https://youtu.be/110JgL45lqQ (خاکسارکی ہمشیرہ عزیزہ نوشابہ مبارک اہلیہ مکرم جلیس احمد صاحب مربی سلسلہ(احمدیہ مسلم آرکائیوز اینڈ ریسرچ سنٹر) گذشتہ سال فروری میں ربوہ سے لندن واپس جانے کے لیے ایئرپورٹ جاتے ہوئے کار حادثے میں وفات پاگئی تھیں۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم سب لواحقین کو صبرِ جمیل سے نوازے۔ آمین) اِنَّ لِلّٰہِ مَاأَخَذَ وَلَہٗ مَاأَعْطٰی، وَکُلُّ شَیْ ٍٔ عِنْدَہ بِأَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِب (صحیح البخاری، کتاب القدر باب وکان امراللہ قدرًا مقدورًا،) اللہ ہی کا ہے جو کچھ اس نے لے لیا اور جو کچھ دیا وہ بھی اسی کا ہے، اور اس کے ہاں ہر چیز کا وقت متعین ہے، آپ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں۔ موت،ایک اٹل حقیقت ہے،یہ دنیاوی زندگی کی ایک حتمی منزل ہے،یہ مومن کے لیے وصال الٰہی اور جنت کا دروازہ ہوتی ہے۔موت کی حقیقت کچھ بھی ہو، لیکن یہ زندوں اور مردوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دیتی ہے، اور اسی وجہ سے موت پر غم ایک فطری امر ہے۔ اللہ کے رسول ﷺکے پیارے بیٹے حضرت ابراہیم ؓکا انتقال ہوا،تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ بھی رورہے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایاکہ یہ تو رحمت ہے، کسی کی موت پر آنسو جاری ہونا اورغم کا ہونا یہ فطری چیز ہے،اس پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا، مگر مسلمان کا غم دنیا کی تمام دوسری قوموں کے غم سے مختلف ہے، اس لیےکہ مسلمان اس کائنات اور کائنات سے ماوراء کے متعلق ایک خاص نظریہ اور تصور رکھتا ہے، وہ موت کو زندگی کا خاتمہ نہیں سمجھتا، بلکہ ایک نئی زندگی کا آغاز سمجھتا ہے۔ حکایت ہستی کے دوہی اہم واقعات ہیں،پیدائش اور موت۔ہر آنے والی صبح اور ڈھلتی ہوئی شام ہمیں یہی خبر دیتی ہے، آنے جانے کا یہ سلسلہ روز اوّل سے ہی جاری ہے، لیکن ان ہی جانے والوں میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے وداع سے آنکھیں اشک بار اور دل بےقرار ہوجاتا ہے،جن کے رخصت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلا شاید كبھى پُر نہ ہوسكے، اور جب وہ رخصت ہونے والا اپنا ہو، اپنا خون ہو، جس كے ساتھ جانے كتنى ہى یادیں وابستہ ہوں،جس کی موت کا صدمہ خود موت جیسا تکلیف دہ ہو، اور جس کے لیے غموں کے پل صدیوں پر محیط ہو جاتے ہوں تو ظاہر ہے ایسی متاسف کن خبرکےاثر کااندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا ہی ایک وقت اور گھڑی ہم سب پر بھی وارد ہوئی۔ گھر سے تو ہم نے اپنی چھوٹی ہمشیرہ عزیزہ نوشابہ مبارک کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا مگر خدائی تقدیر ہمیشہ سے ہی غالب آتی ہے۔عزیزہ نے اس روز لندن اپنے گھر واپس جانا تھا۔ صبح اٹھتے ہی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد اپنے وفات یافتہ بزرگان کی قبروں کی زیارت اور دعا کی غرض سے بہشتی مقبرہ گئی اور جانے سے قبل اپنی خالہ سے کیا ہوا وعدہ بھی پورا کیا کہ ’’خالہ جی! میں جانے سے قبل پھر آپ سے مل کر جاؤں گی۔