*… آپ نے خود کو دنیا میں امن کے قیام اور محبت کے پیغام کی اشاعت کے لئے وقف کیا ہوا ہے۔*…میرا یہ خواب ہے کہ کاش حضور جاپان منتقل ہو جائیں اور یہاں سے ایک زبردست آواز کی صورت میں دنیا کو امن ومحبت اور مفاہمت کا پیغام عطا فرمائیں۔*… ایک انسان دوسرے انسان کے اس قدر قریب آسکتا ہے اور دوسرے کے جذبات کو اس قدر آسانی سے سمجھ سکتا ہے اس کا اندازہ مجھے ہیومینٹی فرسٹ کی خدمات سے ہوا ۔ (ٹوکیو کے ہلٹن ہوٹل میں منعقدہ استقبالیہ تقریب میں مہمانوں کے ایڈریسز) *…آپ وہ لوگ ہیں جو نیوکلیئر جنگ کی فقیدالمثال تباہی پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اس لئے جاپان سے زیادہ امن اور تحفظ کی اہمیت کوئی اور ملک نہیں سمجھ سکتا۔ پس اپنے ماضی کے تجربہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے جاپان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا میں امن کے قیام کے لئے اپنا کردار اداکرے۔ *…جہاں تک ہمارا یعنی جماعت احمدیہ مسلمہ کا تعلق ہے توجہاں کہیں بھی دنیا میں ظلم ہورہاہو ہم نے ہمیشہ اس ظلم وستم کی علی الاعلان مذمت کی ہے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات یہ تقاضا کرتی ہیں کہ ہم ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ (بگڑتے ہوئے عالمی حالات کا تجزیہ اور قیام امن کے حوالہ سے اسلامی تعلیمات کا مختصر مگر نہایت جامع اور دلنشیں بیان۔ ٹوکیو میں منعقدہ استقبالیہ تقریب میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ کا بصیرت افروز خطاب) مہمانوں کے سوالات کے جوابات۔ جاپان کے قومی اخبار ASAHI کی جرنلسٹ کا حضور انور ایدہ اللہ سے انٹرویو۔ انفرادی و فیملی ملاقاتیں۔ پھولوں کی آرائش کا تحفہ۔ *…مَیں بدھسٹ ہوں لیکن حضور کی باتیں سن کر ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے ہیں۔*…آپ کا خطاب اور جاپانی قوم کو کی جانے والی نصائح غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ *…خلیفۃالمسیح نے جو بھی بیان کیا وہ قرآن کریم کے حوالہ جات کے مطابق بیان کیا اور بتایا کہ یہ اصل اسلام ہے۔ *…خلیفۃالمسیح کے خطاب نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ *…خلیفہ کی لوگوں کے لئے ہمدردی اور پیار قابل ستائش ہے۔ (ٹوکیو میں منعقدہ استقبالیہ تقریب میں شامل مہمانوں کے تأثرات) علم فلکیات کے پی ایچ ڈی کے ایک سٹوڈنٹ کی حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات اور اس کے استفسارات کے جوابات۔ دورۂ جاپان کی پریس اور میڈیا میں کوریج۔ جاپانیوں کی مسجد بیت الاحد میں دلچسپی۔ٹوکیو (جاپان) سے روانگی اور لندن (برطانیہ) میں ورودمسعود۔ ……………………… 23؍نومبر 2015ء بروز سوموار ……………………… حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے پانچ بجے ’’مسجد بیت الاحد‘‘ تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔ صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیںا ور ہدایات سے نوازا۔ ٹوکیو کے ہلٹن ہوٹل میں استقبالیہ تقریب آج اسی ہوٹل Hilton میں ایک تقریب (Reception) کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جاپان میں 1945ء میں ایٹم بم پھینکا گیا تھا۔ اب اس واقعہ کو ستّر سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ ستّر سال گزرنے پر جاپان میں مختلف تقریبات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ آج کی یہ تقریب بھی اسی حوالہ کے ساتھ تھی۔ آج کی اس تقریب میں 63 جاپانی مہمان شامل تھے۔ ان مہمانوں میں Mr. Urano Tatsno (چانسلر Nihon یونیورسٹی)، Mr. Martin Blackway (معروف شاعر اور بزنس ایڈوائزر)، Mr. Sato Royoki (بدھسٹ فرقہ کے چیف پریسٹ اور راہنما)، Mr. Serio Ito (گاڑیاں بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے صدر)، Asahi اخبار کے چیف رپورٹر اور ایک مشہور سیاستدان کی بیٹی Ohara Blackway اور اس کے علاوہ ڈاکٹرز، ٹیچرز، انجینئرز، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ حضور انور کی آمد سے قبل یہ سبھی مہمان اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ ان مہمانوں کے علاوہ مختلف ممالک سے آنے والے بعض جماعتی عہدیداران بھی آج کی اس تقریب میں شامل تھے۔ پروگرام کے مطابق دوپہر بارہ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس تقریب میں شمولیت کے لئے تشریف لائے۔ کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم حافظ امجد عارف صاحب نے کی اور عزیزم سیّد ابراہیم صاحب (طالبعلم درجہ رابعہ جامعہ کینیڈا) نے اس کا جاپانی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔ بعدازاں عزیزم حزقیل احمد (طالبعلم درجہ رابعہ جامعہ کینیڈا) نے جاپانی زبان میں اس تقریب کا تعارف کروایا اور جماعت کا مختصر تعارف بھی پیش کیا۔ اس کے بعد عزیزم نجیب اللہ ایاز نے باری باری گیسٹ سپیکرز کو مدعو کیا کہ وہ آکر اپنا ایڈریس پیش کریں۔ مہمانوں کے ایڈریسز ٭سب سے پہلےTokiboگروپ آف انڈسٹریز کے چیئرمین ڈاکٹر Sata Yasuhiko صاحب نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔ موصوف نے کہا: یہ بات ہمارے لئے بہت خوشی اور اعزاز کا باعث ہے کہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس جو جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا ہیں ہمارے درمیان موجود ہیں ۔آپ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کی 19 اپریل کو وفات کے بعد 22 اپریل 2003ء کو لندن وقت کے مطابق رات 11:40 پر حضرت مسیح موعود ؑ کے پانچویں جانشین منتخب ہوئے۔ اس وقت سے آپ نے خود کو دنیا میں امن کے قیام اور محبت کے پیغام کی اشاعت کے لئے وقف کیا ہوا ہے۔ 2009ء میں مجھے یہ زبردست تحفہ اور اعزاز ملا کہ نہ صرف حضور سے شرف ملاقات حاصل ہوا بلکہ مجھے اور میری بیٹی کو حضور نے کھانے پر مدعو کیا اور ہمارے لئے آپ کی طرف سے کی گئی مہمان نوازی نہایت قابل قدر اور قیمتی یاد ہے۔اس کے بعد مجھے جلسہ سالانہ انگلستان میں شرکت کا موقع ملا اور حاضرین سے مخاطب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ۔ 11مارچ 2011ء کو شمال مشرقی جاپان میں آنے والے زلزلہ اور تسونامی کے بعد Ishinomaki شہر میں ہیومینٹی فرسٹ جاپان کی خدمات نے مجھے ایک مرتبہ پھر جماعت سے وابستہ کر دیا ۔یہاں سے مجھے بھی متاثرین کی خدمت کا موقع ملا اور ہم نے اپنی ایک تنظیم قائم کر کے زلزلہ کے متاثرین کی خدمت شروع کی ۔ موصوف نے کہا: حضور کا ایک خاص کارنامہ بین المذاہب مکالمہ کا فروغ ہے۔ مذاہب کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لئے حضور انورکے مشن کو خاکسار خاص قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ گزشتہ دنوں اپنے دورہ کے آغاز پر حضورانور نے پہلی مرتبہ جاپان کی میجی شرائن کا دورہ فرمایااور شنٹو پریسٹ میازاکی صاحب نے حضور انور کا استقبال کیا۔ مسلمانوں کے خلیفہ اور ایک بہت بڑے لیڈر کے طور پر حضورانور کے مفاہمانہ طرز عمل نے ہم سب کو بہت متاثرکیا ہے۔خصوصًا پیرس کے متاثرین کے لئے آپ کی طرف سے جذبہ خیر سگالی کا اظہار غیر معمولی ہے ۔ جاپان دنیا کا پر امن اور منفرد حیثیت کا حامل ملک ہے جو مذہبی تنازعات سے بکلی پاک ہے۔ مجھے یقین ہے 20نومبر کو مسجد بیت الاحد کے افتتاح سے جماعت احمدیہ کے محبت وآشتی کے پیغام کو جاپان میں پھیلانے کے لئے ایک مہمیز عطا ہوگی۔ میرا یہ خواب ہے کہ کاش حضور جاپان منتقل ہو جائیں اور یہاں سے ایک زبردست آواز کی صورت میں دنیا کو امن ومحبت اور مفاہمت کا پیغام عطا فرمائیں۔ اب آخر میں حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کے ساتھ یہ عرض کر نا چاہتا ہے کہ خاکسار اپنے گھر کے باغیچہ سے فرانس کے علاقہ Burgundy سے درآمد شدہ ایک پودا لایا ہے ۔ یہ درخت Taneulsaumکہلاتا ہے ۔ خاکسار کی خواہش ہے کہ حضورانور اسreception میں اپنے دست مبارک سے گملہ میں پودا نصب فرمائیں اور بعد میں یہ پودامسجد بیت الاحد میں محبت وآشتی کے درخت کے طور پر لگاد یا جائے۔ اس کے بعد ڈاکٹر ساتا صاحب کی درخواست پر حضور انور نے ایک خوبصورت گملہ میں رکھے ہوئے پودے میں کھاد ڈالی اور بعد ازاں اسے مسجد بیت الاحد میں نصب فرمانے کی منظوری عطا فرمائی۔ ٭اس کے بعد ایک دوست Endo Shinichi صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوف تسونامی سے متاثرہ Tohoko کے علاقہ سے صرف اور صرف حضورانور کا شکریہ اداکرنے کے لئے آئے تھے۔ موصوف نے اپنے ایڈریس میں کہا: جماعت احمدیہ کے سربراہ کی جاپان آمد پر خاکسار تہہ دل سے مشکور ہے اور آپ کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمد ید کہتا ہے ۔خاکسار زلزلہ اور تسونامی سے متاثرہ علاقہ Ishinomakiسے حاضر ہوا ہے ۔ اور یہ بیان کر نا چاہتا ہے کہ جب زلزلہ اور تسونامی کے بعد میرے تین بچے ہلاک ہو گئے تو ان دردناک کیفیات کو میرے علاوہ کوئی نہیں محسوس کر سکتا ۔ مجھے زندگی بے مقصد معلوم ہوتی تھی۔ لیکن اس وقت جماعت احمدیہ کے والنٹئیرز میرے پاس آئے اور انہوں نے جس طرح ہمیں سنبھالا اور جس انداز سے ہماری دلجوئی کی اس سے ہمیں زندہ رہنے کاحوصلہ نصیب ہوا۔ایک انسان دوسرے انسان کے اس قدر قریب آسکتا ہے اور دوسرے کے جذبات کو اس قدر آسانی سے سمجھ سکتا ہے اس کا اندازہ مجھے ہیومنٹی فرسٹ کی خدمات سے ہوا ۔ اس کرۂ ارض پر بہت سارے مسائل انسانوں کے پیدا کردہ ہیں ۔ لیکن انسان ہی ہیں جو امن ومحبت کے درس کے ذریعہ اسے سنوار بھی سکتے ہیں ۔ اگر انسان خود غرضی اور لالچ کو چھوڑدیں اور دوسروں کی خاطر قربانی کرنا سیکھ لیں تو یہ دنیا امن ومحبت کا گہوارہ بن سکتی ہے ۔ ایک بار پھر حضور انور کی یہاں آمد اور خاکسار کو مدعو کرنے کا بہت شکریہ ادا کرتاہوں۔ بعدازاں بارہ بجکر 25منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔ ………………………… خطاب حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ تمام معزز مہمانانِ کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ آپ سب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی،رحمت اور برکتیں نازل ہوں۔ سب سے پہلے میں اس موقع پراپنے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکرنا چاہتاہوںجنہوں نے آج ہماری اس تقریب کی دعوت قبول کی۔ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہم ایک نہایت نازک اورخطرناک دور سے گزر رہے ہیں جبکہ دنیا کے حالات تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ انتشار اور فساد نے دنیا کواپنی لپیٹ میں لیا ہواہے جوکہ دنیا کی امن و سلامتی کے لئے سخت خطرہ کا باعث ہے۔اگر مسلمان دنیاکی طرف نظردوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی حکومتیں اپنے ہی لوگوں کے خلاف بھیانک جنگوں میں مبتلاہیں اوریہ خون ریزی اور بے معنی فساد ہرطرح سے ان قوموں کی ساکھ تباہ کررہاہے۔ اور دہشتگرد اس فساد کے نتیجہ میں حکومتوں میں پیدا ہونے والے خلا کا بھرپور فائدہ اُٹھارہے ہیں اور بعض علاقوں پر قبضے کررہے ہیں اور وہاں اپنی نام نہاد حکومت اور قانون نافذ کررہے ہیں۔ یہ لوگ وحشیانہ رنگ میں کام کررہے ہیں اورایسے سفاکانہ مظالم ڈھارہے ہیں جن کا انداز بھی نہیں کیاجاسکتا۔یہ لوگ صرف اپنے ممالک میں ہی نہیں بلکہ اب یورپ بھی پہنچ گئے ہیں اور ان مظالم کی حالیہ مثال پیرس میں ہونے والے حملے ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پھر مشرقی یورپ میں روس ، یوکرائن اور دیگر یورپین ممالک کے مابین دشمنی کی آگ بھڑکتی چلی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں امریکہ کے جنگی بیڑا کی جنوبی چین کے سمندر میں دخل اندازی کی وجہ سے امریکہ اور چین کے درمیان موجودتناؤ میں بھی اضافہ ہواہے۔پھر جیساکہ آپ کے علم میں ہے کہ بعض متنازعہ جزیروں پر جاپان اور چین کے مابین بھی عرصہ دراز سے اختلاف چلاآرہاہے۔ پھرپاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر بھی ایک مستقل دشمنی کی وجہ بناہواہے اور اس دشمنی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ اسی طرح اسرائیل اورفلسطین کے درمیان کشیدگی نے بھی اس علاقہ کا امن تباہ کردیا ہے۔ افریقہ میں بھی دہشت گرد گروپ بعض علاقوں میں طاقت اور اقتدار پکڑ گئے ہیںاور بڑے پیمانہ پر تباہی وبربادی کا باعث بن رہے ہیں۔ میں نے صرف چند ایک مسائل کا ذکرکیاہے جن کا دنیا کو اس وقت سامنا ہے اور درحقیقت اس بدامنی اور فسادکی کئی اور مثالیں بھی ہیں۔ تو اس سے صرف یہی نتیجہ نکلتاہے کہ دنیا اس وقت فساد اور تباہی میں گھری ہوئی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا؛ موجودہ دور میں جنگ کا دائرہ کار گزشتہ ادوارکی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ دنیا کے کسی ایک حصہ کے تنازعات صرف اس علاقہ تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ ان کے نتائج اور اثرات بہت دور تک پھیل جاتے ہیں۔وسیع تر ذرائع ابلاغ نے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل کردیا ہے۔ پہلے تویہ ممکن تھا کہ جنگ صرف اُن لوگوں تک محدود رہے جو براہِ راست اس میں شامل ہیں۔ لیکن اب ہرجنگ اور ہر تنازعہ کے اثرات بلاشک و شبہ ساری دنیا پر پڑتے ہیں۔ درحقیقت میں تو کئی سالوں سے خبردار کررہاہوں کہ دنیا کو اس بات کا احساس ہوناچاہئے کہ ایک خطے میں ہونے والی جنگ کے اثرات دیگر خطوں میں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں بلکہ ظاہر ہوں گے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر ہم بیسویں صدی میں ہونے والی گزشتہ دونوں عالمی جنگوں کی تاریخ دیکھیں تو ہم سب جانتے ہیں کہ اُس وقت کے ہتھیاراپنی جدّت اور تباہ کاری میں آج کل کے مہلک اور جدید ہتھیاروں کے مقابلہ پر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے ۔ لیکن اس کے باوجود کہاجاتاہے کہ صرف دوسری جنگِ عظیم میں ہی تقریباً ستر ملین کے قریب لوگ مارے گئے تھے اوراِن ہلاک ہونے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اس لئے اب آئندہ ہونے والی ممکنہ تباہی و بربادی ناقابلِ تصور ہوگی۔ دوسری جنگِ عظیم کے وقت صرف امریکہ کے پاس جوہری ہتھیارتھے۔ گوکہ وہ بھی بہت زیادہ مہلک تھے لیکن موجودہ دور کے خطرناک جوہری ہتھیاروں کے مقابل پر کچھ بھی نہیں تھے۔مزید یہ کہ اب صرف بڑی طاقتوں کے پاس نیوکلیئر بم نہیں ہیں بلکہ بہت سے چھوٹے ملکوں کے پاس بھی ہیں۔ جہاں بڑی طاقتیں شاید یہ ہتھیار بطور دفاع کے رکھے ہوئے ہیں وہاں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ چھوٹے ملک ان ہتھیاروں کو روک کررکھیں گے۔ ہم اس بات کو معمولی خیال نہیں کرسکتے کہ وہ کبھی بھی نیوکلیئر ہتھیار استعمال نہیں کریں گے۔ پس اس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ دنیا اس وقت تباہی کے دہانے پر ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر آپ کی قوم کو ایک اذیّت ناک اور بھیانک تباہی سے دو چارہونا پڑاجب لاکھوں شہری نہایت سفّاکی کے ساتھ ماردیئے گئے اور آپ کے دوشہر ایٹمی حملہ کے نتیجہ میں مکمل طور پر تباہ ہوگئے جس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکادیا۔ اس المناک سانحہ کو دیکھ کر جاپانی لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہاں جاپان میں یادنیا میں کہیں بھی اس قسم کا حملہ دوبارہ ہو۔ آپ وہ لوگ ہیں جو نیوکلیئر ہتھیاروں کے بھیانک اور تباہ کن نتائج کو صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں۔ آپ وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ ان ہتھیاروں کے نتائج اور اثرات ایک نسل تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ان کا اثر آنے والی نسلوں میں بھی جاری رہتا ہے۔ آپ وہ لوگ ہیں جو نیوکلیئر جنگ کی فقیدالمثال تباہی پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اس لئے جاپان سے زیادہ امن اور تحفظ کی اہمیت کوئی اور ملک نہیں سمجھ سکتا۔ شکرہے کہ جاپان نے اپنے آپ کو سنبھال لیااور اب بہت ترقی حاصل کرچکاہے۔پس اپنے ماضی کے تجربہ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جاپان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا میں امن کے قیام کے لئے اپنا کردار اداکرے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بڑے افسوس کی بات ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان پر بعض پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔اس لئے جاپانی قوم کے لئے شاید مشکل ہو کہ وہ کوئی بڑا قدم اُٹھاپائیں یا دنیا کے حالات کو نئی شکل دے سکیں مگر پھر بھی آپ کا ملک عالمی اورسیاسی معاملات میں ایک اہم کردار اداکرتاہے۔پس آپ لوگوں کو اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنا چاہئے اور ملکوں اور قوموں کے مابین قیام امن کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ امسال تاریخ کے اس اندھیرے باب کو ستّر برس ہوگئے ہیں جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے جو آپ کی قوم کے لئے آفت، بدحالی اور ایک بڑی تباہی کا باعث بنے۔اسی وجہ سے آپ نے ایسے میوزیم بنائے ہوئے ہیں جو اُس تباہی اور کشت و خون کی حقیقی تصویرکشی کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان ایٹمی بموں کے بعض اثرات آج بھی چل رہے ہیں۔ جاپانی لوگ آج بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جنگ و جدل کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیساکہ میں نے پہلے بھی ذکرکیاہے کہ جس سانحہ سے آپ لوگ گزرے ہیں اس کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ جنگِ عظیم کے بعد جاپان پر نہایت ظالمانہ اور غیر ضروری پابندیاںعائد کی گئیں اور جنگ کی کئی دہائیوں بعد بھی یہ پابندیاں جنگ کے بھیانک نتائج کی مسلسل یاد دلاتی ہوں گی۔ جب جاپان کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کئے گئے تو جماعت احمدیہ مسلمہ کے اُس وقت کے سربراہ جوہمارے دوسرے خلیفہ تھے نے ان حملوں کی شدید مذمت کی ۔ انہوں نے فرمایاکہ ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کردیں کہ ہم اس قسم کی خون ریزی کو جائزنہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان بُرا لگے یا اچھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایاکہ ’ان باتوں کے نتیجہ میں مجھے نظر آرہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں جنگیں کم نہیں ہوں گی‘ ۔ اور آج ان کے یہ انذاری الفاظ بالکل سچ ثابت ہورہے ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گو کہ تیسری جنگِ عظیم کا باقاعدہ اعلان تو نہیں ہوا مگردر حقیقت عالمی جنگ تو شروع ہوچکی ہے۔دنیا بھر میں مرد، عورتوں اور بچوں کو ماراجارہاہے، ان پرتشدد کیا جارہا ہے اوران کو انتہائی اذیّتناک اور دل شکستہ مظالم کا نشانہ بنایاجارہاہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جہاں تک ہمارا یعنی جماعت احمدیہ مسلمہ کا تعلق ہے توجہاں کہیں بھی دنیا میں ظلم ہورہاہو ہم نے ہمیشہ اس ظلم وستم کی علی الاعلان مذمت کی ہے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات یہ تقاضا کرتی ہیں کہ ہم ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھائیں اور ان ضرورتمندوںکی جن پر ظلم کیاجارہاہے مدد کریں۔ میں پہلے بھی یہ ذکرکرچکاہوں کہ کس طرح جماعت احمدیہ مسلمہ کے سربراہ نے دوسری جنگِ عظیم کے وقت جاپان کے خلاف ایٹم بموں کے استعمال کی مذمت کی تھی ۔ اس کے علاوہ ایک بہت ہی معروف اورممتاز احمد ی مسلمان جن کا دنیا میں ایک مقام اور اثر و رسوخ تھاانہوں نے بھی جاپان اور اس کے لوگوں کا دفاع کیا۔میری مراد سَر چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب ہیں جو کہ عالمی سطح پر دیگر اعلیٰ عہدے رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ بھی تھے اور بعد میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر بھی بنے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد انہوں نے بعض بڑی طاقتوں کی مذمت کرتے ہوئے آواز اٹھائی کہ انہوں نے جاپان پر ناجائز پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔1951ء میں ہونے والی امن کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب نے پاکستانی وفد کے سربراہ کے طور پر کہاکہ جاپان کے ساتھ امن کا معاہدہ کسی انتقام یا ظلم کی بنیاد پر نہیں بلکہ انصاف اورمفاہمت کی بنیاد پر ہوناچاہئے۔ ’جاپان کے سیاسی و سماجی ڈھانچہ میں اصلاحات کا جو عمل شروع ہواہے وہ جاپان کے لئے روشن مستقبل کی امید لئے ہوئے ہے اور جس کی وجہ سے جاپان کا شماردنیاکی دیگر امن پسند قوموں کے ساتھ ہوگا اور آنے والے دور میں جاپان ایک اہم کردار اداکرے گا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ان کے اس خطاب کی بنیاد قرآن کریم کی تعلیمات اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ پر تھی۔ حقیقی اسلامی تعلیمات کو بنیاد بناتے ہوئے انہوں نے کہا: کسی بھی جنگ کے فاتح کو ناانصافی کا سہارا نہیں لینا چاہئے اور مفتوح قوم پرہرگز غیر ضروری پابندیاں عائد نہیں کرنی چاہئیں جو ان کے مستقبل اور ترقی کو محدود کردیں۔چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے یہ تاریخی بیان جاپان کے دفاع میں دیا کیونکہ بطور ایک احمدی مسلمان وہ صرف پاکستانی حکومت کی نمائندگی نہیں کررہے تھے بلکہ سب سے پہلے وہ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کی نمائندگی کررہے تھے۔ پس جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکاہوں کہ آپ ہی وہ لوگ ہیں جو دوسروں کی نسبت بہتر طور پر جنگ اور ظلم وستم کے اثرات کو سمجھتے ہیں۔اس لئے جاپانی حکومت کوہر سطح پر اور ہر ممکن طریق سے ظلم،بربریت اور ناانصافی کا مقابلہ کرنے اورروکنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ جس بہیمانہ حملہ کاسامناانہوں نے کیا آئندہ اس کا دنیاکے کسی بھی حصہ میں ہرگز اعادہ نہ ہو۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جب بھی جنگ کے شعلے بھڑکتے ہیں تو جاپانی قوم کو اور جاپانی حکمرانوں کو کشیدگیاں کم کرنے اورامن کے قیام کے لئے اپنا کردار اداکرنا چاہئے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اسلام کو بربریت اور شدت پسندی کا مذہب سمجھتے ہیں ۔ وہ اپنے ان نظریات کی تائید میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ مسلم دنیا اس وقت دہشت گردی اور فتنہ و فساد سے بھری پڑی ہے۔ تاہم ان کے نظریات سراسر غلط ہیں ۔در حقیقت تاریخِ عالم میں امن کے بارہ میں اسلامی تعلیمات کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔یہی وجہ تھی کہ ہمارے دوسرے خلیفہ رضی اللہ عنہ اور چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے پُرزور طریق پرآپ کی قوم پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اب میں مختصراً بیان کروں گا کہ قیامِ امن کے حوالہ سے اصل اسلامی تعلیمات کیاہیں۔ اسلام نے ایک بنیادی اصول بیان کیاہے کہ ایسی جنگ جو اقتصادی یا جغرافیائی اقتدارکے حصول کے لئے یا دوسری قوموں کے قدرتی ذخائر پر قبضہ کرنے کے لئے لڑی جائے اسے ہرگز جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مزیدیہ کہ قرآن کریم کی سورۃ النحل کی آیت 127 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ جنگ کی حالت میں جو بھی سزا دینی ہو وہ جرم کے مطابق ہونی چاہئے اور جائز حدوں سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ قرآن کریم کہتاہے کہ جب جنگ ختم ہوجائے تو بہتر ہے کہ تم معاف کردو اور صبر کا مظاہرہ کرو۔ اسی طرح قرآن کریم کی سورۃ الانفال کی آیت 62 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب فریقین کے مابین تعلقات بگڑجائیں اورجنگ کی تیاری شروع ہوجائے تواگر ایک فریق صلح کی طرح ڈالے تودوسرے فریق پر فرض ہے کہ وہ اس کو قبول کرے اور اللہ تعالیٰ پر توکل رکھے۔ قرآن کریم فرماتاہے کہ کسی کو مخالف فریق کی نیت اوراخلاص پرشک نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ ہمیشہ پُرامن حل کی طرف قدم اٹھانا چاہئے۔ قرآن کریم کی یہ تعلیم عالمی امن و تحفظ کے قیام کے لئے ایک بنیادی اصول ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ المائدہ کی آیت 9 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کی کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل و انصاف کے اصول ہی قربان کردو۔ بلکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں ہر حال میں انصاف اور راستبازی کے اصول پر مضبوطی سے قائم رہو۔ درحقیقت یہ انصاف ہی ہے جو تعلقات کو بہتربنانے، بے چینیوں کو ختم کرنے اور جنگ کی وجوہات کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے ۔ قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت 34 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر جنگ میں کامیابی کے بعدتم جنگی قیدیوں کے ساتھ مکاتبت کرتے ہو تو ضروری ہے کہ اس کی شرائط مناسب ہوں تاکہ وہ ان پر آسانی کے ساتھ عمل کرسکیں اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ تم انہیں قسطوں میں ادائیگی کرنے کی اجازت دے دو۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: امن کے قیام کے لئے قرآن کریم کی سورۃ الحجرات کی آیت 10 میں ایک اور سنہری اصول بیان کیاگیاہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگر دو قوموں یا فریقین کے مابین کوئی تنازعہ ہے توتیسرے فریق کو چاہئے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے پرامن تصفیہ کروائے اور تصفیہ ہوجانے کی صورت میں اگر ایک فریق طے شدہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو دوسری قوموں کو متحدہوکرظالم کے ہاتھ روکنے چاہئیں اور اگر ضرورت پڑے تو طاقت کا استعمال بھی کرنا چاہئے۔ مگر جب تجاوز کرنے والا فریق پیچھے ہٹ جائے تو ان پر غیر ضروری پابندیاں نہیں عائد کرنی چاہئیں بلکہ ان کو ایک آزاد قوم اور معاشرے کے طور آگے بڑھنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ یہ اصول عصرِ حاضرمیں بالخصوص بڑی طاقتوں اوراقوامِ متحدہ جیسی عالمی تنظیموں کے لئے بے انتہا اہمیت کا حامل ہے ۔ اگر یہ ان اقدار پر عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا میں حقیقی امن اورانصاف کا قیام ہوجائے گا اوربیکار مایوسیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے قرآنی احکامات ہیں جو بتاتے ہیں کہ کس طرح دنیا میں امن قائم کیاجاسکتاہے اور کس طرح ہر قسم کی جنگ کا خاتمہ کیاجاسکتاہے۔ ہمارے رحمان اور رحیم خدانے ہمیں امن کے لئے یہ اصول اسی لئے بتائے ہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق ہرقسم کے فتنہ و فساد سے آزاد ہوکر امن اور ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کررہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس ان الفاظ کے ساتھ میں آپ سب سے درخواست کرتاہوں کہ دنیا میں امن اور ہم آہنگی کے فروغ کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں ۔دنیا میں جہاں کہیں بھی انتشار یا تصادم ہو وہاں ہم سب کا اجتماعی فریضہ ہے کہ ہم انصاف کے لئے کھڑے ہوں اور امن کے لئے کوشش کریں تاکہ ہم سب اس ہیبت ناک جنگ سے محفوظ رہ سکیں جو سترسال پہلے ہوئی تھی اور جس کے تباہ کن اثرات کئی دہائیوں تک رہے اور شاید آج بھی جاری ہیں۔جیساکہ ایک چھوٹے پیمانہ پر تیسری عالمی جنگ کا آغازپہلے ہی ہوچکا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے فرائض ادا کریں۔ قبل اس سے کہ حالات میں مزید کشیدگی پیدا ہواور ساری دنیا کا احاطہ کرلے اور قبل اس سے کہ گھناؤنے اور مہلک ہتھیار دوبارہ چلیں جن سے ہماری آنے والی نسلیں بھی تباہ ہوجائیں گی ہمیں امن کے قیام کے لئے کوشش کرنی ہوگی۔ پس آئیں اور مل کر اپنا فریضہ اداکریں۔ گروپ بندیاں اور بلاک بنانے کی بجائے ہم سب کو یکجا ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچاکیونکہ اگر بڑے پیمانہ پر تیسری عالمی جنگ شروع ہوگئی تو اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تباہی اور بربادی ہمارے وہم و گمان سے بھی بالا ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہم یہ کہیں گے کہ ماضی میں ہونے والی جنگیں اس کی نسبت بہت چھوٹی تھیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میر ی دعاہے کہ قبل اس سے کہ بہت دیر ہوجائے، دنیا کو اس صورتحال کی نزاکت کا احساس ہواور انسان اپنے خدا کے حضور جھکے اور اس کے حقوق اداکرے اور ایک دوسرے کے حقوق اداکرے۔