https://youtu.be/ykhtrlHSbXk جلسہ سالانہ برطانيہ کا آغاز تو اُسي وقت ہوگيا تھا جب رختِ سفر باندھ کر روانہ ہوئے اور راستے ميں احمديوں کي گاڑياں نظر آنے لگيں ۔ فيري پورٹ تک پہنچتےپہنچتے کاروان بن گيا۔ قدّوسيوں کے قافلے يورپ کے مختلف ملکوں سے وہاں پہنچے اور سلاماًسلاماً کي نويد ہر طرف سنائي دي جانے لگي۔ يہ ديکھ کر نصف صدي قبل کے نظارے ياد آگئے جب پاکستان ميں قافلہ درقافلہ بسوں اور سپيشل ٹرينوں کے ذريعے مہمان ربوہ پہنچتے تھے اور دريائےچناب کے پل پر پہنچتے ہي جذبات کا بند ٹوٹ جاتا، نعرہ ہائے تکبير کا وہ غلغلہ بلند ہوتا جس کي گونج پورے ربوہ ميں سنائي ديتي تھي۔ اس ماحول کو ياد کر کے آج بھي آنکھيں نم ہوجاتي ہيں۔ جلسہ سالانہ برطانيہ۲۰۲۵ء کا ماحول بھي وہي تھا گو حاضرين کي تعداد تو وہاں تک نہيں پہنچ سکي مگر قوموں کي تعداد پاکستان اور بھارت کے جلسوں سے کہيں زيادہ ہے۔ يورپ کے کئي ممالک کي اقوام، افريقن ممالک کي اقوام، امريکہ اور کينيڈا کي قوميں، عرب ممالک کي اقوام، ترک، کرد اور رشين سٹيٹس سے روحاني طيور محبت کی اُڑانیں بھرتے ہوئے وہاں پہنچے۔ ؎ ليکن يہ سب کے نصيب کہاں، ہر ايک ميں کب يہ طاقت ہے کہ پيار کي پياس بجھانے کو، وہ سات سمندر پار آئے يہ محض خدا کا احسان ہے کہ انگلستان کے اکثر جلسوں ميں شموليت کي توفيق ملي اور سات سمندر بھي پار نہيں کرنے پڑے، بس صرف چھوٹي سي انگلش چينل ۔ جمعرات کي شام پہنچے اور علي الصبح تيار ہوکر دس بجے حديقةالمہدي پہنچ گئے کہ وہاں جگہ مل سکے جہاں سے محبوب کے ديدار سے آنکھيں ٹھنڈي ہوں۔ گو اب بڑي سکرينز کي بدولت پورے پنڈال ميں زيارت ممکن ہوگئي ہے مگر ايک نظر سکرين پر ڈاليں اور پھر سٹيج پر تو واضح فرق نظر آتا ہے اور پھر سکرين کي طرف ديکھنے کو دل نہيں چاہتا۔ خطبہ جمعہ ميں کارکنان اور مہمانوں کو ان کے فرائض کي طرف توجہ دلانے کے بعد حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے غيرمعمولي دعاؤں سے نوازا اور يہ غيرمعمولي دعائيں پا کر نہ صرف پيسے پورے ہوگئے بلکہ بونس بھي مل گيا۔ جلسہ سالانہ کے افتتاح سے قبل پرچم کشائي کي تقريب کا منظر ديکھنے کے ليے پہلے باہر کھڑا ہونا پڑتا تھا اور پھر بھاگ کر جلسہ گاہ ميں پہنچتے تھے۔ اب سکرين پر يہ سہولت ميسر ہے کہ جلسہ گاہ کے اندر بھي پرچم کشائي کي تقريب کا نظارہ ہوجاتا ہے۔ مختلف ممالک کے لہراتے پرچم دلکش اورمسحورکن منظر پيش کرتے ہيں۔ خاص کر پاکستان کا پرچم تو ديکھتے ہي محبت اور پيار کے جذبات جاگ اٹھتے ہيں حالانکہ وہاں ہم پر ظلم و ستم ڈھانے ميں کوئي کسر نہيں چھوڑي جاتي ليکن ہميں يہ ملک اور يہ پرچم اتنا پيارا ہے کہ اس کا نام اور پرچم بھی اونچا ہي ديکھنا چاہتے ہيں۔ وہ دن بھي آئے کہ لکھوں ميں شش جہت ترا نام ترا علم، تري سج دھج بھي چار سُو بولے مرے وطن سر مینار نور تا بہ ابد تو چاند بن کے اندھيروں کے روبرو بولے تلاوت ونظم کے بعد افتتاحي خطاب کا آغاز ہوا جس ميں حضورانورایدہ اللہ نے تقويٰ کے حصول کي طرف توجہ دلائي اور اس کي اہميت بيان فرمائی۔ بالخصوص آجکل کے حالات ميں اس کے بغير کاميابي ناممکن ہے۔ لوگ پوچھتے ہيں کہ دنيا کے مسلمانوں کي حالت ايسي کيوں ہے تو اس کي وجہ يہي ہے کہ وہ تقويٰ سے دُور ہيں لہٰذا خدا سے بھي دُور ہيں۔ خدا کي پناہ ان سے اُٹھ گئي ہے۔ اور جب خدا کي پناہ اٹھ جاتي ہے تو پھر کوئي دوسري پناہ نہيں رہتي۔ تقويٰ اور اعمالِ صالحہ ہي ہيں جو خدا تک پہنچاتے ہيں۔ خداتعاليٰ نے قرآنِ کريم ميں وعدہ کيا ہوا ہے کہ خدا نے متقیوں کي مدد اپنے اوپر فرض کر لي ہے لہٰذا اگر ہم تقويٰ پرکاربند ہوگئے تو خداتعاليٰ کي مدد کے مستحق ہوں گے اور ہم ہميشہ خداتعاليٰ کي مدد دائيں، بائيں، آگے، پيچھے ديکھتے رہيں گے اور اس سے کبھي محروم نہيں ہوں گے۔ان شاءاللہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے افتتاحي خطاب کے بعد جلسہ گاہ کا جائزہ ليا اور حضورانور کے حکم کي تعميل ميں نمائشيں ديکھيں۔ يہ نمائشيں نہايت دلچسپ اور معلومات افزا ہونے کے ساتھ ساتھ ايمان افروز بھي تھيں اور ہر سال ان ميں جدّت آرہي ہے۔ بازار کا بھي جائزہ ليا۔ مختلف ممالک سے آنے والے دوست جب دُور سے ہي آواز ديتے اور لپک کر گلے لگاتے تو عجيب جذباتي کيفيت طاری ہوجاتي تھي۔ امريکہ سے، کينيڈا سے آنے والے ، اسي طرح بنگلہ ديش اور افريقہ کے مختلف ممالک سے آنے والے اور پھر پاکستان کے لوگ جو صرف حضورانور ایدہ اللہ کے ديدار کو ہي نہيں ترستے بلکہ اپنے پرانے دوستوں کو بھي ديکھنے کے خواہش مند تھے۔ اس ملاقات کا حال ناقابل بيان ہے۔ اگلے روز بھي بروقت جلسہ گاہ ميں پہنچ گئے۔ محترم اظہرحنيف صاحب اور محترم محمدانعام غوري صاحب کي تقارير کے بعد مکرم ڈاکٹرزا ہد خان صاحب کي تقرير سني۔ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ کا مستورات سے خطاب بھي مرکزي مارکي ميں ہي سنا۔ نمازوں کے بعد کھانا کھايا جو ہميشہ کي طرح لذيذ اور پُرلطف تھا۔ یہاں ايک شخص کي کمي محسوس ہوئي جس کي ميٹھي اور سحرانگيز آواز کھانے کا لطف دوبالا کرديتي تھي اور کبھي يہ آواز دُکھي بھي کرديتي تھي اور نوالہ حلق ميں اٹک جاتا تھا۔ اللہ اسے غريق رحمت کرے، آمين۔ (صفدر گجر صاحب مرحوم مراد ہیں) اکثر جلسوں پر بعض ديوانوں کو دسترخوان سے روٹيوں کے ٹکڑے کھاتے ديکھا۔ اُن کو يقيناً اپنے پيارے مسيح کي ياد آتي ہوگي کہ جب ايک بار حضرت مسيح موعودؑ کو بھوک لگي اور لوگ پريشان ہوئے کہ اب کھانا کہاں سے لائيں؟ کھانا ميسر نہيں ہے اور بازار بھي بند ہے تو حضورؑ نے فرمايا کہ دسترخوان پر روٹي کے کچھ ٹکڑے موجود ہوں گے وہ لے آؤ اور دسترخوان سے چن کر ٹکڑے کھائے اور ان ٹکڑوں پر گزارا کيا۔ ليکن يہ صرف اُس دن کي ہي بات نہيں بلکہ زندگي ميں اکثر حضرت مسيح موعودؑ نے معمولي غذا پر گزارا کيا۔ آپ کا یہ شعر ہميشہ مجھے لنگر ميں ياد آجاتا ہے کہ لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ أُکْلِیْ وَ صِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ حضور انور کی درمیانے روز کی تقریر کا موضوع جماعت کی روز افزوں ترقیات کے بیان پر مبنی ہوتا ہے ۔حضور انور نے خدا تعالیٰ کے بارش کی طرح نازل ہونے والے افضال کا اختصار سے ذکر فرمایاکہ ان قطرات کو گننا مشکل ہے۔ دوران سال ہونے والی ترقیات اوربیعتوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ۳۵۶ نئی جماعتوں کا قیام ہوا اور دو لاکھ ۴۹؍ ہزار ۴۰۸ لوگ بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں داخل ہوئے ۔