https://youtu.be/qdAjGhRACKk ’’آنحضرتؐ کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ قرآن شریف کی یہ پیشگوئی ہے کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ:۶۸) اورپہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخرزمان کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہوگا۔‘‘ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی ہستی ایک کامل ذات ہے اور جب وہ ایک پاک و مطہر انسان کو قوم کی اصلاح کے لیے بھیجتی ہے تو اس شخص کو اپنی موجودگی کے بیش بہا نشانات سے نوازتی ہے تا وہ انسان تازہ بتازہ نشانات کو مشاہدہ کرتا رہے اور اس کا اور اس کے پیروکاروں کا ایمان مضبوط رہے۔ انہی نشانات میں سے ایک نشان اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا کہ وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة :۶۸) یعنی اے محمد(ﷺ) میں ہی وہ ذات ہوں جو تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ یہ وہ زندہ خدا کا وعدہ تھا جس نے آپؐ کو مکہ اور مدینہ میں ہر شر سے محفوظ رکھا۔ جنگوں کے علاوہ آپؐ پر ۱۴؍قاتلانہ حملے یا سازشیں ہوئیں جن سے اللہ نے محض اپنے فضل سے آپ کو محفوظ رکھ کر اپنی زندہ ہستی کا ثبوت دیا۔ جس کی عکاسی قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی کرتی ہے: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا ۣالَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحۡیٖ وَیُمِیۡتُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہِ النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ الَّذِیۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ۔(الاعراف :۱۵۹) یعنی تُو کہہ دے کہ اےانسانو! ىقىناً مىں تم سب کى طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے قبضے مىں آسمانوں اور زمىن کى بادشاہى ہے اس کے سوا اَور کوئى معبود نہىں وہ زندہ بھى کرتا ہے اور مارتا بھى ہے پس اىمان لے آؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبى اُمّى پر جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر اىمان رکھتا ہے اور اُسى کى پىروى کرو تاکہ تم ہداىت پا جاؤ۔ اس آیت کریمہ میں واضح بتایا کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے اور جس کو وہ بچانا چاہے اس کو دنیا کی کوئی چیز ضرر نہیں پہنچا سکتی۔ آئیے اب مختصراً ان واقعات کو دیکھتے ہیں : خانہ کعبہ میں آپؐ پر حملہ : جب آنحضرت ﷺ نے اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو ایک دن آپﷺ نے خانہ کعبہ میں اہل مکہ کو اسلام کی تبلیغ کی اور فرمایا کہ ’’ تم لوگ کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، تم فلاح پا جاؤ گے‘‘ جس کی وجہ سے ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اور ہر طرف سے لوگ آپؐ پر پل پڑے۔ آپؐ کے ربیب ( یعنی حضرت خدیجہؓ کے پہلے خاوند سے بیٹے) حارث بن ابی ہالہ گھر میں موجود تھے۔ انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے آئے اور آپؐ کو بچانا چاہا۔ انہوں نے آپؐ کو تو بچا لیا مگر کفار نے ان کو شدید زد و کوب کیا جس کے نتیجہ میں زخموں کے باعث ان کی وفات رکن یمانی کے پہلو میں ہی ہو گئی۔ (اصابہ فی تمییز الصحابہ ذکر حارث بن ابی ہالہ) عقبہ بن ابی معیط کی کوشش قتل : صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے بتایا کہ وہ بدترین سلوک جو مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا وہ یہ تھا کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حطیم مقام میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی مُعَیط آیا اور اس نے اپنا کپڑا آپؐ کی گردن میں ڈال کر آپؐ کا گلا شدید زور سے گھونٹا۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ پہنچ گئے اور آکر انہوں نے عقبہ کا کندھا پکڑا اور اسے دھکیل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹا دیا اور کہا: کیا تم ایسے شخص کومارتے ہو جو کہتا ہے: میرا ربّ اللہ ہے؟ (صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار) ابو جہل کا ارادہ قتل: ابن اسحاق نے ایک طویل روایت نقل کی ہے۔ اس میں بیان ہے کہ ابوجہل نے قریش مکہ سے کہا کہ یہ شخص ہمارے دین کی عیب چینی کرتا ہے اور ہمارے آباءواجداد کی بدگوئی کرتا ہے۔ اس لیے میں نے عہد کیا ہے کہ جب یہ عبادت میں سجدہ کرے گا تو میں ایک بھاری پتھر اس کے سر پر مار کر اس کا سر کچل دوں گا۔ پھر چاہے تم لوگ میری مدد میں کھڑے ہو یا نہ ہو۔ اس پر کفار مکہ نے کہا کہ بخدا ! ہم تمہیں بےیار و مددگار نہ چھوڑیں گے لہٰذا جو تمہارا دل کرے وہ کر گزرو۔ اگلی صبح جب آپﷺ کعبہ میں نماز کے لیے تشریف لائے تو ابو جہل اپنے ارادہ سے پتھر لے کر آیا مگر پھر اچانک خوفزدہ ہو کر بھاگ کھڑا ہوا اور اس کا رنگ فق ہو چکا تھا۔ کفار مکہ نے اس سے پوچھا اے ابو الحکم ! تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ ایک اونٹ میرے اور محمد (ﷺ) کے بیچ آ گیا تھا اور وہ اتنا خونخوار تھا کہ مجھےخوف ہوا کہ کہیں وہ مجھے چبا ہی نہ جائے۔ ( سیرت ابن ہشام۔ الرحیق المختوم صفحہ ۱۴۱) حضرت ابو طالب سے قریش کی مشاورت : حضرت ابوطالب اور قریش کی وہ گفتگو تو ہم میں سے کم و بیش ہر ایک نے سنی ہوئی ہے۔ جب کفار قریش نے آپ سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے کو تبلیغ سے منع کریں جس کے جواب میں آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’خدا کی قسم! وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں خدا کا حکم اس کی مخلوق کو نہ پہنچاؤں، میں ہرگز اس کے لیےآمادہ نہیں ہوں۔ یہاں تک کہ خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے یا کم از کم میں اس جدوجہد میں اپنی جان دے دوں۔‘‘ (محمدرسول اللہﷺ جلد اوّل۔ تحریر: خواجہ شمس الدین عظیمی صفحہ ۳۸ تا ۴۰) مگر تاریخ کی کتب میں ایک اَور واقعہ بھی ہمیں ملتا ہے۔ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۲۶۶ پر ایک اور ملاقات کی روداد درج ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ قریش عمارہ بن ولید بن مغیرہ کو لے کر حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور کہا کہ یہ عمارہ ہے قریش کا با شعور اور خوبصورت نوجوان ہے۔ آپ اسے اپنی کفالت میں لے لیں اور اپنا متبنّیٰ بنالیں۔ آپ اس کی دیت اور نصرت کے حقدار ہوں گے اور اس کے عوض آپ اپنے بھتیجے (محمدﷺ) کو ہمارے حوالے کردیں۔ جو ہمارے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کرتا ہے۔ ہم اسے قتل کردینا چاہتے ہیں اور یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔ اس پر حضرت ابو طالب نے کہا کہ بخدا ! یہ کتنا بُرا سودا ہے جس کی تم مجھے ترغیب دینے آئے ہو۔ تم چاہتے ہو کہ میں تو تمہارے بیٹے کو کھلاؤں پلاؤں اور پالوں پوسوں اور اس کے عوض تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر اسے قتل کردو۔ واللہ! یہ ناممکن ہے۔اس پر مطعم بن عدی نے کہا بخدا تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے مگر تم تو کسی بات کو قبول ہی نہیں کرتے۔ حضرت ابوطالب نے اسے جواباً کہا کہ بخدا !یہ انصاف کی بات نہیں ہے۔ بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر میرے مخالفین سے مل گئے ہو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو۔ ہجرت مدینہ کی رات : ان قتل کے ارادوں میں ایک نہایت ہی پختہ ارادہ قریش نے دار الندوہ میں کیا۔ تفصیل اس واقعہ کی کچھ یوں ہے کہ بیعت عقبہ کے تقریباً دو ماہ بعد ۱۴؍نبوی کو دار الندوہ میں رؤسا قریش اکٹھے ہوئے جن میں امیہ بن خلف، ابو جہل، جبیر بن مطعم، حکیم بن حزام، ابو سفیان، عتبہ و شیبہ بن ربیعہ، ابو البختری، نضر بن حارث وغیرہ شامل تھے۔ اب وہاں جو گفتگو ہوئی وہ قریش کی اندرونی بغض کی عکاسی کرتی ہے۔ مختصراً ان کے مشوروں کو دیکھتے ہیں۔ابو الاسود نے کہا کہ اس شخص کو ملک بدر کر دیں تا اس کا ہمارے ساتھ واسطہ ہی نہ رہے۔ ابو البختری نے کہا اسے لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کر دو اور باہر سے دروازہ بند کر دو پھر اسی انجام ( موت) کا انتظار کرو جو اس سے پہلے دوسرے شاعروں مثلاً زہیر اور نابغہ وغیرہ کا ہو چکا ہے۔ ابو جہل نے یہ مشورہ دیا کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک نوجوان منتخب کیا جائے اور وہ سب ایک ایک تلوار لے کر یکبارگی حملہ آور ہوں اور (نعوذ باللہ) محمد(ﷺ) کو قتل کر دیں۔اس طرح ایک شخص کا خون سارے قبائل میں بکھر جائے گا اور بنو عبد مناف سارے قبائل سے جنگ نہ کر سکیں گے اور دیت لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم دیت ادا کر دیں گے۔ (سیرت ابن ہشام ) یہ وہ تجویز تھی جس پر سب رضامند ہوئے۔ مگر یہ تو انسانی مکر تھا جبکہ دوسری طرح خداتعالیٰ نے خود اپنی حفاظت کا ذمہ لیتے ہوئے آپؐ کو ان کفار کے دائرہ سے باہر نکالا اور وہ حضرت علیؓ کی گھر میں موجودگی کو ہی آپﷺ کی موجودگی سمجھتے رہے اور ا پنے ارادہ میں بالآخر ناکام ہوئے۔ رات کو حملہ کرنے والوں کے نام سیرت کی کتاب زادالمعاد في ھدي خير العباد نے درج کیے ہیں۔ ان کے مطابق حملہ آوروں میں ابو جہل بن ہشام، حکم بن عاص، عقبہ بن ابی معیط، نضر بن حارث، امیہ بن خلف، زمعہ بن الأسود، طعیمہ بن عدی، أبو لہب، ابی بن خلف، نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج شامل تھے۔ سراقہ بن مالک کا واقعہ : قریش کے ایک چنگل سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بحفاظت نکالا تو قریش نے دوسری چال چل دی۔ قریش کو جب صبح علم ہوا کہ آپؐ گھر پر موجود نہیں تو وہ آپ کی تلاش میں نکلے۔ ابو جہل، حضرت ابو بکرؓ کے گھر بھی گیا اور دروازہ پر حضرت اسماء سے پوچھ گچھ کی۔ جب انہوں نے لا علمی کا اظہار کیا تو اس زور سے تھپڑ مارا کہ ان کی بالی کان سے نکل کر گر گئی۔ سراقہ بن مالک کا تعاقب : جب قریش آپؐ کو مکہ میں نقصان نہ پہنچا سکے تو انہوں نے اعلانِ عام کر دیا کہ جو کوئی بھی ان دونوں کو زندہ (قیدی بنا کر) یا قتل کر کے لائے گا اسے ہر ایک فرد کے بدلے ایک سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرة النبی ﷺ روایت نمبر ۳۹۰۶) اس اعلان نے سارے عرب کو آپؐ کی جان کا دشمن بنا دیا۔ ان میں سے ہر ایک اس بات کا خواہشمند تھا کہ کسی طرح یہ انعام حاصل کر لے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ سراقہ بن مالک کا اپنا قول اس کی تائید کرتا ہے۔ جسے جب اطلاع ملی کہ دو افراد کو ساحل سمندر کے ساتھ سفر کرتے دیکھا گیا ہے تو اس نے فوراً ترکیب سوچتے ہوئے اس شخص کو کہا کہ نہیں، بلکہ وہ تو فلاں افراد ہیں جو ابھی ہمارے سامنے سے گزرے ہیں۔ جبکہ سراقہ کا اپنا قول ہے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ یقیناً محمدﷺ اور ان کے ساتھی ہوں گے۔ پھر اس نے چپکے سے گھر سے نیزہ لیا اور گھوڑی پر سوار ہو کر آپؐ کا تعاقب شروع کر دیا۔ یہ واقعہ چونکہ زبان زد عام ہے اس لیے اس کی تفصیل میں نہیں جاتے۔ الغرض باوجود کوشش کے سراقہ آپؐ کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا سکا اور آپؐ سے امان کی تحریر لے کر واپس چلا گیا۔ عمیر بن وھب اور صفوان بن امیہ کی سازش: عمیر بن وھب(جو مشرکین مکہ میں سے تھا اور جس کا بیٹا وہب بن عمیر غزوہ بدر میں قیدی بنا لیا گیا تھا) اور صفوان بن امیہ حطیم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور قریش کے بدر کے مقتولین کا ذکر ہوا۔ تو صفوان نے کہا بخدا ! اب تو جینے کا کچھ مزہ نہیں۔عمیر نے کہا ’’اگر میرے سر پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل و عیال نہ ہوتے تو میں محمد(ﷺ) کے پاس جاکر اسے قتل کر ڈالتا‘‘ صفوان نے جواباً کہا ’’تمہارے قرض کی ادائیگی بھی میرے ذمہ رہی اور بال بچوں کی نگہداشت بھی۔ اگر میرے پا س کچھ کھانے کو ہوا تو انہیں بھی ضرور ملے گا‘‘۔عمیر نے کہا ’’ ٹھیک ہے میں ایسا کر گزرتا ہوں ! مگر اس بات کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھنا‘‘ اور صفوان نے اس کا اقرار کر لیا۔اب عمیر نے اپنی تلوار کو زہر آلود کرایا اور مدینہ جاکر مسجد ِنبوی میں پہنچ گیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو مسجد نبوی کے سامنے اونٹ بٹھاتے دیکھا تو آپؐ کو اطلاع دی کہ اللہ کا دشمن عمیر بن وہب گلے میں تلوار حمائل کیے آیا اور آپؐ سے ملاقات کی اجازت چاہتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اسے آنے دو‘‘۔ حضرت عمرؓ نےان انصار صحابہ سے جو آپؓ کے پاس بیٹھے تھے فرمایا کہ وہ عمیر سے قبل آنحضورﷺ کے پاس تشریف لے جائیں اور آپؐ کے اردگرد بیٹھ جائیں اور اس دشمن کے شر سے آپؐ کی حفاظت کریں کیونکہ اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اور آپؓ خود تھوڑے وقفہ سے عمیر کو لے کر آپؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ اور اس حالت میں حاضر ہوئے کہ آپؓ نے عمیر کی تلوار کی میان پکڑی ہوئی تھی ( تا وہ کسی طرح سے بھی تلوار نکال کر حملہ نہ کر سکے )۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو۔ اور عمیر سے فرمایا کہ بتاؤ کیسے آنا ہوا؟ اس نے کہا کہ میں ان بدر کے قیدیوں کے بارہ میں احسان کا سلوک کرنے کی درخواست کرنے آیا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو پھر تلوار کیوں حمائل ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ پہلے بھی تو تلواروں نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ آپؐ نے دوبارہ آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے دوبارہ پہلے جیسا ہی جواب دیا۔ تب آپؐ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تم اور صفوان حطیم میں بیٹھے تھے اور تم دونوں نے یہ گفتگو کی اور تم مجھے قتل کرنے کے ارادہ سے آئے ہو مگر جان لو کہ تمہارے اور میرے درمیان خدا حائل ہے۔ اس پر عمیر نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ کیونکہ یہ بات صرف میرے اور صفوان کے مابین تھی اور کسی کو اس راز کا علم نہ تھا۔ یہ کہہ کر وہ اسلام لے آیا۔ (سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ ۶۶۱-۶۶۲) ابو سفیان کی کوشش: علامہ ابن کثیر اپنی کتاب سیرة النبویة جلد ۳ صفحہ ۱۳۵ میں لکھتے ہیں کہ ابو سفیان نے ایک شخص کو آنحضرت ﷺکے قتل کے لیے روانہ کیا۔ وہ مدینہ آکر حضور ﷺ کی تلاش کرنے لگا تو اسے بتایا گیا کہ آپؐ بنی عبد الاشہل کی طرف تشریف لے گئے ہیں۔وہ شخص بنی عبدالاشہل کی مسجد میں آپؐ کو تلاش کرتا ہوا آگیا۔ آپؐ نے اسے دیکھتے ہوئے فرمایا کہ یہ شخص حملے کے ارادے سے آیا ہے۔ اس بدوی نے خنجر چھپا رکھاتھا۔ چنانچہ حضر ت اسید بن حضیرؓ مستعد ہو کر بیٹھ گئے جونہی وہ شخص آگے بڑھا اسیدؓ نے اس کی لنگی (تہ بند ) کو کھینچا اور اس کے اندر سے خنجر برآمد ہوا۔وہ ڈرا کہ اب یہ مجھے پکڑیں گے، اس نے حملے کی کوشش کی۔ حضرت اسید بن حضیرؓ نے اسے دبوچ لیا۔ آخر اس نے امان طلب کی اور سارا واقعہ بتایا۔ بعد میں وہ مسلمان ہو گیا۔ بنو نضیر کا ارادہ قتل : بئر معونہ کے موقع پر ۷۰؍قاری صحابہ ؓکو دھوکا سے شہید کیا گیا۔ ان میں سے صرف عمرو بن امیہ ضمری بچ کے نکل سکے۔ انہوں نے راستہ میں بنو کلاب کے دو افراد کو مخالف سمجھ کر قتل کر دیا۔ جبکہ حقیقت میں وہ معاہد تھے یعنی اُن سے صلح کا معاہدہ ہو چکا تھا۔ جب اس کی اطلاع آپؐ کو ہوئی تو میثاق مدینہ کے تحت آپؐ یہود کے قبیلہ بنو نضیر کی طرف تشریف لے گئے تا وہ حسب قانون ان دو افراد کا خون بہا ادا کرنے میں شریک ہوں۔ مگر یہود کو کچھ اور ہی سوجھی۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ کیوں نہ قلعہ کے اوپر سے آپؐ پر چکی کا پاٹ گرا کر قتل کر دیا جائے تا یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ اس پر عمرو بن جحاش بن کعب یہودی نے کہا کہ میں ایسا کرتا ہوں۔ جب وہ اس ارادہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے ہی لگے تھے کہ اللہ نے آپؐ کو یہود کے اس ارادہ سے خبر دےدی اور آپؐ وہاں سے اچانک اٹھ کر مدینہ تشریف لے آئے۔ کچھ دیر بعد صحابہ بھی آپؐ کی تلاش میں واپس آگئے تو آپؐ نے ان کو یہود کے اس ارادہ سے آگاہ فرمایا۔ (سیرت ابن ہشام ) ثمامہ بن اثال کا ارادہ قتل : محرم ۶؍ہجری میں مسلمانوں کا ۳۰ افراد پر مشتمل لشکر حضرت محمد بن مسلمؓہ کی سرکردگی میں نجد کے علاقہ ضریہ کی طرف بنو بکر کی ایک شاخ کی طرف بھیجا گیا۔ یہ لشکر قبیلہ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن ا ثال حنفی کو گرفتار کرکے آپؐ کے پاس مدینہ لے آیا۔ اور انہیں علم نہ تھا کہ وہ کسے گرفتار کر کے لائے ہیں۔ ثمامہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبیﷺ کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا جسے مسلمانوں نے گرفتار کرلیا۔ مدینہ پہنچنے پر آپؐ نے اس کو مسجدِنبوی کے ایک ستون سے باندھ دینے کا حکم دیا۔(صحیح بخاری) جبکہ سیرت حلبیہ میں ذکر ہے کہ وہ مسیلمہ کذاب کے مشورہ کے ساتھ آیا تھا اور اس کا ارادہ یہ تھا کہ کسی طرح آپؐ کو قتل کر دے۔(سیرت حلبیہ جلد ۳ صفحہ ۳۴۵) اسے تین دن تک مسجد کے ستون سے باندھا گیا۔ تین دن بعد آپؐ نے اس کو آزاد کر دیا۔ آزادی کے بعد اس نے قریبی باغ میں غسل کیا اور آپؐ کی خدمت میں تشریف لا کر اسلام قبول کر لیا۔ زہر آلود گوشت سے قتل کرنے کی سازش: احادیث کی دونوں کتب یعنی صحیح بخاری روایت نمبر ۳۱۶۹ اور صحیح مسلم روایت نمبر ۲۱۹۰ نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے کہ ایک یہودی عورت، جو کہ سلام بن مشکم یہودی کی بیوی تھی، نے آپؐ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی بکری بھیجی اور اس میں زہر ملا دیا۔ آپؐ نے اس میں سے دستی کا گوشت لیا اور ابھی ایک نوالہ ہی لیا تھا تو آپؐ نے اپنا ہاتھ روک لیا اور فرمایا کہ یہ زہر آلود ہے۔ اس دوران آپؐ کے ایک اور صحابی (حضرت بشر بن براء بن معرورؓ )اسی گوشت کھانے سے وفات پا گئے۔(سنن ابوداؤد روایت نمبر ۴۵۱۲) آپؐ نے اس عورت کو بلوایا اور وجہ دریافت کی تو اس نے کہا کہ اگر آپؐ بادشاہ ہیں تو لوگوں کو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ نبی ہیں تو میرا یہ فعل آپ کو ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ بعض روایات میں ہے کہ آپؐ نے اس کو معاف کر دیاتھا اور بعض روایات میں ہے کہ صحابی کی وفات کی وجہ سے اس عورت کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ فضالہ بن عمیر کا ارادہ قتل : فضالہ بن عمیر بن ملوح لیثی اللہ کے رسول ﷺ کے شدید دشمنوں میں سے ایک تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں مقیم تھے تو فضالہ نے بظاہر اسلام قبول کر لیا، مگر یہ شخص دل میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شدید بغض اور عناد رکھتا تھا۔ سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ اس نے آپؐ کو طواف کعبہ کے دوران نعوذ باللہ قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ جب وہ اس ارادہ سے آپؐ کے قریب آنے لگا تو آپؐ نے فرمایا کیا تم فضالہ ہو؟ اس نے کہا ہاں، آپؐ نے فرمایا تمہارے دل میں کیا ہے تو اس نے کہا کہ میں تو اللہ کا ذکر کر رہا ہوں۔ آپؐ مسکرائے اور فرمایا کہ اللہ سے مغفرت طلب کرو۔ اور آپؐ نے اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھا۔ فضالہ کا اپنا بیان ہے کہ جب آپ ؐ نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر رکھا تومیرا دل پر سکون ہو گیا اور جب آپؐ نے اپنا دست مبارک میرے سینے سے ہٹایا تو اللہ کی مخلوق میں سے سب سے محبوب ذات آپؐ کی تھی۔ (سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۴۱۷) غزوہ تبوک سے واپسی پر قتل کی کوشش: جب رسول اللہﷺ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے تو منافقین کے ایک گروہ نے یہ منصوبہ بنایا کہ آپؐ کو نعوذ باللہ سفر کے دوران رات کے اندھیرے میں گھاٹی میں سے گزرتے ہوئے سواری سے نیچے پھینک کر قتل کر دیا جائے۔بعض کتب میں ہے کہ یہ منافقین تعداد میں ۱۲؍ تھے۔ (الرحیق المختوم صفحہ ۵۸۷) آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی جس کی وجہ سے آپؐ نے صحابہ ؓکو وادی کے اندرون کا راستہ اختیار کرنے کا ارشاد فرمایا جبکہ خود آپؐ نے پہاڑی درے کا راستہ اختیار کیا۔ اس وقت آپ کے ساتھ حضرت عمارؓ تھے جو اونٹ کی نکیل تھامے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمانؓ اونٹنی کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔اس دوران ان منافقین نے اپنے چہرے ڈھانپ کر آپؐ کا منتخب کردہ راستہ اختیار کیا۔ جب وہ قریب آنے لگے تو آپؐ نے حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کو ان کی طرف بھیجا جنہوں نے اپنی ڈھال سے ان منافقین کے اونٹوں کو ڈرا کر واپس بھیج دیا۔ جب ان منافقین نے دیکھا کہ آپؐ کے ساتھ تو اور افراد بھی ہیں تو وہ لوگ لوٹ گئے۔ جب آپؐ اس پہاڑی درے سے گزر گئے تو وہاں باقی لوگوں کو آپ کے انتظار میں پایا۔ وہاں آپؐ نے حضرت حذیفہؓ سے فرمایا کہ کیا تمہیں علم ہے وہ رات کو جو سوار آئے تھے وہ کون تھے ؟ آپؐ نے نہ صرف ان کے نام بتائے بلکہ یہ بھی بتایا کہ ان کا ارادہ کیا تھا۔ ( سیرت النبویہ از ابن کثیر جلد۴ صفحہ۳۴ ) جبکہ ایک اور کتاب میں درج ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ان کا ارادہ تھا کہ وہ میرے ساتھ پہاڑ کی چوٹی تک سفر کریں اور وہاں سے مجھے نیچے پھینک دیں۔ (سبل الھدی و الرشاد جلد۵ صفحہ ۴۶۶) شیبہ بن عثمان کا ارادہ قتل : اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں: ’’اس جنگ ( یعنی حنین ) کا ایک عجیب واقعہ بھی تاریخوں میں آتاہے۔شیبہ نامی ایک شخص جومکہ کے رہنے والے تھے اور خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے مقرر تھے وہ کہتےہیں میں بھی اس لڑائی میں شامل ہوا مگر میری نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقع پاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردوں گا اور میں نے دل میں کہا کہ عرب اور غیر عرب لوگ تو الگ رہے اگر ساری دنیا بھی محمد(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)کے مذہب میں داخل ہوگئی تو مَیں تو نہیں ہوں گا۔جب لڑائی تیزی پر ہوئی اور اِدھر کے آدمی اُدھر کے آدمیوں سے مل گئے تو میں نے تلوار کھینچی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونا شروع کیا۔اُس وقت مجھے یہ محسوس ہوا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ اُٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے بھسم کردے۔اُس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دی کہ شیبہ! میرے قریب ہوجاؤ۔میں جب آپ کے قریب گیا تو آپ نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور کہا اے خدا !شیبہ کو شیطانی خیالوں سے نجات دے۔شیبہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ہی میرے دل سے ساری دشمنیاں اور عداوتیں اُڑ گئیں اور اُس وقت سے رسول اللہؐ مجھے اپنی آنکھوں سے اور اپنے کانوں سے اور اپنے دل سے زیادہ عزیز ہوگئے۔(دیباچہ تفسیرالقرآن صفحہ۲۲۳) حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’آنحضرتؐ کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ قرآن شریف کی یہ پیشگوئی ہے کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ:۶۸) اورپہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخرزمان کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہوگا۔‘‘ (ملفوظات جلد ۷صفحہ۲۲۷) پس یہ تمام واقعات خدا تعالیٰ کی ہستی کا واضح اور زندہ ثبوت ہیں۔اور آج ۱۴۰۰ سال گزرنے کے بعد بھی پڑھنے والوں کے لیے ازدیاد ایمان کا باعث ہیں۔ قُدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے (اِشتہار اعلان مطبوعہ ریاض ہند امرتسر۔ ۲۲ ؍مارچ ۱۸۸۶ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مومنوں کی صفات اور درجات قرآن کریم کی روشنی میں