گذشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں سنبھالتا رہاہے، ہماری مشکلیں آسان کرتا رہاہے، آج بھی وہی خدا ہے جو ان دکھوں کو دور کر ے گا ا ن شاء اللہ۔ بظاہر ناممکن نظر آنے والی چیز، ناممکن نظر آنے والی بات محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ممکن بن جایاکرتی ہے اور ان شاء اللہ بن جائے گی۔ بڑے بڑے فرعون آئے اور گزر گئے لیکن الٰہی جماعتیں ترقی کرتی ہی چلی گئیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مضطر بن کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ) خالقِ کُل نے جب سے اس کائنات میں مخلوق کا نظام جاری فرمایا دعا کا نظام تب سے جاری ہوا۔ کیونکہ دعا عبودیت اور ربوبیت کے درمیان رشتہ قائم کرنے کا اوّلین و بہترین ذریعہ ہے۔ یہ خالق اور مخلوق کے درمیان سچا اور پاکیزہ تعلق قائم کرنے کا اصل طریق ہے۔ دعا کائنات کی جان اورحقیقی زندگی کی مراد ہے۔دعا روح کی وہ پکار ہے جو نسل انسانی کی خمیر میں رکھی گئی۔سچا اور کامل مذہب صرف اور صرف اس ہستی کے سامنے سربسجود ہونے اور دست دعا دراز کرنےکی تعلیم دیتا ہے جو اوّل بھی ہے آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ وہ ایک ہی وَراءُ الوَرا ہستی ہے جو نِعۡمَ الۡمُجِیۡبُوۡنَ ہے۔ تجھے دنیا میں ہے کِس نے پکارا کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا تو پھر ہے کس قدر اس کو سہارا کہ جس کا تُو ہی ہے سب سے پیارا دعا نبوت کا ماحصل ہےازل سے ہر پیغمبر کے زمانے میں دعا کا اعجاز ظاہر ہوا اور وقتِ مسیحا یعنی عصر حاضر میں بھی ہو رہا ہے۔ آدم سے لے کر عیسیٰ ابن مریم علیہم الصلوٰۃ والسلام تک مخالفانہ حالات میں قبولیت دعا کے حسیں اعجاز ظاہر ہوئے اور محمد عربی ﷺ کے زمانے میں یہ واقعات اپنی معراج کو پہنچے اور چشم فلک نے انتہائی مخالفانہ حالات میں قبولیت دعا کے وہ اعجاز دیکھے جو تا ابد بے مثل وبے نظیر رہیں گے۔بطور نمونہ چند واقعات ہدیہ قارئین ہیں۔ اہلِ مکہ کے جوروستم حد سے بڑھ چکے تھے، نہتے اور پُرامن شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔ توحید کے مٹھی بھر متوالوں کے لیے ربّ العالمین کے حضور سر بسجود ہونے کے تمام راستے مسدود کر دیے گئے تھے۔ ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبرِ اسلام ﷺنے اپنے پروردِگار سے عجیب دعا کی،کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے۔ آپ اپنے مولا سے عرض کرتے ہیں:’’اللّٰهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ، أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔‘‘ اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما۔(سنن ترمذي كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب فِي مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضى اللّٰه عنه حدیث نمبر: ۳۶۸۱) عبد کامل ﷺ کی یہ دعا بارگاہ ایزدی میں یوں قبول ہوئی کہ وہ عمربن خطاب جو گھر سے تیغِ برہنہ لیے نکلتا ہےکہ آج محمد ﷺ کا کام تمام کر دوں گا، راستے میں کلام رحمٰن سن کر موم ہو جاتا ہے اور دار ارقم میں جاکر ہادی کامل ﷺ کے ہاتھ پر بک جاتا ہے۔ آقا دو جہاں ﷺ اس پر مسرت موقع پر یوں نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے ہیں کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھی ہیں۔ بدر کے میدان میں حق و باطل کا پہلا معرکہ درپیش ہے۔ایک طرف سامان حرب سے لیس خونخوار جنگجو لشکر صف آراہے۔دوسری طرف چند بے سروسامان خیمہ زن ہیں۔ ایک سادہ سے خیمے میں عبدکامل معبود حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہے اور التجا یہ ہے:’’اللّٰهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللّٰهُمَّ إِنْ تَشَأْ لَا تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ۔‘‘ پھر وہ تیز قدم اٹھائے خیمے سے نکلتے ہوئے بڑے جلال سے پڑھتا جاتا ہے سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَیُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ۔پھر اسی شام خیمے میں کی گئی اس دعا کا اعجاز ظاہر ہوا اور ۳۱۳؍کمزور بےبس ایک ہزار کے لشکر جرار پر غالب آئے اور اس شان سے آئے کہ تا ابد بدری اصحاب کے نام امر ہوگئے۔ صحیح بخاری میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔’’حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جبکہ آپ بدر کی لڑائی کے دن ایک خیمے میں تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور تیراوعدہ یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہےکہ اس دن کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے۔اس پر ابوبکرؓ نے آپ کے ہاتھ کو پکڑ لیا اور عرض کیا: بس یا رسول اللہ! کافی ہے، آپ نے اپنے رب سے بہت ہی الحاح و زاری سے دعا کر لی ہے۔ اس دن آپ ﷺزرہ پہنے ہوئے تھے۔کبھی اٹھتے تھے کبھی بیٹھتے تھے۔پھر آپؐ خیمہ سے نکلے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی: سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ضرور یہ انبوہِ کثیر ہزیمت دیا جائے گا اور وہ پیٹھ پھیر جائیں گے۔‘‘(صحيح البخاري كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ حدیث نمبر: ۴۸۷۵) میدان بدر میں تضرع والحاح سے کی گئی اس دعا کا اعجاز غزوہ ٔاحزاب تک جاری رہا جب مدینہ کو قدموں تلے روندنے کاسیاہ سپنا آنکھوں میں سجائےآنے والے قبائل عرب خائب وخاسر لوٹے۔ قبولیت دعا کا ایک اعجاز فتح مکہ کے سفر پر روانگی کے وقت ظاہر ہوا۔اس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔ ابن عقبہ، ابن اسحاق اور محمد بن عمر رحمہم اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو سفیان کے مدینہ سےچلے جانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ہمارے سفر کے لیے سامان تیار کرو۔ پھر آپﷺ نے دعا کی:اللّٰهُمَّ خُذْ عَلٰى أَسْمَاعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ فَلَا يَرَوْنَا إلَّا بَغْتَةً، وَلَا يَسْمَعُوْنَ بِنَا إلَّا فَجْأَةً۔یعنی اے اللہ !قریش کے کانوں اور ان کی آنکھوں کو روک لے یعنی ان کے جاسوسوں اور مخبروں کو روک لے کہ وہ ہمیں نہ دیکھ سکیں مگر یہ کہ اچانک ہم ان تک جا پہنچیں اور نہ ہی وہ ہمارے متعلق کوئی خبر معلوم کریں سوائے اس کے کہ اچانک انہیں ہماری خبرپہنچے۔(سبل الھدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد الجزء ۵ صفحہ ۲۰۲۔ایڈیشن ۲۰۱۴ء۔ زاویہ پبلشرز لاہور)انتہائی نامساعد اور مخالفانہ حالات کے باوجودآپ دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں تین سو میل کا طویل فاصلہ طے کرکے فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوتے ہوئے مر الظہران تک جا پہنچے۔ مگر اہل مکہ کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ دعا کے اعجاز کا ایک اور پاکیزہ نمونہ غزوہ حنین کے موقع پر ظاہر ہوا۔تاریخ اسلام کا یہ واحد غزوہ ہے جس میں مسلمان گنتی میں دشمن سے زائد تھے۔ مگر ہوازن کے تیر اندازوں کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور تتربتر ہوگئے۔ اس نازک حالت میں اعلیٰ درجے کے جوانمرد نبی ﷺ مرد میدان بن کر تیروں کی برسات میں کھڑے ہوئے تھےاور زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے:’’أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ۔‘‘ پھر میدان کارزار میں کھڑے کھڑے سرکار دو عالم ﷺ نے مولائے کُل سے ان الفاظ میں دعا کی:’’اللّٰهُمَّ نَزِّلْ نَصْرَكَ۔‘‘ احادیث میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔ ابواسحاق سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت براء ؓ کے پاس آیا اور پوچھا اےابوعمارہ! کیا آپ لوگ حنین کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے؟ تو انہوں نے کہامیں نبی ﷺکے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی، لیکن جلد باز لوگ اور بغیر ہتھیاروں کے لوگ ہوازن قبیلے کی طرف بڑھے اور وہ تیر انداز قوم تھی انہوں نے ایسے تیروں کی بارش کی گویا ٹڈی دَل ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنی جگہ چھوڑ گئے۔ پھرہوازن کے لوگ رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھے، ابوسفیان بن حارثؓ آپ کے خچر کو پکڑ کر چلا رہے تھے، تو آپ نیچے اترے، دعا کی اور اللہ سے مدد طلب کی آپ کہہ رہے تھے ’’میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ اے اللہ! اپنی مدد نازل فرما۔