اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ سلامتی کونسل اور مسئلہ کشمیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۳؍اگست ۲۰۱۴ء کا شمارہ ’’پاکستان نمبر‘‘ کے طور پر شائع ہوا ہے۔ اس خصوصی اشاعت میں شامل محترم پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کے مضمون میں اس تاریخی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اگرچہ بھارت ہی سلامتی کونسل میں لے کر گیا تھا مگر وہاں متعیّن پاکستان کے مندوب (حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ) کے سامنے بھارت اپنا کیس ہار گیا۔ اس کے تاریخی ثبوت میں دو حوالے پیش کیے گئے ہیں۔ ۱۔ جناب شیخ محمد عبداللہ صاحب ریاست کشمیر کی نیشنل کانفرنس کے راہنما تھے اور ہندوستان سے الحاق کا اعلان کرنے کے بعد مہاراجہ کشمیر نے انہیں وزیراعظم مقرر کیا تھا۔ وہ ہندوستان کے اُس وفد کے رُکن تھے جو جنوری ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھیجا گیا تھا۔ وہ اپنی کتاب ’’آتشِ چنار‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ ہندوستان کی طرف سے کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے پہلا وفد گوپال سوامی آئینگر کی قیادت میں بھیجا گیا تھا جس میں مَیں بھی شامل تھا۔ پاکستانی وفد کی قیادت وزیرخارجہ چودھری سرظفراللہ خان کررہے تھے جو ایک ہوشیار بیرسٹر تھے۔ انہوں نے بڑی ذہانت اور چالاکی کا مظاہرہ کرکے ہماری محدود سی شکایت کو ایک وسیع مسئلے کا رُوپ دے دیا اور ہندوستان و پاکستان کی تقسیم کے سارے پُرآشوب پس منظر کو اس کے ساتھ جوڑ دیا۔ ہندوستان پر لازم تھا کہ وہ اپنی شکایت کا دائرہ کشمیر تک محدود رکھتا لیکن وہ سرظفراللہ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گیا اور ہم چلے تو مستغیث بن کر تھے لیکن ایک ملزم کی حیثیت میں کٹہرے میں کھڑے کردیے گئے۔ مجھے بھی سلامتی کونسل نے اپنا عندیہ بیان کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے یہ دعوت اچانک پیش کی جس کے لیے مَیں تیار بھی نہ تھا۔ مَیں اُس دن بخار میں مبتلا تھا۔ لیکن مجبوری تھی اس لیے جو کچھ کہہ سکتا تھا، کہا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ظفراللہ خان کی شطرنج بازی کا نتیجہ تھا کہ وہ اچانک مجھ سے تقریر کرواکر میری پوزیشن سلامتی کونسل کے ممبروں میں گرانا چاہتے تھے۔ بہرحال مَیں نے گھنٹہ بھر تک تقریر کی۔ ظفراللہ خان نے مجھ پر ایک فقرہ کسا تھا کہ مَیں جواہر لال نہرو کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی ہوں! مَیں نے اس کا جواب یہ دیا کہ مجھے جواہر لال کی دوستی پر فخر ہے اور آپ کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جواہر لال کے ساتھ میرا خون کا رشتہ ہے اور خون خون ہوتا ہے اور پانی پانی۔ (دراصل جواہرلال نہرو بھی کشمیری تھے۔) شیخ عبداللہ مزید لکھتے ہیں کہ نئی دہلی میں وزیراعظم جواہرلال نہرو کے کمرے میں اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مندوب آئینگر نے جب کشمیر کے بھارت سے الحاق کی تجویز پاس کرنے کا مسئلہ پیش کیا تو پنڈت جواہرلال غصے میں کہنے لگے کہ مَیں اس کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا، اس طرح تو ہندوستان کی عزت خاک میں مل جائے گی کیونکہ ہم نے بارہا بین الاقوامی سٹیج پر اور خود کشمیری عوام کے سامنے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ایک آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔ ہم اپنے عہد سے روگردانی کرکے کیسے دنیا کی طعن و تشنیع کا نشانہ بن سکتے ہیں۔پنڈت جی اخلاقی سطح پر بالکل درست کہہ رہے تھے۔ لیکن مئی ۱۹۵۳ء میں جب وہ ہفتہ بھر کے لیے سرینگر آئے تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بلاکر ہندوستان کے ساتھ الحاق کی توثیق کرادوں۔ اُس وقت مجھے اُن کی پہلی بات یاد آئی اور سوچنے لگا کہ ان کی اخلاقی عظمت کا جوہر ان کے خوبصورت کشمیری خدوخال کے حامل چہرے کی تاریخ ساز جھریوں کے کس گرداب میں کھوگیا ہے! جناب شیخ صاحب رقمطراز ہیں کہ پنڈت جواہر لال نہرو اپنے آپ کو ناستک کہتے تھے لیکن وہ ہندوستان کے اُس ماضی کے قصیدہ خواں تھے جس میں ہندو احیا پرستی اور ہندو افسوں کا راج تھا۔ وہ اپنی ذات کو اس قدیم سلطنت کو پھر سے قائم و دائم کرنے کا ایک ہتھیار سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مہاتما گاندھی جیسے اصول پسند عارف کا یہ چیلا بیک وقت قدیم ہند کے مشہور سیاست کار چانکیہ کا پرستار بھی تھا جس کی کتاب ’’ارتھ شاستر‘‘ اُس کے سرہانے پڑی رہتی تھی جس میں ریاست کی فریب کاری کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ جواہر لال نے یہی سیاستکاری کشمیر میں ہمارے ساتھ برتی، پاکستان کے ساتھ برتی اور بین الاقوامی سطح پر معاملات میں بھی اس کا مظاہرہ کیا۔ …وہ اپنی حیثیت اور مرتبے کو بچانے کے لیے دوستوں کو قربان کرنے میں کافی فیاض واقع ہوئے تھے۔ … میری سادہ لوحی دیکھیے کہ مَیں نے اُس کی جھوٹی قسم پر اعتبار کرلیا اور اپنے گذشتہ تجربات کو پس پشت ڈال کر خلوص نیت کے ساتھ اشتراک پر آمادہ ہوگیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مجھے اس غلطی کی تلخی کا ازسرنَو اندازہ ہونے لگا جب پارلیمنٹ میں کشمیر اکارڈ کی دستاویزات پیش کی گئیں اور ایوان کے ہر حصے نے اسے ایک بہت اہم کارنامہ قرار دیا۔ آل انڈیا ریڈیو نے اسے ایسے پیش کیا جیسے کانگریس پارٹی نے بڑا قلعہ فتح کرلیا ہو۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ اگر ابتدائے عشق میں ہی ایسے اعتماد شکنی سے کام لیا گیا تو آگے کیا پیش آئے گا۔ (جناب شیخ محمد عبداللہ کا یہ اعتراف اس بات کی دلیل ہے کہ اگر سر ظفراللہ خان نے اُن پر جواہرلال نہرو کے کٹھ پتلی ہونے کا الزام لگایا بھی تھا تو وہ کتنا صحیح تھا اور شیخ صاحب کی قوم آج تک اس کی سزا بھگت رہی ہے۔) ۲۔ وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پریس سیکرٹری مسٹر ایلن کیمپیل جانسن اپنی کتاب Mission with Mountbatten میں ۱۷؍فروری۱۹۴۸ء کی گورنمنٹ ہاؤس نئی دہلی میں ہونے والی سٹاف میٹنگ کی روداد یوں بیان کرتے ہیں کہ میٹنگ میں ماؤنٹ بیٹن نے کشمیر کی مایوس کُن صورتحال کا جائزہ لیا۔ اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جانےسے کم از کم فوری جنگ کا خطرہ تو ٹل گیا تھا مگر ایک نیا خطرہ اُبھر رہا تھا جس کے نتیجے میں انڈیا اور برطانیہ کی حکومتوں کے درمیان موجود خوشگوار تعلقات میں بہت بُری طرح رخنہ پیدا ہوسکتا تھا۔ پہلی بات یہ تھی کہ اقوام متحدہ ہمارا یہ بنیادی مطالبہ تسلیم ہی نہیں کررہی تھی کہ کشمیر پر باہر سے حملہ کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ امریکی اور برطانوی مندوبین بھی شرمناک طور پر پاکستان کے حق میں تھے۔ اس کا لازمی اور قدرتی نتیجہ مایوسی تھا اور اسی لیےوزیراعظم جواہرلال نہرو نے اپنے وفد کو واپس بلانے کا حکم دیا تھا تاکہ دوبارہ ترتیب دیا جائے۔ تعلقات عامہ کے میدان میں بھی ہماری کارکردگی میری توقعات سے کہیں بڑھ کر مایوس کُن تھی۔ ہندوستانی مندوب آئینگر کی تقریروں کے نہ ہضم ہونے والے حصے چھاپنے کے لیے پریس والوں کو مجبور کیا گیا تھا اور وہ بھی تب شائع ہوئے جب ان تقریریوں پر کئی کئی دن گزر چکے تھے۔ مزید برآں پاکستان کے مندوب وزیرخارجہ ظفراللہ خان اقوام متحدہ کے روزمرہ کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ وہ اس میدان میں جتنے شائستہ رواں تھے بھارت کے مندوب (آئینگر) اتنے ہی الجھے ہوئے اور ناموزوں تھے۔ ………٭………٭………٭……… چند مذہبی دعووں کی سائنسی تصدیق بائبل اور قرآن کریم میں بیان فرمودہ بعض دلچسپ حقائق کو جدید تحقیق کی روشنی میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۸؍فروری ۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت کیا گیا ہے جو ماہنامہ ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘ اگست ۲۰۰۷ء سے منقول ہیں۔ ٭… امریکہ کے رسالہ لائف (Life) نے اپریل ۱۹۶۵ء میں بائبل نمبر شائع کیا تھا جس میں یہ تحقیق بیان کی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایشیا اور افریقہ کے کئی سفر اختیار فرمائے جو کسی تجارتی یا دنیوی مقصد کے لیے نہ تھے بلکہ صرف مذہبی مقاصد کے لیے تھے۔ موجودہ دَور میں بائبل کے بہت سے مندرجات کو غیرصحیح تسلیم کرلیا گیا ہے۔ مثلاً بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی جان بچانے کے لیے اپنی بیوی کو بہن کہہ دیا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں جو قدیم تختیاں اُن علاقوں کی کھدائی کے دوران برآمد ہوئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کے قبیلے میں قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی معزز سردار بوڑھا ہو جاتا تھا تو وہ اپنی بیوی کو بہن کا لقب دے دیتا تھا اور اس معروف روایت کو باعث اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ پس جب مصر میں آپؑ نے اپنی بیوی کو بہن کہا تو اس کا مطلب حقیقی معنوں میں بہن قرار دینا نہ تھا اور نہ مقصد جان بچانا تھا بلکہ انہوںنے اہل مصر پر اپنا خاندانی مرتبہ واضح کیا کہ وہ قبیلے کے شیوخ میں سے ہیں۔ سینکڑوں سال میں یہ روایات و اصطلاحات ختم ہوچکی تھیں چنانچہ بائبل نقل کرنے والوں نے ان روایات کی قیاساً ایک غلط توجیہ کرڈالی۔ رسالہ لائف کے اس خاص نمبر میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق بائبل کی اس روایت کو بھی تحقیقات کے نتیجے میں غلط قرار دیا گیا ہے کہ انہوں نے (نعوذباللہ) اپنے باپ کو دھوکا دے کر نبوت حاصل کی تھی اور اس فریب دہی میں گویا آپؑ کی والدہ بھی شامل تھیں۔ ٭… تاریخی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت زرتشتؑ کے مذہب میں بھی پانچ نمازیں تھیں۔ T.R.Sethina اپنی کتاب The Teachings of Zarthushtra, the Prophet of Iran (ایرانی پیغمبر زرتشتؑ کی تعلیمات) میں لکھتے ہیں کہ دن کو پانچ Gahs میں تقسیم کیا گیا تھا اور پانچ مرتبہ عبادات واجب تھیں۔ ٭… عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ سائنس کے بانی یونانی تھے۔ لیکن بابل کے نواحی علاقوں (جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی) میں کھدائی سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں کے لوگ Euclid کے مشہور تکونی مسئلے کو جانتے تھے۔ مٹی کی تختیوں پر اُن کی بنائی ہوئی تکونی شکلیں اس کا ثبوت ہیں۔ اُن کا زمانہ Euclid سے سترہ سو پہلے کا زمانہ ہے۔ ٭… پیغمبروں کی سرزمین کے شہر بغداد کے قریب کھدائی کے دوران ایک بیٹری سیل بھی برآمد ہوا ہے جس کے بارے میں مشہور ایٹمی سائنسدان George Gamow کی رائے ہے کہ بجلی کے یہ سیل اُس زمانے میں زیورات پر سونے کا پالش چڑھانے کے لیے استعمال ہوتے تھے لیکن بعد میں یہ علم دنیا سے ناپید ہوگیا اور پھر حالیہ دَور میں عظیم سائنسدان Dottore Galvani نے اس علم کو دوبارہ دریافت کیا۔ ٭…اسلام، قرآن اور توریت کا نظریہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان وحدانیت کو شروع سے ہی تسلیم کرتا چلا آیا ہے۔ لیکن بعض فلسفی کہتے تھے کہ انسان پہلے پہل جس چیز سے خوف کھاتا تھا اُس کو پوجتا تھا اور اس طرح کئی خداؤں اور دیوتاؤں کا تصور پیدا ہوگیا، بعد میں آہستہ آہستہ وحدانیت کا ظہور ہوا۔ موجودہ زمانے میں افریقہ کے بعض Pygmy قبائل جو ہمیشہ سے تہذیب، تمدّن اور باقی دنیا سے الگ تھلگ رہے ہیں، اُن کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اُن میں بھی وحدانیت شروع سے چلی آرہی ہے۔ گویا اس نظریے کی تائید ہورہی ہے کہ دراصل توحید ہی انسان کا اصلی مذہب ہے۔ ٭…روسی سائنسدان سپٹسیٹ ایگریمسٹ کی رائے میں قومِ لُوطؑ کے مسکن سدوم اور گومور (Sodom & Gomorrah) کی تباہی کے واقعات جو بائبل میں درج ہیں اُن کی نوعیت ایٹمی دھماکے کی سی ہے۔ ٭…قرآن کریم نے ہر شے کو جوڑوں کی شکل میں تخلیق کیے جانے کا ذکر کیا ہے اور اس ضمن میں یہ لطیف نکتہ بھی اشارۃً بیان فرمایا کہ دنیا کے ساتھ آخرت کا وجود بھی قانون زوجیت کا تقاضا ہے۔ بہرحال اب سائنسدان یہ ثابت کرچکے ہیں کہ مادہ کے ساتھ ضد مادہ (Anti-matter) بلکہ مادے کے ذرّات کے ساتھ Anti-particles کا ہونا ناگزیر ہے۔ بہت سے ماہرین تو اس کائنات کے آئینوی توام یعنی عکس کے موجود ہونے کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ ………٭………٭………٭……… مزید پڑھیں: ۱۴؍اگست۔ چھپکلیوں کا عالمی دن