https://youtu.be/i3iXaEO-o_M آرڈیننس ۱۹۸۴ء کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی موسلادھار بارش کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ عالمگیر کی بے شمار ترقیات کے ان گنت سنگ ہائے میل عبور کرنے کا مختصر جائزہ ’’ہر ایک معجزہ ابتلاء سےوابستہ ہے۔غفلت اور عیاشی کی زندگی کو خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کامیابی پر کامیابی ہو تو تضرّع اور ابتہال کا رشتہ تو بالکل رہتا ہی نہیں ہے، حالانکہ خدا تعالیٰ اسی کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے ضرور ہے کہ دردناک حالتیں پیدا ہوں‘‘(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے پھل اِس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے آج سے تقریباً سوا صدی قبل جبکہ احمدی ایک سو سے بھی کم تعداد میں تھے، اُس بے سروسامانی کے دور میں اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ و السلام نے فرمایا کہ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں، اب یہ پودا بڑھے گا، پھولے گا اور ساری دنیا میں اس کی شاخیں پھیل جائیں گی۔ یہ میرے منہ کی باتیں نہیں یہ اُس کا وعدہ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے، اُس نے مجھ سے کہا ہے، اِس بات کا اعلان کردے کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔بہت سی رکاوٹیں آ ئیں گی لیکن مجھے بھیجنے والا اُن سب کو ہٹا دے گا اور فتح و نصرت ہر دم میرے قدم چومے گی۔یہ امر قابلِ غور ہے کہ یہ باتیں حضورؑ پنجاب کی ایک دُور دراز کی گمنام بستی میں بیٹھ کراُس وقت فرمارہے تھے جب اِن کے پورا ہونے کا دُور دُورتک امکان نہ تھا۔ وہاں نہ کوئی پختہ سڑک، نہ ریل،نہ موٹر، نہ گاڑی کچھ بھی تو نہیں آتا جاتا تھا۔پھرایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت نے رنگ دکھایا۔اپنے وعدوں کی لاج رکھی اور اپنےنبی کی باتوں کو سچ کر دکھایا۔ یہ دعوے اس چھوٹی سی بستی سے نکل کر آس پاس کی بستیوں اور شہروں میں بھی سنے جانے لگے۔ بس پھر کیا تھا، ان باتوں کو سُن کر اپنے رشتہ دار ساتھ چھوڑ گئے، قریبیوں اور تعلقداروں نے بھی منہ موڑ لیا، غیروں نے ہنسی اور ٹھٹھے کے ساتھ کہا، دنیا کے کنارے تو بہت دُور کی بات، ہم اس کی آواز کو اس کی بستی کے کناروں تک بھی نہیں پہنچنے دیں گے۔ لیکن معجزہ یہ ہوا کہ مخالفین کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ آواز اپنے پورے جوبن پر پہنچ کر اِس بستی کے باہر سنائی دینے لگی۔ اور مخالفت کی آندھیوں کے باوجود پھیلتی چلی گئی۔ربانی آواز کو پھیلتے دیکھ کر وہ سب مخالف سر جوڑ کر بیٹھ گئے اورمنصوبے بنانے لگے کہ ہم سب کو اکٹھے ہوکر اس آواز کوروکنا اور بند کرنا ہوگا۔ ایسا کرنے کے لیے انہوں نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور ہر ممکن حربے استعمال کر ڈالے، لیکن ہر کوشش خائب و خاسر ہوکر رہ گئی اور ہر کاوش دم توڑ گئی لیکن اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ یہ آواز اکنافِ عالم میں مزید بلند ہوتی اور پھیلتی چلی گئی۔وہ جو ابتدا میں ۷۵تھے وہ ۷۵؍ہزار اور پھر ۷۵؍لاکھ ہوتے چلے گئے، اور یہ گنتی کرنا مشکل ہو گیا کہ زمین کے کناروں تک پہنچنے والی تبلیغ سے حاصل ہونے والے پھلوں کے کیا اعدادو شمار ہیںکیونکہ ہر روز اُن میں اضافے پر اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جماعت احمدیہ کو مٹا ڈالنے اور نیست و نابود کرنے کی ناکام کوششیں ہر دَور میں ہوتی آئی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اِس جماعت پر ہونے کی وجہ سے مخالفین کوہر مرتبہ منہ کی کھانا پڑی اور جماعت احمدیہ کو مٹا ڈالنے کے کھوکھلے دعوے کرنے والے خود مٹا دیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خاک تک کو ہواؤں میں اُڑا کر رکھ دیا اور رُسوائے عام کردیا۔ ماضی کے تجربات سے عبرت لیے بغیر ہر دفعہ اس زُعم میں جماعت پر قدغنیں عائد کرنے کی ناکام کوشش کی کہ اس دفعہ تو ہم کامیاب ہو ہی جائیں گے۔لیکن اللہ تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ بدنامِ زمانہ آرڈیننس مجریہ ۱۹۸۴ء کےنافذ ہونے کے بعد مخالفینِ جماعت احمدیہ اپنے خیالات میں یہ گمان کر رہے تھے کہ اب ہم نے اس پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے اور اس قسم کی روکیں اور قدغنیں لاکھڑی کی ہیں کہ یہ بڑھتا اور پھلتا پھولتا ہوا شجر یہیں رُک جائے گا۔