https://youtu.be/55Kqts2yqSQ از تحریرات حضرت اقدس مسیح موعودؑ کوئی اِنسان کبھی اِس شریف لقب اہلِ اسلام سے حقیقی طور پر ملقّب نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوّتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخُدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیت سے معہ اُس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اُٹھا کر اُسی کی راہ میں نہ لگ جاوے۔پس حقیقی طور پر اُسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا جب اُس کی غافلانہ زندگی پرایک سخت اِنقلاب وارد ہو کر اُسکے نفسِ ا مّارہ کا نقش ہستی مع اُس کے تمام جذبات کے یک دفعہ مٹ جائے اور پھر اِس موت کے بعد مُحسن للہ ہونے کے نئی زندگی اُس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اُس میں بجز طاعتِ خالق اور ہمدردیٔ مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو۔(حضرت اقدس مسیح موعودؑ) اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو فطرتِ پاک پر پیدا کیا ہے۔لیکن زندگی کے مختلف حالات اور معاشرتی ماحول بعض اوقات انسان کو اس فطرت سے دور کر دیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، وَيُنَصِّرَانِهِ، وَيُشَرِّكَانِهِ۔(صحيح مسلم كتاب القدر باب معنى كل مولود يولد على الفطرة وحكم موت اطفال الكفار واطفال المسلمين ۲۶۵۸) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر بچہ فطرتِ انسانی کے مطابق پیدا ہوتا ہے، یعنی اسلام کی بنیاد پر۔ مگر اس کے والدین یا معاشرہ اسے مذہب میں تبدیل کر دیتے ہیں، جیسے یہودی، عیسائی یا مشرک۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی فطرت کو پہچانے اور دینِ اسلام کی اصل تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی کو سنوارے۔ اسلام کے لغوی معنی اسلام کا لفظ س، ل، م، سَلِمَ سے نکلا ہے۔ اس کے لغوی معانی بچنے، محفوظ رہنے، مصالحت اور امن و سلامتی پانے اور فراہم کرنے کے ہیں۔ حدیث نبویہؐ میں بھی اسلام کو انہی معانی کے تناظر میں بیان کیا گیا ہے: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ منْ لِّسَانِهٖ وَيَدِهٖ (بخاری ، کتاب الايمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه و يده)یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ اسی مادہ کے باب اِفعال سے لفظ ’اسلام‘ بنا ہے۔ لغت کی رُو سے لفظ اسلام کے کئی معنی ہیں۔ اسلام کا لغوی معنی خود امن و سکون پانا، دوسرے افراد کو امن و سلامتی دینا اور کسی چیز کی حفاظت کرنا ہے۔جیسے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: يَهْدِيْ بِهِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَه سُبُلَ السَّلٰمِ (المائدہ :۱۷) اللہ اس کے ذریعہ سے ان (لوگوں) کو جو اس کی رضا (کی راہ) پر چلتے ہیں سلامتی کی راہوں پر چلاتا ہے۔ ’اسلام‘ کا ایک مفہوم ماننا، تسلیم کرنا، جھکنا اور اطاعت اختیار کرنا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (البقرہ: ۱۳۲) جب اس کے ربّ نے اسے کہا کہ (ہماری) فرمانبرداری اختیار کر۔ اس نے (جواب میں) کہا کہ میں (تو پہلے ہی سے) تمام جہانوں کے رب کی فرمانبرداری اختیار کر چکا ہوں۔ اسلام میں صلح و آشتی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا: وَإِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔(الانفال:۶۲)اور(اگر تمہاری تیاریوں کو دیکھ کر) وہ (کافر) صلح کی طرف مائل ہوں تو (اے رسول!) تو بھی صلح کی طرف مائل ہو اور اللہ پر توکل کر۔ اللہ یقیناً بہت دعائیں سننے والا (اور) بہت جاننے والا ہے۔ صاحب مفردات امام راغبؒ اسلام کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:الْإِسْلَامُ: الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم كلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشيء إلى فلان: إذا أخرجته إليه، ومنه: السَّلَمُ في البيع۔ اسلام: اس کے اصل معنی سلم (صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اورصلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بے خوف ہو جائیں اور یہ أسلمت الشيء إلى فلان ( باب افعال کا مصدر ہے ) اور اسی سے بیع سلم ہے ۔( المفردات في غريب القرآن ١٤٢٣) اسلام کسی نئے مذہب کا نام نہیں بلکہ جو انبیا ئے کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اس دنیا میں تشریف لائے تھے، تو اللہ نے اس دین کا نام بھی اسلام ہی رکھاتھا ۔ جیسا کہ فرماتا ہے :إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ۔ (البقرہ:۱۳۲) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ مسلمان ہو جاؤتو انہوں نےکہا میں اللہ تعالیٰ پر پہلے ہی ایمان لا چکا ہوں ۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس آیت کی بابت فرماتے ہیں:’’میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اِسے سُنے یا نہ سُنے کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ اور ابدی زندگی کا طلب گار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں، میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم کی طرح اس کی روح بول اٹھے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (البقرۃ:۱۳۲) جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا، خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ ۵۰۲، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) لغت عرب میں اسلام کے معنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اسلام کے معنی بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵، صفحہ ۵۷-۵۸) اسلام کے اصطلاحی معنی آپؑ اسلام کے اصطلاحی معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اِس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اُس کی راہ میں لگا دیوے مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہوجاوے۔ اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اور ’’عملی ‘‘طور پر اس طرح سے کہ خالصاً للہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہریک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۵۸) اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کردینا ہی عین اسلام ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ اسلام محض چند رسومات یا ظاہری اعمال کا نام نہیں، بلکہ یہ کامل اطاعت، مکمل سپردگی اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں فنا ہونے کا نام ہے۔ حضرت ابراہیمؑ سے لے کر آنحضرت ﷺ تک تمام انبیاء کرامؑ نے اسی حقیقی اسلام کی تعلیم دی اور اپنی عملی زندگیوں سے اس کا کامل نمونہ پیش فرمایا۔ اسلام کی حقیقت آپؑ اسلام کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اِسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی اِنسان کبھی اِس شریف لقب اہلِ اسلام سے حقیقی طور پر ملقّب نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوّتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیت سے معہ اُس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اُٹھا کر اُسی کی راہ میں نہ لگ جاوے۔پس حقیقی طور پر اُسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا جب اُس کی غافلانہ زندگی پرایک سخت اِنقلاب وارد ہو کر اُسکے نفسِ امّارہ کا نقش ہستی مع اُس کے تمام جذبات کے یک دفعہ مٹ جائے اور پھر اِس موت کے بعد مُحسن للہ ہونے کے نئی زندگی اُس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اُس میں بجز طاعتِ خالق اور ہمدردیٔ مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو۔ خالق کی طاعت اس طرح سے کہ اُس کی عزت وجلال اور یگانگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزتی اور ذلت قبول کرنے کے لئے مُستعد ہواور اُس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں موتوں کو قبول کرنے کے لئے طیارہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشی خاطر کاٹ سکے اور اُس کے احکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضا جوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلاوے کہ گویا وہ کھاجانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے یا بھسم کر دینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوّتوں کے ساتھ بھاگناچاہے۔ غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیّات چھوڑ دے اور اس کے پیوَند کے لئے جانکاہ زخموں سے مجروح ہونا قبول کرلے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے سب نفسانی تعلّقات توڑ دے۔اور خلق کی خدمت اِس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اورطُرق کی راہ سے قسامِ اَزل نے بعض کو بعض کا محتاج کررکھا ہے اِن تمام امور میں محض للہ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہو سکتی ہے ان کو نفع پہنچا وے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خداداد قوّت سے مدد دے اور اُن کی دنیاوآخرت دونوں کی اِصلاح کے لئے زور لگاوے۔