https://youtu.be/j4MvpL6I86I ٭…کیا اسلام میں منت ماننا جائز ہے؟٭…سورت آل عمران کی آیت نمبر ۲۸ اور ۲۹ میں ہے کہ ’’تو بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان نکالتا ہے۔‘‘ کا مطلب کیا ہے اوردوسری آیت میں کیا اللہ تعالیٰ مکمل طور پر کافروں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے، نیز کفار سے حضور ﷺ پر ایمان نہ رکھنے والے مراد ہیں یا اللہ تعالیٰ کو نہ ماننے والے مراد ہیں؟٭…مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والی کتاب دینی معلومات میں لیکھرام کے قتل کی بابت تحریر ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کے ذریعہ تیغ محمدی کا شکار بنایا۔ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں میرا یہ خیال ہے کہ لیکھرام کا قاتل کوئی انسان تھا نہ کہ فرشتہ۔ حضور کی خدمت میں راہنمائی کی درخواست ہے۔٭…جلسہ سالانہ جرمنی میں خواتین کی طرف ہونے والی تقریر میں آپ نے کہا تھا کہ جو بارہ نوافل پڑھ لیتا ہے وہ جنت میں اپنا گھر بناتا ہے، نیز عورتوں کو بہادر بننے اور اپنے دفاع کی طرف توجہ دلائی تھی۔اس حوالے سے عرض ہے کہ کیا ان بارہ نوافل میں تحیۃ الوضوء کے نوافل بھی شامل ہیں؟نیز یہ کہ بندوق چلانا سیکھنے سے خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے؟٭…کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کوئی فیملی تھی؟ سوال: یوکے سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا اسلام میں منَّت ماننا جائز ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۶؍اکتوبر ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے نذر ماننے کو بہت زیادہ پسند نہیں فرمایا۔ (صحیح مسلم کتاب النذر بَاب النَّهْيِ عَنِ النَّذْرِ وَأَنَّهُ لَا يَرُدُّ شَيْئًا) اور گناہ کے کاموں، غیر ضروری اور لغو چیزوں نیز طاقت سے بڑھ کر باتوں پر نذر ماننے سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو اللہ کی اطاعت کی نذر مانے تو اللہ کی اطاعت کرے اور جو اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر مانے تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔(سنن ابی داؤدكِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُوْرِ باب النَّذْرِ فِي الْمَعْصِيَةِ) اسی طرح حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ کی نظر ایک شخص پر پڑی جو دھوپ میں کھڑا تھا، آپ نے اس کے متعلق پوچھا، تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ابواسرائیل ہے اور اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں، نہ سایہ میں آئے گا، نہ بات کرے گا اور روزہ رکھے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے حکم دو کہ وہ بات کرے، سایہ میں آئے اور بیٹھےاور اپنا روزہ پورا کرے۔ (سنن ابی داؤدكِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ باب مَنْ رَأَى عَلَيْهِ كَفَّارَةً إِذَا كَانَ فِي مَعْصِيَةٍ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نذر کے بارے میں فرماتے ہیں: نذر کے متعلق حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا۔ (مسلم کتاب النذر باب النھی عن النذر) ہاں اگر کوئی نذر مانی جائے تو پھر اُس کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ نذر کو رسول کریمﷺ نے اس لیے ناپسند فر مایا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ سے ایک قسم کا ٹھیکہ ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ٹھیکہ کرنا کوئی پسندیدہ امر نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس کی بجائے صدقہ و خیرات اور دعاؤں سے کام لے۔ ہاں! اگر کوئی شخص صدقہ و خیرات اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ کوئی نذر بھی شکرانہ کے طور پر مان لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ میں یہ استنباط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ایک عمل سے کرتا ہوں۔ آپ بعض دفعہ اُن لوگوں کو جو آپ سے دعا کے لیے عرض کرتے تھے فرمایا کرتے تھے کہ میں دعا کروں گا۔ آپ اپنے دل میں خدمت دین کے لیے کوئی رقم مقرر کر لیں جسے اس کام کے پورا ہونے پر آپ خدا تعالیٰ کی راہ میں دیدیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شکرانہ کے طور پر اگر کوئی نذر مان لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ اُس نذر کے ساتھ ساتھ دعاؤں اور گریہ و زاری اور صدقات و خیرات سے بھی کام لیا جائے۔(تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۴۸۹،۴۸۸، مطبوعہ یوکے ۲۰۲۳ء) سوال: یوکے سے ہی ایک خاتون نے سورت آل عمران کی آیت نمبر ۲۸ کہ ’’تو بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان نکالتا ہے۔‘‘ اور آیت نمبر ۲۹ کہ’’مومن مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں۔‘‘ کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ پہلی آیت کا مطلب کیا ہے اوردوسری آیت میں کیا اللہ تعالیٰ مکمل طور پر کافروں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے، نیز کفار سے حضور ﷺ پر ایمان نہ رکھنے والے مراد ہیں یا اللہ تعالیٰ کو نہ ماننے والے مراد ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ جواب: سورت آل عمران کی آیت نمبر۲۸ کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو بےجان سے جاندار اور جاندار سے بےجان نکالتا ہے، کے کئی معانی کیے گئے ہیں ۔ اور یہاں روحانی زندہ اور مردہ بھی مراد لیے گئے ہیں۔اور اس آیت کے ایک معانی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ مومن کو کافر سے اور کافر کو مومن سے نکالتا ہے۔چنانچہ تفاسیر میں لکھا ہے کہ حضور ﷺ اپنے اہل خانہ کے پاس تشریف لائے تو وہاں ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ حضورﷺ کے دریافت کرنے پر ازواج مطہرات نے بتایا کہ یہ خالدہ بنت الاسود بن عبد یغوث ہیں۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا سُبْحَانَ الَّذِي يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ۔یعنی اللہ کی ذات تمام عیوب سے پاک ہے، جو زندہ کو مردہ سے نکالتی ہے۔حضرت خالدہ بنت الاسود بن عبد یغوث نیک اور صالحہ خاتون تھیں جبکہ ان کا باپ کافر تھا۔(تفسیر القرطبی، زیر آیت ہذا) گویا ایک مومن روحانی طور پر زندہ ہوتا ہے جبکہ کافر روحانی لحاظ سے مردہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک نیک انسان روحانی لحاظ سے زندہ ہوتا ہے اور ایک بُرا شخص روحانی لحاظ سے مردہ کے برابر ہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس آیت کے معانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’وہ چاہے تو بُروں سے بھلے اور بھلوں سے بُرے بناوے۔‘‘(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ ۴۶۰) پس اس آیت کے کئی معانی کیے گئے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس آیت سے انسانوں کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کائنات کی ہر چیز کی مالک ہے اور اس ساری کائنات کی ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ وہ چاہے تو سونے کومٹی بنا دے اور چاہے تو مٹی کو سونا بنا دے۔ گویا اس آیت میں إِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ کے مضمون کو ایک اور رنگ میں بیان کیا گیا ہے۔ باقی سورت آل عمران کی آیت نمبر ۲۹کو اگر آپ غور سے پڑھیں تو آپ کے سوال کا جواب تو اسی میں آپ کو مل جائے گا۔ کہ مومنوں کو چھوڑ کر یعنی مومنوں کے مفاد کے خلاف کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ اور یہ حکم خاص طور پر ایسے کافروں کے متعلق ہے جو اسلام کے سخت معاند تھے اور ہر وقت مسلمانوں اور اسلام کے خلاف برسر پیکار رہتے تھے اور آنحضور ﷺ کو نقصان پہنچانے کے در پے ہوتے تھے۔ ایسے حق کے دشمنوں کے متعلق یہ نصیحت فرمائی کہ انہیں اپنا دوست نہ بناؤ اور ان کی بجائے مومنوں کو اپنا دوست بناؤ۔ ورنہ مکہ میں بھی اور مدینہ میں بھی کئی ایسے شریف النفس لوگ تھے، جو مسلمان تو نہیں تھے لیکن چونکہ وہ مسلمانوں کی مخالفت نہیں کرتے تھے، اس لیے آنحضور ﷺ اور صحابہ کے ان کے ساتھ تعلقات تھے۔ پس اس آیت میں مسلمانوں کو غیر مسلموں سے تعلق رکھنے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ اسلام دشمن کفار کے ساتھ دلی دوستیاں لگانے سے منع کیا گیا تا کہ وہ دوستی کی آڑ میں مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ سوال: ربوہ سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والی کتاب دینی معلومات میں لیکھرام کے قتل کی بابت تحریر ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کے ذریعہ تیغ محمدی کا شکار بنایا۔ اسی طرح انٹرنیٹ پرا یک احمدی دوست نے ایک روایت لکھی تھی کہ قاتل لیکھرام کو قتل کرکے ایک کمرہ میں چلا گیا اور کمرہ کو باہر سے بند کر دیا۔ کمرہ میں صرف ایک چھوٹا سا روشن دان تھا اور جب کمرہ کھولا گیا تو قاتل غائب تھا۔ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں میرا یہ خیال ہے کہ لیکھرام کا قاتل کوئی انسان تھا نہ کہ فرشتہ۔ حضور کی خدمت میں راہنمائی کی درخواست ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ کی بات درست ہے۔ لیکھرام کے قتل کے بارے میں جماعت احمدیہ کا ہر گز یہ عقیدہ نہیں کہ اسے کسی فرشتہ نے قتل کیا تھا۔ بلکہ جماعت احمدیہ کا اس بارے میں یہی عقیدہ ہے کہ یہ ایک زبردست الٰہی نشان تھا جو اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کے لیے اپنی غیرت اور آپ کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے اظہار کے لیے ظاہر فرمایا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی قبل از وقت خبر عطا فرمائی تھی اور پھر اس پیشگوئی کے عین مطابق اسے پورا بھی فرمایاتھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس نشان کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:’’دوسرے ان الہامات براہین احمدیہ میں یہ وعدہ تھا کہ ہم وہ نشان ظاہر کریں گے جن میں انسانوں کے افعال کا دخل ہوگا سو اس کے مطابق لیکھرام کی نسبت پیشگوئی ظہور میں آئی کیونکہ یہ نشان بالواسطہ ظاہر ہوا اور کسی نے لیکھرام کو قتل کر دیا۔ پس ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی میں کسی انسان کے دل کو خدا نے ابھارا تا اس کو قتل کرے اور ہریک پہلو سے اس کو موقعہ دیا کہ تا وہ اپنا کام انجام تک پہنچاوے۔‘‘(سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۲) اسی طرح ملفوظات میں اس نشان کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’لیکھرام کے معاملہ میں غیب کا ہاتھ کام کرتاہوا صاف طور پر دکھائی دیتاہے۔ اس شخص (یعنی قاتل) کا شُدھ ہونے کے لیے اُس کے پاس آنا۔ اُس کا اس پر بھروسہ کرنا۔ یہانتک کہ اپنے گھر میں بلاتکلف اُس کو لے جانا، شام کے وقت دیگرملاقاتیوں کا چلاجانا۔ ان کا اکیلا رہ جانا، عین عید کے دُوسرے دن اُس کا اس کام کے لیے عازم ہونا۔لیکھرام کا لکھتے لکھتے کھڑے ہوکر انگڑائی لینا اوراپنے پیٹ کو سامنے نکالنا اورچُھری کا وارکاری پڑنا۔ مرتے دم تک اُس کی زبان کو خدا کا ایسا بند کرنا کہ باوجود ہوش کے اورا س علم کے ہم نے اس کے برخلاف پیش گوئی کی ہوئی ہے۔ ایک سیکنڈ کے واسطے اس شبہ کا اظہار بھی نہ کرنا کہ مجھے مرزا صاحب پر شک ہے۔ پھر آج تک اُس کے قاتل کا پتہ نہ چلنا۔ یہ سب خداتعالیٰ کے فعل ہیں جو ہیبت ناک طورپر اس کی قدرت اور طاقت کا جلوہ دکھارہے ہیں۔ (ملفوظات جلداوّل صفحہ ۲۵۷، مطبوعہ ۱۹۸۸ء) دینی معلومات میں تصحیح کے لیے تو میں خدام الاحمدیہ کو لکھ رہا ہوں لیکن انٹرنیٹ پر اگر کسی نے کوئی ایسی روایت لکھی ہےجو جماعتی عقیدہ کے مطابق نہیں ہے تو اسے جماعتی موقف تو بہرحال نہیں کہا جا سکتا۔ سوال: امریکہ سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ جلسہ جرمنی میں خواتین کی طرف ہونے والی تقریر میں آپ نے کہا تھا کہ جو بارہ نوافل پڑھ لیتا ہے وہ جنت میں اپنا گھر بناتا ہے، نیز عورتوں کو بہادر بننے اور اپنے دفاع کی طرف توجہ دلائی تھی۔اس حوالہ سے عرض ہے کہ کیا ان بارہ نوافل میں تحیۃ الوضوء کے نوافل بھی شامل ہیں؟نیز یہ کہ بندوق چلانا سیکھنے سے خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ یکم نومبر ۲۰۲۳ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: جلسہ جرمنی میں لجنہ کی طرف ہونے والی اپنی تقریر میں میں نے جو بارہ نوافل پڑھنے والے کے جنت میں داخل ہونے کی بات کی تھی وہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی آنحضورﷺکے اس ارشاد کی بنا پر تھی کہ جو دن رات میں سنت کی بارہ رکعتوں پر مداومت اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے۔ چار رکعات ظہر سے پہلے، دو رکعات اس کے بعد، دو رکعات مغرب کے بعد، دو رکعات عشاء کے بعد اور دو رکعات فجر سے پہلے۔ (سنن ترمذی کتاب الصلاۃ بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ) پس مذکورہ بالا حدیث میں جن بارہ رکعتوں کا ذکر ہے، یہ بارہ رکعات سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں جو فرض نمازوں سے پہلے اور بعد میں ادا کی جاتی ہیں۔ اور جنہیں حضورﷺنے سفر کے علاوہ ہمیشہ ادا فرمایا ہے۔ ان سنت مؤکدہ کو بلا وجہ ترک کرنا قابل سرزنش ہے کیونکہ ان پر ہمارے آقا و مولا ؐکا دوام ثابت ہے۔ جبکہ تحیۃ الوضوء وغیرہ، غیر مؤکدہ سنتوں اور نوافل کی ذیل میں آتے ہیں۔ جن کی ادائیگی انسان کے اپنے اختیار میں ہے پڑھنے پر ثواب ہو گا اور ترک کرنے سے گناہ کوئی نہیں ہو گا۔ پھر نوافل کے بارے میں حضورﷺکا یہ ارشاد بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے میرا بندہ مسلسل نوافل کے ذریعہ مجھ سے اس قدر قریب ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر وہ مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق بَاب التَّوَاضُعِ) لہٰذا فرضوں اور سنت مؤکدہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ انسان کو حتی المقدور اور حسب استطاعت نوافل کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ یہ قرب الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ باقی بہادر بننے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان کو تیر و تلوار یا بندوق اور پستول چلانے آتے ہوں تو وہ بہادر ہے، بلکہ اصل بہادری یہ ہے کہ دل کے خوف دور ہونے چاہئیں اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اور ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ بلاوجہ کسی سے مرعوب ہو کر برائیوں میں پڑنا ایک مومن کی شان کے برخلاف ہے۔ ہاں اگر آپ بندوق چلانا سیکھنا چاہتی ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ ان چیزوں سے بھی جرأت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کے تمام حکموں پر چلنا ضروری ہے۔ اس کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہیے۔ سوال: کینیڈا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کوئی فیملی تھی؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲؍نومبر۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: یہود کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے گئے عہدوں کو بار بار توڑنے، مسلسل اللہ تعالیٰ کے نشانات کا انکار کرنے اور انبیاء کی ناحق شدید مخالفت کرنے کے سبب اللہ تعالیٰ نے انہیں آخری وارننگ دینے کے لیے اپنی خاص حکمت کے تحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو حضرت مریم کے بطن سے بن باپ پیدا فرمایا تھا۔ لیکن حضرت مریم اور ان کے خاوند یوسف نجار سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔چنانچہ انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے:کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں؟ اور اِس کی ماں کا نام مریم اور اس کے بھائی یعقوب اور یوسف اور شمعون اور یہوداہ نہیں؟اور کیا اس کی سب بہنیں ہمارے ہاں نہیں؟ (متی باب ۱۳ آیات ۵۶،۵۵) اس آخری زمانہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم و عدل کے طور پر مبعوث ہونے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بہن بھائیوں کے بارے میں فرماتے ہیں:’’یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں یعنی سب یوسف اور مریم کی اولاد تھی چار بھائیوں کے نام یہ ہیں۔ یہودا، یعقوب، شمعون، یوزس اور دو بہنوں کے نام یہ تھے۔آسیا، لیدیا۔ دیکھو کتاب اپاسٹولک ریکارڈس مصنفہ پادری جان ایلن گایلز مطبوعہ لندن ۱۸۸۶ء صفحہ ۱۵۹و ۱۶۶۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۸، حاشیہ) باقی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شادی اور اولاد کے بارے میں دو مختلف آراء ہیں۔ ایک یہ کہ مریم مگدلینی، جن کا اناجیل میں کثرت سے ذکر ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بیوی تھیں اور ان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اولاد بھی تھی۔ لیکن قرآن و حدیث اور اناجیل میں سے آپ کی شادی اور اولاد کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔اگرچہ بعد کے بعض محققین کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب فلسطین سے سرینگر کی طرف ہجرت کی تو یہاں آ کر آپ نے شادی کی اور آپ کی اولاد بھی ہوئی۔ چنانچہ سرینگر کا باشندہ مسمی صاحبزادہ بشارت سلیم خود کو حضرت عیسیٰؑ کی اولاد کہتا ہے اور اس کے پاس آج بھی جو شجرہ موجود ہے اس کا سلسلۂ نسب حضرت عیسیٰ ؑ سے جا ملتا ہے۔(ٹائمز آف انڈیا مورخہ ۶؍نومبر ۱۹۷۷ء) جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ موسوی مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نہ شادی کی اور نہ ہی ان کی کوئی اولاد تھی، اسی لیے آنحضور ﷺ نے جب اپنے بعد مبعوث ہونے والے اپنے روحانی فرزند اور مسیح محمدی کی خبر دی تو اس کے بارے میں یہ بشارت بھی عطا فرمائی کہ فَیَتَزَوَّجُ وَ یُوْلَدُ لَہٗ۔(مشکاۃ المصابیح کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ علیہ السلام) یعنی وہ شادی کرے گا اور اس کی اولاد بھی ہو گی۔ اس حدیث کی ایک یہ تشریح بھی کی گئی ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شادی نہیں کی تھی اور ان کی اولاد نہیں تھی بلکہ اس حدیث میں دراصل آنے والے مسیح محمدی کی غیر معمولی شادی اور اس کی بلند شان والی مبشر اولاد کی خوشخبری دی گئی تھی۔ جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ارجمند حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدالمصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود باجود کی صورت میں پوری ہوئی۔ بہرحال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شادی اور اولاد کے بارے میں دونوں آراء موجود ہیں۔ مزید پڑھیں: بنیادی مسائل کے جوابات(قسط۹۹)