https://youtu.be/luH9PluV1cg سارے مخالفین چاہے وہ مذہب کے مخالفین ہوں،دہریہ ہوں، اسلام کے مخالفین ہوں،یاعیسائی یا دوسرے مذاہب کے ہوں ،یہ سب مل کے احمدیت کے خلاف محاذ کھڑا کریں گے۔ اورہو سکتا ہے کہ ایک وقت آئے جب ان کو یہاں احمدیت پھیلتی یا مضبوط ہوتی نظر آئے تو یورپ کے بعض ممالک میں بھی اس طرح کی مخالفت سامنے آئے۔ اس کے لیے ہمیں انتظامات کے حوالے سےہر روز ہوشیار رہنا چاہیے۔ (حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) اللہ تعالیٰ نے جب آدمؑ کو پہلا نبی بنا کر مبعوث کیا تو آپؑ کی بعثت کے ساتھ ہی ابلیس کی صورت میں ایک دشمن بھی میدان میں اتر آیا۔ اور پھر یوں ہی ہوتارہا کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی اس دنیا میں آتا اس کے ساتھ ہی ابلیسی یا شیطانی قوتیں خدا تعالیٰ کے پیغام کوروکنےکے لیے زور لگانے لگیں۔ لیکن ایک ایسا زمانہ بھی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ہر نبی نے پیش خبری کی کہ اس دور میں ایک ایسا فتنہ برپا ہوگا جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے پیغام کی مخالفت بہت زور وشور سے ہو گی، جس کی نظیر روئے زمین پر اس سےپہلے کبھی نہ ہوئی ہو گی۔یہ فتنۂ دجال تھا جس کے تریاق کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے ظہور کی بشارت عطا فرمائیں۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کے عقیدہ کے مطابق دورِ آخرین میں حضرت مرزا غلام احمدؑ مسیح موعود و مہدی معہودکے طور پر مبعوث ہوئے ہیں۔ آپؑ کا فرض منصبی ہے کہ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ۔لیکن آپؑ کی بعثت کے ساتھ ساتھ سنت انبیاء کےعین مطابق مخالفت کا بھی ایک ایسا سلسلہ جاری رہا جو مختلف ادوار میں اپنا رنگ دکھاتا رہا اور آج بھی دنیا کے بعض حصوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح محمدی کے ماننے والوں کو کہیں اجتماعی تو کہیں انفرادی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امام الزمانؑ تکمیل اشاعت ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے، اور جس پیغام کی اشاعت کرنی تھی وہ آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺکا وہ دائمی عالمگیر پیغام ہے جس نے رہتی دنیا تک انسانیت کی راہنمائی کرنی ہے۔ جس طرح یہ پیغام عالمگیر ہے اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح موعودؑ کی مخالفت بھی عالمگیر رنگ رکھتی ہے اور کسی ایک قوم یا مذہب سے مخصوص نہیں۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپؑ ہی جہان میں تکمیل اشاعت ہدایت کرنے آئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’یہ زمانہ بھی روحانی لڑائی کا ہے۔ شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے۔ شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خداتعالیٰ نے اس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اس کو ہمیشہ کے لیے شکست دینے کے لیے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۱۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء) حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں مخالفت کا سلسلہ ہندوستان کے اندر تو جاری تھا ہی لیکن آپؑ کی زندگی میں ہی یہ مخالفت ہندوستان سے باہر بھی پہنچ گئی۔ اس کی ایک بڑی مثال جان الیگزینڈر ڈوئی کی ہے جو کہ امریکہ کےشہر زائن کا رہنے والا ایک مسیحی راہنما تھا جس نے ایلیا نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کی مخالفت، زوال اور بالآخر حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی اور دعا کے نتیجے میں عبرتناک موت کے نشان کے حوالے سے جماعت احمدیہ کے لٹریچر اور رسائل میں بیسیوں مضامین شائع ہوئے ہیں۔ بہر حال یہ ایک مثال ہے کہ کس طرح حضورؑ کی زندگی میں آپ کی مخالفت کرنے والےاور آپؑ کا مقابلہ کرنے والے نہ صرف ہندوستان میں تھے بلکہ بیرون ہندوستان بھی تھے۔ اس ضمن میں یہ ذکر کر دینابھی مناسب ہو گا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں جہاں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ہندوستان کے مختلف مذاہب کے افرادشامل تھے جیسے مسلمان علماء، ہندوؤں میں سےفرقہ آریہ سماج یا عیسائی پادری وہاں انگریز حکومت کے بعض افسران بھی گوکھل کر مخالفت تو نہیں کرتے تھےلیکن تاریخ میں بعض ایسے شواہد ملتے ہیں کہ وہ بھی جماعت احمدیہ پر مخالفانہ نظر رکھتے تھے۔ اس مضمون میں بیان کرنا مقصود ہے کہ جماعت احمدیہ کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ مخالفت بھی وسیع تر ہوتی گئی ہے اور جس طرح احمدیت کا پیغام ملک ملک قریہ قریہ پھیلتا چلا گیا ہے اور ہر رنگ ، نسل اور قومیت کے لوگ الٰہی پیش خبریوں کے مطابق اس چشمہ سے پانی پینے لگے ہیں اسی طرح مخالفت بھی بین الاقوامی رنگ اختیار کرنا شروع کر گئی۔اس کے حوالے سے تاریخ کے آئینہ میںسے چند مثالیں پیش ہیں۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں مشرقی افریقہ کے ملک یوگنڈا میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کی گئی۔ چنانچہ ملک کے صدر عیدی امین نے جماعت احمدیہ پر پابندی کا اعلان بھی کیا۔ اس کے نتیجے میں جماعت کی بعض مساجد اور سکول حکومت نے اپنی تحویل میں بھی لے لیے اور وہاں پر کھل کر تبلیغی اور تربیتی سرگرمیوں کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ افریقہ میں مخالفت کے حوالے سے بھی مختلف واقعات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کے دوسرے روز بعد دوپہر کے خطابات میں بیان فرمائے ہیں۔بطور نمونہ گذشتہ سالوں میں دو مثالیں پیش ہیں: ٭… ساؤ تومے میں جماعت کی پہلی مسجد کے قیام کے حوالے سے وہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ’’ جماعت کا وفد مسجد کی تعمیر کے لئے جب لوکل گورنمنٹ سے اجازت لینے کے لئے گیا تو میئر نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم اپنے ملک میں دہشتگردی نہیں چاہتے۔ یہ عیسائیوں کا ملک ہے اور اس میں مسجد بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے بعد دوسری مرتبہ، دوبارہ میئر سے ملاقات کی گئی اور جماعت کا تفصیلی تعارف کروایا تو میئر نے اجازت دے دی۔ … مسجد کی تعمیر کے دوران ایک عیسائی عورت جو بہت زیادہ مخالفت کرتی تھیں مسجد میں کام کرنے والے مستریوں مزدوروں اور احمدی بچوں اور خدام سے کہتی تھیں کہ جب تم نے مسجد مکمل کر لی تو مسلمانوں نے تمہیں قتل کردینا ہے اس لئے مسجد میں کام نہ کریں یہ دہشت گردی کامذہب ہے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ بیمار ہوگئی۔ ان دنوں ہمارے میڈیکل کیمپ ہو رہے تھے ۔چنانچہ وہ میڈیکل کیمپ میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے شفا دی۔ اس کے بعد سے اس نے یہ مخالفت ترک کر دی۔‘‘ (خطاب فرمودہ ۴؍اگست ۲۰۱۸ء بر موقع جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۸ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۸؍مارچ۲۰۱۹ء) ٭…گیمبیا کے ’’ایک گاؤں کیرنوگور (Ker Ngorr) میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو ایک دوست الحاجی فائے (Faye) صاحب نے جماعت کی شدید مخالفت کی۔ جماعتی لٹریچر کو ہاتھ تک لگانا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ لیکن ہمارے داعیین الی اللہ نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل انہیں تبلیغ کرتے رہے۔ ایک دن گاؤں میں نومبائعین کے لئے تربیتی کلاس کا پروگرام رکھا گیا۔ ہمارے داعیین الی اللہ نے موصوف کو اس بات پر منا لیا کہ وہ بیشک کوئی کتاب نہ پڑھیں مگر ایک دفعہ ہمارے ساتھ مشن ہاؤس چلے جائیں اور ہمارے پروگرام میں شامل ہو جائیں۔ ہم وہاں آپ کو کوئی تبلیغ نہیں کریں گے اور نہ ہی آپ سے اس موضوع پر بات کریں گے۔ آپ صرف پروگرام میں شامل ہو کر ہماری باتیں سن لیں۔ چنانچہ موصوف جب مشن ہاؤس آئے تو کہنے لگے میں نے آپ کی کلاس میں شامل نہیں ہونا۔ میں یہاں ٹی وی والے کمرے میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ لیتا ہوں۔ اس پر انہیں ٹی وی والے کمرے میں بٹھا کر ٹی وی پر ایم ٹی اے لگا دیا گیا اور انہیں وہیں چھوڑ کر باقی سارے لوگ کلاس میں شامل ہونے کے لئے مسجد چلے گئے۔ اس دوران موصوف نے ایم ٹی اے پر میرا خطبہ سنا۔ کلاس کے بعد جب ان سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ یہ شخص کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے میرے لئے ممکن نہیں کہ اب پیٹھ پھیروں۔ چنانچہ موصوف اپنے خاندان کے دس افراد سمیت جماعت میں داخل ہوگئے۔(جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے موقع پر حضور انور کا دوسرے دن بعد دوپہر کا خطاب، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۷؍فروری۲۰۱۷ء) افریقہ میں مخالفت اوراحمدیت پر پختگی سے قائم رہنے کی بے نظیر مثال کا تذکرہ برکینا فاسو میں ڈوری کے علاقے کے ۹؍احمدی شہداء کے تذکرہ کے بغیر مکمل نہیں ہو گا۔ ارض بلال پر احمدیت کے ان چمکتے ستاروں نے تاریخ کا ایک عظیم باب روشن کیا اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کے نمونے کو زندہ رکھا۔ یورپ میں عمومی طور پر فی الحال اخبارات ، سیاست دان اورعوام جماعت احمدیہ کے حق میں ہی بولتے ہیں۔ لیکن ان ممالک میں اسلام کی مخالفت بڑی کثرت سے پائی جاتی ہے اور بعض ممالک میں تو یہ بڑی تیزی سے بڑھ بھی رہی ہے۔اس مخالفت کا نشانہ بسااوقات جماعت احمدیہ بھی بن جاتی ہے۔ ۱۹۴۶ء میں مکرم شریف دوتسا صاحب یورپ کے پہلےاحمدی شہید ہوئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سےاس موقع پر الفضل میں ایک اعلان شائع ہوا تھا جس کاکچھ حصہ پیش ہے۔