نظام کی کامیابی کا اورترقی کاانحصار اس نظام سے منسلک لوگوں اور اس نظام کے قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی کرنے پر ہوتاہے۔ چنانچہ دیکھ لیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی پابندی کی شرح تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک سے بہت زیادہ ہے اوران ممالک کی ترقی کی ایک بہت بڑی وجہ یہی ہے کہ عموماً چاہے بڑا آدمی ہو یا ا فسر ہو اگر ایک دفعہ اس کی غلطی باہر نکل گئی تو پھر اتنا شور پڑتاہے کہ اس کو اس غلطی کے نتائج بہر حال بھگتنے پڑتے ہیں اور اپنی اس غلطی کی جو بھی سزا ہے اس کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ غریب ممالک میں یا آ ج کل جو ٹرم (Term) ہے تیسری دنیا کے ممالک میں آپ دیکھیں گے کہ اگر کوئی غلط بات ہے تو اس پر اس حد تک پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ احساس ندامت اور شرمندگی بھی ختم ہو جاتاہے اور نتیجۃً ایسی باتیں ہی پھر ملکی ترقی میں روک بنتی ہیں۔تو اگر دنیاوی نظام میں قانون کی پابندی کی اس حد تک، اس شدت سے ضرورت ہے تو روحانی نظام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترا ہوا نظام ہے اس میں کس حد تک اس پابندی کی ضرورت ہوگی اورکس حد تک اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔یاد رکھیں کہ دینی اور روحانی نظام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں کے ذریعہ اس دنیا میں قائم ہوتے ہیں اس لئے بہر حال انہی اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں اور نبی کے ذریعہ، انبیاء کے ذریعہ پہنچے اور اسلام میں آنحضرتﷺ کے ذریعہ یہ نظام ہم تک پہنچا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا حسان ہے احمدیوں پر کہ نہ صرف ہادیٔ کاملﷺکی امت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظام خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں ۔لیکن یاد رکھیں کہ یہ کڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے ہاتھ اگر ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے۔ اس لئے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظام جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو۔ کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں ۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍اگست ۲۰۰۳ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍اکتوبر۲۰۰۳ء) مزید پڑھیں: نیک صحبت کا اثر اور اخلاقی بلندی