https://youtu.be/J3mUx0v0Vj4 ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتداء میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا۔ اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلّط عطا کرے گا نہ تلوار سے(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے انبیاء جب دُنیا میں مبعوث کیے جاتے ہیں تو اُن کے مخالفین بھی آغاز آفرینش سے ہی ان کی مخالفت میں لگے رہتے ہیں۔ یہ دشمنانِ انبیاء، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کو بہت ستاتے اور دُکھ دیتے رہے ہیں اور اپنی عداوت اوردشمنی میں اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ مرنے مرانے پربھی تیار ہو جاتے ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ کے یہ پیارے رُسل اُن کی سب عداوتوں کے باوجود ان کے لیے ہدایت کی دعائیں کرتے اور فرض منصبی کی ادائیگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔لیکن جب شریروں کی شرارتیں حد سے بڑھ جاتی ہیں تو خداتعالیٰ کےیہ فرستادہ اور ان کے ماننے والے اللہ تعالیٰ کے حضوردشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے کی دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدداور نصرت طلب کرتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے جب تکذیب وتکفیر کی حد کو پارکیا اور آپؑ کومجنون اور دھتکارا ہوا کہا تواللہ تعالیٰ نےآپؑ کی فریاد و دُعا کوان الفاظ میں قرآن کریم میں محفوظ کیا: فَدَعَا رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ (القمر:۱۱) تب اس نے(یعنی نوح نے) اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ میں یقیناً مغلوب ہوں، پس میری مدد کر۔ حضرت لوطؑ کی قوم جو کہ بے حیائی اور بد کرداری کی ایک مثال تھی۔جب آپؑ نے ہدایت کی طرف ان کوآواز دی تو انہوں نے آپؑ کے ساتھ بھی بد سلوکی کرنا شروع کردی۔اُن کے فساد سے بچنے کے لیے آپؑ نے اپنی فریاد کو اللہ تعالیٰ کے سامنے یوں رکھا: رَبِّ انۡصُرۡنِیۡ عَلَی الۡقَوۡمِ الۡمُفۡسِدِیۡنَ (العنکبوت :۳۱) یعنی اے میرے ربّ! اس فساد کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد کر۔ مزید برآں جب حضرت داوٴدعلیہ السلام جالوت کے لشکر کے مقابلہ کے لیے نکلے، تو آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائیدطلب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو پکارا: قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔(البقرۃ:۲۵۱) انہوں نے کہا،اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے شدید تکلیف ومصیبت سے رہائی پانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور اس طرح ندا کی: وَاَیُّوۡبَ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡن(الانبیاء:۸۴) اور ایوب (کا بھی ذکر کر) جب اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ مجھے سخت اذیت پہنچی ہے اور تُو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام نےجب اس دعا کو وردِ جان بنایا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دشمنوں پر فتح عطا فرمائی۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ۔(الاعراف:۹۰) اے ہمارے ربّ! ہمارے اور ہمارى قوم کے درمىان حق کے ساتھ فىصلہ کردے اور تُو فىصلہ کرنے والوں مىں سب سے بہتر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے اور اپنے اوپر ایمان لانے والے حواریین کو فرعون کے ظلم وستم سےنجات دلانے کے لیے اس دعا کا سہارالیا: فَقَالُوۡا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡنَا۔ رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَۃً لِّلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ۔(یونس : ۸۶) تو انہوں نے کہا اللہ پر ہی ہم توکل رکھتے ہیں۔ اے ہمارے ربّ! ہمیں ظالم لوگوں کے لیے ابتلا نہ بنا۔ ہمارے نبی کریم ﷺ پر بھی بڑے کٹھن اور مشکل اوقات آئےاور آپؐ ان اوقات میں اللہ تعالیٰ سے مدد اور نصرت طلب کرنے کے لیے مختلف دعائیں خود بھی کیا کرتے ہیں اور اپنے اصحاب کوبھی ان دعاؤں کے کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مشکلات، مصیبت کی تکلیف، بُری تقدیر اور دشمنوں کے مزاح سے پناہ مانگتا کرتے تھے۔ (بخاری، كتاب الدعوات، باب التَّعَوُّذِ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ) مختلف روایات سے ثابت ہے کہ آپؐ کثرت کے ساتھ اس دُعا کا وِرد بھی کیا کرتے تھےیَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔ (جامع ترمذی،أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ)یعنی اے حی و قیوم ! مَیں تیری رحمت کا خواہش مندہوں۔ ہمارے نبی پاک ﷺ نے دشمنوں کے شر سے تنگ آکر جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اس دعا کے وِرد کے ساتھ اپنا سفر مکمل کیا۔ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّي مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا۔ (بنی اسرائیل:۸۱) یعنی اے میرے ربّ! مجھے اس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اور مجھے اس طرح نکال کہ میرا نکلنا سچائی کے ساتھ ہو اور اپنی جناب سے میرے لیے طاقتور مددگار عطا کر۔اس دُعا کو اللہ تبارک تعالیٰ نے بڑی شان و عظمت کے ساتھ آپ ﷺ کی زندگی میں ہی پوراکر دیا۔ حضرت نبی کریم ﷺ کی پیشنگوئی کے مطابق جب اس زمانے کےامام ومہدی علیہ السلام تشریف لائے تو آپؑ نے بھی اپنے معاندین ومخالفین کا مقابلہ اپنی شب وروز دعاؤں سے کیا۔مختلف اوقات میں مختلف دعائیں آپؑ نے کیں اور اپنے ماننے والوں کو بھی ان کوبار بار پڑھنے کا ارشاد فرماتے رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ ایک دعا کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وہ زمانہ تھا جبکہ میرے ساتھ دنیا میں ایک بھی نہیں تھا جبکہ خدا نے مجھے یہ دعا سکھلائی کہ ربِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِيْنَ۔(الانبياء:۹۰) یعنی اے خدا مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔‘‘ (تحفة الندوہ، روحانی خزائن جلد۱۹، صفحہ۹۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ یوں فرماتے ہیں: ’’آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہیے۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ۔(الاعراف:۲۴)‘‘ (ملفو ظات جلد۳ صفحہ۴۴۰، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) بایں ہمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ ذیل الہامی دعا کو خود بھی پڑھا کرتے تھےا وردوسروں کو بھی پڑھنے کاارشاد فرمایا کرتے تھے:رَبِّ إِنِّيْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ فَسَحِّقْهُمْ تَسْحِيْقًا۔ یعنی اے میرے خدا،میں مغلوب ہوں،میرا نتقام دشمنوں سے لے۔پس ان کو پیس ڈال۔( حقیقة الوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲،صفحہ ۱۰۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفائےکرام، انبیاء و رُسل، نبی کریمؐ اورآپؑ کے خادمِ صادق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دشمنوں و معاندین کے شر سے محفوظ رہنے کے لیےمختلف اوقات میں مختلف دعاؤں کا وِردخود بھی کیا کرتے تھے اور اپنےماننے والوں کوبھی اس کے پڑھنے کی تاکید کیا کرتے ہیں۔ ان بہت سی دعاؤں میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان فرمودہ دعائیں ’’حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی خدمت میں عرض کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرت ثانیہ کے ظہور کے لیے ہر ملک میں اکٹھے ہو کر اجتماعی دعا کرنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اوّل نے مولوی محمد علی صاحب کو حکم دیا کہ وہ اخبارات میں اجتماعی دعا کی تحریک شائع کریں۔ چنانچہ انہوں نے اس کی تعمیل میں اعلان کر دیا۔ قادیان میں حضرت میر صاحب ایک عرصہ تک مسجد مبارک میں یہ اجتماعی دعا کراتے رہے۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد سوم،صفحہ ۱۱۲) ’’۵ جون ۱۹۱۳ء کو حضرت خلیفہ اول کی طبیعت بہت علیل تھی۔آپ نے سمجھا کہ اب میں دنیا میں نہیں رہوں گا۔سو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور…یہ دعا فرمائی۔ ‘‘الٰہی اسلام پر بڑا تبر چل رہا ہے۔ مسلمان اول توسست ہیں۔ پھر دین سے بے خبر ہیں، اسلام و قرآن اور نبی کریم ﷺ سے بے خبر ہیں۔ تو ان میں ایسا آدمی پیدا کر جس میں قوت جاذبہ ہو، وہ کاہل وسست نہ ہو۔ ہمت بلند رکھتا ہو،باوجود ان باتوں کے وہ کمال استقلال رکھتا ہو۔ دعاؤں کا مانگنے والا ہو۔ تیری تمام رضاؤں یا اکثر کو پورا کیا ہو۔ قرآن و حدیث سے باخبر ہو، پھر اس کو ایک جماعت بخش اور وہ جماعت ایسی ہو جو نفاق سے پاک ہو۔ تباغض ان میں نہ ہو، اس جماعت کے لوگوں میں بھی جذب ہمت اور استقلال ہو۔ قرآن و حدیث سے واقف ہوں۔ اور ان پر عامل ہوں اور دعاؤں کے مانگنے والے ہوں۔ ابتلا تو ضرور آویں گے۔ ابتلاؤں میں ان کو ثابت قدمی عنایت فرما اور ان کو ایسے ابتلاء نہ آویں۔ جو ان کی طاقت سے باہر ہوں۔ آمین‘‘(تاریخ احمدیت جلد سوئم،صفحہ ۴۴۴) ایک دفعہ آپؓ کو نبی کریم ﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی اور ایک دعا پڑھنے کا ارشاد فرمایا: جیسا کہ آپؓ نے فرمایا: ’’مجھ کو حضور نبی کریم ﷺنے ایک مرتبہ خواب میں فرمایا کہرَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ بہت پڑھا کرو ۔ ‘‘( تاریخ احمدیت جلد سوم، صفحہ۵۹۵) حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سے جب لوگ یہ سوال کیا کرتے تھے کہ حضرت ! ہمیں کوئی وظیفہ بتائیں۔ جسے ہم ترقی درجات کے لیے بجالاتے رہیں۔ تو آپؓ ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ استغفار، لاحول، درود شریف اور الحمد کثرت کے ساتھ پڑھا کرو۔ ان وظائف کا ذکر آپ کی تحریرات مندرجہ اخبارات بدر اور الحکم میں کثرت کے ساتھ آتا ہے۔(حیات نور باب ششم، صفحہ ۴۴۷) مزید برآں بیعت کنندگان کو یہ نصیحت فرمائی کہ’’غفلت کی صحبت سے بچتے رہو اور اگر کوئی مجبوری پیش آوے تو استغفار بہت کرتے رہو۔‘‘(حیات نور باب ششم،صفحہ ۴۵۵) ایک اور مقام پرحضرت خلیفةالمسیح الاوّلؓ دعاؤں کی نصیحت کرتے ہوئےفرماتے ہیں: ’’ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱)یہ ایک ہتھیار ہے اور وہ بڑا کارگر ہے۔ لیکن کبھی اس کے چلانے والا آدمی کمزور ہوتا ہے۔اس لیے اس ہتھیارسے منکر ہو جاتا ہے۔ وہ ہتھیار دُعا کا ہے، جس کو تمام دنیا نے چھوڑ دیا ہے۔مسلمانوں میں ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس کو تیز کریں اور اس سے کام لیں۔جہاں تک ان سے ہوسکتا ہے دعائیں مانگیں او رنہ تھکیں۔ میں ایسا بیمار ہوں کہ وہم بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ میری زندگی کتنی ہے اس لیے میری یہ آخری وصیت ہے کہ لا الٰہ الا اللّٰہ کے ساتھ دعا کا ہتھیار تیز کرو۔ تمہاری جماعت میں تفرقہ نہ ہو۔کیونکہ جب کسی جماعت میں تفرقہ ہوتا ہے۔ تو اس پر عذاب آجاتا ہے جبکہ قرآن شریف میں فرمایا :فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهٖ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔(المائدة :۱۵)اب تک تو تم اس دکھ سے بچے ہوئے ہو۔خدا تعالیٰ کے فضل اور نعمت کے بغیر دعا بھی مفید نہیں ہوتی۔ اس لیے میں نصیحت کرتا ہوں کہ بہت دعائیں کرو، پھر کہتا ہوں کہ بہت دعائیں کرو،تا کہ جماعت تفرقہ سے محفوظ رہے۔ وہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے تم پر نازل فرمائی ہے،وہ دعا ہی سے آنی ہے۔میرے لیے بھی دُعا کرو۔‘‘ ( خطابات نور،صفحہ۴۰۳ تا ۴۰۴) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان فرمودہ دعائیں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے ۱۲؍مئی ۱۹۴۴ء کوخطبہ جمعہ میں تسبیح و تحمیداور درود پڑھنے میں دوام اختیارکرنے کی تلقین کی اور فرمایا: ’’رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں:كَلِمَتَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمٰنِ خَفِيْفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيْلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِيْمِ۔دو کلمے ایسے ہیں کہ رحمٰن کو بہت پیارے ہیں۔ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ زبان پر بڑے ہلکے ہیں۔عالم، جاہل، عورت، مرد، بوھا، بہ ہر شخص ان کلمات کو آسانی سے ادا کر سکتا ہے۔… پس میں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ ہر احمدی کم سے کم بارہ دفعہ دن میں یہ تسبیح روزانہ پڑھ لیا کرے۔… بہر حال ہر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ روزانہ بارہ د دفعہ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِيْمِپڑھ لیا کرے گا۔… پس میں دوسری تحریک یہ کرتا ہوں کہ ہر شخص کم از کم بارہ دفعہ روزانہ درود پڑھنا اپنے اوپر فرض قرار دے لے‘‘۔ (الفضل ۲۳؍مئی ۱۹۴۴ء صفحہ۴۔۵)(خطبات محمود جلد ۲۵، صفحہ ۳۴۴،۳۴۳)حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے۱۶؍نومبر ۱۹۵۶ء کے خطبہ جمعہ میں دو الہامی فقرے پڑھنے کی تلقین فرمائی :’’ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں۔‘‘پھر فرمایا:’’اگریہ فقرے ہماری جماعت کے دوست پڑھیں گے، تو ان کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی۔