بلکہ خدانخواستہ نابود ہوجائے گا،وقت کے فرعون نے یہ خواب بھی دیکھا تھا کہ اب میں خود اس جماعت کی تقدیر کا فیصلہ کروں گا اور اس کی شہ رگ کاٹ کر رکھ دو ں گا۔ خلافت رابعہ کے آغاز میں جماعت احمدیہ کی ترقیات کا جو گراف ایک دم اوپر پہنچ گیا تھا،اس ترقی کی رفتار کو دیکھ کر اُس زمانے کے نام نہاد صد رمملکت اور ڈکٹیٹر نے یہ خام خیالی اپنے دل میں پال لی تھی کہ میرے ہاتھ میں پاکستان کی باگ ڈور ہے اور میں اپنے ملک کا طاقتور ترین انسان ہوں،میرے لیے یہ انتہائی آسان ہے کہ میں اس جماعت کو نیست و نابود کرکے رکھ دوں۔ایک طرف زمین پر رہنے والاجماعت کا بد ترین دشمن، الٰہی جماعت کو مٹا ڈالنے کا مکر کر رہا تھا، دوسری طرف زمین و آسمان کا مالک اور بادشاہ اپنی بہترین تدبیر یعنی جماعت احمدیہ کو عالمگیر سطح پر مشہور و معروف کرنے، نیک نامی پھیلانے، دن دوگنی اور رات چوگنی ترقیات کے لیے اپنے فضلوں کی بارشیں کرنےکے فیصلے کرچکا تھا۔ ایک زمانہ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق انبیاء کی جماعتوں کی طرح محبت، شفقت، تائید و نصرت اور فضلوں کی موسلا دھار بارش جماعت احمدیہ پر بھی فرما دی۔ اپریل ۱۹۸۴ء میں جونہی یہ نام نہاد آرڈیننس جاری ہوا ربوہ شہراور خاص طور پر قصر خلافت کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ باہر نکلنے کے تمام راستے مسدود کردیے گئے۔ ابتلا کے اس مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو ربوہ سے معجزانہ طور پر بخیریت ہجرت کرائی اور دشمنوں کے نرغے میں سےربوہ اور کراچی ایئرپورٹ سے بالکل اسی طرح نکالا جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت ﷺ کو ہجرت مدینہ کے وقت کفار مکہ کے حصار میں سے بحفاظت نکال کر لے گیا تھا۔حضورؒ کی انگلستان کی طرف یہ ہجرت بہت بابرکت ثابت ہوئی۔ جس سے جماعت احمدیہ پر نہ صرف خوشحالی اور کشائش کے دروازے کھل گئے بلکہ اس کو عالمگیر حیثیت اور شہرت بھی حاصل ہوگئی اور جماعت ترقیات کے پے در پے سنگ ہائے میل جلد از جلد طے کرتےہوئے تیز رفتار پکڑتی چلی گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے لندن میں سکونت پذیر ہونے کے بعد جماعت احمدیہ عالمگیر کی ترقیات کے آغاز کی بنا ڈالی اور جماعت احمدیہ کے مخالفین کو واشگاف الفاظ میں پیغام دیا کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی جماعت کی ترقی کو کسی بھی لحاظ سے نہیں روک سکو گے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۸۸ء کے دوسرے دن مورخہ ۲۳؍جولائی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’چند سال پہلے جب پاکستان میں اس مخالفت کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے تو آغاز ہی میں میں نے یہ مضمون خوب کھول کر بیان کیا تھا اور احمدیت کے دشمنوں کو خوب اچھی طرح متنبّہ کیا تھا کہ آپ جتنا چاہیں دکھ ہمیں پہنچا دیں، جتنے کانٹےچاہیں راہ میں بوئیں لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ خدا کے فضلوں کی راہ، آپ روک نہیں سکتے۔ اگر خدا کسی پر اپنی رحمتوں کی بارش برسانے کا فیصلہ کرے تو ناممکن ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت خدا کے فضلوں اور ان لوگوں کی راہ میں حائل ہوسکے، جن پر خدا اپنے فضل فرمانے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ اس کے بعد سے ہم مسلسل خدا کے فضلوں کی اس عالمگیر بارش کا مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں اور آئندہ بھی ہمیشہ کرتے چلے جائیں گے۔ ان شاءاللہ‘‘(ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدیدجولائی ۱۹۸۸ء صفحہ ۹) جماعت احمدیہ کی دنوں میں ترقیات کی منازل طے کرنے، نیک نامی اور مقبولیت کے گراف کو اونچا ہوتا دیکھ کر دشمن حیرت کے عمیق سمندروں میں جا ڈُوبےاور دانتوں میں انگلیاں دبا کر سوچوں کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوگئے۔اس آرڈیننس کے ذریعےجماعت پر پابندیاں لگانے کے جو خواب دیکھے تھے وہ سب چکنا چُور ہوگئے، جو منصوبے بنائے تھے وہ سب نابود ہوگئے۔ جماعت احمدیہ تو گویا ریت کے ذروں کی طرح ان کے ہاتھ سے نکلتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی شہرت حاصل کرلی۔ بنیادی انسانی حقوق کی عالمی ایسوسی ایشنز اور دنیا بھرمیں امن قائم کرنے والی انجمنوں نے جماعت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کےاسلام کی امن پسند تعلیمات پھیلانے کے کاموں کی پذیرائی کی اور خوشنودی کا اظہار کیا۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی اس موسلا دھار بارش کو دیکھا تو دشمنوں کے ہوش اُڑ گئے۔ جماعت احمدیہ پاکستان پر عائد ہونے والی یہ پابندیاں رحمت بن گئیں اور پاؤں میں پہنائی جانے والی بیڑیاں پھول ثابت ہوئیں۔ مختلف ملکوں کی پارلیمنٹس میں جماعت احمدیہ کی رسائی ہوگئی اور نیک نامی کا ڈنکا بجنے لگا۔دنیا کے اعلیٰ سطحی ایوانوں میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام گونجنے لگا۔ہزاروں اور لاکھوں سعید روحیں جماعت احمدیہ میں داخل ہونا شروع ہوگئیں۔ دنیا کے ملکوں میں گاؤں کے گاؤں احمدی ہوتے چلے گئے اور ان کے اماموں سمیت بنی بنائی مساجد میں جماعت احمدیہ کی تعلیمات کی درس و تدریس کی آوازیں آنے لگیں، تو یہ سب دیکھ کر جماعت کے دشمن اور مخالفین بوکھلا گئے، اسی بوکھلاہٹ میں یہ تک سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ آرڈیننس اور پابندیاں تو جماعت احمدیہ کے لیے خوشی و مسرت کا پیغام بن گئی ہیں، دیکھنا چاہیے کہ یہ صدرمملکت کہیں اند ر سے جماعت احمدیہ کے ساتھ تو نہیں ملا ہوا؟ ان کے خلیفہ کو خاموشی سے باہر جانے دیا، جس کی وجہ سے جماعت کی ترقی کو چار چاند لگ گئے ہیں، جماعت وہ ترقی حاصل کررہی ہے جو پہلے نہ دیکھی،نہ سُنی اورنہ ہی سوچی۔ ایک جیالے لکھاری نے تو انہی خدشات کو تحریر کا جامہ پہنا کر ایک ضخیم کتاب بھی لکھ دی۔ اس کتاب کا نام ’’کیا ضیاء الحق قادیانی تھا؟‘‘ رکھا۔ خاکسار راقم الحروف نے یہ کتا ب بذات خود اُن دنوں فیروز سنز لمیٹڈ لاہور کے Best Seller Books Shelf میں سجی دیکھی تھی۔ مخالفین تو یہ سوچ رہے تھے کہ اب پاکستان میں ان کی سرگرمیاں رُک جائیں گی۔دشمن کی ان سوچوں کے برعکس جماعت احمدیہ کی پاکستان میں، خاص طو رپر ربوہ میں سرگرمیوں اور پروگراموں کے انعقاد میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ ایک ڈیڑھ سال کےاندر ہی پروگرامز منعقد ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس کی درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ ٭…مرکز سلسلہ عالیہ احمدیہ میں مورخہ ۲۳؍امان ۱۳۶۴ہش بمطابق مارچ ۱۹۸۵ء جلسہ یومِ مسیح موعود روایتی ذوق و شوق اور احترام و عقیدت سے منایا گیا۔ جماعت احمدیہ کے قیام پر ۹۶؍سال پورے ہونے پر منعقد ہونے والا یہ جلسہ مسجد مبارک میں منعقد ہوا، جس میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جیّد علمائے کرام نے تقاریر کیں۔ احباب ربوہ کی بہت بڑی تعداد نے اس جلسہ میں شمولیت کی۔ لاؤڈ سپیکر کا انتظام ہونے کی وجہ سے آواز دُور دُور تک پہنچ رہی تھی۔ اور مسجد کے اندر کا سارا حصہ پُر ہوجانے کے بعد باہر صحن اور گراسی پلاٹوں میں بھی احباب تشریف فرما تھے۔ خواتین کے لیے پردے کی رعایت سے انتظام کیا گیا تھا۔ (ضمیمہ خالد ربوہ مارچ ۱۹۸۵ء صفحہ ۴) ٭…جماعت احمدیہ کی مرکزی ۶۶ویں مجلس مشاورت اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمتوں کے جلو میں مورخہ ۲۹ تا ۳۱؍مارچ ۱۹۸۵ء مرکز سلسلہ ربوہ میں نہایت درجہ کامیابی اور خیرو خوبی کے ساتھ منعقد ہوئی۔ ٭…ڈھیروں مشکلات اور بے انتہا ابتلاؤں کے باوجود پاکستان کے احمدی اپنے امام کی اقتدا میں اپنے رب کے حضور جھکے اور دعاؤں میں لگے رہے نیز اپنے وطن پاکستان میں رہنے کی وجہ سے جو مصیبتیں نازل ہوئیں ان کی پرواہ کیے بغیر اپنے وطن کے لیے وہی ہمدردی اور خیر خواہی اپنے دلوں میں لیے زندگی گزارتے رہے۔ چنانچہ اگست ۱۹۸۵ء میں ربوہ میں یومِ آزادی نہایت تزک و احتشام سے منایا گیا۔ بازاروں کو سجایا گیا قومی پرچم لہرائے گئے، کھیلوں کے مقابلے ہوئے اور مسجد مہدی سے ملحقہ میدان میں ایک جلسہ عام کا انعقاد ہوا جہاں مٹھائی اور چاول تقسیم کیے گئے۔ ربوہ اور پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں جماعت احمدیہ کی ترقیات روز افزوں بڑھتی چلی گئیں۔ عالمی ترقیات کے جائزے کی ایک جھلک دیکھیں۔ ٭…مارچ ۱۹۸۵ء میں ناروے کے ایک ریڈیو سٹیشن پر جماعت احمدیہ کا مستقل پروگرام پیش ہونا شروع ہوا۔ ناروے کی کلچرل منسٹری نے ہفتہ میں تیرہ گھنٹے پروگرام پیش کرنے کی اجازت دی۔ ٭…مغربی جرمنی میں ۱۹۸۴ء کے دوران ۱۱۹؍افراد نے قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مغربی جرمنی کی جماعت کو یکصد بیعتو ں کا ٹارگٹ دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۸۴ء میں ہی ایک سو انیس افراد بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں داخل ہوگئے ٭…۵تا ۷؍اپریل ۱۹۸۵ء ٹلفورڈ میں جماعت احمدیہ انگلستان کا عظیم الشان تاریخی جلسہ منعقد ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے دنیا کے کونے کونے سے آنے والے احباب کو تینوں دن پُرمعارف خطابات سے نوازا۔ اس بابرکت جلسہ میں کرّہ ارض کے پانچ براعظموں کے ۴۸؍ممالک کے ہزارہا احباب نے شرکت کی۔ یاد رہے کہ یہ تاریخی جلسہ جس جگہ منعقد ہوا وہ ۲۵؍ ایکڑ رقبہ پر مشتمل نئی خرید کردہ قطعہ زمین واقع ٹلفورڈ میں تھا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کی بارشوں کا نتیجہ تھا جو اس آرڈیننس کی قدغنوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے موسلادھار جماعت احمدیہ پر برسیں۔ ٭…حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جماعت احمدیہ امریکہ کو تحریک فرمائی تھی کہ امریکہ میں پانچ جگہوں پر نئے مراکز تعمیر کرنے کا انتظام کیا جائے، چنانچہ جماعت ہائے احمدیہ امریکہ نے مالی قربانی کرتے ہو ئےاس پر والہانہ لبیک کہا۔ جس کے نتیجہ میں چار جگہوں پر مراکز خرید لیے گئے۔ (ضمیمہ مصباح اپریل ۱۹۸۵ء صفحہ ۱) ٭… اسی طرح جماعت احمدیہ کینیڈا کو بھی حضورؒ نے ہدف دیا جس کے نتیجے میں اس جماعت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور فروری ۱۹۸۵ء تک چھ لاکھ ڈالر سے زائد مالی قربانی کی توفیق پائی۔ (ضمیمہ خالد مئی ۱۹۸۵ء صفحہ ۱) ٭…گلاسگو سکاٹ لینڈ میں احمدیہ مشن ہاؤس کے لیے نئی عالیشان عمارت خریدی گئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ۱۰؍مئی ۱۹۸۵ء کو جمعہ پڑھا کر اس عمارت کا افتتاح فرمایا۔ ٭… اس دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی لندن میں شبانہ روز مصروفیات جاری تھیں۔ درس القرآن، ملاقاتیں، خطبات جمعہ اور خطابات وغیرہ ٭…۲۲؍ستمبر ۱۹۸۵ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے دستِ مبارک سے مغربی جرمنی میں دو نئے مراکز کا افتتاح عمل میں آیا۔ ۶؍ ایکڑ رقبہ پر مشتمل مرکز گروس گیراؤ میں اور سواایکڑ رقبے کا مرکز کولون میں واقع ہے۔( ضمیمہ تحریک جدید ستمبر ۱۹۸۵ء صفحہ ۱) ٭… حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جولائی ۱۹۸۵ء میں یورپ کے ممالک کا دورہ فرمایا، جس کے دوران یورپ کے بعض ممالک ہالینڈ،فرانس، بیلجیم اور مغربی جرمنی کے مختلف شہروں میں خرید کردہ جماعت احمدیہ کے نئے مشن ہاؤسز کا افتتاح فرمایا۔ ٭…جماعت میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔مسجد محمود زیورک سوئٹزرلینڈ میں ۲۷؍ستمبر ۱۹۸۵ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نےخطبہ جمعہ میں فرمایا:’’جماعت احمدیہ کو آجکل خاص طور پر دعوت الی اللہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ خدا کے فضل سے ہر طرف جماعت کے اندر دلچسپی پیدا ہورہی ہے۔ اور کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں میں گیا ہوں اور وہاں بیعتیں نہ ہوئی ہوں۔‘‘حضورؒ نے فرمایا : ’’بہت سی خوشخبریاں ایسی ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد اس جماعت کو بڑھانے والا ہے اس لئے ہر احمدی ہر جہت میں کوشش کرے، جماعت کی بھاری طاقت ابھی تک میدا ن میں نہیں اُتری۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ زمانہ میں ایک انقلاب آنے والا ہے۔‘‘حضورؒ نے فرمایا: موجودہ حالات میں تبدیلی پاکستان کے احمدیوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں بھی ہوری ہے۔ وہ لوگ مظلومیت کے دور میں سے گزر کر دعائیں کر کر کے آپ کے حالات میں تبدیلی لار ہے ہیں۔ (ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید اکتوبر ۱۹۸۵ء صفحہ ۴تا ۶) ۱۹۸۴ء اور اس کے بعد کئی سال تک جماعت احمدیہ پاکستان مشکلات اور ابتلاؤ ں کا شکار رہی۔