https://youtu.be/GtbWZX0EQ1Q شامل ہونے والوں کا بھی یہ کام ہے کہ اگر کارکنان میں کوئی کمزوریاں یا کوتاہیاں یا کمیاں رہ گئی ہوں تو اُن سے صرفِ نظر کریں خلاصہ خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۲۵؍جولائی۲۰۲۵ء بمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن، ہمپشئر، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲۵؍جولائی ۲۰۲۵ء کو حدیقۃ المہدی، آلٹن، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت عزیزم فرید احمد صاحب طالب علم جامعہ احمدیہ یوکےکے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا کہ آج شام سے ان شاء الله جلسہ سالانہ برطانیہ کی کارروائی باقاعدہ شروع ہو گی۔ یہ جلسہ، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس میں جماعت کی علمی، اخلاقی اور روحانی حالت کی بہتری کے لیے پروگرام ہوتے ہیں۔ الله تعالیٰ سب شامل ہونے والوں کواِس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اِس وقت مَیں جلسہ میں ڈیوٹی دینے والوں اور شامل ہونے والوں سے کچھ باتیں کروں گا۔ اسلام میں مہمانوں کی عزت و تکریم کی بہت تاکید ہے۔ آنحضرت ﷺنے بھی اِس کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہمان کو جائز حق دو۔ اور یہ جائز حق حالات کے مطابق کچھ دنوں کی مہمان نوازی ہے۔ آپؐ کی اِسی نصیحت کا اثر تھا کہ صحابہؓ قربانی کر کے بھی مہمان نوازی کرتے تھے۔ اُس وقت ابتدائی زمانے میں صحابہؓ کے حالات ایسے نہیں تھے کہ کشائش ہو اور آرام سے دو وقت کا کھانا بھی میسر ہو۔ صحابہؓ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر، اپنا حق چھوڑ کر مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ پس آجکل اِن دنوں میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے جو مہمان جلسہ سننے آ رہے ہیں، اُن کی ہر طرح سے خدمت اور مہمان نوازی کرنا ہر کارکن، ہر ڈیوٹی دینے والے اور ہر اُس افسر کا فرض ہے، جو کسی بھی محکمے میں، شعبے میں کام کر رہا ہے۔ اِن دنوں میں خاص طور پر محنت، صبر اور دعا سے کام لیں۔مہمانوں کی طرف سے اگر کبھی کوئی سخت بات بھی سنیں تو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے، الله تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے، صرفِ نظر کریں۔ یہاں مختلف شعبہ جات ہیں۔ مَیں نے پچھلے خطبے میں بھی مختصراً بیان کیا تھا کہ ہر شعبے کا افسر اور اُس کے معاونین اپنے فرائض خوش اسلوبی اور خوش خُلقی سے ادا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بھی اِس بارے میں بے شمار واقعات ہیں۔ آپؑ خاص طور پر یہ ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ مہمانوں سے حُسنِ سلوک کس طرح کرنا ہے۔ آپؑ کے ارشادات اور واقعات، آپؑ کی سیرت کی کُتب میں، مختلف پیرایوں میں، مختلف جگہوں پر بیان ہوئے ہیں۔ آسام سے آئے ہوئے مہمانوں کی مہمان نوازی کا بھی ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپؑ نے کس طرح اُن کی خاطر داری کی۔ یہ واقعہ ہم سنتے ہیں اور اِس سے ہم محظوظ ہوتے ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن کا خیال رکھا۔ لیکن یہ تمام کارکنوں، تمام ڈیوٹی دینے والوں اور اُن تمام لوگوں کے لیے ایک سبق ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کرنے کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ حضور انور نے اِس واقعہ کی تفصیل پیش کرنے کے بعد اِن مہمانوں کے لیے آپؑ کے خاص خوراک کے انتظام کرنے کے تناظر میں فرمایا کہ یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ لنگر خانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ جو ارشاد ہے کہ ایسے مہمانوں کی مہمان نوازی کرو، وہاں یہ بھی ارشاد ہے کہ جلسے کے دوران ایک ہی طرح کا کھانا پکا کرے، جو تمام مہمانوں کو کھلایا جائے۔ کیونکہ وہ کافی تعداد میں لوگ ہوتے ہیں، مختلف انتظام مشکل ہوتا ہے۔ اِسی طرح مہمان نوازی کی ایک اور مثال حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا، غالباً ۱۸۹۷ء یا ۱۸۹۸ء کا واقعہ ہو گا، مجھے حضرت صاحبؑ نے مسجد مبارک میں بٹھایا، جو اُس وقت بہت چھوٹی سی جگہ تھی۔ آپؑ نے فرمایا کہ آپ یہاں بیٹھیں، مَیں آپ کے لیے کھانا لاتا ہوں، یہ کہہ کر آپؑ اندر تشریف لے گئے۔ مفتی صاحبؓ کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ آپؑ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے، مگر چند منٹ کے بعد جب مسجد اور آپؑ کے گھر کے درمیان واقع کھڑکی کھلی تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ آپؑ خود اپنے ہاتھ میں کھانے کی طشتری یا ٹرے اُٹھائے ہوئے میرے لیے کھانا لے کر آئے ہیں۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کھانا کھائیں، مَیں ابھی پانی لے کر آتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ اُس وقت بےاختیار رقّت سے میرے آنسو نکل گئے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے مقتدا اور پیشوا ہو کر ہمارے لیے یہ خدمت بجا لاتے ہیں تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کی کس قدر خدمت کرنی چاہیے۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہ ایک اُسوہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت میں ہمیں مہمان نوازی کے ایسے بہت سارے واقعات ملتے ہیں۔ آپؑ نے لوگوں کو ایک دفعہ فرمایا کہ میرا ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو، بلکہ اِس کے لیے ہمیشہ تاکید کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے، مہمانوں کو آرام دیا جائے۔ مہمان کا دل مثلِ آئینہ کے نازک ہوتا ہے جو ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ مختلف قوموں کے اپنے اپنے طریقے اور حالتیں ہوتی ہیں، بعض بہت جلد جذباتی ہو جاتے ہیں، غصّے میں بھی آ جاتے ہیں، تو آپؑ نے فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ وہ جذباتی کیوں ہوئے اور غصّے میں کیوں آئے؟ مہمان کا دل تو شیشے کی طرح ہے، ایک آئینے کی طرح ہے، ٹوٹ جاتا ہے۔ اِس لیے اِس سے پہلے کہ اُسے ٹھیس پہنچے اور وہ ٹوٹے، تم اُس کی حفاظت کا سامان کرو۔ پس یہ ہے وہ اُسوہ اور نصیحت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے آقا و مطاع کی پیروی میں مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے ہمیں فرمائی ہے۔ ایک واقعہ بیان ہوتا ہے کہ ایک دفعہ بہت سارے مہمان آئے ہوئے تھے، آپؑ نے لنگر خانے کے انچارج میاں نجم الدین صاحب سے فرمایا کہ دیکھو! بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں، اُن میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں، اِس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر اُن کی تواضع کرو۔ حضور انور نے فرمایا کہ سب کی عزت و اکرام کرنا ضروری ہے، یہ نہیں دیکھنا کہ کوئی غریب ہے یا امیر ہے، کوئی امریکہ سے آیا ہوا ہے یا کوئی پاکستان سے آیا ہے، کوئی افریقہ سے آیا ہے یا کسی اور ملک سے یا یہیں کا رہنے والا ہے۔ آجکل یہ خیال رکھنا چاہیے۔ سب مہمان ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کےبلانے پر جلسہ سننے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ اِس لیے اُن کی عزت اور اکرام کرنا، اُن کی تواضع اور مہمان نوازی کرنا اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ دیکھیں کہ آپؑ نے کس طرح مہمانوں کی خدمت کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ آپؑ نے اپنے کارکنوں سے یہ بھی فرمایا کہ مجھے تم پر حُسنِ ظنّ ہے کہ تم مہمانوں کی صحیح طرح خاطر داری کر رہے ہو گے اور اُن کی خدمت کرتے ہو گے۔ پس ہر کارکن کو ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ جس جگہ اور جس شعبے میں بھی اُس کی ڈیوٹی ہے، وہاں وہ مہمانوں کی مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے، خواہ کھانا کھلانے کی مارکی میں ہوں یا دیگر دوسری جگہوں پر، اُنہیں بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ جیسا کہ مَیں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ مختلف شعبہ جات ہیں، ٹکٹ بنانے سے لے کر جلسہ گاہ آنے تک کے شعبے ہیں، اِن کارکنوں سے مہمانوں کو واسطہ پڑتا ہے، وہاں ہر کارکن کو اپنی خوش اخلاقی اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کھانا پکانے اور کھانا کھلانے کے شعبے ہیں، اِن شعبوں کو بھی مہمان نوازی کا حق ادا کرنا چاہیے، کیونکہ یہ مہمان نوازی کا بڑا اہم حصّہ ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ کوشش ہو کہ مہمانوں کو پیٹ بھر کے کھانا کھلایا جائے اور عزت سے کھلایا جائے۔ لنگر خانے میں کام کرنے والوں کو عمدہ قسم کا کھانا پکانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اِس بات کو یقینی بھی بنانا چاہیے کہ ضرورت کے مطابق کھانا میسر ہو اور کم نہ پڑ جائے۔ صفائی ستھرائی کے شعبے میں بھرپور توجہ دینی چاہیے، صفائی بھی ایمان کا حصّہ ہے، کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفائی ایمان کا حصّہ ہے، اِس لیے اِس طرف خاص توجہ دینی چاہیے، اِس چیز میں ماحول کی صفائی بھی شامل ہے اور ہمارے جو دوسرے انتظامات ہیں، غسل خانے وغیرہ ہیں، اُن کی صفائی بھی شامل ہے۔ بعض لوگوں کو صحیح ادراک نہیں ہوتا اور وہ پوری طرح جلسہ نہیں سنتے، ڈسپلن والوں کو چاہیے عورتوں میں بھی اور مردوں میں بھی کہ اِن کو پیار اور نرمی سے سمجھائیں۔ بہرحال ہر جگہ اِس بات کا خیال رکھنا ہے کہ کارکن اِن دنوں میں خوش اخلاقی کا ایک خاص نمونہ دکھائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو حُسنِ ظنّ فرمایا ہے، اِس پر پورا اُترنے کی کوشش کریں۔ اِسی طرح مَیں بعض باتیں مہمانوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ گو چند ایک غیر اَز جماعت مہمان بھی یہاں آتے ہیں، لیکن اِن کے لیے تو ایک خاص شعبہ علیحدہ قائم ہے اور اِن کی خاص طور پر مہمان نوازی کی جاتی ہے، کیونکہ یہ غیر ہیں۔ لیکن اِن چند ایک کے علاوہ تمام مہمان جن کی اکثریت احمدی احباب کی ہے، آپ لوگ یہاں جلسہ سننے کے لیے آئے ہیں، اِس لیے اِس بات کو اہمیت نہ دیں کہ آپ کے لیے انتظام صحیح ہوا ہے یا نہیں ہوا، آپ کی مہمان نوازی صحیح ہوئی ہے یا نہیں ہوئی، یا کسی کارکن نے کیسا رویّہ اختیار کیا ہے، اصل مقصد تو روحانی مائدے کو حاصل کرنا ہے اور آپ لوگوں کو اِسی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ گو میزبانی کرنے والوں کو، جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیےاور وہ کرتے ہیں، لیکن اِسی طرح شامل ہونے والوں کا بھی یہ کام ہے کہ اگر کارکنان میں کوئی کمزوریاں یا کوتاہیاں یا کمیاں رہ گئی ہوں تو اُن سے صرفِ نظر کریں۔ اِن میں سے صفائی والے کوئی تربیت یافتہ تو لوگ نہیں ہیں، یا ڈسپلن کے محکمے میں جو کام کررہے ہیں، وہ پولیس کے کارکن تو نہیں ہیں، یا گیٹ پر ڈیوٹی دینے والے ہیں، وہ ٹرینڈ تو نہیں ہیں۔ یا ٹریفک کنٹرول کرنے والے ہیں، وہ بھی کوئی ٹرینڈ پولیس والے تو نہیں، جو ٹریفک کنٹرول کر رہے ہیں۔ یہ سب لوگ والنٹیئرہیں۔ مہمانوں کی خدمت کے لیے اُنہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے، اِن میں بعض سیکنڈری سکول کے بچے ہیں، بعض یونیورسٹیوں کے طالب علم ہیں، کچھ دوسرے پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور اچھے خاصے پیشوں میں کام کرنے والے اور اچھی پوزیشنوں والے لوگ ہیں، یہ سب ایک جذبے سے خدمت کر رہے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے۔ پس اِن کے جذبے کو سراہتے ہوئے، اِن سے بھرپور تعاون کریں اور اِن کی کمزوریوں سے صرفِ نظر کریں۔ جب آپ ایسا کریں گے تو آپ اُس مقصد کو پانے والے ہوں گے، جس کے لیے آپ لوگ یہاں آئے ہیں اور اِس سے آپس کے تعلقات میں مزید نکھار بھی پیدا ہوگا۔ سب مہمانوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ اُن کے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے اور وہ مقصد اعلیٰ اخلاق اور الله تعالیٰ کو یاد کرنے سے ہی پورا ہو سکتا ہے۔ کھانے کی مارکی میں ہر مہمان کا فرض ہے کہ کھانا کھانے کے بعد جلدی سے مارکی خالی کر دیں تاکہ دوسرے لوگ بھی آ کر کھانا کھا سکیں۔ اِسی طرح کارکن پلیٹوں میں کھانا ڈال کر دیتے ہیں، آپ اگر مطالبہ کریں گے اور جیسا کہ اُن کو بھی کہا ہوا ہے، وہ آپ کو کھانا دیں گے، لیکن کھانا ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ رزق کی ہمیشہ قدر کرنی چاہیے۔ بعض لوگ ذرا سی بھی روٹی جلی ہو، کچی ہو تو اُسے نکال کر پھینک دیتے ہیں، کوشش کرنی چاہیے کہ اگر وہ کھانے کے قابل ہے تو کھا لی جائے، سوائے اِس کے کہ کوئی بہت بیمار ہو اور اِس کے لیے وہ تکلیف کا باعث بنے۔ جب تک روٹی بہت زیادہ جلی ہوئی یا بہت زیادہ کچی نہ ہو، اُسے ضائع کرنے سے بچیں۔ اِسی طرح سالن کو بھی ضائع ہونے سے بچائیں۔ ایک تو یہ رزق کا ضیاع ہے، جو نہیں ہونا چاہیے اور دوسرے وہی کھانا کسی اور دوسرے کے بھی کام آ سکتا ہے۔ دوسرے یہ بھی ایک مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے کہ جو بہت زیادہ کھانا پلیٹوں میں بچ جاتا ہے، تو اُس کو کوڑے میں پھینکنا، ڈسپوزل اُس کا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے صفائی کے شعبہ پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور اُنہیں بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اِس لیے مہمانوں کو چاہیے کہ جلسہ سالانہ کے اِن دنوں میں کھانے کو برکت سمجھ کے کھائیں اور اُس کو ضائع نہ کریں۔ہمیشہ اِس بات کا خیال رکھیں کہ ہم نے رزق کو ضائع ہونے سے بچانا ہے اور اِس طرح کام سمیٹنے والوں کے لیے بھی آسانی پیدا کرنی ہے۔ ہم یہاں آئے ہیں، گو جلسے کے تحت ایک انتظام ہے، اور ڈیوٹیاں دینے والے ڈیوٹیاں دے رہے ہیں، لیکن شامل ہونے والے اور کام کرنے والے سب احمدی ہیں اور ہم سب کا مقصد ایک ہے کہ ہم نے یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم اور اسلام کی تعلیم کے مطابق اپنی اخلاقی، روحانی اور علمی اصلاح کرنی ہے۔ چاہے وہ ڈیوٹی دینے والے ہوں یا مہمان ہوں، سب کا یہی کام ہے۔ وہ اِس کے لیے کوشش کریں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جلسے کے مقصد کو آپ نے پورا کرنا ہے اور اُن برکات کو سمیٹنے اور اُن سے اپنی جھولیاں بھرنے کی کوشش کرنی ہے، جو برکات اِس جلسے کی ہیں اور جن کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس جلسے کا اجرا فرمایا تھا۔ آپؑ نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا تھا کہ جلسے میں بیٹھ کر آرام سے جلسہ سنو اور صرف تقریروں وغیرہ اور اچھائی یا برائی کو نہ دیکھو بلکہ اِس بات کو دیکھو کہ جو بات بیان کی جارہی ہے، وہ الله اور رسولؐ کے حکموں کے مطابق ہے اور اِس پر ہم نے عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے، نہ یہ کہ کون بیان کر رہا ہے اور کس طرح بیان کر رہا ہے۔ پس یہ وہ تعلیم ہے اور اخلاص کایہ معیار ہے، جسے ہر شخص اور ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ صرف ہم نے نعرے لگانے کے لیے یا پسند کے لیے باتیں نہیں سننی بلکہ الله اور رسولؐ کے واسطے اُن پر عمل کرنے کے لیے باتیں سننی ہیں۔ اور اِسی مقصد کے لیے ہر احمدی کو یہاں آنا چاہیے اور مجھے امید ہے کہ اِس مقصد کے لیے آئے ہوں گے۔ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا ہے کہ جو کام ہو، الله تعالیٰ کے لیے ہو اور جو بات ہو خدا کے واسطے ہو، ہر ایک کو اِس اصول کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اِس بارے میں بھی یاد رکھیں کہ ہمیں اپنے دن ذکرِ الٰہی میں گزارنے چاہئیں،جلسہ سنتے ہوئے بھی اپنی زبانوں کو ذکرِ الٰہی سے تَر رکھیں، بعد میں چلتے پھرتے، ملتے جلتے بھی جو لوگوں سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں، اُس وقت بھی خالصتاً دینی باتیں ہوں۔ الله تعالیٰ کے ذکر کی باتیں ہوں۔ قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقاصد کو پورا کرنے والی باتیں ہوں۔ الله تعالیٰ کے ذکر اور دین کے لیے دعائیں کرنے کی طرف توجہ ہو۔ ذکرِ الٰہی ہی ہے جو انسان کے خیالات کو پاک کرتا ہے اور اُسے الله تعالیٰ کے افضال کا وارث بھی بنا دیتا ہے۔ شامل ہونے والے اور سب کام کرنے والے اِن باتوں کی طرف توجہ دیں کہ ہم نے اپنی زبانوں کو ذکرِ الٰہی سے تَر رکھنا ہے اور جب یہ ہو گا تو پھر ایک ایسا ماحول پیدا ہو جائے گا، جو یقیناً وہ ماحول ہے، جس کی خاطر یہ جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ یادرکھو! جو کچھ بیان کیا جاوے، اُسے توجہ اور بڑے غور سے سنو، کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتا، خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے، اُسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا۔ حضور انور نے توجہ دلائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس بارے میں بڑی فکر کا اظہار فرمایا ہے کہ اگر تم جلسے کی کارروائی توجہ سے نہیں سنتے تو تمہارے یہاں جلسے پر آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اِس بات کو خاص طور پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا مقصد اپنی اصلاح کرنا ہے۔ اپنے دینی علم کو بڑھانا ہے۔ اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنا ہے۔ اور اِس کے لیے ہم نے بھرپور کوشش کرنی ہے۔ اخلاقی طور پر بھی اپنی حالت کو بہتر کرنا ہے۔ اپنے دوستوں اور بھائیوں کے لیے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ اور دل کی رنجشوں کو دُور کرنا ہے اور یہ بھی ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہ جو ماحول پیدا ہوا ہے اور اِس میں اتنے ہزار لوگ جمع ہیں، یہ بھی ایک ایسا ماحول ہے کہ اگر اِس میں ایک دوسرے سے بھلائی اور بھائی چارے کا سلوک کریں گے، تو وہ حالات اور ماحول پیدا ہو گا، جس میں محبّت، پیار، اخوّت اور بھائی چارہ ہو گا، جو اسلامی تعلیم کا خاصّہ ہے، اور اِسی پر عمل کرکے ہی انسان الله تعالیٰ کے نزدیک سرخرو اور اُس کے فضلوں کو حاصل کرنے والا ہو سکتا ہے۔ آپؑ نے اپنی بہت ساری تقریروں میں اِس طرف توجہ دلائی ہے کہ جلسے پر آنے کا ایک مقصد اعلیٰ اخلاق کا حصول ہے۔ اور اِس اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہر طرف سے ہونا چاہیے۔ ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پس اِس طرف کارکن بھی اور مہمان بھی دونوں توجہ دیں کہ ہمارے اخلاق ہمیشہ اعلیٰ ہوں اور ہر شرّ سے بچنے کے لیے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیے۔ بعدازاں حضور انور نے جلسے کے بارے میں بعض دیگر متفرق نصائح بھی فرمائیں کہ اسلام آباد اور یہاں ہمسایوں کا بھی خیال رکھیں، سڑکوں کے قوانین کی پابندی کریں، لوگوں کے گھروں کے سامنے کسی قسم کا گند نہ ڈالیں۔ بچوں والی خواتین کے لیے علیحدہ مارکیاں بنائی گئی ہیں، عورتوں کو بغیر ضد کیے، اُنہی بچوں والی مارکیوں میں رہنا چاہیے اور یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہاں شور نہ مچائیں، جب وہ خود اپنا نمونہ دکھائیں گی، تو بچے بھی خاموشی سے سنیں گے۔ اِسی طرح پارکنگ اور گیٹس سمیت تمام انتظامات ہیں، مہمانوں کو کارکنوں سے تعاون کرنا چاہیے تاکہ تمام انتظامات بڑے آرام سے اور رواں طریقے سے چل سکیں۔اِسی طرح مہمانوں کو اپنے اِرد گرد کے ماحول پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اگر کوئی مشکوک چیز دیکھیں تو فوری اطلاع دیں۔ اپنے کارڈ ہمیشہ اپنے پاس رکھیں اور چیک کروائیں۔ جو لوگ قیام گاہوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں، وہ کوشش کریں کہ اپنی کوئی قیمتی چیز وہاں چھوڑ کر نہ آئیں۔ خطبۂ ثانیہ سے قبل حضور انور نے فرمایا کہ الله تعالیٰ کرے کہ آپ سب لوگ اِس جلسے سے بھرپور فائدہ اُٹھانے والے ہوں، اِس کی برکات سے فائدہ اُٹھانے والے ہوں اور جب یہاں سے واپس جائیں تو اپنی جھولیاں بھر کر واپس جائیں، جو الله تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہوں۔ الله تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے آپ لَوٹیں۔الله تعالیٰ ہمیشہ زندگی میں آپ پر اور آپ کی نسلوں پر فضل فرماتا رہے، ہمیشہ احمدیت کا ایک کارآمد وجود بن کر دنیا میں آپ زندگی بسر کرنے والے ہوں، آپ کی نسلیں بھی اِس طرح ایک پاک اور کارآمد وجود بن کر دنیا میں زندگی گزارنے والی ہوں اور الله کرے کہ تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے۔ حضور انور نے آخر میں فرمایا کہ گذشتہ سالوں کی طرح اِس سال بھی مختلف شعبوں کی نمائشیں ہیں اور اچھی، معلوماتی اور علم میں اضافے کا ذریعہ ہیں، دلچسپ ہیں، اِنہیں بھی دیکھنے کی کوشش کریں۔ ایک جگہ ساری نمائشیں جمع ہیں۔ اِسی طرح بُک سٹال پر نئی کُتب بھی آئی ہوئی ہیں، وہاں بھی ضرور جائیں۔ وقفہ میں صرف بازاروں میں نہ پھرتے رہیں یا وہیں بازاروں کی خرید و فروخت نہ کریں بلکہ اِس روحانی مائدہ سے بھی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں۔ الله تعالیٰ سب کو توفیق دے۔ ٭…٭…٭