…سو یہ عظیم الشّان لِلّہی طاعت وخدمت جو پیار اور محبت سے ملی ہوئی اور خلوص اور حنفیتِ تامہ سے بھری ہوئی ہے یہی اِسلام اور اِسلام کی حقیقت اور اِسلام کا لُبّ لُباب ہے جو نفس اور خلق اور ہَوا اور ارادہ سے موت حاصل کرنے کے بعد ملتاہے‘‘۔(آئینہ کمالاتِ اِسلام،روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۶۰۔۶۲) انسان اس وقت حقیقی مسلمان بن سکتا ہے جب وہ اپنی ہر چیز کو اللہ کی راہ میں وار دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَکَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَالۡفُسُوۡقَ وَالۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ۔(الحجرات:۸)لیکن اللہ نے تمہاری نگاہ میں ایمان کو پیارا بنایا ہے اور تمہارے دلوں میں اس کو خوبصورت کرکے دکھایا ہے اور تمہاری نگاہ میں کفر اور اطاعت سے نکل جانے اور نافرمانی کرنے کو ناپسندیدہ کرکے دکھایا ہے (جو لوگ اس آیت کے مصداق ہیں) وہی لوگ سیدھے راستہ پر ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کو اپنی جان اور ماں باپ سے زیادہ پیارا ہو تو اس وقت ہی وہ حقیقی مسلمان بن سکتا ہے حدیث شریف میں آتا ہے :عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ هِشَامٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الْآنَ، وَاللّٰهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْآنَ يَا عُمَرُ۔ ( صحیح البخاری كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ، ۶۶۳۲)حضرت عبداللہ بن ہشامؓ بیان کرتے ہیں: ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ عمر بن خطابؓ کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھے، عمرؓ نے آپﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یارسول اللہؐ! آپ مجھے اپنی جان کے سواہرچیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: (عمر!) ابھی (کامل) ایمان کا تقاضا پورا نہیں ہوا۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے (ایمان تب مکمل ہوگا) جب میں تمہاری جان سے بھی زیادہ تمہیں محبوب ہوجاؤں۔ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: (یارسول اللہؐ!) اب یہی کیفیت ہے۔ واللہ!آپ ضرور مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا: عمر! اب تم نے ایمان کے مرتبۂ مال کو پا لیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے لفظ اسلام کے حقیقی معنی اور مفہوم کو قرآنی آیات کے ذریعے سے واضح فرمایا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ پھر بعد اس کے لفظ اسلام کا مفہوم بھی محبّت پر ہی دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے آگے اپنا سر رکھ دینا اور صدق دل سے قربان ہونے کے لئے طیّار ہوجانا جو اسلام کا مفہوم ہے یہ وہ عملی حالت ہے جو محبت کے سرچشمہ سے نکلتی ہے۔ اسلام کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے صرف قولی طور پر محبت کو محدود نہیں رکھا بلکہ عملی طور پر بھی محبت اور جان فشانی کا طریق سکھایا ہے۔ دنیا میں اور کونسا دین ہے جس کے بانی نے اس کا نام اسلام رکھا ہے؟ اسلام نہایت پیارا لفظ ہے اور صدق اور اخلاص اور محبت کے معنے کوٹ کوٹ کر اس میں بھرے ہوئے ہیں۔ پس مبارک وہ مذہب جس کا نام اسلام ہے۔ ایسا ہی خدا کی محبت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ(البقرہ: ۱۶۶) یعنی ایماندار وہ ہیں جو سب سے زیادہ خدا سے محبت رکھتے ہیں۔ پھر ایک جگہ فرماتا ہے۔ فَاذْکُرُوا اللّٰهَ کَذِکْرِکُمْ آباءَکُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِکْرًا (البقرہ: ۲۰۱) یعنی خدا کو ایسا یاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے تھے بلکہ اس سے زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو۔ اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ(الانعام: ۱۶۳) یعنی ان کو جو تیری پیروی کرنا چاہتے ہیں یہ کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا زندہ رہنا سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے یعنی جو میری پیروی کرنا چاہتا ہے وہ بھی اس قربانی کو ادا کرے۔ اور پھر ایک جگہ فرمایا کہ اگر تم اپنی جانوں اور اپنے دوستوں اور اپنے باغوں اور اپنی تجارتوں کو خدا اور اس کے رسول سے زیادہ پیاری چیزیں جانتے ہو تو الگ ہو جاؤ جب تک خدا تعالیٰ فیصلہ کرے۔ اور ایسا ہی ایک جگہ فرمایا۔ وَیُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّیَتِیۡمًا وَّاَسِیۡرًا ۔ اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُکُوۡرًا (الدھر: ۹، ۱۰) یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ ہم محض خدا کی محبت اور اس کے منہ کے لئے تمہیں دیتے ہیں۔ ہم تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتے اور نہ شکر گذاری چاہتے ہیں۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۶۷، ۳۶۸) اسی طرح آپ علیہ السلام ایک اور موقع پر فرماتے ہیں’’اسلام کے معنے ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا یہ پیارا نام تمام شریعت کی رُوح اور تمام احکام کی جان ہے۔ ذبح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے۔ پس اسلام کا لفظ اِسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی ضرورت۔ اِسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتاہے۔لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ (الحج: ۳۷) یعنی تمہاری (قربانیوں) کے نہ تو گوشت میرے تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ خون بلکہ صرف یہ قربانی میرے تک پہنچتی ہے کہ تم مجھ سے ڈرو اور میرے لئے تقویٰ اختیار کرو۔ اب جاننا چاہئے کہ مذہب اسلام کے تمام احکام کی اصل غرض یہی ہے کہ وہ حقیقت جو لفظ اسلام میں مخفی ہے اُس تک پہنچایا جائے۔ اسی غرض کے لحاظ سے قرآن شریف میں ایسی تعلیمیں ہیں کہ جو خدا کو پیارا بنانے کے لئے کوشش کررہی ہیں۔ کہیں اس کے حسن و جمال کو دکھاتی ہیں اور کہیں اُس کے احسانوں کو یاد دلاتی ہیں۔ کیونکہ کسی کی محبت یا تو حُسن کے ذریعہ سے دل میں بیٹھتی ہے اور یا احسان کے ذریعہ سے۔‘‘(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۱۵۲) اسلام امن و سلامتی کا مذہب اسلام تو صرف امن وسلامتی کا درس دیتا ہے ، اور ایک دوسرے سے محبت اور پیار کی تلقین کرتا ہے۔ روایت میں آتا ہے : عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ۔ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ (صحيح مسلم كتاب الإيمان باب بيان تفاضل الإسلام واي اموره افضل: ۳۹)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تمام انسانیت سے حسنِ سلوک کی تلقین کی ہے ۔ گویا مالی وبدنی طور پر جس قدر بھی مکارم اخلاق ہیں ،ان سب کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اسلامی جنگوں کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’اسلامی جنگیں بالکل دفاعی لڑائیاں تھیں جب کفار کی تکالیف اور شرارتیں حد سے گذر گئیں تو خدا نے ان کے سزا دینے کے لئے یہ حکم دیا۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ۲۹۵، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) فرمایا: اب تلوار سے کام لینا تو اسلام پر تلوار مارنی ہے اب تو دلوں کو فتح کرنے کا وقت ہے اور یہ بات جبر سے نہیں ہو سکتی۔یہ اعتراض کہ آنحضرتؐ نے پہلے تلوار اٹھائی بالکل غلط ہے تیرہ برس تک آنحضرتؐ اور صحابہ صبر کرتے رہے پھر باوجود اس کے کہ دشمنوں کا تعاقب کرتے تھے مگر صلح کے خواستگار ہوتے تھے کہ کسی طرح جنگ نہ ہو اور جو مشرک قومیں صلح اور امن کی خواستگار ہوتیں ان کو امن دیا جاتا اور صلح کی جاتی۔اسلام نے بڑے بڑے پیچوں سے اپنے آپ کو جنگ سے بچانا چاہا ہے جنگ کی بنیاد کو خود خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ چونکہ یہ لوگ بہت مظلوم ہیں اور ان کو ہر طرح سے دکھ دیا گیا ہے اس لئے اب اﷲ تعالیٰ اجازت دیتا ہے کہ یہ بھی ان کے مقابلہ پر لڑیں۔ورنہ اگر تعصّب ہوتا تو یہ حکم پہنچتا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ دین کی اشاعت کے واسطے جنگ کریں لیکن ادھر حکم دیا کہ لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (البقرۃ : ۲۵۷) (یعنی دین میں کوئی زبردستی نہیں )اور ادھر جب غایت درجہ کی سختی اور ظلم مسلمانوں پر ہوئے تو پھر مقابلہ کا حکم دیا۔(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۴۵۱، ۴۵۲، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اسلام کا حقیقی مفہوم یہی ہے کہ بندہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرے اور اپنی زندگی کا ہر پہلو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع کر دے۔آج بھی اس تعلیم کو اپنانا ہی انسانیت کی نجات اور حقیقی امن و سلامتی کی ضمانت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس حقیقی اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آنحضرت ﷺکے حقیقی غلامِ صادق