‘‘ گھر آ کر روانگی کی تیاری میں مشغول رہی اور گھر پر تمام بہن بھائی اور سب بچے جمع تھے کہ آج خالہ؍ پھوپھو نے واپس اپنے گھر چلے جانا ہے تو اس کے ساتھ مل لیں۔ (ہمیں کیا معلوم تھا کہ اس نے اپنے ابدی گھر کی طرف لوٹ جانا ہے۔) والدین کے گھر میں اس دن خوب چہل پہل تھی۔ سہ پہر تقریباً ۵بجے عزیزہ نوشابہ اور جلیس احمد کو سب نے گھر سے دعا کے ساتھ رخصت کیا اور سب اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول ہو گئے۔ شام ساڑھے چھ بجے تک خاکسار بذریعہ فون ان سے مسلسل رابطہ میں رہا مگر کچھ دیر بعد ان کو میسجز کیے کالز کیں، کسی سے بھی کوئی رابطہ نہ ہو پا رہا تھا۔ اسی دوران خاکسار کی بھابھی محترمہ کا اچانک بلڈ پریشر گرا۔ خاکسار بھی پریشانی میں ان سے رابطہ کی کوشش کرتا رہا مگر رابطہ نہ ہوسکا۔ ڈرائیور کو کال کی تو اس نے بھی چند منٹ بعد کال کرنے کا کہا تو ساتھ ہی چھوٹے بھائی عزیزم کامران شاہد کی کال آ گئی کہ ہمارا حادثہ ہو گیا ہے اور نوشابہ کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ میں سنتے ہی باہر نکلا اور والدین کو تسلی دی کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ خاکسار، بھائی اور بہنوئی نے فوراً چلنے کی تیاری کی، دل اندر ہی اندر ڈوب رہا تھا اور سفر تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔سفر کیسے ختم ہو؟ ناقابل بیان، ناقابل برداشت، آنکھیں اشک بار اور زبان پہ دعائیں جاری تھیں۔ راستہ میں مسلسل جلیس احمد کو رابطہ کرنے کی کوشش مگر ہر دفعہ ناکامی، اور دل میں عجیب و غریب خدشات جنم لے رہے تھے۔ ہم ابھی پنڈی بھٹیاں نہیں پہنچے تھے کہ عزیزہ کی وفات کی خبر سنی جس پر یقین کرنے کو دل نہ کرے، کہ ابھی تو ہم نے اپنی بہن کو اپنے گھر کے لیے روانہ کیا تھا، خوب تیاری کی تھی عزیزہ نے اپنے گھر جانے کی۔ رات اپنی بھابھی سے مہندی لگوائی کہ صبح اپنے گھر جاؤں گی۔ ماما، بابا سے ملوں گی۔ کیا کیا خواب دیکھے کہ پھر ان شاء اللہ زیادہ دیر کے لیے میں رہنے آؤں گی اور سب رشتہ داروں سے خوب باتیں کریں گے …۔ خاکسار اب جب کہ ایک سال بعد بھی ہمت کرکے کچھ لکھنے بیٹھا ہے تو آنکھیں بھیگ گئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ایک حسین تحفہ جو ہم سے جدا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ سے دعاہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے برگزیدہ نبی پاک حضرت محمد ﷺ کا قرب عطا فرمایا ہوگا۔ الفاظ جذبات كا روپ دھاریں یا جذبات الفاظ كا،اس كیفیت سے آپ سب اچھى طرح واقف ہىں۔بہر حال، ٹوٹے پھوٹے سے الفاظ كے ساتھ كچھ یادیں، کچھ باتیں قلمبند كرنے کی كوشش كروں گا۔ عزیزہ نوشابہ مبارک اہلیہ مکرم جلیس احمد صاحب ہماری چھوٹی بہن تھی اور شادی کے بعد پہلی دفعہ پاکستان آئی تھی۔ جب وہ پاکستان آئی ہمارے بچوں کو بہت پیار دیا۔چھوٹی ہونے کے ناطہ سے وہ ہماری بہت لاڈلی بہن تھی۔ اور ہمیں بھی اس سے بےحد پیار، محبت و الفت تھی۔ عزیزہ نوشابہ مبارک صوم و صلوٰۃ کی پابند، شفیق، رحم دل شخصیت کی مالک اور انتہائی مہمان نواز تھی۔ پاکستان آ کر بھی سفر و حضر میں نماز کو ادا کرنے میں کبھی کوتاہی نہ کی۔ بلکہ اگر سفر میں کہیں نماز بھول بھی گئیں تو گھر پہنچتے ہی نماز ادا کرتی اور ساتھ سفر کرنے والوں کو بھی نماز ادا کرنے کا کہتی۔ عزیزہ تلاوت قرآن مجید کا لازماً اہتمام کرتی اور روزانہ بعد از نماز فجر تلاوت لازمی کرتی اور رمضان المبارک میں تلاوت کا خصوصاً اہتمام کرتی تھی اور ہر رمضان میں تین سے چار دفعہ قرآن مجید کا دَور مکمل کرتی تھی۔ جب پاکستان سے واپس جانا تھا تو کہہ رہی تھی اس دفعہ ہم نے رمضان المبارک میں گھر میں ایک خاص مقام بنانا ہے جہاں رمضان میں عبادات کیا کریں گے۔ مہمان نوازی کا یہ وصف تھا کہ جب بھی مہمان گھر آنے ہوتے ان کے لیے خوب کھانے تیار کرتی اور ہر قسم کی مہمان نوازی سلیقہ سے کرتی۔ والدہ زیب النساء صاحبہ بتاتی ہیں کہ جب بھی اپنے دوستوں کو دعوت پر بلاتی تو قسمہا قسم کے پکوان تیار کرتی۔ میں اسے سمجھاتی بھی رہتی کہ تمہارے خاوند مربی سلسلہ ہیں اس لیے کچھ بچت بھی کرو اور ان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالا کرو۔ مگر وہ کہتی کہ جلیس احمد نے خود کہا ہے کہ مہمان نوازی میں کسی بھی قسم کا سقم نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں پاکستان بھی آ کر تمام رشتہ داروں سے انتہائی محبت، پیار اور شفقت سے ملی۔ جو بھی ان سے ملنے آتا ان کو چائے پیش کیے بغیر روانہ نہ ہونے دیتی۔ جس کے گھر بھی ملنے کے لیے گئی کوئی نہ کوئی تحفہ لازمی ساتھ لے کر گئی۔ خاکسار نے ان کو معمولی سی رقم بطور تحفہ پیش کی مگر کہتی ہیں بھائی آپ خود بھی بیمار ہیں اور ادویات کھا رہے ہیں تو رہنے دیں بس اپنی دعائیں اور شفقتیں مجھے دیتے رہیں۔ خاکسار اور اہلیہ کے بہت اسرار پر وہ تحفہ لینے پر رضامند ہوئیں۔ جب عزیزہ لندن سے تشریف لائیں تو سب بہن بھائیوں، بھتیجے، بھتیجیوں، بھانجے اور بھانجیوں کے لیے قسمہا قسم کے تحائف لے کر آئیں۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا بہت شوق تھا۔ لندن سے روانہ ہونے سےدو ماہ قبل ہی عزیزہ نوشابہ نے وصیت فارم مکمل کر کے دفتر وصیت جمع کروایا تھا۔ ایک دن خاکسار ان کے ساتھ بازار گیا اور جیولر سے ایک گولڈ کی نوز پن(لونگ) خریدی جس کی قیمت میرے خیال میں بتیس صد، یا چھتیس صد تھی تو اپنے خاوند سے کہتی ہیں ’’جلیس ہم نے واپس جاتے ہی یہ(نوزپن) بھی اپنی وصیت میں لکھوانی ہیں۔‘‘ میں نے کہا یہی مربی سلسلہ کی بیوی کا شیوہ ہونا چاہیے کہ ہر وقت خدا تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدے کو نبھانا چاہیے۔ اللہ کرے کہ ان کی وصیت اللہ تعالیٰ کے حضور بھی قبول ومنظور ہو۔(آمین)۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےقبول فرمائی اور وفات کے بعد عزیزہ کی وصیت منظور فرما لی۔ خاکسار کے بہنوئی مکرم جلیس احمد صاحب بھی اپنی بیوی سے بے انتہا محبت کرتے تھےاس کی مثال جو میرے سامنے آئی۔ جب ان کا حادثہ ہوا اور ایمبولینس کے ذریعہ ان کو پنڈی بھٹیاں ہسپتال لایا گیا۔ تو مجھے کسی سے موبائل لے کر کال کی کہ بھائی جلدی پہنچیں۔ نوشابہ کو دیکھیں۔ جب خاکسار اور بھائی وغیرہ ہسپتال پہنچے تو مکرم جلیس احمد صاحب کے ماتھے پر چوٹ لگی ہوئی تھی۔ مگر انہوں نے ابتدائی طبی امداد اور پٹی کروانے سے اجتناب کیا کہ جب تک ان کی بیوی کے پاس کوئی آ نہ جائے وہ کہیں نہیں جائیں گے۔ خاکسار نے جاتے ہی ان کو مل کر حوصلہ دینے کی کوشش کی اور کہا کہ میں نوشابہ کے پاس ہوں آپ جائیں اور مرہم پٹی کروا کر آئیں۔ پھر جلیس احمد گئے اور پٹی کروا کر آئے۔ اللہ تعالیٰ خاکسار کے بہنوئی مکرم جلیس احمد صاحب کو بھی صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین عزیزہ نوشابہ نے ربوہ آ کر والدین کی بہت خدمت کی۔ ایک روز والدہ صاحبہ کو بخار اور جسم میں درد تھا۔ ان کو رات کو کوئی کام نہ کرنے دیا اور کہا کہ لیٹ جائیں اور آرام کریں۔ خود ان کے لیے انڈا اور چائے تیار کی اور ان کو ساتھ ادویات دیں۔ عزیزہ نے والدہ کے ساتھ ہر کام میں بھرپور انداز میں تعاون کیا۔ اتنی خدمت کی کہ ہمیں اس پر رشک آتا ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ اور فرشتے ان سے یہ کام کروا رہے تھے کہ ان کا یہ آخری سفر ہونا تھا۔ خلافت احمدیہ سے انتہائی عقیدت و احترام کا تعلق تھا۔ ہمیشہ نصیحت کرتیں کہ اپنی دعاؤں میں خلیفۃ المسیح کو یاد رکھیں اور کوئی بھی پریشانی ہو، کوئی بھی خوشی کی بات ہو، حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خط لکھنے کی تلقین کرتی۔ خلیفۃ المسیح کے وقت کا اتنا احترام کرتی تھی کہ بہنوئی جلیس احمد نے بتایا کہ ایک روز ہماری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات تھی اور نوشابہ کو کولہے میں درد کی وجہ سے میرے کندھے یا بیساکھی کی ضرورت ہوتی۔ ہم حضورِانور سے ملاقات کے لیے کمرے میں داخل ہوئے تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے تو نوشابہ کے ہاتھوں میں ایک سختی میں نے اپنے کندھے پر محسوس کی اور ساتھ ہی اس کے پاؤں کی رفتار میں تیزی دیکھی کہ کہیں خلیفۃ المسیح کے وقت کا ضیاع نہ ہو۔ اور جلدی جلدی اپنے پیارے آقا کی خدمت میں عقیدت بھرا سلام پیش کر سکے۔ دنیا کی چکا چوند سے وہ کبھی متاثر نہیں ہوئی، آج کی تیزرفتار دنیا جہاں ہر کوئی زیادہ سے زیادہ اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، وہ دنیا کی تمام آسائشوں ا ور لوازمات کی حرص سے خود کو حتی الامکان دور رکھتی تھیں۔ خودداری عزیزہ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی، کوئی چیز بھی لینا پسند نہیں کرتی تھی، اگر ہم لوگ کچھ دیتے تو وہ دوسرے طریقے سے اس کو لوٹانے کی پوری پوری کوشش کیا کرتی۔کسی کام کو بھی چھوٹا اور حقیر نہیں سمجھتی تھی، جس کسی کے گھر جاتی خود آگے بڑھ کر کام کیا کرتی، رشتہ داروں عزیز و اقارب کسی سے کوئی شکوہ نہیں،اگر کوئی بات ناگوار بھی لگتی تو بس خاموش ہو جایا کرتی، کبھی کسی بات پر اس نے تکرار کیا ہی نہیں۔ عزیزہ کی ازدواجی زندگی الحمدللہ قابل اطمینان تھی۔