دنیا کے مختلف معاشروں میں نفرت اور تعصب ہمیشہ سے بگاڑ اور تباہی کا سبب بنے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارا ملک پاکستان، جوکہنے کو تو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا،مگر وہ اسی نفرت اور تعصب کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہے۔ وہ ملک جہاں سب شہریوں کو آزادی اور برابری کے حقوق حاصل ہونے چاہیے تھے، وہاں آج مذہبی امتیاز، عدم برداشت اور شدت پسندی اس حد تک بڑھتی جا رہی ہے جو بالآخر معاشروں اور قوموں کو تباہ کردیا کرتی ہے۔ مذہب کے نام پر قوم کو اقلیت اور اکثریت میں تقسیم کرکے ایک امتیاز قائم کیا گیا۔ پھر اکثریت کو بھی ایک سازش کے تحت فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ یوں اتحاد اور یگانگت کی قومی روح کا خون کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں قومی وحدت ہی پارہ پارہ نہیں ہوئی بلکہ معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوا۔ کہیں قومیت کے نام پر تو کہیں مسلک اور فرقے کے نام پر اور کہیں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان تقسیم اور امتیاز کی لکیر کھینچ دی گئی۔ لیکن اس کے بیچ میں ایک ایسا منفرد طبقہ ، جو سب سے نمایاں ہوا اور جسے خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ جماعت احمدیہ مسلمہ ہے۔ مملکت خداد اد میں جو امتیازی سلوک احمدیوں سے روا رکھا گیا اس کی کوئی بھی اور مثال اس وقت پوری دنیا میں ملنا ممکن نہیں ہے۔ احمدیوں کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو وہی مسیح موعود اور امام مہدی مانتے ہیں جن کی بشارت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے دی تھی۔ اس عقیدے کی بنیاد پر انہیں ۱۹۷۴ء میں آئینی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا گیا، اور بعد ازاں ۱۹۸۴ء میں نافذ کیے گئے آرڈیننس XX کے تحت ان کے مذہبی فرائض تک پر پابندیاں لگا دی گئیں۔یہ تمام پابندیاں پاکستان کے اپنے آئین کے آرٹیکل ۲۰ کی رُو سے ناجائز ہیں اور اس آئین کی خلاف ورزی ہیں۔ اس کے باوجود جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ہر طرح کے غیرآئینی اقدام کو قانونی شکل دی گئی۔ پھریہ ظلم صرف قانونی دائرے تک محدود نہیں رہا۔ احمدی مرد، خواتین، بزرگ اور حتیٰ کہ بچے بھی نفرت انگیز مہمات، معاشرتی بائیکاٹ، جسمانی حملوں اور جان سے مار دینے جیسے شدید مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی مساجد پر حملے، قبروں کی بے حرمتی، کاروباری مقاطعہ اور روزگار سے نکالا جانا ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایسے ملک میں ہو رہا ہے جو خود کو اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے۔ حالانکہ اسلام تو رواداری، اخوت اور رحم کا دین ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ کے قریب تر ہے۔‘‘(المائدۃ: ۸) یہ اصول ہمیں سکھاتا ہے کہ جذبات اور تعصبات کی بنیاد پر فیصلے نہ کیے جائیں، بلکہ عدل اور رحم سے کام لیا جائے۔ بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں یہ تعلیمات صرف تقریروں تک محدود ہو چکی ہیں اور بجائے اسلام کی اس بنیادی تعلیم پر عمل کرنے کے ہر اس بات پر اسلام کا نام لے کر عمل کیا جاتا ہے جو دراصل اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ پھر اس سارے ظلم و ستم کو اسلام کا نام دیا جاتا ہے۔ کبھی ختم نبوت اور ناموس رسالت کا نام دے کر انسانیت سوز ظلم کیے جاتے ہیں۔ جن کا شکار صرف احمدی ہی نہیں ، بلکہ دوسرے مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی ہونے لگے ہیں۔ آج احمدی نوجوان، طلبہ، اساتذہ، تاجر اور دیگر افراد محض اپنے عقیدے کی وجہ سے روز مرہ کی زندگی میں شدید ذہنی دباؤ اور خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ احمدی مسلمان ہمیشہ پاکستان کے وفادار رہے ہیں۔ انہوں نے اس کی تعمیرو ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چاہے وہ فوج میں خدمات ہوں، تعلیم و صحت کے شعبے میں قربانیاں ہوں، یا امن کا پیغام پھیلانے کی مسلسل کوششیں، احمدیوں کا کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہیں “دشمن” بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، جو نہ صرف اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانیت کے بھی منافی ہے۔ اس کے باوجود احمدیوں کی وطن سے محبت اور وفاداری کم ہونے میں نہیں آئی۔ وہ خود پر ہونے والے ریاستی ظلم و جبر کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے اور خندہ پیشانی سے اسے برداشت کررہے ہیں۔ ایسے حالات میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ کیسے وجود میں آ سکتا ہے جب اُس کی بنیاد نفرت، تعصّب اور ناانصافی پر رکھی جائے؟ہمیں بحیثیت قوم یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم واقعی ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں محبت اور رواداری کی جگہ نفرت اور تعصب کا راج ہو؟ کیا ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایک ایسا ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں جہاں صرف ایک مخصوص سوچ یا عقیدہ رکھنے والے ہی محفوظ ہوں؟ پھر کیا صرف احمدی اور دوسری اقلیتیں ہی اس نفرت اور تعصب کا شکار ہورہی ہیں؟ نفرت کی آگ میں صرف وہی نہیں جلتا جس کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہو، یہ آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ نفرت ایسا زہر ہے کہ جس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اس کو تو نقصان پہنچاتا ہی ہے ، لیکن اس نفرت کا شکار فرد اور معاشرہ اندرونی طور پر مسخ ہوجاتا ہے۔اگر ہم نے اب بھی انصاف، رواداری اور انسانیت کا دامن نہ تھاما، تو ہم ایک پائیدار اور پرامن پاکستان کا خواب کبھی پورا نہیں کر سکیں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کو پہچاننے، عدل پر قائم رہنے اور ہر قسم کی نفرت سے پاک معاشرہ قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مرزا محمد اسماعیل صاحب قندھاری