https://youtu.be/S8ET-QSwtRg ’’خلافتِ احمدیہ کے ذریعے ہی دنیا اب امّتِ واحدہ بننے کا نظارہ بھی دیکھ سکتی ہے اور اس کے بغیر نہیں جب تک خلافتِ احمدیہ سے یہ تعلق اور محبت رہے گا خوف کی حالت بھی امن میں بدلتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی تسلی کے سامان بھی پیدا فرماتا رہے گا۔ ان شاءاللہ‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) بنی نوع انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی روحانی نعمت رسالت اور نبوت اور اُس کی کامل پیروی میں ظاہر ہونےوالی خلافت عَلٰی مِنْہَاجِ النُّبُوّۃَ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اسی نعمت کے ذریعہ نوع انسانی کو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی چہرہ شناسی نصیب ہوتی ہے اور وہ آپس میں بھائی بھائی بن جاتے ہیں۔ انبیاء کے وجود کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کی طاقتیں دنیا پر آشکار کرتا ہے اور اپنی عظیم صفات کی تجلیات اپنے ان پیاروں کے وجودوں کے ذریعہ دنیا پر ظاہر کرتا ہے اور درحقیقت حقیقی توحید اور خدادانی اور معرفت کاملہ کی متاع اسی عظیم گروہ کے دامن سے وابستہ ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’یہ بھی یاد رہے کہ خدا کے وجود کا پتادینے والے اور اس کے واحد لاشریک ہونے کاعلم لوگوں کو سکھلانے والے صرف انبیاء علیھم السلام ہیں اور اگر یہ مقدس لوگ دنیا میں نہ آتے تو صراط مستقیم کا یقینی طور پر پانا ایک ممتنع اور مُحال امر تھا۔‘‘(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۱۴) خداتعالیٰ کے ان پیارے انبیاء کے سینے جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کی لازوال محبت اور عشق سے معمور ہوتے ہیں اور ان کے دل صفات الٰہیہ کے ظہور کی تجلیّ گاہ ہوتے ہیں وہیں ان انبیاء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق خدا کی ہمدردی وغمخواری اور ان سے بے انتہا محبت سے پُر دل عطا ہوتے ہیں مخلوق خداوندی سے شفقت اور ہمدردی کا ایسا سمندر ان کے دلوں میں موجزن ہوتا ہے کہ کسی دنیاوی اور جسمانی تعلق میں حتّیٰ کہ حقیقی والدین میں بھی اس جذبہ کا ملنا ناممکن ہے،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انبیاء اور رسل بھی زمرہ بشر میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ایک مدت معینہ کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوجانا لازمہ بشر ہے اور قدرت کے اس ازلی قانون سے انبیاء بھی باہر نہیں چنانچہ وہ بھی بالآخر اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کی وہ رحمت جو ہر چیز پر وسیع ہے تقاضا کرتی ہے کہ دنیا کو ان برکات سے کبھی محروم نہ رہنے دے جو انبیاء کے وجودوں سے وابستہ ہوتی ہیں لہٰذا خدا تعالیٰ انبیاء کے رخصت ہوجانے پر قیام خلافت کے ذریعہ سے انبیاء کی نیابت میں ظِلّی طور پر ان کے فیوض وبرکات کوجاری وساری رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب بھی کوئی نبی مبعوث فرماتا ہے تو اُس کے ذریعہ قائم ہونے والی جماعت کے افراد روحانی اخوت ومحبت کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ وہ ایک خاندان کی طرح،ایک برادری بن کر نئی زندگی گزارنے والے ہوتے ہیں۔ نبی کی برکت اور اُس کی دعاؤں کےطفیل وہ ایک دوسرے کے ہمدرد، خیر خواہ، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے والے اور ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرنے والے ہوتے ہیں۔ اُن کے دل ایک ساتھ دھڑکتے اور ان کی نبضیں ایک ساتھ چلتی ہیں۔جس کی مثال عام دنیوی تعلّقات اور رشتوں میں نہیں ملتی۔ وہ ایک امام (نبی ) کے تابع فرمان ہوکر اُس کے اشاروں پر چلتے ہیں اور ایک ہاتھ کے اشارے پر اُٹھتے اور بیٹھتے ہیں۔ نبی کا وجود اُن کی امیدوں کا مرکزو محور ہوتا ہے جس کے ہر پیغام اورہر حکم کو بجالانا وہ اپنی سعادتِ دارین سمجھتے ہیں۔ یہی نقشہ اوریہی حالات، باہمی الفت ومحبت اور اتحادو یگانگت کی روح،نبی کے بعد اُس کے خلفاء کے ذریعہ مومنین میں پھونکی جاتی ہے۔ خلیفہ ٔوقت اپنی دعاؤں، قوّتِ قدسیہ اور شفقت ومحبت سے اُن کے دلوں کو ایک دوسرے کی محبت سے لبریز کردیتا ہے۔ اُس کا وجود بھی جماعتِ مومنین کی آرزوؤں، تمناؤں اور امیدوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ وہ اُس کے بے دام غلام بن جاتے ہیں اور اُس کے ایک اشارے پر ہروقت تن من دھن قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ خلیفۂ وقت کی تربیت کے نتیجے میں اُن کی ایسی کایا پلٹ جاتی ہے کہ وہ ’’جان و مال و آبرو حاضر ہیں تیری راہ میں‘‘کے نعرہ کی حقیقی تصویر بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی قوتِ قدسیہ کی برکت سے جماعت مومنین کو بھائی بھائی بنادیا اور ان کی باہمی رنجشوں اور نفرتوں کو دُور کردیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہےکہ’’اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے۔‘‘ (آل عمران:۱۰۴) پس اخوت و مساوات اساس ہے مذہب کی اور خدا کی توحید و وحدانیت کی۔ یہ وہ نظریہ حیات ہے جو رنگ و نسل سے بالا، قومیت اور وطنیت کے امتیاز سے پاک اور احترام آدمیت کا علمبردار ہے اور یہی مرکزی نکتہ ہے جو تمام انسانوں کو بلامذہب و ملت ایک لڑی میں پروتا ہے۔ الغرض آنحضور ﷺ نے ان تمام کو بھائی بھائی بنا دیا۔جیسا کہ قرآن نے فرمایا إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ (الحجرات:۱۱) رسول اللہﷺ فرماتے ہیں أَنَّ الْعِبَادَ كُلُّهُمْ إِخْوَةٌ (مسند احمد)کہ تمام لوگ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ حتیٰ کہ غلاموں کو بھی بھائی بنا یا اور کہا گیا کہ ان کو وہی کھانا کھلاؤ جو خود کھاتے ہو۔ ان کو وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو۔ اور فرمایا حَتّٰی یُحِبُّ لِاَ خِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔اور خود ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنے متعلق فرمایا کہ وَابْغُوْنِیْ فِی الْضُعَفَاء کہ مجھے غرباء اورکمزوروں میں تلاش کرو۔ آج ضرورت اس امرکی ہےکہ ہم بھی صحابۂ رسولﷺ کے اُسوہ اور طریق کو اپناتے ہوئے آپس میں اخُوّت اور بھائی چارہ کے نظام کو فروغ دیں۔ ایک دوسرے کے لیے قربانی کرناسیکھیں۔ ایک دوسرے کے لیے ایثار کرنا سیکھیں۔ایک دوسرے کے لیے ہمدردی رکھیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اُسی آسمانی نظام کا حصہ ہے جو اِس سے پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے ذریعہ اس دنیا میں جاری ہوچکا ہے۔ یہ نظام امن و آشتی، صلح جوئی اور آپس کی نفرتوں کو مٹا کر پیغام توحید کو عام کرنے والا نظام ہے۔جس کے ذریعہ دنیا کے تمام انسانوں کو خدائے واحد کے نام پرجمع کیا جائے گا۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں :’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے مَیں دنیامیں بھیجا گیا۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۶) چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس باہمی اخوت اور ہمدردی کو اپنے آنے کا خاص مقصد بیان فرماتے ہوئے دسویں شرط بیعت میں یوں فرمایا: ’’یہ کہ اس عاجز سے عقداخوت محض للہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقتِ مرگ قائم رہے گا اور اس عقْدِ اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔‘‘ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب ۱۸۸۹ء میں سلسلہ بیعت شروع فرمایا تھا تو اسی وقت خلافت اور اس کے زیر سایہ ہمدردی اور اخوت کے تعلق کے بیج کو بھی ساتھ بو دیا تھا۔اور بتا دیا تھا کہ اس الٰہی بیعت کے ذریعہ وہ عظیم الشان روحانی درخت پروان چڑھے گا جس کے شیریں ثمرات کی شاخیں تمام دنیامیں پھیل جائیں گی اور جس کے ذریعہ ہمدردی اور اخوت کی ایسی خوشبودار بیلیں پروان چڑھیں گی جن کے ذریعہ لا مثال اور مضبوط بھائی چارے کے عالمگیر رشتہ محبت و تودّد کو دیکھ کر دنیا ورطۂ حیرت میں ڈوب جائے گی۔