جلیس (اپنے شوہر) کا بہت خیال رکھتی تھی، دنیا سے زیادہ ان کی عاقبت کے لیےفکرمند رہتی،صبح سویرے ان کو نماز کے لیے جگاتی تاکہ ان کی جماعت نہ چھوٹنے پائے۔ان کی نماز با جماعت کی ادائیگی کے لیے بہت زیادہ متفکر رہتی،اپنے شوہر کو گھر سے بھیجتے ہوئے فی امان اللہ! کہتی۔ عزیزہ نے اپنی ذمہ داریاں لوگوں کی تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے باَحسن و خوبی انجام دیں۔ اپنے شوہر کو بھی ان کے والدین اور اہل خانہ کے حقوق کی جانب توجہ دلایا کرتی، اور خود بھی تعلق با للہ کی اہمیت کےساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے پوری طرح سرگرم عمل رہتی اور دوسروں کو بھی تلقین کرتی۔ عزیزہ نوشابہ مبارک کو بچپن سے جماعتی خدمت کا بہت شوق تھا۔ گاؤں پیر کوٹ ثانی ضلع حافظ آباد میں والدہ محترمہ کو تقریباً چھ سال بطور صدر لجنہ خدمت کی توفیق ملی۔ اس دوران والدہ صاحبہ کے ساتھ جماعتی خدمت کو اپنا فرض سمجھ کر ادا کیا۔ جب بھی والدہ صاحبہ دورہ کے لیے مختلف گھروں میں جاتیں تو عزیزہ ساتھ کاپی، پینسل سے نوٹ کرتی اور رپورٹس تیار کرنے میں مدد کرتی۔ عزیزہ کی وفات پر گاؤں سے لجنہ ایک کثیر تعداد میں تعزیت کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ ایک لجنہ ممبر اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’اپنی والدہ کے ساتھ سردی گرمی میں اس نے ماشاء اللہ بہت خدمت کی اور جب بھی ہمارے گھر آئی بہت پیار، محبت اور حسن سلوک سے پیش آتی، بات کرنے کا سلیقہ، اندازِ گفتگو بہت نرم و ملاطفت والا ہوتا تھا۔ بڑوں کے ساتھ ہمیشہ ادب سے بات کرتی اور بچوں سے شفقت سے پیش آتی۔ ‘‘ خاکسارکا دوران تدریس جامعہ احمدیہ جب بھی رخصت پر گاؤں جانا ہوتا تو بچوں کے لیے یسرنا القرآن یا کچھ جماعتی کتب خریدنے کا کہتی کہ بچوں کو یہ یہ چیزیں چاہئیںآتے ہوئے ساتھ لے کر آئیں۔ مجلس اور ضلع کی سطح پر اجتماعات میں مسلسل حصہ لیتی رہتی اور بہت سارے انعامات لے کر گھر لوٹتی اور بہت شوق سے بتاتی کہ اجتماع میں بہت مزہ آیا۔ پاکستان میں حالات کی وجہ سے اجتماعات پر مختلف اوقات میں پابندی کی وجہ سے بہت دکھی ہوتی۔ جب یوکے گئي تو اجتماعات، چیریٹی واکس میں شمولیت اور پھر ان میں مختلف اوقات میں ڈیوٹی کے لیے بھی حاضر ہوتی۔ جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۳ء کے موقع پر ڈیوٹی دینے کا موقع ملا اور اس دوران بھی مسلسل بتانا کہ آج جلسہ میں یہ یہ کیا۔ ڈیوٹیز دینے کا بہت شوق تھا الحمدللہ ،اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ خواہش بھی پوری کی اور خلیفۃ المسیح سے ملاقات اور جلسہ سالانہ کی برکات کو بھی سمیٹنے کا موقع خدا تعالیٰ نے عنایت فرمایا۔ عزیزہ کی وفات کے بعد برطانیہ سے اس کی دوستوں کی تعزیت کے لیے کالز آئیں۔ وہ بھی والدہ صاحبہ کو بتاتی ہیں کہ نوشابہ بہت اچھی اور ملنسار تھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ عزیزہ کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔ جنت الفردوس کا وارث بنائے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب عطا فرمائے۔