https://youtu.be/uausMRO-Cig (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء) ۱۹۴۷ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے تقسیم ہند کے موقع پر دونوں ملکوں کو نصائح فرمائیں۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) ہم اِس آزادی اور جُدائی کے موقع پر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اِن دونوں ملکوں ہی کو ترقی بخشے۔ اِن دونوں ملکوں کو عدل اور انصاف پر قائم رہنے کی توفیق بخشے۔ اور اِن دونوں ملکوں کے لوگوں کے دلوں میں محبت اور پیار کی روح بھر دے۔ یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ لیکن برادرانہ طور پر، ہمدردانہ طور پر، اور مخلصانہ طور پر۔ اور جہاں ان میں روحِ مقابلہ پائی جائے وہاں ان میں تعاون اور ہمدردی کی روح بھی پائی جائے۔ اور یہ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریکِ حال ہوں۔ خدا تعالیٰ انہیں ہر شر سے بچائے اور اپنے فضل سے امن، صلح اور سمجھوتے کے ذریعہ سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہم پھر اِس ملک کو اکٹھا دیکھ سکیں اور اس کو اسلام کی روشنی کے پھیلانے کا مرکز بنا سکیں۔ (اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج کا دن ہندوستان کے لئے ایک یومِ برزخ کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ آج رات کے بارہ بجے کے معاً بعد سے ہندوستان انگریزی اقتدار سے آزاد ہو چکا ہے اور اب یہ ملک دو آزاد حکومتوں میں بٹ گیا ہے۔ اِس کا ایک حصہ انڈین ڈومینین (Indian Dominion) کہلاتا ہے اور ایک حصہ پاکستان کہلاتا ہے۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد یعنی اگر یہ عرصہ غدر کے زمانہ سے شمار کیا جائے جب تک کہ اسلامی بادشاہت کا کچھ کچھ نشان ابھی ہندوستان میں باقی تھا تو پورے نوّے سال کے بعد آج یہ ملک غیر ملکی حکومت کے اقتدار سے آزاد ہوا ہے۔ اور اگر صرف پنجاب کے علاقہ کو لیا جائے تو پورے سو سال کے بعد آج یہ علاقہ غیر ملکی اقتدار سے آزاد ہوا ہے۔ حکومتیں ظالم ہوں یا منصف لیکن آج ایک ہندوستانی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اِس ملک میں اُسی کی حکومت ہے۔ خواہ اُس کے نائب حکام عدل اور انصاف سے کام نہ بھی لیتے ہوں۔ جہاں تک قانون کا سوال ہے اور جہاں تک آئین کا سوال ہے آج ہر ایک ہندوستانی اپنے ملک میں اُس سے زیادہ حقوق کا مستحق ہے جتنا کہ ایک غیر ملکی باشندہ ۔ لیکن آج سے پہلے ایک غیر ملکی باشندہ زیادہ حقوق کا مستحق سمجھا جاتا تھا اور ایک ہندوستان کا باشندہ باوجود اپنے ہی ملک میں رہنے کے کم حقوق کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ یہ اتنا بڑا تغیر ہے کہ دل اِس کا اندازہ لگانے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ اور اگر یہ تغیر اپنے ساتھ کچھ اَور تلخ باتیں نہ رکھتا تو ہر ہندوستانی کو خواہ وہ انڈیا کا باشندہ ہو یا پاکستان کا خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جانا چاہیے تھا اور اُس کا دل خوشی سے لبریز ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن اِس آزادی کے ساتھ ساتھ خونریزی اور ظلم کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔ خصوصاً اُن علاقوں میں جن کے ہم باشندے ہیں۔ وسطی پنجاب اِس وقت لڑائی جھگڑے اور فساد کا مرکز بنا ہوا ہے اور اِن فسادات کے متعلق روزانہ جو خبریں آ رہی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں آدمی روزانہ موت کے گھاٹ اُتارے جا رہے ہیں۔ اور ایک بڑی جنگ میں جتنے آدمی روزانہ مارے جاتے تھے اُتنے آجکل اِس چھوٹے سے علاقہ میں قتل ہو رہے ہیں۔ اور ایک بھائی دوسرے بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ پس اِن حالات کے ماتحت جیسے عید کے دن اُس عورت کے دل میں خوشی نہیں ہو سکتی جس کے اکلوتے بچے کی لاش اُس کے گھر میں پڑی ہوئی ہو، اور جیسے کسی قومی فتح کے دن اُن لوگوں کے دل فتح کی خوشی میں شامل نہیں ہو سکتے جن کی نسل فتح سے پیشتر اُس لڑائی میں ماری گئی ہو۔ اِسی طرح آج ہندوستان کا سمجھدار طبقہ باوجود خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے اپنے دل میں پوری طرح خوش نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے تو ملک کو آزاد کر دیا لیکن ملک نے اپنے آپ کو آزاد نہیں کیا۔ یہ دو حکومتیں جو آج قائم ہوئی ہیں ہمیں اِن دونوں سے ہی تعلق ہے۔ کیونکہ مذہبی جماعتیں کسی ایک ملک یا حکومت سے وابستہ نہیں ہوتیں۔ ہماری جماعت کے افراد پاکستان میں بھی ہیں اور ہماری جماعت کے افراد انڈیا میں بھی ہیں۔ بلکہ اِس سے بھی پہلے ہماری جماعت کے افراد افغانستان میں بھی پائے جاتے تھے اور ایران میں بھی۔ عراق میں بھی پائے جاتے تھے اور شا م میں بھی ۔مصرمیں پائے جاتے تھے اور سوڈان میں بھی۔ ملایامیں پائے جاتے تھے اور برما میں بھی۔ جاوا میں بھی پائے جاتے تھے اور سماٹرا میں بھی۔ انگلستان میں بھی پائے جاتے تھے اور یونائیٹڈ سٹیٹس میں بھی۔ مشرقی افریقہ میں بھی پائے جاتے تھے اور مغربی افریقہ میں بھی۔ اور یہ تمام ممالک ایسے ہیں جو یا تو ہندوستان سے انتظامی طور پر الگ تھے یا گورنمنٹ برطانیہ سے ہی الگ تھے اور خود مختار اور آزاد تھے۔ پس یہ کوئی نیا تغیّر ہماری جماعت کے لئے نہیں ہے۔ کیونکہ پہلے بھی ہماری جماعت کے افراد مختلف ممالک میں موجود تھے۔ صرف فرق اِتنا ہے کہ جیسے کسی خاندان کے تین لڑکے ہوں اور اُن میں سے دو بھائی تو اکٹھے ہوں اور اُنہوں نے ابھی تک اپنی جائیداد تقسیم نہ کی ہوئی ہو اور تیسرا بھائی الگ ہو چکا ہوا ہو۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد حوادثِ زمانہ سے وہ دونوں بھائی جو اکٹھے رہ گئے تھے جائیداد کو تقسیم کر لیں اور الگ الگ رہنے لگ جائیں۔ پہلے بھائی کی جُدائی کا تو کوئی خاص اثر نہ تھا۔ لیکن اب جو دو بھائی ایک دوسرے سے الگ الگ ہوں گے تو وہ ایک دوسرے کے مکانوں کو دیکھ کر، ایک دوسرے کے انتظامات کو دیکھ کر ضرور ایک چُبھن سی اپنے دلوں میں محسوس کریں گے اور ان کی آنکھوں میں پانی بھر آئے گا۔ پس گو ہماری جماعت کے افراد پہلے بھی غیر ملکوں میںرہتے تھے مگر وہ تو پہلے ہی ہم سے الگ رہتے تھے۔ مگر اب جو ہمارے بھائی ہم سے الگ ہو رہے ہیں وہ ایک عرصہ سے اکٹھے رہتے آ رہے تھے۔ اب ہم ایک دوسرے سے اِس طرح ملا کریں گے جیسے غیر ملکی لوگ آپس میں ملا کرتے ہیں۔ پس ہم اِس آزادی اور جُدائی کے موقع پر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اِن دونوں ملکوں ہی کو ترقی بخشے۔ اِن دونوں ملکوں کو عدل اور انصاف پر قائم رہنے کی توفیق بخشے۔ اور اِن دونوں ملکوں کے لوگوں کے دلوں میں محبت اور پیار کی روح بھر دے۔ یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ لیکن برادرانہ طور پر، ہمدردانہ طور پر، اور مخلصانہ طور پر۔ اور جہاں ان میں روحِ مقابلہ پائی جائے وہاں ان میں تعاون اور ہمدردی کی روح بھی پائی جائے۔ اور یہ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریکِ حال ہوں۔ خدا تعالیٰ انہیں ہر شر سے بچائے اور اپنے فضل سے امن، صلح اور سمجھوتے کے ذریعہ سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہم پھر اِس ملک کو اکٹھا دیکھ سکیں اور اس کو اسلام کی روشنی کے پھیلانے کا مرکز بنا سکیں۔ (اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ) (الفضل ۱۶؍اگست ۱۹۴۷ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خدا کے فضلوں کو دیکھ کر زیادہ شکر گزار بنو