۔ اور پولوس نے تثلیث اور کفارہ کے عقیدہ کا پرچار کرنا شروع کیا اور یہ ترغیب دی کہ حضرت عیسیٰ کے کفارہ پر ایمان لانے کے بعد شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یروشلم میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کا ایک گروہ موجود تھا اور اس گروہ کی قیادت حضرت عیسیٰؑ کے بھائی حضرت یعقوب کر رہے تھے۔ یہ گروہ توحید پر ایمان رکھتا تھا اور حضرت عیسیٰؑ کی ہدایات کے مطابق توریت کے احکامات پر عمل کرتا تھا۔ اور تثلیث اور کفارہ کا قائل نہیں تھا۔حضرت یعقوب کی شہادت کے بعد تو یہ گروہ کمزور ہوا ہوگا لیکن اس کے کچھ سال بعد ۷۰ء میں یروشلم کے یہود نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی اور اس کی پاداش میں رومی افواج نے یروشلم کو تباہ کرکے یہود کے بڑے معبد کو بھی گرادیا۔ اس کے نتیجے میں یروشلم میں موجود مسیحی گروہ بھی تتر بتر ہو کر ختم ہو گیا۔ اور پولوس کے نظریات کا تابع گروہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گیا اور اس نے باقی فرقوں کو بھی ختم کرنا شروع کر دیا اور اس طرح عیسائیت کی موجودہ شکل نے جنم لیا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اسلام کا حقیقی مفہوم