آپؑ اس عظیم الشان رشتۂ بیعت سے بندھ جانے والوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ اور وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں گے کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں، یتیموں کیلیے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کیلیے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیا ر ہوںاور تمام تر کوشش اس بات کیلیے کریں کہ ان کی تمام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الٰہی اور ہمدردی ٔ بندگانِ خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آئے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۹۸،۱۹۷) حضور اقدس علیہ السلام کے یہ مبارک الفاظ کہ’’…ہمدردیٔ بندگانِ خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آئے۔‘‘ ان الفاظ میں دراصل خلافت احمدیہ کی حقیقی تصویر نظر آتی ہے کہ کس طرح آج ہمدردی ٔ بندگانِ خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آرہا ہے۔اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اپنا جلال ظاہر کرنے کے لیے قدرت ثانیہ کی نعمت کو ہم میں قائم فرمادیا ہے۔اور کس طرح دنیا میں محبت الٰہی اور توبۃالنصوح اور پاکیزہ اور حقیقی نیکی اور امن اور سلامتی اور بنی نوع کی ہمدردی پھیل رہی ہے۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وحدت قومی کے تعلق میں فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے احمدیوں پر کہ نہ صرف ہادیٔ کاملﷺ کی اُمت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظام خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کاٹوٹنا ممکن نہیں۔لیکن یاد رکھیں کہ یہ کڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے ہاتھ اگر ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے۔اس لیے اس حکم کو ہمیشہ یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ ے رکھو اور نظام جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو۔ کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۳ء صفحہ ۵) پس خلافت کی برکت سے احباب جماعت روحانی اخوت ومحبت کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ خلیفہ ٔوقت اپنی دعاؤں، قوّتِ قدسیہ اور شفقت ومحبت سے اُن کے دلوں کو ایک دوسرے کی محبت سے لبریز کردیتا ہے۔اُس کا وجود جماعتِ مومنین کی آرزوؤں، تمناؤں اور امیدوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ وہ ایک خاندان کی طرح،ایک برادری بن کر نئی زندگی گزارنے والے ہوتے ہیں۔ خلافت کی برکت اور اُس کی دعاؤں کے طفیل وہ ایک دوسرے کے ہمدرد، خیر خواہ، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے والے اور ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرنے والے ہوتے ہیں۔ اُن کے دل ایک ساتھ دھڑکتے اور ان کی نبضیں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ جس کی مثال عام دنیوی تعلّقات اور رشتوں میں نہیں ملتی۔ خلافت کا وجود اُن کی امیدوں کا مرکزو محور ہوتا ہے۔ جس کے ہر پیغام اور حکم کو بجالانا وہ اپنی سعادتِ دارین سمجھتے ہیں۔ ہمارے سید و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا : تمہارے بہترین ائمہ وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں۔ تم ان کے لیے دعا کرتے ہو، وہ تمہارے لیے دعائیں کرتے ہیں۔(مسلم کتاب الامارۃ) نظام خلافت کی بے شمار برکات میں سےایک برکت خلیفۂ وقت کی ہستی میںجماعت مومنین کو ایک دردمند اور دعا گو وجود کا نصیب ہوناہے۔ خلیفۂ وقت سنت ِنبوی ؐ کی اقتدا میں جماعت مومنین کے لیے ایک ایسے باپ کی مانندہے جس کی آغوش میں محبت کی گرمی، تحفظ و احساس اور دعائوں کے خزانوں سےتمام افراد جماعت جھولیاں بھرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے جو سوائے جماعت احمدیہ کےکُل عالم میں کسی کو میسر نہیں۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لیے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔ مگر ان کے لیے نہیں ہے۔ تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لیے اپنے مولا کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لیے ایسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا۔ لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کرسکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں لاکھوں بیمار ہوں۔