https://youtu.be/KihLhVePBgU مرزا محمد الدین ناز صاحب، ایک بہت ہی پیارے، نافع الدین ونافع الناس،شفیق، سراپا محبت و شفقت وجود اور چلتے پھرتے ایک فرشتہ صفت شخصیت تھے۔وہ ایک عظیم انسان تھے۔ ان کی خوبیاں ایسی ہیں کہ ایک مضمون میں بیان نہیں ہوسکتیں۔ان کی وفات سے مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے میرا کوئی اپنا، بہت ہی قریبی، محسن مجھ سے جدا ہوگیا ہے۔اور یقیناً مجھ جیسے بہت سے ایسے ہوں گے جن کو یہ محسوس ہوا ہوگا۔مرحوم بہت سی خوبیوں کا مرقع تھے۔وہ حضرت مسیح موعودؑ کے جرنیل اور ایک باخدا و بااخلاق انسان تھے۔آپ عالم باعمل تھے۔ایک صوفی کے معنی آپ پر صادق آتے ہیں۔ آپ خلافت کے شیدائی تھے۔آپ نے جوانی کی عمر میں اپنے علاقے کے بڑے بڑے علماء کو نہ صرف چیلنج دیے بلکہ کئی علماء کو مناظروں میں شکست بھی دی۔میرا اُن کے ساتھ جتنا تعلق رہا اس حوالے سے چند واقعات قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں۔امید ہے قارئین ان سے محظوظ ہوں گے۔ جامعہ احمدیہ میں ایک بار ہماری کلاس کے ایک پروگرام میں دوران گفتگو نصیحت کرتے ہوئےناز صاحب نے کہا کہ خدا سے بڑا کوئی وفادار نہیں ہے۔خدا کا دامن تھام لو وہ کبھی بے وفائی نہیں کرتا۔پھر انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جس کے پیچھے کوئی سفارش یا خاندانی بیک گراؤنڈ نہ ہو اس کوترقی نہیں ملتی۔میں کہتا ہوں کہ میری نہ کوئی سفارش تھی اور نہ ہی کوئی خاندانی بیک گراؤنڈ تھا۔لیکن خدا نے میرا ہاتھ تھاما اور میرے ساتھ کبھی بے وفائی نہیں کی۔آج میں جو کچھ بھی ہوں خدائے بزرگ و برتر کی وجہ سے ہوں۔خدا کبھی بے وفائی نہیں کرتا۔اور خدا سے بڑھ کر اور کوئی وفا نہیں کرسکتا۔اس لیے خدا سے دوستی کرلو۔ خاکسار نے ۲۰۱۰ء میں انہیں مع اہل وعیال اپنی شادی پرقلعہ کالروالہ(ضلع سیالکوٹ) مدعو کیا۔اس پر انہوں نے دعوت قبول کرتے ہوئے ربوہ سے ٹوٹی پھوٹی سڑک پر یہ لمبا سفر اپنے معذور بیٹے اور اہلیہ کے ساتھ کیا۔انہوں نے تین دن ہمارے ہاں قیام کیا۔شادی والے دن ہمارے گھر پہنچتے ہی پہلا سوال یہ کیا کہ شادی میں کوئی بدرسوم تو نہیں ہورہیں؟ اگر ایسی کوئی صورتحال ہے تو میں شامل نہیں ہوں گا۔ آپ اس وقت ناظر تعلیم القرآن و وقف عارضی کے عہدے پر فائز تھے۔شادی کے پروگرام کے علاوہ اوقات میں آپ اپنے شعبہ کا کام کرتے رہے۔قریبی جماعت میں اطلاع کی۔وہاں جاکر جمعہ پڑھایا۔جمعہ کے بعد مجلس عاملہ کے اجلاس کی صدارت کی۔میں نے انہیں اس شرط پر شادی پر بلایا تھا کہ آپ کے آنے اور جانے کا خرچہ میں دوں گا۔لیکن جب میں نےشادی کے بعد ان کو خرچہ کی رقم دینے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ کیونکہ میں نے وہاں جماعتی کام بھی کیے ہیں اور قبل از وقت جماعت کوباقاعدہ اطلاع کرکے وہاں جماعتی پروگرام کیے ہیں لہٰذا یہ میرا جماعتی دورہ بھی شمار ہوسکتا ہے۔لیکن چونکہ میں ارادہ شادی میں شمولیت کا کرکے گیا تھا اس لیے میں اس کو جماعتی دورہ شمار نہیں کروں گا۔میں اپنی نجی زندگی کو جماعت سے الگ رکھتا ہوں۔لیکن میں تم سے بھی ساری رقم نہیں لے سکتا۔اس لیے پیٹرول کے آدھے پیسے تم دے دو اور آدھے میں اپنی جیب سے ڈالوں گا۔میرے بہت اصرار پر بھی انہوں نے میری بات نہ مانی۔