حضورؓ نےفرمایا:’’اٹلی سے عزیزم ملک محمد شریف صاحب مبلغ نے اطلاع دی ہے کہ شریف دوتسا ایک البانوی سرکردہ اور رئیس جو البانیہ اور یوگوسلاویہ دونوں ملکوں میں رسوخ اور اثر رکھتے تھے (دونوں ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں اور البانیہ کی سرحدپر رہنے والے یوگو سلاویہ کے باشندے اکثر مسلمان ہیں اور بارسوخ ہیں۔ اور دونوں ملکوں میں ان کی جائیدادیں ہیں۔ عزیزم مولوی محمدالدین صاحب اس علاقے میں رہ کر تبلیغ کرتے رہے ہیں۔ ان کے ذریعہ سے وہاں کئی احمدی ہوئے، بعد میں مسلمانوں کی تنظیم سے ڈر کرانہیں یوگو سلاوین حکومت نے وہاں سے نکال دیا اور وہ اٹلی آ گئے) اور جو یوگو سلاویہ کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی طرف سے نمائندے تھے، جنگ سے پہلے احمدی ہو گئے تھے اور بہت مخلص تھے۔ انہیں البانیہ کی موجودہ حکومت نے جو کیمونسٹ ہے، ان کے خاندان سمیت قتل کروا دیا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ کیمونسٹ طریق حکومت کے مخالف تھے اور جومسلمان اس ملک میں اسلامی اصول کو قائم رکھنا چاہتے تھے ان کے لیڈر تھے۔ انا للہ واناالیہ راجعون… مرتے تو سب ہی ہیں اور کوئی نہیں جو الٰہی مقررہ عمر سے زیادہ زندہ رہ سکے۔ مگر مبارک ہے وہ جو کسی نہ کسی رنگ میں دین کی حمایت کرتے ہوئے مارا جائے۔ شریف دوتسا کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ یورپ کے پہلے احمدی شہید ہیں اور اَلْفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّمِ کے مقولہ کے ماتحت اپنے بعد میں آنے والے شہداء کے لئے ایک عمدہ مثال اور نمونہ ثابت ہو کر وہ ان کے ثواب میں شریک ہوں گے… اب یورپ میں توحید کی جنگ کی طرح ڈال دی گئی ہے۔ مومن اس چیلنج کو قبول کریں گے اور شوق شہادت میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کا مددگار ہو۔ اور سعادت مندوں کے سینے کھول دے‘‘(الفضل قادیان دارالامان ۱۲؍جولائی ۱۹۴۶ء) یہ یورپ میں پہلےاحمدی کی شہادت تھی۔اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی عمومی تعداد بھی بہت کم تھی۔اس کے بعد جوں جوں مسلمانوں کی تعداد ان ممالک میں بڑھتی گئی اس کے ساتھ ساتھ اسلام دشمنی میں بھی اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ بعض ممالک میں اسلام کے حوالے سے بعض پابندیاں بھی لگنی شروع ہوگئی ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ یورپ کے ممالک کے حوالے سےفرماتے ہیں:’’ اکثر ملکوں میں تو ابھی تک ایک لحاظ سے یہ مذہبی آزادی قائم ہے لیکن مذہبی پابندیوں کی ابتداء ہوچکی ہے۔ کہیں میناروں پر پابندی لگانے کی وجہ سے، کہیں حجاب پر پابندی لگانے کی وجہ سے۔(خطبہ جمعہ۲؍اپریل ۲۰۱۰ء) اسی ضمن میں خلفاء احمدیت نے کئی مواقع پر افراد جماعت کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروائی ہے کہ ان ممالک میں بھی ایک وقت آئے گا کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت بڑی شدت سے ہو گی اور اس حوالے سے اپنے آپ کو تیار بھی کرنا چاہیے۔ جیسا کہ حضور انور نے فرمایا تھا کہ یورپ میں ’’مذہبی پابندیوں کی ابتداء ہوچکی ہے۔‘‘ ان ممالک میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے احمدیت مخالفت کا عنصر ظاہر ہوتا ہے۔ کبھی یہ واقعات یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہوتے ہیں جبکہ بسا اوقات یہ نیشنلسٹ دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے افراد سے۔ ۲۰۱۶ء میں سکاٹ لینڈ کے ایک احمدی مکرم اسد شاہ صاحب کی شہادت ہوئی۔ اس حوالے سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’پچھلے دنوں جو گلاسگو میں احمدی کی شہادت ہوئی اس کی وجہ سے اس معاملے کو مخالفین نے اپنی جان بچانے کے لئے مذہبی جذبات کا ایشو بنانے کی کوشش کی۔ لیکن پھر حکومت کے مثبت رویے اور پریس کی بے انتہا دلچسپی کی وجہ سے ان بہت سی تنظیموں نے اور مسلمانوں کی یہاں جو ایک بڑی تنظیم ہے اس نے ظاہراً معذرت خواہانہ رویہ بھی اختیار کر لیا۔ لیکن ساتھ ہی اس بات پر بھی ہٹ دھرمی سے قائم رہے اور اس کا اظہار کیا کہ احمدی مسلمان بہرحال نہیں ہیں۔ مسجدوں میں اِس کا بے انتہا اظہار کیا جاتا ہے اور عام مسلمانوں کے دل میں اتنا زیادہ ڈال دیا ہے کہ مسلمانوں کے بچے بھی جن کو شاید کلمہ بھی اچھی طرح یادنہ ہو، جن کو یہ بھی نہیں پتا کہ ختم نبوت کیا چیز ہے، وہ احمدی بچوں کو سکولوں میں یہ کہتے ہیں کہ تم مسلمان نہیں ہو۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۲۹؍اپریل ۲۰۱۶ء) پھر یورپ میں مختلف مساجد کی تعمیر کے وقت جماعت احمدیہ کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ مخالفت عام طور پراسلامی تعلیمات سے واقفیت نہ رکھنے نیز بعض غیر احمدی مسلمانوں کے رویوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔اس کی ایک مثال برلن کی مسجد کی ہے جس کی تعمیر کے وقت وہاں کے قوم پرست لوگوں نے مخالفت کی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں خطبہ جمعہ ۲۹؍دسمبر ۲۰۰۶ء) ہالینڈ میں ایک سیاستدان Geert Wilders اپنی اسلام مخالفت کی وجہ سے بہت شہرت رکھتا ہے ۔ گو اس کی مخالفت عمومی طور پر اسلام کے حوالے سے ہے لیکن اس کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا تھا تو اِس پر اُس سیاستدان نے ردعمل دکھایا اور حضور انور کے الفاظ پر تحفظات کا اظہار کیا جو یقیناً بےجا تھا اور بعد ازاں حکومت نے بھی اس کے تحفظات کو بےبنیاد قرار دیا۔اس مخالفت کی وجہ بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اصل بات یہ ہے کہ ان سب کو نظر آ رہا ہے کہ مذہب کا اور خدا کی ذات کا صحیح تصور پیش کرنے والی اگر کوئی تعلیم ہے تو اب صرف اور صرف اسلام کی تعلیم ہے، قرآن کریم کی تعلیم ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۴؍ اگست ۲۰۰۷ء) بر اعظم امریکہ میں احمدیت کی مخالفت کی ایک مثال امریکہ میں ڈاکٹر مظفر احمد صاحب کی شہادت کی ہے جنہیں ۸؍اگست ۱۹۸۳ء کو شہید کر دیا گیا۔ اس طرح یہ امریکہ میں پہلے شہید کیے جانے والے احمدی تھے۔(محترم ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی تفصیلات پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ۱۲؍اگست ۱۹۸۳ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔) اسی طرح اس کے دو سال بعد جنوبی امریکہ کے ملک ٹرینیڈاڈ میں ہمارے ایک مبلغ قریشی محمد اسلم صاحب کو ۱۹۸۵ءمیں شہید کر دیا گیا۔ (ان کی شہادت کا تذکرہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خطبہ جمعہ ۱۶؍اگست ۱۹۸۵ء میں فرمایا) روس اور اس کے زیر اثر ممالک میں بھی ہمیں احمدیت کی مخالفت دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ احمدیت میں روس کے پہلے مبلغ مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا کو وہاں جاتے ہی قید کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔اس کے بعد اگر زمانہ کے اعتبار سے کچھ آگے آئیں تو قرغیزستان میں ایک احمدی یونس عبدل جلیلوف (Yunusjan Abdujalilov) صاحب کو ۲۲؍دسمبر ۲۰۱۵ء کو شہید کردیا گیا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شہید کا ذکر خیر خطبہ جمعہ ۲۵؍دسمبر ۲۰۱۵ء میں فرمایا۔ دو سابقہ روسی ریاستوں قرغیزستان اور قازقستان میں جماعت احمدیہ کو اپنی رجسٹریشن کروانے نیز عمومی مخالفت کا مستقل سامنا کرنا پڑ رہا ہےجس سے واضح ہوتا ہے کہ ان ممالک میں بھی احمدیت کی دشمنی پائی جاتی ہے۔ جماعت احمدیہ کی مخالفت کا مستقبل جس طرح جماعت احمدیہ نے خلافت احمدیہ کے زیرسایہ ترقیات کی منازل کو طے کرتے چلے جانا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مقدر ہے کہ مخالفت بھی بڑھتی رہے گی۔ اس کے لیے خلفائےاحمدیت بار بار افراد جماعت کو تیار کرتے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ انہیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں۔کیونکہ یہ عالمگیر مخالفت دراصل احمدیت کی صداقت کا ایک بیّن ثبوت ہے۔ ایک مجلس میں حضورِانور ایدہ اللہ سے استفسار کیا گیا کہ کیا حضور کو یہ لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں مسلمان جو کہ مغربی دنیا میں رہتے ہیں، ان کی زندگی مشکل ہو جائے گی اور مغربی دنیا میں ہم سے ہماری آزادیاں چھین لی جائیں گی؟ حضورِانور نے یاد دلایا کہ اس بارے میں تو مَیں کئی دفعہ بتا چکا ہوں، پہلے بھی کئی دفعہ لوگ میرے سے پوچھ چکے ہیں، کہ اگر اسلام نے ترقی کرنی ہے تو یہ ترقی جماعتِ احمدیہ کے ذریعہ سے ہونی ہے، اس لیے جماعتِ احمدیہ کو زیادہ خطرہ ہے اور ایسے حالات ایک وقت میں آ کے پیدا ہوں گے کہ جب اسلام کے خلاف اور ultimatelyجماعتِ احمدیہ کے خلاف بعض لوگ کھڑے ہوں گے اور اس میں ہو سکتا ہے کہ مخالفتیں زیادہ پنپیں ، اگر اس سے پہلے کہ تم لوگوں نے کوئی انقلاب پیدا نہ کر دیا۔ اس لیے یہ تو ظاہر ہے کہ جب ترقی ہوتی ہے تو مخالفت بھی زیادہ بڑھتی ہے۔ یہاں ویسٹ میں بھی بڑھ جائے گی بلکہ ابھی کچھ نہ کچھ تو باتیں ان کو پتا ہوتی ہیں، کر رہے ہوتے ہیں، ان کے دماغوں میں یہ بھی ہے کہ کسی وقت ہم خلافت کو بھی نقصان پہنچائیں، اور اس کے لیے یہ ہو سکتا ہے کہ پھر ان کے مختلف طریقے ہیں لوگوں کو نقصان پہنچانا، مخالفت کرنا اور ان کی لابنگ ہوتی ہے، تمہیں پتا ہے، امریکہ میں تو بہت زیادہ لابنگ ہوتی ہے۔ اس کے بعد پھر کیا کچھ کریں گے وہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن اس سے پہلے اگر ہماری کوششیں صحیح ہوں گی، اللہ تعالیٰ کا فضل ہو گا، دعا ہو گی، تو اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں بچا بھی سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔… لیکن بہرحال ایک وقت میں آ کے مخالفت تو ہو گی، جب جماعت کی ترقی بھی ہو گی۔ اس کے ساتھ بہرحال جماعت کی ترقی کو بھی بریکٹ کرنا ہو گا اور تبلیغ کرو گے تو پھر تمہاری مخالفت اَور زیادہ بڑھے گی کہ جب لوگ دیکھیں گے کہ ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ … لیکن جس طرح مَیں نے بتایا کہ ان کے دماغوں میں ابھی سے یہ ہے کہ کیونکہ یہ خلافت پر چلتے ہیں تو اس لیے اُن کے پاس ایک مرکز ہے کہ جس کے کہنے پر یہ چلتے ہیں، اس لیےمرکز کو بھی پکڑنا چاہیے۔ ان لوگوں کویہ خیال پیدا ہوسکتا ہے، جو دنیا دار ہیں، ان کی نظریں بڑی دُور دُور ہوتی ہیں۔ یہ لوگ آج سے تیس سال بعد کی پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں بھی اسی طرح پلاننگ کرنی چاہیے۔(الفضل انٹرنیشنل ۹؍جنوری۲۰۲۵ء) اسی طرح ایک مجلس میں جماعت کی مخالفت کے پھیلاؤ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح جماعت پھیل رہی ہے حسد بھی بڑھ رہا ہے۔ اب حسد بڑھ رہا ہے تو فتنہ اور فساد پیدا کرنے، وسوسے ڈالنے والے اوردجالی صفت رکھنے والے لوگوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی آخری تین سورتوں میں پہلے ہی دعا سکھا دی۔ ان لوگوں کو پتا ہے کہ احمدی ہی ہیں جو خدائے واحد کی صحیح طرح عبادت کرنے والے ہیں۔ گو کہنے کو تو یہ ہمیں ان ملکوں میں خدا تعالیٰ یا اس کے رسول کے نام پہ قتل کرتے ہیں اورہم پہ ظلم کرتے ہیں لیکن دراصل ان میں ایک حسد ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی خلاف ورزی کرنے والے ہیں اور ہر نبی کی جماعت کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے۔جب بھی وہ پھیلتی ہے حاسدین کی تعداد بھی بڑھتی ہے، وسوسے ڈالنے والوں کی تعدادبڑھتی ہے اور پھر جہاں ان کو موقع ملتا ہے وہ ظلم سے بھی دریغ نہیں کرتے اور یہی کچھ جماعت احمدیہ سے ہوا۔ پہلے ہندوستان میں ہوا جب پاکستان ہندوستان ایک تھا۔اس وقت احراری شور مچاتے تھے۔حالانکہ اس وقت برٹش گورنمنٹ تھی لیکن بعض مواقع ایسے آئے کہ انگریز افسران جماعت کی مخالفت کرتے تھے۔یہ ہماری تاریخ سے ثابت ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے خلاف مقدمے کرتے رہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف مقدمے ہوتے رہے اور فساد پیدا ہونے کی بھی کوشش ہوتی رہی۔ پھر پاکستان ہندوستان بنا تو پاکستان میں کیونکہ جماعت کی تعداد زیادہ تھی وہاں شروع سے ہی پہلے۵۳ء کے فساد ہوئے۔پھر اس کے بعد ۷۴ء کے واقعات ہوئے۔۸۴ءمیں ہمارے خلاف قانون مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی اور پھر جو تبدیلیاں کر سکتے تھے،جو ان کے بس میں تھا ،وہ کرتے رہے اور اب تک کر رہے ہیں۔ حاسدین جماعت کی ترقی دیکھ کر یہ کررہے ہیں اور کریں گے اور یہی کچھ الٰہی جماعتوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ ہندوستان میں بھی مولویوں نے آج کل سر اٹھانا شروع کیا ہواہے۔ آج کل وہاں بھی نئے سرے سے مولویوں کا گروپ ختم نبوت کے نام پہ احمدیوں کے خلاف مختلف چھوٹے قصبوں میں، جہاں جماعت تھوڑی تعداد میں ہے، وہاں فساد پیدا کرنے یا مار دھاڑ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہاں بھی اکا دکا واقعات ہو رہے ہیں اور اسی طرح جب باہر نکلتے ہیں تو باہر بھی ہوں گے۔ افریقہ میں کیونکہ جماعت پھیل رہی ہے اور پاکستانی مولوی بھی وہاں جاتا ہے ، ختم نبوت یا وہابیت کی تعلیم کے نام پہ بعض عرب ملک اپنا روپیہ بھی لگاتے ہیں۔برکینا فاسو میں مسلمان زیادہ تر وہابی ہیں۔بہرحال وہ پیسہ لگا رہے ہیں اور یہ سارا فتنہ اور فساد کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اس طرح ہم سختی سے جماعت کو دبا لیں گے لیکن جو شخص احمدی ہوتاہے، خود اسلام قبول کرتا ہے اور اپنے ایمان میں پختہ ہے وہ ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ آپ نے نمونہ دیکھ لیا کہ کس طرح انہوں نے[برکینا فاسو کے شہداء نے] اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دیے لیکن اپنے ایمان سے نہیں ہٹے۔اسی طرح بعض اور نوجوان ہیں جن کو دھمکیاں مل رہی ہیں کہ یہ کرو نہیں تو ہم یہ کر دیں گے۔مَیں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں جو برکینا فاسو کے بارے میں تھا مثال بھی دی تھی کہ ایک نوجوان نے کہا کہ تم کہتے ہو تصویریں کیوں لگاتے ہو، مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اَور تصویریں لگاؤں گا۔تویہ ان کے ایمان کی پختگی ہے۔ یورپ میں تو ویسے ہی دہریت پھیل رہی ہے اور مذہب کے خلاف ایک باقاعدہ مہم ہے۔ آج کل مختلف قسم کی حرکتیں شروع ہوئی ہوئی ہیں ،عورت مرد کی آزادی کے نام پہ ،مختلف genderکی آزادی کے نام پہ جس کو یہ مختلف نام دیتے ہیں یا دوسرے ناموں پہ۔ گو بعض جگہ یہ صحیح ہیں لیکن جہاں مذہب کے ساتھ آزادی کے نام پہ یہ باتیں کرتے ہیں یا مذہبی تعلیم کے خلاف آزادی کے نام پہ باتیں کرتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ یہ دہریت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی سکیم ہے۔صرف یہی نہیں کہ ہمارے سے مذہبی مخالفت ہو گی بلکہ ہمیں دہریت کا بھی مقابلہ کرنا پڑے گا۔ دہریت کی طرف سے بھی مخالفت ہو گی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف یہ نہیں لکھا کہ میں مثیل مسیح کے طور پر آیا ہوں اس لیے عیسائیت کے خلاف میرا جہاد ہے۔ آپؑ نےمسلمانوں کو بھی ہدایت دینی تھی اور عیسائیوں کو بھی ہدایت دینی تھی۔ بلکہ آپؑ نے کہا کہ ایک زمانہ آئے گا ،اور اب آ گیا ہے ،جب لوگ خدا تعالیٰ کو ہی بھول رہے ہیں۔اس لیے دہریت کے خلاف بھی تمہیں جہاد کرنا پڑے گا۔ اب وہ زمانہ ہے کہ ہمیں دہریت کے خلاف اپنے لٹریچر کو مضبوط کرنا ہو گا،اپنے دلائل مضبوط کرنے ہوں گےاور اس حوالے سے اپنی باتوں میں زیادہ سے زیادہ زور پیدا کرنا ہو گا کیونکہ عیسائیت کو تو لوگ بھول چکے ہیں۔لیکن بہرحال سارے مخالفین چاہے وہ مذہب کے مخالفین ہوں،دہریہ ہوں، اسلام کے مخالفین ہوں،یاعیسائی یا دوسرے مذاہب کے ہوں ،یہ سب مل کے احمدیت کے خلاف محاذ کھڑا کریں گے۔ اورہو سکتا ہے کہ ایک وقت آئے جب ان کو یہاں احمدیت پھیلتی یا مضبوط ہوتی نظر آئے تو یورپ کے بعض ممالک میں بھی اس طرح کی مخالفت سامنے آئے۔ اس کے لیے ہمیں انتظامات کے حوالے سےہر روز ہوشیار رہنا چاہیے۔(الفضل انٹرنیشنل۱۰؍فروری ۲۰۲۳ء) اللہ تعالیٰ جماعت کو ہمیشہ الٰہی وعدوں کے مطابق ترقیات سے نوازتا رہے اور مخالفین کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین مزید پڑھیں: کیا جنگیں تنازعات کا حل ہوا کرتی ہیں؟