’’قرآن کریم۔ بنی نوع انسان کے ليے کامل ہدایت‘‘،’’اسلام اور عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل کا حل‘‘ اور’’خلافت ۔ میری روحانی روشنی‘‘ کے عناوین پر سیر حاصل تقاریر آج مستورات کی جلسہ گاہ میں کارروائی کا آغاز صبح دس بجے ہوا۔ اجلاس کی صدارت نیشنل صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ یوکے مکرمہ ڈاکٹر قرۃالعین عینی صاحبہ نے کی۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرمہ نور عودہ صاحبہ نے کی۔اردو ترجمہ مکرمہ فائزہ اسلم صاحبہ نے پیش کیا۔ درثمین سے منظوم اردو کلام ’’جمال و حسن قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے‘‘مکرمہ رضوانہ شمس صاحبہ نے نہایت خوش الحانی سے پیش کیا۔ مستورات کے اجلاس کی پہلی تقریر مکرمہ ماہ رخ عارف طیب صاحبہ، ایڈیٹر النصرت، لجنہ اماءاللہ برطانیہ کی انگریزیزبان میں تھی جس کا عنوان ’’قرآن کریم۔ بنی نوع انسان کے ليے کامل ہدایت‘‘ تھا۔ قرآن کریم ایک الٰہی تحفہ ہے جو ۱۴۰۰؍سال پہلے ایک مکمل راہنما کے طور پر نازل کیا گیا۔ موجودہ دور میں جہاں مذہب کو غیر ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ جرمن مفکر نطشے نے کہا کہ خدا مردہ ہے نعوذ باللہ۔ اور اب خدائی راہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ انسان کی عقل ہی کافی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ کے شروع میں ہی فرماتا ہے ’’یہ وہ کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو‘‘ (البقرہ : ۳) مقررہ نے روحانی ہدایت کے بارہ میںکہا کہ ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ انسانی عقل محدود ہے لیکن اللہ کا علم لا محدود ہے۔قرآن کا مرکزی موضوع اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی معرفت ہی کافی نہیں بلکہ تقویٰ کی مشق اور ایک گہری روحانی بیداری کی ضرورت ہے قرآن کریم متقیوں کو ہدایت دیتا ہے۔ قرآن متقین کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ پنجوقتہ نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔ صدقہ دیتے اور قرآن کریم پر غور کرتے ہیں۔ مقررہ نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان دونوں کی حکمت پر زور دیتا ہے۔ ہمیں گذشتہ قوموں کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔ جس طرح بنی اسرائیل نے انبیاء کی نافرمانی کی اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔مقررہ نے حضرت مسیح موعودؑ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حکمت ایک انعام ہے اور جس کے پاس یہ ہے اسے بے پناہ نیکی عطا کی گئی ہے۔ اخلاقی راہنمائی کے بارہ میں مقرر نے کہا قرآن اخلا قیات کو روحانیت کے ساتھ جوڑتا ہے یہ ایمانداری، انصاف، ہمدردی اور عاجزی کا حکم دیتا ہے جبکہ دھوکہ دہی، تکبر اور جبر کی مزمت کرتا ہے آج کی دنیا میں خاص طور پر حالیہ فلسطین کی جنگ نے واضح اخلاقی منافقت کو بے نقاب کیا ہے۔ جہاں طاقتور قومیں صریح نا انصافی کے سامنے نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اِس میں شریک بھی ہیں۔ قرآن کریم مطلق انصاف کا حکم دیتا ہے خواہ وہ کسی کے نفس یا عزیزوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔(النساء:۱۳۶) مقررہ نے سماجی اور خاندانی تعلقات کے بارہ میں کہا کہ قرآن پاک باہمی تعلقات کے بارے میں راہنمائی عطا فرماتا ہے والدین کے احترام کا حکم دیتا ہے لیکن اندھی اطاعت کے خلاف تنبیہ کرتا ہے کہ اگر وہ شرک کا حکم دیں تو اُن کی اطاعت نہ کرو اور والدین کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش محبت اور حکمت سے کریں۔ مقررہ نے مزید کہا کہ اگر ہم نے اپنی آئندہ نسل کو موجودہ زمانہ کی برائیوں سے بچانا ہے تو ہم کو بچوں کی پرورش کے نئے طریقے سوچنے ہونگے۔ نہ کہ اپنے کلچر کی روایتوں کو اُن پر زبردستی لاگو کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں توازن کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہم کو خبردار کرتا ہے۔ سورۃالانعام آیت ۱۴۱میں کہا گیا ہےکہ’’یقیناً بہت نقصان اُٹھایا اُن لوگوں نے جنہوں نے بیوقوفی سے بغیر کسی علم کے اپنی اولاد کو قتل کر دیا اور اُنہوں نے اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہوئے اِس کو حرام قرار دے دِیا۔ جو اللہ نے ان کو رزق عطا کیا تھا۔ یقیناً یہ لوگ گمراہ ہوئے اور ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔ ‘‘ مقررہ نے اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہاں قتل سے مراد بچوں کا جسمانی طور پر قتل نہیں بلکہ اُن کی روحانی، اخلاقی اور نفسیاتی تربیت نہ کرنا ہے۔ حکمت سے کی گئی بچوں کی پرورش مستقبل کے ليے بہترین والدین پیدا کرتی ہے۔ شادیوں کے بارے میں راہنمائی کے متعلق مقررہ نے کہا کہ مادیت اور سطحیت کے دور میں شادی کو اکژ دولت اور خوبصورتی کے معیارات کی نمائش تک محدود کر دِیا جاتا ہے۔ جسے سو شل میڈیا نے بڑھایا ہے۔ جبکہ قرآن (الروم:۲۲)نکاح کے بارے میں فرماتا ہے: ’’ اُس کے نشانات میں سے ( یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے ليے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم اُن کی طرف تسکین( حاصل کرنے) کے ليے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں ایسی قوم کے ليے جو غورو فکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں۔ ‘‘ مُوَدَّہ سے مراد پائیدار اظہارِ محبت ہے جو خوشی سے دوسرے کے ليے قربانی دیتا ہے۔ جب کہ رحم سے مراد وہ رحمت ہے جو معاف کر دیتی ہے اور انا پر ہم آہنگی کو ترجیح دیتی ہے۔ ان اقداد پر مبنی شادی نہ صرف گھر میں امن کو فروغ دیتی ہے بلکہ مستقبل کی مستحکم نسلوں کو یقینی بناتی ہے۔ مقررہ نےحقیقی امن کے بارہ میں کہااللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ تمام باہمی رشتے اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں لیکن آخری سکون اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہی ہے۔ ’’سنو! اللہ ہی کے ذِکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں۔‘‘(الرعد:۲۸) اگر ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر کرینگے تو ہمارے دِلوں کو سکون ملیگا۔ مقررہ نے اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا یہ حوالہ پیش کیاکہ’’ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے۔ ہماری اعلیٰ لذّات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اُسکو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی…اے محرومو! اِس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کریگا۔ ‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ ۲۱و۲۲) مقررہ حضرت مسیح موعودؑ کا حوالہ دیتے ہوئے کہ قرآن ایک زیورات کا خزانہ ہے پوچھتی ہیں کہ کیا ہم کو علم بھی ہے کہ ہمارے پاس کتنا بڑا خزانہ ہے؟ اگرچہ قرآن دولت کی مذمت نہیں کرتا لیکن یہ خیرات (زکوٰۃ) اور اجتماعی فلاح و بہبود کے ساتھ معاشی عزائم کو متوازن کرنے پر زور دیتا ہے یہ سود اور سودی نظام کی مذّمت کرتا ہے جس کی جہ سے عدم مساوات، مالی بحران اور سماجی استحصال پیدا ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے صدیوں پہلے صفائی، خوراک میں اعتدال اور دماغی صحت کے تحفظ کی تعلیم دی۔ آنحضرت ﷺ کی ذاتی زندگی جو قرآنی تعلیم کے مطابق تھی۔ اور آپﷺ کے عملی نمونہ نے عرب معاشرہ میں اخلاقی اور سماجی انقلاب پیدا کر دیا۔ آخر میں مقررہ نے بتایا کہ قرآن مومنوں کو روحانی اور اخلاقی خود مختاری کے ذریعہ طاقت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر حجاب جس کو آجکل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ خواتین کے جسم کو اشتہارات، فیشن اور بے حیائی کے ذریعہ استحصال سے بچاتا ہے۔ قرآن با مقصد زندگی، روحانی ترقی اور آخرت کی تیاری پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ مقررہ نے حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خوبصورت پیغام سے اپنی تقریر کا اختتام کیا۔ کہ ہر طرح سے معاشرے میں اچھی چیزوں کو اپنائیں۔ یہ کبھی نہ بھولیں کہ ہمارا اصل رہنماقرآنِ کریم ہے اور ہمیشہ رہیگا اور ہمارے حقیقی رول ماڈل حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنے اور دُنیا وآخرت کی کامیابیاں نصیب فرمائے۔ آمین ٭…٭…٭ اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرمہ قرۃ العین ورک صاحبہنے ’’اسلام اور عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل کا حل‘‘کے موضوع پر اردو زبان میں کی۔ مقررہ نے اپنی تقریر کا آغاز سورۃ العنکبوت کی آیت ۶۵ سے کیا جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں اور یقیناً آخرت کا گھر ہی دراصل حقیقی زندگی ہے۔ کاش کہ وہ جانتے۔‘‘ آج کے دور میں خواتین مختلف قسم کے معاشرتی،اخلاقی اور روحانی چیلنجز (Challenges) کا سامنا کر رہی ہیں۔ جیسا کہ بیماری کی صورت میں مریض اپنی تکلیف کے علاج کے لیے ماہر ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ تاکہ تشخیص اور مناسب علاج ہو۔ ویسے ہی معاشرتی بیماریوں اور اخلاقی برائیوں کا علاج بھی ماہرِ روحانیت یعنی خلیفہ وقت کی راہنمائی سے ہی ممکن ہے۔ الحمدللہ۔ ہم احمدی خواتین خوش قسمت ہیں کہ ہمیں خلیفہ وقت کی صورت میں ایک روحانی مسیحا میسر ہے۔ جو نہ صرف ہماری اخلاقی اور روحانی بیماریوں کی تشخیص کرتے ہیں بلکہ ان کا علاج بھی بتاتے ہیں۔ مغربی معاشرے میں بچوں کو کم عمری سے ہی ایسے تعلیمی نصاب کا سامنا ہے جس میں جنس کی تبدیلی، جنسی تعلقات اور دیگر حساس موضوعات کو بلا جھجک پڑھایا جاتا ہے۔ اس سے بچوں کے ذہن الجھتے ہیں اور کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔ ایسے میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ روزانہ مکالمہ کریں اور بچوں کے سوالات کے جواب اسلامی تعلیم کی روشنی میں دیں۔ والدین کو بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم رکھنا چاہیے تاکہ وہ کھل کر سوالات کر سکیں اگر والدین نے حجاب، پردہ یا جنسی معاملات پر بروقت تربیت نہ دی تو بچے معاشرے کی گمراہیوں میں کھو سکتے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ نے والدین کو بار بار نصیحت فرمائی ہے کہ بچوں کو دینی تعلیم اور نیکیوں کی طرف رغبت دلائیں۔ نمازوں کے پابند بنائیں اور جماعتی پروگراموں میں شامل کریں۔ مقررہ نے اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک حوالہ پیش کیا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقّیانہ زندگی بناوے۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۷۰۔ایڈیشن۱۹۸۴ء) آج کل سوشل میڈیا نے بچوں، نوجوانوں اور خواتین کو اپنے جال میں جکڑ لیا ہے۔ تحقیق کے مطابق برطانیہ میں خواتین روزانہ ساڑھے تین سے چار گھنٹے فون پر گزار دیتی ہیں۔ یہ وقت ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ، ذہنی صحت، نیند کی کمی، بے چینی، ڈپریشن اور بے مقصد زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے بچوں کو کھلی فضا میں کھیلنے کی عادت ڈالیں۔ کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ سکرین ٹائم کو محدود کریں۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے بےپردگی اور بےحیائی سے، بے مقصدیت، دینی عبادات سے غفلت اور دنیا پرستی جنم لیتی ہے۔ لہٰذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی احتیاط کریں اور بچوں کی نگرانی بھی کریں۔ مقررہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے بہنوں کو ایم ٹی اے کے پروگرامز کی افادیت اور ان کو دیکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ مغربی معاشرہ آج بھی پردے پر اعتراض کرتا ہے اور بچیاں سوشل میڈیا کے زیرِ اثر اس بارے میں احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے کہ پردہ کوئی مجبوری نہیں بلکہ احمدی خواتین کی اپنی رضا اور ایمان کا حصہ ہے۔ بچیوں کو بچپن سے ہی حیا اور حجاب کی تعلیم دیں تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔ آج کی پڑھی لکھی لڑکیاں جو پروفیشنز (Professions) میں آگے ہیں اگر وہ پردہ کریں تو دنیا پر اثر پڑے گا کہ کامیاب خواتین بھی اپنی اسلامی شناخت پر فخر کرتی ہیں۔ مقررہ نے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے رشتوں کے مسائل کا ذکر کیا کہ وہ آئیڈیل ساتھی تلاش کرنے کی کوشش میں قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔ نتیجۃً شادی میں تاخیر، بے چینی اور ذہنی دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے نصیحت فرمائی ہے کہ ساتھی کی تلاش میں دینی پہلوؤں کو ترجیح دیں نہ کہ صرف دنیاوی معیار کو۔ جو رشتہ تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہو اس میں سکون اور کامیابی ملتی ہے۔ آج کل بے صبری اور دنیاوی خواہشات کی وجہ سے طلاق اور خلع کی شرح بڑھ رہی ہے۔ میاں بیوی کو چاہیے کہ تقویٰ اختیار کریں۔ ایک دوسرے کی خامیوں کو برداشت کریں اور دنیاوی معاملات میں دین کو مقدّم رکھیں۔ جوڑوں کو چاہیے کہ دین کی بنیاد پر اپنی زندگی کو استوار کریں۔ الحمدللہ۔ ہمیں خلافت کی نعمت حاصل ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔ ایم ٹی اے، خطبات جمعہ، رسائل اور کتب کے ذریعہ ہدایات آسانی سے میسر ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ ایم ٹی اے کے دینی پروگرامز باقاعدگی سے دیکھیں۔ ہفتہ وار This week with Huzoor پروگرام سے فائدہ اٹھائیں اور خطبات جمعہ کو گھر کے افراد کے ساتھ سننے کی عادت ڈالیں۔ ہمیں چاہیے کہ سوشل میڈیا کے استعمال پر نظر رکھیں۔ بچوں کو عبادات کی پابندی کروائیں۔ دینی مجالس میں شمولیت کو یقینی بنائیں اور اپنے گھروں کو ایمانی قلعہ بنائیں۔ ہر ماں کو اپنا کردار سمجھنا ہوگا تاکہ وہ اپنی نسل کو دنیا کے فتنوں سے بچا سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اندھیروں سے نکالے۔ ہمارے گھروں کو امن و سکون کا گہوارہ بنائے۔ ہماری نسلوں کو دینی حسنات سے مالا مال کرے اور ہم سب خلافت کے سچے خادم بنیں۔ آمین۔ ٭…٭…٭ اس کے بعد مکرمہ رضوانہ احمد صاحبہ نے حضرت مصلح موعودؓ کا منظوم کلام گناہ گاروں کے دردِ دل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے یہی ہے خضرِ رہِ طریقت یہی ہے ساغر جو حق نما ہے پیش کیا۔ اس کے بعد مکرمہ شازیہ پروین صاحبہ نے ’’خلافت۔ میری روحانی روشنی‘‘کے موضوع پر انگریزی میں تقریر کی۔ مقررہ نے آغاز میں خلافت کے بارے میں اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اُسے اپنی روحانی روشنی قرار دیا۔ خلافت ایک الہٰی نعمت ہے جو زندگی کی مشکلات سے نبٹنے کےليے مسلسل راہنمائی فراہم کرتی ہے اور معین و مددگار بھی ٹہرتی ہے۔ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لاکھوں احمدیوں کے لیے ایک مشفق رہنما ہیں۔ مقررہ نے زور دیا کہ خلافت ایک ٹا ئیٹل ( Title) نہیں بلکہ ایک روحانی مینارہ ہے۔ جو موجودہ زمانہ کی الجھنوں اور آزمائشوں میں مومنین کی راہنمائی کرتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کا مقرر کردہ خلیفہ ہے۔ خلیفہ کی موجودگی، ان کے خطبات اور دعائیں جماعت کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ کبھی تنہا نہیں۔ خلافت کی برکات اور اُس کے روحانی اثر کو واضح کرنے کے لیے مقررہ نے اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کیا۔ جب وہ اور ان کے شوہر اور تین بچے پہلی بار حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملنے گئے۔ جب حضورایدہ اللہ کو بتایا گیا کہ یہ نئے احمدی ہیں تو حضورایدہ اللہ نے فرمایا کہ یہ تو پہلے سے احمدی لگتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ حضورایدہ اللہ کی اس محبت و شفقت سے وہ جذباتی ہوگئیں اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ جب ان کے بچے نے حضورایدہ اللہ سے پوچھا کہ یہ کیوں رو رہے ہیں تو حضورایدہ اللہ نے فرمایا کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ مقررہ نے کہا کہ خلیفہ کی نصائح محض الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ عمل کی دعوت دیتی ہیں۔ احمدیوں کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے، انسانیت کی خدمت کرنے اور روحانی ترقی کرنے کے لیے کوشش کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ حضورایدہ اللہ کے خطبات اتحاد، محبت اور خدمت کو فروغ دیتے ہیں۔ جو جماعت کی اجتماعی شناخت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہوئے مقررہ نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ خلافت ایک ایسا ادارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنین کی ہدایت کےليے قائم کیا ہے۔ یہ جماعت اور خدا کے درمیان ایک کڑی ہے جو ہم کو تقویٰ کی راہوں پر ثابت قدم رکھتی ہے۔ آج کے دور میں جس میں مادیت اور تفرقہ بازی ہے۔ خلیفہ کی راہنمائی اور دعائیں امید اور روشنی کا کام دیتی ہیں۔ مقررہ نے حضورایدہ اللہ کے ۶؍جون ۲۰۱۴ء کے خطبہ جمعہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حضورایدہ اللہ نے فرمایا کہ وہ ہر ایک احمدی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں۔ جاگتے ہوئے بھی اور سوتے ہوئے بھی۔ مقررہ نے کہا کہ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خلیفۂ وقت کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کریں۔ ملاقاتوں سے اور خطوط کے ذریعہ۔ اور سب سے بڑھ کر خطبات میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔ اس طرح کی کوشش ہمارے ایمان کو مضبوط کرے گی اور دنیا میں احمدیہ کمیونٹی کی اجتماعیت کو ترقی دے گی۔ ہمارا ہر کام اور ہر قدم خلافت کی برکات کی عکاسی کرتا ہو اور ہمیشہ ہم ہر قربانی کےليے تیار رہیں۔ خلافت کی برکات اور اطاعت کے شیریں ثمرات کا اظہار کرتے ہوئے مقررہ نے ایک ذاتی تجربہ بیان کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح جس دن انہوں نے تبلیغی سٹال پر جانا تھا ان کے شوہر کو نوکری کی پیشکش موصول ہوئی۔ ان دونوں میں سے ایک کو بچوں کے ساتھ گھر پررہنا پڑنا تھا۔ وہ اپنے تبلیغی فرض کو پورا کرنا چاہتی تھیں۔ ان کے شوہر نے کہا کہ ٹھیک ہے تم جاؤ اور میں کام پر نہیں جاؤں گا اور بچوں کو سنبھالوں گا۔ اور ایک سو پاوٴنڈ کی جاب کا انکار کردیا۔ اسی دن بعد میں انہیں اس جاب کے لیےغیر متوقع کال موصول ہوئی۔ جس میں ان کو صرف ایک گھنٹہ کام کرنے کے ایک سو پاوٴنڈ کی آفر تھی۔ وہی رقم جو انہوں نے پہلے قربان کی تھی۔ اس واقعہ نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ جب کوئی دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے اللہ تعالیٰ انہیں غیر متوقع طور پر برکت دیتا ہے۔ اس سے اُن کے یقین کو تقویت ملی کہ الہٰی مدد اخلاص اور قربانی کے ساتھ ہے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد مقررہ اور ان کے شوہر نے اپنے خاندان کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ جنہوں نے دکھ اور مایوسی کا اظہار کیا اور اس کو گمراہی کہا۔ اس مزاحمت کے باوجود مقررہ اور ان کے شوہر صبر اور احترام کے ساتھ ان کو احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مقررہ ان کے ليے مسلسل دعائیں کرتی رہیں اور خصوصاً حضورایدہ اللہ کو دعا کےليے خطوط لکھتی رہیں۔ حضورایدہ اللہ کی دعائیں میرے لیے تقویت کا باعث تھیں۔ مقررہ نے بتایا کہ سب سے پہلے ان کی چھوٹی بہن نے احمدیت قبول کی پھر بھائی نے کی۔ جس نے اسلامی فرقوں میں وسیع تحقیق کے بعد اعتراف کیا کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔ آخرکار ان کے والدین بھی اسلام احمدیت قبول کرتے ہوئے جماعت میں شامل ہو گئے۔ ان کے شوہر کی طرف سے ان کے بھائی نے احمدیت قبول کر لی ہے اور خاندان کے دوسرے لوگ زیرِ تبلیغ ہیں۔ مقررہ ان تبدیلیوں کو مکمل طور پر اللہ کے فضل اور خلیفہ کی دعاؤں کا ثمرہ سمجھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہیں۔ اختتام پر مقررہ نے سامعین سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی زندگی میں خلافت کی اہمیت پر غور کریں۔ حضورایدہ اللہ بار بار جماعت کی راہنمائی کرتے ہیں کہ وہ باقاعدگی سے دعاؤں اور روحانی بہتری کےليے بھرپور کوشش سے خدا تعالیٰ کے ساتھ گہرا اور ذاتی تعلق پیدا کریں۔ حضورایدہ اللہ کی راہنمائی جماعت کو محبت، رواداری اور انصاف کی اقدار کو اپنانے کی طرف لے جاتی ہے۔ پُرامن مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔وہ سامعین کو پھر یاد دلاتی ہیں کہ خلافت ایک ٹائٹل یا کردار نہیں ہے بلکہ ایک گہرا روحانی تعلق ہے، ایک روشنی جو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو خلافت کی راہنمائی میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین (خلاصہ تقاریر تیار کردہ: عقیلہ صاحبہ، بشریٰ نذیر آفتاب صاحبہ اور راشدہ مظہر صاحبہ)