https://youtu.be/BG9pw7VXif0 حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، وہ پورے ہوں گے، اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں جو مثیل مسیح ہوں اور مسیح کی جو جماعت تھی اور ان کا دین تھا اس کو پھیلنے میں تین سو سال سے اوپر کا عرصہ لگا تھا تو تمہیں ابھی تین سو سال نہیں گزریں گے جب تم دنیا میں احمدیت کی اکثریت دیکھو گے۔ تو یقیناً ایسے واقعات پیدا ہوں گے جس کے بعد پھر انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی ہو گی۔ (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ) ’’مخالفت کے باوجود جماعت احمدیہ کی ترقیات پر ایک طائرانہ نظر‘‘ جیسے موضوع پر تحقیق اور تجزیہ نہایت اہم ہے۔ جماعت احمدیہ کی مثال ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ محض وسائل یا اکثریت ترقی کی ضامن نہیں بلکہ خلافت کے خدائی نظام کی قیادت ہی حقیقی کامیابی کے ستون ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے مامورین کی سچائی کو دنیا کے سامنے ظاہر کرے گا، خواہ زمانہ کتنا ہی ان کی مخالفت کرے۔ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کے اس سلوک کا نظارہ جماعت احمدیہ کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ بانیٔ جماعت حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ نے جب ۱۸۸۹ء میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی تو اس وقت ہر طرف مخالفت کے طوفان برپا تھے۔ علماء کی طرف سے تکفیر، عوام کی طرف سے تحقیر، حکومتی پابندیاں، فسادات، جان و مال کا نقصان۔ یہ سب کچھ جماعت کو شروع دن سے برداشت کرنا پڑا۔ مگر اس کے باوجود، آج جماعت احمدیہ ایک عالمی تنظیم بن چکی ہے جس کی شاخیں دنیا کے دو سو چودہ سے زائد ممالک میں قائم ہو چکی ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں اسی پہلو کا ایک جائزہ لینا مقصود ہے کہ کس طرح مخالفتوں کے باوجود جماعت احمدیہ مسلسل ترقی کی راہوں پر گامزن رہی ہے اور ان شاء اللہ رہے گی۔ ابتدائی مخالفت اور اس کا پس منظر حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے وقت امت مسلمہ شدید انحطاط کا شکار تھی۔ آپؑ نے اسلام کی اصل روح کو زندہ کیا اور اعلان فرمایا کہ آپ ہی وہ مسیح و مہدی ہیں جس کی امت برسہا برس سے منتظر تھی۔ آپؑ کے دعویٰ نبوت نے برصغیر کے دینی و فکری حلقوں میں ایک زبردست ہلچل پیدا کی، جس کے نتیجے میں نہ صرف نظریاتی اور مذہبی مخالفت ہوئی بلکہ سماجی و سیاسی سطح پر بھی جماعت کو مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی فتوے لگنے شروع ہو گئے۔ ’کافر‘، ’ملحد‘، ’دجال‘، ’مرتد‘ جیسے الفاظ آپؑ اور آپ کی جماعت کے لیے استعمال کیے گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ پر اعتراض کرنے والوں نے ان پر جھوٹے ہونے کا الزام لگایا اور ان کے پیروکاروں کو’’غیر مسلم‘‘ قرار دینا شروع کیا۔ برصغیر کے کچھ ممتاز علماء نے ان کے خلاف فتوے جاری کیے، جن میں انہیں ’’مرتد‘‘ اور ’’دائرہ اسلام سے خارج‘‘ قرار دیا گیا۔ یہ مخالفت محض نظریاتی اختلافات تک محدود نہیں رہی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس نے سماجی، سیاسی، قانونی اور بعض اوقات پرتشدد شکل اختیار کر لی۔ اس وقت انگریز حکومت پورے جاہ وجلال کے ساتھ ہندوستان میں قائم تھی اور انگریزی اور ہندوستانی نژاد پادری حکومت کے ایوانوں میں گہرے اثر و رسوخ کے حامل تھے اس لیے انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف ایک زبردست محاذ بنا لیا اور آپ کو ہر طرح سے آزار پہنچانے میں مصروف ہو گئے۔ آپ کو کئی مقدمات میں پھنسا کر خوار کرنے کی سعی کی گئی۔ حضرت مسیح موعودؑ کا بائیکاٹ کیا گیا۔ لوگوں کو آپ کے گھر کام کرنے سے روکا جاتا تھا۔ قادیان کے داخلی راستوں پر لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کیے جاتے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے خود اپنی تحریرات میں مخالفتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’بیرنگ خط میں بھی جو کسی انجان کے ہاتھ سے لکھایا گیا ہے جان سے مار دینے کے لئے ہمیں ڈراتا ہے۔ ‘‘(شحنۂ حق روحانی خزائن جلد ۲، صفحہ ۳۷۴) پھر فرمایا کہ ’’ایک طرف تو یہ صلیبی فتنہ انتہا ء کو پہنچا ہوا ہے۔ دوسری طرف صدی ختم ہوگئی، تیسری طرف اسلام کا ہر پہلو سے ضعیف ہونا کسی طرف نظر اُٹھا کر دیکھو طبیعت کو بشاشت نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ہم چاہتے ہیں کہ پھر خدا کا جلال ظاہر ہو۔ مجھے محض ہمدردی سے کلام کرنا پڑتا ہے ورنہ مَیں جانتا ہوں کہ غائبانہ میری کیسی ہنسی کی جاتی ہے اور کیا کیا افترا ہوتے ہیں۔ مگر جو جوش خدا نے مجھے ہمدردی مخلوق کا دیا ہوا ہے وہ مجھے ان باتوں کی کچھ بھی پروا نہیں کرنے دیتا۔… مَیں دیکھتاہوں کہ میرا مولا میرے ساتھ ہے۔ ایک وقت تھا کہ ان راہوں میں مَیں اکیلا پھرا کرتا تھا۔ اس وقت خدا نے مجھے بشارت دی کہ تو اکیلا نہ رہے گا بلک تیرے ساتھ فوج درفوج لوگ ہوں گے۔ اور یہ بھی کہا کہ تو ان باتوں کو لکھ لے اور شائع کر دے کہ آج تیری یہ حالت ہے پھر نہ رہے گی۔ مَیں سب مقابلہ کرنے والوں کو پست کر کے ایک جماعت کو تیرے ساتھ کردُوں گا۔ وہ کتا ب موجود ہے مکّہ معظمہ میں بھی اس کا ایک نسخہ بھیجا گیا تھا۔ بخارا میں بھی اور گورنمنٹ میں بھی۔ اس میں جو پیشگوئیاں ۲۲ سال پیشتر چھپ کر شائع ہوئی ہیں وہ آج پوری ہورہی ہیں۔ کون ہے جو ان کا انکار کرے۔ ہندو، مسلمان اور عیسائی سب گواہی دیں گے کہ یہ اس وقت بتایا گیا تھا جب مَیں اَحَدٌ مِّنَ النَّاس تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ تیری مخالفت ہوگی مگر مَیں تجھے بڑھاؤں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اب ایک آدمی سے پونے دو لاکھ تک تو نوبت پہنچ گئی دوسرے وعدے بھی ضرور پورے ہوں گے۔ ‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ۲۰۷-۲۰۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) نام بھی کذّاب اس کا دفتروں میں رہ گیا اب مٹا سکتا نہیں یہ نام تا روزِ شمار اب کہو کِس کی ہوئی نُصرت جنابِ پاک سے کیوں تمہارا متقی پکڑا گیا ہو کر کے خوار پھر اِدھر بھی کچھ نظر کرنا خدا کے خوف سے کیسے میرے یار نے مجھ کو بچایا بار بار قتل کی ٹھانی شریروں نے چلائے تیرِ مکر بن گئے شیطاں کے چیلے اور نسلِ ہونہار پھر لگایا ناخنوں تک زور بن کر اِک گروہ پر نہ آیا کوئی بھی منصوبہ اُن کو ساز وار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱، صفحہ ۱۳۳، ۱۳۴) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَلَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ۔ (الصف: ۹)اور امرِ واقعہ یہی ہے کہ جتنی مخالفت بڑھی، اللہ تعالیٰ کی تائیدات بھی اتنی ہی بڑھتی گئیں۔ ان مخالفتوں کے باوجود جماعت احمدیہ نے منظم طریقے سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’بغیر امتحان ترقی محال ہے۔ … اور ہر احمدی اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ہماری مخالفتیں، ہماری ترقی کے لئے کھاد کا کام دیتی ہیں۔ ‘‘ پھر فرمایا کہ ’’برصغیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد سے مولویوں کی طرف سے جو مخالفت شروع ہوئی، اس میں مولویوں نے اپنے طور پر بھی نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں اور غیروں کو بھی جماعت کے خلاف بھڑکایا اور ابھارا اور ان کی مدد کی کہ کسی طرح جماعت ختم ہوجائے یا اسے نقصان پہنچایا جائے۔ لیکن ان کی ہر کوشش کے بعد جماعت کے قدم ترقی کی طرف پہلے سے آگے ہی بڑھے ہیں۔ لیکن یہ سب دیکھ کر بھی ان کو احساس نہیں ہوا کہ یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ جماعت کسی انسان کی قائم کردہ نہیں بلکہ خدا کی قائم کردہ جماعت ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے۔ ‘‘ (خطبہ جمعہ ۲۰؍ مارچ ۲۰۰۹ء) مخالفت کے میدان اور اس کے اثرات ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام قائم ہوا، جو آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ خلافت کا قیام درحقیقت جماعت کی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے۔ ہر خلیفہ وقت نے اپنی راہنمائی اور دعاؤں سے جماعت کو ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کیا۔ تحریکِ خلافت اور تحریکِ پاکستان کے دوران بھی جماعت پر سیاسی الزامات لگائے گئے، حالانکہ جماعت کا کردار ہمیشہ مثبت، پرامن اور ملکی قوانین کی پاسداری پر مبنی رہا۔ پاکستان میں مخالفت: تقسیم ہند کے وقت قادیان سے ربوہ کی طرف ہجرت محض جغرافیائی تبدیلی نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی تحریک کے تسلسل کا ثبوت ہے۔ یہ ہجرت دراصل قربانی، استقامت اور خدا پر کامل یقین کی علامت تھی جس نے جماعت احمدیہ اور اس کے پیروکاروں کو عالمی سطح پر ایک فعال، منظم اور پرامن مذہبی جماعت کے طور پر متعارف کروایا۔ قیامِ پاکستان میں مثبت فعال کردار ادا کرنے کے باوجود پاکستان میں جماعت احمدیہ کا منظم استیصال و استحصال جاری رہا۔ ۱۹۵۳ء میں پاکستان میں ایک بڑی تحریک احمدیوں کے خلاف چلی جس کے نتیجے میں جماعت احمدیہ کے خلاف فضا مکدر ہو گئی اور بالآخر ۱۹۷۴ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمان نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو ’’غیر مسلم اقلیت‘‘ قرار دے دیا۔ یہ سیاسی فیصلہ نہ صرف افرادِ جماعت کے لیے بطور پاکستانی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھا بلکہ اس نے ایک مذہبی اقلیت کو ریاستی سطح پر امتیازی سلوک کا نشانہ بھی بنایا۔ ۱۹۸۴ء میں پاکستان کےصدر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ’’امتنائے قادیانیت آرڈیننس‘‘ نافذ کیا گیا، آرڈیننس کے ذریعے احمدیوں کو اسلام کے کسی بھی شعار پر عمل کرنے سے روک دیا گیا۔ اس کے تحت احمدیوں کو ’’مسلمانوں سے مشابہت‘‘ رکھنے والے کسی بھی عمل، جیسے اذان دینے، نماز پڑھنے یا اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے پر قید و جرمانے کی سزا مقرر کی گئی۔ اس قانون کے تحت سینکڑوں احمدی جیلوں میں بند ہوئے، ان پر حملے ہوئے، کئی شہید بھی کیے گئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ان مظالم کے باوجود جماعت نے پرامن راستہ اپنایا اور کسی بھی قسم کی مزاحمت یا تشدد سے دور رہی۔ بالآخر خلافت احمدیہ کی پاکستان سے ہجرت جماعت احمدیہ کی ترقی کا ایک سنگِ میل ثابت ہوا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی جماعت احمدیہ کو اکثر مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کے تناظر میں نشانہ بنایا گیا تاہم مغربی دنیا میں جماعت کو مذہبی رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی حقوق کے فروغ کی علامت کے طور پر سراہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ یہ بائیکاٹ اور مخالفت ترقی کا باعث بنا۔ شہداء کے لہو سے اس گلستاں کی آبیاری ہوئی۔ جماعت نے مرکزی نظام کو بیرون ملک منتقل کیا۔ ایم ٹی اے کا آغاز ہوا جو بغیر ویزا، بغیر سرحد، ہر احمدی کے گھر میں خلافت کی آواز پہنچانے لگا۔ جماعت کی خودی میں اضافہ ہوا اور قربانی کا جذبہ مزید پروان چڑھا۔ تبلیغ کا دائرہ محدود کیا گیا جو ہجرت کے بعد وسیع شکل اختیار کر گیا۔ اس عالمی وسعت کے ساتھ ہی عالمی مخالفت میں بھی شدت آتی گئی۔ عالمی سطح پر مخالفت: انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ کے علاوہ بعض افریقی ممالک میں بھی جماعت کومخالفت کا سامنا رہا۔ یورپ و امریکہ جیسے آزادیٔ اظہار کے حامی ممالک میں بھی مخالفت عام ہے۔ پاکستان کے علاوہ بھی کئی مساجد جلائی گئیں، کہیں جنازے پڑھنے کی اجازت نہ دی گئی۔ امریکہ میں ڈاکٹر مظفر احمد صاحب کو ڈیٹرائٹ (امریکہ) میں گھر کی دہلیز پر گولی مار کو شہید کیا گیا۔ برطانیہ میں ایک احمدی دکاندار اسد شاہ صاحب کو شہید کیا گیا۔ عام پبلک جگہ پر تبلیغ کے دوران مغلظات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جرمنی اور کینیڈا جیسے ملکوں میں مساجد پر وال چاکنگ کی جاتی ہے اور شیشے توڑ دیے جاتے ہیں۔ انڈونیشیا میں ہجوم نے مقامی احمدیوں کو زدوکوب کر کے شہید کیا اور پھر لاش کی بے حرمتی کرتے رہے۔ آئے روز احمدیہ مساجد پر حملے کیے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں پُرامن سالانہ جلسے پر حملہ کیا گیا، مار دھاڑ، لوٹ گھسوٹ کا بازار گرم ہوا، نہتے لوگوں کے گھروں کو آگ لگادی، ایک نوجوان کو انتہائی زدوکوب کیا گیا کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ برکینافاسو میں نو احمدیوں کو ایک دوسرے کے سامنے شہید کر دیا گیا۔ لیکن یہ بات بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کر سکی۔ مخالفین کی جانب سے نومبائعین کو طرح طرح کے لالچ دیے جاتے ہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ الجزائر، یمن اور شام میں زندگی تنگ کی گئی، احمدیوں کو اسیر بنایا گیا، خفیہ طور پر شہید کر دیا گیا۔ فلسطین میں عام مسلمانوں کے ساتھ ارضِ مقدسہ پر احمدی بھی اپنے خون سے داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ تاہم احمدیوں اور ان کے پسماندگان نے صبر، دعا اور تبلیغ کے ہتھیاروں سے ان مشکلات کا مقابلہ کیا۔ ترقیات کا جائزہ مخالفت، تکفیر اور قانونی رکاوٹوں کے باوجود جماعت احمدیہ نے نہ صرف اپنے وجود کو برقرار رکھا بلکہ دنیا بھر میں تبلیغِ اسلام، انسانی خدمت، تعلیم و تربیت اور سائنسی شعور کے میدانوں میں نمایاں ترقی کی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی قائم کردہ یہ جماعت آج ۲۱۴؍ممالک میں مکمل طور پر فعال ہے اور دنیا کی سب سے منظم مسلم تحریکوں میں شمار ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی بار مخالفین کے منہ سے اس امر کا اقرار کروایا جس کا ثبوت سوشل میڈیا پر موجود ان کی ویڈیوز اور متعدد مطبوعہ مضامین اور بیانات ہیں۔ ۱۔ خلافت کا نظام: مرکزیت اور روحانی قیادت: جماعت احمدیہ کی سب سے بڑی تنظیمی ترقی ’’نظام خلافت‘‘ کا قیام ہے، جو حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد ۱۹۰۸ء میں عمل میں آیا۔ یہ نظام جماعت کی نظریاتی، انتظامی اور روحانی بنیاد ہے۔ چار خلفاء کی روحانی قیادت میں دنیا کے کناروں تک خدائی وعدہ کے مطابق احمدیت کا پیغام پہنچا۔ آج جماعت احمدیہ اپنے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفةا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت قیادت میں لاکھوں افراد اس خدائی جماعت کے پیروکار ہیں۔ خلافت احمدیہ کی زیرِ قیادت فدائیانِ خلافت نے عالمی سطح پر یکجہتی، تنظیم اور اطاعت کا ایسا نمونہ پیش کیا ہے جو اکثر غیراحمدی مفکرین اور مبصرین کے لیے حیرت کا باعث بنا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دور میں جماعت میں استحکام پیدا ہوا۔ تعلیم القرآن کی تحریک چلی۔ علم و عرفان کے دروازے کھلے۔ الفضل جاری ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دور میں نظامِ خلافت، نظام وصیت، نظامِ جماعت اور نظام ِشوریٰ منظم ہوا۔ جامعہ احمدیہ، تعلیم الاسلام کالج و دیگر تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ دنیا بھر میں مبلغین بھیجے گئے۔ یورپ، امریکہ، افریقہ اور مشرقِ وسطی و مشرقِ بعید میں اسلام احمدیت کا پیغام عام ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دور میں افریقہ میں تبلیغی کام کو وسعت ملی۔ افریقہ میں مجلس نصرت جہاں سکیم کے تحت تعلیم اور طب کے شعبے میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ آپؒ نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی مخالفت کے باوجود جماعت کی اندرونی تنظیم کو مزید مضبوط کیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے دور میں ۱۹۸۴ء میں پاکستان سے ہجرت کے بعد جماعت کا مرکز لندن منتقل ہوا۔ جماعت کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا۔ الفضل انٹرنیشنل اور ایم ٹی اے کا قیام عمل میں آیا جو عالمی سطح پر جماعت کی آواز بن گیا۔ خطبات و خطابات، دروس، کلاسز، مجالسِ عرفان اور ملاقاتوں کے پروگرامز کے ذریعہ تربیت کا وسیع ذریعہ عطا ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دور میں جماعت نے غیر معمولی عالمی وسعت حاصل کی۔ ہزاروں چھوٹی بڑی مساجد، مشن ہاؤسز، سکولز، کلینکس و ہسپتال، برکینا فاسو اور سیرالیون میں ماڈل ولیجز، کنووں، واٹر پمپس، بجلی پانی کے ہزاروں منصوبے مکمل ہوئے۔ بین الاقوامی سطح پر امن، خدمت انسانیت اور مذہبی رواداری کی آواز بلند کی گئی۔ جماعت احمدیہ ترقی کرتے ہوئے ۲۱۴ ممالک میں پھیل گئی۔ افریقہ میں پہلا مسرور آئی انسٹیٹیوٹ اور مسرور ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن، عائشہ میٹرنٹی ہسپتال سیرالیون افریقہ کا پہلا جدید زچہ و بچہ ہسپتال (زیرتعمیر)، نائیجیریا میں پہلی یونیورسٹی کا قیام ہوا۔ جامعات احمدیہ میں وسعت، عالمی جامعاتِ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ ایم ٹی اے کے ایک سے گیارہ چینلز بن گئے۔ دنیا بھرمیں سٹوڈیوز کا قیام عمل میں آیا۔ دنیا بھر میں بیسیوں رسائل و جرائد جاری ہیں۔ خصوصی طور پر ریویو آف ریلجنز کی اشاعت میں وسعت، الحکم کا اجرائے نو اور الفضل انٹرنیشنل کا ہفت روزہ سے روزنامہ تک کا سفر جماعتی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ۲۔ تبلیغ و اشاعت: عالمی پھیلاؤ: مخالفین نے چند ممالک میں احمدیت کے پھیلاؤ کو قانون کے بند باندھ کر روکنا چاہا لیکن خدا تعالیٰ کے اس فیضان کے سامنے کوئی بند قائم نہ رہ سکا۔ جماعت احمدیہ کا بنیادی مقصد اسلام کے پُرامن پیغام کو دنیا بھر تک پہنچانا ہے۔ اس مقصد کے لیے جماعت نے غیر معمولی اشاعتی و تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ہر سال لاکھوں لوگ جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ ترجمہ قرآن: اب تک قرآن مجید کے ۷۶؍سے زائد زبانوں میں تراجم جماعت کی جانب سے شائع ہو چکے ہیں۔ صرف ترجمہ ہی نہیں بلکہ اسے زمانے کے لحاظ سے بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔ حال ہی میں سیرالیون کی مینڈے زبان اور برکینافاسو کی سب سے بڑی زبان مورے میں از سرِ نو ترجمے کی اشاعت مکمل ہوئی۔ لٹریچر کی اشاعت: حضرت مسیح موعودؑ کی کئی کتب دنیا کی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ریویو آف ریلیجنز (۱۹۰۲ء سے جاری)، الفضل(۱۹۱۳ء سے جاری)، تحریک جدید، اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز جیسے ادارے کام کررہے ہیں۔ صرف گذشتہ سال ۷۲؍ممالک میں دورانِ سال ۴۰۹؍مختلف کتب، پمفلٹ اور فولڈر وغیرہ ۵۱؍زبانوں میں ۴۰؍لاکھ ۹۴؍ہزار کی تعداد میں طبع ہوئے۔ جبکہ ۴۰؍ممالک کو ۴۴؍زبانوں میں دولاکھ ۱۳؍ہزار سے زیادہ کتب مرکز سے بھجوائی گئی ہیں۔ مساجد و مشن ہاؤسز کا قیام: گذشتہ چند برسوں میں پاکستان میں بیسیوں مساجد پر بلوہ ہوا۔ مساجد کو نذرِ آتش کیا، مقدس تحریرات پر رنگ پھیرا گیا یا انہیں توڑ دیا گیا۔ محراب و مینار بھی محفوظ نہ رہے۔ مساجد اور نماز سینٹرز کو سیل کردیا گیا۔ گاؤں کی چھوٹی مسجد ہو یا بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں موجود مساجد، کوئی بھی ان شدت پسندوں کے شر سے محفوظ نہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں مُلّاں کے کہنے پر انتظامیہ بھی ہماری مسجدیں اور منارے گرانے پر تلی ہوئی ہے اور دنیا میں اللہ تعالیٰ ہمیں مساجد عطا فرما رہا ہے اور ہم ہی اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ (الفضل انٹرنیشنل ۷؍جنوری۲۰۲۵ء) خدا کے فضل سے بیسیوں ممالک کے سینکڑوں شہروں میں جماعت احمدیہ کی ہزاروں مساجد میں پانچ وقت خدا تعالیٰ کا نام بلند کیا جاتا ہے۔ بیرونِ ہندوستان کی پہلی باقاعدہ مسجد، مسجد فضل لند ن پر حال ہی میں سو سال مکمل ہوئے۔ کئی ممالک میں احمدیہ مساجد landmark متصور ہوتی ہیں یا وہ state of the artمنصوبے کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہر سال پانچ سے آٹھ صد احمدیہ مساجد کا اضافہ بھی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جامعات احمدیہ و مدارس حفظ القرآن: جامعہ احمدیہ کی شاخیں بھارت، پاکستان، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، گھانا، نائیجیریا اور انڈونیشیا میں فعال ہیں۔ یہ ادارے تربیت یافتہ مبلغین پیدا کرتے ہیں جو دنیا بھر میں تبلیغ پر مامور ہوتے ہیں۔ جبکہ تنزانیہ، سیرالیون، گھانا، نائیجیریا اور برکینا فاسو میں جامعة المبشرین لوکل معلمین تیار کررہے ہیں جو احباِبِ جماعت کی تربیت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسری جانب جامعہ سے فارغ التحصیل مبلغین کرام کئی مضامین میں تخصص کرتے ہیں۔ کئی ممالک میں حفظ القرآن کے مدارس قائم ہیں جہاں سے ہر سال بیسیوں حفاظ فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ تعلیمی ترقیات: جماعت احمدیہ نے تعلیم کو اپنے مشن کا مرکزی ستون بنایا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں جماعت نے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں، جن میں پرائمری، سیکنڈری سکولز، کالجز نیز جامعات احمدیہ شامل ہیں۔ جامعہ احمدیہ جیسی دینی درسگاہیں افریقہ، یورپ، ایشیا اور امریکہ میں کام کررہی ہیں۔ تعلیمی خدمات قادیان کی بستی میں قائم کیا گیا مدرسہ ایسا پھولا پھلا کہ سکول، کالج اور پھر یونیورسٹی تک پہنچ گیا۔ اس کی شاخیں ہندوستان، پاکستان اور افریقہ کے علاوہ کینیڈا میں بھی قائم ہو چکی ہیں۔ افریقہ میں سکولز کا قیام: مغربی افریقہ میں مجلس نصرت جہاں اور ہیومینٹی فرسٹ کے سکولز قائم ہیں۔ جلسہ سالانہ ۲۰۲۴ء تک مجلس نصرت جہاں کے تحت۱۳؍ ممالک میں ۴۰؍ ہسپتال اور کلینکس قائم ہیں جن میں ۳۶؍ مرکزی ۵۳؍لوکل اور ۷۴؍ وقتی ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں۔ افریقہ کے ۱۳؍ممالک میں ۶۲۰؍ پرائمری اور مڈل اسکولز اور دس ممالک میں ۸۱؍ سیکنڈری اسکولز کام کررہے ہیں۔ حال ہی میں نائیجیریا میں قائم کی گئی یونیورسٹی بیرون برصغیر جماعت احمدیہ کی پہلی یونیورسٹی ہے۔ سائنسی شعور اور علم دوستی میں ترقی: قادیان اور ربوہ میں سائنسی تحقیق کے ادارے کے قیام اور واحد احمدی مسلمان سائنسدان ڈاکٹر محمد عبدالسلام صاحب کا نوبیل انعام حاصل کرنا جماعت احمدیہ کے سائنسی شعور اور علم دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ AMSA, AMRA، مجلس انصار سلطان القلم، مجلس سلطان البیان۔ جیسے ادارہ جات احبابِ جماعت کو تحصیل علم اور ریسرچ جیسے شعبہ اور ادارہ جات کو اختیار کرنے کی تحریک کرتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ واقفین نو و واقفاتِ نو کو ریسرچ کے میدان میں جانے کی تلقین فرماتے ہیں اور ان کی تحقیق کو سراہتے ہیں اور مزید راہنمائی بھی فرماتےہیں۔ اس کے علاوہ حضور انور ایدہ اللہ نے طلبہ کو کئی قسم کی ریسرچ میں جانے کی تحریک فرمائی ہے۔ جماعت احمدیہ نے مرہمِ عیسیٰ، قبرِ مسیح اور کفنِ مسیح جیسے موضوعات میں گہرا علمی وتحقیقی مواد دنیا کو پیش کیا۔ مغرب کی دہریت زدہ مسموم فضاؤں میں خداتعالیٰ کے وجود کے ثبوت کے لیے God Summit پراجیکٹ نت نئے دلائل دنیا کے سامنے پیش کررہا ہے اور سائنس کو خدا تعالیٰ کا فعل ثابت کررہا ہے۔ میڈیا اور جدید ذرائع کا استعمال جماعت احمدیہ نے جدید ٹیکنالوجی کو دینی اشاعت کے لیے استعمال کرنے میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔ پرنٹ میڈیا: بدر،ريويو آف ريليجنز، الفضل انٹرنيشنل اور ہفت روزہ الحکم مرکزی جماعتی آرگنز ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد ممالک میں مقامی اخبارات، جرائد و رسائل تبلیغ میں مصروف ہیں۔ صرف گذشتہ سال میں الفضل انٹرنیشنل نے آٹھ کروڑاسّی لاکھ، ریویو کے دس ملین جبکہ الحکم نے سالانہ چار ملین احباب کی تعلیم و تربیت کی اور لوگوں تک پیغام حق پہنچا۔ الیکٹرانک میڈیا: ۱۹۹۴ء میں لندن سے قائم ہونے والا ’’MTA‘‘ جماعت کا بین الاقوامی سیٹلائٹ چینل ہے، جو ۲۴ گھنٹے ۹؍زبانوں میں دنیا بھر میں نشر ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے خلفاء کے خطبات، دروس، سوال و جواب کی نشستیں اور اسلامی پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ ایم ٹی اے کے ۱۱؍عالمی چینلز کے ذریعے ۲۴؍گھنٹے تبلیغ و تربیت کا سلسلہ جاری ہے۔ ایم ٹی اے پر ۲۳؍زبانوں میں رواں تراجم کیے جارہے ہیں۔ ایم ٹی اے افریقہ کی شاخوں کی تعداد ۱۳؍ہوچکی ہے۔ سوشل میڈیا، یوٹیوب، ویب سائٹس، موبائل ایپس-سب میدانوں میں ایم ٹی اے فعال ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا: alislam.org: پاکستان میں الاسلام ویب سائٹ پر پابندی کے باو جود کئی ممالک میں جماعت احمدیہ کے تعارف اور لٹریچر کی تشہیر میں جماعت احمدیہ کی یہ آفیشل ویب سائٹ بھی ممد و معاون ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی توجہ اور ہدایات کے تحت ویب سائٹ مفید سے مفیدتر ہوتی جارہی ہے۔ سرچ انجن میں قرآنی آیات و تفسیر تلاش کرنےکی سہولت بھی مہیا ہے۔ قرآن کریم کے تراجم، روحانی خزائن ، خطبات خلفائے کرام اور متعدد زبانوں میں سینکڑوں کتب پر مشتمل ڈیجیٹل لائبریری علمی پیاس بجھارہی ہے۔ آئے روز نت نئے لٹریچر سے یہ ویب سائٹ مزین ہوتی رہتی ہے۔ سوشل میڈیا: سوشل میڈیا عوامی رابطے کا ایک جدید اور وسیع ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خلافتِ خامسہ میں اس جدید ذریعہ کو عام کر کے جہاں اسلام کی اشاعت کی راہ کھولی وہیں مخالفین کے جھوٹے پراپیگنڈے کو بےنقاب کیا۔ آئےروز مخالفین از خود اپنی کارستانیوں اور مفسدانہ کارروائیوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنےپیش کرتے ہیں۔ جماعتی اخبارات، رسائل وجرائد، ذیلی تنظیموں کے شعبہ جات اس جدید ذریعہ سے مستفید ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب تبلیغ کے میدان میں بھی یہ جدید نظام ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بیسیوں مستند اکاؤنٹس تربیتی و تبلیغی مساعی میں مصروف ہیں۔ انسانی خدمت اور رفاہی سرگرمیاں جماعت احمدیہ نے دنیا کے پسماندہ علاقوں میں انسانی خدمت کے بے مثال نمونے قائم کیے ہیں۔ اس کے لیے مخصوص ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے مرکزی نظام کے علاوہ ذیلی تنظیمیں اور رفاہی تنظیمیں تعلیم، طب اور رفاہی کاموں میں سب سے آگے ہیں۔ COVID-۱۹، زلزلوں، سیلابوں، جنگ زدہ علاقوں میں احمدی رضا کاروں نے قابلِ تحسین خدمات انجام دی ہیں۔ ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First): یہ ایک بین الاقوامی فلاحی تنظیم ہے جو تعلیم، صحت، پانی، آفاتِ سماوی، خوراک کی فراہمی اور تعمیرات کے شعبوں میں کام کرتی ہے۔ یہ ۶۵؍ ممالک میں رجسٹرڈ ہوچکی ہے۔ ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعے دنیا بھر میں ہسپتال، واٹر پمپس، میڈیکل کیمپس، مفت سکولز چلائے جا رہے ہیں۔ افریقہ، ایشیا اور جنوبی امریکہ میں ۲.۱؍ملین سے زائد افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا گیا۔ گذشتہ سال تک نَو ممالک میں ایک لاکھ آٹھ ہزارمریضوں کا علاج کیا گیا۔ ۱۲؍ ممالک میں جنگی حالات اورقدرتی آفات سے متاثرہ ایک لاکھ تیس ہزار افرادکی امداد کی گئی۔ غزہ جنگ کے متاثرین کے لیے ایمرجنسی شیلٹرز، خوراک، پانی، کپڑے اور طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔ COVID-۱۹ کے دوران راشن، ماسک اور طبی امداد پہنچائی گئی۔ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز (IAAAE ): اس تنظیم نے پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لیے گذشتہ سال ۳۱؍ نئے سولرکنویں اور۳۹؍ نلکے لگائے جن سے چوہترہزار سے زائد افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ شعبہ خدمتِ خلق: جماعت احمدیہ کے جماعتی نظام کے اور ذیلی تنظیموں کے شعبہ ہائے خدمتِ خلق اپنی سطح پر خدمتِ خلق میں مصروفِ عمل ہیں۔ آفاتِ سماوی، سیلاب، زلازل میں مقامی اور مرکزی دونوں سطح سے انسانی خدمت جماعت احمدیہ کا طرۂ امتیاز ہے۔ مقبرہ موصیان گمان کیا جاتا ہے کہ انسان کو قبر میں جاکر دنیاوی مشکلات سے آرام آجاتا ہے۔ لیکن احمدیوں پر مرنے کے بعد زمین تنگ کی جاتی ہے۔ مُردوں کو دفن نہیں ہونے دیا جاتا، قبروں کو خراب کر دیا جاتا ہے، کتبے توڑ دیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ قبر اکھیڑ کر نعشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ جبکہ بیرون پاکستان اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ کئی ممالک میں سینکڑوں ایکڑ رقبہ صرف قبرستان کے لیے مہیا کیا گیا۔ جبکہ بہشتی مقبرہ کے ذیل میں مقبرہ موصیان کے لیے علیحدہ منظم نظام موجود ہے جو نظام ِ وصیت کے عالمگیر اور ترقی کرنے کا درخشاں نشان ہے۔ جرمنی میں النصرت نامی تنظیم دیارِ غیر میں اسلامی رسومات اور مردے کی حرمت کا معیار قائم کرنے میں لگی ہے۔ اس تنظیم کے تعاون سے احمدی مرحوم مہاجرین کی میت واپس آبائی وطن پہنچانے کے لیے تیار کی جاتی ہے۔ بین المذاہب مکالمہ اور امن کی کوششیں جماعت احمدیہ نے ہمیشہ پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور بین المذاہب مکالمے کو فروغ دیا ہے۔ خلفائے احمدیت نے دنیا بھر کے پارلیمانز (جیسے برطانوی یورپین، نیوزی لینڈ، کینیڈین، کیپیٹل ہل امریکہ) میں امن کے موضوع پر خطابات کیے ہیں۔ نیز سربراہانِ مملکت کو خطوط، ملاقاتیں، بین المذاہب امن کانفرنسز، مذہبی و سیاسی اہم شخصیات سےملاقاتیں کی ہیں۔ روحانی ترقی مادی ترقی کے ساتھ ساتھ جماعت کی روحانی ترقی بھی نمایاں ہے:محبین و فدائیانِ خلافت میں اضافہ، دعاؤں، درودشریف اور قرآن فہمی کی طرف رغبت، مالی و جانی قربانیوں کا جذبہ اور احمدی بچوں کا قرآن حفظ کرنا اور علم دین حاصل کرنا۔ مغربی دنیا کی مادیت بھری دنیا سے جامعات احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر کے داخل ہونا اور میدانِ عمل میں برضا و رغبت اسلام احمدیت کی ترویج و اشاعت کا کام اس بات کی علامت ہے کہ خدائی جماعت کا یہ روحانی قافلہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ ہر مخالفت جماعت کے لیے ایک نئی برکت لاتی ہے۔ جو افراد مخالفت کے نتیجے میں جماعت سے الگ ہو جاتے ہیں۔ ان کی جگہ اللہ تعالیٰ بہتر اور مخلص افراد عطا فرمارہا ہے۔جماعت کا ہر قدم اللہ کے وعدہ ’’یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ‘‘ کی تائید بن کر اُبھررہا ہے۔ مستقبل کی جھلک آج دنیا بھر میں امام الزماںؑ کے پیغام کی آواز کو سننے والے لوگ بڑھتے جا رہے ہیں۔ مخالف علماء اور دانشور خود جماعت کی خدمات اور کردار کا اعتراف کر رہے ہیں۔ مذہبی آزادی کی تحریکات میں جماعت احمدیہ ایک نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ احمدیت کی ترقی کے لیے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین اور توکل نہایت اہم ہے۔ مخالفت کے انجام اور آئندہ ترقی کےبارے میں سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، وہ پورے ہوں گے، اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں جو مثیل مسیح ہوں اور مسیح کی جو جماعت تھی اور ان کا دین تھا اس کو پھیلنے میں تین سو سال سے اوپر کا عرصہ لگا تھا تو تمہیں ابھی تین سو سال نہیں گزریں گے جب تم دنیا میں احمدیت کی اکثریت دیکھو گے۔ تو یقیناً ایسے واقعات پیدا ہوں گے جس کے بعد پھر انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی ہو گی اور جہاں جہاں ایسے واقعات ہوتے جاتے ہیں وہاں بعض دفعہ ایک عارضی breakthrough تھوڑے سے علاقے میں ہوتا ہے، پھر رک جاتا ہے لیکن ایک بڑے پیمانے پہ ایک بریک تھرو ہو گا، وہ کسی نہ کسی طرح اس قسم کے واقعات ہوں گے تبھی ہو گا۔ کب ہو گا، کس زمانے میں ہو گا اللہ بہتر جانتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو پیشگوئی ہے اس کے مطابق تین سو سال ابھی نہیں گزریں گے اس سے پہلے ہو جائے گا اور ۱۳۳سال تو ہوچکے ہیں۔ وہی میں نے کہا نہ اگلے بیس پچیس سال بھی بڑے crucial ہیں جماعت احمدیہ کے لیے۔ پھر اس میں کتنی حدتک پھیلتا ہے لیکن اس کے بعد جو عرصہ ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ پھیلنے کا ہی عرصہ ہوگا۔ ان شاءاللہ۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍جولائی۲۰۲۲ء) حرفِ آخر اگرچہ جماعت احمدیہ کو مذہبی، قانونی اور معاشرتی سطح پر سخت مخالفتوں کا سامنا رہا ہے، مگر اس کے باوجود اس جماعت نے اپنی روحانی، تعلیمی، تنظیمی اور انسانیت دوست اقدار پر قائم رہتے ہوئے ترقی کی ایسی منازل طے کی ہیں جو ایک معجزانہ واقعہ محسوس ہوتی ہیں۔ یہ ترقی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر کسی جماعت میں اخلاص، قیادت اور قربانی کا جذبہ موجود ہو تو وہ دنیا کی ہر مخالفت کو عبور کر کے خدمتِ دین اور انسانیت کا عظیم کام سرانجام دے سکتی ہے۔ جماعت احمدیہ کی ترقیات کا یہ سفر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے جو پودا لگایا تھا، وہ آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ مخالفتیں آئیں، مصائب نے گھیرنے کی کوشش کی مگر اللہ کی نصرت ہر موقع پر غالب رہی۔ حضرت خلیفة المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں جماعت احمدیہ آج بھی آگے بڑھ رہی ہے اور اس کی کامیابیوں کا دائرہ ہر روز وسیع تر ہو رہا ہے۔ آج جماعت احمدیہ بحیثیت جماعت بھی بزبانِ حال ان اشعار کی مصداق ہے۔ کچھ ایسا فضل حضرتِ ربّ الوریٰ ہوا سب دُشمنوں کے دیکھ کے اوساں ہوئے خطا اِک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اُسی نے ثریّا بنا دیا ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: انسان کا سفر