ایک طرف تو یہ مصیبتیں اور قدغنیں تھیں اور دوسری طرف امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ یہ اعلان فرمار ہے تھے:’’گزشتہ سال(۱۹۸۶ء) نے اپنےاختتام پر جماعت کی ترقی کے نئے راستے کھولے ہیں۔ اتنی برکتیں اور وُسعتیں جماعت کے لئے گزشتہ سال لے کر آیا تھا کہ جن کے ذکر سے آپ کے دل خدا کی حمد سے سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ ‘‘(ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید جنوری ۱۹۸۷ء صفحہ ۱) جماعت احمدیہ کے سو سال مکمل ہونے میں صرف دو سال رہ گئے تھے لیکن ان ابتلاؤں نے جماعت کی ترقی کے قدم رُکنے نہیں دیے، اُ س دور میں دنیا بھر میں جشنِ صد سالہ جوبلی کے لیے بنیادی منصوبے بنائے جارہے تھے۔مرکزی کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ ملکی اور علاقائی سطح پر بھی کمیٹیاں تشکیل دی جارہی تھیں۔ ٭…خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے واشنگٹن امریکہ میں جماعت احمدیہ کے نئے مرکز اور مسجد کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب ۹؍اکتوبر ۱۹۸۷ء کو عمل میں آئی۔ یاد رہے حضورؒ نے اکتوبر،نومبر ۱۹۸۷ء میں امریکہ کی گیارہ ریاستوں میں پھیلی ہوئی جماعت ہائے احمدیہ کا دورہ فرمایا تھا۔ جماعت احمدیہ واشنگٹن نے ۷؍اکتوبر کو ہلٹن ہوٹل واشنگٹن ڈی سی میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے اعزاز میں بہت وسیع پیمانے پر استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا اس تقریب میں غیر مسلم اور غیر احمدی اعلیٰ سرکاری مہمانوں، عمائدین اور دیگر معززین کی تعداد اڑھائی صد سے زائد تھی۔ اس موقع پر امریکی سینیٹر نے جماعت احمدیہ کی انسانی خدمات کے اعتراف کے طور پر حضورؒ کی خدمت اقدس میں نشانِ امریکہ کا تمغہ پیش کیا اور کولمبیا کے میئر نے ۷؍ اکتوبر ۱۹۸۷ء کے دن کو حضورؒ کا دن قرار دیا۔ (ضمیمہ مصباح فروری ۱۹۸۸ء) ٭…جنوری ۱۹۸۸ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مغربی افریقہ کے تاریخ ساز دورہ میں فرمایا:’’جماعت احمدیہ کے ذریعہ افریقہ کی تاریخ کا رُخ بدل دیا جائے گا۔ ہر شخص اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو افریقہ کی خدمت کے لیے پیش کرنے کی تیاری کرے۔ اہلِ افریقہ کی خدمت کریں اور ان لوگوں کو اپنے قدموں پر کھڑا کریں۔تمام احمدی جماعتیں کمرہمت کس لیں اور ہر میدان میں افریقہ کی خدمت کی تیاری شروع کردیں۔ (ضمیمہ خالد فروری ۱۹۸۸ء) ایک طرف پاکستان میں پُر آشوب حالات اپنے عروج پر تھے اور دوسری طرف جماعت احمدیہ کے عالمگیرامام جماعت کو ترقیات کے بامِ عروج تک پہنچانے کے روحانی پروگرام بنا رہے تھے۔اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍اگست ۱۹۸۷ء میں فرمایا:’’یورپی ممالک کی جماعتوں کو دعوت الی اللہ کی مہم کی طرف پوری سنجیدگی سے توجہ کرنی چاہیے۔ ساری دنیا کو اسلام میں داخل کرنے کی عظیم ذمہ داری خدا تعالیٰ نے ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے۔ اس ذمہ داری کی کما حقّہ ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص دعوت الی اللہ کے کام میں حصہ لے۔‘‘ پھر حضورؒ نے مخالفین کو یہ پیغام دیا کہ ’’جماعت احمدیہ ایک مقتدر اور مدبّر خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہےاور یہ اعلیٰ مقاصد کے حصول کےلئے قائم کی گئی ہے۔‘‘(ضمیمہ خالد جنوری ۱۹۸۷ء) حضورؒ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰ اپریل ۱۹۸۷ء میں فرماتے ہیں : ’’خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کی ترقی کے عظیم الشان نئے نئے دروازے کھول رہا ہے۔ جماعت احمدیہ کو خدا کی تقدیر بڑی تیزی سے اس عظیم عالمی انقلاب کی طرف لارہی ہے جس کا لانا ہمارے قبضہ میں نہیں۔ ‘‘ خلافت رابعہ میں چندمزید ترقیات و فتوحات کا مختصر جائزہ ٭…جب دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں سعید روحیں جماعت احمدیہ میں داخل ہونا شروع ہوئیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ہر سال جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر عالمی بیعتوں کا سلسلہ شروع فرمایا۔پہلی عالمی بیعت، جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ءکے موقع پر ۳۱؍جولائی کومنعقد ہوئی اور ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے سعید روحیں فوج در فوج احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آتیں۔ ٭…حضورؒ نے اپنے ۱۷؍ستمبر ۱۹۹۳ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایاکہ اللہ کی نصرت کی ہوائیں اب جھکڑ میں تبدیل ہورہی ہیں اس لیے نو مبائعین کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ ٭…۲۲؍جولائی ۱۹۹۳ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے لندن سے ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کے اجراء کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں فرمایا: ’’جماعت احمدیہ عالمگیر کو الفضل کا یہ نیا دور مبارک ہو۔‘‘ ٭…۷؍جنوری ۱۹۹۴ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے احمدیہ ٹیلی ویژن کی نشریات کا باقاعدہ افتتاح فرمایاجس سے دنیائے احمدیت کو نہ صرف اپنے آقا کا دیدار نصیب ہوا بلکہ وہ ایک لڑی میں پروئی گئی اور اس کے ذریعے ترقیات کا نیا باب کھل گیا۔ ٭…جماعت احمدیہ برطانیہ کا سالانہ جلسہ جولائی ۱۹۹۵ء کو اسلام آباد ٹلفورڈ میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر ڈش کے ذریعہ عالمی بیعت میں ۹۶؍ممالک کے ۱۶۲قوموں کے ۱۲۰زبانیں بولنے والے ۸؍لاکھ ۴۵؍ہزار ۲۹۴ افراد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ہاتھ پر بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ یاد رہے کہ آرڈیننس ۱۹۸۴ء کے بعد پہلے دس سال میں یعنی جولائی ۱۹۹۵ء تک ۱۴۸؍ممالک میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آچکا تھا۔۵۲؍زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم مکمل ہو چکے تھے۔۱۰؍افریقی ممالک میں ۳۰؍ہسپتال اور ۲۸؍ڈاکٹرز خدمات بجا لارہے تھے، دنیا بھر میں ۵۲۵؍مشن ہاؤسز،۸۲۱؍مرکزی مبلغین ومعلمین خدمات بجالارہے تھے۔ ا س جلسہ سالانہ میں حضورؒ کےخطابات اور دیگر پروگرامز روزانہ چار براعظموں میں ٹیلی کاسٹ کیے گئے جو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام تھا۔ ( الفضل ۱۰؍جون ۲۰۰۰ء) اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت احمدیہ کو بے شمار ترقیات سے نوازا گیا اور اس کے فضلوں کی موسلا دھار بارش برسنا شروع ہوئی اور اس کے ساتھ ہی جماعت احمدیہ خلافت کی لڑی میں پروئی گئی اور سیسہ پلائی دیوار کی طرح خلافت سے محبت و اطاعت میں آگے سے آگے بڑھتی چلی گئی۔ خلیفۃ المسیح جہاں بھی قدم رنجہ فرماتے، آپ کی ایک جھلک دیکھنے کو احمدی دیوانہ وار جمع ہوجاتے۔ اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ ۲۰۰۴ء میں برٹش ایئر ویز کی فلائٹ جب گھانا افریقہ کے ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے لگی اور جہاز رن وے پر دوڑنے لگا تو پائلٹ نے حیران ہوکر ایک عجیب منظر دیکھا کہ رن وے کے ساتھ ساتھ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہاتھوں میں سفید رومال لہراتے ہوئے اس جہاز کے اُترنے کا انتظار کررہا تھا۔ یہ عشق و محبت کا منظر پائلٹ کے لیے حیران کن اور ایک اچنبھےسے کم نہ تھا۔ اسے یہ تو معلوم تھا کہ اس کے جہاز میں ایک جماعت کے امام سفر کررہے ہیں لیکن وہ نظارہ جو وہ اپنے کاک پِٹ سے دیکھ رہا تھا وہ اس کے لیے حیرت کا باعث تھا۔ اس منظر سے وہ اتنا مرعوب ہوا کہ خود چل کر امام جماعت کی سیٹ کے پاس آیا اور عرض کیاکہ، جنا ب عالی! کیا یہ سب لوگ آپ کے لوگ ہیں جو آپ کے لیے ایئر پورٹ پر موجودہیں؟یہ تاریخی منظر صرف پائلٹ یا اس جہاز کے مسافر ہی نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ ایم ٹی اے کے ذریعے براہ راست کروڑوں احمدی بھی اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ اور یہ اُس امام جماعت احمدیہ کو ماننے والے تھے جو سوا دوسو ملکوں میں بسنے والے احمدیوں کا بادشاہ تھا۔ اور یہ جم غفیر جس کا اوپر ذکر ہوا ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضلوں اورخلافت کی برکتوں کی وجہ سے تھا جو خلافت کے عشق و محبت میں کشاں کشاں احمدیوں کومغربی افریقہ کے دورے پر تشریف لانے والے اپنے امام کے استقبال کے لیے کھینچ لایاتھا۔ یہ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پیار اور محبت و شفقت کی ہی وجہ سے تھا جو دنیا کے دُور درازکے علاقوں میں مختلف قومیتوں کے لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ ا للہ تعالیٰ کے فقید المثال استقبال کے لیے اس طرح اکٹھے ہوگئے،اہم بات یہ ہے کہ اپنے معزز مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لیے صرف احمدیوں کا جم غفیر ہی ایئرپورٹ پر موجود نہ تھا،بلکہ حکومت کے وزراء کرام، پارلیمنٹ کے قابل عزت نمائندگان اور عمائدین بھی استقبال کےلیے حکومت کی طرف سے موجود تھے۔ سب اتنے مؤدب ہوکر ایستادہ تھے کہ گویا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں بچھے جاتے تھے۔ ایسے موقع پر حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔ دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا گمنام پاکے شُہرۂ عالم بنا دیا مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ یعنی ایم ٹی اے کا قیام اس دور میں ایک انقلابی قدم تھا۔ایم ٹی اے کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو آغاز میں ٹیلی ویژن پر خطبہ جمعہ کا انتظام ہوا، پھر چھ گھنٹے روزانہ کی نشریات شروع ہوئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے گوشے گوشے میں چوبیس گھنٹے روزانہ بغیر تعطل کے ایم ٹی اے کے ذریعے دینی تعلیمات پہنچنے لگیں۔ اور یوں حضرت مسیح موعودؑ کا الہام’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ ایک مرتبہ پھر پورا ہوگیا، یہ سچائی ایک اٹل حقیقت بن گئی۔ یہ تاریخی اور انقلابی نظام جماعت احمدیہ کےلیے محض سائنسی ایجاد نہیں بلکہ خلافت احمدیہ کی صداقت کا ایک عالیشان نشان ہے۔یہ صرف عام چینل نہیں، بلکہ اپنے محبوب امام کے عشق ومحبت میں مخمور غلاموں کی بے پناہ محبتوں کا امین ہے۔۱۹۸۴ء تا حال(۲۰۲۵ء) جلسہ سالانہ ربوہ پر پابندی چلی آرہی ہے لیکن ہم اپنے رب پر قربان جائیں، جس نے آرڈیننس کی پابندیوں کے صرف آٹھ سال بعد ہی جماعت احمدیہ پاکستان کی اس محرومی کو اپنے فضلوں کے ساتھ ملاقات میں بدل دیا اور اس پاک ہستی نے اس کے متبادل جو نظام عطا فرمایا،اس میں کل عالم شریک ہونا شروع ہوگیا۔چنانچہ جلسہ سالانہ برطانیہ پہلی مرتبہ سیٹلائٹ کے ذریعے عالمی طور پر ۱۹۹۲ء میں دیکھا گیااور جلسہ پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے تمام خطبات ٹیلی کاسٹ کیے گئے۔ اسی طرح ۱۹۹۶ء سے خدا تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ کی مکمل کارروائی نشر کی جارہی ہے۔ جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں احمدی اپنے اپنے گھروں میں دیکھ اور سُن سکتے ہیں۔حضور ان کو دیکھتے ہیں اور وہ اپنے آقا کو دیکھتے اور سنتے ہیں۔ایسے نظارے ایک وقت میں براہ راست کئی کئی ملکوں کے جلسوں پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہ جماعتی ترقیات کا اعجاز ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والا خارق عادت معجزہ ہے۔ جو پابندیوں اور ابتلاؤں کے بعد ہی میسر آیا۔ حضرت مسیح موعودؑ اس فلاسفی اور حکمت کو کیا ہی خوبصورت انداز میں بیان فرماتےہیں:’’میرے ساتھ یہی سنت اللہ ہے کہ جب تک ابتلاء نہ ہو تو کوئی نشان ظاہر نہیں ہوتا خدا کا اپنے بندوں سے بڑا پیار یہی ہے کہ ان کو ابتلاء میں ڈالے، جیسا کہ وہ فرماتا ہے : بَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ… (البقرہ:۱۵۶) یعنی ایک قسم کی مصیبت اور دُکھ میں ان کا رجوع خدا تعالیٰ ہی کی طرف ہوتا ہے، خدا تعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جو استقامت اختیار کرتے ہیں۔ خوشی کے ایام اگرچہ دیکھنے کو لذیذ ہوتے ہیں مگر انجام کچھ نہیں ہوتا، رنگ رلیوں میں رہنے سے آخر خدا کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلاء میں ڈالتا ہے اور اس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے، مثلاً کسریٰ اگر آنحضرت ﷺ کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو یہ معجزہ کہ وہ اُسی رات مار اگیا کیسے ظاہر ہوتا اور اگر مکہ والے لوگ آپؐ کو نہ نکالتےتو فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنَا (فتح :۲) کی آواز کیسے سنائی دیتی؟ ہر ایک معجزہ ابتلاء سےوابستہ ہے۔غفلت اور عیاشی کی زندگی کو خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کامیابی پر کامیابی ہو تو تضرّع اور ابتہال کا رشتہ تو بالکل رہتا ہی نہیں ہے، حالانکہ خدا تعالیٰ اسی کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے ضرور ہے کہ دردناک حالتیں پیدا ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۸۳۔