https://youtu.be/FhcdApwpMJo (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ۳؍جون۱۹۵۵ءبمقام زیورچ) ۱۹۵۵ء میں حضورؓ نے سورہ فاتحہ میں مذکور کامیاب حکومت کرنے کے گُر کے موضوع پر انگریزی زبان میں ایک بصیرت افروز خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ میں دوسری قسم کے گُر بتائے ہیں(رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ میں ایک قسم کے گُر ہیں) کہ الٰہی حکومت چونکہ ان باتوں پر مبنی ہے۔وہ اِس لیے اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ کی مستحق ہے۔ اگر دنیوی حکومتیں ان اصولوں کو قبول کرلیں تو وہ بھی اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ کی مستحق ہو جائیں گی۔ اور ان میں لڑائی جھگڑے اور فسادبند ہوجائیں گے اوراُن کے دشمن باقی نہ رہیں گے تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے اِن دنوں جمعہ کا خطبہ ایک پرانی خواب کی بناء پر اِس بات پر دینا شروع کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اچھی گورنمنٹ جس کی ہر شخص دنیا میں تعریف کرے اور جو کیپٹلزم کا بھی مقابلہ کرسکے اور کمیونزم کا بھی مقابلہ کرسکے اُس کے گُر سورئہ فاتحہ میں بتائے ہیں۔ اور یہ مجھے ڈلہوزی کے مقام پر آج سے چودہ پندرہ سال پہلے ایک سیکنڈ میں کرسی پر بیٹھے ہوئے ایک فرشتہ نے سنائے کہ یہ خداتعالیٰ نے گُر بتائے ہیںجن سے دونوں قسم کی حکومتوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور کلّی امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ اور وہی گورنمنٹ کامل تعریف کی مستحق ہوگی اور دشمنوں سے آزاد ہوگی ۔ جو اِس تعلیم پر عمل کرے گی۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ خداتعالیٰ کی حکومت کن اصولوں پر قائم رہے اور اِسی لئے فرمایا کہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ (الفاتحہ: ۲) سب تعریفیں، سب تعریفوں کے معنے ہیں سب قسم کی تعریفیں اور تمام لوگوں کی تعریفیں۔ تو کُل لوگوں کی تعریفیں خواہ وہ اُس کے ماننے والے ہوں یا نہ ماننے والے ہوں اور خواہ وہ کسی ملک اور زمانہ کے رہنے والے ہوں۔اور پھر کسی ایک چیز کی تعریف نہیں بلکہ ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے ۔کیوں؟اِس لئے کہ وہ ربّ العالمین ہے، ہر ملک و ملت کی ربوبیت کرتا ہے اور ہر مذہب و دین کے ماننے والوں سے نیک سلوک کرتا ہے اگر کوئی گورنمنٹ اِس اصول پر چلے یعنی اُس کا فائدہ صرف اُس کے باشندوں کو نہ پہنچے بلکہ دوسری قوموں کا بھی وہ خیال رکھے اور صرف ایک خاص قسم کے گروپ کا خیال نہ رکھے۔ جیسا کہ کمیونزم والے لیبر کا ہی خیال رکھتے ہیں یا امریکہ والے کیپٹلسٹ کا ہی زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ بلکہ اس کے قوانین اور کوششیں ادنیٰ اقوام اور غریبوں کی پرورش کے لئے بھی ہوں اور انہیں اونچا کرنے والی ہوں اور امیروں کو بھی اپنی طاقت اپنے علم کے مطابق اور اپنے ذرائع کو استعمال کر کے فائدہ اٹھانے کے مطابق ہوں تو ایسی ہستی کی سارے تعریف کرتے ہیں۔ اس کی تعریف مزدور طبقہ بھی کرے گا کہ وہ اُس کا بھی فائدہ کررہی ہے اور مالدار طبقہ بھی کرے گاکہ وہ اُس کا بھی فائدہ کر رہی ہے۔ جب کوئی حکومت سارے ملکوں کی خدمت کرے گی تو صرف روس اور امریکہ ہی اس کی تعریف نہیں کرے گا بلکہ ہندوستان والے بھی کریں گے، پاکستان والے بھی کریں گے، امریکہ والے بھی کریں گے، روس والے بھی کریں گے، جرمنی والے بھی کریں گے۔ کیونکہ اس کا فائدہ باہر کے لوگوں کو بھی پہنچے گا۔ آج میں دوسری آیت کو لیتا ہوں یعنی الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ (الفاتحہ:۳)کو۔ فرمایا کہ خداتعالیٰ کی تعریف اس لئے ہے کہ وہ رحمان اور رحیم ہے۔ جو رحمان اور رحیم ہوگا وہ ساری قوموں کی تعریف کا مستحق ہوگا۔ رحمٰن کے معنی قرآن کریم کی رُو سے یہ معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی اُس استعمال کی رُو سے جو قرآن کریم نے اِس لفظ کا کیا ہے۔ اس کی رُوسے یہ معنے ہیں کہ جس نے کوئی نیک کام اور کوئی خدمت نہ کی ہو اُس کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک کرنے والا۔ اور جس کے پاس کچھ نہ ہواُسے وہ ذرائع مہیا کرکے دینے والا ہو جن ذرائع کی وجہ سے وہ اعلیٰ ترقی حاصل کر سکے۔ اور رحیم کے معنی یہ ہیں کہ ہر شخص جو کام کرتا ہے اُس کے کام کا بدلہ متواتر جاری رہے۔ دنیا میں اِس کی مثال پنشن میں ملتی ہے۔ یعنی ایک آدمی نوکری کرتا ہے پھر بیس بائیس چالیس سال کے بعد وہ گورنمنٹ کا کام چھوڑ دیتا ہے تو اُس کو پنشن مل جاتی ہے ۔ رحیم کا یہی مطلب ہے کہ جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو اس کا بدلہ جاری رکھتا ہے۔ بار بار دیتا ہے۔ تو پنشن ایک ادنیٰ مثال ہے۔ قرآن کریم کی رُو سے رحیمیت کے معنی پنشن سے بہت زیادہ ہیں کیونکہ پنشن تنخواہ سے آدھی ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وہ گزارہ کے لئے کافی نہیں ہوتی۔ یا پھر بڑھاپے میں جو امداددی جاتی ہے وہ بھی گزارہ کے لئے کافی نہیں ہوتی کہ انسان آرام سے بڑھاپے میں گزارہ کر سکے۔ صرف اتنا ہی ہوتا ہے جو اُس کو ملتا ہے۔ مگر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کریں گے یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کریں گے انہیں جنت ملے گی۔ (اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَخۡبَتُوۡۤا اِلٰی رَبِّہِمۡ ۙ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ(ھود: ۲۴))اور جنت کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ لَہُمۡ فِیۡہَا مَا یَشَآءُوۡنَ (النحل:۳۲، الفرقان:۱۷)نیز فرماتا ہے وَلَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ (حٰمٓ السَّجْدَۃِ: ۳۲)کچھ ان کے دل میں خواہش پیدا ہوگی یا زبان پر آئے گی وہ انہیں مل جائے گی۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے لیکن انسان اُس کو زبان پر لانے کی جرأت نہیں کرتا ۔وہ سمجھتا ہے کہ یہ بہت بُرا مطالبہ ہے۔ تو باوجود دل میں خواہش ہونے کے چونکہ وہ بیان نہیں کرتا اس لئے وہ پوری نہیں ہوتی۔ اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان منہ سے ایک بات کہتا ہے لیکن دل میں جانتا ہے کہ یہ میرا حق نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دونوں معنے بیان فرمادیئے کہ جنت میں لَہُمۡ فِیۡہَا مَا یَشَآءُوۡنَ بھی ہوگا اور وَلَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ بھی۔ یعنی جو دل میں خواہش ہوگی وہ بھی پوری ہو جائے گی اور جو منہ سے بیان ہوگی وہ بھی پوری ہو جائے گی ۔ پھر ہوسکتا ہے کہ( جنت کی ضروریات کا علم انسان کو یہاں تو نہیں ہوتا)انسان وہاں ایسی چیزیں مانگے جو اچھی ہوں اور اس کو مل جائیں گی لیکن وہ ناواقفی میں یہ نہ سمجھتا ہو کہ وہ اسکے بیوی بچوں کے لئے بھی کافی ہوں گی یا نہیں۔ تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کوئی مومن جس درجہ کا مستحق ہوگا اُس کے بیوی بچے اور اولاد اور ساتھی بھی وہیں رکھے جائیں گے (وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَاتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلۡحَقۡنَا بِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ (الطور:۲۲))۔گویا نہ صرف اُس کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے گا کہ اُس کی ضرورتیں پوری کی جائیں گی بلکہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے دوست رشتہ داروں کی ضرورتیں بھی پوری کی جائیں گی۔ اب دیکھ لو پنشن کا اس کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ جنت ہمیشہ رہنے والی ہے اور پنشن میں تو گورنمنٹ پراویڈنٹ فنڈ کا اندازہ کرتی ہے۔ پھر پنشن مقرر کرتی ہے کہ اگر ہم اس کو پراویڈنٹ فنڈ دیتے تو عام طور پر اتنی عمر میں لوگ مرجایا کرتے ہیں۔ تو اس کا حساب لگالیا اور اس کا سُود لگا کر پیسے دے دیئے ۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وہاں وہ ہمیشہ ہی زندہ رکھے جائیں گے۔ گویا پنشن دائمی ہوگی۔ اوّل پنشن دائمی ہوگی۔ دوئم پنشن اس کی سب ضرورتوں کوپورا کرنے والی ہوگی۔ سوئم وہ پنشن ایسی ہوگی کہ اس کی ضرورتوں کو ہی پورا نہ کرے گی بلکہ سارے اہل وعیال کی ضروریات کو پورا کرے گی۔ اگر اولاد بڑھتی چلی جاتی ہے، پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں ہوتی چلی جاتی ہیں تو پنشن والے کہیں گے کہ ہم نے کہاں سے حساب کر کے دینا ہے ۔ مگر وہ فرماتا ہے کہ وہ سب بھی اسی مقام پر رکھے جائیں گے اور جو حق اُس کو دیئے جائیں گے وہ اُن کو بھی دیئے جائیں گے جنہوں نے خدمت نہیں کی۔ اب کوئی گورنمنٹ جو دنیا میں ایسا سلوک کرے اور یہ کام کرے کیا کوئی ہو سکتا ہے جو اُس کی مذمّت کرے؟ اوّل تو یہ کہ جن لوگوں کے پاس کچھ نہیں انہیں وہ سامان مہیا کرے جن سے وہ کام چلائیں۔ دوئم یہ کہ جب وہ کام کریں تو اس کا بدلہ انہیں بار بار دے ۔ پھر کام سے ہٹنے کے بعد بھی بدلہ ملتا رہے۔ پھر وہ بدلہ نہ صرف اس کے لئے بلکہ اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے بھی کافی ہو۔ اور نہ صرف یہ کہ کافی ہو بلکہ وہ بھی ایسی اچھی جگہ رکھے جائیں جہاں اُس کو جو کام کرنے والا ہے رکھا جائے۔ اور پھر یہ حالت دو چار سال کے لیے نہ ہو۔ بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہو۔ ہمارے خالد فنِک جو آئے ہوئے ہیں انہوںنے سنایا (چودھری ظفراللہ خان صاحب نے بھی سنایا) کہ ہالینڈ کی گورنمنٹ اب یہ سوچ رہی ہے کہ ہمارے ہاں اچھی صحت ہونے کی وجہ سے آبادی بہت بڑھ گئی ہے اور موت کا ریٹ بہت کم ہوگیا ہے اور اِس کا نتیجہ یہ ہوگیا کہ بڈھوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے اور بڑھاپا کی پنشن جو گورنمنٹ دیتی تھی وہ اب ناقابلِ برداشت ہورہی ہے ۔ تو وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اِس کو اُڑادیا جائے۔ اب دو ہی صورتیں ہیں یا بڈھوں کو مارڈالیں یا ملک سے نکال دیں۔ تو گویا جو چیزیں ترقی کا باعث سمجھی جاتی تھیں وہی ان لوگوں کی تباہی کا موجب ہوگئیں۔ پہلے انکی ترقی کا موجب یہ سمجھا جاتا تھا کہ برتھ ریٹ بڑھایا جائے اور موت کی شرح کو گھٹایا جائے۔ لیکن اس کے گھٹانے سے دوسروں کی مدد ختم ہورہی ہے۔ تو الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ میں دوسری قسم کے گُر بتائے ہیں(رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ میں ایک قسم کے گُر ہیں) کہ الٰہی حکومت چونکہ ان باتوں پر مبنی ہے۔وہ اِس لیے اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ کی مستحق ہے۔ اگر دنیوی حکومتیں ان اصولوں کو قبول کرلیں تو وہ بھی اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ کی مستحق ہو جائیں گی۔ اور اُن میں لڑائی جھگڑے اور فسادبند ہوجائیں گے اوران کے دشمن باقی نہ رہیں گے۔ اگر الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ والی حکومت کو کوئی دشمن مٹانا چاہے تو اِس کا یہی مطلب ہوا نہ کہ آپ بھی مرے۔ یہ تو ہمیں بتاتی ہے کہ نہ صرف کام کرنے والے زندہ رکھے جائیں بلکہ جو کام نہیں کرتے وہ بھی زندہ رکھے جائیں ۔ا ب اگر کوئی گورنمنٹ یہ طاقت اختیار کرے اور پھر اُسے وسیع کیا جائے تو صرف اپنے ملک کے لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ باقی لوگوں کے لئے بھی لازمی بات ہے کہ اس حکومت کا دنیا میں کوئی دشمن نہیں ہوگا۔ ایسا پاگل کون مل سکتا ہے جو اپنے گلے پر آپ چُھری پھیرنے لگ جائے۔ا گر دنیا اِس اصول پر عمل کرے تو سارے جھگڑے کیپٹلزم اور کمیونزم کے ختم ہوجاتے ہیں۔ (الفضل ۲۲؍ جون ۱۹۵۵ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خدا تعالیٰ نے تو ملک کو آزاد کر دیالیکن ملک نے اپنے آپ کو آزاد نہیں کیا