https://youtu.be/zP9kTxpicAY یہ لوگ تھے جنہوں نے عبادات اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے نظامِ خلافت کو دائمی رکھنے کے لئے آخر دم تک کوشش کی اور اس میں نہ صرف سرخرو ہوئے بلکہ اس کے اعلیٰ ترین معیار بھی قائم کئے۔ یہ لوگ اپنے اپنے دائرے میں خلافت کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ یہ سلطانِ نصیر تھے خلافت کے لئے جن کے لئے خلیفہ وقت دعا کرتا رہتا ہے کہ مجھے عطا ہوں۔(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) جماعت احمدیہ کی تاریخ، اسلام احمدیت کی سر بلندی کے لیے انسانی شہادتوں کی ایمان افروز داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ اِن شہادتوں کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دَور میں حضرت سید الشہداء مولوی شہزادہ عبداللطیف صاحبؓ سے شروع ہو کر آج خلافت خامسہ کے بابرکت دَور میں بھی جاری ہے۔ اس دورانیہ کی سینکڑوں شہادتوں نے جماعتی سطح پر من حیث الجماعت اور انفرادی و خاندانی سطح پر سینکڑوں ایسے ایمان افروز واقعات رقم کیے ہیں جو رہتی دنیا تک جماعت احمدیہ کے ماتھے کا جھومر بنے رہیں گے۔ جماعتِ احمدیہ تو ان واقعات پر ہمیشہ فخر کرے گی۔ اِن خاندانوں میں آنے والی نسلیں بھی اپنے سر فخر سے بلند رکھتی چلی جائیں گی۔ انفرادی اور اِکّا دُکّا شہادتوں کا سلسلہ تو تاریخِ احمدیت میں جاری رہا لیکن کچھ عرصہ سے اجتماعی شہادتیں تو احبابِ جماعت کے حوصلے اور عزم کو مزید بلند کرنے کا موجب ہو رہی ہیں۔ اِن اجتماعی شہادتوں پر صفحات کے صفحات قلمبند کیے جاسکتے ہیں اور جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع ہو کر تاریخ احمدیت کا سنہری و روشن باب بنتے بھی رہے ہیں۔ آج الفضل انٹرنیشنل کے سالانہ نمبر ۲۰۲۵ء کے لیے مجھے دیے گئے موضوع پر اگر ہر سانحہ سے دو دو تین تین واقعات کو بھی اپنے مضمون کا حصہ بناؤں تو مَیں اپنے مضمون کو ۴۰۰۰ کے الفاظ تک محدود نہیں کر پاؤں گا۔ اِس لیے مَیں اپنے اِس مضمون کو ۲۸؍مئی ۲۰۱۰ء میں لاہور کی دو مساجد میں ۸۶؍شہداء کی قربانیوں اور اُن کے عزیزو اقارب کے صبر و تحمّل اور برداشت تک محدود رکھوں گا۔ جہاں شہادت کی خواہش رکھنے اور صحابۂ رسولؐ کی اقتدا میں اپنے ساتھی شہداء کو پہلے پانی پلانے، اِن کے بہتے خون کو اپنے کپڑے پھاڑ کر روکنے اور اُن کی جانوں کو بچانے میں اپنی جانیں جانِ آفرین کے سپرد کرنے کے ایمان افروز واقعات شامل ہیں۔ وہاں اُن کے عزیز و اقارب، اُن کے اہل و عیال کے صبر و ثبات اور برداشت و تحّمل دکھلانے کے واقعات سے مَیں اپنے مضمون کو مزیّن کرنے جارہا ہوں اور مَیں حتمی اور یقینی طور پر یہ کہنے میں برحق ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا سچ فرمایا ہے۔ مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی مَے اُن کو ساقی نے پلا دی فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی نجی و انفرادی واقعات سے محظوظ ہونے اور اپنے ایمان کو جلا بخشنے سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ان شہداء کی قربانی کی انمول داستانوں اور اِن کے عزیزو اقارب کی صبر و استقامت کے لازوال واقعات پر مجموعی طور پر ایک تبصرہ درج کرتے ہیں۔ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے اِن شہیدوں اور زخمیوں کی جرأت و بہادری، عزم و ہمت اور اُن کے پسماندگان کے صبر و استقامت کے عظیم نمونوں کا قابل رشک اور دلگداز اندا ز میں تذکرہ یوں فرمایا: ’’گزشتہ ہفتے میں ہزاروں خطوط معمول کے ہزاروں خطوط سے بڑھ کر مجھے ملے اور تمام کا مضمون ایک محور پر مرکوز تھا، جس میں لاہور کے شہداء کی عظیم شہادت پر جذبات کا اظہار کیا گیا تھا، اپنے احساسات کا اظہار لوگوں نے کیا تھا۔ غم تھا، دکھ تھا، غصہ تھا، لیکن فوراً ہی اگلے فقرہ میں وہ غصہ، صبر اور دعا میں ڈھل جاتا تھا۔ سب لوگ جو تھے وہ اپنے مسائل بھول گئے۔ یہ خطوط پاکستان سے بھی آرہے ہیں، عرب ممالک سے بھی آ رہے ہیں، ہندوستان سے بھی آ رہے ہیں، آسٹریلیا اور جزائر سے بھی آرہے ہیں۔ یورپ سے بھی آ رہے ہیں، امریکہ سے بھی آ رہے ہیں، افریقہ سے بھی آ رہے ہیں، جن میں پاکستانی نژاد احمدیوں کے جذبات ہی نہیں چھلک رہے کہ ان کے ہم قوموں پر ظلم ہوا ہے۔ باہر جو پاکستانی احمدی ہیں، اُن کے وہاں عزیزوں یا ہم قوموں پر ظلم ہوا ہے۔ بلکہ ہر ملک کا باشندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کی بیعت میں آنے کی توفیق دی، یوں تڑپ کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہا تھا یا کر رہا ہے جس طرح اس کا کوئی انتہائی قریبی خونی رشتہ میں پرویا ہوا عزیز اس ظلم کا نشانہ بنا ہے اور پھر جن کے قریبی عزیز اس مقام کو پا گئے، اس شہادت کو پا گئے، اُن کے خطوط تھے جو مجھے تسلیاں دے رہے تھے اور اپنے اس عزیز، اپنے بیٹے، اپنے باپ، اپنے بھائی، اپنے خاوند کی شہادت پر اپنے رب کے حضور صبر اور استقامت کی ایک عظیم داستان رقم کر رہے تھے۔ پھر جب مَیں نے تقریباً ہر گھر میں کیونکہ مَیں نے تو جہاں تک یہاں ہمیں معلومات دی گئی تھیں، اس کے مطابق ہر گھر میں فون کر کے تعزیت کرنے کی کوشش کی۔ اگر کوئی رہ گیا ہو تو مجھے بتا دے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا مَیں نے ہر گھر میں فون کیا تو بچوں، بیویوں، بھائیوں، ماوٴں اور باپوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی پایا۔ خطوط میں تو جذبات چھپ بھی سکتے ہیں، لیکن فون پر ان کی پُر عزم آوازوں میں یہ پیغام صاف سنائی دے رہا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے مومنین کے اس ردّ عمل کا اظہار بغیر کسی تکلّف کے کر رہے ہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ہم پورے ہوش و حواس اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ادراک کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر خوش ہیں۔ یہ ایک ایک دو دو قربانیاں کیا چیز ہیں۔ ہم تو اپنا سب کچھ اور اپنے خون کا ہر قطرہ مسیح موعودؑ کی جماعت کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس لئے تیار ہیں کہ آج ہمارے لہو، آج ہماری قربانیاں ہی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہونے کا اظہار اور اعلان دنیا پر کریں گی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو قرونِ اولیٰ کی مثالیں قائم کریں گے۔ ہم ہیں جن کے سامنے صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم نمونہ پھیلا ہوا ہے۔ یہ سب خطوط، یہ سب جذبات پڑھ اور سن کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا تو میرے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس یقین پر قائم کر دیا، مزید اس میں مضبوطی پیدا کر دی کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیارے یقیناً ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں جن کے پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ یہ صبر و استقامت کے وہ عظیم لوگ ہیں، جن کے جانے والے بھی ثباتِ قدم کے عظیم نمونے دکھاتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ (البقرة: ۱۵۵) کے مصداق بن گئے اور دنیا کو بھی بتا گئے کہ ہمیں مردہ نہ کہو۔ بلکہ ہم زندہ ہیں۔ ہم نے جہاں اپنی دائمی زندگی میں خدا تعالیٰ کی رضا کو پا لیا ہے وہاں خدا تعالیٰ کے دین کی آبیاری کا باعث بھی بن گئے ہیں۔ ہمارے خون کے ایک ایک قطرے سے ہزاروں ثمر آور درخت نشوونما پانے والے ہیں۔ ہمیں فرشتوں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ ہمیں تو اپنی جان دیتے ہوئے بھی پتہ نہیں لگا کہ ہمیں کہاں کہاں اور کتنی گولیاں لگی ہیں؟ ہمیں گرینیڈ سے دئیے گئے زخموں کا بھی پتہ نہیں لگا۔ یہ صبر و رضا کے پَیکر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بے چین، دین کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے، گھنٹوں اپنے زخموں اور ان میں سے بہتے ہوئے خون کو دیکھتے رہے لیکن زبان پر حرفِ شکایت لانے کی بجائے دعاوٴں اور درود سے اپنی اس حالت کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتے رہے۔ اگر کسی نے ہائے یا اُف کا کلمہ منہ سے نکالا تو سامنے والے زخمی نے کہا ہمت اور حوصلہ کرو، لوگ تو بغیر کسی عظیم مقصد کے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تم تو اپنے ایک عظیم مقصد کے لئے قربان ہونے جا رہے ہو اور پھر وہ اُف کہنے والا آخر دم تک صرف درود شریف پڑھتا رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ یقین کرواتا رہا کہ ہم نے جو مسیح محمدی سے عہد کیا تھا اسے پورا کر رہے ہیں۔ مَیں نے ایک ایسی دردناک ویڈیو دیکھی، جو زخمیوں نے ہی اپنے موبائل فون پر ریکارڈ کی تھی۔ اس کو دیکھ کر دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جن سے بیشک قربانیاں تو خدا تعالیٰ نے لی ہیں لیکن اس کے فرشتوں نے ان پر سکینت نازل کی ہے اور یہ لوگ گھنٹوں بغیر کراہے صبر و رضا کی تصویر بنے رہے۔ فون پر لاہور کے ایک لڑکے نے مجھے بتایا کہ میرے ۱۹سالہ بھائی کو چار پانچ گولیاں لگیں، لیکن زخمی حالت میں گھنٹوں پڑا رہا ہے، اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں اور دعائیں کرتا رہا۔ اگر پولیس بروقت آ جاتی تو بہت سی قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں۔ لیکن جب پورا نظام ہی فساد میں مبتلا ہو تو ان لوگوں سے کیا توقعات کی جا سکتی ہیں؟ ایک نوجوان نے دشمن کے ہینڈ گرینیڈ کو اپنے ہاتھ پر روک لیا اس لئے کہ واپس اس طرف لوٹا دوں لیکن اتنی دیر میں وہ گرینیڈ پھٹ گیا اور اپنی جان دے کر دوسروں کی جان بچا لی۔ ایک بزرگ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر نوجوانوں اور بچوں کو بچا لیا۔ حملہ آور کی طرف ایک دم دوڑے اور ساری گولیاں اپنے سینے پر لے لیں۔‘‘(خطبہ جمعہ ۴؍جون ۲۰۱۰ء) پھر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’یہ فرشتوں کا اُترنا اور تسکین دینا جہاں ان زخمیوں پر ہمیں نظر آتا ہے وہاں پیچھے رہنے والے بھی اللہ تعالیٰ کے اس خاص فضل کی وجہ سے تسکین پارہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر رکھا ہوا ہے۔ اس ایمان کی وجہ سے جو زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے ہم میں پیدا ہوا یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ جاوٴ اور میرے بندوں کے دلوں کی تسکین کا باعث بنو۔ ان دعائیں کرنے والوں کے لئے تسلّی اور صبر کے سامان کرو اور جیسا کہ مَیں نے کہا، ہر گھر میں مجھے یہی نظارے نظر آئے ہیں۔ ایسے ایسے عجیب نظارے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوعطا فرمائے ہوئے ہیں۔ ہر ایک اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (یوسف: ۸۷) کہ مَیں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ تعالیٰ کے حضور کرتا ہوں کی تصویر نظر آتا ہے اور یہی ایک مومن کاطرہ امتیاز ہے۔ مومنوں کو غم کی حالت میں صبر کی یہ تلقین خدا تعالیٰ نے کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ (البقرة: ۱۵۴) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔ صبر اور صلوٰة کے ساتھ اللہ سے مدد مانگو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۴؍جون ۲۰۱۰ء) قارئین! پسماندگان کا حوصلہ دیکھیں کہ اگلے جمعہ ماؤں نے اپنے بچوں کو نہلا دھلا کر صاف ستھرے اور اُجلے کپڑے پہنا کر اِن مساجد میں بھیجا کہ جاؤ بچو! اُسی جگہ نماز جمعہ ادا کرنی ہے جہاں تمہارے ابا یابھائی شہید ہوئے تھے۔ بعض ماؤں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ مَیں اپنے آپ کو شہید کی ماں کہہ سکوں گی۔ بعضوں نے دینی جذبے کے تحت اپنا تعارف شہید بیٹے، شہید خاوند، شہید بھائی کے ناطے سے کروانا شروع کردیا۔ ان شہداء میں سے ایک مکرم جسٹس (ر)منیر احمد شیخ صاحب امیر ضلع لاہور تھے۔ شہادت سے ایک روز قبل آپ کی بہن نے آپ سے کہا کہ مَیں لجنہ کے ایک اجلاس میں وصیت کی ترغیب دلاتے ہوئے کہہ آئی ہوں کہ ’’وصیت بھی جنت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ بھائی! کیا مَیں نے ٹھیک کہا ہے تو آپ نے کہا۔ بہن! ٹھیک ہے لیکن اصل جنت کی ضمانت تو شہادت سے ملتی ہے۔‘‘(شہدائے لاہور صفحہ ۳۹-۴۰) یہ بات تو تمام شہداء اور اُن کے پسماندگان میں مشترکہ دیکھنےکو ملی کہ تمام شہداء اپنی جان اللہ کے حضور پیش کرتے وقت تسبیح و تحمید اور تذکیر الٰہی میں مصروف رہے۔ درود شریف پڑھتے رہے بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی ان الفاظ میں تلقین کرتے رہے کہ یہ وقت تسبیح و تحمید کرنے اور درود شریف پڑھنے کا ہے اور جب ورثاء اپنے اپنے عزیزوں کو شناخت کرنے دارالذکر گڑھی شاہو یا مسجد نور ماڈل ٹاؤن اور بعد میں ہسپتالوں میں پہنچنا شروع ہوئے تو نہایت سکون و آرام کے ساتھ اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ورد کررہے تھے۔ کوئی نوحہ، کوئی رونا دھونا اور کوئی جزع و فزع نہیں،کوئی چیخ و پکار نہیں، کوئی ماتم نہیں اور کوئی سینہ کوبی نہیں۔ ہاں آنکھوں میں آنسو تھے اور اپنے عزیزوں کو تلاش کررہے تھے۔ اِس دوران اپنے عزیزوں کو تلاش کرتے ہوئے بعض نوجوانوں نے اپنے احمدی بھائیوں کی جان بچانے کے لیے خون کے نذرانے پیش کیے اور وہ اپنے عزیزوں کی تلاش بھول گئے۔ احمدی احباب و خواتین کے اِس اسلامی روّیہ کو دیکھ کر بہت سے غیر از جماعت دوست کہتے ہوئے سنے گئے کہ یہ کہاں کی مخلوق ہے۔ اتنے بڑے سانحے سے گزر رہے ہیں مگر خاموش ہیں۔ رونے دھونے کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مجھے دارالذکر لاہور میں قریباً آٹھ سال بطور مربی ضلع خدمات کا موقع ملا ہے۔ اسلام و احمدیت کے اِن فدائیوں اور شیدائیوں سے ایک محبت کا تعلق تھا۔ اِن میں سے شہید ہونے والوں کے گھروں میں تعزیت کے لیے جانا ہوا تو صبرو استقامت کے یہ پتلے بجائے تسلّی پانے کے مجھے اور گھر میں تعزیت پر آنے والے دیگر لوگوں کو تسلّی دیتے نظر آئے۔ اِس قدر حوصلہ اور ہمّت اللہ تعالیٰ نے ان شہداء کے پسماندگان و ورثاء کو عطا کررکھا تھا۔ زیر لب تسبیح و تحمید اور تذکیر نیز درود شریف پڑھتے نظر آئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اِس کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ایک صاحب نے مجھے لکھا، جوجاپان سے وہاں گئے ہوئے تھے اور جنازے میں شامل ہوئے کہ آخرین کی شہادتوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک کی یادوں کو تازہ کر دیا۔ ربوہ کے پہاڑ کے دامن میں ان مبارک وجودوں کو دفناتے ہوئے کئی دفعہ ایسا لگا جیسے اس زمانے میں نہیں۔ صبر و رضا کے ایسے نمونے تھے جن کو الفاظ میں ڈھالنا ناممکن ہے۔ انصاراللہ کے لان میں مَیں نے اپنی دائیں طرف ایک بزرگ سے جو جنازے کے انتظار میں بیٹھے تھے پوچھا کہ چچا جان! آپ کے کون فوت ہوئے ہیں؟ فرمایا میرا بیٹا شہید ہوگیا ہے۔ لکھنے والے کہتے ہیں کہ میرا دل دہل رہا تھا اور پُرعزم چہرہ دیکھ کر ابھی مَیں منہ سے کچھ بول نہ پایا تھا کہ انہوں نے پھر فرمایا کہ الحمدللہ! خدا کو یہی منظور تھا۔ لکھنے والے کہتے ہیں کہ میرے چاروں طرف پُر عزم چہرے تھے اور میں اپنے آپ کو سنبھال رہا تھا کہ ان کوہ وقار ہستیوں کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہ کروں کہ خود مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے۔ کہتے ہیں کہ مَیں مختلف لوگوں سے ملتا اور ہر بار ایک نئی کیفیت سے گزرتا رہا۔ خون میں نہائے ایک شہید کے پاس کھڑا تھا کہ آواز آئی میرے شہید کو دیکھ لیں۔ اس طرح کے بے شمار جذبات احساسات ہیں۔ ایک خاتون لکھتی ہیں کہ میرے چھوٹے بچے بھی جمعہ پڑھنے گئے تھے اور خدا نے انہیں اپنے فضل سے بچالیا۔ جب مسجد میں خون خرابہ ہو رہا تھا تو ہماری ہمسائیاں ٹی وی پر دیکھ کر بھاگی آئیں کہ رو دھو رہی ہو گی۔ یعنی میرے پاس آئیں کہ رو دھو رہی ہوں گی کیونکہ مسجد کے ساتھ ان کا گھر تھا۔ لیکن مَیں نے ان سے کہا کہ ہمارا معاملہ تو خدا کے ساتھ تھا۔ مجھے بچوں کی کیا فکر ہے؟ ادھر تو سارے ہی ہمارے اپنے ہیں۔ اگر میرے بچے شہید ہو گئے تو خدا کے حضور مقرب ہوں گے اور اگر بچ گئے تو غازی ہوں گے۔ یہ سن کر عورتیں حیران رہ گئیں اور الٹے پاوٴں واپس چلی گئیں کہ یہ کیسی باتیں کر رہی ہے؟ اور پھر آگے لکھتی ہیں کہ اس نازک موقع پر ربوہ والوں نے جو خدمت کی اور دکھی دلوں کے ساتھ دن رات کام کیا اس پر ہم سب آپ کے اور ان کے شکر گزار ہیں۔ ایک ماں کا اٹھارہ سال کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ایک لڑکاتھا باقی لڑکیاں ہیں۔ میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا۔ شہید ہو گیا اور انتہائی صبر اور رضا کا ماں باپ نے اظہار کیا اور یہ کہا کہ ہم بھی جماعت کی خاطر قربان ہونے کے لئے تیار ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ ۴؍جون ۲۰۱۰ء) مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب نے ایک خادم کو شہادت سے پہلے کہا کہ مجھے آج یہاں ڈیوٹی دینے دیں۔ میرا یہ دارالذکر میں آخری جمعہ ہے۔ اس کے بعد مَیں نے گاؤں چلے جانا ہے۔