الحمد للہ جلسہ کے آخری روز ڈاکٹر سرافتخار احمدایاز صاحب،مکرم ڈاکٹر فہیم یونس قریشی صاحب ،مکرم ہادی علی چودھری صاحب اور مکرم رفیق احمد حیات صاحب کی تقاریر سنیں۔عالمی بیعت سے قبل لوگوں کا جوش و خروش قابل دید تھا ہر کوئی اس بابرکت تقریب کی برکتیں حاصل کرنے اور سمیٹنے کے لیے بے قرار تھا ۔ دھڑ کتے دل ،سسکیوں اور لرزتی زبان کے ساتھ خلیفۂ وقت کی آواز میں آواز ملا کر اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار اپنے گناہوں کی معافی اور اسلام کی سربلندی کے لیے کوشش کا وعدہ اور خلیفۂ وقت کی اطاعت کا وعدہ ایک عجیب مسحور کن ماحول تھا جس کا اظہار ناقابل بیان ہے۔ بیعت اور نمازوں کی ادائیگی کے بعدپنڈال سے نکلتے ہوئے ایسے لگ رہا تھا جیسے سب نیا جنم لے کر نہا دھو کر تازہ دم ہو کر آرہے ہوں ۔ حضور انور کا اختتامی خطاب عام مسلمانوں کے لیے ایک انتباہ تھا، حضور نے بڑے درد سے مسلمانوں کو قرآن کریم اور رسول کریم ؐکی پیشگوئیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ زمانے کی حالت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ کسی مسیح کی ضرورت ہے، اگر وہ اب نہیں آیا تو پھر کب آئے گا۔ حضورانورنے قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں بتایا کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں کسی آنے والے نے آنا تھا اور وہ آچکا۔ مسلمانوں پر ہر طرف سے ظلم ہو رہا ہے اور مسلمان خود بھی مسلمانوں کو مار رہے ہیں، ایسے میں خدا نے ان کی نجات کے لیے جو نجات دہندہ بھیجا ہے اس کے دامن سے وابستہ ہو کرہی امن میں آیا جا سکتا ہے۔ پُر سوز دعا کے بعد یہ جلسہ اپنی بے شمار برکتیں لٹا کر اختتام کو پہنچا۔ اس جلسے میں لائیو سٹریمنگ کے ذریعے بہت سے ممالک شامل ہوئے جن میں سے چند ایک کی وڈیوز بھی براہ راست سکرین پر دکھائی جا رہی تھیں ۔ڈیوٹی دینے والوں کا ذکر اور شکریہ ادا نہ کیا جائے تو یہ ظلم ہوگا ۔ہر نظامت پہلے سے بہتر اور منظم تھی۔ ڈیوٹی سے یاد آیاکہ جلسہ گاہ کے اندر چھوٹے چھوٹے بچے بڑے شوق سے پانی پلانے کی ڈیوٹی ادا کر رہے تھے بچپن ہی سے خدمت ان کے خون میں شامل ہوجاتی ہے اور یہ خدمت محبت کے جذبے کے بغیر نہیں ہو سکتی اور جس قوم کے بچوں کو محبت اور خدمت کی تربیت دی جا رہی ہو وہ خادم قوم بن کر کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِکا نظارہ پیش کرتی ہے۔ میں نے ایک افریقن بچے کو بھی پانی پلاتے دیکھا۔ وہ ہر مہمان کے پاس جاتا اور پانی کا پوچھتا ۔ اگر کوئی پانی پی لیتا تو اس کے چہرے پر عجیب اطمینان اور بشاشت بکھر جاتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی۔ افریقن قوم اس چشمہ سے سیر اب ہو کر اب دوسری قوموں کی پیاس بجھا رہی ہے۔ میں نے خاص طور پر اپنے موبائل سے اس بچے کی تصویر بنائی ۔وہ قوم کیسے ناکام ہو سکتی ہے جس کے بچے بھی خدمت کےجذبہ سے معمور ہوں۔ ہو تمہی کل کے قافلہ سالار آج بھی ہو تمہی امام۔ چلو ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: بین المذاہب ہم آہنگی کے قیام میں نبی کریم ﷺ کا مبارک اسوہ