قرآن شریف میں تو آیا ہے وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (الانفال: ۴۶) اللہ کا بہت ذکر کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔ اب یہ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا نماز کے بعد ہی ہے تو ۳۳ مرتبہ تو کثیر کے اندر نہیں آتا۔پس یاد رکھو کہ ۳۳ مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو سچے ذوق اور لذّت سے یاد کرتا ہے، اسے شمار سےکیا کام۔وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا۔ ایک عورت کا قصّہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی۔اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے پھیر رہا ہے۔اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے۔اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں۔عورت نے کہا کہ یار کو یاد کرنا اور پھر گِن گِن کر۔ درحقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گِن گِن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکرِ الٰہی کثرت سے نہ ہو وہ لذّت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے حاصل نہیں ہوتا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ۳۳ مرتبہ فرمایا ہے وہ آنی اور شخصی بات ہوگی، کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگا تو آپؐ نے اسے فرمادیا کہ ۳۳ مرتبہ کر لیا کر۔اور یہ جو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں یہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے آشنا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپؐ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا۔وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا تھے۔انسان کو تعجب آتا ہے کہ کس مقام اور درجہ پر آپ پہنچے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیںکہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے۔رات کو جو میری آنکھ کھلی تومیں نے آپؐ کو اپنے بستر پر نہ پایا۔مجھے خیال گذرا کہ کسی دوسری بیوی کے گھر میں ہوں گے۔چنانچہ میں نے سب گھروں میں دیکھا مگر آپؐ کو نہ پایا۔پھر میں باہر نکلی تو قبرستان میں دیکھا کہ آپ سفید چادر کی طرح پر زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور سجدہ میں گرے ہوئے کہہ رہے ہیں سَـجَدَ لَکَ رُوْحِیْ وَ جَنَانِیْ۔اب بتاؤ کہ یہ مقام اور مرتبہ ۳۳ مرتبہ کی دانہ شماری سے پیدا ہو جاتا ہے۔ہرگزنہیں۔ جب انسان میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے۔وہ ذکرالٰہی کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گِن کر ذکر کرنا تو کفر سمجھتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولا سے اسے ہوتا ہے وہ کبھی روا رکھ سکتا ہی نہیںکہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے۔ کسی نے کہا ہے من کا منکا صاف کر۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرےاور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے۔ تب وہ کیفیت پیدا ہوگی اور وہ ان دانہ شماریوں کو ہیچ سمجھے گا۔ (ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۱۸۵-۱۸۶، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: خداتعالیٰ کبھی کسی صادق سے بے وفائی نہیں کرتا