۸۴، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اگر دیکھا جائے تو یہ بات سچ ہے کہ ایک وہ وقت تھا جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بے سروسامانی میں چند افراد کے ساتھ ربوہ سے ہجرت کرکے لندن تشریف لائے تھے اور وہاں کی سرزمین کو خلافت کے نور سے برکت بخشی تھی۔ لیکن وہ اکیلے تو نہیں تھے، آپ کے ساتھ تو تائید ربّ الوریٰ تھی، اس تائیدو نصرت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ سے فرمایا ہوا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپؒ کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے ایک فتح نصیب جرنیل کی طرح آگے سے آگے بڑھتے ہی چلے گئے، آپؒ اپنے پُر شوکت دورِخلافت میں گلشن احمد کے ایسے باغبان تھے جن کا نام دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آج کروڑوں نفوس خلافت خامسہ کی گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں میں اطاعت، فرمانبرداری اور وفاداری کے گُن گاتے ہوئے برکتیں سمیٹ رہے ہیں۔ یہ ایسی برکتیں ہیں جن کا قیامت تک کے لیے وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے فتح و کامیابی کے اس وعدے کے ساتھ اپنے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی سرکردگی میں دعائیں کرتے اور بنی نوع انسان کی خدمت اور محبت کا دم بھرتے ہوئے ہم اپنے پیارے امام کی مدھر آواز کے ساتھ اپنی آواز ملاتے ہوئے کامیابی اور کامرانی کی منازل کی طرف رواں دواں ہیں۔ سوا سو سال پہلے کی تنہا آواز اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم کےساتھ آج ایک پُر بہار نغمہ کی صورت میں گونج رہی ہے اور دنیا کے کناروں تک پہنچ رہی ہے، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں احمدیوں کو ایک مضبوط لڑی میں پروئے ہوئے ہے۔ خلافت کی ایک یہ برکت بھی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نصائح سے پُر، دلوں پر گہرا اثر کرنے والے ولولہ انگیز، بھر پور اور پُر معاف خطابات احمدیوں کے دلوں کو گرما تے ہیں۔ احمدی اپنے دل و جان سے عزیز آقا کی ہر بات پر عمل کرنا اپنا اوّلین فرض سمجھتے ہیں۔ اے حق کی متلاشی نیک فطرت اور سعید روحو! کیا اب بھی اس سوال کا جواب حاصل کرنے،جستجو کرنےاور کھوج لگانے کا وقت نہیں آیا کہ مشکلات، مصائب، ابتلاؤں اور قدغنوں کے باوجود جماعت احمدیہ سوا دو سو ملکوں میں کیسے ترقی کرتی چلی گئی؟آج یہ سب کچھ کیسے ہورہا ہے؟یہ خلافت کی لڑی میں پروئے ہوئے کروڑوں انسان جو اپنے آقا پر جان قربان کرنے پر ہر لمحہ و ہر آن تیار ہیں۔عشق و محبت اور کیف و سرور کی داستانیں پھیلتی چلی جارہی ہیں۔ یہ سب کچھ کون کررہا ہے، کون انہیں امت واحدہ میں ڈھال کر بڑھا رہا ہے، کون انہیں پھیلا رہا ہے؟ جی ہاں یہ وہی پُر شوکت آواز ہے جس نے سوا سو سال قبل حضرت مسیح موعود ؑ سے وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نےاپنے وعدے کو سچ کردکھایا۔ مخالفین کی مخالفتوں کے باوجود، دشمنوں کی دشمنیوں کے باوجود اور حاسدین کے حسد کے باوجو د جماعت احمدیہ ترقی پر ترقی کرتی چلی گئی۔ آئیے آخر پر پیارے حضور اید ہ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ الفاظ کا مزہ لیتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’۱۹۸۴ء میں جماعت کے خلاف جو قانون پاس ہوئے، اس سے جماعت کی ترقی میں کوئی روک پیدا نہیں ہوئی۔ خلیفہ وقت کوگو پاکستان ربوہ سے،مرکز ربوہ سے نکلنا پڑا لیکن جماعت کی ترقی میں کوئی روک پیدا نہیں ہوئی۔ بلکہ باہر نکل کر ایک نئی شان سے خلافت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم نے دیکھا اور خلافت کے زیر سایہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برساتے ہوئے ایک نیا دور شروع ہوا۔ اور پھر خلافت رابعہ میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح جماعت ترقی کرگئی اور اس طرح اب بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ جماعت ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍جون ۲۰۲۵ءصفحہ ۵) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ایمان بالغیب …ہستی باری تعالیٰ تک پہنچنے کاعظیم راستہ