بیان فرمودہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نمازکے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا کرنا حضرت مفتی محمد صادق ؓصاحب تحریر کرتے ہیں : ہندوستان میں عمومًا مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ نماز کے اندر تکبیر اولیٰ کے بعد اور سلام پھیرنے سے قبل سوائے مسنون دعاؤں کے جو عربی زبان میں پڑھی جاتی ہیں اور کوئی دعا اپنی زبان اُردو یا فارسی یا انگریزی وغیرہ میں کرنا جائز نہیں ہے اور عمومًا لوگوں کی عادت ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد پھر ہاتھ اُٹھاکر اپنی زبان میںدُعائیں کرتے ہیں اوراپنے دلی جذبات اورخواہشات کا اظہار کرتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بارہا فرمایا : ’’نماز کے اندر سجدہ یا رکوع کے بعد کھڑے ہوکر یا کسی دوسرے موقعہ پر مسنون دعا کہنے کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگنا جائز ہے کیونکہ اپنی زبان میں ہی انسان اچھی طرح اپنے جذبات اوردِلی جوش کا اظہار کرسکتا ہے۔‘‘کسی نے عرض کی کہ مولوی لوگ تو کہتے ہیں کہ نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ فرمایا’’ اُن کی نماز تو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی ہے کیونکہ وہ سمجھتے نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ دعا خواہ کسی زبان میں کی جائے۔ اِس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ ‘‘ فرمایا:’’ جو لوگ نماز عربی میں جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں۔ اس کے مطلب کو نہیں سمجھتے اور نہ انہیں کچھ ذوق اور شوق پیدا ہوتا ہے اور سلام پھیرنے کے بعد لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اُن کی مثال اُس شخص کی ہے جو بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ اور تخت کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی عرضی پیش کی جو کسی سے لکھوا لی تھی اور بغیر سمجھنے کے طوطے کی طرح اُسے پڑھ کر سلام کرکے چلا آیا اور دربار سے باہر آکر شاہی محل کے باہر کھڑے ہوکر پھر کہنے لگا کہ میری یہ عرض بھی ہے اور وہ عرض بھی ہے۔ اُسے چاہیے تھا کہ عین حضوری کے وقت اپنی تمام عرضیں پیش کرتا۔ ‘‘ فرمایا: ’’ ایسے لوگوں کی مثال جو نماز میں دعا نہیں کرتے اور نماز کے خاتمہ کے بعد لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اُس شخص کی طرح ہے جس نے اکّے کی چوٹی کو اُلٹا کر زمین پر رکھا اور پیّے اُوپر کی طرف ہوگئے اور پھر گھوڑے کو چلایا کہ اُس اِکّے کو کھینچے۔‘‘ (ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 197،198) نماز میں اپنی زبان میں دعاکرنا جائز ہے فرمایا: یہ ضروری با ت نہیں ہے کہ دعائیں عربی زبان میں کی جاویں، چونکہ اصل غرض نماز کی تضرع اورابتہال ہے، اس لئے چاہیے کہ اپنی مادری زبان میں ہی کرے۔ انسان کو اپنی مادری زبان سے ایک خاص اُنس ہوتا ہے اورپھر وہ اس پر قادر ہوتا ہے ۔ دُوسری زبان سے خواہ اس میں کس قدر بھی دخل ہو اور مہارتِ کامل ہو، ایک قسم کی اجنبیّت باقی رہتی ہے۔اس لئے چاہیے کہ اپنی مادری زبان ہی میں دُعائیں مانگے۔ (الحکم 24دسمبر1900ء صفحہ2) ایک اور موقعہ پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا: سب زبانیں خدا نے بنائی ہیں۔ چاہیے کہ اپنی زبان میں جس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ نماز کے اندر دعائیں مانگے، کیونکہ اُس کا اثر دل پر پڑتا ہے تاکہ عاجزی اور خشوع پیدا ہو۔ کلامِ الٰہی کو ضرورعربی میں پڑھواور اس کے معنی یاد رکھو اور دُعا بے شک اپنی زبان میں مانگو۔ جو لوگ نماز کو جلدی جلدی پڑھتے ہیں اور پیچھے لمبی دُعائیں کرتے ہیں وہ حقیقت سے ناآشنا ہیں۔ دعا کا وقت نماز ہے۔ نماز میں بہت دعائیں مانگو۔ (الحکم 24مئی1901ء صفحہ9) نماز میں مسنون دعاؤں کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعا کرو فرمایا : نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا مانگنی چاہیے کیونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے ۔ سورۃ فاتحہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے ۔ وہ اسی طرح عربی زبان میں پڑھنا چاہئے اور قرآن شریف کا حصہ جو اس کے بعد پڑھا جاتا ہے وہ بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا چاہئے۔ اور اس کے بعد مقررہ دعائیں اور تسبیح بھی اسی طرح عربی زبان میں پڑھنی چاہئیں۔لیکن ان سب کا ترجمہ سیکھ لینا چاہئے اور ان کے علاوہ پھر اپنی زبان میں دعائیں مانگنی چاہئیں تاکہ حضور دل پیدا ہو جائے کیونکہ جس نماز میں حضورِ دل نہیں وہ نماز نہیں۔ آج کل لوگوں کی عادت ہے کہ نماز تو ٹھونگی دار پڑھ لیتے ہیں جلدی جلدی نمازکو ادا کر لیتے ہیں جیسا کہ کوئی بیگار ہوتی ہے، پھر پیچھے سے لمبی لمبی دعائیں مانگنا شروع کرتے ہیں۔ یہ بدعت ہے ۔ حدیث شریف میں کسی جگہ اس کا ذکر نہیں آیا کہ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پھر دُعا کی جائے۔ نادان لوگ نماز کو تو ٹیکس جانتے ہیں اور دُعا کو اس سے علیحدہ کرتے ہیں۔ نماز خود دُعا ہے۔ دین و دنیا کی تمام مشکلات کے واسطے اور ہر ایک مصیبت کے وقت انسان کو نماز کے اندر دعائیں مانگنی چاہئیں۔ نماز کے اندر ہر موقع پر دُعا کی جاسکتی ہے۔ رکوع میں بعد تسبیح۔سجدہ میں بعد تسبیح۔ التحیات کے بعد کھڑے ہوکر ۔ رکوع کے بعد بہت دعائیں کرو تاکہ مالا مال ہو جاؤ۔ چاہیے کہ دعا کے وقت آستانہ الوہیت پر رُوح پانی کی طرح بَہہ جائے۔ ایسی دُعا دل کو پاک و صاف کردیتی ہے ۔ یہ دُعا میسر آوے، تو پھر خواہ انسان چارپہر دُعا میں کھڑا رہے گناہوں کی گرفتاری سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دُعائیں مانگنی چاہئیں۔ دعا ایک علاج ہے جس سے گناہ کی زہر دور ہوجاتی ہے۔ بعض نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ غلط خیال ہے ۔ ایسے لوگوں کی نماز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی ہے۔ (ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 202،203) *…ایک اور موقعہ پر سوال ہوا کہ نماز کے بعد دُعا کرنی یہ سُنّتِ اسلام آئی ہے یا نہیں ؟ فرمایا:ہم انکار نہیں کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا مانگی ہوگی مگر ساری نماز دعا ہی ہے اور آج کل دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نماز کو جلدی جلدی ادا کرکے گلے سے اُتارتے ہیں ۔ پھر دُعاؤں میں اس کے بعد اس قدر خشوع و خضوع کرتے ہیں کہ جس کی حد نہیں اور اتنی دیر تک دُعا مانگتے رہتے ہیں کہ مسافر دو مِیل تک نکل جاوے ۔ بعض لوگ اس سے تنگ بھی آجاتے ہیں تو یہ بات معیوب ہے ۔ خشوع خضوع اصل جزو تو نماز کی ہے ۔ وہ اس میں نہیں کیا جاتا اور نہ اس میں دُعا مانگتے ہیں۔ اس طرح سے وہ لوگ نماز کو منسوخ کرتے ہیں۔انسان نماز کے اندر ہی ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی زبان میں دُعا مانگ سکتا ہے ۔ (البدر یکم مئی 1903ء صفحہ114 )