https://youtu.be/-XT8NkNRxRc ان آیات [النور۳۱۔۳۲] میں جن باتوں کا ذکرکیاگیاہے ان کو مَیں مزید کھولتاہوں۔ سب سے پہلے تو مردوں کو حکم ہے کہ غضِّ بصرسے کام لیں۔ یعنی اپنی آنکھ کو اس چیزکو دیکھنے سے روکے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے۔ یعنی بلا وجہ نامحرم عورتوں کو نہ دیکھیں۔ جب بھی نظر اٹھاکر پھریں گے تو پھر تجسس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے چلو۔ اسی بیماری سے بچنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ نیم وا آنکھوں سے چلو۔ یعنی ادھ کھلی آنکھوں سے، راستوں پرپوری آنکھیں پھاڑ کر نہ چلو۔ بند بھی نہ ہوں کہ ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے پھرو۔ لیکن اتنی کھلی ہوں کہ کسی بھی قسم کا تجسس ظاہر نہ ہوتاہو کہ جس چیز پرایک دفعہ نظر پڑ جائے پھر اس کو دیکھتے ہی چلے جاناہے۔ نظرکس طرح ڈالنی چاہئے اس کی آگے حدیث سے وضاحت کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے علامہ طبری کا جو بیان ہے وہ پیش کرتاہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ غضِّ بصرسے مراد اپنی نظر کو ہر اس چیز سے روکناہے جس سے اللہ تعالی نے روکا ہے۔ (تفسیر الطبری جلد ۱۸ صفحہ۱۱۶، ۱۱۷) تومردوں کے لئے تو پہلے ہی حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اوراگر مرد اپنی نظریں نیچی رکھیں گے توبہت سی برائیوں کا تو یہیں خاتمہ ہوجاتاہے۔ …پھر مومن عورتوں کے لئے حکم ہے کہ غض بصر سے کام لیں اور آنکھیں نیچی رکھاکریں۔ اگر عورت اونچی نظر کرکے چلے گی تو ایسے مرد جن کے د لوں پر شیطان نے قبضہ کیا ہوا ہے وہ تو پھر اُن عورتوں کے لئے مشکلات ہی پیدا کرتے رہیں گے۔ توہر عورت کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بدنامی سے بچانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے غض بصر کا، اس پر عمل کرے تاکہ کسی بھی قسم کی بدنامی کا باعث نہ ہو۔ کیونکہ اس قسم کے مرد جن کے دلوں میں کجی ہو، شرارت ہو تو وہ بعض دفعہ ذراسی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں اور پھر بلاوجہ کے تبصرے شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے آنحضرتﷺ نے اپنی بیویوں کو یہاں تک فرمایا تھا کہ اگر مخنث آئے تو اس سے بھی پردہ کرو۔ ہوسکتاہے کہ یہ باہر جا کر دوسرے مردوں سے باتیں کرے اور اس طرح اشاعت فحش کا موجب ہو۔ تو دیکھیں آنحضرتﷺ نے کس حد تک پابندی لگائی ہے۔ کجا یہ کہ جوان مرد جن کے دل میں کیا کچھ ہے ہمیں نہیں پتہ، ان سے نظر میں نظر ڈال کر بات کی جائے یادیکھا جائے۔ بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ کسی مجبوری کی وجہ سے کسی مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ایسا لہجہ ہونا چاہئے جس میں تھوڑی سی خفگی ہو، ترشی ہو تاکہ مرد کے دل میں کبھی کوئی برا خیال نہ پیداہو۔ تو اس حد تک سختی کا حکم ہے ۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍ جنوری ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۹؍اپریل۲۰۰۴ء) مزید پڑھیں: نظام کی کامیابی قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے میں ہے