‘‘ (الفضل ۲۳؍نومبر ۱۹۵۶،صفحہ۳)(خطبات محمود جلد۳۷ صفحہ۵۲۹، ۵۳۲،۵۳۱) حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیان فرمودہ دعائیں حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ ۱۵؍مارچ ۱۹۶۸ء میں جماعت کو درود،تسبیح و تحمید اورمندرجہ ذیل دعائیں پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:’’آج میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ سارے کے سارے آئندہ پورے ایک سال تک جو یکم محرم سے شروع ہوگا کم از کم مندرجہ ذیل طریق پر خدا تعالیٰ کی تسبیح، تحمید اور نبیٔ اکرم ﷺ پر درود بھیجیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالی نے الہاماً ایک ایسی تسبیح اور تحمید اور درود کی راہ بھی دکھائی کہ جو ذکر بھی ہے درود بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہا ماً یہ دعا سکھلائی:۔ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِيمِ۔ اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلىٰ مُحَمَّدٍ وَّال مُحَمَّدٍ۔ اس میں تسبیح، تحمید اور درود ہر سہ آ جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تمام جماعت کثرت کے ساتھ تسبیح، تحمید اور درود پڑھنے والی بن جائے۔ اس طرح پر کہ ہمارے بڑے مرد ہوں یا عورتیں کم از کم دو سَو بار یہ تسبیح، تحمید اور درود پڑھیں۔… اور ہمارے نوجوان بچے پندرہ سال سے ۲۵ سال کی عمر کے ایک سو بار یہ تسبیح اور درود پڑھیں اور ہمارے بچے سات سال سے پندرہ سال تک ۳۳ دفعہ یہ تسبیح اور درود پڑھیں اور ہمارے بچے اور بچیاں ( پہلے بھی بچے اور بچیاں ہیں ) جن کی عمر سات سال سے کم ہےجو ابھی پڑھنا بھی نہیں جانتے ان کے والدین یا ان کے سر پرست اگر والدین نہ ہوں، ایسا انتظام کریں کہ ہر وہ بچہ یا بچی جو کچھ بولنے لگ گئی ہے، لفظ اُٹھانے لگ گئی ہے۔ سات سال کی عمر تک ان سے تین دفعہ کم از کم یہ تسبیح اور درود کہلوایا جائے۔ اس طرح پر بڑے (۲۵ سال سے زائد عمر ) دوسو دفعہ، جوان کم از کم ایک سو بار اور بچے تینتیس (۳۳) بار اور بالکل چھوٹے بچے تین بار تسبیح اور تحمید کریں۔ …انسان اس وقت بڑے نازک دور میں سے گذر رہا ہے۔ …ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگنی چاہیے کہ اے خدا! ہمیں توفیق عطا کرکہ ہماری زبان سے تیری حمد اس کثرت سے نکلے اور تیرے محبوب محمد ﷺ پر ہماری زبان سے درود اس کثرت سے نکلےکہ شیطان کی ہر آواز ان کی لہروں کے نیچے دب جائے اور تیرا ہی نام دنیا میں بلند ہو اور ساری دنیا تجھے پہچاننے لگے۔‘‘ ( خطبہ جمعہ۱۵ مارچ ۱۹۶۸ء خطبات ناصر جلد دوم، صفحہ۷۴ ،۷۵) اسی طرح خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍جون ۱۹۶۸ء میں حضرت خلیفةالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے استغفار کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ضروری ہے کہ جماعت کے تمام مرد اور تمام خواتین جن کی عمر ۲۵ سال سے اُوپر ہے وہ دن میں کم سے کم سو بار جن کی عمر ۲۵ سال اور ۱۵ سال کے درمیان ہے۔ وہ دن میں ۳۳ بار جن کی عمر ۱۵ سے ۷ سال کے درمیان ہے وہ دن میں گیارہ بار اور چھوٹے بچے جن کی عمر سات سال سے کم ہے وہ روزانہ کم از کم تین بار استغفار کیا کریں۔…استغفار کی ایک یہ دُعا بھی ہے: اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ۔ احباب کوایسی آیتوں اور اس دُعاکا ورد کرکےزیادہ سے زیادہ استغفار کرناچاہیے۔‘‘ (خطبہ جمعہ۲۸ جون ۱۹۶۸ء، خطبات ناصر جلد ۲ صفحہ ۱۹۴) دریں اثنا آپؒ نے اس دعا کو بھی کثرت سے پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔جیسا کہ فرمایا:’’یہ دعا کثرت سے پڑھیں۔ رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا ۔‘‘(خطبہ جمعہ ۱۴ فروری ۱۹۶۹ء،خطبات ناصر جلد دوم، صفحہ۵۰۰ ) دعاؤں کی اس تحریک پرایک سال مکمل ہونے پر آپؒ نے مزید فرمایا:’’چونکہ سال ختم ہونے والا ہے دوست دعا ئیں چھوڑیں نہ ! بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں جو حالات رونما ہو رہے ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دعاؤں کو کم کرنے کی بجائے اور بھی زیادہ کریں۔ کم سے کم کی تعداد تو میں وہی رکھنا چاہتا ہوں، بڑھانا نہیں چاہتا، لیکن خدا تعالیٰ جن لوگوں کو ہمت اور توفیق دے اور جن کے دلوں میں اسلام کی محبت اور محمد ﷺ کی محبت کا شعلہ پہلے سے زیادہ شدت سے بھڑک رہا ہو، وہ پہلے سے زیادہ کثرت کے ساتھ حمد اور تسبیح اور درود کا ورد کریں۔اس کے علاوہ میں آج ایک نئی دعا بھی ان دعاؤں میں شامل کرنا چاہتا ہوں دوست اس دعا کو بھی کثرت کے ساتھ پڑھیں اور وہ یہ ہے۔رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِينَ۔‘‘(خطبہ جمعہ ۱۴؍فروری۱۹۶۹ء،خطبات ناصر جلد دوم،صفحہ۵۰۰۔۵۰۱) حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کے موقع پر۲۸؍دسمبر کو جماعت کی صد سالہ جو بلی کے لیے ایک عظیم منصوبے کا اعلان فرمایا۔ ان میں سےدعائیہ پروگرام کا منصوبہ بھی تھا،جس کی تفصیل یوں ہے۔ جماعت احمد یہ کے قیام پر ایک صدی مکمل ہونے تک ہر ماہ احباب جماعت ایک نفلی روزہ رکھا کریں۔ جس کے لیے ہر قصبہ شہر یا محلہ میں مہینہ کے آخری ہفتہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کر لیا جائے۔دو نفل روزانہ ادا کیے جائیں، جو نماز عشاء سے لے کر نماز فجر تک یا نماز ظہر کے بعد ادا کیے جائیں۔کم ازکم سات بار روزانہ سورۃ فاتحہ کی دعا پڑھی جائے اور اس پر غور وتد بر کیا جائے۔دروُد شریف، استغفار اور تسبیح و تحمید کا وِرد، روزانہ ۳۳،۳۳ بار کیا جائے۔مندرجہ ذیل دعائیں کم از کم گیارہ بار پڑھی جائیں۔ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ۔اللّٰهُمَّ إِنَّا نجْع۔لُكَ في نُحُورِهِمْ، ونَعُوذُ بِكَ مِنْ شرُورِهمْ۔‘‘(ماخوذازخلافت احمدیہ کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات، صفحہ۳۷۱۔۳۷۲) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیان فرمودہ دعائیں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۶ا؍پریل ۱۹۸۴ء کو مندرجہ ذیل دعا ئیں بکثرت پڑھنے کا ارشاد فرمایا: سبحان اللّٰه وبحمده سبحان اللّٰه العظيم اللّٰهم صل على محمد وال محمد۔اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ۔ اللہ تعالی پاک ہے اور بڑی عظمت والا ہے۔ اے اللہ محمدؐ پر اور آل محمد پر بڑی رحمتیں اور برکات نازل فرما۔ یَاحَفِیْظُ یَاعَزِیْزُ یَا رَفِیْق۔ اے بہت حفاظت کرنے والے اے غالب اے رفیق۔یَا حَیْ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ نَسْتَغِیْثُ۔ اے ہمیشہ زندہ رہنے والے ! اے ہمیشہ قائم رہنے والے خدا ! ہم تیری رحمت سے مدد چاہتے ہیں۔ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا ۔اے میرے ربّ! ہر شئے تیری خادم ہے۔اے میرے رب! تو ہماری حفاظت فرما اور ہماری مدد فرما اور ہم پر رحم فرما۔رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَاِسۡرَافَنَا فِیۡۤ اَمۡرِنَا وَثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے معاملہ میں ہماری زیادتیاں بھی۔ اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں حق کے منکروں پر غلبہ عطا فرما۔اللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ، وَنعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهمْ۔اے اللہ ! ہم دشمنوں کے مقابلہ میں تجھے اپنی ڈھال بناتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پنا مانگتے ہیں۔اللّٰهُمَّ اهْدِقوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَْ۔اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔ ۱۴؍فروری ۱۹۸۶ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے مندرجہ ذیل دعا کے مفہوم کو سمجھنے اور پڑھنے کی تلقین فرمائی :رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔حضورؒ نے ۲۷؍مارچ ۱۹۸۷ ء کو جماعت کے تمام افراد کو یہ دعا یاد کرنے اور اس کا ورد کرنے کی تحریک فرمائی:اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِيْ يُبَلِّغُنِيْ حُبَّكَ اللّٰهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِيْ وَمَالِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ۔(ضمیمہ ماہنامہ خالد اپریل ۱۹۸۷ء،ماخوذازخلافت احمدیہ کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات،صفحہ :۴۸۸۔۴۸۹) حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیان فرمودہ دعائیں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے مندرجہ بالا قرآنی والہامی اور خلفائے کرام کی دعاؤں میں سے چند ایک دعائیں پڑھنے کی مختلف اوقات میں تاکید و تلقین فرمائی۔ان کے علاوہ بھی درج ذیل دعاؤں کا ورد کرنے کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے خطبہ جمعہ ۳۰؍مئی ۲۰۱۴ء کو نصیحت فرمائی:رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّاب۔ (اٰل عمران: ۹) یعنی اے اللہ!ہمارے دلوں کو ٹیڑھا ہونے نہ دینا بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہے اور ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تو ہی ہے بہت عطا کرنے والا ہے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد خواب دیکھی تھی جس میں آپؑ نے بڑی تاکید فرمائی تھی کہ یہ دعا بہت پڑھا کرو رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا والی۔ حضرت خلیفہ اوّل کو جب آپ نے یہ خواب سنائی تو حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا کہ میں اب اسے کبھی پڑھنا نہیں چھوڑوں گا۔ بہت زیادہ پڑھوں گا اور یہ فرمایا کہ جہاں اس میں ایمان کی مضبوطی کے لیے اللہ تعالیٰ سے التجا ہے وہاں یہ دعا نظام خلافت سے جڑے رہنے کے لیے بھی بہت بڑی دعا ہے۔ (ماخوذ از تحریرات مبارکہ صفحہ ۳۰۶-۳۰۷ شائع کردہ شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ پاکستان) اسی طرح فرمایا:پھر ایک دعا تھی جس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْن۔ (البقرۃ:۲۵۱)کہ اے ہمارے ربّ! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔پھر اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِ ھِمْ کی دعا ہے۔ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس فرماتے تھے، تو آپ یہ دعا پڑھتے تھے۔…. اے اللہ! تُو ہی ان پر ایسا وار کر جس سے ان کی زندگی کا سلسلہ منقطع ہو جائے اور ہم ان کی شرارتوں سے بچ جائیں۔ تُو ہی ہے جو ان شریروں اور فساد پیدا کرنے والوں اور ظلم کرنے والوں کی طاقت توڑنے والا ہے۔ پس ان کا خاتمہ کر اور ہمیں ان کے شر سے اپنی پناہ میں لے لے۔ پھر جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ استغفار کا بھی فرماتا ہے، کہ بہت زیادہ استغفار کرو۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّی مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ کی دعا ہے۔ پھر اسی طرح کچھ عرصہ ہوا مَیں نے ایک خواب کی بنا پر کہا تھا کہ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ (تذکرہ صفحہ ۳۶۳ ایڈیشن چہارم) کی دعا بہت زیادہ پڑھیں۔ پھر یہ دعا بھی اس میں شامل کریں جو میں نے گزشتہ خطبہ میں بتائی تھی کہ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَاوَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (آل عمران: ۱۴۸) کہ اے ہمارے رب! ہمارے قصوریعنی کوتاہیاں اور ہمارے اعمال میں ہماری زیادتیاں ہمیں معاف کر اور ہمارے قدموں کو مضبوط کر اور کافر لوگوں کے خلاف ہماری مدد کر۔ اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک الہامی دعا ہے، اسے پڑھنے کی بہت ضرورت ہے۔ دشمن اب اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے، ہمیں بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ میں اپنی جماعت کے لیے اور پھر قادیان کے لیے دعا کر رہا تھا، تو یہ الہام ہوا کہ ’’زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں۔ پھر فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔ یعنی پس پیس ڈال ان کو، خوب پیس ڈالنا۔ ‘‘ فرمایا کہ میرے دل میں آیا کہ اس پیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے۔ اتنے میں میری نظر اس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بیت الدعا پر لکھی ہوئی ہے اور وہ دعا یہ ہے۔ یَارَبِّ فَاسْمَعْ دُعَآئِیْ وَمَزِّقْ اَعْدَآئَکَ وَ اَعْدَآئِیْ وَاَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْ عَبْدَکَ وَاَرِنَا اَیَّامَکَ وَشَھِّرْلَنَا حُسَامَکَ وَلَاتَذَرْ مِنَ الْکَافِرِیْنَ شَرِیْرًا۔ کہ اے میرے رب! تو میری دعا سن اور اپنے دشمن اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اپنا وعدہ پورا فرما اور اپنے بندے کی مدد فرمااور ہمیں اپنے دن دکھا اور ہمارے لیے اپنی تلوار سونت لے اور انکار کرنے والوں میں سے کسی شریر کو باقی نہ رکھ۔ (ماخوذ از تذکرہ صفحہ ۴۲۶ ایڈیشن چہارم)۔(ماخوذ از الفضل انٹر نیشنل۲۰جون ۲۰۱۴ءصفحہ ۶، ۷) ایک اورخطبہ جمعہ میں حضور نور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: پس دعاؤں کی طرف بہت زیادہ ضرورت ہے۔قرآنی دعائیں ہیں، مسنون دعائیں ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی سکھائی ہوئی دعائیں ہیں اور اپنی زبان میں دعائیں ہیں۔ اگر ہم نے ان حالات سے باہر نکلنا ہے،جو ہمارے لیے پیدا کیے گئے ہیں، یا پیدا کیے جا رہے ہیں، تو ان کی طرف ہمیں بہت توجہ کرنی چاہیے۔… شیطان کے چیلے ہر وقت اس تاک میں ہیں،کہ کہاں اور کب موقع ملے اور ہم احمدیوں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اپنے زُعم میں ثواب کمانے والے بنیں… اور آج احمدی ہی ہیں جو ان ابتلاؤں سے گزر رہے ہیں، جن پر یہ پابندیاں ہیں کہ عشقِ خدا اور عشقِ رسولﷺ کا بھی اظہار نہیں کر سکتے۔ کوئی ذاتی خواہشات تو نہیں، کوئی ذاتی جرم تو نہیں جن کی سزائیں مل رہی ہیں۔ یہ تو ابتلاؤں میں سے ہمیں گزارا جا رہا ہے۔ پس ان دنوں میں اور ہمیشہ اپنی زبانوں کو دعاؤں اور ذکرِ الٰہی سے تر رکھنا چاہیے۔ اپنے سجدوں میں، اپنی دعاؤں میں اضطرار کی حالت پیدا کرنی چاہیے۔ اس وقت مَیں بعض قرآنی اور مسنون دعاؤں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی دعاؤں کو بھی دہراؤں گا۔ ان دعاؤں پر صرف یہاں آمین کہہ دینا کافی نہیں ہے۔بلکہ ان پر ہمیں مستقل توجہ دینی چاہیے اور غور کرکے اضطرار کے ساتھ پڑھنا بھی چاہیے۔ اس کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔ سب سے پہلے تو سورہ فاتحہ ہے۔صرف نماز میں ہی نہیں ویسے بھی اسےدہراتے رہنا چاہیے۔ جوبلی کی دعاؤں میں، ہم نے یہ مقرر کی تھی سورۂ فاتحہ بھی لوگ ساتھ دہراتے تھے۔… پھر قرآن کریم کی ایک دعا ہے۔رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ : ۲۰۲)اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا… ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہماری جماعت کو یہ دعا آج کل بہت مانگنی چاہئے… آج کل تو دنیا کے جو حالات ہیں، جنگوں میں بھی ایسے ہتھیاراستعمال ہوتے ہیں، جو آگ پھینکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آگ سے بھی بچائے اور دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی حسنات عطا فرمائے۔ پس اپنے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی احمدیوں کو بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ پھر اس دعا کو بھی آج کل بہت شدت سے اور بہت اضطرار سے کرنا چاہیے۔ قرآنی دعا ہے۔ رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔(البقرۃ:۲۵۱) اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔ کسی قسم کا خوف اور حالات ہمارے قدموں کو ڈگمگانہ دیں۔ اس دعا کا بھی بار بار اور اضطرار کے ساتھ ورد کرنا چاہیے کہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَ اعۡفُ عَنَّا وَ اغۡفِرۡ لَنَا وَ ارۡحَمۡنَا اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (البقرۃ:۲۸۷) اے ہمارے رب! ہمارا مؤاخذہ نہ کر، اگر ہم بھول جائیں، یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے اور اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیساکہ ہم سے پہلے لوگوں پران کے گناہوں کے نتیجے میں تُو نے ڈالا۔ اور اے ہمارے رب! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو، اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تُو ہی ہمارا والی ہے۔ پس ہمیں کافر قوم کے مقابلے پر نصرت عطا کر۔ …اب اس کے بعد مَیںآنحضرت ﷺ کی بتائی ہوئی بعض دعاؤں کا ذکرکرتا ہوں۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ :مجھے ایسی دعا سکھائیں جس کے ذریعے میں اپنی نماز میں دعا مانگوں۔ آپؐ نے فرمایا تم کہو: اَللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيْمُ۔(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء فی الصلاۃ حدیث۶۳۲۶) اے اللہ! مَیں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا اور کوئی گناہ نہیں بخش سکتا،سوائے تیرے۔پس تُو اپنی جناب سے میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔ یقیناً تُو ہی بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ آپؐ نے حضرت ابو بکر ؓکو اس کی تاکید فرمائی۔پھر مصعب بن سعدؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بدوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی بات سکھائیے، جو مَیں کہا کروں آپؐ نے فرمایا یہ کہا کرو کہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، اَللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيْرًا، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيْمِ۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے اور اللہ کے لیے بہت حمد ہے۔ پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا ربّ ہے،نہ کوئی طاقت ہے نہ کوئی قوت ہے، مگر اللہ کو جو غالب بزرگی والا اور خوب حکمت والا ہے۔ اس بدوی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! یہ تو میرے ربّ کے لیے ہیں۔ اس کی تعریف مَیں کر رہا ہوں۔ میرے لیے کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ کہا کرو کہ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَارْحَمْنِيْ وَاهْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ۔کہ اے اللہ! مجھے بخش دے۔ مجھ پر رحم فرما۔ مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء… باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء حدیث ۶۸۴۸)ایک دوسری روایت میں بیان ہے کہ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا تو نبی کریم ﷺ اسے یہ دعا سکھایا کرتے تھے۔…اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ، وَارْحَمْنِيْ، وَاهْدِنِيْ، وَعَافِنِيْ وَارْزُقْنِيْ۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء… باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء حدیث ۶۸۵۰)اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے ہدایت دے اور مجھے عافیت سے رکھ اور مجھے رزق عطا کر۔… حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو جاگتے تو فرماتے؛لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، سُبْحَانَكَ، اللّٰهُمَّ أَسْتَغْفِرُكَ لِذَنْبِيْ، وَأَسْأَلُكَ رَحْمَتَكَ، اللّٰهُمَّ زِدْنِيْ عِلْمًا، وَلَا تُزِغْ قَلْبِيْ بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنِيْ، وَهَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً، إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ۔