اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ سلام۔ عبدالسلام جناب ڈاکٹر عادل انجم صاحب نے بوسٹن یونیورسٹی اور فلیچر کالج آف لاء اینڈ ڈپلومیسی سے انٹرنیشنل ریلیشنز اور پبلک پالیسی میں تعلیم حاصل کی۔ آپ معروف یونیورسٹی LUMS کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی یاد میں تحریر کیے گئے آپ کے ایک مضمون کا ترجمہ جناب آر ایس بھٹی کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۳؍مارچ۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ہے۔ مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ۲۹؍جنوری کا دن بہت سے پاکستانیوں کو یاد نہیں رہے گا یا وہ یاد نہیں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر محمد عبدالسلام کی تاریخ پیدائش ہے۔ تصور کریں ۱۰؍دسمبر۱۹۷۹ء کو سٹاک ہوم کے ایک ہوٹل کے مختلف کمروں میں دنیا کی ذہین ترین شخصیات سویڈن کے بادشاہ سے نوبیل انعام وصول کرنے کے لیے تیار ہورہی ہیں۔ایک کمرے میں گھنی داڑھی والا پاکستانی کالی شیروانی، سفید شلوار اور سنہری کام والا کھسہ پہنے پگڑی باندھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کبھی وہ اس کام میں ماہر تھے مگر اب بھول چکے ہیں اسی لیے پاکستانی سفارت خانے سے ایک باورچی کو بھی مدد کے لیے بلوایا گیا لیکن وہ بھی کچھ زیادہ مدد نہ کرسکا۔ آخر ہمارے ماہر طبیعیات سے جو کچھ خود سے ہوسکتا تھا انہوں نے کیا۔ اُس دن کی فوٹیج میں آپ محسوس کریں گے کہ وہ کچھ زیادہ ٹھیک سے بندھی ہوئی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی وہ سب سے زیادہ شاندار دکھائی دے رہے ہیں۔ کم از کم میری پاکستانی آنکھوں سے تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ اُس رات اردو میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے میزبانوں سے کہا: ’’پاکستان اس کے لیے آپ کا بہت مشکور ہے۔‘‘ انہوں نے اس مجمع میں قرآن کریم کی تلاوت کی اور اس سے بنیادی بات اخذ کرتے ہوئے کہا کہ ’’جتنا بھی ہم گہرائی میں تلاش کرتے جاتے ہیں، اتنا ہی زیادہ ہمارا تجسس بڑھتا جاتا ہے۔‘‘ Gordon Fraser کی حیران کُن بائیوگرافی: “Cosmic Anger: Abdus Salam - The First Muslim Nobel Scientist” جب ہم پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ اس شخص کی نہ صرف ہم نے قدر بہت کم کی بلکہ ہم اس کے بارے میں جانتے بھی بہت کم ہیں۔ وہ ۱۹۲۶ء میں ضلع ساہیوال میں پیدا ہوئے۔ ایک استاد کے بیٹے تھے جنہوں نے ان کی پرورش ایک استاد کے طور پر کی۔ چودہ سال کی عمر میں تمام پچھلے ریکارڈ توڑتے ہوئے میٹرک کے امتحان میں پنجاب بھر میں اوّل آئے۔ سولہ سال کی عمر میں گورنمنٹ کالج میں انہیں ذہین استاد سروادمان چاولہ کی زیرنگرانی ریاضی سے محبت پیدا ہوئی اور ایک دن اُن کے دیے ہوئے ہوم ورک (سری نی واس راما نوجان کی مشہور Quadratic simultaneous equationکو آگے بڑھاتے ہوئے سلام نے ایک زبردست حل پیش کیا۔ یہ ان کا پہلا نصابی مقالہ تھا جو اٹھارہ سال کی عمر میں شائع ہوا۔ ایم اے ریاضی کرنے کے بعد بیس سال کی عمر میں (خوش قسمتی سے) ریلوے کی ملازمت حاصل کرنے میں ناکام ہوئے جس کی وجہ عمر اور نظر کی کمزوری تھی۔ پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے ملنے والے ایک وظیفے کی پیشکش ہوئی تو کیمبرج کے سینٹ جانز کالج میں داخلہ لے لیا۔ نوبیل انعام یافتہ پال ڈیراک نے سلام کے اندر نظریاتی طبیعیات کی شمع روشن کی۔ ۱۹۵۰ء میں سلام نے کیمبرج کا اہم ترین Smith Award حاصل کیا لیکن کم عمر ہونے کی وجہ سے انہیں Ph.D کی ڈگری نہیں دی جاسکتی تھی۔ چنانچہ وہ ایک ریسرچ پوزیشن کی پیشکش کو ردّ کرتے ہوئے ۱۹۵۱ء میں واپس اپنے گھر پاکستان آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ ریاضی کے پروفیسر اور چیئرمین کے طور پر کام شروع کیا۔ تاہم احمدیت کی وجہ سے حسد اور تنگ نظری کا شکار ہوئے تو دو سال بعد واپس کیمبرج چلے گئے اور جاتے ہی کامیابیوں اور مصروفیات کے طوفانوں میں الجھ گئے۔ ۱۹۵۵ء میں اپنی Ph.D مکمل کی ۱۹۵۷ء میں امپیریل کالج میں کام شروع کیا۔ ۳۳ سال کی عمر میں رائل سوسائٹی کے کم عمر ترین فیلو بنے۔ پھر شاندار تخلیقی کاموں میں کامیابیاں سمیٹتے ہوئے ۱۹۷۹ء میں فزکس کے نوبیل انعام (شیلڈن گلیشو اور وائن برگ کے ہمراہ) کے حقدار قرار دیے گئے۔ ملٹی ٹاسکنگ سلام ہمیشہ متحرک رہے۔مختلف ممالک اور عالمی اداروں میں ریسرچ، پالیسی اور انتظامی معاملات تک، مقالے لکھنے سے چندہ جمع کرنے تک، نوجوان سکالرز کی راہنمائی کرنے سے حکومتوں کے سربراہان کو تجاویز دینے تک، عالمی مباحث کو راستہ دکھانے سے لے کر قومی پالیسی بنانے تک سلام ہمیشہ متحرک دکھائی دیے۔ تعصّبات اور مفکرین کی تنگ نظری سے قطع نظر وہ کبھی بھی خود کو پاکستان سے دُور نہیں رکھ سکے۔ ۱۹۶۰ء میں ایوب خان کے سائنسی مشیر رہے۔ نیز پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، سُپارکو، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور انٹرنیشنل نتھیاگلی سمرکالج آف فزکس کے بانیوں میں سے ہیں۔ ایک دہائی تک IAEA پاکستان کے وفود کی نمائندگی کی۔ پاکستان کے پہلے نیوکلیئر انرجی پلانٹ اور ناسا کے ساتھ خلائی سہولیات کے حوالے سے طے پانے والے معاہدوں کے روحِ رواں تھے۔ عالمی سطح پر وہ تیسری دنیا کی سائنس کی اکیڈمی (TWAS) کے بانی تھے۔ ٹریسٹ اٹلی میں قائم انٹرنیشنل سنٹر فار تھیوریٹیکل فزکس (جو اب سلام کے نام سے موسوم ہوچکا ہے) خاص طور پر اُن کی توانائیوں کا محور بنا۔ یہ سنٹر وہ پاکستان میں قائم کرنا چاہتے تھے لیکن تنگ نظری آڑے آئی۔ ۱۹۸۷ء میں وہ اُس وقت بہت دل گرفتہ ہوئے جب ضیاءالحق کے دور حکومت میں یونیسکو کا ڈائریکٹر جنرل بننے کی پیشکش اُن کے اپنے وطن کی وجہ سے پوری نہ ہوسکی۔ یقیناً اُس غم اور دل شکستگی کا کوئی تصور نہیں کرسکتا جب ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے احمدیہ فرقہ (جس سے عبدالسلام کا تعلق تھا) کو آئینی طور پر غیرمسلم قرار دے دیا۔ اُس دن انہوں نے ڈائری میں لکھا: ’’غیرمسلم قرار … اس کے ساتھ جینا محال ہے۔‘‘ بھٹو کے لیے یہ محض ایک سیاسی چال تھی اور اس کی گہرائی میں ہونے والے ظلم اور تباہی کو اُس نے بہت کم جانا تھا۔ چنانچہ عبدالسلام نے اپنے استعفیٰ میں یہ بھی لکھا: ’’اسلام کسی اسلامی فرقہ کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے فرقہ کے ایمان کا فیصلہ سنائے۔ ایمان بندے اور خالق کے درمیان معاملہ ہے۔‘‘ بھٹو نے سلام کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ سب سیاست ہے، مجھے وقت دو مَیں اسے تبدیل کردوں گا۔ سلام نے بھٹو سے کہا کہ یہ مجھے تحریراً لکھ دو۔ اس پر بھٹو کہنے لگا: مَیں یہ نہیں کرسکتا۔ بھٹو کبھی بھی اس قابل نہیں تھا کہ وہ اس جن کو دوبارہ بوتل میں بند کردے۔ ناانصافی زیادہ خطرناک اور سنجیدہ ہوتی چلی گئی۔ ضیاءالحق کو کم از کم یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے سلام کو نوبیل انعام کی مبارکباد دیتے ہوئے پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’نشان امتیاز‘‘ دیا۔ لیکن وزیراعظم بےنظیر میں یہ اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ وہ سلام کو ملاقات کا وقت دے سکے۔ اگرچہ بعد میں اُس نے سلام کی سترویں سالگرہ کی مبارکباد بھجوائی۔ سلام کے ایمان کا امتحان ہم خدا پر چھوڑتے ہیں۔ ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ قابل شرم خاموشی اور ناشکرے پن کے رویے کو چھوڑ دیں جو ہم نے پاکستان کے اس عظیم فرزند کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔میں یہ بات شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ سلام کی عزت کرتے ہیں وہ تعداد میں دوسرے لوگوں سے زیادہ ہیں۔ ………٭………٭………٭……… پاکستانی سپیس پروگرام اور ڈاکٹر سلام پاکستان کے قومی سپیس پروگرام ’’سُپارکو‘‘ کی بنیاد ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی سفارش پر ۱۹۶۱ء میں رکھی گئی جو صدر پاکستان کے سائنسی مشیر تھے۔ وہ اس کمیشن کے چیئرمین اور بانی ممبر بھی تھے۔ رہبر اوّل کی لانچ کے بعد ایشیا میں پاکستان تیسرا اور دنیا کا دسواں ملک تھا جس نے ایسا راکٹ لانچ کیا تھا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۳؍اگست ۲۰۱۴ء کے خصوصی شمارے (پاکستان نمبر میں) مکرم طارق مصطفیٰ صاحب پرنسپل انجینئر اٹامک انرجی کمیشن کے ایک انگریزی مضمون (مطبوعہ فرائیڈے ٹائمز ۳۰؍مارچ۲۰۱۲ء)کا اردو ترجمہ بقلم مکرم زکریا ورک صاحب شامل اشاعت ہے۔ مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ستمبر۱۹۶۱ء میں جب مَیں یوایس اٹامک انرجی کمیشن لیبارٹری (OakRidge) میں متعین تھا تو مجھے واشنگٹن سے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا فون آیا۔ فرمایا کہ جلد از جلد اور ہرصورت واشنگٹن پہنچ کر اُن کے ہمراہ ایک اہم میٹنگ میں شامل ہوجاؤں۔ انہوں نے واضح کردیا کہ اُن کو کوئی پرواہ نہیں کہ مَیں کس طرح وہاں پہنچتا ہوں۔ وہ صدر ایوب کے ہمراہ وہاں آئے تھے جو امریکہ کے سرکاری دورہ پر تھے۔ بہرحال اگلی صبح مَیں اُن کے پاس پہنچ گیا اور پھر ہم اُن کے ہمراہ ناسا کے ہیڈکوارٹر میں گئے۔ ہماری ملاقات ڈائریکٹر آف انٹرنیشنل ریلیشنز Arnold Frutkin سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ صدر کینیڈی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی کے اختتام پر پہنچنے سے پہلے امریکہ چاند پر انسان اتارے گا اور اس کو بحفاظت واپس لے کر آئے گا۔ اُن کا راکٹ چاند کی جانب روانہ کرنے سے پہلے زمین کے محور میں رکھا جائے گا اس کے لیے زمین کی بالائی فضا کے خواص کا جاننا ضروری ہے۔ بحر ہند کے اردگرد کی بالائی فضا کے متعلق ڈیٹا موجود نہیں۔ اس لیے ناسا نے اُس علاقے کے چند ملکوں کا انتخاب کیا ہے کہ وہ راکٹ رینجز قائم کریں اور سائنسی تجربات بھی کریں۔ امریکہ یہ آلات اور راکٹ مفت میں مہیا کرے گا بشرطیکہ وہ ان تجربات سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو شیئر کریں۔ ڈاکٹر سلام نے مجھ سے پوچھا تو مَیں نے یہ ذمہ داری اٹھانے پر رضامندی ظاہر کی۔ چنانچہ مجھے اُسی دوپہر واشنگٹن سے ایک جہاز کے ذریعے ڈیڑھ سو میل دُور واقع جزیرہ Wallops بھجوایا گیا جہاں ناسا کے راکٹ اور لانچ کرنے کے آلات متعارف کروائے گئے۔ رات کو مَیں نے اس سفر کی رپورٹ مرتب کی اور صبح بذریعہ جہاز واشنگٹن پہنچ کر اُس میٹنگ میں شامل ہوگیا جو گذشتہ روز میری اس رپورٹ کے انتظار میں ملتوی کردی گئی تھی۔ رپورٹ بہت مثبت تھی چنانچہ صدر ایوب کی منظوری سے پاکستان اس سکیم کا حصہ بنادیا گیا۔ ہم نے کراچی سے قریباً ایک سو کلومیٹر دُور واقع بلوچستان کے ساحلی شہر سون میانی میں تجرباتی مرکز قائم کرکے جون ۱۹۶۲ء میں مذکورہ منصوبہ نوماہ میں مکمل کرکے امریکہ کو مطلوبہ نتائج مہیا کردیے۔ میری عمر اُس وقت صرف ستائیس سال تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام اس محنت طلب اہم کام کرنے کے لیے مجھ پر کیسے اعتماد کرسکتے تھے! پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قیام غالباً ۱۹۵۶ء سے قبل عمل میں آچکا تھا جس کے اعزازی ممبر کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالسلام بھی تھے۔ ۱۹۵۷ء میں مَیں لندن یونیورسٹی سے مکینیکل انجینئرنگ میں فرسٹ کلاس آنرز کے ساتھ گریجوایشن کرچکا تھا جب آپ لندن تشریف لائے تاکہ پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئرز کو کمیشن کے لیے ریکروٹ کرسکیں۔ انٹرویو بورڈ میں پاکستان کے برطانیہ میں ہائی کمشنر اور امپیرئیل کالج لندن میں قائم نیوکلیئر انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے انچارج بھی شامل تھے۔ سترہ امیدواروں میں سے صرف مجھے ہی منتخب کیا گیا اور یوں پروفیسر عبدالسلام کے ساتھ میری لمبی اور عزیز رفاقت کا آغاز ہوا جو کئی دہائیوں پر ممتد تھی۔ ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی جو انرجی کمیشن کے چیئرمین بھی رہے، اُن کے اور پروفیسر عبدالسلام کے مابین ایسا گہرا منصبی تعلق تھا کہ لوگ ’’عثمانی سلام بھائی بھائی‘‘ کہا کرتے تھے۔ انہوں نے سٹاف ممبران کو کورسز پر بھیجنا شروع کیا۔ مجھے بھی دو سال کی تربیت کے لیے امریکہ بھجوایا گیا تھا۔ ان حالات میں پروفیسر سلام کا اعتماد مجھ پر بڑھتا گیا اور آخر انہوں نے مجھے امریکہ کے مطلوبہ تجربات کے منصوبے سرانجام دینے کا اہل سمجھا۔ بہرحال ابتدائی منظوری کے بعد ہم نے ایک ہفتے میں ایک چھوٹی سی ٹیم تشکیل دی۔ امریکی بہت خوش تھے کہ ہم اس کام میں بہت سنجیدہ تھے۔ چنانچہ امریکہ میں ہماری تربیت شروع ہوگئی اور کراچی میں راکٹ رینج کا ڈیزائن، انفرا سٹرکچر اور عمارتوں کا منصوبہ تیار ہونے لگا۔ سون میانی کا انتخاب صدر ایوب نے خود کیا تھا۔ اس منصوبے کی نگرانی کے لیے مَیں نے دونوں مقامات کے دورے کیے۔ فریقین کے مابین طے پایا کہ پہلا تجربہ پاکستان اپنے خرچ پر کرے گا۔ عجلت کے پیش نظر اس منصوبے کی منظوری صدر ایوب نے براہ راست دی تھی کیونکہ جون ۱۹۶۲ء میں مون سون کا موسم شروع ہونے سے قبل تجربات مکمل کرنے کی خواہش تھی۔ چنانچہ نو ماہ کے قلیل عرصے میں راکٹ رینج تعمیر کرکے عملے کو تربیت دی گئی، آلات کی خریداری کی گئی اور ان کو بذریعہ ہوائی جہاز کراچی بھجوایا گیا اور نصب کرکے ٹیسٹ کیا گیا۔ پاکستان میں راکٹ لانچنگ کا ٹیکنیکل کام پہلی بار کیا جارہا تھا اس لیے ہماری ساری ٹیم پوری مستعدی اور جذبے سے دن رات اس کام میں منہمک رہتی۔ میری Rambler کار بذریعہ جہاز امریکہ سے کراچی بھجوائی گئی جس کی boot میں حساس آلات رکھے گئے تھے۔ بہرحال یہ منصوبہ ٹائم لائن کے اندر مکمل کرلیا گیا۔ ہندوستان کا تھمبار رینج کا منصوبہ کچھ ماہ کے بعد شروع ہوسکا کیونکہ وہ بیوروکریسی کے ذریعے منظوری حاصل کررہے تھے۔ انہوں نے ہمارے ایک سال بعد ۱۹۶۳ء میں راکٹ لانچ کیا۔ ۷؍جون۱۹۶۲ء کی شام سات بج کر ترپن منٹ پر جب رہبر اوّل آسمان کی طرف پرواز کرنے لگا تو پروفیسر عبدالسلام اور ڈاکٹر عثمانی کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ وہ ٹیم کے تمام ارکان سے بغل گیر ہوئے۔ اگلے روز مجھے پروفیسر عبدالسلام کا ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ موصول ہوا جس میں انہوں نے ہماری کامیابی پر فخر و انبساط کا اعادہ کیا تھا۔ ………٭………٭………٭……… تبصرہ کتب: ڈاکٹر عبدالسلام کی متاثرکُن زندگی ۱۹۸۲ء سے اب تک ڈاکٹر سلام کی عالیشان زندگی پر چار قابل ذکر سوانح عمریاں شائع ہوچکی ہیں یعنی ڈاکٹر عبدالغنی، جگجیت سنگھ، گورڈن فریزر اور مجاہد کامران۔ یہ سب انگریزی میں ہیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران قبل ازیں ڈاکٹر سلام کی زندگی پر متعدد مبسوط و محققانہ مضامین ضبط تحریر میں لاچکے ہیں۔ اُن کو ڈاکٹر سلام کا ہونہار اور منظورِ نظر شاگرد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ گورنمنٹ کالج میں وہ سلام چیئر کے حامل رہے ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ۱۹۸۵ء میں اُن کو ’عبدالسلام پرائز اِن فزکس‘ دیا گیا تھا۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ اپنی ذات میں ایک تسلیم شدہ سائنسدان، سلام کے شاگردخاص نیز ایک قلم کار ہونے کے ناطے اُن ہی کو زیب دیتا تھا کہ وہ اپنے ذیشان استاد کے حالاتِ زندگی کو مدلّل اور مبسوط طریق پر قلم بند کریں۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ڈاکٹر سلام نے مجاہد کامران سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اُن کی سرگذشت ضبط تحریر میں لائیں۔ اگرچہ کئی سال بعد لیکن ڈاکٹر عبدالسلام کی نئی انگریزی سوانح The Inspiring Life of Abdus Salam (عبدالسلام کی متاثرکُن زندگی)جنوری ۲۰۱۳ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور نے شائع کی ہے جس میں حالاتِ زندگی کے علاوہ ڈاکٹر سلام کی سائنس اور پاکستان کے لیےخدمات اور عظیم الشان کامیابیوں کی تفصیل شامل ہے۔ اس کتاب پر مکرم زکریا ورک صاحب کا تبصرہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۷؍اگست ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا ہے۔ زیرنظر سوانح عمری میں سلام کے میٹرک سے ماسٹرز تک کے امتحانات کے حاصل کردہ نمبروں کی یونیورسٹی آف پنجاب کی اصل فہرست شامل ہے۔ مصنف کے ڈاکٹر سلام کے ساتھ ذاتی تبادلہ خیال اور سلام کے آئیڈیاز کا ذکر ہے۔ ایک باب سلام بحیثیت طبیعیات دان اور انسان بہت منفرد ہے۔ سلام کے شاگرد Delbourgo کہتے ہیںکہ ریاضی کی مدد کے بغیر کسی مسئلے کے ٹھیک ہونے کے بارے میں سلام اندازہ لگالیتے تھے، اُن کو مسئلے کا جواب وہبی طور پر معلوم ہوتا تھا جو اکثر درست ہوتا تھا۔ اگر اُن سے پوچھا جاتا کہ وہ اپنے جواب سے کیوں اس قدر پُریقین تھے تو اُن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ وہ ہاتھ کے انگوٹھوں کو دائرے میں گھماتے، کرسی میں پیچھے ہوکر نیم دراز ہوجاتے اور انگلی آسمان کی طرف اٹھاکر اشارہ کردیتے۔ وہ کسی بھی شخص کو اپنی علمیت پر شیخی بگھارتے ہوئے برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ پروفیسر Bertocciکہتے ہیں سلام کا مخصوص انداز تھا کہ فزکس یا دیگر علوم میں اہم نقاط کو اٹھالیں، ان پر محتاط رنگ میں نظر ڈالیں اور غیراہم نقاط کو نظرانداز کردیں بشرطیکہ فائنل رزلٹ ٹھیک ہو۔ سلام کے لیے مطالعہ کرنا اتنا ہی اہم تھا جتنا کہ تخلیق کرنا۔ ۱۹۸۷ء میں انہوں نے اختر سعید سیکرٹری تعلیم پنجاب کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ ایک نئی قسم کا حساب (Reimann Surface)سیکھ رہے تھے اور یہ بہت مشکل ہے۔ اس سوال پر کہ کیا انہوں نے نظریاتی طبیعیات میں اپنا تحقیقی کام ختم کردیا ہے؟ سلام نے جواب دیا کہ کام کیسے ختم ہوسکتا ہے، کام ختم کرنا موت کے مترادف ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی ناامیدی یہ ہے کہ اُن کے پاس تحقیقی کام کے لیے خاطرخواہ وقت نہیں ہے۔ یہ درس تھا کیونکہ ڈاکٹر سلام اکثر مختلف ممالک کے درمیان سفر میں ہوتے تھے۔ اُن کے شاگرد ڈیل بورگو کہتے ہیں کہ سلام اپنا تحقیقی کام سفر کے دوران کرتے تھے۔ پروفیسر گورڈن فیلڈمین کا کہنا ہے کہ سلام نہ صرف اپنے آئیڈیاز کے بارے میں بلکہ جب بھی وہ کسی نئی چیز کے بارے میں پڑھتے تو بہت جذباتی ہوجاتے بشرطیکہ بیان کردہ آئیڈیا خوبصورت ہوتا۔ ڈاکٹر کارلو Rubbia نے ڈاکٹر سلام کی سرنؔ کے لیے خدمات پر ۱۹۹۷ء میں مقالہ پڑھا اور بتایا کہ سرنؔ کے مستقبل کے متعلق سلام کا ویژن، جوش اور نظر ایسی تھی کہ گویا وہ سرنؔ کے آئندہ بیس سال کی نقشہ کشی کرچکے تھے۔ سلام کو دنیا کے چھیالیس اداروں کی طرف سے D.Sc کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ آپ اہم عالمی سائنسی اداروں کے فیلو تھے۔ متعدد عالمی انعامات آپ کو ملتے رہے۔ ۲۷۵؍ سائنسی مقالوں کے مصنف یا شریک مصنف تھے۔لیکن اوّل و آخر پاکستانی تھے اور پاکستانی شہریت پر آپ کو فخر تھا۔ ………٭………٭………٭……… مزید پڑھیں: الفضل ڈائجسٹ