‘‘(انوارالعلوم جلد۲ صفحہ۱۵۶) آئیے!واقعات کی روشنی میں خلافت کے زیر سایہ ہمدردی اور اخوت کے چند نظاروں کا مشاہدہ کریں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں: ’’میں دیانت داری سے کہہ سکتا ہوں کہ لو گوں کے لیے جو اخلاص اور محبت میرے دل میں میرے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں وہ نہ باپ کو بیٹے سے ہے اورنہ بیٹے کو باپ سے ہو سکتا ہے۔‘‘ (الفضل۴ اپریل۱۹۲۴ء صفحہ ۷) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان سے لندن ہجرت سے ایک دن قبل ۲۸؍اپریل ۱۹۸۴ء کو مسجد مبارک ربوہ میں ایک نماز کے بعد احباب جماعت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ۔ مَیں نے آپ کو یہاں اس لیے نہیں بٹھایا کہ مَیں نے کوئی تقریر کرنی ہے۔ مَیں نے آپ کو دیکھنے کے لیے بٹھایا ہے۔ میری آنکھیں آپ کو دیکھنے سے ٹھنڈک محسوس کرتی ہیں۔ میرے دل کو تسکین ملتی ہے۔ مجھے آپ سے پیار ہے، عشق ہے۔ خدا کی قسم !کسی ماں کو بھی اس قدر پیار نہیں ہو سکتا۔‘‘(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر۲۰۰۴ء صفحہ ۳۶) سچ ہے کہ یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس یونہی دیدار سے بھرتا رہے یہ کاسۂ دل یونہی لاتا رہے مولا ہمیں سرکار کے پاس آئیے! ہمارےپیارے آقا ہمارے امام حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی محبت و شفقت کے چند واقعات سُنیں۔ مکرم محمد اقبال صاحب آف کُنْری ضلع عمر کوٹ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کا بیٹا عزیزم محمود احمد انجم جامعہ احمدیہ ربوہ میں زیر تعلیم تھا اور پڑھائی میں کمزور تھا۔ ایک بار خاکسار اپنے بیٹے کو لے کر محترم ناظر صاحب اعلیٰ کے دفتر میاں صاحب یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے بیٹے کو سمجھائیں کہ یہ واقف زندگی ہے اس نے خود زندگی وقف کی ہے یہ پڑھائی میں کمزور ہے۔ آپ اس کے لیے دعا کریں۔ خاکسار اس بچے کو آپ کے سپرد کرتا ہے آپ اس کی تعلیم کی نگرانی فرمائیں، یہ مجھ پر احسان عظیم ہوگا۔ آپ نے عزیزم محمود احمد انجم کو کہا کہ آئندہ آپ نے مجھ سے ملتے رہنا ہے اور ہر ماہ اپنی تعلیم کی رپورٹ دینی ہے۔ دو تین ماہ بعد خاکسار جب دوبارہ ربوہ گیا اور اپنے بیٹے کو کہا کہ جب آپ میاں صاحب سے ملتے ہیں تو میاں صاحب کیا فرماتے ہیں؟ بیٹے نے مجھے کہا کہ میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ روزانہ کم از کم دو نفل ضرور پڑھا کرو اور روحانی خزائن کا مطالعہ سونے سے پہلے کیا کرو۔ ہر ماہ کوشش کر کے جیب خرچ سے ایک کتاب خریدا کرو۔ جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۰۳ء میں خاکسار کو شمولیت کا موقع ملا۔ خاکسار نماز پڑھنے بیت الفضل کی طرف جا رہا تھا کہ راستہ میں مکرم سید میر محمود احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ ملے۔ خاکسار نے سلام عرض کیا۔ مصافحہ اور معانقہ کیا… آپ نے فرمایا آپ کا بیٹا محمود احمد انجم بڑا خوش نصیب ہے جس کی نگرانی پیارے آقا خلافت سے پہلے کیاکرتے تھے اور مجھ سے رپورٹ لیتے رہتے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعاؤں سے ہی جامعہ میں کامیاب جا رہا ہے۔ میں اور میرا بیٹا کس قدرخوش نصیب ہیں کہ پیارے آقا کی خلافت سے پہلے اوربعدکی دعائیں اور شفقت ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے حضور کو صحت والی لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین(ماہنامہ تشحیذالاذہان سیدنا مسرور نمبر۲۰۰۸ء صفحہ۳۷، ۳۸) جلسہ سالانہ آسٹریلیا ۲۰۱۳ء کے اگلے دن حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنماز ظہر وعصر کی ادائیگی کے بعد اپنی رہائش گاہ پر واپس تشریف لے جارہے تھے کہ اچانک ایک احمدی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے سامنے آگیااور درخواست کی کہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان کے بیٹے کی آمین کروائیں۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت اس احمدی کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایاکہ آج شام کو جو تقریب آمین ہونی ہے اس تقریب میں اپنے بیٹے کو بھی لے آنا۔