(سنن ابی داؤد ابواب النوم باب ما یقول الرجل اذا تعار من اللیل حدیث۵۰۶۱) اےاللہ! تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اے اللہ! مَیں تجھ سے اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔ اے اللہ! مجھے علم میں بڑھا دے اور میرے دل کو ٹیڑھا نہ کرنا بعد اس کے جب تُو نے مجھے ہدایت دے دی اور اپنی جناب سے مجھے رحمت عطا فرما، یقیناً تُو ہی بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو جب کسی معاملے میں پریشانی ہوتی تو آپؐ فرماتے: يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات حدیث ۳۵۲۴) اے زندہ اور دوسروں کو زندہ رکھنے والے! اے قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والے! اپنی رحمت کے ساتھ میری مدد فرما۔…نبی کریم ﷺکی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺنماز میں دعا کیا کرتے تھے۔اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا، وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ، اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔(صحیح البخاری کتاب الاذان باب الدعاء قبل السلام حدیث ۸۳۲) اے اللہ! مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ میں آتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے اور تیری پناہ میں آتا ہوں زندگی کے فتنے سے اور موت کے فتنے سے۔ اے اللہ! مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں گناہ سے اور مالی بوجھ سے۔… پھر آنحضرت ﷺکی ایک دعا ہے، جس کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یوں ذکر فرمایا ہے۔…:اللّٰهُمَّ إنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَالْهَرَمِ وَالْمَغْرَمِِ وَالْمَأْثَمِ۔ اللّٰهُمَّ اِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ فِتْنَةِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَ شَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى، وَ شَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، وَ شَرِّ فِتْنَةِ المَسِيْحِ الدَّجَّالِ، اللّٰهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الخَطَايَا، كما یُنَقَّي الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِيْ وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بيْنَ المَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔اے اللہ! مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں سستی اور بڑھاپے سے اور چٹی اور گناہ سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے عذاب سے اور آگ کے فتنے سے اور قبر کے فتنے سے اور قبر کے عذاب سے اور امیری کے فتنے کے شر سے اور محتاجی کے فتنے کے شر سے اور مسیح دجال کے فتنے کے شر سے۔ اے اللہ! میری خطاؤں کو برف کے پانی اور ٹھنڈک سے دھو ڈال اور میرے قلب کو خطاؤں سے یوں صاف کر دے جیسے سفید کپڑا گندگی سے دھویا جاتا ہے اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان دوری پیدا کر دے جیسا کہ تُو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری پیدا کر دی۔(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الاستعاذۃ من ارذل العمر… حدیث ۶۳۷۵) …حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں…کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ!آپ نے بہت سی دعائیں کی ہیں، مگر ہم کو تو ان دعاؤں میں سے کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا مَیں تم لوگوں کو ایک ایسی دعا نہ بتا دوں، جو ان سب دعاؤں کی جامع دعا ہے۔…فرمایا کہ تم لوگ یہ دعا کیا کرو کہ:اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ المُسْتَعَانُ، وَعَلَيْكَ الْبَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ۔اے اللہ! ہم تجھ سے اس خیر کے طالب ہیں جس خیر کے طالب تیرے نبی محمد ﷺتھے اور ہم ہر اس شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں جس سے تیرے نبی محمد ﷺنے تجھ سے پناہ طلب کی تھی اور اصل مددگار تو تُو ہی ہے اور تجھ ہی سے ہم دعائیں مانگتے ہیں اور اللہ کی مدد کے بغیر نہ تو ہم نیکی کرنے کی طاقت پاتے ہیں اور نہ ہی شیطان کے حملوں سے بچنے کی قوت۔(سنن الترمذی ابواب الدعوات حدیث ۳۵۲۱)پھرمصیبت اور حالتِ کرب کی ایک دعاکا ذکر یوں ملتا ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ۔(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعا عند الکرب حدیث ۶۳۴۶)یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ عظمت والا اور بُردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ عرش عظیم کا ربّ ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمان و زمین کا اور عرشِ کریم کا ربّ ہے۔ …دنیا کے فتنے سے بچنے کے لیےایک دعا ہے۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ أَنْ نُرَدَّ اِلَی أَرْزَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَةِ الدِّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من فتنۃ الدنیا حدیث ۶۳۹۰)… یعنی اے اللہ! مَیں تیری پناہ چاہتا ہوں بخل سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ مَیں ارزل العمر کی طرف لوٹایا جاؤں اور تیری پناہ چاہتا ہوں دنیاوی آزمائشوں میں گھرنے سے اور قبر کے عذاب میں گرفتار ہونے سے۔ بڑی جامع دعا ہے۔ یہ دعا بھی فی زمانہ بہت پڑھنے کی ضرورت ہے۔دشمنوں کے بد ارادوں کے خلاف دعا۔اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔(سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب ما یقول اذا خاف قومًا حدیث ۱۵۳۷)۔اے اللہ! ہم تجھے ان کے سینوں کے مقابل پر رکھتے ہیں۔اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔ …اب ان دعاؤں کے بارے میں مَیں بیان کروں گا، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف سے ہمیں ملتی ہیں۔…ا یک جگہ آپؑ نے یہ دعا کی ہے کہ’’اے میرے محسن اور میرے خدا! مَیں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُر معصیت اور پُرغفلت ہوں، تُو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پرگناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تُو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پُرگناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اَور کوئی چارہ نہیں۔آمین (مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ ۱۰۔ایڈیشن ۲۰۱۵ء)۔… پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کی ایک دعا ہے۔آپؑ فرماتے ہیں کہ‘‘اے رب العالمین! تیرے احسانوں کا مَیں شکر نہیں کر سکتا تُو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تامَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تُو راضی ہو جائے۔ مَیں تیری وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین‘‘(ملفوظات جلد۱صفحہ ۲۳۵۔ایڈیشن ۱۹۸۴ء) اوران دعاؤں کی قبولیت کے لیے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں۔ درود کے بغیر ہماری دعائیں ہوا میں معلق ہوجاتی ہیں۔…اپنی زبان میں بھی دعائیں کریں اور وہ حقیقی بے قرار اور مضطر بن کر دعائیں کریں جن کے دل کی گہرائیوں سے یہ دعائیں نکل رہی ہوں۔ہمیں اور ہماری نسلوں کےجنگوں کی آگ سے محفوظ رہنے اور اس کے بعد کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے بہت دعا کریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔ اور اب لگتا ہے کہ یہ جنگ سامنے کھڑی کیا اب تو شروع ہو چکی ہے۔ بلکہ عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔… ایسے میں احمدیوں کو اپنے آپ کو خدا کے قریب کرنے اور دعاؤں میں اضطرار پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے،تاکہ ان کے شر سے بچ سکیں۔ان کے نیک فطرت لوگوں کے بھی شر سے بچنے کے لیے، جو ان کے نیک فطرت لوگ ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں، کہ وہ بھی شر سے بچ جائیں… یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انسانیت کو بچا لے اور ہمیں دعاؤں میں بھی اپنا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین(خطبہ جمعہ فرمودہ۵؍اپریل ۲۰۲۴ء) اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس دُعا کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ احمدیوں کو ان کے شر سے بھی محفوظ رکھے اور ان کی پکڑ کے بھی سامان کرے۔ اب تو اِن کے لیے کوئی ہدایت کی دعا نہیں ہو سکتی۔ اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَسَحِّقْہُمْ تَسْحِیْقًا والی دعا ہی ہے،جو ان کے لیے ہمارے منہ سے نکلتی ہے، دل سے نکلتی ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۳؍مارچ ۲۰۲۳ء) حضور انور نے ۱۳؍اکتوبر۲۰۰۶ء کے خطبہ جمعہ میں درج ذیل دعاؤں کاوِرد کثرت سے کرنے کی طرف احباب جماعت کو نصیحت کی اور فرمایا: اب میں بعض قرآنی دعائیں جن میں مخالفین کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی گئی ہے پیش کرتا ہوں۔ یہ دعائیں ہو سکتا ہے بعضوں کو یاد بھی ہوں، لیکن بعض کو یادنہیں ہوں گی۔ لیکن جب مَیں یہ دعائیں پڑھوں تو آپ لوگ میرے ساتھ پڑھتے جائیں یا آمین کہتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مخالفین کے شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور رحم فرمائے اور ہمیشہ اپنے پیار کی نظر ہم پر ڈالے، ثبات قدم عطا فرمائے۔ بعض جگہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں، جو احمدیوں کے لیے برداشت سے باہر ہوتے ہیں، تو کبھی کسی احمدی کے لیے کوئی ایسا موقع نہ آئے کہ جہاں وہ ٹھوکر کھانے والا ہو۔ ہمیشہ ہم میں سے ہر ایک ان برکتوں کا وارث بنتا رہے،جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لیے مقدر کی ہیں۔ ایک دعا ہے رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا کَذَّبُوْنِ (المؤمنون:۲۷) اے میرے رب میری مدد کر کیونکہ انہوں نے مجھے جھٹلا دیا۔ پھر رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (التحریم:۱۲) اے میرے ربّ میرے لیے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا لے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔ یہ وہ دعا ہے جو فرعون کی بیوی نے کی تھی۔ احمدیوں کے لیے تو بعض ملکوں میں بڑے شدید حالات ہیں۔ کئی فرعون کھڑے ہوئے ہوئے ہیں۔ پھر ایک دعا ہے رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُالْفَاتِحِیْنَ (الاعراف:۹۰) اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ (سورۃ القمر:۱۱) مَیں یقیناً بہت مغلوب ہوں میری مدد کر۔ فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَھُمْ فَتْحًا وَ نَجِّنِیْ وَ مَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (الشعراء:۱۱۹) پس میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما، مجھے اور میرے ساتھ ایمان والوں کو نجات عطا فرما۔فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ (المائدہ:۲۶) ہمارے درمیان اور فاسق قوم کے درمیان فرق کر دے۔ اس دعا کو بھی آجکل بہت پڑھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل دے اور مسلمان ملکوں میں جماعت کے لیے راستے کھولے تاکہ ان کو صحیح طورپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام پہنچایاجا سکے اور اس راستے میں جو روکیں ہیں، جو سختیاں ہیں جو ان مسلمان کہلانے والوں نے احمدیوں پر روا رکھی ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو دور فرمائے رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ۔ (آل عمران:۵۴) اے ہمارے رب ہم اس پر ایمان لے آئے جو تونے اتارا اور ہم نے رسول کی پیروی کی۔ پس ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور یہ بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ ہمیں استقامت عطا فرمائے اور ہم ہمیشہ اس پر قائم رہیں۔ رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَ اَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ۔(المؤمنون:۹۹۔۹۸) اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں اے میرے رب کہ وہ میرے قریب پھٹکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے لے کر اب تک ہمیشہ شیطانوں نے وسوسے ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ مسلم امت میں جن لوگوں کے پاس منبر تھا، جو لوگ بظاہر نام نہاد دین کے علمبردار سمجھے جاتے تھے ان لوگوں نے امت کو ورغلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس قسم کے وسوسے ڈال کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف نفرتوں کی دیواریں کھڑی کی ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کے وسوسوں سے جو شیطانوں کا رول ادا کر رہے ہیں ہمیشہ پناہ مانگنی چاہئے۔…حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے لیے یہ دعائیں کئے بغیر مجلس سے کم ہی اٹھتے تھے کہ اے اللہ! ہمیں اپنی خشیت یوں بانٹ جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہو جائے اور ایسی اطاعت کی توفیق عطا فرما جو ہمیں تیری جنت تک پہنچا دے۔ اور تو ہمیں ایسا یقین عطا کر جس سے تو ہم پر دنیا کے مصائب آسان کر دے۔ اور تو ہمیں ہمارے کانوں، ہماری آنکھوں اور ہماری قوتوں سے تب تک فائدہ اٹھانے کی توفیق دے جب تک تو ہمیں زندہ رکھے اور اسے ہمارا وارث بنا۔ اور ہمارے اوپر ظلم کرنے والے سے ہمارا انتقام لینے والا تو ہی بن۔ اور ہم سے دشمنی رکھنے والے کے مقابل پر ہماری مدد فرما۔ ہمارے مصائب ہمارے دین کی وجہ سے نہ ہوں۔ اور دنیا کمانا ہی ہماری سب سے بڑی فکر اور ہمارے علم کا مقصود نہ ہو۔ اور تُو ہم پر ایسے شخص کو مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات باب فی عقد التسبیح بالید)پھر حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ یہ دعا کیاکرتے تھے کہ اے اللہ میری مدد کر اور میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا اور میری نصرت کر اور میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا اور میرے حق میں تدبیر کر مگر میرے خلاف تدبیر نہ کرنا اور مجھے ہدایت دے اور ہدایت کو میرے لیے آسان بنا دے اور مجھ پر زیادتی کرنے والے کے خلاف میری مدد کر۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات) اب بعض دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہیں جو الہامی دعائیں ہیں۔ ان میں سے ایک دعا ہے ’’رَبِّ احْفَظْنِیْ فَاِنَّ الْقَوْمَ یَتَّخِذُوْنَنِیْ سُخْرَۃً۔اے میرے رب میری حفاظت کر کیونکہ قوم نے تو مجھے ٹھٹھے کی جگہ ٹھہرا لیا۔‘‘(بدر جلد ۲نمبر ۴۸ مؤرخہ ۲۹؍ نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ۳۔ الحکم جلد نمبر۴۰مورخہ۲۴؍نومبر۱۹۰۶ء صفحہ۱۔ تذکرہ صفحہ۵۷۸ ایڈیشن چہارم) پھر ستمبر ۱۹۰۶ء کاالہام ہے’’رَبِّ لَا تُبْقِ لِیْ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا۔ اے میرے رب میرے لیے رسوا کرنے والی چیزوں میں سے کوئی باقی نہ رکھ۔‘‘(الحکم جلد۱۰نمبر۳۱ مورخہ۱۰؍ستمبر۱۹۰۶ء۔ الحکم جلد۱۰نمبر۳۲ مؤرخہ ۱۷؍ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۔ تذکرہ صفحہ۵۶۸ایڈیشن چہارم)’’رَبِّ اجْعَلْنِیْ غَالِبًا عَلٰی غَیْرِیْ۔ اے میرے رب مجھے میرے غیر پر غالب کر۔‘‘(بدر جلد ۶نمبر ۳۲مؤرخہ ۸؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴، الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۸ مؤرخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۲)’’رَبَّنَا لَاتَجْعَلْنَا طُعْمَۃً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔ اے ہمارے رب ہمیں ظالم قوم کی خوراک نہ بنا۔‘‘ (البشریٰ مرتبہ حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ صفحہ ۵۳۔ تذکرہ صفحہ۶۸۴۔ ایڈیشن چہارم)’’رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی، رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِنَ السَّمَآءِ، رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ، رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّد، رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ۔‘‘(تحفۃ بغداد، روحانی خزائن جلد ۷صفحہ ۲۵)اے میرے رب مجھے دکھلا کہ تو کیونکر مردوں کو زندہ کرتا ہے، اے میرے رب مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر، اے میرے رب مجھے اکیلا مت چھوڑاور تو خیرالوارثین ہے، اے میرے رب امت محمدیہ کی اصلاح کر۔ اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ ‘‘’’یَا رَبِّ یَارَبِّ انْصُرْ عَبْدَکَ وَاخْذُلْ اَعْدَائَکَ۔ اِسْتَجِبْنِیْ یَا رَبِّ اسْتَجِبْنِیْ۔ اِلَامَ یُسْتَھْزَأُبِکَ وَ بِرَسُوْلِکَ۔ وَ حَتَّامَ یُکَذِّبُوْنَ کِتَابَکَ وَیَسُبُّوْنَ نَبِیَّکَ۔ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا مُعِیْنُ۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۵۶۹)اے میرے رب اپنے بندہ کی نصرت فرما اور اپنے دشمن کو ذلیل ورسوا کر۔ اے میرے رب میری دعا سن اور اسے قبول فرما۔ کب تک تجھ سے اور تیرے رسول سے تمسخر کیا جائے گا اور کس وقت تک یہ لوگ تیری کتاب کو جھٹلاتے اور تیرے نبی کے حق میں بدکلامی کرتے رہیں گے۔ اے ازلی ابدی، اے مدد گار خدا میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مغرب میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کے بارے میں یا قرآن کریم کے بارے میں یا اسلام کے بارے میں مستقل کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں۔ تو اس کے لیے ان دنوں میں خاص طور پر بہت دعا کریں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور ان کے شر سے بچائے۔پھر الہام ہے ’’یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔ اِنَ رَبِّیْ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ۔ اے حیّ اے قیوم میں تیری رحمت سے مدد چاہتاہوں۔ یقیناً میرا رب آسمان اور زمین کا رب ہے۔‘‘(الحکم جلد ۳نمبر ۲۲ مورخہ ۲۳؍جون ۱۸۹۹ء صفحہ۸۔ تذکرہ صفحہ۲۹۷ایڈیشن چہارم)امت مسلمہ کے لیے دعا کریں کہ’’رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔‘‘(براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلدنمبر۱صفحہ۲۶۶۔ تذکرہ صفحہ ۳۷ ایڈیشن چہارم)اے میرے رب العزت امت محمدیہ کی اصلاح فرما۔پھر ایک ہے ’’اے ازلی ابدی خدا مجھے زندگی کا شربت پلا۔‘‘(بدرجلدنمبر۱۴مورخہ ۴؍اپریل۱۹۰۷ء۔ الحکم جلد ۱۱نمبر۱۲مورخہ۱۰؍اپریل۱۹۰۷صفحہ۱۔ تذکرہ صفحہ ۶۰۰۔ ایڈیشن چہارم)پھر مئی ۱۹۰۶ء کا الہام ہے ’’رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَّ کَاذِبٍ۔ یعنی اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کرکے دکھلا۔‘‘(الحکم جلد ۱۰نمبر ۲۰مؤرخہ ۱۰؍ جون ۱۹۰۶ء۔ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۴۱۱ حاشیہ۔ تذکرہ صفحہ۵۳۲ایڈیشن چہارم)(خطبہ جمعہ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۰۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍نومبر ۲۰۰۶ء،صفحہ ۷۔۸) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دعاؤں کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتدا میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے ذریعہ زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلّط عطا کرے گا نہ تلوار سے۔…ان کی ترقی کی وہی سچی راہ ہے کہ اپنے آپ کو قرآن کی تعلیم کے مطابق بناویں اور دعا میں لگ جاویں۔ ان کو اب اگر مدد آوے گی تو آسمانی تلوار سے اور آسمانی حربہ سے، نہ اپنی کوششوں سے اور دعا ہی سے ان کی فتح ہے نہ قوت بازو سے۔ یہ اس لیے ہے کہ جس طرح ابتدا تھی انتہا بھی اسی طرح ہو۔ آدم اوّل کو شیطان پر فتح دعا ہی سے ہوئی تھی… اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرتا ہے، اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ سے فتح ہو گی۔‘‘(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۳۴۲، ۳۴۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: بیعت عقبہ