میں پھر اس یقین کا اعادہ کرتا ہوں کہ سارے یورپ ،سارے مغرب میں میرے نزدیک اگر کوئی قوم ہے کہ جو اسلام سے وابستہ ہو جائے تو تمام دنیا پر اسلام غالب آجائے ،وہ جرمن قوم ہے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کے دورہ جات جرمنی یہ خدا تعالیٰ کا بے حد فضل و احسان ہے کہ خلافت رابعہ کے دور میں با ربار سر زمین جرمنی کو خلیفہ ٔوقت کے قدم چومنے کی سعادت ملتی رہی۔ یہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی شفقت ہی تھی کے انتخاب خلافت کے پہلے ہی سال ۱۹۸۲ء میں حضورؒ جب سپین میں مسجد بشارت کے افتتاح کے لیے تشریف لائے تو جرمنی میں بھی قیام فرمایا اور احباب جماعت کو ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ۱۹۷۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ڈنمارک کی طرف سے جرمنی میں داخل ہوئے تھے اور ۱۹۸۲ء میں خلیفہ منتخب ہونے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جب اپنا پہلا دورہ یورپ فرمایا تو آپ بھی ڈنمارک کی طرف سے ۱۴؍اگست ۱۹۸۲ء بروز ہفتہ جرمنی میں داخل ہوئے ۔چنانچہ خاکسار کو اس موقع پر بارڈر پر حضورؒ کااستقبال کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ فالحمدللہ علی ذالك۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ایک اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے موقع پر قبل ازیں حضورؒ کے قریب بیٹھنے، گفتگو کرنے اور حضورؒ کی موجودگی میں تلاوت کرنے نیز خطبہ جمعہ دینے کا موقع بھی نصیب ہوا تھا۔ مگر اب تو حضورؒ ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ اور جانشین کی حیثیت سے تشریف لارہے تھے۔ مکرم چودھری محمد شریف خالدؔ صاحب اور مکرم ہدایت اللہ ہبش صاحب بھی میرے ہمراہ حضورؒ کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھے۔ جرمنی کے بارڈر Puttgarden کے قریب ایک ریسٹورنٹ پر چند منٹ کے لیے قیام کیا۔ پھر ہمبرگ کی طرف چل پڑے۔ جب فضل عمر مسجد ہمبرگ میں پہنچے تو امیر و مشنری انچارج مکرم منصور احمد خان صاحب نے بیسیوں احباب کے ساتھ حضورؒ کا استقبال کیا۔ اس سفر میں حضورؒ کے ہمراہ حضور کی حرم حضرت سیدہ آصفہ مسعودہ بیگم صاحبہ اور آپ کی دو صاحبزادیاں تھیں اور قافلہ کے دیگر افراد بھی۔ اوسلو ناروے سے خدام کی ایک گاڑی حضورؒ کی گاڑی کو Escort کرتی آ رہی تھی۔ اس سفر میں مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب، مکرم چودھری حمید اللہ صاحب، مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب، مکرم محمود احمد شاہد صاحب بنگالی صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ، مکرم چودھری محمد انور حسین صاحب امیر ضلع شیخوپورہ اور مکرم ناصر احمد شیر بہادر صاحب سیکیورٹی انچارج کے طور پر حضورؒ کے ہمراہ تھے۔ آپؒ نے ہمبرگ میں مبلغ سلسلہ کی رہائش گاہ پر قیام فرمایا۔ دورہ کی مناسبت سے مسجد و مشن ہاؤس کی آرائش اور تزئین کی گئی تھی۔ اس خدمت میں احباب نے بڑے اشتیاق سے حصہ لیا جن میں مکرم بہادر خاں کھوکھر صاحب اور ان کی نو مبائعہ اہلیہ محترمہ حلیمہ کھوکھر صاحبہ نے خصوصی طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ہمبرگ میں حضورؒ نے مسجد فضل عمر میں مجلس عرفان منعقد کرنے کے علاوہ احباب جماعت کو انفرادی ملاقاتوں کا شرف بھی بخشا۔ اسی طرح بعض زیرِتبلیغ جرمن افراد اور افریقن احباب جماعت کے ساتھ حضورؒ کی ایک مجلس سوال و جواب بھی منعقد ہوئی۔ اس میٹنگ میں شامل ایک جرمن خاتون Frau Käthe Schindler نے چند سال بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔ دوران قیام حضورؒ ایک روز قیام گاہ سے باہر تشریف لائے اور سیر کے لیے .Hagenbeckstr پر موجود سرمائی گارڈن کے علاقہ میں جانا پسند فرمایا۔ حضورؒ نماز عشاء کے بعد پانی کا شو دیکھنے کے لیے Planten un Blomen بھی تشریف لے گئے۔ ہمبرگ میں حضورؒ نے ہوٹل کینیڈین پیسیفک پلازہ میں ایک پریس کا نفرنس میں بھی شرکت فرمائی جس میں اخبارات و ریڈیو کے پندرہ نمائندگان آئے۔ جرمنی میں تقریب آمین سے قبل حضورؒ حیدر علی صاحب ظفر سےگفتگو فرما رہے ہیں ہمبرگ میں قیام کے بعد حضورؒ فرینکفرٹ تشریف لے آئے یہاں پر دیگر پروگراموں کے علاوہ جرمنی میں حضورؒ کی موجودگی میں پہلی مجلس شوریٰ اور ایک سوال و جواب کی مجلس کا انعقاد ہوا۔ جس کے بعد مورخہ ۲۱؍ اگست ۱۹۸۲ء بروز ہفتہ حضورؒ نے اجتماعی بیعت کا شرف بخشا۔ اس موقع پر از راہ شفقت حضورؒ نے مکرم منصور احمد خان صاحب امیر و مبلغ انچارچ جرمنی اور خاکسار کو یہ سعادت عطا فرمائی کہ ہم نے براہ راست اپنے ہاتھ حضور ؒکے دست مبارک کے نیچے رکھے۔پھر حضورؒ نے بیعت کے الفاظ دہرائے۔ فالحمد لله علیٰ ذالک۔ ۱۹۸۴ء میں جب پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف انسانیت سوز قوانین بنائے گئے اور خلیفۂ وقت کا وہاں رہنا ناممکن ہو گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہجرت کر کے لندن تشریف لائے۔ ہجرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کے جو وعدے ہیں وہ جہاں پوری جماعت احمدیہ عالمگیر میں نظر آنے لگے وہاں جماعت احمدیہ جرمنی کو بھی ان سے وافر حصہ ملا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جلسہ سالانہ جرمنی کا معائنہ فرما رہے ہیں ایک بہت بڑی سعادت جو جماعت احمدیہ جرمنی کے حصے میں آئی وہ خدا کے پیارے خلیفہ کے بے شمار دورہ جات تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ۱۹۸۴ء سے ۲۰۰۱ء تک تقریباً ہر سال ہی جرمنی تشریف لاتے رہے اور بعض سالوں میں تو جماعت احمدیہ جرمنی کو دو دو بار یہ شفقت سمیٹنے کی سعادت ملی۔ ان دورہ جات میں حضور ؒنے ازراہ شفقت جلسہ ہائے سالانہ اور ذیلی تنظیموں کے نیشنل اجتماعات میں شرکت فرمائی ۔مجموعی طور پر حضورؒ نے جرمنی کے ۳۱؍دورہ جات فرمائے۔ جماعت احمدیہ جرمنی جو ستر کی دہائی میں ابھی بچے کی طرح تھی خدا تعالیٰ کے فضل اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے بار بار دوروں اور نصائح سے جلد جلد بڑھنے لگی اور اگر یہ کہا جائے کہ جماعت احمدیہ جرمنی خلافت احمدیہ کی گود میں پل کر جوان ہوئی ہے تو یہ بات غلط نہ ہو گی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جہاں جماعت احمدیہ جرمنی کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے وہاں ہمیں ہماری خامیوں اور کمزوریوں کی طرف توجہ بھی دلاتے رہے اور ہمیں ہمارے فرائض سے آگاہ فرماتے رہے جیسا کہ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا:’’دو باتیں ایسی ہیں جماعت جرمنی کی جن کی وجہ سے خصوصیت سے اس جماعت کے لیے میرے دل میں محبت بھی ہے اور دعائیں بھی نکلتی ہیں …جب بھی میں نے کوئی نیک کام کہا اتنی سنجیدگی کے ساتھ ہی اتنی محبت اور کوشش کے ساتھ ساری جماعت جت جاتی ہے کہ تناسب کے لحاظ سے مجھے اور کہیں یہ تناسب دکھائی نہیں دیتا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۴؍ مئی ۱۹۹۶ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد ۱۵ صفحہ ۴۰۸) اسی طرح ایک مرتبہ آپؒ نے فرمایا : ’’کبھی ایک دن بھی، ایک رات بھی ایسی نہیں گزری جب میں نے آپ کو، خصوصاً جرمنی کی جماعت کو ان کے ایثار کی وجہ سے اپنی دعا میں یاد نہ رکھا ہو۔ ایک رات بھی ایسی نہیں گزرتی …میں امید رکھتا ہوں کہ یہ ایثار ان شاء اللہ جرمنی کے اندر رہنے والے جرمنوں اور غیر قوموں کے دل بدل دیں گے اور احمدیت کے لیے ان کے دلوں کی راہیں صاف ہو جائیں گی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍ اگست ۱۹۹۸ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد ۱۷ صفحہ ۵۹۱) حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی شدید خواہش تھی کہ جماعت احمدیہ جرمنی تبلیغ کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھے تا کہ جرمنی کے ذریعہ پھر پوری دنیا میں اشاعت اسلام ہو سکے جیسا کہ فرمایا:’’میں پھر اس یقین کا اعادہ کرتا ہوں کہ سارے یورپ ،سارے مغرب میں میرے نزدیک اگر کوئی قوم ہے کہ جو اسلام سے وابستہ ہو جائے تو تمام دنیا پر اسلام غالب آجائے،وہ جرمن قوم ہے… اور خدا کرے کہ وہ دن ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ جب جرمن قوم کو خدا وہ فرقان عطا کرے کہ وہ تمام دنیا پر غالب آ جائے۔جس طرح صنعت کاری غالب آئی، جس طرح سائنسوں پر غالب آئی، جس طرح ادنیٰ ادنیٰ ایجادات میں غالب آ گئی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے روحانی اور نورانی طور پر بھی دنیا پر غالب آجائے‘‘۔(اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی فرمودہ۲۳؍ اگست ۱۹۹۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۶؍نومبر۱۹۹۹ء) اسی طرح نوجوانوں کو دعوت الی اللہ کی طرف متوجہ کرتےہوئے حضورؒ نے فرمایا: ’’اے احمدی نوجوانو! اے مستقبل کے محافظو! جو آئندہ دنیا میں اسلام کے فتح مند ہونے کے لیے آج خدا تعالیٰ کی طرف سے سے اس بات کے لیے مقرر کیے گئے ہو۔ آج تم اسلام کو سیکھو تا کہ آئندہ آنے والی نسلوں کو تم اسلام سکھا سکو۔ آج اسلام کے امن کو اپنی سوسائٹیوں میں راسخ کردو تاکہ آئندہ آنے والی سوسائیٹیوں کے امن کی ضمانت دے سکو…اگر تم اس مقصد میں کامیاب ہوگئے تو پھر دنیا کا مستقبل یقیناً پُرامن ہوگا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۸۶ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد ۵ صفحہ ۷۱۳) حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی جرمنی آمد کے ثمرات ۱۹۸۲ء سے ۲۰۰۱ء تک حضورؒ ۳۱؍دوروں پر جرمنی تشریف لائے۔۱۹۸۲ء یعنی خلافت رابعہ کے آغاز پر جرمنی میں دو مشن ہاؤسز ومساجد تھیں۔ خلافت رابعہ کے ابتدائی سالوں میں ہی چند ایک مساجد و مشن ہاؤسز کا افتتاح ہوا اور کئی ایک جگہیں خریدی گئیں جن پر بعد میں مساجد بن گئیں۔ کولون میں بیت النصرمرکز کا ۱۷؍ ستمبر ۱۹۸۵ء، اور ناصر باغ گروس گیراؤ مرکز کا ۲۲؍ستمبر ۱۹۸۵ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے افتتا ح فرمایا۔ بعد میں باقاعدہ مسجد بنی اس کا افتتاح بھی حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ۱۳؍ اپریل ۱۹۹۳ء کو فرمایا تھا۔(سلسلہ احمدیہ جلد چہارم،صفحہ ۱۱۶تا ۱۱۹ مرتبہ مکرم نصیر احمد قمر شائع شدہ ۲۰۲۲ء یوکے) مسجد المہدی Neufahrn München ۲۷؍اکتوبر ۱۹۸۶ء کا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ذریعہ افتتاح عمل میں آیا۔ ان کے علاوہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۹ء کو مہدی آباد Nahe، بیت المقیت فرینکفرٹ ۱۹۹۱ء، ۱۹۹۳ء میں بیت القیوم فرینکفرٹ اور بیت السلام Freinsheimجبکہ ۱۹۹۴ء میں Offenbach میں بھی ایک عمارت خریدی گئی۔ مئی ۱۹۹۵ء میں Bremerhaven میں مسجد بیت الوکیل کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا۔ Immenhausen میں جو جگہ خریدی گئی اس کا نام بیت الظفر رکھا گیا اس عمارت میں حضور خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ۱۹۹۷ء اور ۱۹۹۸ء میں قیام بھی فرمایا تھا۔ ہمبرگ میں ۱۹۹۴ء میں جو جگہ خریدی گئی اس کا نام بیت الرشید رکھا گیا اور فرینکفرٹ میں ۲۰۰۱ء میں جو جگہ خریدی گئی اس کا نام بیت السبوح رکھا گیا اور یہ جماعت کے مرکز کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ یہاں پر یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جو جگہ بھی خریدی گئی اُس میں سب سے پہلے نماز کے لیے جگہ مختص کی جاتی تھی اسی طرح مربی سلسلہ کی رہائش کے لیے ایک کوارٹر تیار کیا جاتا تھا۔(از سلسلہ احمدیہ جلد چہارم،صفحہ ۸۴ تا ۹۴) حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی عطا فرمودہ بابرکت سکیم۔۱۰۰ مساجد جلسہ سالانہ جرمنی ۱۹۸۹ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جماعت احمدیہ جرمنی کو صد سالہ جشن تشکر کے حوالے سے ملک بھر میں ایک سو مساجد تعمیر کرنے کا منصوبہ عطا فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ ’’گزشتہ سو سال کامیابی کے ساتھ گزارنے کے طور پر سو مساجد جرمنی میں بنا دیں، اظہار تشکر کے طور پر۔‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ ۵؍ جون ۱۹۸۹ء) چنانچہ جماعت جرمنی نے اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لاکھوں مارک و یورو کی قربانی پیش کی مگر کئی سال گزرنے کے بعد آپؒ کی زندگی میں یہ منصوبہ بعض قانونی اور معاشرتی رکاوٹوں کی وجہ سے پایا تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ پھر چند سال بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد بیت الحمد Wittlich اور مسجد بشارت Osnabrück مکمل ہو گئیں۔ Wittlich میں مسجد بیت الحمد میں ۵؍ جون ۲۰۰۰ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نےدورہ کیا اور رات قیام فرمایا۔ مسجد بیت الحمد میں قیام کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے Osnabrückمیں اپنے ایک سفر میں نمازیں بھی ادا کیں۔ تا ہم اس کا باقاعدہ افتتاح بعد میں ہوا۔ مسجد بیت المومن میونسٹر کا حضورؒ نے ۳۱؍ اگست ۲۰۰۰ء کو سنگ بنیاد رکھا تھا۔ ان سب مواقع پر حضورؒ نے جرمنی کا سفراختیار کیا۔ علاوہ ازیں Bremen۔ Darmstadt۔Koblenz میں مساجد کا سنگ بنیاد خلافت رابعہ کے آخری سالوں میں رکھ دیا گیا تھا۔ جبکہ Kiel، Riedstadt، Offenbach Bensheim, Hannover, Würzburg اور Usingen کے لیے قطعات زمین خریدے جا چکے تھے۔ Offenbach میں یہ پلاٹ بیت الجامع کے لیے خریدا گیا تھا۔ ان سب پلاٹوں کی خریداری کی منظوری حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے عطا فرمائی تھی۔ تا ہم ان جگہوں پر مساجد کی تعمیر عہد خلافت خامسہ میں ہوئی۔ یہ کام بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ جرمنی میں مساجد کی تعمیر کی یاد دہانی ۱۹۹۷ء میں حضورؒ نے جرمنی کا جو دورہ فرمایا اس میں ۲۳؍ مئی کو جرمنی میں سو مساجد کی تعمیر کے منصوبہ کی تکمیل کے لیے تحریک کرتے ہوئے فرمایا: ’’کوشش کریں کہ اس صدی کے آخر تک یعنی آخری سال تک جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک سو مساجد جرمنی میں بنائی جا چکی ہوں یا ان کی زمینیں لے لی گئی ہوں اور ان پر خواہ ایک جھونپڑا بنا کر اور مینار کا سیمبل (Symbol) بنا دیں۔‘‘ (سلسلہ احمدیہ جلد چہارم، صفحہ ۵۵۶) خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت جرمنی نے بہت مستعدی اور سرعت سے اس منصوبے کے لیے قربانی کی اور کر رہی ہے چنانچہ حضورؒ کی وفات تک تیس مساجد، مشن ہاؤسز، مراکز تبلیغ کے لیے عمارات یا قطعات زمین حاصل کیے جا چکے ہیں اور خلافت خامسہ میں یہ سلسلہ بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔(سلسلہ احمدیہ جلد چہارم، صفحہ ۵۵۶) خلفائے مسیح موعودؑ کی جرمنی آمد اور ان کے شیریں ثمرات کے تعلق میں مساجد کی تعمیر کا بیان ہو چکا ہے۔ مالی قربانیوں کے میدان میں جماعت احمدیہ جرمنی روز بروز ترقی کر رہی ہے یہ بھی خلفاء مسیح موعودؑ کے پے در پے جرمنی کے دَوروں کا نتیجہ ہے۔ جماعت جرمنی کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خلافت احمدیہ کے تابع ہر دور میں جماعت احمدیہ جرمنی نے مالی قربانی میں مسلسل آگے قدم بڑھایا اور نئے ارفع و اعلیٰ معیار قائم ہوئے اور اس قدرمالی قربانی پیش کی جس کو احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ خلفائے احمدیت کے جرمنی کے سفر اور پھر ان کے دوران جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونا اور یہاں کے احمدیوں کی تربیت و تبلیغ کے میدان میں آگے بڑھنے کی جو تحریکیں کیں اس کے نتیجے میں یہاں پر ایک منظّم جماعت ہے۔ بیرون پاکستان جس نے ربوہ، قادیان کی جماعتوں کی جھلک دیکھنی ہو اور نظام دیکھنا ہو وہ یہاں پربھی بخوبی دیکھ سکتا ہے کیونکہ خلفاء ہماری غلطیوں کی اصلاح فرماتے رہے ہیں۔ اب جلسوں کے نظام کو دیکھ لیں مرکزی روایات کے مطابق قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خلفاء نے جلسہ کے انتظامات کے معائنہ کے موقع پر نہ صرف ذاتی طور پر براہ راست راہنمائی فرمائی بلکہ مسلسل اس بارے میں افراد جماعت کی تربیت کے لیے عملی اقدامات فرمائے۔ خاکسار کو محض خدا تعالیٰ کے فضل سے جرمنی میں تین خلفاء کے دورہ جات کے دوران ان کے قرب میں رہنے کا موقع ملا ہے۔ ہر وہ شخص جو ان دوروں کے دوران خلیفۃ المسیح کی بابرکت صحبت اور آپ کی زیارت و ملاقات سے مشرف ہوتا ہے وہ ایک نیا جذبہ لے کر جاتا ہے اس کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ ہجرت کے بعد آپؒ نے یورپ کے مختلف ممالک کے متعد د سفر اختیار فرمائے۔ بالخصوص جرمنی کو یہ سعادت ملی کہ آپ قریباً ہر سال ان کے اجتماعات اور سالانہ جلسوں میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور اپنے خطابات سے نوازتے تھے۔ سلسلہ احمدیہ جلد چہارم میں فاضل مصنف حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے متعلق لکھتے ہیں:’’آپؒ نے ۲۱ سالہ دور خلافت کے دوران جرمنی کے ۳۱ دورہ جات فرمائے۔ ہزاروں افراد نے آپ سے انفرادی یا اجتماعی ملاقاتیں کیں اور براہ راست خلافت کی برکات سے حصہ پایا۔ افراد جماعت کے ساتھ اور غیروں کے ساتھ متعدد مجالس عرفان، مجالس سوال و جواب منعقد کیں۔ جرمن، البانین، بوسنین، ترک، عرب اور میسیڈونین اقوام کے افراد کے ساتھ خصوصی نشستیں منعقد ہوئیں۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں ۱۵۰ سے زائد ایسے تبلیغی پروگرام حضور رحمہ اللہ کے ساتھ منعقد ہوئے۔ علاوہ ازیں ریڈیو، ٹی وی انٹرویوز، پریس کانفرنسز، دانشوروں، ججز، وکلاء، پروفیسرز، سرکاری عہدیداران، مختلف ممالک کے سفراء، قونصل جنرل اور مذہبی راہنماؤں سے مختلف مواقع پر متعدد ملاقاتیں کیں۔ آپ کی نگرانی و تربیت کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ جرمنی بڑی تیزی سے اپنے اخلاص، فدائیت اور قربانی میں ترقی کرتے ہوئے ایک مضبوط، فعال اور مستحکم جماعت بنی اور اس نے یورپ کے کئی دوسرے ممالک میں جماعت کے نفوذ اور اس کے قیام و استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا‘‘۔ (سلسلہ احمدیہ جلد چہارم، صفحہ ۶۹۴ مرتبہ مکرم نصیر احمد قمر شائع شدہ ۲۰۲۲ء یوکے) (جاری ہے) (حیدر علی ظفرؔ ۔ سابق مبلغ انچارج جرمنی) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلفاء حضرت مسیح موعودؑ کی جرمنی آمد اور اس کے ثمرات(قسط اوّل)