https://youtu.be/AhU4qTxlO0Y جب والدین سمارٹ فون اور دیگر انٹرنیٹ سے منسلک ڈیوائسز جین زی کے ہاتھوں میں تھماتے ہیں، تو یہ مجرمانہ غفلت مریخ پر جانے کی ٹکٹ ثابت ہوتی ہے (یہ مضمون گذشتہ مضمون’’شہرِ آسیب میں ایک شام‘‘ کی دوسری کڑی ہے۔دیکھیے الفضل انٹرنیشنل۴؍اگست ۲۰۲۵ء) دنیائے اردو ادب کی قد آور و ممتاز شخصیت عبداللہ حسین تقسیمِ ہند کے اردگرد پروان چڑھنے والی نسلوں کی سماجی، سیاسی اور نفسیاتی اکائیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور اُدھیڑ پن کا نقشہ اپنے شہرہ آفاق ناول ’اداس نسلیں‘ میں کھینچتے ہیں۔ یہ ان نسلوں کی داستانِ الم ہے جو ہجرت کے پُرتشدد اور بھیانک لمحات سے گزر کر تنہائی، اداسی اور اضطراب کا شکار ہو گئیں۔ ان کے لیے ماضی دردناک تھا، حال بے چین اور مستقبل غیر مستحکم۔ یہ نسلیں غم زدہ، بے سکون اور خوف زدہ تھیں۔ ان نسلوں کی کہانیوں میں عدم تحفظ، بے یقینی اور افسردگی کے طویل باب کھلتے تھے۔ لیکن ذرا ٹھہریے! سمارٹ فون، سائبر ورلڈ اور سوشل میڈیا کے نقصانات کے تناظر میں عبداللہ حسین کا ذکر کہاں ٹھیک بیٹھتا ہے؟ عبداللہ حسین کے زمانے میں تو لوگ اخبار بینی کرتے تھے، ریڈیو سننے کا شوق رکھتے تھے اور گراموفون پر بجتی دھنوں پر سر دھنتے تھے۔ ٹیلی ویژن تو ابھی ملک کے کونے کونے پر چھا جانے سے پہلے بستر پر پڑا انگڑائیاں لے رہا تھا۔ موبائل فون کی سکرین کی داستان کا تو داستانوں میں بھی کوئی ذکر نہ ملتا تھا۔ دھیمی دھیمی لَے کی طرح گزرتے اس زمانے میں عبداللہ حسین جیسا ناول نگاررات کے پچھلے پہر اپنے کمرے میں میز پر جھکا کہانی کے باغی کرداروں کو قلم کی نوک سے ہانکتا ہوگا۔ مضبوط لکڑی کی بڑی میز پر کہانی کار کی تخیلاتی دنیا کو جذب کیے ہوئے کاغذوں کے ڈھیر کے پاس جاپانی ساختہ سیکو گھڑی سہمی سی پڑی ہوگی اور لالٹین، قلمدان، مٹی کا گلدان اور ایک چائے کا کپ بھی اس میز پر سجی سلطنت کے باسی ہوں گے۔ اس زمانے کی راتیں گہرے سکوت کے طویل وقفوں میں منقسم ہوتی تھیں۔ کبھی گھر لوٹتے کوچوان کے تھکے ماندے گھوڑے کی ہنہناہٹ خاموشی کے تالاب میں کنکر بن کر کودتی تھی، تو کبھی کوئی نو دولتیا اپنی نئی موٹر کار کے ہارن سے سکون کے پردوں کو جھنجھوڑ دیتا تھا، لیکن پھر خاموشی ہر شے کو اپنی آغوش میں کھینچ لیتی تھی اور لکھاری واپس سر جھکا کر سرکش کرداروں کی مدھم بھاگ دوڑ میں کھو جاتا تھا۔ ہلکی سی آنچ پر سلگتی ان راتوں کے بطن سے عبداللہ حسین کی ’اداس نسلیں‘ جنم لیتی ہیں۔ عبداللہ حسین کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جو اپنے عہد کے اردگرد پھلنے پھولنے والی نسلوں کا ذہنی، سماجی، سیاسی اور نفسیاتی پوسٹ مارٹم کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ وہ ان اہم امور پر قلم اٹھاتے ہیں کہ کیوں ذہنی صلاحیتوں کا تنزل واقع ہو رہا ہے، کیوں سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کیوں نسلیں اخلاقی گراوٹ کی پستیوں میں جا گری ہیں، کیوں ماضی کی اچھی روایات اب قصۂ پارینہ بن چکی ہیں، کیوں نئی نسلوں اور بڑوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے، اور سماجی، سیاسی، علمی اور سائنسی تغیرات نئی نسلوں پر کس قدر گہرے اور وسیع اثرات ڈال رہے ہیں۔ امریکی سماجی ماہر نفسیات اور تحقیق دان جوناتھن ہائیٹ مغربی دنیا کے عبداللہ حسین ہیں، لیکن اردو ادب کے عبداللہ حسین اور مغرب کے عبداللہ حسین میں ایک بنیادی فرق ہے۔ عبداللہ حسین نے نسلوں کی اداسی کو فکشن اور ناول میں ڈھال کر پیش کیا، جبکہ جوناتھن ہائیٹ نے ڈیٹا، نفسیات اور تحقیق کی مدد سے جین زی کے نفسیاتی اور سماجی مسائل کا گہرا و دقیق تجزیہ اپنی کتاب ‘‘Anxious Generation’’ میں پیش کیا۔ جین زی کے نفسیاتی عارضوں، سماجی مسائل اور اخلاقی تنزلی کا پوسٹ مارٹم کرنے سے پہلے جوناتھن ہائیٹ والدین سے ایک دلچسپ سوال پوچھتے ہیں: فرض کریں ایک کمپنی آپ کے دس سالہ بچے کو مریخ پر لے جا کر بسانا چاہتی ہے، تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟ شاید آپ سوچیں کہ کمپنی کا منصوبہ اتنا برا بھی نہیں، کیونکہ بچوں اور نو بالغوں میں نئے ماحول کے مطابق ڈھل جانے کی صلاحیت بڑوں سے زیادہ ہوتی ہے، اور زمین کے بگڑتے ہوئے غیر مستحکم حالات سے بہتر ہے کہ بچے مریخ کے پرسکون ماحول میں جا بسیں۔ لیکن جب آپ کو معلوم ہو کہ مریخ کی آب و ہوا اور ماحول بچوں اور نو بالغوں کے لیے انتہائی خطرناک اور جان لیوا ہے، تابکاری کے باعث ان کے خلیوں میں تغیر سے کینسر پیدا ہو سکتا ہے، ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں تنزل کا شکار ہو سکتی ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کمپنی نے بچوں کی حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا، اور وہ بچوں کی نشوونما کے بارے میں کچھ نہیں جانتی، تو کیا آپ اپنے دس سالہ بچے کو مریخ پر بھیجیں گے؟ ایک اور فکر انگیز بات یہ ہے کہ کمپنی نے والدین کی اجازت کی کوئی شرط نہیں رکھی۔ اگر کوئی بچہ اپنی مرضی سے جانا چاہتا ہے، تو کمپنی کو کوئی اعتراض نہیں، اور والدین کمپنی کے خلاف کسی قانونی چارہ جوئی کا حق بھی نہیں رکھتے۔ یعنی اگر کوئی بچہ والدین کی مرضی کے برخلاف مریخ پر چلا جاتا ہے، تو والدین بے بس ہیں۔ کیا یہ والدین کے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ جب والدین سمارٹ فون اور دیگر انٹرنیٹ سے منسلک ڈیوائسز جین زی کے ہاتھوں میں تھماتے ہیں، تو یہ مجرمانہ غفلت مریخ پر جانے کی ٹکٹ ثابت ہوتی ہے۔ جین زی ایک اجنبی سیارے پر بلا روک ٹوک دوڑتے ہیں، ٹھوکر لگتی ہے تو سرخ مٹی میں مخفی سنگلاخ پتھروں پر جا گرتے ہیں، ان کا سپیس سوٹ پھٹ جاتا ہے، اور یوں اضطراب اور افسردگی کے سیاہ چوغوں میں لپٹے زمین پر آ گرتے ہیں۔ مجازی دنیا دو نفسیاتی عارضوں: اضطراب (Anxiety) اور افسردگی (Depression) کے اندھیرے جین زی کی زندگیوں میں پھیلانے کا باعث بن رہی ہے۔ اس اجنبی اور ویران سیارے کی گہری تاریکیوں کی ایک بھیانک جھلک مولی رسل (Molly Russell) کا معاملہ ظاہر کرتا ہے۔ سال ۲۰۱۷ء میں چودہ سالہ برطانوی لڑکی نے انسٹاگرام پر خود آزاری (self-harm) سے متعلق پوسٹیں دیکھنا شروع کیں۔ انسٹاگرام کے ایلگورتھم نے شکار پھانس لیا اور اس کے سامنے خود آزاری کا بازار لگا دیا، خود آزاری کا مظاہرہ کرتے تصویری سلسلوں کے دروازے کھول دیے۔ اس بےرحم سیارے کے ویرانوں میں سفر کرتے ہوئے اس میں افسردگی کا زہر سرایت کرنے لگا۔ چھ ماہ میں اس نے ۲۱۰۰ خود آزاری سے متعلق پوسٹیں دیکھیں، اور پھر ایک دن مریخ کے سنگدل، غیر انسانی ماحول میں ٹھوکر لگی، وہ سنگلاخ چٹان پر گری، اس کا سپیس سوٹ بے کار ہو گیا، اور آکسیجن کی عدم فراہمی نے اسے بے جان کردیا۔ اس کی لاش ناقابل بیان ویرانے کا جز بن گئی، اور زمین پر اس چودہ سالہ لڑکی کی خودکشی برطانوی اخبار گارڈین کی خبر بن کر کاغذوں میں دفن ہوگئی۔ موضوع کو آگے بڑھانے سے پہلے مجازی دنیا کی کوکھ سے جنم لینے والے امراض اضطراب اور افسردگی کو سمجھنا ضروری ہے۔ موجودہ خطرے کے احساس کو خوف کہا جاتا ہے۔ اگر گلی سے گزرتے ہوئے اچانک کوئی کتا سامنے آ جائے اور وہ آپ پر بھونکنے لگے، تو کتا آپ کے لیے موجودہ فوری خطرہ بن جائے گا، اور آپ کے دماغ میں خوف کا احساس پیدا ہوگا۔ یہ فوری خوف دماغ کا الارمنگ سسٹم آن کر دے گا، اور دماغ ڈیفینڈ موڈ میں چلا جائے گا، جس سے آپ کا جسم کتے سے بچنے کے لیے رد عمل دکھائے گا۔ خوف کی یہ حالت بقا کے لیے ضروری ہے۔ خوف کی دوسری حالت، جسے اضطراب کہا جاتا ہے، وہ خطرے کا احساس ہے جو غیر واضح، ممکنہ اور مستقبل سے تعلق رکھتا ہو۔ فرض کریں آپ کو کام کے سلسلے میں کچھ دنوں بعد شہر سے باہر جانا ہے، لیکن آپ کو ایک گھنے جنگل سے گزرنا پڑے گا۔ غیر مانوس جنگل سے گزرنے کا خیال غیر واضح، ممکنہ خطرے کا احساس پیدا کرے گا، اسے اضطراب کہتے ہیں، اور یہ احساس بھی بقا کے لیے اہم ہے۔ گلی میں بھونکتے آوارہ کتے کی موجودگی عقلی و منطقی خطرہ ہے اور گھنے جنگل سے اکیلے گزرنے کا خطرہ عقلی و منطقی اضطراب ہے۔ اضطراب مرض کی صورت تب اختیار کرتا ہے جب دماغ اکثر ڈیفینڈ موڈ پر رہتا ہے، اس کا الارمنگ سسٹم بار بار متحرک ہوتا ہے، حالانکہ کوئی واضح، یقینی یا عقلی خطرہ درپیش نہیں ہوتا۔ اس کیفیت میں مبتلا شخص کا اکثر وقت بے چینی اور گھبراہٹ کے ساتھ گزرتا ہے، وہ انجان خوف اور اندیشوں میں گھرا رہتا ہے۔ اسے نفسیات میں مرضِ اضطراب (Anxiety) کہتے ہیں۔ ایک مثال سے سمجھیں: فرض کریں ایک شخص اپنے گھر کے اندرونی حصے میں سانپ دیکھتا ہے، اور پھر وہ سانپ گھر کے کونے کھدروں میں کہیں جا گھستا ہے۔ جب وہ رات کو سونے کا ارادہ کرتا ہے، تو اسے بے چینی شروع ہو جاتی ہے کہ کہیں بستر سے سانپ نہ نکل آئے، یا جب وہ کوئی کام کرنے لگتا ہے، تو اسے گھبراہٹ ہوتی ہے کہ سامان میں سے سانپ نکل کر اسے ڈس نہ لے۔ اضطراب کی یہ حالت عقلی و منطقی ہے۔ اب ایک اور صورت حال کا تصور کریں: ایک شخص جب اپنے گھر میں بستر پر جانے کا ارادہ کرتا ہے، تو اسے گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے کہ کہیں چھت یا پنکھا اس پر نہ آ گرے، یا جب وہ کوئی کام کرنے لگتا ہے، تو اسے خدشہ ستانے لگتا ہے کہ کہیں اسے کرنٹ نہ لگ جائے۔ اس کے دماغ پر انجان، غیر منطقی خطرے کا خوف طاری رہتا ہے، اس کا ڈیفینڈ موڈ بلا ضرورت متحرک رہتا ہے، اور الارمنگ سسٹم بےوقت بجتا رہتا ہے۔ دماغ خطروں کوجانچنے میں اپنی توانائی ضائع کرتا رہتا ہے، کیونکہ کوئی واضح، یقینی یا منطقی خطرہ درپیش نہیں ہوتا۔ اس حالت کو مرضِ اضطراب کہتے ہیں، اور جین زی کو یہ مرض اپنا محبوب ٹھکانہ بنا رہا ہے۔ دوسرا نفسیاتی مرض، جس کا جین زی نشانہ بن رہی ہے، افسردگی ہے، یعنی وہ عالم جس میں انسان زندگی کی قدر دانی و تحسین ترک کر دیتا ہے۔ وہ گہری اداسی کے لبادے میں لپٹا الگ تھلگ پڑا رہتا ہے۔ اس کے دماغ میں تکلیف دہ اور تلخ سوچوں سے بھری ٹرین ایک دائرے میں مسلسل چکر لگاتی رہتی ہے۔ اس کا دل اچاٹ رہتا ہے، زندگی کے کسی معاملے میں کوئی خوشی محسوس نہیں ہوتی۔ خود کا وجود بے وقعت، بےحیثیت اور بیکار لگتا ہے۔ وہ افسردگی کے اس عالم میں خود کو اتنا بے بس و لاچار محسوس کرتا ہے کہ بسا اوقات یہ بے بسی خودکشی پر منتج ہوتی ہے۔ مرحوم عبداللہ حسین کو کیا معلوم تھا کہ دورِ حاضر کی افسردہ نسلیں حقیقی سیاسی و سماجی المناک تغیرات کے نتیجے میں نڈھال و شکست خوردہ نہیں ہوئیں، بلکہ انہیں تو بےجان سکرینوں نے ادھیڑ دیا ہے۔ جین زی کا اضطراب مجازی دنیا کے غیر حقیقی خطروں پر پلتا ہے، اور اس کی افسردگی سوشل میڈیا پروفائل کی کم مقبولیت سے ٹرگر ہو جاتی ہے۔ یہ کیا جانیں تقسیمِ ہند کے لہو لہان نوحوں کی داستان، انہیں کیا خبر کہ خونِ جگر کرنا کس محبوبہ کا نام ہے، انہیں کوئی بتائے کہ ہجرت کی پرآشوب اور ہنگامہ خیز راتیں کیسے بسر ہوئی تھیں ۔ موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ جوناتھن ہائیٹ اپنی معرکہ آرا کتاب میں جین زی کی ذہنی تنزلی کے حوالے سے جو ڈیٹا پیش کرتے ہیں، اسے دیکھ کر جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ ڈیٹا کے پہاڑ اور بلندیوں کو چھوتے گراف اس سنگینی کا چیخ چیخ کر اظہار کر رہے ہیں کہ ہمارے بچے، نو بالغ اور بالغ شدید خطرے میں ہیں۔ سال ۲۰۱۰ء میں اضطراب اور افسردگی کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہونے لگا، گویا اچانک ان امراض نے بلندیوں کی طرف دوڑنا شروع کر دیا۔ بچوں اور نو بالغوں میں اضطراب کی شرح دگنی ہو گئی۔ ۲۰۱۰ء میں خود آزاری، خودکشی، اضطراب اور افسردگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا، جو آئندہ برسوں میں مزید سنگین صورت حال اختیار کرتا گیا، اور اب جین زی کی گرتی ہوئی ذہنی صحت کا گراف ہر سال نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ امریکہ میں ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۷ء کے درمیان ٹین ایجرز میں افسردگی کی شرح ۵۰ فیصد تک بڑھ گئی، مرضِ اضطراب میں مبتلا نوجوانوں کی تعداد دگنی ہو گئی۔ ایمرجنسی روم کے ریکارڈ کے مطابق ۲۰۱۰ء سے ۲۰۲۰ء کے درمیان نو بالغ اور بالغ لڑکیوں میں خود آزاری کی شرح ۸۸؍فیصد تک پہنچ گئی، اور لڑکوں میں ۴۸ فیصد تک نوٹ کی گئی۔ ۱۰ سے ۱۴؍سال کی لڑکیوں میں خودکشی کا رجحان دگنا ہو گیا، اور اسی عمر کے لڑکوں میں یہ ۹۰ فیصد تک پہنچ گیا۔ یہ ہولناک اعداد وشمار کی چند ہلکی جھلکیاں ہیں۔ اگر صرف ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۵ء کے درمیان اعداد وشمار ریکارڈ اور سٹڈیز کو قلم بند کیا جائے، تو سینکڑوں صفحات سیاہ ہو جائیں۔ یہ سنگین صورت حال صرف امریکہ تک محدود نہیں، بلکہ آسٹریلیا، کینیڈا اور یوکے میں بھی یہی ٹرینڈ ۲۰۱۰ء سے نمایاں طور پر سامنے آنے لگا۔ بچوں، نو بالغوں اور بالغوں میں بڑھتا ہوا اضطراب اور افسردگی کوئی ملکی، قومی یا علاقائی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے۔ ایمرجنسی روم اور نفسیاتی وارڈ کے ریکارڈ، سروے، کیس اسٹڈیز اور ہر سال بلند ہوتے ہوئے گراف اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ بچوں کی پرورش اور سماج کے ساتھ کوئی بہت بڑی گڑبڑ ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی سے ۲۰۰۹ء تک بچوں، نو بالغوں اور بالغوں میں اضطراب اور افسردگی کے کیسز سامنے آتے تھے، لیکن ان کی تعداد اور ۲۰۱۰ء سے جو تعداد بڑھ رہی ہے، اس میں ہوشربا تبدیلی آئی ہے۔ جین زی میں اضطراب اور افسردگی کے تیزی سے پھیلنے کا آغاز تب ہوا جب والدین نے مریخ پر جانے کے ٹکٹ ان کے ہاتھوں میں تھمانا شروع کیے۔ جی ہاں! سمارٹ فون جین زی کے لیے مریخ پر جانے کا ٹکٹ ثابت ہوا۔ ایک اجنبی، نامعلوم سیارے پر اپنے جگر گوشوں کو پھینکنے کا سلسلہ ۲۰۱۰ء میں طوفانی انداز اختیار کر گیا۔ آئی فون نے ۲۰۰۷ء میں مارکیٹ میں دھماکہ خیز انٹری کر کے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس دور میں آئی فون جین زی کے لیے اتنا نقصان دہ اور لت آور نہیں تھا۔ ایپس بہت کم تھیں، اور سوشل میڈیا کا جن بھی ابھی مکمل طور پر بوتل سے باہر نہیں نکلا تھا۔ یوٹیوب سمیت صرف ۱۶ پری انسٹالڈ ایپس آئی فون پر دستیاب تھیں، جن میں کیلنڈر، نوٹس، میپ وغیرہ شامل تھے۔ پھر ۲۰۰۸ء میں ایپل ایپ سٹور کو ۵۰۰ ایپس کے ساتھ متعارف کروایا گیا، جس کی تعداد ۲۰۱۰ء میں تقریباً دو لاکھ پچاس ہزار ایپس تک پہنچ گئی۔ گوگل پلے سٹور اکتوبر ۲۰۰۸ء میں متعارف کروایا گیا، اور ۲۰۱۰ء میں اس پر ایپس کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ سال ۲۰۲۴ء کے ڈیٹا کے مطابق گوگل پلے سٹور اور ایپل سٹور پر کل ایپس کی تعداد ۳۸ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ والدین جب بچے کی جیب میں مریخ کا ٹکٹ ڈالتے ہیں، تو وہ اپنے جگر گوشے کو ۳۸ لاکھ ایپس کے درمیان تنہا چھوڑ آتے ہیں، اور پھر وہ زہر آلود ایپس کا لقمہ بن جاتے ہیں۔ جن ممالک میں جین زی کو تیز رفتار انٹرنیٹ کے ساتھ سمارٹ فون استعمال کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو گئی، وہ گویا مریخ پر پہنچ گئے۔ اب اس سیارے پر انہیں لبھانے کے لیے لاکھوں ایپس موجود تھیں، اور ان لاکھوں ناچتی گاتی ایپس کے مرکز میں سوشل میڈیا کمپنیوں کی سلطنت قائم تھی۔ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور لنکڈ اِن وغیرہ باقی ایپس کے گاڈفادر بن چکے تھے۔ یہ ایسے فیچرز متعارف کروا رہے تھے جن کا مقصد صارف کو مسلسل مشغول رکھنا تھا۔ فیس بک نے ۲۰۱۰ء میں ہی ’’لائک‘‘ بٹن متعارف کروایا تاکہ پوسٹ اور کامنٹ کی تعدادی قدر کو اجاگر کیا جائے۔ تعدادی قدر ظاہر کرنے کا مقصد صارفین کے درمیان موازنہ کی فضا قائم کرنا تھا۔ نو بالغ جب دیکھتا ہے کہ اس کی پوسٹ پر چند لائکس ملے، اور اس کے ساتھی کی پوسٹ پر سینکڑوں لائکس ملے، تو وہ زیادہ شدت سے لائکس کے حصول کی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔ جسے زیادہ لائکس ملے، وہ اپنی اگلی پوسٹ پر اس سے بھی زیادہ لائکس کی توقع کرتا ہے۔ اس مقابلے کی فضا میں صارف دائرے میں گھومنے لگتے ہیں، یعنی کم لائکس کے بعد زیادہ لائکس حاصل کرنے کی کوشش، اور زیادہ لائکس حاصل کرنے کے بعد مزید لائکس کی تمنا۔ دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے بھی اپنے پیرومرشد فیس بک کی پیروی کرتے ہوئے لائک کا بٹن متعارف کروا دیا۔ ایپل نے اسی سال فرنٹ کیمرے والا سمارٹ فون مارکیٹ میں لا کر سیلفی پر مبنی سوشل میڈیا کا آغاز کر دیا۔ ۲۰۱۰ء میں آئی فون کی سب سے بڑی مارکیٹ امریکہ تھی، اس لیے اس سال ڈیجیٹل دنیا میں جو بڑے تغیرات ہوئے، ان تبدیلیوں نے امریکی ٹین ایجرز کو سب سے پہلے متاثر کیا۔ اس طوفانی سال میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکتوبر ۲۰۱۰ء میں انسٹاگرام کو مارکیٹ میں لانچ کیا گیا، اور دسمبر ۲۰۱۰ء تک اس کے صارفین کی تعداد ایک ملین تک پہنچ گئی تھی، جن میں سب سے زیادہ تعداد بچوں اور نو بالغوں کی تھی۔ Pew کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۰ء میں ۷۳؍فیصد امریکی ٹین ایجرز کے ہاتھوں میں سمارٹ فون آ چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے متاثرین میں سب سے پہلے امریکی بچوں، نو بالغوں اور بالغوں کا ذکر آتا ہے۔ اسی سال کینیڈا اور یوکے میں بھی ٹین ایجرز میں سمارٹ فون کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا تھا، اور یہ وہی طوفانی سال ہے جس میں اضطراب اور افسردگی کے امراض ترقی یافتہ ممالک میں پھوٹ رہے تھے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں اور دیگر ایپس کا ایک نکاتی ایجنڈا ہوتا ہے کہ صارف زیادہ سے زیادہ وقت سکرین پر گزارے۔ صارف کو سکرین پر مسلسل مشغول رکھنے کے لیے یہ کمپنیاں نفسیات کی تکنیک استعمال کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کے ایپ ڈیزائنرز نے جین زی کو مجازی دنیا میں ہر دم مگن رکھنے کے لیے ایک انتہائی سود مند نفسیاتی حربہ استعمال کیا ہے۔ اس نتیجہ خیز نفسیاتی حربے کو سمجھنے کے لیے ہمیں امریکی ماہر نفسیات بی ایف سکینر (B.F. Skinner) کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ سکینر نے چوہوں اور کبوتروں پر تجربات کیے اور ان کے نتائج سے متغیر انعام (variable reward) کا تصور پیش کیا۔ انہوں نے چوہے کو ایک ڈبے میں رکھا، جس میں ایک لیور لگا تھا۔ چوہا جب لیور دباتا، تو اسے انعام (خوراک) ملتا۔ تجربات کے دوران سکینر کو معلوم ہوا کہ اگر چوہے کو ہر دفعہ لیور دبانے پر خوراک نہ دی جائے، بلکہ بے ترتیب انعام دیا جائے، تو چوہے کا لیور دبانے کا عمل مضبوط عادت میں ڈھل جاتا ہے۔ یعنی بار بار لیور دبانے پر چوہے کو کبھی کبھار خوراک ملے، تو یہ عمل مضبوط رویے میں تبدیل ہو جاتا ہے، کیونکہ جب چوہا اس امید پر لیور دباتا ہے کہ اسے خوراک ملے گی، تو دماغ قلیل مقدار میں خوشی کا دماغی کیمیکل (ڈوپامائن) خارج کرتا ہے۔ کئی دفعہ لیور دبانے کے بعد جب چوہے کو اچانک خوراک ملتی ہے، تو ڈوپامائن کا اخراج بھی یک لخت زیادہ ہوجاتا ہے، جس سے یہ عمل ایک مضبوط عادت کا روپ دھار لیتا ہے۔ اس تصور کو متغیر انعام کہتے ہیں۔ سلاٹ مشین پر جوا کھیلنا اس نفسیاتی تکنیک کو سمجھنے کی اچھی مثال ہے۔ جواری ہر بار نہیں جیتتے، لیکن سلاٹ مشین کو بار بار اس امید پر استعمال کرنا کہ انعام ملے گا، ایک مضبوط شکنجہ ہے، جس میں پھنس کر جواری خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کمپنیوں نے جین زی کو متغیر انعام کی تکنیک کے ذریعے مریخ کے چوہے بنا دیا ہے۔ نو بالغ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پوسٹ کرتا ہے، انتظار کرتا ہے، پھر موبائل اٹھاکر چیک کرتا ہے کہ کتنے لائکس ملے اور کیا کمنٹس ملے، بالکل سکینر کے چوہے کی طرح۔ نو بالغ بار بار انعام کی توقع میں اپنا موبائل چیک کرتا ہے، اور جب اسے لائکس اور اچھے کمنٹس ملتے ہیں، تو ڈوپامائن کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن یہاں سکینر کے چوہے اور مریخ کے چوہوں میں ایک فرق ہے۔ سکینر کا چوہا ڈبے میں صرف لیور دباتا ہے، وہ کچھ اپنی طرف سے انویسٹ نہیں کرتا، جبکہ مریخ کے چوہے انویسٹمنٹ کرتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر بن ٹھن کر، بڑی سوچ و فکر کے بعد اپنی تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں، پوسٹ بنا کر شیئر کرتے ہیں، اور پھر انعام کا انتظار کرتے ہیں۔ انعام نہیں ملتا، تو پھر لیور دباتے ہیں، پھر انتظار کرتے ہیں، پھر لیور دباتے ہیں، اور یوں متغیر انعام کی توقع میں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تیز رفتارانٹرنیٹ، سمارٹ فون میں جدت اور اس کا عام ہونا، سوشل میڈیا کا بے قابو جن، کامیاب نفسیاتی شکنجے اور والدین کی لاپرواہی، اس زہریلی کیمسٹری نے جذباتی طور پر کمزور، خوف زدہ اور افسردہ نسل پیدا کی، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب ہم اس سوال کی طرف بڑھتے ہیں کہ مجازی دنیا میں سوشل میڈیا پر جب ایک بچہ یا نو بالغ زیادہ وقت گزارنے لگتا ہے، تو آخر وہ اضطراب اور افسردگی میں کیسے مبتلا ہو جاتا ہے؟ دن میں سکرین پر مسلسل کئی کئی گھنٹے گزارنے سے نئی نسل کس طرح اضطراب اور افسردگی کا نشانہ بن کر خود آزاری اور خودکشی کے رجحانات کا مظاہرہ کر رہی ہے؟ اس معمے کو ہم ان شاء اللہ اس سلسلے کی تیسری کڑی میں سلجھانے کی کوشش کریں گے۔ مزید پڑھیں: لمحاتِ وصل جن پہ ازل کا گمان تھا