https://youtu.be/j_SVZsHDzq4 اللہ تعالیٰ کی طرف سے آم گرمیوں کا ایک نہایت لذیذ اور محبوب تحفہ ہے جسے پھلوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں جون اور جولائی کے مہینے آم کے موسم کی بہار لاتے ہیں۔ یہ پھل نہ صرف پاکستان اور بھارت کا قومی پھل ہے بلکہ آم کا درخت بنگلہ دیش کا قومی درخت بھی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو آم بے حد مرغوب تھا۔ آپؑ نہ صرف پکے ہوئے آم رغبت سے تناول فرماتے بلکہ آم کا اچار بھی شوق سے استعمال کرتے۔ مہمانوں کی تواضع میں بھی آپؑ اکثر آم شامل فرماتے اور بچوں کو خوش کرنے کے لیے بھی یہ پھل پیش کیا کرتے۔ یہ پھل جہاں آپؑ کی سادہ زندگی میں ایک خاص مقام رکھتا تھاوہیں آپؑ کی مہمان نوازی کے جذبے کی جھلک بھی پیش کرتا ہے۔ آپؑ کا قادیان میں آموں کا علیحدہ سے ایک باغ تھا جہاں زلزلے کے ایام میں آپ رہائش پذیر بھی رہے۔ آم کی وجہ تسمیہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ [حضرت مسیح موعودؑ]آم کے لفظ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ لفظ آم لفظ اُم ّسے نکلا ہے۔ عربی زبان میں اُم ماں کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ بچہ ماں کے پستان چوستا ہے۔ ایسا ہی آم کو بھی منہ میں ڈال کر چوستا ہے۔ اس مشابہت کی وجہ سے اس کا نام آم ہوا۔ (ذکرِ حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ ۱۲۸) آم کا اچار حضرت مسیح موعودؑ کے دسترخوان پر آم کا اچار بھی شامل ہوتا اور یہ سادہ غذا کا حصہ تھا۔ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوریؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؑ کے کھانے میں لنگر کا شوربہ مع ترکاری ہوتا تھا۔ اکثر اوقات دہی اور آم کا اچار بھی ہوتا تھا۔ ان ایام میں آپؑ زیادہ تر دہی اور اچار کھایا کرتے تھے۔(سیرت المہدی روایت نمبر ۷۴۶) حضرت ڈاکٹرمیر محمد اسمٰعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے قادیان کی وہ حالت دیکھی ہے جبکہ یہاں کے عام لوگ اردو سمجھ نہیں سکتے تھے… پڑھا لکھا کوئی کوئی ہوتا تھا۔ دال یا گڑیا لسّی یا آم کا اچار بس یہی نعماء تھیں۔سواری کے لئے بیل گاڑی یا یکّہ ہوتا تھا۔(سیرت المہدی روایت نمبر ۸۷۰) اسی طرح سیرت المہدی کی روایت ۱۵۳۴ کے مطابق ایک نکاح کے موقع پر کھانے میں آم کے اچار کا اہتمام تھا۔ میٹھے آم ثقیل اور ترش آم سریع الہضم حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز پیر سراج الحق صاحب سر ساوی اپنے علاقہ کے آموں کی تعریف کر رہے تھے کہ ہمارے علاقہ میں آم بہت میٹھے ہوتے ہیں۔جو لوگ ان کو کھاتے ہیںتو گٹھلیوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔گویا لوگ کثرت سے آم چوستے ہیں۔اس وقت حضرت اقدس بھی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔فرمایا:پیر صاحب جو آم میٹھے ہوتے ہیں وہ عموماً ثقیل ہوتے ہیں اور جو آم کسی قدرترش ہوتے ہیں وہ سریع الہضم ہوتے ہیں۔پس میٹھے اور ترش دونوں چوسنے چاہئیں۔کیونکہ قدرت نے ان کو ایسا ہی بنایا ہے۔ (سیرت المہدی روایت نمبر۹۳۱) آم علاجِ گردہ آپؑ نے فرمایا: آم گردہ کے لئے بہت مفید ہے اور مقوی گردہ ہے۔ آم کے کھانے سے گردہ کی بیماریاں اور درد وغیرہ دُور ہوتے ہیں۔ آم گردہ کی شکل ہے اس واسطے گردہ کے مناسب واقع ہوا ہے۔