(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۵؍جنوری ۱۹۱۷ء) ۱۹۱۷ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے جلسہ سالانہ کے کامیاب انعقاد کے ذکر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا فلسفہ بیان فرمایا۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) ہماری جماعت کے لوگ شکر گزاری میں اور بڑھیں اور ان کی کوششوں میں اَور زیادہ ترقی ہو۔یہ نہ ہو کہ جلسہ کے دنوں میںجو جوش و اخلاص آپ لوگوں نے دکھا یا ہے اور جو معرفت اِن دنوں حاصل ہوئی ہے اس کو اَور زیادہ نہ بڑھائو اور اس میں ترقی نہ کرو۔ یہ سب خدا کے فضل کے نظارے ہیں جو آپ لوگوں نے دیکھے ہیں۔ بس آپ لوگوں کو چاہئے کہ خدا کی حمدو ثنا میں اَور بڑھیں اور اپنی کوشش اور سعی کو اَور زیادہ وسیع کریں۔ تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے احسانات کو جو اُس کے اپنے بندوں پر ہیں کون ہے جو گن سکے۔ وہ احسانات اپنے اندر عجیب نوعیت رکھتے ہیں۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ ان احسانات کو گنیں جو ان پر ہیں تو کوئی شخص ان کا اندازہ نہیں کر سکتا اور نہ کوئی جماعت ان انعامات کا مقابلہ کر سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمای جماعت پر ہو رہے ہیں۔ا گرچہ سب ہی لوگوں پر فرض ہے کہ خدا کے احسانات پر الحمدللہ کہیں ۔مگر ہماری جماعت پر تو خاص طور پر فرض ہے کہ وہ الحمدللہ کہے۔ اگر ہم سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کس کس رنگ میں ہماری نصرت فرماتا ہے اور کس کس طرح ہمارے دشمنوں کو ذلیل کرتا ہے تو بے اختیار الحمدللہ کہنے کو جی چاہتاہے۔ اللہ تو مالک اور بادشاہ ہے۔ مخلوق میں سے بھی اگر کوئی شخص احسان کرے تو ہم کس طرح اُس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر اُس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے احسان کا بدلہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکریہ ادا کرنا انسان کے شکریہ کے ادا کرنے کے مقابلہ میں بہت ہی چھوٹا ہے اور وہ یہ کہ انسان زبان سے خدا تعالیٰ کے احسانات کا اقرار کرے یعنی صرف زبانی اقرار ہی شکریہ ہے۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس کے احسانات تو ا س قدر ہیں کہ کوئی گن بھی نہیں سکتا۔ مگر ان کا شکریہ نہایت آسان ہے۔ لیکن افسوس کہ بہت سے انسان ہیں جو زبان اور دل سے بھی خدا کی نعمتوں کاشکریہ ادا نہیں کرتے۔ یوں تو ہر سال ہی ہماری جماعت کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ مگر چند سال سے وہ لوگ جوہماری جماعت سے الگ ہو گئے ہیں، خواہ وہ احمدی کہلائیں مگر ہماری جماعت میں نہیں ہیں، ان کی طرف سے ہمارے خلاف بہت زیادہ کوشش ہور ہی ہے اور وہ ہمیں ہر طرح نقصان پہنچانے میں لگے رہتے ہیں ۔مگر نتیجہ کا وقت سالانہ جلسہ ہوتا ہے۔ اس پر معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کی کوششیں ہمارے خلاف کس قدر کامیاب ہوئی ہیں اور انہوں نے ہماری جماعت کو کیا نقصان پہنچایا ہے۔ ۱۹۱۴ء کے سالانہ جلسہ پر جو اِن لوگوں کے الگ ہونے کے بعد پہلا جلسہ تھا خداتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے بتا دیا تھا کہ اس جلسہ پر پہلے سالوںکی نسبت زیادہ لوگ آئے اور زیادہ کامیاب جلسہ ہوا۔ اس کے بعد خواجہ [کمال الدین]صاحب نے ولایت سے آکر تمام ہندوستان کا دَورہ کیا اور ہمارے خلاف لوگوں کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے اور بُرے خیالات پھیلانے میں جس قدر زور لگا سکتے تھے لگایا مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۱۵ء کا جلسہ پہلے کی نسبت بھی زیادہ کامیاب ہوا۔ اس سال اُنہوں نے مولوی محمد احسن کو بُت بنایا اور کوشش کی کہ جماعت کو توڑ دیں۔ مگر ۱۹۱۶ء کا جلسہ خدا کے فضل سے تمام پہلے جلسوں کی نسبت بہت زیادہ کامیاب ہوااور ہر طرح کامیاب رہا ہے اِس میں بہت زیادہ لوگ آئے اور ان کے جوش اور اخلاص پہلے کی نسبت بڑھے ہوئے تھے۔ ہم میں سے کون انسان ہے جس نے لوگوں کے دلوں پر قبضہ کیا ہو۔ مجھ کو تو خدا نے یہ خلافت کا کام سپردکیا ہے۔ لیکن مجھے تو یہ دعویٰ نہیں،پھر اَور کون ہے جو دعویٰ کرے کہ وہ لوگوں کے دلوں پر قبضہ رکھتا ہے۔ دلوں کو قابو میں رکھنا اور ایک طرف جھکا دینا صرف خدا تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے اور کسی کو اس میں دخل نہیں۔ خدا تعالیٰ ہی ہے جو دلوں کو کھینچ کر لے آتا اور ہم میں شامل کر تا ہے اور وہی ہے جوہر روز ہمیں ترقی دیتا ہے۔ ہمیں ہر ایک قوم سے مقابلہ ہے گویا کہ ہم بتیس دانتوں میں ہیں۔ ایک طرف مسلمان ہم پر دانت پیس رہے ہیں۔ دوسری طرف سکھ اور عیسائی اور ہندوئوں کا ہم سے مقابلہ ہے۔ غرض ہر ایک قوم ہم سے مقابلہ کر رہی ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمارے شامل حال ہے اس لئے ہم کسی سے دب کر نہیں رہتے۔ اِس نصرت خداوندی پر جس قدر بھی شکریہ ادا کیا جاوے کم ہے۔ شکریہ کے معنے یہ نہیں ہیں کہ اب ہم بیٹھ جائیں اور عمل میں کوشش نہ کریں۔ بلکہ ہم میں سے ہر ایک کوچاہئے کہ عمل میں ترقی کرے۔ صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور ہم تو عمل میں کوشش اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے گناہ معاف ہوں لیکن آپ کے تو خدا نے سب اگلے پچھلے گناہ معاف کردئیے ہیں آپ کیوں اِس قدر کوشش کرتے ہیں۔ یہ سن کر آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا۔ کیا میں تم سے زیادہ اتقیٰ نہیں ہوں (بخاری کتاب الایمان باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنا اَعْلَمُکُمْ باللّٰہ) پھر فرمایا کہ کیا میں عبدشکور نہ بنوں۔میرے لئے عبادت شکر کے طور پر ہے کیونکہ جس پر زیادہ فضل ہو وہ زیادہ مستحق ہے کہ دوسروں سے بہت زیادہ عبادت اور شکرگزاری کرے۔ (بخاری کتاب الرقاق باب الصبر عن المحارم) تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کانتیجہ سُستی نہیں ہونا چاہئے بلکہ عبادت اور شکرگزاری میں اور بڑھنا چاہئے۔ یہاں رہنے والے دوست خوب سن لیں اور باہر کے دوستوں کو اخبار کے ذریعہ یہ بات پہنچ جائے گی کہ ہماری جماعت کے لوگ شکر گزاری میں اور بڑھیں اور ان کی کوششوں میں اَور زیادہ ترقی ہو۔ یہ نہ ہو کہ جلسہ کے دنوں میںجو جوش و اخلاص آپ لوگوں نے دکھا یا ہے اور جو معرفت اِن دنوں حاصل ہوئی ہے اس کو اَور زیادہ نہ بڑھائو اور اس میں ترقی نہ کرو۔ یہ سب خدا کے فضل کے نظارے ہیں جو آپ لوگوں نے دیکھے ہیں۔ بس آپ لوگوں کو چاہئے کہ خدا کی حمدو ثنا میں اور بڑھیں اور اپنی کوشش اور سعی کو اور زیادہ وسیع کریں۔ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کس پر خدا کے فضل ہوں گے۔لیکن جس قدر آپ پر خدا کے فضل اور احسان ہیں اُسی قدر آپ عبادت اور شکر گزاری میں سب سے بڑھ کر تھے۔ نادان ہے وہ شخص جس نے کہا کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ کیونکہ خدا کے فضل انسان کو گستاخ نہیں بنایا کرتے اور سرکش نہیں کردیا کرتے بلکہ اَور زیادہ شکرگزار اور فرمانبردار بناتے ہیں۔ پس تم لوگ پہلے کی نسبت زیادہ شکر گزار بن جائو۔ کیونکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَ نَّکُمْ (ابراہیم:۸)کہ جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اگر تم اس پر شکر ادا کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو شکر گزار بنائے اور پہلے کی نسبت زیادہ فیضانِ الٰہی حاصل کرنے کے قابل ٹھہرائے۔ آمین یا ربّ العٰلمین۔ (الفضل ۲۳؍ جنوری ۱۹۱۷ء) مزید پڑھیں: قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی بنیاد ہیں