https://youtu.be/-anmpwgpJiI دنیا بھر میں ۹؍اگست کو ’’عالمی یوم برائے قدیم و اصل اقوام‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن ان اقوام کی پہچان، ثقافت، زبان اور ان کے حقوق کو تسلیم کرنے، ان کی حفاظت کرنے اور عالمی سطح پر ان کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے ۱۹۹۴ء میں اس دن کو باضابطہ طور پر منظور کیا اور ۱۹۹۵ء سے اس کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ اقوامِ اصل یا Indigenous Peoples اُن لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کسی خطے میں ابتدائی باشندے ہوں اور جن کی اپنی منفرد ثقافت، زبان، روایات، مذہبی عقائد اور زمین سے گہرا رشتہ ہو۔ ان اقوام کا عالمی تہذیب و تمدن میں بنیادی کردار رہا ہے، مگر افسوس کہ انہیں تاریخی طور پر ایک طرف حاشیے پر دھکیلا گیا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں تقریباً ۴۷؍کروڑ افراد اقوامِ اصل سے تعلق رکھتے ہیں، جو عالمی آبادی کا تقریباً چھ فیصد ہیں، مگر ان میں سے پندرہ فیصد لوگ انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ اس دن کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگ ان اقوام کی موجودگی کو تسلیم کریں، ان کی مشکلات کو سمجھیں اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔ نیز اس دن کا مقصد شناخت کا تحفظ یعنی اقوامِ اصل کی ثقافت، زبان اور روایات کو ختم ہونے سے بچانا ۔ انصاف کی فراہمی یعنی ان اقوام کے خلاف ہونے والے ظلم، زمینوں پر قبضے اور نسلی امتیاز کے خلاف آواز بلند کرنا۔ شراکت داری یعنی اقوامِ اصل کو ترقیاتی منصوبوں میں برابر کی شرکت دینا۔ ماحولیاتی تحفظ یعنی یہ اقوام قدرتی وسائل کی محافظ ہیں اور ان کا علم موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں اقوامِ اصل وہ طبقہ ہے جو ماحولیاتی، ثقافتی اور لسانی تنوع کا محافظ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق یہ اقوام دنیا کے تقریباً ۲۲ سے ۲۸؍فیصد زمین اور جنگلات کا تحفظ کرتی ہیں۔ ان کا روایتی علم، زمین سے جُڑاؤ اور قدرتی وسائل کا پائیدار استعمال دنیا کے لیے ایک سبق ہے۔ اسی لیے یہ دن نہ صرف ان کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے بلکہ ان کی خدمات کو خراجِ تحسین بھی پیش کرتا ہے۔ کینیڈا اور امریکہ میں اقوامِ اصل کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، جن میں مقامی امریکی (Native Americans)، الاسکن انیوٹ (Alaskan Inuit)، فرسٹ نیشنز (First Nations)، میٹیس (Métis) اور انیوٹ (Inuit) شامل ہیں۔ یہ اقوام ہزاروں سال سے ان سرزمینوں پر آباد ہیں اور ان کی اپنی زبانیں، ثقافتیں، دینی عقائد اور روایات ہیں۔ مگر نوآبادیاتی دور میں انہیں شدید نسلی امتیاز، زمینوں سے بے دخلی اور ثقافتی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی ان اقوام کو صحت، تعلیم اور روزگار میں عدم مساوات کا سامنا ہے، تاہم حالیہ برسوں میں حکومتیں اور عوامی حلقے ان کے حقوق کو تسلیم کرنے اور ان کی مصالحت (Reconciliation) کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کینیڈا میں ’’نیشنل ڈے فار ٹروتھ اینڈ ریکنسیلی ایشن‘‘ جیسے اقدامات اور امریکہ میں مقامی اقوام کو خودمختاری دینے کی کوششیں اس سلسلے کی ایک اہم پیش رفت ہیں۔ اقوامِ اصل نے شمالی امریکہ کی ثقافتی، سیاسی اور ماحولیاتی تاریخ میں گہرا اثر چھوڑا ہے اور آج بھی وہ ماحولیاتی تحفظ، زمین کے حقوق اور سماجی انصاف کی تحریکوں میں صفِ اول میں نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی اقوامِ اصل آباد ہیں جن میں کوہستانی، چترالی، کالاش، ہنزہ، بلوچی اور سندھ کے صحرائی علاقے کے قبائل شامل ہیں۔ اسی طرح بھارت میں آدیواسی (Adivasi) کہلانے والی اقوام، نیپال میں تھارو، راوتے اور شیرپا اقوام، بنگلہ دیش میں چکما، مارما اور سنتال، سری لنکا میں ویدا (Vedda) اقلیت، چین میں تبت، منگول، ژوانگ اور دیگر نسلی گروہ، ایران میں بلوچ، کرد اور عرب اقوام، آسٹریلیا میں ابرجینز، افغانستان میں نورستانی اور ہزاره گروہ اور انڈونیشیا، فلپائن، تھائی لینڈ، ویتنام اور ملائیشیا جیسے ممالک میں بھی اقوامِ اصل کی بڑی تعداد موجود ہے جو اپنی جداگانہ تہذیب، زبان اور طرزِ زندگی کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔ ان اقوام کو اکثر ترقی، زمین کے حقوق اور سیاسی نمائندگی کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اس دن مختلف تقریبات جیسے ثقافتی میلوں، روایتی موسیقی اور لوک رقص کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تدریسی اداروں میں تعلیمی سیمینار میں اقوامِ اصل کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا مہمات کے ذریعہ دنیا بھر کے لوگ آن لائن پلیٹ فارمز پر ان اقوام کے مسائل پر بات کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کی تنظیمیں ان اقوام کے قانونی تحفظ کے لیے تقاریر، مظاہرے اور رپورٹس جاری کرتی ہیں۔ بطور ایک قاری اور طالبِ علم ہر ایک کو چاہیے کہ اقوامِ اصل کے بارے میں پڑھیں، سنیں اور سیکھیں۔ ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں اور ان کی ثقافت کو سراہیں یعنی ان کی دستکاری، زبان اور کہانیوں کو فروغ دیں اور اس بات کی حمایت کریں کہ ترقیاتی منصوبے اقوامِ اصل کے مشورے اور رضامندی سے کیے جائیں۔ ’’عالمی یوم برائےقدیم و اصل اقوام‘‘ محض ایک دن نہیں، بلکہ ایک عہد ہے کہ ہم ان اقوام کی عظمت، ورثے اور حقوق کا تحفظ کریں گے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیا کی اصل خوبصورتی تنوع میں ہے اور اقوامِ اصل اس تنوع کا روشن چراغ ہیں۔ دنیا کو چاہیے کہ نہ صرف ان کے وجود کو تسلیم کریں بلکہ ان کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک پائیدار اور منصفانہ دنیا کی تعمیر کریں۔ مزید پڑھیں: حضرت مسیح موعودؑ کا ایک مرغوب پھل۔آم