https://youtu.be/qgAX2-O7rhE میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اس کا توکّل انسانوں پر نہیں بلکہ خدا پر ہونا چاہیے اور ترقی کی بنیاد اسے امرِ الٰہی پر رکھنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةًم بِاِذْنِ اللّٰهِ جب اللہ تعالیٰ کا امر حاصل ہو جائے جو قربانیوں سے ہی حاصل ہوتا ہے تو پھر ترقی کے رستہ میں کمیٔ تعداد روک نہیں بن سکتی(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ) اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کے ثبوت اور اپنے مرسلین کی صداقت کے لیے مختلف دلائل اور معیار قرآن کریم فرقان حمید میں بیان فرمائے ہیں۔ ایک معیار یہ بھی بیان کیا کہ میں نے یہ بات لکھ چھوڑی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے۔ (المجادلہ:۲۲) اسی غلبہ کے حوالے سے ایک معیار اور دلیل یہ بھی الہٰی جماعتوں کی صداقت کی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ کتنی ہی ایسی جماعتیں گذری ہیں اگرچہ وہ قلیل تھے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے کثیر گروہ پر غالب آئے۔ (البقرہ:۲۵۰) انبیاء اور مرسلین کی تعداد مخالفین کے مقابلہ پر عموماًقلیل ہی رہا کرتی ہے لیکن وہ قلیل لوگ جن کا خداتعالیٰ سے پختہ تعلق ہوتا ہے اور ان میں جذبہ ایمان اور جذبہ قربانی موجزن ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے اذن سے بڑی بڑی قوموں پر غالب آجاتے ہیں۔ اس کے نظارے شروع سے ہی تاریخ مذہب میں ہمیں نظر آتے ہیں لیکن ان مثالوں سے پہلے یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ تعلق باللہ اور جذبہ قربانی غلبہ کے لیے بنیادی معیار ہیں۔ ان دونوں حقیقتوں کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں وضاحت پیش کرتا ہوں: تعلق باللہ رکھنے والی قلیل جماعتوں نے غلبہ پایا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًم بِاِذْنِ اللّٰهِ یعنی کتنی ہی جماعتیں دنیا میں ایسی گذری ہیں جو اگرچہ تعداد میں بہت تھوڑی تھیں لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی بڑی جماعتو ں پر غالب آگئیں۔ مگر یہ مثالیں درحقیقت ایسے ہی لوگوں کی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کیا اور اُس کی تائید اور نصرت سے اُنہوں نے کامیابی حاصل کی۔ ان میں سے بعض مثالیں تاریخی زمانہ سے بھی پہلے کی ہیں جیسے حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ نوح علیہ السلام کی قوم نے باوجود قلیل التعداد ہونے کے فتح پائی۔ اور بعض مثالیں تاریخی دَور کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جیسے داؤد علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور اِسی طرح اور کئی انبیاء کے واقعات پائے جاتے ہیں جنہوں نے اپنے مخالفین پر فتح پائی حالانکہ اُن کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے باوجود قلیل التعداد ہونے کے غلبہ حاصل کیا۔ جہاں تک ظاہری سامان کا تعلق تھا وہ ان کے پاس نہیں تھا لیکن ایک باطنی چیز ایسی تھی جو ساری کی ساری ان کے پاس تھی اور وہ خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق تھا۔ گویا دنیا جس میں روح اور مادہ بھی شامل تھا دو حصوں میں منقسم ہوگئی تھی۔ اِن دو حصوں میں سے مادی حصہ تمام کا تمام مخالف کے پاس تھا اور روحانیت سب کی سب اِن کے پاس تھی۔ خداتعالیٰ اِن کی طرف تھا اور روپیہ اور طاقت مخالف کی طرف تھی۔ فرشتے اِن کی طرف تھے اور سامان مخالفوں کی طرف تھا مگر اِس لڑائی میں باوجود اِس کے کہ ایک طرف ظاہری سامان تھے اور دوسری طرف نہیں تھے وہ گروہ جیتا جو قلیل التعداد تھا اور ظاہری سازو سامان سے محروم تھا اور وہ گروہ جو کثیر التعداد تھا اور تمام ظاہری سامان اس کے پاس پائے جاتے تھے وہ ہارا …رسول کریم ﷺ کے مخالفین کے پاس روپیہ تھا، ان کی جتھہ بندی تھی، حکومت تھی، سامانِ حرب تھا، تجربہ کار جرنیل تھے، قوم ساتھ تھی، ملک ساتھ تھا اورآپ کے پاس کوئی حکومت نہیں تھی۔ ظاہری سامان آپ کو میسر نہیں تھے لیکن آپ لڑے اور جیتے۔ عرب لڑے اور ہارے۔كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًم بِاِذْنِ اللّٰهِ کتنی قومیں دنیا میں ایسی گزری ہیں جو تعداد میں بہت تھوڑی تھیں لیکن وہ اپنے دشمن کے مقابلہ میں جیت گئیں۔ مگر یہ کب ہوا؟ جب اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تھا۔ گویا تھوڑی تعداد والی اور کمزور قوموں کو لڑائی میں جیتنے کے لئے یا تو سامان کی فراوانی کی ضرورت ہوتی ہے اور یا خداتعالیٰ ان کے ساتھ ہو، تب اُنہیں فتح حاصل ہوسکتی ہے۔‘‘ (انوارالعلوم جلد۲۱صفحہ۹۰تا۹۳) محنت اور قربانی سے چھوٹی جماعت بڑی پر غالب آجایا کرتی ہے حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں: ’’اگر افراد میں محنت اور قربانی کی عادت پیدا ہو جائے تو چھوٹی جماعت بھی بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًم بِاِذْنِ اللّٰهِ دنیا میں کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہوئی ہیں جو بڑے بڑے گروہوں پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آگئی ہیں۔ اس غلبہ کی وجہ یہی تھی کہ ان میں قربانی اور ایثار کا مادہ تھا۔ وہ اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے اسے مفید کاموں میں صَرف کرنے کے عادی تھی۔ ان میں دیانت تھی، ان میں صداقت تھی، ان میں محنت کی عادت تھی، ان کے حوصلے بلند تھے، ان کے ارادے پختہ تھے اور ان کے مقابل پر جو لوگ کھڑے تھے وہ ان اوصاف سے خالی تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قلیل غالب آگئے اور کثیر مغلوب ہو گئے۔‘‘ (خطبات محمود جلد۳۳ صفحہ۱۱۲-۱۱۳) حضرت نوح علیہ السلام کا غلبہ حضرت نوحؑ پر قلیل لوگ ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ نے کشتی نوح میں سوار لوگوں کو بچالیا اور مخالف غرق کردیے گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں:’’نوح کی قوم نے غرق ہوکر نوحؑ کی صداقت کا ثبوت دیا اور نوح اپنی قوم پر غالب آگیا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد۱۱صفحہ۹مطبوعہ برطانیہ ایڈیشن۲۰۲۳ء) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون پرغلبہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے مقابلہ میں طاقتور اور بادشاہِ وقت فرعون اور اس کا لشکر تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس طاقتور اور کثیر گروہ کو حضرت موسٰی کے مقابل پر شکست دی جب کہ فرعون کو مع لشکر غرق کردیا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ تحریر فرماتے ہیں:’’موسیٰؑ کو اپنے دشمنوں پر اس طرح غلبہ دیا گیا کہ موسیٰؑ کا دشمن سمندر میں ڈبودیا گیا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد۱۱صفحہ۹مطبوعہ برطانیہ ایڈیشن ۲۰۲۳ء) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو فرعون کے مقابل پر غلبہ عطا فرمایا اور فرعون کو عبرت کا نشان بنایا۔ حضرت مصلح موعودؓ سورةالنازعات کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے باوجود اس کے کہ فرعون کو آیت کبرٰی دکھائی گئی پھر بھی اس نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو جھٹلایا اور نافرمانی کی۔ ثُمَّ اَدْبَرَ پھر پیٹھ پھیری۔ یَسْعٰی اورمخالفت میں لگ گیا۔ یَسْعٰی کےمعنے سعی اور کوشش کے بھی ہوئے ہیں… اور مطلب یہ ہے کہ اُس نے پورا زور مخالفت میں لگایا اور اپنی تمام کوششیں موسیٰؑ کو برباد کرنے میں صرف کردیں۔ فَحَشَرَ فَنَادٰی پھر اس نے تمام لوگوں کو اکٹھا کیا۔ اور اُنہیں بلانے کے لئے منادی کی۔ اکٹھا کرنے سے یہ مراد ہے کہ اُس کی طرف سے بڑے بڑے لوگوں کو چٹھیاں بھیجی گئیں کہ وہ فلاں دن جمع ہوجائیں۔ دنیا میں بُلانے کے دوہی طریق ہیں۔ معزز لوگوں کی طرف چٹھیاں بھیج دی جاتی ہیں اور عوام کو بلانے کے لئے منادی کردی جاتی ہے۔ اس نے بھی بڑے بڑے اُمراء اور سرداروں کو خاص طور پر چٹھیاں بھجوادیں یا اُن کی طرف آدمی بھیج دئے کہ وہ فلاں دن پہنچ جائیں۔ اور پھر عام منادی بھی کرادی تاکہ سب لوگ جمع ہوجائیں۔ جب سب لوگ اکٹھے ہوگئے تو وہ اُن سے کہنے لگا اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی میں تمہارا بڑا رب ہوں مگر یہ شخص تمہارے خلاف منصوبہ بازیاں کرتا رہتا ہے تم سب کو اس کے خلاف اکٹھے ہوجانا چاہیے۔‘‘ پھر فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے اُس کو موسیٰؑ کی پیشگوئی کے ماتحت نکال آخرت کے ذریعہ سے تباہ کردیا۔ یہاں نَکَالَ الْاٰخِرَةِیا تو مفعول لہٗ ہے اور یا مفعول مطلق ہے کیونکہ نَکَلَ بِہٖ کے معنے بھی اَخَذَہ ٗکے ہی ہوتے ہیں۔ پس اس کے یا تو یہ معنے ہوجائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو عذاب آخرت اور عذاب اُولیٰ میں مبتلا کرنے کے لئے پکڑایا بری طرح پکڑا۔ آخرت کے لحاظ سے بھی اور اُولیٰ کے لحاظ سے بھی۔ یہاں بھی وہی نتیجہ نکالا گیا ہے جو اسلامی غلبہ کی پیشگوئی سے نکالا گیا تھا کہ موسیٰؑ کی جیت سے نہ صرف وہ پیشگوئی پوری ہوگئی جو موسیٰؑ کے غلبہ کے متعلق تھی بلکہ اس پیشگوئی کے ظہور سے قیامت کا ثبوت بھی مل گیا کیونکہ یہ دونوں پیشگوئیاں آپس میں وابستہ و پیوستہ تھیں جب ایک ناممکن بات مخالف حالات کے باوجود پوری ہوگئی تو اس سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ دوسری بات بھی ایک دن پوری ہوجائے گی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد۱۱ صفحہ۱۷۸-۱۷۹ مطبوعہ برطانیہ ایڈیشن۲۰۲۳ء) طالوت اورداؤد علیہ السلام کا غلبہ سورة البقرہ کی آیات۲۵۰سے۲۵۲ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے طالوت اور داؤد علیہ السلام کے اپنے مخالفین پر غلبے کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ بیان فرماتے ہیں: ’’جب طالوت اپنے لشکر کو لے کر جالوت کے مقابلہ میں نکلے تو اللہ تعالیٰ نے ان کا ایک نہر کے ذریعے پھر امتحان لیا۔ تاکہ جو کمزور ایمان والے ہیں وہ الگ ہو جائیں اور صرف وہی لوگ دشمن کے مقابلہ میں صف آراء ہوں جو کامل الایمان ہوں اور جن کی تائید میں ملائکہ کام کر رہے ہوں۔ نہر کا ترجمہ ندی کیا گیا ہے۔ لیکن ھاء کی زبر سے جب یہ لفظ ہو تو اس کے دو معنے ہوتے ہیں۔ ندی بھی اور فراخی اور وسعت بھی(مفردات) اس آیت میں یہ دونوں معنے لگ سکتے ہیں۔ اگر فراخی اور وسعت کے معنے لیے جائیں تو آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کے ذریعہ سے فوجیوں کو اس امر کی اطلاع دی کہ تمہارا امتحان مال و دولت کی فراخی سے لیا جائے گا۔ اگر تم مال و دولت کے پیچھے پڑگئے تو خدا تعالیٰ کا کام نہ ہو سکے گا۔ اور اگر تم مال و دولت سے متاثر نہ ہوئے تو تم کو کامیابی ہوگی۔ اس صورت میں فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ وغیرہ الفاظ مجازی معنوں میں سمجھے جائیں گے لیکن چونکہ ظاہری رنگ میں بھی طالوت کے ساتھیوں کا ایک نہر کے ذریعہ سے امتحان لیا گیا تھا۔ اس لیے ظاہری معنے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ چونکہ جنگ میں جلدی اور تیز حرکت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پیٹ کا پانی سے بھر لینا تیز حرکت سے انسان کو محروم کر دیتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ہلکے پیٹ رہو۔ اور پانی کم پیئو تاکہ جنگ میں عمدگی سے کام کر سکو مگر اکثر لوگوں نے اس حکمت کو نہ سمجھا اور خوب پیٹ بھر کر پانی پیا۔ اور بہت تھوڑی سی تعداد نے جو بائیبل کے بیان کے مطابق صرف تین سو تھی(قاضیوں باب۷ آیت۶) جنگی ضرورتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے یوںہی چند گھونٹ پانی پیا تاکہ لڑائی کے وقت وہ اچھی طرح کام کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کا بدلہ دینے کے لیے اور ان کے اخلاص کی قدر کرنے کے لیے فیصلہ کیا کہ صرف انہیں کے ہاتھ پر فتح ہو اور حکم دیا کہ انہی تین سو کو جنگ میں شامل کیا جائے باقی کو نہیں۔ چنانچہ انہی تین سو کو طالوت نے جنگ میں شامل کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائی۔ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةً بِإِذْنِ اللّٰهِ میں بتایا گیا ہے کہ کتنی ہی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں۔ اس غلبہ کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان میں قربانی اور ایثار کا مادہ ہوتا ہے وہ اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے اسے مفید کاموں میں صرف کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ان میں دیانت بھی ہوتی ہے۔ صداقت بھی ہوتی ہے۔ محنت کی عادت بھی ہوتی ہے پھر ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ ان کے ارادے پختہ ہوتے ہیں اور ان کے مقابل میں جو لوگ کھڑے ہوتے ہیں وہ ان اوصاف سے خالی ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قلیل غالب آجاتے ہیں اور کثیر مغلوب ہو جاتے ہیں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اس کے بعد فرماتا ہے۔ وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ داؤد نے جالوت کو قتل کردیا۔یہاں جدعون کے واقعہ کے تسلسل میں ایک نیا واقعہ حضرت داؤد علیہ السلام کا بیان کیا گیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کا واقعہ جدعون کے واقعہ سے بہت کچھ ملتا ہے جدعون کے وقت فلسطینیوں نے اسرائیل کو فلسطین سے نکالنے کی بےشک کوشش کی تھی۔ اور جدعون نے ان کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی (قضاة باب ۸ آیت ۱تا۱۲)۔ لیکن وہ ابتدائی کوشش تھی جو حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانہ میں آکر ختم ہوئی۔ اور انہوں نے دشمن کو کلّی طور پر تباہ و برباد کردیا۔ پس اس واقعہ کو مشابہت مضمون کی وجہ سے اس کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ورنہ پہلا جدعون کا واقعہ ہے۔ اور یہ داؤدؑ کا واقعہ ہے اور دونوں میں دو سوسال کا فاصلہ ہے۔… اِس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے۔ جالوت ایک صفاتی نام ہے۔ اور اس سے مراد ایسا گروہ ہے جو ملک میں فساد کرتا پھرے اور چونکہ جدعون کا دشمن بھی ایک آوارہ گرد گروہ تھا جو ملک میں فساد پھیلاتا پھرتا تھا اور حضرت داؤد علیہ السلام نے ملک میں امن قائم کرنے کے لئے جس دشمن کا مقابلہ کیا وہ بھی آوارہ گرد اور فسادی تھا۔ اِس لئے دونوں کے دشمنوں کو صفاتی لحاظ سے جالوت کہا گیا ہے۔ اور ان دونوں کا اکٹھا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ جدعون کے ہاتھ سے تو دشمن کو صرف شکست ہوئی تھی مگر داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں ان کی کلی تباہی ہوئی اور آپؑ نے انہیں نیست و نابود کردیا۔ گویا دشمن کے مقابلہ کی ابتدا جدعون سے ہوئی اور اس کا انتہاء داؤدؑ پر ہوا۔ اسی لئے قرآن کریم میں قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ کے الفاظ آئے ہیں۔ کہ داؤد نے جالوت کا خاتمہ کردیا۔ اور طالوت اور اس کے ساتھیوں کے متعلق صرف ھَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ کے الفاظ آئے ہیں۔یعنی انہوں نے اپنے دشمنوں کو شکست دی۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ جدعون نے سنہ ۱۲۵۶قبل مسیح میں مخالفوں کو شکست دی اور ۱۱۶۱ قبل مسیح تک اس کی اور اس کے بیٹے کی حکومت رہی۔ اس کے بعد ۱۰۵۰ قبل مسیح میں بنی اسرائیل کا کنعان پر داؤد کے ذریعے قبضہ ہوا۔ غرض جدعون اور داؤد کے اکٹھا ذکر کرنے اور ان دونوں کے واقعات کو ملاکر بیان کرنے کی یہی وجہ ہے کہ جدعون وہ پہلا شخص ہے جس نے بنی اسرائیل کے دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ اور یہود میں متحدہ قومیت کی روح پھونکی۔ اور داؤد علیہ السلام آخری شخص ہیں جن کے ہاتھوں دشمن کی کلّی تباہی ہوئی غرض جدعون پہلا نقطہ ہے اور داؤد آخری نقطہ۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد۳ صفحہ۴۱۵تا۴۲۵ مطبوعہ برطانیہ ایڈیشن ۲۰۲۳) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا غلبہ حضرت عیسٰیؑ کو اس رنگ میں اپنی قوم پر غلبہ ملا کہ کثیر مخالف قوم میں سے آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور دوسرے علاقے میں آباد ہوئے اور دشمن کے حملے سے محفوظ ہوگئے۔ سورة النبا کی تفسیر میں حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے اس طرح غلبہ دیا کہ وہ اپنے دشمن سے بھاگے اور ایک غیر ملک میں اس کے حملہ سے محفوظ ہوگئے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد۱۱ صفحہ۹ مطبوعہ برطانیہ ایڈیشن ۲۰۲۳ء) آنحضرتﷺ کا شاندار غلبہ تاریخ مذاہب میں شاندار غلبہ کی مثالیں آنحضرتؐ کے وقت ملتی ہیں۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے جاںنثار اور فدائی صحابہ عطا کیے جنہوں نے اپنی جانیں، اپنے اموال اور اولاد سب کچھ آپؐ پر فدا کردیا اور کہا کہ ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ ایسے جذبہ ایمان اور تعلق باللہ رکھنے والے اور جذبہ قربانی سے سرشار گروہ قلیل کو اللہ تعالیٰ نے گروہ کثیر پر غالب کرنے کے بار بار نظارے دکھائے۔ اس مضمون میں صرف دو مثالیں یعنی غزوہ بدر اور غزوہ احزاب؍خندق کی پیش کروں گا: غزوہ بدر کا معرکہ رمضان ۲ھ بمطابق مارچ۶۲۳ء میں معرکہ بدر ہوا۔ جس نے حق اور باطل کا فرق کردیا جب ایک قلیل جماعت نے اللہ کی تائید سے کثیر گروہ کو شکست دی۔ مکہ سے نکلتے وقت قریش نے کعبہ میں دعا کی اے خدا ہم دونوں فریقوں میں سے جوگروہ حق پر قائم ہے اس کی نصرت فرما اور دوسرے کو ذلیل و رسوا کر۔ (تاریخ خمیس جلد۱صفحہ۴۱۷) اس کے بعد کفار کا لشکر بڑے جاہ و جلال کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوا۔ یہ لشکر مکہ سے گیارہ یا بارہ دن بعد بدر کی وادی میں پہنچا اور وہاں ڈیرے ڈالے۔ لشکر کی تعداد ایک ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور رائج الوقت سامان حرب سے آراستہ تھا۔ سواری کے ۷۰۰اونٹ، ۱۰۰گھوڑے سب سوار اور پیادہ زرہ پوش تھے۔ نیزے، تلوار، تیرکمان کافی تعداد میں موجود تھے۔ اس کے بالمقابل مسلمانوں کا لشکر۱۲ رمضان کو مدینہ سے روانہ ہوا جو کہ ۳۱۳ افراد پر مشتمل تھا۔ جس میں تقریباً ۶۰؍مہاجرین اور باقی انصار تھے۔ ان کے پاس صرف ۷۰ اونٹ اور ۲گھوڑے،زرہ پوش صرف چھ سات تھے۔ سامان حرب بھی بہت تھوڑا اور ناقص تھا۔ روحاؔء جوکہ مدینہ سے ۳۶میل دور تھا وہاں پڑاؤ کیاپھر وادی صفراؔء سے گذرتے ہوئے زفران میں پہنچے جو بدر سے ایک منزل دور ہے تو یہاں کفار کے لشکر جرار کی اطلاع مسلمانوں کو پہنچی۔ یہاں آپؐ نے صحابہ سے مشورہ لیا تو اس وقت مقداد بن اسود نے کہا تھا ہم آپؐ کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے ہوکر لڑیں گے۔ اسی قسم کے جذبات کا اظہار انصار مدینہ نے کیا اور آنحضورؐ نے بھی یہ خوشخبری سنائی کہ میں وہ جگہیں دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہوکر گریں گے۔اس کے بعد قافلہ بدر کی طرف روانہ ہوا۔ رمضان ۲ھ کی سترہ تاریخ اور جمعہ کا دن تھا جو عیسوی لحاظ سے ۱۴ مارچ۶۲۳ء تھی۔ دشمن صف آراء ہو ا تو پھرآپؐ اپنے سائبان میں دعاؤں میں مشغول ہوگئے اور رقت کے ساتھ دعائیں کرنے لگے۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صفحہ۳۹۸تا۴۰۹) حضرت مصلح موعودؓ ان دعاؤں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’جنگ بدر کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے صحابہؓ کو مورچوں پر کھڑا کردیا تو آپ نے ایک طرف بیٹھ کر دعائیں کرنی شروع کیں کہ اے خدا! آج مسلمانوں کو فتح دے۔ آپ نے اِس موقع پر اتنی دعائیں کیں کہ آپ کی سجدہ گاہ آنسوؤں سے تَر ہوگئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا آپ کو یقین نہیں کہ دشمن کے مقابلہ میں خداتعالیٰ مسلمانوں کو فتح عطاکرے گا؟ آپؐ نے فرمایا ابوبکر! خداتعالیٰ کے ہم سے وعدے تو ہیں لیکن خداتعالیٰ غنی بھی ہے ہمارا کام ہے کہ ہم دنیوی سامان بھی جمع کریں اور اپنی کوتاہی کا بھی اقرار کریں تاوہ یہ بھی نہ کہے کہ ہم نے اُس کے پیدا کردہ سامانوں سے فائدہ نہیں اٹھایا اور یہ بھی نہ کہے کہ ہم نے اپنے سامانوں پر بھروسہ کرلیا ہے۔‘‘(انوارالعلوم جلد۲۱ صفحہ۱۰۳) دعا کے بعد میدان میں آئے تو آپؐ نے کنکروں کی مٹھی کفار کی طرف پھینکی اور مسلمانوں کو حملہ کا حکم دیا۔ آپؐ کے پھینکے کنکر خدائی نصرت تھی جس سے آندھی کا جھونکا آیا اور کفار کی آنکھیں، منہ، ناک ، ریت اور کنکر سے بھرنے شروع ہوئے۔ عتبہ، شیبہ، ابوجہل جیسے رؤساء خاک میں مل گئے۔ ستر قیدی پکڑے گئے اور تقریباً اتنے ہی مارے گئے۔ صرف ۱۴؍مسلمان شہید ہوئے۔ اور اس قلیل گروہ نے کفار مکہ کے کثیر گروہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور نصرت سے غلبہ پایا۔ غزوہ احزاب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اپنی تقریر فرمودہ برموقع جلسہ سالانہ۱۹۸۰ء میں جنگ احزاب کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جنگ احزاب بھی انہی آزمائشوں کی ایک کڑی تھی جن میں آپؐ کے بلند اخلاق بشدت آزمائے گئے۔ یہ ایک ایسا امتحان تھا کہ ایمان اور روحانیت اور اخلاقیات کی دنیا پر گویا ایک زلزلہ سا طاری ہوگیا اور اس زلزلے کے متواتر شدید سے شدیدتر جھٹکے ایسے آئے کہ غیرمسلم اہل مدینہ تودرکنار نسبتاً کمزور ایمان والے مسلمانوں کی اساس میں بھی دراڑیں پڑگئیں اور بعض بظاہر بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بھی منہدم ہوکر سطح زمین سے پیوست ہوگئیں۔ اہل اسلام کی کائنات پر فی الحقیقت یہ وقت ایک ایسے ہی ہولناک زلزلہ کے مشابہ تھا جس کے جھٹکے بار بار محسوس ہوں اور ہربار پہلے سے بڑھ کر خطرناک شدت کے ساتھ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اس کا ذکر فرماتے ہوئے ایک ہولناک زلزلے کی ہی مثال دیتا ہے:ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا۔ (الاحزاب:۱۲) …اس غزوہ کا پس منظر یہ ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر اگرچہ کفار مکہ کے مقابل پر مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی لیکن اس کے باوجود قریش مکہ اور ان کے سردار اس احساس سے بے چین تھے کہ انہیں جنگ احد کا کوئی بھی ٹھوس فائدہ نہیں پہنچا اور جنگی مصلحتوں اور منفعتوں میں سے کچھ بھی تو حاصل نہ ہوا۔ ان کا اصل مقصد تو اسلام کی بیخ کنی اور توحید کا خاتمہ کرنا تھا لیکن جنگ احد کے بعد بھی مسلسل اسلام ترقی پذیر رہا بلکہ پہلے سے بڑھ کر تیز رفتاری کے ساتھ اہل عرب میں نفوذ کرنے لگا۔ پس قریش مکہ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ کی اٹل تقدیر کے تابع پہلے سے بڑھ کر اسلام کی ترقی پر حسد میں جلنے اور غیظ کھانے لگے۔ قریش مکہ کے علاوہ ایک یہودی قبیلہ بنو نضیر جسے عہدشکنی، فساد، بے حیائی اور آنحضورﷺ کے خلاف اقدام قتل کے نتیجہ میں مدینہ سے نکال دیا گیا تھا اپنی اس جلاوطنی کے نتیجہ میں اسلام کا پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر دشمن ہوچکا تھا اسی انتقام کی آگ میں جلتا ہوا اس قبیلہ کا سردار حُیی بن اخطب مسلسل قبائل عرب اور اہل مکہ کو آنحضورؐ اور اسلام کے خلاف اکساتا رہتا تھا۔ پس اس معاندکی اشتعال انگیزی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اہل مکہ اور ان کے حلیف اسلام دشمن قبائل،بنوغطفان، بنواسد، بنو سُلیم، بنو مرّہ، بنو اسعد وغیرہ کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ ایک ایسا عظیم الشان لشکر لے کرمدینہ پر حملہ آور ہوں جس کے مقابلہ کی مسلمانوں میں تاب نہ ہو۔ یہ منصوبہ انتہائی خطرناک تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ عرب کی سرزمین سے مسلمانوں اور اسلام کو کلیةً ناپید کردیاجائے۔ مختلف گروہوں یعنی احزاب پر مشتمل یہ عظیم لشکر جس کی تعداد دس اور پچیس ہزارکے درمیان بتائی جاتی ہے سامان جنگ سے پوری طرح لیس ہوکرمدینہ پر حملہ آور ہوا۔ چونکہ ان گروہوں کے علاقے مدینہ سے مختلف سمتوں اور فاصلوں پر واقع تھے اس لئے ایک منصوبہ کے تحت یہ ایسے مختلف وقتوں میں روانہ ہوئے کہ مدینہ کے قریب احد کی وادی کے گردوپیش یہ سب گروہ تقریباً ۲۰، ۲۵فروری ۶۲۷ء شوال ۵ہجری تک جمع ہوگئے۔ اس خوفناک منصوبہ کا دائرہ چونکہ بہت وسیع تھا اور مدینہ کے شمال میں مدینہ کے جنوب میں مکہ تک پھیلا ہوا تھا اس لئے اس کا پردہ اخفاء میں رکھنا ناممکن تھا۔ چنانچہ غالباً جنوری کے اواخر تک کسی وقت آنحضورﷺ کو بھی اس منصوبہ کی اطلاع مل گئی۔ یہ اطلاع ملتے ہی آنحضورﷺ نے صحابہؓ سے مشورہ فرمایا کہ اس انتہائی خوفناک حملہ سے کیسے نپٹا جاسکتا ہے تو حضرت سلمان فارسیؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ مدینہ کی شمالی اور مشرقی جانب چونکہ قدرتی دفاع سے خالی ہے اور اس طرف سے کوئی لشکر بلا روکے ٹوکے شہر میں داخل ہوسکتا ہے اس لے اہل فارس کے طریق کے مطابق اس طرف خندق کھودی جائے تاکہ دشمن کو اپنی بے پناہ عددی برتری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اور مسلمانوں پر یک دفعہ یلغار نہ کرسکے۔ آنحضورﷺ نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور خندق کی نشان دہی فرماکر بلا تاخیر اس کی کھدائی کا کام شروع کروادیا۔ یہ خندق تقریباً ۲۱دن میں مکمل ہوئی ۔ اس کی لمبائی ڈیڑھ میل سے ساڑھے تین میل تک بیان کی گئی ہے۔ لیکن میرے نزدیک تین میل والی روایات زیادہ قابل قبول ہیں کیونکہ مدینہ کے نقشہ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کم و بیش تین میل خندق نہ کھودی جاتی تو خندق کی کھدائی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا اور میل ڈیڑھ میل کا ایسا کھلا راستہ دشمن کو میسر آجاتا جس پر سے بیس پچیس ہزار کی فوج آسانی سے گزرکر بیک وقت یلغار کرسکتی تھی۔ تین ہفتہ کا یہ عرصہ جس میں خندق کھودی گئی آنحضورﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی زندگی پر جسمانی لحاظ سے سخت ترین دور تھا۔ مرد، عورتیں اور ایسی عمر کے بچے ملاکر جو کچھ نہ کچھ کام کے قابل تھے صحابہؓ کی کل تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی۔ آنحضورﷺ نے یہ تمام مردوزن،بوڑھے اور بچے خندق کی کھدائی کے سلسلہ میں مختلف کاموں پر لگا دئیے۔ ہلکے کام عورتوں اور بچوں کے سپرد تھے اور کھدائی اور مٹی اٹھانے کا کام مردوں کے سپرد تھا۔ آپؐ نے کام کرنے والوں کو دس دس کی ٹولیوں میں تقسیم فرماکر ہر ٹولی کے سپرد تقریباً بیس گز لمبی اور چارگز چوڑی زمین کردی جہاں انہوں نے اپنے حصہ کی خندق بنانی تھی۔‘‘(خطابات طاہر۔ تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت۔ صفحہ۳۷۴تا۳۷۶ناشر طاہر فاؤنڈیشن) آپؒ مزید بیان فرماتے ہیں:’’ان انتہائی نازک ایام میں آنحضورﷺ کا تمام تر انحصار دعاؤں پر تھا اور یہی وہ ہتھیار تھا جو بالآخر کارگر ثابت ہوا اور سب دوسرے ہتھیاروں پر بازی لے گیا۔ ان دنوں آپؐ کی جو دعائیں منقول ہیں ان میں ایک بڑی پُر درد دعا یہ تھی:یَا صَرِیْخَ الْمَکْرُوْبِیْنَ یَا مُجِیْبَ الْمُضْطَرِّیْنَ اِکْشِفْ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ وَ کَرْبِیْ فَاِنَّکَ تَرٰی مَا نَزَلَ بِیْ وَ بِاَصْحَابِیْ۔ (السیرة الحلبیة مترجم جلد۲نصف آخر صفحہ۳۸۱ ،۳۸۲) ترجمہ: اے دکھیوں کی دعا سننے والے، اے گھبراہٹ میں مبتلا لوگوں کی پکار کا جواب دینے والے، میری گھبراہٹ کو دورکر کیونکہ تو ان مصائب کو جانتا ہے جو مجھے اور میرے ساتھیوں کو درپیش ہیں۔(بخاری کتاب المغازی۔ باب الخندق) ایک دوسری دعا: اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اِھْزِمْھُمْ وَ انْصُرْنَا عَلَیْہِمْ وَ زَلْزِلْھُمْ۔ (السیرة الحلبیة مترجم جلد۲نصف آخر صفحہ:۳۸۱)ترجمہ: اے اللہ! جس نے مجھ پر قرآن نازل کیا ہے جو بہت جلدی اپنے بندوں سے حساب لے سکتا ہے یہ گروہ جو جمع ہوکر آئے ہیں ان کو شکست دے۔ اے اللہ ان کو شکست دے اور ہمیں ان پر غلبہ دے۔ ان کو اچھی طرح ہلا دے۔ آنحضورﷺ بڑے سوزوگداز کےساتھ دعائیں پڑھتے ہوئے دن رات مختلف کاموں میں مصروف رہتے تھے اور منتظر تھے اور خوب جانتے تھے کہ کسی لمحہ بھی خداتعالیٰ کی غیر معمولی نصرت آنے والی ہے۔ وہ کب اور کیسے آئے گی کوئی نہیں جانتا تھالیکن اس کے آنے میں آنحضورؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو ایک ادنیٰ سا بھی شک نہ تھا۔ آخر وہ لمحہ آن پہنچا جو محمد مصطفٰیﷺ کی دعاؤں کی قبولیت کا نشان تھا اور وہ رات آگئی جو سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ کا نظارہ دکھانے آئی تھی۔‘‘ (خطابات طاہر۔ تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت۔صفحہ۴۰۶ناشر طاہر فاؤنڈیشن) اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص تقدیر سے ایسے سامان پیدا فرما دیے کہ دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی اور وہ گھبراہٹ سے منتشر ہونا شروع ہوگئے اور شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے اور قلیل گروہ ایمان کثیر گروہ کفار پر غالب آگیا۔ جماعت احمدیہ کا غلبہ اللہ تعالیٰ نے آنحضورؐ کی امت کے لیے اپنے مسیح اور مہدی کو بھیجا اور اس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو قائم فرمایا۔ یہ ایک قلیل گروہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدونصرت سے اور غلامانِ مسیح الزمان کے جذبہ ایمان اور قربانی کے نتیجہ میں کئی محاذوں پر غلبہ عطا فرمایا ہے اور دشمن کو شرمندہ اور ناکام کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک کشف میں پانچ ہزاری فوج دی گئی جس نے غالب ہونا تھا۔ پانچ ہزاری فوج اورحضرت مسیح موعودؑ کا ایک کشف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنا کشف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دوشخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے تب میں نے اس شخص کو جو زمین پر تھا مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے، مگر وہ چپ رہا اور اس نے کچھ بھی جواب نہ دیا تب میں نے اُس دوسرے کی طرف رُخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اُسے میں نے مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے، وہ میری اس بات کو سن کر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی: كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًم بِاِذْنِ اللّٰهِ۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳صفحہ۱۴۹حاشیہ) تھوڑے ہونا خوف کا باعث ہرگز نہیں ہوسکتا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم تھوڑے ہیں بیشک یہ صحیح ہے کہ ہم تھوڑے ہیں لیکن تھوڑے ہونا خوف کا باعث ہرگز نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم میںكَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةً آیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے کہ صداقت کی حامل چھوٹی چھوٹی جماعتیں بڑی بڑی قوموں کو کھا گئیں۔ اور اگر یہ سچ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہیں تو ہم تھوڑے ہونے کے باوجود یقیناً دنیا پر غالب ہو کر رہیں گے۔ دنیا کا خوف جان کی وجہ سے ہی ہوتا ہے لیکن کیا مومن جان دینے سے ڈر سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ (خطبات محمود جلد۱۲صفحہ۳۹۶) امر الٰہی کے حصول کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہیں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’الٰہی جماعتیں قربانی کے ساتھ ترقی کیا کرتی ہیں اور تعداد اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ چنانچہ قرآن کریم میں بھی ہمیں توجہ دلائی گئی ہے کہ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًم بِاِذْنِ اللّٰهِ یعنی بہت سی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں جو بڑی جماعتوں پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آجاتی ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ تعداد اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز امر اللہ ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ کا امر حاصل ہو جائے وہ جیت جاتی ہے اور جس کے خلاف اللہ تعالیٰ کا امر نازل ہو جائے وہ ہار جاتی ہے۔ پس ہمیں اتنی کوشش اپنی فتح اور کامیابی کی غرض سے جماعت کو بڑھانے کی نہیں کرنی چاہیے جتنی کوشش فتح اور کامیابی کے واسطے امرِالہٰی کے حاصل کرنے کے لیے کرنی چاہیے۔…پس میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اس کا توکّل انسانوں پر نہیں بلکہ خدا پر ہونا چاہیے اور ترقی کی بنیاد اسے امرِ الہٰی پر رکھنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًم بِاَذْنِ اللّٰهِ جب اللہ تعالیٰ کا امر حاصل ہو جائے جو قربانیوں سے ہی حاصل ہوتا ہے تو پھر ترقی کے رستہ میں کمیٔ تعداد روک نہیں بن سکتی اس لیے میں نے تحریک جدید میں ہر قسم کی قربانیاں رکھی ہیں۔ (خطبات محمود جلد۱۷ صفحہ۵۸۷-۵۹۲) دنیا کی نجات آپ لوگوں سے وابستہ ہے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةً کتنے ہی چھوٹے چھوٹے گروہ ہوتےہیں مگر بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آجاتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے اگر مجھے چالیس کامل مومن مل جائیں تو میں دنیا پر غالب آجاؤں۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ آج اس نے لاکھوں ایسے اشخاص پیدا کر دیے ہیں جو آپ کی نہیں بلکہ آپ کے خدام کی آواز پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بس صحیح طریق پر اپنی کوششوں سے کام لو اور یقین رکھو کہ دنیا کی بادشاہتیں بھی تمہارے ارادوں میں روک نہیں بن سکیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا چاہیے مگر سستوں والا ایمان نہیں کہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہے اور امید باندھ لی کہ اللہ تعالیٰ مدد کرے گا۔ بلکہ ان لوگوں کی طرح جو کام کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں کیا وہ شخص جس نے کچھ کیا ہی نہیں اس کا حق نہیں کہ وہ خدا پر توکّل کرے بلکہ خدا پر توکّل کرنے والا وہی ہے جو پہلے کام کرے اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکّل کرے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو صحیح الفاظ میں وہی سچا مومن اور وہی سچا متوکّل ہے۔ پس محنت سے کام کرو، اپنی ہمتوں کو بلند کرو اور یقین رکھو کہ اب دنیا کی نجات تم سے وابستہ ہے۔ یہ مت خیال کرو کہ تمہیں فاتے آتےہیں، یہ مت خیال کرو کہ تم غریب ہو، بلکہ یاد رکھو کہ آئندہ بادشاہ بھی تمہارے ذریعہ نجات پانے والے ہیں۔ پس ہوشیاری سے کام لو اور اس یقین اور توکّل کے ماتحت کام کرو کہ دنیا کی نجات آپ لوگوں سے وابستہ ہے۔ اگر آپ لوگ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے خود اتر کر لوگوں کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا کر دیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ تمہیں ترقیات ملیں مگر ضرورت ہے کہ آپ لوگ اپنی اصلاح کریں اور صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ پر توکّل اختیار کریں۔‘‘(خطبات محمود جلد۱۳ صفحہ۳۸۹) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے اندر تعلق باللہ پیدا کریں۔ امر الہٰی کے حصول کے لیے کوشاں رہیں، اسی پر توکّل کریں، اپنی قربانیوں کے معیار بلند کریں تا اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ کتنی ہی قلیل جماعتیں ہیں جو کثیر پر غالب آگئیں یہ وعدہ ہم بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتا دیکھیں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مرگ بچپن کا سوگ