مرزا محمد اسماعیل قندھاری کا تعلق کوہ قاف جارجیا سے تھا اور آپ نسلاً تُرک تھے۔آپ کے والد مرزا محمد طاہر صاحب نے تجارت کی غرض سے قندھار میں مستقل رہائش اختیار کی۔ مرزا محمد اسماعیل صاحب نے عربی، فارسی اور علوم مروجہ کی تعلیم حاصل کی۔ پشتو زبان کے ادیب تھے۔ اینگلو افغان (Anglo Afghan) جنگوں کے دوران ہندوستان تشریف لائے اور حیدرآباد سندھ میں میجر راورٹی (جو بمبئ رجمنٹ میں افسر تھے ) کے پشتو اور فارسی کے استاد مقرر ہوئے۔ آپ میجر راورٹی کے ہمراہ ہندوستان کی اکثر چھاؤنیوں میں رہے۔ میجر راورٹی نے مرزا محمداسماعیل صاحب کی مدد سے ایک پشتو گرامر لکھی۔ اور خوشحال خان خٹک کے منظوم کلام کا ترجمہ بھی میجر راورٹی نے ان کی مدد سے کیا۔ پادری ہیوز جو پشاور میں چرچ مشنری سوسائٹی کے افسر اعلٰیٰ تھے کی استدعا پر آپ نے بائبل کا پشتو ترجمہ بھی کیا۔ آپ مذہباً شیعہ تھے مگر کتب اہلِ سنت کا مطالعہ کر کے اور صلحاء اور فقراء اور علماء کی صحبت اختیار کر کے بالآخر سنی المذہب ہو گئے۔ آپ ایک قابل حکیم بھی تھے لیکن طبابت کو بطور پیشہ اختیار نہیں کیا۔ بعض دوستوں اور غریبوں کو نسخہ لکھ دیتے یا دوا دیتے تھے۔ آپ نے عمر بھر شادی نہیں کی۔ آپ نے اپنی ہمشیرہ زادی کو گود لیا اور ان کی پرورش کی۔ آپ نے اپنی ہمشیرہ زادی کی شادی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت مولانا غلام حسن خان نیازی صاحبؓ سے کروائی۔ اس شادی سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی بیگم حضرت اُمِّ مظفرصاحبہ پیدا ہوئیں۔ جب پشاور پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو مرزا محمداسماعیل صاحب ۱۸۵۰ء کے اوائل میں پشاور تشریف لائے۔ اور محلہ گل بادشاہ جی میں سکونت اختیار کی۔ انگریزوں نے آپ کو پشاور میں مدارس کا ڈسٹرکٹ انسپکٹر مقرر کیا تاکہ پشاور میں سرکاری مدرسے کھولے جائیں۔ آپ پہلے ضلع پشاور میں کام کرتے رہے پھر ضلع ہزارہ میں بھی ڈسٹرکٹ انسپکٹر رہے۔ جب پشاور کا پرائمری اسکول مڈل اسکول کے درجہ میں تبدیل کیا گیا اور اس کے لیے ہیڈماسٹر کی ضرورت ہوئی، تو آپ نے حضرت مولانا غلام حسن خان نیازی صاحبؓ کو چنا۔ آپ حضرت نیازی صاحبؓ کے زہد و تقویٰ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی شادی اپنی ہمشیرہ زادی سے کروائی۔ جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ شادی کے بعد حضرت مولانا غلام حسن خان صاحبؓ بھی محلہ گل بادشاہ پشاور میں رہائش پذیر ہوئے اور یہیں سے جماعت احمدیہ صوبہ سرحد کی تاریخ کا سنہرا باب شروع ہوتا ہے۔ مرزا محمد اسماعیل صاحب حضرت مولانا نیازی صاحبؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ ماموریت سے بہت پہلے فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیحؑ فوت ہو گئے ہیں۔ حضرت مولانا نیازی صاحبؓ جب صرف و نحوی بحث کرتے تو فرماتے کہ مولانا صاحب!خدا کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دو ہزار سال تک آسمان پر بٹھائے رکھا؟ کیا اس جیسا کوئی اور انسان نہیں بنا سکتا تھا؟ مسیحؑ بھی انسان تھے اور حوائجِ بشری سے مستثنیٰ نہ تھے اور خود ان کی بابت فرماتا ہے: کَانَا یَاْکُلَانِ الطَّعَام یعنی مسیحؑ اور ان کی والدہ دونوں طعام کھایا کرتے تھے۔ جو ماضی کا صیغہ ہے اور اگر مسیحؑ زندہ ہے اور کھانا نہیں کھاتا اور پھر بھی زندہ ہے تو ان کی والدہ بھی بغیر خوراک کے زندہ رہنی چاہیے کیونکہ دونوں کا ذکر یکجا ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ ماموریت فرمایا تو حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحب نے حضرت مولانا نیازی صاحبؓ کو فرمایا کہ آپ حضور علیہ السلام کے پاس تشریف لے جائیے۔ اصل مدعی آگیا ہے، اب اس مسئلے کی صفائی ان کا کام ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا نیازی صاحبؓ لدھیانہ تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے جبکہ وہ ابھی بیعت نہیں لیتے تھے اور واپس تشریف لے آئے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کا اعلان فرمایا تو حضرت مولانا نیازی صاحبؓ دوبارہ تشریف لے گئے۔ اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے براہین احمدیہ کی طباعت کے لیے امداد کی اپیل کی تو مرزا محمد اسماعیل صاحب نے بھی کچھ رقم اعانتاً ارسال کی اور جب براہین احمدیہ ان کو ملی اور انہوں نے پڑھی تو فرمانے لگے کہ اس شخص کی تحریر مسیح ناصریؑ کی تحریر و تقریر سے ملتی ہے۔ کوٹھا کے پیر صاحب صاحبزادہ عبدالودود صاحبؒ سے مرزا محمد اسماعیل صاحب کی دوستی تھی۔ ان کا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دن پیر صاحب فرمانے لگے کہ ہمارا زمانہ گزر گیا اب مہدی کا زمانہ شروع ہوگا اور اس کی زبان پنجابی ہوگی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اسی واقعہ کا ذکر اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷ صفحہ ۱۴۵ میں کیا ہے۔ حضورؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’ان راویوں میں سے ایک صاحب مرزا صاحب کرکے مشہور ہیں جن کا نام محمد اسمٰعیل ہے اور پشاور محلہ گل بادشاہ صاحب کے رہنے والے ہیں سابق انسپکٹر مدارس تھے۔ ایک معزز اور ثقہ آدمی ہیں مجھ سے کوئی تعلق بیعت نہیں ہے۔ ایک مدت دراز تک میاں صاحب کوٹھہ والے کی صحبت میں رہے ہیں انہوں نے مولوی سید سرور شاہ صاحب کے پاس بیان کیا کہ میں نے حضرت کوٹھہ والے صاحب سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ مہدیٔ آخرالزماں پیدا ہوگیا ہے ابھی اس کا ظہور نہیں ہوا اور جب پوچھا گیا کہ نام کیا ہے تو فرمایا کہ نام نہیں بتلاؤں گا مگر اس قدر بتلاتا ہوں کہ زبان اس کی پنجابی ہے۔‘‘ مرزا محمد اسماعیل صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت بڑی مدت تک نہیں کی۔ ان سے ایک دفعہ دریافت کیا گیا کہ آپ بیعت کیوں نہیں کرتے تو فرمایا کہ میں عالم کشف میں بیعت کر چکا ہوں۔ احباب جماعت نے آپ سے عرض کیا کہ شریعت ظاہر کو بھی تو چاہتی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ مجھے اعتراض نہیں۔ میری طرف سے خط لکھ دو میں دستخط کر دوں گا۔ چنانچہ آپ کی طرف سے خط لکھا گیا۔ آپ نے اس پر دستخط کر دیے۔ وہ خط حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی خدمت میں بھیجا گیا اور آپ بیعت میں شامل ہوگئے۔ الحمدللہ۔ آپ مرض الموت سے بیمار ہو کر ۱۸؍ستمبر ۱۹۱۳ء کو وفات پا گئے اور حضرت شیخ حبیبؒ کے مزار کے باہر کے احاطے میں جہاں سردار کابل دفن تھے دفن ہوئے۔ بوقت وفات قریباً ایک سو سال عمر تھی۔ آپ کا جنازہ افراد جماعت احمدیہ نے پڑھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین (شان عبدالرحمان) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مرزا محمد الدین ناز صاحب ، فرشتہ نما انسان