(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍جون۲۰۰۹ء) اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک نام رَافِع ہے۔ یعنی وہ ذات جو مومن کو بلند مقام عطا فرماتی ہے اور بلند مقام کس طرح ملتا ہے؟ یہ ایک مومن کو اس کے نیک اعمال بجا لانے اور اس کے لئے کوشش اور جدوجہد کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے۔ اور بعض اوقات اللہ محض اور محض اپنے فضل سے انسان کو بلند مقام عطا فرما دیتا ہے اور اس طرح فضل فرماتا ہے کہ جس کے بارے میں انسان بعض دفعہ تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو اس کے اولیاء اور خاص بندے ہوتے ہیں ان کو مزید اپنے قریب کرکے ایک خاص قرب کا مقام دے کر مزید بلندیاں عطا فرماتا ہے اور بعض کو انبیاء کا درجہ دے کر اپنی خاص تعلیم کے ذریعہ سے بلند مقام عطا فرماتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ (فاطر: 11) اسی کی طرف پاک کلمہ بلند ہوتا ہے اور اسے نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس آیت کے جس کا مَیں نے تھوڑا سا حصہ ہی پڑھا ہے لیکن اس کے بھی اس حصہ کا کہ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ اس ضمن میں لین ایک لغت کی کتاب ہے جس نے بہت سی لغات سے مطالب اکٹھے کئے ہوئے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ نیک اعمال کو وہ قبول کرے گا۔ یا اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ نیک عمل تعریف کا موجب بنتے ہیں۔ یا نیک عمل ہی اعلیٰ مقام کے حصول کا ذریعہ ہے اور نیک عمل کے بغیر انسان کی بات قبول نہیں کی جائے گی۔ پس اللہ تعالیٰ رَافِعْ ہے لیکن ساتھ ہی قادر بھی ہے وہ جس طرح چاہے کسی کو بلند مقام عطا فرما سکتا ہے۔ یا انعام سے نواز سکتا ہے۔ لیکن اس نے یہ عمومی طورپر یہ اصول مقرر فرما دیا کہ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ اور نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ ’’اعمال صالحہ کی طاقت سے ان کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 334) جو اعمال بجا لانے والے لوگ ہیں، نیک لوگ ہیں، مومن لوگ ہیں، ان کا اعمال صالحہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے اور انبیاء کا اس میں بہت بڑا مقام ہے۔ پھر آپؑ نے فرمایا کہ ’’مَیں اپنی جماعت کو مخاطب کرکے کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمال صالحہ کی۔ خداتعالیٰ کے حضور اگر کوئی چیز جا سکتی ہے تو وہ یہی اعمال صالحہ ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 114۔ایڈیشن ۱۹۸۸ء) پس اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے اعمال صالحہ کی ضرورت ہے اور اگلے جہاں میں بھی ایک انسان کی اگراس کے ایمان میں پختگی ہے یہی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے معیاروں کو حاصل کرے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہی اصول مقرر فرمایا ہے کہ اعمال صالحہ بجالاؤ۔ پس اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جس طرح عرب کے جہالت اور برائیوں میں پڑے ہوئے لوگوں کو کہا جاتا تھا کہ آنحضرتﷺ کے زیر اثر آ کر نہ صرف تم اپنی برائیاں دور کرو گے بلکہ نیکی، تقویٰ، عزت اور وقار کے اعلیٰ ترین معیار حاصل کرو گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جو قومیں آج تمہیں تخفیف کی نظر سے دیکھتی ہیں، تمہیں جاہل اور بدو سمجھتی ہیں، وہ ایک وقت میں تمہارے سامنے جھکنے والی ہو جائیں گی۔ لیکن یہ سب عزت اور بڑائی ان لوگوں کے خالص ایمان کی وجہ سے ہو گی، اعلیٰ اخلاقی قدروں کے نتیجہ میں ہو گی اور نیک اعمال بجا لانے کے نتیجہ میں ہو گی۔ پس اس چیز کے حصول کے لئے کوشش کرو اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک دنیا انہی جاہلوں یا جاہل کہلانے والوں کے زیر نگیں اللہ تعالیٰ نے کر دی اور یہ بات قرآن کریم میں محفوظ فرما کر اللہ تعالیٰ نے آئندہ آنے والے مسلمانوں کے لئے بھی راستے متعین کر دئیے کہ اس اصول کو اپناؤ گے تو اپنا مقام حاصل کرو گے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ نیکیاں اپنانے کی بجائے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں حکم دیا ہے دنیا کی ہوا و ہوس کے پیچھے مسلمان پڑ گئے ہیں۔ اور نتیجۃً اسلاف کی جو میراث تھی وہ کھو بیٹھے ہیں۔ خدا کے نام پر مسلمان، مسلمان کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جو غیر ہیں، غیر مسلم ہیں وہ مسلمانوں پر حکمران بنے ہوئے ہیں۔ اپنے مسائل حل کرنے کے لئے مسلمان حکومتیں مغرب کی طرف دیکھتی ہیں، غیروں کی طرف دیکھتی ہیں۔ کسی مسلمان ملک کے اندرونی معاملات ہیں اور وہاں بدامنی اور بے چینی ہے، قتل و غارت ہو رہی ہے۔ تو بجائے مسلمان ملکوں کے کہ انہیں سمجھائیں امریکہ اور یورپ ان معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں ان کے ٹھیک کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے بلکہ زبردستی کرتے ہیں۔ اور پھر کیونکہ یہ غیرمسلم حکومتیں ہیں اس لئے انتہائی ہتک آمیز سلوک پھر ان کے کارندے مسلمانوں سے کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں کی طرف سے ایک شور اٹھتا ہے۔ غرض اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے بلندیوں میں جانے کی بجائے پستیوں کی طرف مسلمان آج کل گر رہے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بتا یا کہ آنحضرتﷺ کی پیروی میں اعلیٰ اعمال ہی تمہارے لئے اونچے مقام دلانے والے ہو سکتے ہیں پس سوچو اور غور کرو اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ لیکن سوچنے اور غور کرنے کے بعد بھی مسلمان علماء اور مسلمانوں کے لیڈر یہ تو کہتے ہیں کہ ہمارے عمل غیر صالح ہونے کی وجہ سے ہماری حرکات کی وجہ سے ہمیں بلندیوں کی بجائے ذلت کا سامنا ہے۔ لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ عمل صالح بجا لانے کے جو طریقے خداتعالیٰ نے بتائے ہیں، اس زمانہ میں خاص طورپر، ان پر کس طرح عمل کرنا ہے۔ آنحضرتﷺ کا وہ عاشق صادق جو خدا کے بعد ہر وقت آپ کے عشق میں مخمور رہتا تھا اور اس عشق رسول کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے زمانے کا امام اور مہدی اور مسیح بنا کر بھیجا تھا اور اپنے نور سے منور کیا ہے۔ اس عاشق رسول کا انکار تم کر رہے ہو اور نہ صرف انکار کر رہے ہو بلکہ آج مسلمان ہونے کی تعریف یہی ہے کہ جو اس عاشق صادق کو گالیاں دے ہر تحریر میں گندے اور بے ہودہ الفاظ استعمال کر ے وہی سچا مسلمان کہلاتا ہے۔ اس عاشق رسول نے تو یہ اعلان کیا تھا اور اعلان کرتا ہے کہ ؎ جب سے یہ نور ملا نورِ پیمبرؐ سے ہمیں ذات سے حق کے وجود اپنا ملایا ہم نے اور پھر فرمایا: مصطفیٰؐ پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225) اور یہ ظالم کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کافر ہیں کیونکہ آنحضرتﷺ کے مقام کی ہتک کرتے ہیں۔ پس وہ نُور جو آنحضرتﷺ کا نُور ہے، جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اس کا صحیح ادراک اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ نہ کسی کو ہے اور نہ کسی کو ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپؑ ہی وہ عاشق صادق ہیں جن کو آپ کے مقام کا اور نور کا ادراک ہے۔ اس نُور کی خوبصورتی کو جس انداز میں آپؑ نے پیش فرمایا ہے وہ آپ کا ہی حصہ ہے۔ پس آج عمل صالح کرکے بلند مقام پانے والے وہی لوگ ہوں گے جو اس عاشق صادق سے حقیقی رنگ میں جڑ جائیں گے۔ مزید پڑھیں: https://www.alfazl.com/2025/08/02/127717/