اللہ تعالیٰ ان سب کو حکمت و دانائی عطا فرمائے جو مذہب کے نام پر جنگ کررہے ہیں یا جو لوگ جغرافیائی حدود پر قبضہ کرنے کے لئے اور اقتصادی فائدے حاصل کرنے کے لئے جنگیں کررہے ہیں۔اللہ کرے کہ انہیں احساس ہو کہ ان کی جستجو کس قدر احمقانہ اور تباہ کن ہے۔ اللہ کرے کہ دنیا کے ہر خطہ میں حقیقی اوردیرپا امن قائم ہوجائے۔آمین۔ان الفاظ کے ساتھ میں ایک مرتبہ پھر آپ سب کا آج کی تقریب میں شامل ہونے پر شکریہ اداکرناچاہوں گا۔ آپ سب کا شکریہ۔ ……………………… حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب بارہ بج کر 50 منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔ ……………………… مہمانوں کی طرف سے سوالوں کے جوابات اس کے بعد، بعض مہمان حضرات نے سوالات کئے۔ ایک مہمان نے سوال کیا کہ ہم جو ہیومینٹی فرسٹ کے تحت خدمات کررہے ہیں کیا یہ کسی خاص وجہ سے ہیں یا اسلام کی تعلیم کی وجہ سے ہیں؟ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ سب خدمات اسلام کی تعلیم کی وجہ سے ہیں۔ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ انسانیت کی خدمت کرو، ضرورتمندوں کی مدد کرو اور تکلیف میں دوسروں کے کام آؤ۔ ہم تو ساری دنیا میں انسانیت کی خدمت کررہے ہیں اور اُس وقت تک یہ خدمت کے کام کرتے رہیں گے جب تک ان خدمات کی ضرورت ہے۔ ٭ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ بت پرستی تو منع ہے لیکن جو مذہبی عمارتیں ہیں اور مذاہب کی تاریخی جگہیں ہیں ان کو گرانا، تباہ کرنا غلط ہے۔ اگر کوئی مذہب اپنی روایات کے مطابق عبادت کر رہا ہے تو اس کی جگہوں کو تباہ کرنا ہرگز جائز نہیں۔ یہ غلط ہے۔ اگر جائز ہوتا تو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں یہ تباہ کی جاتیں لیکن اسلام میں کبھی ایسا نہ ہوا بلکہ ان مقامات کی حفاظت کی گئی۔ ٭ایک طالبعلم نے عرض کیا کہ ہمیں سکول میں یہ سکھایا گیا ہے کہ بدھ ازم کی تعلیم امن کی تعلیم ہے۔ اب حضورانور کا خطاب سن کر مجھے پتہ چلا ہے کہ اسلام کی تعلیم بھی امن کی تعلیم ہے۔ بدھ ازم کسی مذہب کو بُرا نہیں کہتا تو کیا اسلام بھی کسی مذہب کو بُرا نہیں کہتا؟ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اسلام کہتا ہے کہ ہر قوم میں ہر علاقے میں خداتعالیٰ کے انبیاء آئے اور ہر نبی خدا سے ملانے اور اپنے ربّ کو پہچاننے اور محبت اور امن و سلامتی کی تعلیم لے کر آیا۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر مذہب خدا کی طرف سے ہے۔قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم اُس سے عدل نہ کرسکو۔ عدل کرو۔ انصاف کرو۔ یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔پھر قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ تم دوسروں کے بتوں کو بُرا نہ کہو ورنہ وہ تمہارے خدا کے بارہ میں باتیں کریں گے اور تمہارے خدا کو بُرا کہیں گے تو اس طرح دنیا کا امن خراب ہوگا۔ حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم میں ایسی بہت سی آیات ہیں جن میں امن و سلامتی کی تعلیم دی گئی ہے۔ ایک دوسرے کے احترام، بھائی چارہ اور رواداری کی تعلیم دی گئی ہے۔ حضرت بدھ علیہ السلام خدا کی طرف سے نبی آئے تھے۔ ہماری تعلیم کے مطابق وہ خدا کے ایک نبی تھے۔ …………………… اس کے بعد پروگرام کے مطابق مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔ تمام مہمانوں نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیّت میں کھانا کھایا۔ کھانے کے بعدمہمانوں نے باری باری حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف مصافحہ حاصل کیا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت ہر ایک سے گفتگو بھی فرمائی۔ ہر ایک نے درخواست کرکے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف بھی پایا۔ ہر آنے والا مہمان حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت وجود سے فیضیاب ہوا اور ہر ایک حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شخصیت اور حضور انور کے خطاب سے انتہائی متأثر ہوا۔ ………………………… جاپان کے قومی اخبار ASAHI کی جرنلسٹ کا حضورانور ایدہ اللہ سے انٹرویو بعد ازاں دو بج کر دس منٹ پر جاپان کے ایک قومی اخبار ASAHI کے جرنلسٹ نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انٹرویولیا۔ اس اخبار کی اشاعت اسّی لاکھ سے زائد ہے۔ جرنلسٹ نے عرض کیا کہ حضور انور کی تقریر کا شکریہ۔ حضور انور کے خطاب سے ہمیں بہت سے اہم پیغامات ملے ہیں۔ ٭بعد ازاں جرنلسٹ خاتون نے سوال کیا کہ احمدیہ آرگنائزیشن کی دنیا میں بہت سی برانچیں ہیں۔ جاپانی برانچ کی کیا پوزیشن ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ یہاں جاپان میں ہماری کمیونٹی چھوٹی ہے۔ جہاں تک تعداد کا تعلق ہے تو دو صد سے زائد نہیں ہے۔ افریقہ میں ہم ملینز میں ہیں۔ غانا میں بہت بڑی تعداد ہے۔ اسی طرح فرانکوفون ممالک میں جماعت کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہ سوال نہیں کہ ہم کم ہیں یا زیادہ، اصل میں کوالٹی ہے اور یہ بہتر ہونی چاہئے۔ جو احمدیہ کمیونٹی کے ممبرز ہیں، ان کو ہر لحاظ سے فعّال ممبر ہونا چاہئے۔ اسلام کی سچّی تعلیمات پر عمل کرنے والا ہونا چاہئے۔ خداتعالیٰ سے تعلق ہو اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے والا ہو۔ ہر احمدی کی یہ دو خصوصیات ہونی ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا خدا سے تعلق قائم ہو اور دوسری یہ کہ وہ انسانیت کی خدمت کرنے والا ہو اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے والا ہو۔ ٭جرنلسٹ نے سوال کیا: دنیا میں Radicalization میں اضافہ ہورہا ہے۔ انتہاپسند لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کیا ان لوگوں سے کوئی بات کی جاسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ایسے لوگ ہم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔ ہم جس طرح اسلام کی سچّی تعلیمات پھیلارہے ہیں وہ ان کے عقیدہ کے مطابق نہیں ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں جب اسلام کا صرف نام رہ جائے گا اور مسلمان اسلامی تعلیمات کو بھلادیں گے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی ہدایت کے لئے مسیح موعودؑ اور امام مہدیؑ کو مبعوث فرمائے گا۔ تو ہمارے عقیدہ کے مطابق مسیح موعود اور امام مہدیؑ آچکے ہیں اور یہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جس نے آنا تھا وہ آچکا ہے جبکہ ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ ابھی نہیں آیا۔ پس یہ ہمارے اور اُن کے درمیان فرق ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اس زمانے میں تلوار کا جہاد نہیں ہے۔ اصل جہاد اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنا اور تبلیغ کا جہاد ہے، اشاعت اسلام کا جہاد ہے۔ جبکہ دوسرے اس بات کے قائل نہیں ۔ اس لئے وہ ہمارے ساتھ کسی پلیٹ فارم پر بات نہیں کرتے۔ ٭جرنلسٹ نے سوال کیا کہ اسلام میں دوسرے لیڈران کے ساتھ بات چیت کرنے کے چانسز کیا ہیں؟ اس سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ہم بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر آپ پلیٹ فارم مہیا کریں تو ہم تیار ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ جاپان میں جو بہت سے مسلمان ہیں وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق دہشتگردی کو condemn کرتے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ ساری دنیا میں ہر سال لاکھوں لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ صرف اِس سال ہی ساری دنیا میں پانچ لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد لوگوں نے ہم کو join کیا ہے۔ ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ٭جرنلسٹ نے سوال کیا کہ پیرس (فرانس) کے واقعہ کا یہاں جاپان میں بھی بہت اثر ہوا ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ براہ راست اس صورتحال سے متأثر نہیں ہیں۔ یہاں کی صورتحال مختلف ہے لیکن ایک انسان ہونے کے ناطے آپ کے بھی جذبات وہی ہیں جو اس واقعہ سے متأثر ہونے والوں کے ہیں۔ اور اس واقعہ کو condemn کرتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ یورپ میں حالات مختلف ہیں۔ یورپین لوگ اب مسلمانوں سے خوف کھاتے ہیں۔ مسلمان یورپ میں پرابلم کا سامنا کررہے ہیں اور یہ اُن چند دہشتگرد لوگوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے اسلام کو بدنام کیا ہوا ہے۔ ہم اس واقعہ کو condemn کرتے ہیں اور اس کا اسلام کی پُرامن تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سراسر اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ ٭ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ یورپ میں ہم احمدیوں کو پرابلم کا سامنا نہیں ہے۔ ابھی دو روز قبل برٹش پارلیمنٹ میں ایک ممبر پارلیمنٹ Margaret Ferrier ہمارے حق میں بولی ہیں کہ احمدی لوگ نہ صرف اس ملک میں معاشرہ کا اہم حصہ ہیں بلکہ ہر سال برٹش چیرٹی کے لئے ہزاروں پاؤنڈ اکٹھے کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے پیرس میں ہونے والے دردناک حملوں کی مذمّت کی ہے۔ حقیقی اسلام امن کا مذہب ہے اور احمدی مسلمان اپنی روزمرّہ زندگیوں میں اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور ان کا یقین ہے کہ ہر معاملہ کا پُرامن حل نکالنا چاہئے۔ لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ بعض دیگر مسلمان اسلام کی غلط تصویر پیش کررہے ہیں۔ احمدی مسلمان پیار، محبت، برابری اور ملک کے ساتھ وفاداری اور امن کا پرچار کرتے ہیں۔ ان کا ماٹو ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اس برٹش ممبر پارلیمنٹ کے بیان کے بعد ہوم سیکرٹری Theressa May نے اُس کے بیان کی تائید کی اور کہا کہ مارگریٹ صاحبہ نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ احمدی لوگ معاشرے کے لئے بہت اچھا نمونہ ہیں۔ یہ لوگ جن اقدار کو پیش کرتے ہیں اس پر خود عمل بھی کرتے ہیں اور ان کو اپنے معاشرہ کا حصہ بناتے ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جو لوگ ہمیں جانتے ہیں وہ ہمارے بارہ میں اچھے خیالات رکھتے ہیں۔ صرف مسلمان ہی ہمارے خلاف ہیں کیونکہ ہم اُس قسم کے جہاد کے قائل نہیں ہیں جس کے یہ لوگ قائل ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ جاپان میں بھی وہ مسلمان جو پاکستان سے آتے ہیں یا دوسرے ممالک سے آتے ہیں وہ ہمارے خلاف ہیں۔ اگر ان کو یہاں کوئی موقع ملے گا تو وہ ہماری مخالفت ہی کریں گے۔ ٭جرنلسٹ نے آخری سوال یہ کیا کہ اس دورہ پر آپ کا جاپانیوں کے لئے کیا پیغام ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ یہی پیغام ہے کہ دنیا میں امن و سلامتی کے لئے کوشش کریں۔ دنیا جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جاپانی قوم اس صورتحال کو صحیح طرح Realize کرسکتی ہے۔ جاپانی عوام اور حکومت کوشش کرے کہ دنیا میں امن قائم رہے اور تیسری جنگ عظیم کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ انٹرویو کا یہ پروگرام دو بجکر 25 منٹ تک جاری رہا۔ ……………………… بعد ازاں دو بج کر 50 منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ اپنے رہائشی اپارٹمنٹ میں تشریف لے گئے۔ ……………………… انفرادی و فیملی ملاقاتیں پروگرام کے مطابق شام چھ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تشریف لائے اور فیملی ملاقاتوں کا پروگرام شروع ہوا۔ فیملی ملاقاتوں کا انتظام ہوٹل کے ہی ایک حصہ میں کیا گیا تھا۔ آج ٹوکیو جماعت کی 31 فیملیز اور احباب نے انفرادی طور پر اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ مجموعی طور پر 89افراد نے شرف ملاقات پایا۔ ان سبھی احباب اور فیملیز نے اپنے آقا کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔ ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بج کر 40 منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی اپارٹمنٹ میں تشریف لے گئے۔ ……………………… پھولوں کی آرائش کا تحفہ جاپان کے مذہب اور ثقافت میں پھول ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ خوبصورت پھولوں کی آرائش جاپانی تہذیب و ثقافت کا حصّہ ہے۔ آج ٹوکیو (Tokyo) میں ریسیپشن کے موقع پر جماعت کے ایک پرانے دوست اور بزنس مین Mr. Takeshi Kohji نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خوش آمدید کہنے کے لئے اپنی طرف سے سارے ہال کو پھولوں سے سجایا ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مَیں کئی دن سوچتا رہا کہ جماعت کے سربراہ اور خلیفہ کا استقبال کس طرح کروں اور اس موقع پر کیا تحفہ پیش کروں۔ آخر مَیں نے یہ فیصلہ کیا کہ پھولوں کی آرائش سے خلیفۃالمسیح کو خوش آمدید کہنا سب سے بہترین تحفہ ہے۔ ………………………… تقریب میں شامل مہمانوں کے تأثرات اس موقع پر شامل ہونے والے مہمان حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب سن کربے حد متاثر ہوئے اور ان میں سے بعض نے اپنے تاثرات اور جذبات کا بھی اظہارکیاہے۔ چند تأثرات قارئین کے ملاحظہ کے لئے پیش ہیں۔ ٭نی ہون یونیورسٹی کے چانسلر Mr Urano Tatsuno صاحب بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: میں سوچتا رہا کہ آپ ہمیں کیا بتائیں گے؟ لیکن بیس منٹ کے اندر آپ نے گزشتہ تاریخ اور آئندہ آنے والے حالات کوجامع رنگ میں سمو دیا ہے ۔ آپ نے حقائق اور حوالوں سے بات کی۔ جنگ کے نقصانات سے آگاہ کیا اور آئندہ جنگوں سے بچنے سے متنبہ کیا۔ انتہائی مختصر وقت میں اسلام کی تعلیم بھی بتا دی۔ یہ خطاب انگریزی اور جاپانی زبان میں پورے جاپان میں پھیلانا چاہیے۔ ٭ایک دوست Martin Blackway جو کہ بزنس ایڈوائزر ہیں اور معروف شاعر بھی ہیں۔ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں ۔ انہو ں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: ’’جو کچھ میں نے کتاب میں لکھا تھا حضور نے اس پر مہر لگا دی ہے ۔‘‘ ٭ایک مشہور سیاستدان کی بیٹیOhara Blackway صاحبہ بھی اس تقریب میں شامل ہوئیں۔ انہوں نے کہا: آپ نے جاپانیوں سے خطاب کر کے ہم پر ایک احسان کیا ہے ۔ ہم بہت متاثر ہوئے ہیں۔ ٭ایک جاپانی دوست Shinsaku Lida صاحب نے بیان کیا: آج اگر آپ لوگ مجھے نہ بلاتے اور میں یہاں نہ آتا تو اپنا بڑا نقصان کرتا۔ ٭اسی طرح آساہی اخبار کے چیف رپورٹر Kato Hironori صاحب بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: اگر جماعت احمدیہ جاپان اپنی رضاکارانہ خدمات کے ذریعہ ہمارے سامنے نہ آتی تو ہم اسلام کا یہ خوبصورت چہرہ دیکھنے سے محروم رہ جاتے ۔ ٭ایک بدھسٹ فرقہ کے چیف پریسٹ اور رہنما Sato Ryoki صاحب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’میں بدھسٹ ہوں لیکن حضور کی باتیں سن کر ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے ہیں ۔ ‘‘ حضور انور سے ملاقات کے بعد انہوں نے نماز بھی پڑھی اور جب تک حضور انور تشریف نہیں لے گئے اس وقت تک ہال میں موجود رہے اور حضور انور کو دیکھتے رہے اور آبدیدہ ہو کر نماز میں کچھ پڑھتے رہے۔ نوٹ: جب 2013ء میں حضورانور جاپان تشریف لے گئے تھے تو یہی بدھسٹ پریسٹ ایک reception میں شامل ہوئے تھے اور حضورانور سے ملے تھے۔ بعد میں ایک احمدی دوست نے ان کو کہا کہ آپ دعاکریں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اپنا وجود دکھائے تو کہنے لگے کہ میں تو خدا کا قائل ہی نہیں تو دعاکیاکروں؟ آج یہی بدھسٹ پریسٹ دوبارہ حضورانور کے پروگرام میں شامل ہوئے تو ان کی کایاہی پلٹ گئی۔ حضورانور کی اقتدا میں نماز بھی پڑھی اور آبدیدہ بھی ہوئے۔ ٭گاڑیاں بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے صدر Serio Ito صاحب بھی اس تقریب میں شامل تھے۔ وہ اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہنے لگے: آپ ایک فرقہ کے سربراہ نہیں لگتے ، بلکہ ایک ایسے عالمی راہنما ہیں جن کی ساری دنیا پر نظر ہے اور آپ کی باتیں ساری دنیا کے لئے راہ عمل ہیں ۔ ٭ایک جاپانی دوست Toshihisa Miyazaki صاحب نے کہا: آپ کا خطاب اور جاپانی قوم کو کی جانے والی نصائح غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ آپ کے خطاب میں اسلامی تعلیم کے حوالے بھی تھے، تاریخ عالم کے حوالے بھی تھے۔ سان فرانسسکو امن معاہدہ میں کسی مسلمان کا کردار ہمارے لئے نئی بات تھی۔ ٭ایک دوست Akiko Komura صاحب نے اپنے تاثرات کااظہارکرتے ہوئے کہا: جاپان کی تاریخ کے بارہ میں آپ کی معلومات ہم سے زیادہ ہیں۔ جنگِ عظیم دوم کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے تیسری عالمی جنگ سے بھی خبردارکیاہے۔ ٭ایک جاپانی مسلمان دوست اسماعیل Hirano صاحب کہنے لگے: میں مسلمان ہوں لیکن کسی مسلمان عالم کے منہ سے ایسی بات نہیں سنی۔ تاریخ ہو یا جنگ کی تباہ کاریاں، آپ نے سب کچھ بیان کردیا۔ میں قرآن پڑھتاہوں لیکن اس کے باوجود میں وہ ساری باتیں نہیں جانتا تھا جو خلیفۃ المسیح نے بیان فرمائیں۔ موصوف نے کہاکہ: گو کہ میں غیر احمدی مسلمان ہوں لیکن میں نے آپ کے خلیفہ کی شخصیت میں ایک رعب اور تحکم دیکھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ خلیفہ نے قرآن کریم کے حوالہ جات سے اسلامی تعلیم بیان کی اور یہ حوالہ جات ایسے ہی نہیں تھے بلکہ حقائق پر مبنی تھے۔کوئی یہ نہیں کہہ سکتاکہ خلیفۃ اسلام کی نمائندگی نہیں کررہے تھے۔کیونکہ خلیفۃ المسیح نے جو بھی بیان کیا وہ قرآن کریم کے حوالہ جات کے مطابق بیان کیا اور بتایاکہ یہ اصل اسلام ہے۔ میں نے پہلے کبھی اپنی زندگی میں اسلام کی اس قدرخوبصورت تفصیل نہیں جانی تھی۔ میں نے پہلے کبھی تیسری عالمی جنگ کے بارہ میں نہیں سوچا تھا لیکن اب مجھے احساس ہواہے کہ تیسری عالمی جنگ دنیا کے لئے واقعی ایک خطرہ ہے۔ خلیفہ ایک دوراندیش انسان ہیں اور انہیں ہمارے مستقبل کی بھی فکر ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں خلیفۃ المسیح کا شکرگزارہوں۔ ٭ایک دوست Yuka Kikuoka صاحب نے بیان کیا: خلیفۃ المسیح کے خطاب نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ ہمیں وہ باتیں بتائیں جن کے متعلق ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ہم تو امن اور سکون کے اس ماحول میں ان خطرات کا تصور بھی نہیں کرسکتے جن کا آپ نے ذکرفرمایا۔ جنگ کتنی تباہ کن ہوتی ہے اور ایٹمی حملے کتنے ہولناک ہوتے ہیں ، ہمیں یہ آج پتہ چلا ہے۔ ٭ایک دوست Ito Hiroshi صاحب نے بیان کیا: دوسری جنگِ عظیم میں ہیروشیما پر ایٹمی حملہ کے بعد جماعت کے امام کی طرف سے مذمتی خطاب ایک غیر معمولی بات ہے۔ اس سے جماعت احمدی کا امن کے قیام کے لئے کردار واضح ہوتاہے۔ ٭ایک جاپانی دوست Mr Hidenor Sakanaka صاحب نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میں نے آج یہ سیکھاہے کہ جو لوگ اسلام کو ’داعش‘ کے ساتھ جوڑتے ہیں وہ بالکل غلط ہیں۔ آج خلیفۃ المسیح نے ہمیں امن کا پیغام دیاہے۔ آج کے دورمیں دنیا امن کے خلاف چل رہی ہے اورمیں خلیفۃ المسیح کی باتوں سے اتفاق کرتاہوں کہ ہمیں تبدیلی پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ آجکل جو ہم بم پھینکنے اور فضائی حملے کرنے کے لئے تحریکیں چلارہے ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں اور معصوموں کی جان لینے کا باعث بن رہے ہیں۔ ٭ایک جاپانی خاتون Hara صاحبہ نے بیان کیا: آج سے پہلے میرااسلام کے بارہ میں تأثرتھا کہ اسلام نہایت خطرناک مذہب ہے۔ لیکن آج خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر مجھے احساس ہواہے کہ اسلام تو داراصل سب سے زیادہ امن پسند مذہب ہے۔ اور یہ بات میرے لئے بہت حیران کن ہے۔ جب خلیفۃ المسیح نے جاپان پر ہونے والے ایٹمی حملہ کی 70ویں anniversary کا ذکرکیاتواس سے پتہ چل رہاتھا کہ خلیفۃ المسیح دنیا کے حالات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ خلیفہ کی لوگوں کے لئے ہمدردی اور پیار قابل ستائش ہے۔ ٭ایک جاپانی دوست Takeshi Koki صاحب بھی اس تقریب میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا: آج خلیفۃ المسیح کی تقریر سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اسلام احمدیت نہایت زبردست اور امن پسند مذہب ہے۔ اکثرجاپانی لوگ خیال کرتے ہیں کہ اسلام برامذہب ہے لیکن میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ کے خلیفہ صرف امن ہیں۔ خلیفہ کا کہنا تھا کہ آج سے 70برس پہلے جو غلطیاں ہوئی تھیں انہیں دہرانا نہیں چاہئے۔ خلیفۃ المسیح نے جو بھی فرمایا و ہ سچائی اور حقیقت پر مبنی تھا ۔ ٭ایک جاپانی دوست Mr Koji صاحب نے اپنے جذبات کااظہارکرتے ہوئے کہا: آج خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر مجھے پتہ لگاہے کہ ISIS اور اصل مسلمانوں میں کس قدر فرق ہے۔ میرے دل میں جو بھی خدشات یا پریشانیاں تھیں وہ سب دور ہوگئیں۔خلیفۃ المسیح نے بالکل حق کہاکہ ہم تیسری عالمی جنگ کی طرف جارہے ہیں اور خلیفہ نے ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف سے توجہ دلائی کہ ہمیں اس جنگ کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ ٭ایک جاپانی خاتون Miss Matsuki صاحبہ نے کہا: خلیفۃ المسیح کا خطاب نہایت شاندار تھا۔ بہت سے لوگ اسلام کو برائی کے ساتھ جوڑتے ہیں لیکن آج مجھے پتہ چلا کہ اسلام تو بالکل اس کے برعکس ہے۔ اسلام تو ایک ایسا مذہب ہے جو امن کو فروغ دیتاہے۔ میری عمر اتنی زیادہ نہیں ہے اس لئے میں دوسری جنگِ عظیم کے بارہ میں زیادہ تو نہیں جانتی لیکن خلیفۃ المسیح نے ہماری قوم کے ساتھ جس ہمدردی اورپیار کا اظہار کیاہے اس کوسراہتی ہوں۔ ٭ایک جاپانی دوست Mr Miura صاحب نے بیان کیا: آج خلیفۃ المسیح کے خطاب میں ہم سب کے لئے ایک نہایت اہم پیغام تھا۔ اور وہ پیغام یہ تھا کہ اس دَور میں جواسلحہ اور بم ہیں وہ گزشتہ دَور کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ہیں۔ خلیفۃ المسیح کا کہنا تھا یہ وقت ایک دوسرے کو انگیخت کرنے کانہیں بلکہ ایک دوسرے کے لئے محبت کے اظہار کا ہے اور یہ وقت یکجہتی پیداکرنے کاہے۔ خلیفہ نے بالخصوص ہم جاپانیوں کوہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ جنگ کی تباہ کاریاں کیا ہوتی ہیں۔ خلیفہ نے فرمایاکہ جاپان کوچاہئے وہ اپنی تاریخ سامنے رکھتے ہوئے ہر قسم کے فساد کی روک تھام کے لئے سب سے آگے کھڑاہو۔ ٭ایک دوست Yoshida (یوشیدا) صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: مجھے پہلے اس بات پر یقین نہیں آتاتھا لیکن آج معلوم ہوا ہے کہ اسلام عالمی سطح پر مذہبی آزادی چاہتا ہے۔ احمدیوں نے زلزلہ کے دوران ہماری مدد کی تھی ا ور اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے ایسا کیو ں کیا۔ یہ اسلامی تعلیمات اور خلیفہ کی رہنمائی ہے، جس کے باعث وہ ایسے عمل کرتے ہیں۔ آپ لوگوں نے مشکل میں ہماری مدد کی تھی اور اب میں ہر مشکل میں احمدیوں کی جہاں بھی ضرورت پڑے مدد کرونگا۔ خلیفہ نے اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ ہم جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ گو کہ جاپان میں کوئی اندرونی لڑائی نہیں ہے لیکن آپ نے ہمیں اس بارے میں متوجہ کیا ہے کہ بیرونی لڑائیاں بھی ہمیں متاثر کریں گی۔ چاہے دوسرے لوگ ہمیں بہت اعلیٰ اقدار کے مالک سمجھتے ہوں لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جاپان میں اخلاقیات زوال کا شکار ہیں۔ اس لئے ہمیں وہ امن پسند تعلیمات اپنانی چاہئیں جن کا خلیفہ پرچار کرر ہا ہے۔ ٭ایک جاپانی دوست Mr Itesen نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛ اپنے تاثرات کا اظہار کرنے سے پہلے میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ میں بہت مشکور ہوں کہ اس قدر مشہور اور قابلِ احترام وجوداتنی دور سے سفر کر کے ہمارے پاس تشریف لائے ہیں۔ یہ ہمارے لئے بہت فخر کی بات ہے کہ خلیفہ جاپان میں ہیں۔ آپ جاپانیوں کو امن کی تعلیم اور اسلام کی سچائی کی طرف بلانے کے لئے تشریف لائے ہیں۔ عام طور پر ہمیں مسلمانوں سے ملنے کا اتنا اتفاق نہیں ہوتا لیکن میں اس بات پر بہت فخر محسوس کر رہا ہوں کہ آج میں دنیا کے سب سے عظیم مسلمان سے ملاقات کی ہے۔ ہم کتنے خوش نصیب ہیں۔ جب میں خلیفہ کو دیکھتا ہوں کہ تو سوائے حکمت، سچائی اور خلوص کے مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ سچ کہہ رہے ہیں، آپ کے وجود سے ہی سچائی چھلکتی ہے۔ آپ عظیم انسان ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ جنگ کب ہو گی، میں سمجھتا تھا کہ جنگ ہو کر رہے گی لیکن اب میرا خیال ہے کہ ہم اس جنگ کو روک سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ہمیں خلیفہ کی باتوں پر عمل کرنا پڑیگا۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی ہے کہ اسلام کی سچی تعلیمات جیسے خلیفہ پیش کر رہے ہیں، یہ ہمارے ملک کے لئے بہتر ہے۔ ٭ایک جرنلسٹ Takayano Kazuo صاحب بھی اس تقریب میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا: خلیفہ کا پیغام در اصل امن کا پیغام ہے۔ آپ نے امن قائم کرنے اور جنگ روکنے کے لئے جاپان کو اپنا کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔ میں اس بات کی بہت قدر کرتا ہوں کہ آپ ہمارا درد محسوس کرتے ہیں جو ایٹمی حملوں سے ہم نے سہا اور آپ ہمارے اس دکھ اور تکلیف میں ہمارے ساتھ ہیں۔ …………………………… علم فلکیات کے پی ایچ ڈی کے ایک سٹوڈنٹ کی حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات اور اس کے استفسارات کے جوابات ناگویا میں ٹوکیو کی ایک مشہور یونیورسٹی (Rikyo University) کے ایک طالب علم Kohji Yajima صاحب نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ ملاقات کی سعادت حاصل کی تھی۔ موصوف علم فلکیات (Cosmology) میں پی۔ایچ۔ڈی کر رہے ہیں ۔ جماعت سے ان کا تعارف شمال مشرقی جاپان کے زلزلہ اور تسونامی کے بعد ہیومینٹی فرسٹ کی طرف سے لگائے جانے والے امدادی کیمپ میں ہواجس کے بعد یہ تقریباً 6ماہ وہاں کیمپ میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد یہ مستقل رابطے میں ہیں اور جماعت سے بہت اچھا تعلق رکھتے ہیں ۔ حضور انور نے موصوف سے دریافت فرمایا کہ آپ کس مضمون پر تحقیق کر رہے ہیں؟ اس پر موصوف نے بتایاکہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس کائنات کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟ اسی بارہ میں تحقیق کر رہا ہوں۔ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ آپBig Bangکے بارہ میں تحقیق کر رہے ہیں تو آپ کو یہ جان کر بڑی حیرت ہو گی قرآن کریم اس کے متعلق بہت پہلے بیان کر چکا ہے۔حضورانور نے قرآن کریم سے آیت کا حوالہ نکال کر فرمایاکہ سورۃ الانبیاء کی آیت 31 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کائنات، زمین و آسمان ایک بند چیز تھی۔ ’’ففتقنٰھما‘‘ ۔ پس ہم نے انہیں پھاڑا اور کھول دیا اور اس سے یہ کائنات پیدا ہوئی ۔ اور یہ بات بھی قرآن سے ثابت ہے کہ کائنات مسلسل بڑھ رہی ہے بلکہ قرآن کریم نے تو یہ بھی بتایاہے کہ ہمارے عالم جیسے اور بھی کئی عالم اس کائنات میں موجود ہیں جو آہستہ آہستہ سائنس دریافت کر لے گی۔ اور یہ بات قرآن اُس وقت بیان کر چکا ہے جبکہ دنیا اس بات سے با لکل ناواقف تھی اور ابھی صرف چند سال پہلے ہی سائنس ان باتوں کو دریافت کرنے میں کامیا ب ہوئی ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ قرآن کریم یقینی بات بتاتا ہے اور بہت سے سائنسدان ایسے گزرے ہیں جنہوں نے قرآن کی بات کو بنیاد بنا کر تحقیق کی اورقرآن نے صحیح نتائج تک ان کی راہنمائی فرمائی۔ انہی میں سے ایک ڈاکٹر عبد السلام بھی تھے جنہوں نے قرآن کے دعویٰ کو بنیاد بنا کر تحقیق کی اور پھر ان کی کامیابی پر ان کو نوبیل پرائز بھی ملا ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ قرآن میں 700سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو سائنس سے متعلق ہیں ۔ اور انہوں نے قرآن کے اس دعویٰ پر تحقیق کی کہ ہر چیز جوڑے میں پیدا کی گئی ہے تو ایٹم کا بھی جوڑا ہوگا اور انہوں نے یہ ثابت بھی کیا۔ ٭موصوف Kohji صاحب نے سوال کیا کہ اگرمیں قرآن پر ایمان لائے بغیرقرآن کو بنیاد بناکر تحقیق کر کے کچھ ثابت کر سکوں تو کیا یہ غلط ہو گا؟ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:ٹھیک ہے۔ آپ اس کے بغیر بھی تحقیق کی نئی راہیں تلاش کرسکتے ہیں ۔ ہمارے آقا و مولیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمیں تو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہر علم کی بات ، حکمت کی بات مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے وہ اسے جہاں بھی ملے لے لینی چاہیے ۔ اس لئے جو بھی آپ تحقیق کر کے ثابت کریں گے ہم اسے قبول کریں گے ۔ خاص کر اگر آپ کوئی ایسی بات ثابت کریں گے جو پہلے سے قرآن کریم میں موجود ہو گی تو اس سے ہمارا ایمان اور بڑھے گا اور قرآن کی قطعیت پہلے سے بڑھ کر ہم پر واضح ہو گی ۔ تو جس طرح علم کی بات ، حکمت کی بات جس سے بھی ہمیں ملے ہم قبول کرتے ہیں تو ہم آپ سے بھی یہ چاہتے ہیں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں اور قرآن کریم کو صرف ایک مذہبی کتاب سمجھ کر چھوڑ نہ دیں بلکہ اس کے اندر جو سائنسی حقائق بیان ہوئے ہیں، ان کو لیں اور غور اور تدبر کریں ۔ ٭ اس کے بعد Kohji صاحب نے سوال کیا کہ آپ کا دوسرے مذاہب کے بارہ میں کیا خیا ل ہے کیا وہ بھی سچے ہیں یا جھوٹے ہیں؟ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ ہمارا یہ ایمان ہے جیسا کہ قرآن نے فرمایا ہے کہ ہر ایک قوم میں اللہ تعالیٰ نے نبی بھیجے ہیں اور ہر نبی نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایاہے اور ان کی راہنمائی کی ہے ۔ اس لحاظ سے ہم موسیٰؑ، عیسیٰؑ، کرشن ؑ، بدھ ؑ سب کو اللہ تعالیٰ کا نبی مانتے ہیں ۔ اور ہمارا یہ ماننا ہے کہ ہر ایک نبی نے ایک جیسی تعلیم ہی دی مگر ان کی وفات کے بعد بہت سی باتیں ایسی ہیں جو بعدمیں آنے والے لوگوں نے ان کی تعلیم میں شامل کر دیں۔ اب یہ ان مذاہب کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذہب کی اصل تعلیم کو تلاش کریں اور اس پر عمل کریں۔ کوئی بھی مذہب جھوٹا نہیں تھا مگر جو باتیں بعد میں ان مذاہب میں داخل ہوئیں انہوں نے ان مذاہب کی اصل شکل بگاڑ دی ہے ۔ اس اصل شکل کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ٭ موصوف نے پوچھا کہ کیاان اختلافات کے باوجود مختلف مذاہب کے درمیان امن کی کوئی راہ موجود ہے یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ بالکل موجود ہے اور اس بارہ میں جو اصول قرآن کریم نے بیان کیا ہے وہ بہترین اصول ہے اور وہ یہ کہ تمام مذاہب کے لوگ کسی ایسی بات پر اکٹھے ہوجائیں جو ان کے درمیان مساوی اور سانجھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم سب اللہ پر ایمان لاتے ہیں ۔ تو اگر تمام مذاہب کے لوگ صرف اس بات پر مل بیٹھیں کہ ہم سب ایک خدا پر ایمان لاتے ہیں تو یہ بات بین المذاہب امن کے لئے ایک بہت اچھی بنیاد فراہم کرے گی۔ پھر ایک دوسرے کے مذہبی پیشواؤں کی قدر کرنا اور کوئی نازیبا الفاظ ان کی شان میں نہ کہنا بھی بین المذاہب امن کے لئے بہت ضروری ہے ۔ اس بارہ میں اسلام نے بہت مکمل اور جامع تعلیم دی ہے کہ کسی بھی مذہبی پیشوا کے متعلق کسی قسم کی توہین کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ فرمایا کہ ان کی تکریم کرنا اور ان پر ایمان لانا کہ وہ خدا کے فرستادے اور اس کے پیارے تھے مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے ۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا مت کہو کہ وہ اس کے بدلے میں تمہارے سچے خدا کو برا بھلا کہے گا۔ تو اسلام نے تو امن کے سارے راستے اپنانے کی ہمیں تلقین کی ہے اور ہم اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ Kohiji صاحب نے آخری سوال پوچھاکہ کیا اسلام پرایمان لانے کے بغیر بھی نجات مل سکتی ہے؟ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ ہمارا خد اجس پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ اور اس نے اپنی کتاب میں یہ صاف فرما دیا ہے کہ ہر شخص کے لئے نجات کے دروازے کھلے ہیں بے شک وہ کوئی عیسائی ہے کوئی بدھ مذہب کا پیرو کار ہے یا کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ نیک اعمال کرنے والا ہو ۔ بلکہ ہمارا خدا تو اس قدر رحم کرنے والا ہے کہ حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ دو آدمی آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ایک نے کہا کہ میں نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا اور ہمیشہ برائی کی ہے۔ دوسرے نے کہاپھر تو تم جہنم میں جاؤ گے ، مَیں نے تو بہت نیک اعمال کئے ہیں، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے وغیرہ اس لئے میں جنت میں جاؤں گا۔ تو جب وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوئے تو اللہ نے اس بندے کو جس نے کوئی عمل نہ کیا تھا جنت میں بھیج دیا اور جو کہتا تھا میں نے عمل کئے ہیں اس کو فرمایا کہ تیرے سارے عمل ریاکاری کے لئے تھے اس لئے ان سب کا اجر اس آدمی کو دے دیا گیا ہے جس کو تُو جہنّمی کہتا تھا اور اس کو دوزخ میں ڈال دیا گیا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اللہ جو بہت رحم کرنے والا ہے نجات کا معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جس کو چاہے بخش دے، جس کو چاہے سزا دے۔ ہمیں بس یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی باتیں مانیں اور نیک عمل کریں کہ اللہ ہمیں بخش دے ۔ ……………………………… 24 نومبر 2015ء بروز منگل ……………………………… ٹوکیو (جاپان) سے روانگی اور لندن (برطانیہ) میں ورود مسعود حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے پانچ بجے تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے آئے۔ آج جاپان سے لندن روانگی کا دن تھا۔ سات بجکر 45 منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہوٹل سے باہر تشریف لائے اور اجتماعی دعا کروائی اور ٹوکیو کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ Narita کے لئے روانگی ہوئی۔ ایئر پورٹ پر صبح سے ہی ٹوکیو اور ناگویا کی جماعتوں سے احبابِ جماعت مردو خواتین اور بچے بچیاں اپنے پیارے آقا کو الوداع کہنے کے لئے جمع تھے۔ برٹش ایمبیسی کی طرف سے ایک خصوصی انتظام کے تحت حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ائیر پورٹ پر آمد سے قبل سامان کی بکنگ، بورڈنگ کارڈز کے حصول اور پاسپورٹس پر exit stampلگنے کی کارروائی مکمل ہوچکی تھی۔ آٹھ بجکر 50 منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایئرپورٹ پر تشریف آوری ہوئی۔ پروٹوکول آفیسرز نے حضورانور کو ریسیو کیا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے الوداع کہنے کے لئے آنے والے احباب کو شرف مصافحہ سے نوازا اور خواتین نے شرف زیارت حاصل کیا۔ حضورانور نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اور ایئرپورٹ کے اندرونی حصہ میں تشریف لے گئے۔ پروٹوکول آفسیر حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو اپنے ساتھ فرسٹ کلاس لاؤنج میں لے آئے جہاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کچھ دیر کے لئے قیام فرمایا۔ یہاں سے دس بجکر 45 منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جہاز پر سوار ہوئے۔ پروٹوکول آفیسرز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو جہاز کے دروازہ تک چھوڑنے آئے۔ برٹش ایئر ویز کی پرواز BA 006 گیارہ بجکر پندرہ منٹ پر Narita ایئرپورٹ ٹوکیو سے لندن(برطانیہ) کے ہیتھرو ایئر پورٹ کے لئے روانہ ہوئی۔ قریباً ساڑھے بارہ گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد لندن (یوکے) کے مقامی وقت کے مطابق دو بجکر چالیس منٹ پر جہاز لندن کے ہیتھرو انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اترا۔ برطانیہ کا وقت جاپان کے وقت سے نو گھنٹے پیچھے ہے۔ جہاز کے دروازے پر ایئرپورٹ کے ایک پروٹوکول آفیسر نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو ریسیو کیا اور اپنے ساتھ سپیشل لاؤنج میں لے آئے جہاں مکرم رفیق احمد حیات صاحب، امیر جماعت یوکے اور مکرم میجر محمود احمدصاحب افسر حفاظت خاص نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہا اور شرفِ مصافحہ حاصل کیا۔ امیگریشن افسر نے اسی لاؤنج میں آکر پاسپورٹ دیکھے۔ یہاں ایئر پورٹ سے تین بجکر 25 منٹ پر روانہ ہوکر قریباً چار بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مسجد فضل لندن میں ورود مسعود ہوا جہاں احبابِ جماعت کی ایک کثیر تعداد نے اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا۔ مسجد فضل کے احاطہ کو خوبصورت اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایاگیا تھا۔ مسجد کے بیرونی احاطہ میں ایک طرف خواتین اور بچیاں کھڑی تھیں اور دوسری طرف مرد احباب تھے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اور اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔ اس طرح آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جاپان کا یہ تاریخ ساز اور دُور رس نتائج کا حامل دورہ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کو سمیٹتے ہوئے عظیم الشان کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ فالحمدللہ علیٰ ذٰلک۔ ……………………… حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیت میں جن خوش نصیبوں کو اس تاریخی اہمیت کے حامل سفر پر جانے کی سعادت نصیب ہوئی ان کے اسماء بغرضِ ریکارڈ درج ہیں۔ ۱۔حضرت سیدہ امتہ السبوح صاحبہ مدظلہا العالی(حرم سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) ۲۔مکرم منیر احمد جاوید صاحب (پرائیویٹ سیکرٹری )۔ ۳۔ مکرم مبارک احمدظفرصاحب ( ایڈیشنل وکیل المال، لندن)۔ ۴۔مکرم عابد وحید خان صاحب (انچارج پریس اینڈ میڈیا آفس لندن)۔ ۵۔ مکرم سید محمد احمدصاحب (نائب افسرحفاظت خاص، لندن)۶۔مکرم محمود احمد خان صاحب (شعبہ حفاظت)۔ ۷۔ مکرم نصیر الدین ہمایوں صاحب (شعبہ حفاظت)۔ ۸۔ مکرم سخاوت علی باجوہ صاحب( شعبہ حفاظت) ۹۔ مکرم عطاء القدوس صاحب (شعبہ حفاظت) ۔ ۱۰۔ خاکسار عبدا لماجد طاہر (ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن) اس کے علاوہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل یوکے کے درج ذیل ممبران نے خطبہ جمعہ، مسجد کی افتتاحی اور receptionکی تقاریب، حضورانور کے انٹرویوز اور دیگر جملہ پروگراموں کی ریکارڈنگ اورجاپان سے Live ٹرانسمیشن کے لئے اس دورہ میں شمولیت کی سعادت حاصل کی: ۱۔ مکرم منیر احمد عودہ صاحب۔ ۲۔ مکرم سفیر الدین قمر صاحب۔ ۳۔ مکرم سلمان عباسی صاحب۔ ۴۔ مکرم آصف ہادی صاحب ۔ مکرم عمیر علیم صاحب انچارج شعبہ مخزن التصاویر نے بھی اس سفر میں شمولیت کی سعادت پائی۔ جماعت احمدیہ امریکہ کی طرف سے ڈاکٹر تنویر احمدصاحب جاپان کے اس سفر کے دوران بطور ڈاکٹر ڈیوٹی پر قافلہ کے ساتھ رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے لئے یہ سعادت مبارک فرمائے۔ اس کے علاوہ مجلس خدام الاحمدیہ یوکے سے چار خدام پر مشتمل اور مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی طرف سے پانچ خدام پر مشتمل سیکیورٹی ٹیمیں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جاپان آمد سے قبل جاپان پہنچی تھیں۔ ان سب نے بھی بڑی مستعدی اور خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیئے۔فجزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء ……………………… حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ کے دوران جو انٹرویوز ہوئے ان کی اخبارات اور ویب سائٹس پر اشاعت کا سلسلہ دورہ کے بعد بھی جاری رہا۔ ٭Shingetsu نیوز ایجنسی کے صحافی Michael Penn نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انٹرویو لیا تھا جو تفصیل سے الجزیرہ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ اس انٹرویو کو جاپان کے علاوہ دنیا بھر میں بہت سراہا گیا۔ انٹرویولینے والے صحافی نے اس حوالہ سے لکھا کہ ’الجزیرہ انگریزی‘ پر ناگویا مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے جو میں نے آرٹیکل لکھا اس کا شمار ہفتہ بھر ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پڑھے جانے والا آریٹکلز میں ہوتارہا ۔ 22ہزار سے زائد لوگوں نے اس کو فیس بُک پر شیئر کیا اور مزید جاری ہے۔‘ موصوف نے کہا کہ ’جب سے میں نے صحافت کا آغاز کیاہے اس وقت سے لے کر اب تک میرا یہ سب سے زیادہ کامیاب آرٹیکل ثابت ہوا۔ ‘ یہ انٹرویو الجزیرہ انگریزی، ’نیوز ایجنسی‘ اور جماعت احمدیہ کے twitter accounts اور فیس بُک کے ذریعہ لاکھوں لوگوں تک پہنچ رہاہے اور جاپانی اخباروں کے بعد انگریزی دان طبقہ اور جاپان میں بسنے والے غیر ملکیوں تک بھی اسلام احمدیت کے پیغام کی اشاعت کا ذریعہ بن رہاہے۔ یہی انٹرویو مکمل ترجمہ کے ساتھ انڈونیشیاکے میڈیا میں بھی شائع ہوا۔ ٭الجزیرہ کی ویب سائٹ پر جب یہ خبر شائع ہوئی تو بعض غیر احمدیوں نے احمدیوں کے لئے مسلمان کا لفظ استعمال کرنے پر اعتراضات بھی کئے۔ صحافی مائیکل پین صاحب نے ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھاکہ ’آپ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت احمدیوں کو غیر مسلم سمجھتی ہے لیکن مَیں احمدیوں اور ان کے رہنماخلیفہ سے ملاہوں۔ اور ان سب کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مذہب اسلام ہے اور ان کی جماعت کا نام ’جماعت احمدیہ مسلمہ‘ ہے۔ میرے نزدیک جب وہ خود کہہ رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں تو پھر یہ بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔ جب وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو مجھے انہیں مسلمان تسلیم کرنا پڑتاہے۔ ٭جہاں میڈیا میں وسیع پیمانے پر مسجد کی کوریج کی جارہی ہے وہاں بعض مخالفینِ جماعت اعتراضات بھی کررہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاپانی لوگ از خود ان اعتراضات کے جواب دیکر مخالفین کے منہ بند کررہے ہیں۔ ٭اس کے علاوہ جاپان کے انگریزی میڈیا کے اخبار ’Japan Today‘ نے بھی الجزیرہ کی ویب سائٹ سے حضورانور کے الفاظ کو لیکر جلی حروف سے اپنی ویب سائٹس پر شائع کیا۔ اس حوالہ سے صحافی Michael Penn صاحب نے لکھاکہ : ’Japan Today‘ نے الجزیرہ ویب سائٹ سے خلیفۃ مرزامسرور احمدصاحب کے انٹرویو کا quote لے کر شائع کیاہے۔ میرے نزدیک اس انٹرویوکی جلد ہی ویڈیو بھی نشر کردینی چاہئے۔ ‘ ٭اتفاق سے آجکل مغربی میڈیا خصوصاً امریکہ میں دائیں بازوں کے خیالات رکھنے والے طبقہ نے جاپان کے بارہ میں خبریں شائع کی ہیں کہ جاپان میں مسلمان مسجدیں تعمیر نہیں کرسکتے، قرآن کریم کی اشاعت نہیں کرسکتے اور جاپان میں اسلام کی تبلیغ کی ممانعت ہے وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جاپان کے صحافی، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور بعض دیگر اہلِ علم لوگ ’مسجد بیت الاحد‘ جاپان کا حوالہ دے کر ان اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔چنانچہ اس کی وجہ سے بھی جاپان میں جماعت کا وسیع پیمانہ پر تعارف ہورہاہے۔ ٭24 نومبر 2015ء کو جاپان کے سب سے مشہور انگریزی اخبار ’The Japan Times‘ نے مسجد کے افتتاح کی خبر شائع کرتے ہوئے لکھا: ’ ایچی پریفیکچر Tsushima میں مسلمان جماعت کی ایک بہت بڑی مسجد کی افتتاح تقریب منعقد ہوئی۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کے مطابق اس مسجد میں پانچ سو نمازیوں کی گنجائش ہے اور اس کا شمار جاپان کی بڑی مساجد میں ہوتاہے۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کے عالمی سربراہ مرزا مسرور احمد صاحب نے مسجد کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ ’پیرس میں ہونے والے دہشتگردانہ حملے نہایت ظالمانہ تھے اور جو لوگ معصوم لوگوں کی جانیں لیتے وہ اصل میں اللہ تعالیٰ کے غضب کو بلاتے ہیں۔ اسلام کو پھیلانے کے لئے کسی تلوار کی ضرورت نہیں ہے۔ اخبار نے لکھا: اس تقریب میں 27بیرونی ممالک سے تشریف لائے ہوئے نمائندگان کے علاوہ مقامی جاپانی افراد، بدھسٹ پریسٹس اور شرائن کے نمائندگان شریک ہوئے۔ ٭اسی طرح گزشتہ جمعہ 27 نومبر کو بھی Nagoya TV کی ٹیم مسجد آئی اور وہاں پر مسجد کے بیرونی احاطہ میں پودا لگانے کی تقریب اور جمعہ کے مناظر نشرکئے۔ جاپانیوں کی مسجد بیت الاحد میں دلچسپی ٭میڈیا میں کوریج کی وجہ سے جاپانی لوگوں کی مسجد کی طرف توجہ پیداہوئی ہے اور جاپانی لوگ مختلف گروپس کی شکل میں اور انفرادی طور پر مسجد آرہے ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی واپسی کے اگلے روز ہی سات لوگ انفرادی طور پر اور دو گروپس مسجد کے وزٹ کے لئے آئے۔ اسی طرح نمازِ ظہر ، نمازِ عصر اور نمازِ مغرب پر جاپانی، سری لنکن ، ترک اور انڈونیشین مسلمان دوست شامل ہورہے ہیں۔ ان سب نے بتایاکہ انہیں اخبار اور ٹی وی کے ذریعہ مسجد کا علم ہوا تھا اور انہوں نے مسجد آکر بہت خوشی کا اظہارکیا۔ ٭اسی طرح ایک جاپانی دوست مسجد آئے اور آکر قرآن کریم اور اسلام کے بارہ میں دیگر لٹریچر کا مطالبہ کیا۔ ایک اور جاپانی دوست مسجد دیکھنے کے لئے آئے اور کہنے لگے کہ مسجد کا سب سے مقدس ترین حصہ کونسا ہے؟ اس پر انہوں نے محراب میں کھڑے ہوکر مخصوص جاپانی انداز میں مسجد کے لئے ادب و احترام کا اظہار کیا۔ لوگوں کی مسجد میں آمد کا یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ مسجد جاپان میں اسلام کی تبلیغ کے لئے ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہورہی ہے۔ ٭بہت سے لوگ مسجد کے باہر سے ہی تصاویر کھینچ کر اپنے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کے فورمز پر شیئر کررہے ہیں۔ ……………………… ٭حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس دورہ کے ذریعہ مختلف رپورٹس کے مطابق جاپان میں 52ملین سے زائد افراد تک اسلام احمدیت کا پیغام جاپانی قوم تک پہنچااور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ’مسجد بیت الاحد‘ کے افتتاح کے ذریعہ جاپان میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کاایک نیا باب کھلا ہے جو بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی جاپان میں اشاعتِ اسلام کی شدید خواہش کو پورا کرنے کا باعث ہورہاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ سے لگایا ہوا یہ پودا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے سایہ تلے دن بدن ترقی کی منازل طے کرتاچلاجارہاہے اور ہر آنے والا دن نئے انقلابات کی نوید لے کر آتاہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 19 نومبر 1954ء میں فرمایاتھا: ’’جاپان کتنا عظیم الشان ملک ہے، اگر ہم وہاں مشن کھول دیں اور خدا کرے ، وہاں ہماری جماعت قائم ہوجائے تو احمدیت کی آواز سارے مشرقی ایشیا میں گونجنے لگ جائے گی۔‘‘ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشرقی ایشیا کے ملک جاپان میں مسجد بیت الاحد کی تعمیر سے احمدیت کی آواز نہ صرف جاپان کی سر زمین پر بلکہ اس مسجد کے میناروں سے یہ آواز سارے مشرقی ایشیا میں گونجے گی۔ کوریا، چین اور تائیوان اور دیگر مشرقی ایشیائی ممالک سب اسلام کے حسین پیغام سے فیضیاب ہوں گے اور سعید روحیں اس پیغام پر لبیک کہتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چشمہ سے سیراب ہوں گی۔ انشاء اللہ