اور مجھ سے صرف آدھا خرچہ قبول کیا۔اس واقعہ نے مجھ پر ہمیشہ کے لیے ایک انمٹ اثر چھوڑا ہے۔جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ شادی کے بعد میں یا میری اہلیہ حتٰی کہ میرے گھر سے کوئی بھی فرد جب بھی ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر ربوہ گیا تو انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے ہمیشہ ہم سے ایسا سلوک کیا جیسے ماں باپ اپنی اولاد سے کرتے ہیں۔بہت عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ہمارے لیے چائے یا شربت خود بناتے اور بڑے پیار بھرے اصرار کے ساتھ ہمیں پلاتے۔جب تک ہم وہاں رکتے دونوں ہمارے پاس بیٹھے رہتے اور ہنستے مسکراتے ہمارے ساتھ پدرانہ شفقت سے باتیں کرتے۔ واپسی پر میری اہلیہ کو کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور دیتے اور ہمارے نہ لینے پر کہتے کہ تم لوگ میرے بیٹے بیٹی ہو اور ہر ماں باپ کا فرض ہے کہ اپنی بیٹی کو کچھ نہ کچھ دے۔ میری اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار میں آپ کے گھر گئی تو آپ نے مجھے نہایت قیمتی نصائح فرمائیں۔مجھے بتایا کہ واقف زندگی کی بیوی بھی واقف زندگی ہی ہوتی ہے۔میدانِ عمل میں لوگ مربی کی اہلیہ کی بھی بہت عزت کرتے ہیں۔ اس لیے تم نے اپنا نمونہ قائم کرنا ہے۔ لوگوں سے منہ نہیں چڑانا۔گھل مل کر رہنا ہے۔خود کو ان سے بڑا نہیں سمجھنا۔گھر میں آئیں تو جو بھی میسر ہو عزت و احترام کے ساتھ ان کے سامنے پیش کرنا۔عورتیں تم سے آکر اپنے گھر کے راز بیان کریں گی۔ان کو ہمیشہ راز رکھنا۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ آپ کا بہت مضبوط اور زندہ تعلق تھا۔ایک بار میری اہلیہ لجنات کے وفد کے ساتھ ربوہ گئی تو ناز صاحب سے ملنے ان کے گھر گئی۔آپ صحن میں بیٹھے ناشتہ کررہے تھے۔دیکھتے ہی اپنی اہلیہ کو آواز دے کر کہا کہ نصرت! باہر آؤ میرا خواب پورا ہوگیا ہے۔پھر بتایا کہ میں نے رات خواب میں تم سے اور مسعود (خاکسار) سے اپنے ایک عزیز کے گھر میں ملاقات کی ہے۔اور جس عزیز کے گھر میں ملاقات ہوئی تھی وہ افریقہ میں ہوتے ہیں۔اور تم لوگ ان کے ہمسائے میں رہائش پذیر ہو۔کچھ سال کے بعد جب میری تعیناتی گیمبیا میں ہوئی تو میرے یہاں آنے کے بعد میری اہلیہ ناز صاحب سے ملنے کے لیے گئی۔جب اس نے میرے بارے میں بتایا تو آپ کہنے لگے جب میں نے وہ خواب دیکھا تھا تب ہی نصرت (اپنی اہلیہ) کو کہہ دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مسعود کو افریقہ میں خدمت کی توفیق دے گا۔ میری اہلیہ کے بہنوئی کی وفات کےبعد میرے سسرال والے اپنی اس بیٹی کو ربوہ لے آئے۔ میری اہلیہ اپنی اس بہن کے لیے دعا کی درخواست کرنے ناز صاحب کے گھر گئی۔آپ نے کہا کہ میں اس کے لیے بہت دعا کروں گا۔لیکن تم اس کے لیے بیوت الحمد میں کوارٹر کے حصول کے لیے درخواست دو۔اس پر میری اہلیہ نے بتایا کہ دفتر والوں نے کہا ہےکہ پہلے سے چالیس سے زیادہ درخواستیں پڑی ہیں۔ان کے بعد آپ کا نمبر آئے گا۔اور اس وقت کوئی کوارٹر خالی نہیں ہے۔ ناز صاحب لیٹے ہوئے تھے ۔یہ سننے کے بعد اٹھ کر بیٹھ گئے اور بڑے جلال سے کہنے لگے کہ وہ کون ہے جس نے کہا ہے کہ کوارٹر نہیں ہے؟جماعت کے پاس اللہ کے فضل سے بہت کوارٹرز ہیں۔