…گاؤں تو نہیں گئے لیکن اللہ تعالیٰ ان کو ایسی جگہ لے گیا جہاں اِن کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہے۔ (شہدائے لاہور صفحہ : ۵۳) شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ایک ہفتہ پہلے مَیں نے خواب میں دیکھا کہ سجاد زخمی حالت میں گھر آئے ہیں اور کہا کہ میرے پیٹ میں شدید تکلیف ہے۔ مَیں نے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو خون بہ رہا تھا اور شہید مرحوم کے پیٹ میں گولیاں لگی ہوئی تھیں۔ (شہدائے لاہور صفحہ: ۵۴) مکرم مسعود احمد اختر صاحب باجوہ شہید کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ دوران حادثہ ایک نوجوان بچے کو سارے عرصے میں پکڑ کر اس کی حفاظت کی خاطر اپنے پیچھے رکھا کہ اس کو نہ گولی لگ جائے۔ سب کا خیال کرتے رہے اور دعا کی تلقین کرتے رہے خود بھی درود شریف پڑھتے رہے اور اپنے پڑوسی میاں محمود صاحب کو بھی تلقین کرتے رہے۔ (شہدائے لاہور صفحہ: ۵۵) مکرم مرزا اکرم بیگ صاحب شہید، دارالذکر کے سامنے اپنے گھر میں رہتے تھے۔ بہت نیک اور نمازی وجود تھے۔ خاکسار کے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں دینی باتیں کرتے رہتے تھے۔ شہداء کا ذکر آتا تو آہ بھرتے اور کہتے کاش! ہمارے حصہ میں بھی یہ ہو۔ خاکسار کی ترغیب پر نمازوں کی طرف راغب ہوئے اور ایسے ہوئے کہ اپنی جاب سے بھی رخصت لے کر نماز دارالذکر آ کر ادا کرتے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بچے بتاتے ہیں کہ اپنے ماموں کی شہادت پر کہا کہ کاش! ان کو لگنے والی گولی مجھے لگی ہوتی۔(شہدائے لاہور صفحہ:۵۱) مکرم محمد آصف فاروق صاحب شہید کے والد، والدہ اور بھائی نے ان کی شہادت کے بعد کہا کہ شہادت ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ خدا کرے کہ یہ خون جماعت کی آبیاری کا باعث ہو۔ (شہدائے لاہورصفحہ: ۵۶) مکرم عمیر احمد ملک صاحب نے بیت النور میں جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ نے مکرم محمد اقبال صاحب مربی سلسلہ کو زخمی حالت میں فون پر کہا کہ ہم تو جا رہے ہیں لیکن احمدیت کی حفاظت کا بیڑا اب آپ کے سپرد ہے۔ ہمارے خون کی لاج رکھ لینا۔ (شہدائے لاہور صفحہ: ۶۶) مکرم سردار افتخارالغنی صاحب شہید شہادت سے قبل’’یاحفیظ یا حفیظ ‘‘ کا ورد کرتے رہے اور دعاؤں کی درخواست بھی کی۔ (شہدائے لاہور صفحہ : ۶۷) مکرم عبدالرشید ملک صاحب شہید کی اہلیہ محترمہ ان کی شہادت پر بیان کرتی ہیں کہ ان کی شہادت پر اللہ کی رضا پر راضی ہوں۔ (شہدائے لاہورصفحہ: ۷۱) مکرم مظفر احمد صاحب شہید شہادت سے قبل نہایت صبر سے درود شریف پڑھتے رہے اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتے تھے کہ درود پڑھو اور استغفار کرو۔ (شہدائے لاہور صفحہ: ۷۳) مکرم مسعود احمد بھٹی صاحب نے دارالذکر میں اپنے ساتھی کے زخموں پر اپنی بنیان کو اُتار کر باندھا۔ مکرم چودھری محمد احمد صاحب شہید بیت النور ماڈل ٹاؤن بعمر ۸۵ سال کو زخموں کی حالت میں جب پانی پیش کیا گیا تو دوسرے زخمیوں کو پانی پلانے کی طرف اشارہ کرتے رہے یوں صحابہ کے دَور کے واقعہ کی یاد تازہ کی۔ مکرم نورالامین صاحب نے بیت النور میں جام شہادت نوش کیا۔ وہ کہتے ہیں مَیں ڈیوٹی پر ہوں۔ اگر یہاں سے چاہوں تو آسانی سے نکل سکتا ہوں مگر ڈیوٹی نہیں چھوڑ سکتا اور شہید ہوگئے۔ (شہدائے لاہور صفحہ: ۹۰) مکرم سعید احمد طاہر صاحب شہید ماڈل ٹاؤن نے شہادت سے کچھ عرصہ قبل اپنی ڈائری پر لکھا کہ شہادت میری آرزو ہے۔’’اے اللہ! شہادت نصیب فرما۔ یہ گردن تیری راہ میں کٹے۔ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے تیری راہ میں ہوویں۔ ہمارے حبیب کے صدقے میرے مولیٰ میری یہ دعا قبول فرما۔” (شہدائے لاہور صفحہ: ۱۰۰) مکرم خلیل احمد سولنگی صاحب دارالذکر لاہور میں شہید ہوئے۔ دوران اٹیک ان کو بیسمنٹ جانے کا ایک محفوظ راستہ ملا تھا مگر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اپنے ایک زخمی بھائی کو سیڑھیوں سے گھسیٹتے ہوئے دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بنےاور یوں اپنے ساتھی کو بچاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ مکرم چودھری اعجاز نصراللہ خان صاحب نائب امیر لاہور محراب کے اندر جو تین صفیں بنا کرتی ہیں جمعہ کے روز ان میں بیٹھا کرتے تھے۔ یہ طریق آپ کا اُس وقت سے تھا جب مَیں دارالذکر میں بطور مربی ضلع تھا۔ محراب کے ایک طرف سیڑھیاں نیچے بیسمنٹ کو جاتی ہیں۔ دوران حملہ آپ کو کہا گیا کہ آپ یہاں سے نیچے چلے جائیں تو آپ نے فرمایا کہ مَیں نے تو شہادت کی دعا مانگی ہوئی ہے۔ (شہدائے لاہورصفحہ: ۱۱۰) مکرم مرزا منصور بیگ صاحب شہید کو قائد صاحب نے کہا کہ آج جمعہ پر آپ ڈیوٹی دیں گے آپ نے فوراً ہاں کردی اور گیارہ بجے قائد صاحب کی یاددہانی پر کہنے لگے کہ قائد صاحب! فکر نہ کریں۔ اگر ضرورت پڑی تو پہلی گولی اپنے سینے پر کھاؤں گا۔ پھر ہوا بھی یوں کہ آپ باہر ڈیوٹی پر تھے کہ دہشت گرد کی پہلی گولیوں کا نشانہ بنے۔ مکرم میاں منیر عمر صاحب شہید ماڈل ٹاؤن نے اس واقعہ سے دس سال قبل خواب دیکھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قبر کے ساتھ ایک قبر تیار ہوئی ہے جو آپ کی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا:’’وہ واقعہ میں آپ کی قبر تھی کیونکہ (آپ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نسل میں سے تھے اور شہادت بھی دونوں کی قدرِ مشترک ہے۔‘‘ (شہدائے لاہور صفحہ:۱۲۶) مکرم چودھری محمد نواز ججہ صاحب شہید کی اہلیہ نےوقوعہ سے کچھ ماہ قبل خواب دیکھا کہ آواز آئی ہے۔ ’مبارک ہو آپ کا خاوند زندہ ہے‘۔ (شہدائے لاہور صفحہ: ۱۳۰) اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شہید مردہ نہیں زندہ ہے۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ مکرم عبدالرحمٰن صاحب شہید نے دوران واقعہ اپنی والدہ کو فکر نہ کرنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی شہادت کی صورت میں ربوہ میں تدفین کا کہا۔ (شہدائے لاہور صفحہ: ۱۳۵) ان کی خالہ کو اس سانحہ کے بعد شوہر نے گھر سے نکال دیا۔ سخت مخالفت ہوئی اور جنازہ لاہور میں ہی پڑھنے پر اصرار کیا گیا مگر خالہ شہیدمرحوم کی خواہش کے مطابق جنازہ ربوہ لے جانے پر مصر ہوئیں اور فیصلہ تبدیل ہوا۔ مکرم نثار احمد صاحب شہید دارالذکر میں ایک زخمی مکرم محمد اشرف بلال صاحب کے اوپر لیٹ گئے تا مزید گولیاں ان کو نہ لگیں مگر دہشت گرد کی گولیوں کی زد میں آپ خود آگئے اور شہید ہوگئے۔ مکرم یحییٰ خان صاحب شہید دارالذکر کے دو بیٹے دارالذکر میں ڈیوٹی پر موجود تھے ان کو اپنے والد کی شہادت کی اطلاع مل چکی تھی مگر رات ۱۲ بجے تک ریسکیو کا کام کرتے رہے۔ (شہدائے لاہور صفحہ: ۱۴۱) مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب شہید کو شہادت کا بڑا شوق تھا۔ آپ نے ایک دفعہ چھوٹی عمر میں میجر عزیز بھٹی شہید کو خط لکھا کہ مجھے آپ بہت اچھے لگتے ہیں۔ مَیں بھی آپ کی طرح شہید ہونا چاہتا ہوں۔ (شہدائے لاہور صفحہ: ۱۴۴) ایک دن کہنے لگے کہ مَیں نے بہت غور کیا ہے اور مَیں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جنت میں جانے کا واحد شارٹ کٹ شہادت ہے۔ (شہدائے لاہور صفحہ: ۱۴۴) مکرم ظفر اقبال صاحب شہید کی اہلیہ محترمہ نے خاوند کی شہادت کے بعد بتایا کہ ’’میرا ایمان اس قدر پختہ ہو گیا ہے کہ خداتعالیٰ نیتوں کا حال جانتا ہے اور وہ جو بھی اپنے بندے کے لیے کرتا ہے وہ انسان کی سوچ سے بھی بہت بڑھ کر ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ نے میرے میاں کو شہید کا جومرتبہ دیا ہے وہ اصل میں اس کے حق دار تھے اور مجھے اس پر فخر ہے میری ساری اولاد بھی احمدیت کے لیے قربان ہوجائے تو مجھے رتی بھر ملال نہیں ہوگا بلکہ مَیں خدا کی بےانتہا شکر گزار ہوں گی۔‘‘(شہدائے لاہور صفحہ: ۱۵۰) مکرم منور احمد قیصر صاحب شہید ۲۸؍مئی ۲۰۱۰ء کو مین گیٹ پر متعین تھے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ ۹؍جولائی ۲۰۱۰ء میں فرمایا کہ ’’دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی کے دوران کئی دفعہ اس بات کا اظہار کیا کہ اگر کوئی حملہ کرے گا تو میری لاش سے گزر کر ہی آگے جائے گا۔‘‘ (شہدائے لاہورصفحہ ۱۶۲) مکرم محمود احمد شاد صاحب مربی سلسلہ بیت النور ماڈل ٹاؤن میں سانحہ کے وقت خطبہ جمعہ دے رہے تھے جونہی گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں تو بلند آواز سے نعرہ لگایا اور درود شریف کا مسلسل ورد کرتے رہے۔ آپ کو کچھ عرصہ سے فون پر دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان کی مسز نے بتایا کہ ایک دن مربی صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ اگر تو نے میری قربانی لینی ہے تو مَیں حاضر ہوں لیکن میری اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھنا۔ (شہدائے لاہور صفحہ۱۶۷) مکرم وسیم احمد صاحب شہید دارالذکر لاہور کے متعلق لکھا ہے کہ دوران سانحہ جب کچھ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے عقب دروازہ سے نکلنے لگے تو آپ کو بھی کہا گیا مگر آپ یہ کہتے ہوئے رکے رہے کہ پہلے دوسرے لوگ نکل جائیں اور خود راہ خدا میں شہید ہوگئے۔ (شہدائے لاہورصفحہ: ۱۷۱)۔ آپ کہا کرتے تھے کہ اگر ایسا وقت آیا تو میرا سینہ سب سے آگے ہوگا۔ (شہدائے لاہور صفحہ۱۷۲) حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ اِن تمام شہادتوں کے ایمان افروز واقعات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پس یہ شہداء جو شہادت کے مقام پر پہنچے یقیناً یہ شہادت کا رتبہ ان کے لئے عبادتوں کی قبولیت اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حق ادا کرنے کی سند لئے ہوئے ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ صرف اپنی عبادتوں اور حسنِ اخلاق پر ہی ان لوگوں نے بس نہیں کی بلکہ اپنی ذمہ داریوں کی جزئیات کو بھی نبھایا۔ ایک باپ اپنے گھر کا راعی ہے اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگرانی اس کی ذمہ داری ہے تو ان لوگوں نے اس فریضے کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دی اور یہ توجہ ہمیں ہر شہید میں مشترک نظر آتی ہے۔ اس قرآنی حکم کو انہوں نے اپنے پیشِ نظر رکھا کہ وَلَاتَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ (بنی اسرائیل: ۳۲) کہ تم مفلسی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو۔ اپنے کاروباروں میں اس قدر محو نہ ہو جاوٴ کہ یہ خیال ہی نہ رہے کہ اولاد کی تربیت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ لوگ اپنے اس عہد کو بھولے نہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے اور اس عہد کی پاسداری کی خاطر انہوں نے اپنے کاموں کی جگہوں سے فون کر کر کے گھر میں بیوی کو یاد کروایا کہ بچوں کو نماز پڑھوا دو کہ دین کو مقدم کرنے کی ابتدا تو نمازوں سے ہی ہوتی ہے۔ ایک بچی نے باپ کی تربیت کا یہ اسلوب بتایا کہ لمبے تفریحی سفر پر ہمارے ابّا ہمیں ساتھ لے جاتے تھے اور راستے میں مختلف دعائیں پڑھتے رہتے تھے اور اونچی آواز میں اور بار بار پڑھتے تھے کہ ہمیں بھی دعائیں یاد ہو جائیں اور ہمیں ان سے یاد ہو گئیں اور پھر صرف دعائیں یاد ہی نہیں کروائیں بلکہ یہ بھی کہ کس موقع پر کون سی دعا کرنی ہے؟ تو یہ تھے ان جانیں قربان کرنے والوں کے اپنی اولاد کے لئے تربیت کے اسلوب۔ پھر نوجوان تھے جن کے والدین بفضلہ تعالیٰ حیات ہیں۔ ان کے حقوق بھی ہمہ وقت ان جوان شہیدوں نے ادا کئے۔ والدین بیمار ہیں تو رات دن ان کی خدمت میں ایک کر دیے۔ خدا تعالیٰ کے حکم کہ والدین سے حسنِ سلوک کرو اور ان کی کسی سخت بات پر بھی اُف کا کلمہ منہ سے نہ نکالو اس کا حق ادا کر دیا ان لوگوں نے۔ پھر بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ شادی شدہ جوان اگر ماں باپ کا حق ادا کر رہے ہیں تو بیوی کا حق بھول جاتے ہیں، اگر بیوی کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ ہے تو ماں باپ کا حق بھول جاتے ہیں۔ لیکن ان مومنوں نے تو مومن ہونے کا اس بارے میں بھی حق ادا کر دیا۔ بیویاں کہہ رہی ہیں کہ والدین کے حق کے ساتھ ہمارا اس قدر خیال رکھا کہ کبھی خیال ہی دل میں پیدا نہیں ہونے دیا کہ ہماری حق تلفی تو کجا ہلکی سی جذباتی تکلیف بھی پہنچائی ہو۔ اور ماں باپ کہہ رہے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے حق ادا کرنے کی کوشش میں کہیں بیوی کے حق کی ادائیگی میں کمی نہ کی ہو۔ پس یہ اعتماد اور یہ حقوق کی ادائیگی ہے جو حسین معاشرے کے قیام اور اپنی زندگی کو بھی جنت نظیر بنانے کے لئے ان لوگوں نے قائم کیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی کتنا بڑا اجر عطا فرمایا کہ دائمی زندگی کی ضمانت دے دی۔ ۱۷، ۱۸سال کا نوجوان ہے تو اس کی طبیعت کے بارے میں بھی ماں باپ اور قریبی تعلق رکھنے والے، بلکہ جس کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ نوجوان کہہ رہے تھے، ان سب کی رائے یہ ہے کہ یہ عجیب منفرد قسم کا اور منفرد مزاج کا بچہ تھا۔ پھر ان سب میں ایک ایسی قدرِ مشترک ہے جو نمایاں ہوکر چمک رہی ہے اور وہ ہے جماعتی غیرت کا بے مثال اظہار۔ اطاعتِ نظام کا غیر معمولی نمونہ، جماعت کے لئے وقت قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا اور کرنا، دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے سارے حقوق کی ادائیگی کے باوجود، ساری ذمہ داریوں کے حقوق کی ادائیگی کے باوجود جماعت کے لئے وقت نکالنا اور صرف ہنگامی حالت میں ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی کئی کئی گھنٹے وقت دینا اور بعض اوقات کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہنا اور پھر یہ کہ خلافت سے غیر معمولی تعلق، محبت اور اطاعت کا اظہار۔ یہ اظہار کیوں تھا؟اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح موعود اور مہدی موعود کے بعد جو دائمی خلافت کا سلسلہ چلنا ہے اس نے مومنین کے جذبہ وفا اور اطاعت اور خلافت کے لئے دعاوٴں سے ہی دائمی ہونا ہے۔ پس یہ لوگ تھے جنہوں نے عبادات اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے نظامِ خلافت کو دائمی رکھنے کے لئے آخر دم تک کوشش کی اور اس میں نہ صرف سرخرو ہوئے بلکہ اس کے اعلیٰ ترین معیار بھی قائم کئے۔ یہ لوگ اپنے اپنے دائرے میں خلافت کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ یہ سلطانِ نصیر تھے خلافت کے لئے جن کے لئے خلیفہ وقت دعا کرتا رہتا ہے کہ مجھے عطا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرماتا رہے۔ اپنے پیاروں کے قرب سے ان کو نوازے۔ یہ شہداء تو اپنا مقام پا گئے، مگر ہمیں بھی ان قربانیوں کے ذریعے سے یہ توجہ دلاگئے ہیں کہ اے میرے پیارو! میرے عزیزو! میرے بھائیو! میرے بیٹو! میرے بچو! میری ماوٴں ! میری بہنو! اور میری بیٹیو! ہم نے تو صحابہ کے نمونے پر چلتے ہوئے اپنے عہدِ بیعت کو نبھایا ہے مگر تم سے جاتے وقت یہ آخری خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ نیکیوں اور وفا کی مثالوں کو ہمیشہ قائم رکھنا۔ بعض مردوں نے اور عورتوں نے مجھے خط بھی لکھے ہیں کہ آپ آج کل شہداء کا ذکرِ خیر کر رہے ہیں، ان کے واقعات سن کر رشک بھی آتا ہے کہ کیسی کیسی نیکیاں کرنے والے اور وفا کے دیپ جلانے والے وہ لوگ تھے اور پھر شرم بھی آتی ہے کہ ہم ان معیاروں پر نہیں پہنچ رہے۔ ان کے واقعات سن کر افسوس اور غم کی حالت پہلے سے بڑھ جاتی ہے کہ کیسے کیسے ہیرے ہم سے جدا ہو گئے۔ یہ احساس اور سوچ جو ہے بڑی اچھی بات ہے لیکن آگے بڑھنے والی قومیں صرف احساس پیدا کرنے کوکافی نہیں سمجھتیں بلکہ ان نیکیوں کو جاری رکھنے کے لئے پیچھے رہنے والا ہر فرد جانے والوں کی خواہشات اور قربانیوں کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس ہمارا کام ہے اور فرض ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ان قربانیوں کا حق ادا کریں۔ ان کے بیوی بچوں کے حق بھی ادا کر کے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں۔ ان کے چھوٹے بچوں کی تربیت کے لئے جہاں نظامِ جماعت اپنے فرض ادا کرے وہاں ہر فردِ جماعت ان کے لئے دعا بھی کرے۔ اللہ تعالیٰ تمام لواحقین کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ ان کی پریشانیوں، دکھوں اور تکلیفوں کو دور فرمائے اور خود ہی ان کا مداوا کرے۔ انسان کی کوشش جتنی بھی ہو اس میں کمی رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو صحیح تسکین کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے تسکین کے سامان پیدافرمائے اور ان کے بہتر حالات کے سامان پیدا فرمائے۔ پس ان شہداء کے ورثاء کو بھی دعاوٴں میں یاد رکھیں اور احبابِ جماعت اپنے لئے بھی دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دشمن کے ہر شر سے محفوظ رکھے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۹؍جولائی ۲۰۱۰ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلافت کی اطاعت میں احمدی عورت کی ذمہ داریاں