(علم طبِ مسیح موعودؑ صفحہ ۴۸-۴۹) آم حضرت مسیح موعودؑ کو مرغوب تھے اس بارے میں دو روایات پیش ہیں۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ میوہ جات آپؑ کو پسند تھے اور اکثر خدام بطور تحفہ کے لایا بھی کرتے تھے۔گاہے بگاہے خود بھی منگواتے تھے۔ پسندیدہ میووں میں سے آپ کو انگور،بمبئی کا کیلا،ناگپوری سنگترے،سیب،سردے اور سرولی آم زیادہ پسند تھے۔باقی میوے بھی گاہے ماہے جو آتے رہتے تھے کھا لیا کرتے تھے۔ گنّا بھی آپ کو پسند تھا۔ (سیرت المہدی روایت نمبر ۴۴۷) پنڈت دیوی رام ولد متھرا داس قوم پنڈت سکنہ دودو چک تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو سنگترہ اور آم اور بھُونے ہوئے دانے پسند تھے۔(سیرت المہدی روایت نمبر۷۵۹) مہمانوں کی تواضع آپؑ مہمانوں کو آم اور دوسرے پھل نہ صرف پیش فرماتے بلکہ خود ان کی قاشیں بھی کرتے تاکہ مہمان کو سہولت رہے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ لکھتے ہیں کہ گا ہے حضور اپنے باغ سے آم منگوا کر خدام کو کھلاتے۔ ایک دفعہ عاجز راقم لاہور سے چند یوم کی رخصت پر قادیان آیا ہوا تھا کہ حضور نے عاجز راقم کی خاطر ایک ٹوکرا آموں کا منگوایا اور مجھے اپنے کمرہ ( نشست گاہ ) میں بلا کر فرمایا کہ مفتی صاحب ! یہ میں نے آپ کے واسطے منگوایا ہے۔ کھالیں۔ مَیں کتنے کھا سکتا تھا۔ چند ایک میں نے کھا لئے۔ اس پر تعجب سے فرمایا کہ آپ نے بہت تھوڑے کھائے ہیں۔(ذکرِ حبیب ۲۵۸) حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ ساکن فیض اللہ چک تحریر کرتے ہیں کہ حضرت صاحب ہر موسم کا پھل مثلاً خربوزہ اور آم کافی مقدار میں باہر سے منگواتے تھے۔ خربوزہ علاقہ بیٹ سے اور آم دریا کے پار سے منگاتے تھے۔ بعض اوقات جب مَیں بھی خدمت میں حاضر ہوتا تو حضور اپنے دستِ مبارک سے خربوزہ کاٹ کر مجھے دیتے اور فرماتے: میاں نبی بخش یہ خربوزہ میٹھا ہو گا اس کو کھاؤ اور آپ بھی کھاتے۔ اسی طرح آموں کے موسم میں حضرت صاحب نہایت محبت و شفقت سے مجھے آم بھی عنایت فرماتے اور بار بار فرماتے: یہ آم تو ضرور میٹھا ہو گا۔ اس کو ضرور کھاؤ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ بیٹ سے دریائے بیاس کے قریب کا نشیبی علاقہ مراد ہے اور پار سے ضلع ہوشیارپور کا علاقہ مراد ہے جس میں آم زیادہ ہوتا ہے۔ (سیرت المہدی روایت نمبر ۵۹۸) محترمہ مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم ومغفور تحریر کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اُمّ المومنین اور سب نے مل کر آم کھائے صحن میں چھلکوں اور گٹھلیوں کے دو تین ڈھیر لگ گئے جن پر بہت سی مکھیاں آگئیں۔اس وقت میں بھی وہاں بیٹھی تھی۔ کچھ خادمات بھی موجود تھیں مگر حضرت اقدس نے خود ایک لوٹے میں فینائل ڈال کر سب صحن میں چھلکوں کے ڈھیروں پر اپنے ہاتھ سے ڈالی۔ (سیرت المہدی روایت نمبر۱۴۷۰) اس روایت سے جہاں امام الزماں حضرت مسیح موعودؑ کے اکرامِ ضیف کے خلق کا عیاں ہوتا ہے وہیں عاجزی اور سادہ مزاجی کا بھی معلوم ہوتا ہے۔ قادیان میں آم کا باغ اور پھل اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان تحریر کرتی ہیں کہ ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کے ساتھ باغ میں سیر کو گئیں۔ ( یہ باغ حضرت کی ملکیت تھا جو ڈھاب کے پار ہے) اس میں صرف آم،جامن اور شہتوت وغیرہ کے درخت تھے۔کوئی پھول پھلواری اور ان کی کیاریاں وغیرہ زیبائش کا سامان نہیں تھا۔…حضرت اُمّ المومنین بھی ساتھ ہوتی تھیں۔ (سیرت المہدی روایت نمبر۱۳۵۳) حضرت میاں خیر الدین صاحبؓ سیکھوانی تحریر کرتے ہیں کہ حضورؑ کے بڑے باغ میں علاوہ درخت ہائے آم کے کچھ درختان بیدانہ بھی تھے لیکن ثمر بیدانہ مارچ اپریل میں تیار ہوجاتا ہے اور آم کا ثمر جولائی اگست میں تیا ر ہوتا ہے لیکن تاجر لوگ مارچ اپریل میں ہی سارے باغ کا سودا کر لیتے تھے۔ ایک دفعہ تجویز ہوئی کہ جو ثمر پختہ ہو وہی بیع ہوناچاہئے اس لئے سرِدست بیدانہ بیع ہونا چاہئے اور تاجر بھی موجود تھے۔مگر حضورؑ نے ہمیں ترجیح دی اور ہمارے چودہ روپے نقد وصول کرلئے اور فرمایا کہ ’’ان سے ہمیں کمی وبیشی قیمت کا سوال نہیں۔‘‘ (سیرت المہدی روایت نمبر۱۴۰۱) بچوں میں آم تقسیم کرنا حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ صاحبزادگان کے ساتھ کھیلنے والے بچوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک فرمایا کرتے جیسے اپنے بچوں سے شفقت فرماتے۔ ایک روز آپ نے ہنس کر ایک واقعہ بیان فرمایا کہ فلاں لڑکا (جو آج کل افریقہ میں ملازم ہے اور ان ایام میں اپنے باپ کے ساتھ حضرت اقدس کے گھر میں رہا کرتا تھا۔ کیونکہ اس کا باپ لنگر خانہ میں کام کرتا تھا۔ عرفانی) حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب یا شریف احمد صاحب (دونوں میں سے کسی ایک کا واقعہ ہے۔ عرفانی) کہہ رہا تھا کہ ہمارا باپ تو ہم کو بہت سے آم دیتا ہے۔ صاحبزادہ صاحب موصوف نے حضرت اقدس سے کہا۔ (ان ایام میں آم آئے ہوئے تھے۔ اور حضرت اقدس بچوں کو خود تقسیم فرما رہے تھے۔ عرفانی) حضرت اقدس بہت ہنسے اور بہت سے آم صاحبزادہ صاحب کو دیے۔ آپ کی غرض یہ تھی کہ وہ اپنے ہم جولیوں میں اچھی طرح تقسیم کریں۔ یہ تو ان کے ہاتھ سے دلائے۔ اور خود ان سب کو جو ساتھ ہوتے برابر حصہ دیتے۔ اور وہ حضرت کے گھر میں ایک شاہانہ زندگی بسر کرتے۔ عام سلوک میں حضرت اقدس کو کبھی کسی سے بھی فرق نہ ہوتا۔ کھانے پینے کے لئے برابر پوری آزادی اور فراغت حاصل تھی۔ ان کے سوا اگر ایسے موقعہ پر جبکہ آپ کوئی چیز تقسیم کر رہے ہوں۔ کوئی بچہ اور کسی کا بچہ سامنے آجاوے۔ آپ اس کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرتے۔ اور کچھ نہ کچھ ضرور عطا فرما دیتے۔ اور یہ عادت حضور کی ہمیشہ سے تھی۔ اپنی عمر کے اس حصہ میں جبکہ آپ اللہ تعالیٰ کے امر اور اذن کے ماتحت مجاہدات میں مصروف تھے۔ بعض یتامٰی کی خاص طور پر خبر گیری فرماتے۔ اور اپنی خوراک کا ایک حصہ ان کو دیتے تھے۔(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ ۳۷۱-۳۷۲) اسی طرح سیرت المہدی کی روایت نمبر ۱۵۸۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر میں دوسرے بچے بچیوں کو آم یا دوسری اشیا کھانے پینے سے روک ٹوک نہ تھی۔ بلکہ بچے اپنی مرضی سے آم کھا لیتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادہ، فطری اور محبت سے بھرپور سیرت کا ہر پہلو ہر احمدی کے لیے ایک عملی نمونہ ہے۔ آپؑ کا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا، سادہ غذا کو اپنانا اور دوسروں کو ان نعمتوں میں شریک کرنا۔ ان روایات سے آپؑ کی مہمان نوازی، بچوں سے شفقت اور ایثار جیسے اوصاف بھی جھلکتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ان معمولی نظر آنے والے پہلوؤں سے سبق سیکھ کر اپنی زندگیوں کو سادہ، پُر محبت اور دوسروں کے لیے نفع بخش بنائیں بظاہر کیونکہ یہی حقیقی روحانیت کی علامت ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ۱۹۵۳ء کےاینٹی احمدیہ فسادات اور اُن کا انجام