اس پر اس احمدی نے کہا کہ حضور آج شام واپس جا رہا ہوں اور مجھے ایئرپورٹ کے لیے شام ۶بجے نکلنا ہے۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ہمراہ جو سیکیورٹی اور سٹاف پر مامور افرادتھے اس قسم کی درخواست پر حیران ہو گئے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اس احمدی کی درخواست آرام سے سنی اور فرمایا اپنے بیٹے کو لے آؤ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزگھر تشریف لے گئے اور کچھ منٹ کے بعد واپس آئے اور اپنی رہائش گاہ کے سامنے اس بچے کی آمین کی تقریب کی۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مصروفیت کے باوجود اس احمدی کی ہمدردی کے لیے اور اس کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے پہلے سے طے شدہ آمین کی اجتماعی تقریب سے پہلے اسی وقت اس بچے کی اکیلے آمین کروا دی۔(تیسرے دن کی تقریر جلسہ سالانہ قادیان ۲۰۱۵ء مقرر مرزا شیراز احمد صاحب) مراکش کے ایک مخلص احمدی کا بیان ہے کہ جب میں دوسری بار ۲۰۰۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملا تو حضورِ انور نے فرمایا کہ جب میں ۲۰۰۵ء میں سپین گیا تو جبرالٹر کے پہاڑوں کی سیرکے دوران میں نے وہاں سے اپنے مراکشی احمدی بھائیوں کوالسلام علیکم کہا تھا۔میرے بھائیو! جبرالٹر کے پہاڑوں کی سیر کرنے والوںمیں سے بعض سمندر کی وسعتوں کا نقشہ کھینچتے ہیں تو بعض ان پہاڑوں کی خوبصورتی اور دلکشی کا تصورپیش کرتے ہیں۔ جبکہ بعض وہاں کے قدرتی حسن اور دلفریب نظاروں کی بات کرتے ہیںلیکن ذرا غور تو فرمائیںکہ جب جبرالٹر کے پہاڑوں سے میرے آقا کی نظرمراکش کے شہروں اور آبادیوں پر پڑی تو آپ کو وہاں پر بسنے والے خدام یاد آ گئے اور ان کی محبت نے اس قدر جوش ماراکہ بے اختیار آپ کے دل سے ان کے لیے سلامتی کی دعائیں نکلنے لگیں۔(تقریر جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۱ء مقرر منیر احمد جاویدصاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضورِ انور) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : ’’جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکرخلیفٔہ وقت کو رہتی ہے۔…کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہویا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفہ وقت کی نظر نہ ہو۔اور اس کے حل کے لیے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو…دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں،مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لیے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔(روزنامہ الفضل یکم اگست ۲۰۱۴ء) اُمّتِ مسلمہ کی موجودہ حالت پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہر صاحب ِ بصیرت جان سکتا ہے کہ وہ غیرمعمولی طور پرافتراق و انتشار کا شکار ہے۔اتحاد واتفاق اور اجتماعیت کی اسی کمی کے باعث اُن کی اکثریت نہ صرف غربت وافلاس کی چکی میں پِس رہی ہے بلکہ اُن میں ذہنی و فکری پسماندگی اپنے عروج پر ہے۔ اُن کے سامنے نہ توکوئی مقصد ہے اور نہ ہی کوئی مربوط لائحہ عمل جبکہ اُن کے دل جدا جدا ہیں۔قرآن حکیم نے اُن کی اسی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا ہے کہ تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰی(الحشر:۱۵) توانہیں اکٹھا سمجھتا ہے جبکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔ سوخلافت ہی وہ حبل اللہ ہے جو جماعت مومنین کو وحدت کی لڑی میں پَروکراُن کی شیرازہ بندی کرتی ہے اور اتحادو اتفاق کی اسی برکت سے جماعت ہر جہت سے بےمثال ترقی کرتی ہے۔گویا خلافت ہی فتح و ظفر کی اصل کلید ہے جس کے ذریعہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ(النور:۵۶)کے نظارے دکھائی دیتے ہیں۔ جماعت احمدیہ ہی وہ خوش نصیب جماعت ہے جو خلافت جیسی عظیم نعمت سے متمتع ہو رہی ہے اور اسی نعمت کے سائے تلے ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے۔ کیونکہ قوموں کی ترقی اوراُن کی تمام تر کامیابیوں کا راز اخوت، وحدت ویکجہتی، الفت و یگانگت اور باہمی ہمدردی،پیارو محبت میں پنہاں ہے جو خلافت کے بغیر ممکن نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد خلافتِ احمدیہ کے بابرکت قیام کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۴؍مئی ۲۰۱۹ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’خلافتِ احمدیہ کے ذریعے ہی دنیا اب امّتِ واحدہ بننے کا نظارہ بھی دیکھ سکتی ہے اور اس کے بغیر نہیں جب تک خلافتِ احمدیہ سے یہ تعلق اور محبت رہے گا خوف کی حالت بھی امن میں بدلتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی تسلی کے سامان بھی پیدا فرماتا رہے گا۔ ان شاءاللہ۔خلافت کی باتوں پر عمل کرنا بھی تمہارے لیے ضروری ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ قومی اور روحانی زندگی کے جاری رکھنے کے لیے مومنین کے لیے یہ انتہائی ضروری چیز ہے کہ اپنی اطاعت کے معیار کو بڑھائیں۔ بیعت کے بعد اپنی سوچوں کو درست سمت میں رکھنا اور کامل اطاعت کے نمونے دکھانا انتہائی ضروری ہے۔عام اطاعت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرو۔ اس کی عبادت بھی سنوار کر کرو۔ایسے اعلیٰ اخلاق ہوں کہ احمدی اور غیر احمدی میں فرق صاف نظر آنے لگ جائے۔ دنیاوی خواہشات اور ان کے پیچھے پڑ کر دین کو ثانوی حیثیت دینے کی حالت بھی شرک کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لیے ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم میں اطاعت کا مادہ ہے۔کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔ کس حد تک ہم اپنی عبادتوں کو سنوار رہے ہیں۔ کس حد تک سنت پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کس حد تک ہماری اطاعت کے معیار ہیں۔جو خلافت سے وابستہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرتے رہیں گے، اپنی نمازوں کی حفاظت کریں گے، تزکیہ نفس اور تزکیہ اموال کرتے رہیں گے، اطاعت میں اعلیٰ معیار قائم کرتے رہیں گے وہ ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں گے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍جون ۲۰۱۹ء صفحہ ۵ تا ۹) میرے بھائیو،میری بہنو،عز یزو اور بزرگوارو! دیکھو اور سنوکہ آج بھی خدائے رحمٰن نے ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العریزکی ذات میں ایسا مہربان آقا عطا فرمایا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اس محبت سے گلے لگاتا ہے کہ غم بھول جاتا ہے اور دل کی پا تال تک خوشی ومسرت کا بسیرا ہو جاتا ہے۔خدائے ذوالمنن کاا حسان ہے کہ اس نے ایسا خلیفہ ہمیں عطافرمایا ہے جو محبت بھری دعاؤں کاکبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔اس کا محبت بھرا سلوک دلوں کو لوٹتا جاتا ہے۔خلفائے احمدیت کی محبت وشفقت اوردعاؤں کے فیض کا سلسلہ اتنا وسیع اور اتنا دلگداز ہے کہ بیان کا یارانہیں۔ کاش! میرے لیے ممکن ہوتا تو میں دنیا کو بتاتا کہ ہم خلافتِ احمدیہ کے سایہ میں کس جنت میں دن رات بسر کررہے ہیں۔ حق یہ ہے کہ یہ کیفیت لفظوں میں بیان کرنے والی نہیں بلکہ ذاتی تحربہ کی روشنی میں محسوس کرنے اور جاننے والی عظیم دولت ہے اور مَیںیقین سے کہہ رہا ہوں کہ آج ایک ایک فردجماعت اور اکناف عالم میں بسنے والے کروڑوں عشاق احمدیت اس بات پر زندہ گواہ ہیں۔ پس اے میرے عزیزو! اٹھو! آج اس انعام کی حفاظت کے لیے عزم اور ہمت سے اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گرتے ہوئے،اس سے مدد مانگتے ہوئے میدان میںکود پڑو کہ اسی میںہماری بقا ہے۔ اسی میں ہماری نسلوں کی بقا ہے۔ اوراسی میں انسانیت کی بقا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق دے۔اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ ہم اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کے زیرسایہ ہمدردی اور اخوّت قائم کرنے کی توفیق دے اور اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین واخرد عونا عن الحمد للّٰہ ربّ العالمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: جلسہ سالانہ برطانیہ۲۰۲۴ء کی کامیابی کا ذکراور بعض غیروں کے تاثرات