تم درخواست دو اور ساتھ حضور کو خط لکھو۔میں بھی دعا کروں گا۔اس واقعہ سے چوتھے یا پانچویں دن ہمیں دفتر سے فون آگیا کہ ایک کوارٹر خالی ہوا ہے اور آپ کی صورت حال کے پیش نظر کمیٹی نے کوارٹر آپ کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔چند دن قبل کوئی کوارٹر خالی نہیں تھا۔اور چالیس سے زیادہ امیدوار پہلے سے موجود تھے۔لیکن خدا نے ایسا فضل فرمایا کہ کوارٹر بھی خالی ہوگیا اور چالیس سے زیادہ امیدواروں کی بجائے اللہ تعالیٰ نے وہ کوارٹر ہمیں عنایت فرمادیا۔یقیناً یہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور قبولیت دعا کا ایک زندہ نشان ہے۔ مہمان نوازی کا وصف آپ میں بہت نمایاں تھا۔آپ کے گھر ہر وقت مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا۔ہم جب بھی آپ کے گھر گئے، گھر کو آپ کے شاگرد مربیان، محلے کے دوستوں اور دوسرے احباب سے بھرا ہوا پایا۔اور جو بھی آپ کے ہاں جاتا حسب موسم کچھ کھائے بغیر واپس آنا اس کےلیے ممکن نہ تھا۔ خلافت سے آپ کو انتہا کا عشق تھا۔ہر بات میں حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور اطاعت خلافت کا حوالہ دیتے۔ جب حضورانور نے آپ کو ناظر تعلیم القرآن و وقف عارضی تعینات فرمایا تو ہم آپ کو مبارکباد دینے کے لیے آپ کے گھر گئے۔دوران گفتگو آپ نے بتایا کہ حضور انور کی خدمت میں کچھ مجوزہ نام ناظر تعلیم القرآن و وقف عارضی کے لیے پیش کیے گئے تھے لیکن حضور انور نے ان اسماء کی بجائے اپنے قلم سے میرا نام لکھا۔یہ بتاتے ہوئے آپ کی آنکھیں بھر آئیں اور کہنے لگے کہ مجھے ناظر بننے کی اتنی خوشی نہیں جتنی خوشی اس بات سے ہوئی ہے کہ پیارے آقا نے مجھ پر اعتماد کیا ہے۔ پہلے آپ اپنی داڑھی کو خضاب لگایا کرتے تھے۔ایک دن میں آپ کے گھر گیا تو دیکھا کہ ان کی داڑھی سفید تھی۔میں نے کہا کہ آپ خضاب لگایا کریں۔ کیونکہ سفید داڑھی میں آپ بوڑھے لگ رہےہیں۔اس پر کہنے لگے کہ حضور نے مجھے فرمایا ہے کہ سفید داڑھی خوبصورت لگتی ہے۔اس لیے تم مجھے جتنا مرضی قائل کرنے کی کوشش کرو۔میرے آقا نے کہہ دیا ہے۔اب میں کبھی خضاب نہیں لگاؤں گا۔ آپ نہایت صابر شخصیت کے مالک تھے۔زندگی میں آپ پر ابتلاؤں کے پہاڑ گرے لیکن نہ آپ خدا سے دور ہوئے اور نہ ہی کبھی صبر کا دامن چھوڑا۔ آپ کی اپنی اولاد نہیں تھی۔اپنی بہن سے بیٹا لےکر پالا تھا۔وہ بھی جوانی میں ایک حادثہ میں معذور ہوگیا۔میں نے آپ کواس بڑھاپے میں اپنے بھاری بھرکم بیٹے کو غسل خانے میں لے جاتے اور لاتے، اس کا ڈائپر بدلتے، اس کو چارپائی پر لٹاتے اور وہیل چیئر پر بٹھاتے دیکھا ہے۔لیکن کبھی آپ کے منہ سے کسی قسم کا گلہ یا اپنے خدا سے شکوہ نہیں سنا۔پچھلی بار جب بیمار ہوئے تو میری اہلیہ تیمارداری کے لیے گئی۔میری اہلیہ کو کہنے لگے کہ مجھے اپنی زندگی کی فکر نہیں۔ مجھے اس بات کی فکر کھائے جارہی ہے کہ میرے بعد نصرت (آپ کی اہلیہ) اورفراز (آپ کےبیٹے) کا کیا بنے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائےاور ان کا حامی وناصر ہو۔ آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت میاں صدرالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپؓ کے خاندان کی بعض بزرگ ہستیوں کا ذکر خیر