آمین خاکساراپنے مضمون کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات پر ختم کرتا ہے۔ آپ نے مرحومہ کا ذکر خیر فرماتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ ۲۰۲۴ء میں فرمایا: ’’عزیزہ نوشابہ مبارک اہلیہ عزیزم جلیس احمد مربی سلسلہ جو یہیں شعبہ آرکائیو میں اور الحکم میں ہیں، ان کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں پاکستان سے واپس آتے ہوئے ربوہ اور لاہور کے درمیان ایک حادثے کا شکار ہو گئیں اور ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔ ان کے پسماندگان میں میاں اور والدین کے علاوہ چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ مرحومہ کی وصیت کی کارروائی ہو رہی تھی کہ اچانک وفات ہوگئی۔ بہر حال وہ کارروائی تو ہو رہی ہے، ان شاء اللہ وصیت تو ان کی ہو جائے گی۔ اس لحاظ سے موصیہ ہیں۔ ان کے میاں عزیزم جلیس احمد لکھتے ہیں کہ خاکسار اللہ کا شکر گزار ہے کہ اللہ نے خاکسار کو ایک ایسی بیوی سے نوازا جو بہت سی خوبیوں کی مالک تھی۔ اس نے واقف زندگی سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہمیشہ مذہب کو ترجیح دی۔ ایک بار بھی مجھ سے کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ ہمیشہ دوسروں کے لیے خوشی کا باعث بنتی تھی۔جماعت میں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ اسسٹنٹ سیکرٹری مال اور اسسٹنٹ سیکرٹری وصیت کے طور پر معاونت کی۔ بہت محنتی اور لگن سے کام کرتی تھی۔ کہتے ہیں میرے کام میں بھی میری مدد کی۔ کبھی میرے جماعتی کام میں اعتراض نہیں کیا۔ اس نے کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ درحقیقت وہ وقف کی روح کو صحیح معنوں میں سمجھتی تھی۔ ہر رمضان میں کم از کم تین بار اور کبھی کبھی چار بار قرآن پاک کا دَور ترجمہ کے ساتھ مکمل کرتی تھی۔ خلافت کے لیے گہری عزت اور محبت رکھتی تھی۔ ان کی والدہ زیب النساء صاحبہ کہتی ہیں۔ مرحومہ میری سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ سب سے بہت پیار کرنےوالی اور ملنسار بچی تھی۔ ہم سب کو بہت پیار دیا۔ میرے سب بچوں میں زیادہ سمجھدار تھی۔ صوم وصلوٰۃ کی پابند تھی۔ جماعتی کاموں میں سب سے آگے آگے رہتی تھی۔ حافظ آباد کے گاؤں پیرکوٹ ثانی میں مَیں صدر لجنہ تھی تو کام میں بہت مدد کرتی تھی۔ ربوہ آ کر بھی جماعتی کاموں میں مدد کی۔ کامران شاہد بھائی ہیں، کہتے ہیں مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں نظام الدین صاحب بافندہ کی پڑپوتی تھی۔ بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنے والی اور سب سے پیار کرنے والی تھی۔ اور خلافت کے ساتھ انتہائی اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے۔ سب کو، ان کے والدین کو بھی اور خاوند کو بھی اور عزیزوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔‘‘آمین(روزنامہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍مارچ۲۰۲۴ء) (ابوعالیان) ٭…٭…٭