حضرت براء ؓ کہتے ہیں اللہ کی قسم! جب جنگ شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ کی اوٹ لیتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آپؐ کے پہلو میں یعنی نبی ﷺ کے ساتھ کھڑا رہتا تھا۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ باب فِي غَزْوَةِ حُنَيْنٍ: حدیث نمبر: ۴۶۱۶) اس دعا کا اعجاز نصرت الٰہی کی صورت میں اس طرح ظاہر ہوا:ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَعَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَاَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا وَعَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (التوبہ:۲۶)پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل کی اور ایسے لشکر اتارے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور اس نے ان لوگوں کو عذاب دیا جنہوں نے کفر کیا تھا اور کافروں کی ایسی ہی جزا ہوا کرتی ہے۔ یہ اس مقدس ومطہَّررسول ﷺ کی پاکیزہ زندگی کے چند واقعات ہیں جس کا پل پل قبولیت دعا کا اعجاز ظاہر کرنے والاتھا۔جسے رب ذو الجلال نے تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو وقتِ مسیحاؑ میں پیدا ہوئے، وہ مسیح و مہدی جس کی آمد بذات خودعرب کے بیابانوں میں ظاہر ہونے والےسید الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفےٰ ﷺ کی دعا کا اعجاز ہے۔ وہ اصدق الصادقین کی پیشگوئیوں کے مطابق اپنے موعود وقت پر ظاہر ہوا اور وحی الٰہی کے مطابق دین اسلام کو زندہ کرنے، شریعت کو قائم کرنے اور امت کو دین واحد پر جمع کرنے کے مشن پر کمر بستہ ہوا۔ سنت ابنیاء کے مطابق اسے بھی قدم قدم پر آزمائشوں ابتلاؤں اور مخالفتوں کا سامنا کر نا پڑا۔مگر وہ یار نہاں میں نہاں ہو کر دن بدن فتح و ظفر کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلم سے نکلی یہ دعا کیا اعجاز رکھتی ہے:اَللّٰھُمَّ فَاحْفَظْنَا مِنْ فِتْنَتِھِمْ وَ بَرَّئْنَا مِنْ تُھْمَتِھِمْ وَاخْصُصْنَا بِحِفْظِکَ وَاصْطَفَائِکَ وَ خَیْرِکَ۔ وَ لَا تَکِلْنَا اِلیٰ کَلَاءَۃِ غَیْرِکَ۔اے اللہ ان کے فتنے سے ہمیں محفوظ رکھ اور ان کے جھوٹے الزام سے ہمیں بری فرما اور اپنی حفاظت اور اپنی پسندیدگی اور اپنی خیر کے لیے ہمیں خاص کر لے اور اپنے سوا کسی اور کی حفاظت میں نہ دینا۔ (آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد۵صفحہ۵۔ ترجمہ از عربی،ایڈیشن۲۰۲۱ء اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لندن) حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام مجسم دعا تھے۔ آپؑ کی ہر سانس، آپ کی زندگی کا ہر لمحہ، آپ کے وجود کا ہر ذرّہ آپ کی روح کا ہر جذبہ اپنے محبوب ربّ کے حضور دعا سے تعبیر تھا۔ آپ کی ہر مہم دعا کے ساتھ شروع ہوتی، دعا کے ساتھ جاری رہتی اور دعا کے ساتھ ہی ختم ہوتی۔ ربِّ رحمٰن ورحیم نے اپنے اس فرستادے کی دعاؤں کو بھی شرف قبولیت بخشا، غیر ممکن کو ممکن میں بدلا اورایک زمانہ اس اعجاز کا گواہ بنا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات، اشتہارات، فرمودات و ملفوظات قبولیت دعا کے ہزاروں لاکھوں واقعات سے مرصع ہیں۔ خداتعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی حالات میں تمام مقدمات میں سرخرو کیا، آپؑ کو ہتھکڑیاں پہنانے کی آرزو رکھنے والے چندولعل جیسے جج خائب و خاسر رہے اور کرسی سے اتارے گئے۔آپ کے مخالفین آپ کی دعاؤں کے طفیل راندہ درگاہ ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔ بے شمار مواقع پر خدا تعالیٰ نے غیب سے مالی مدد کا معجزانہ انتظام کیا، آپ کی دعاؤں کے طفیل بیماروں کو صحت ملی۔خداتعالیٰ نے آپ کے قلم کو ’’ذوالفقار‘‘ بیان فرمایا جس سے آپ نے علم و معرفت کے دریا بہا دیے اورروحانی خزائن تقسیم فرمائے۔حقیقت یہ ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی قدم قدم ایک اعجاز تھی۔ اس زمانے کا حصن حصین انسانیت کو عافیت کے حصار میں داخل کرنے کے لیے پل پل بارگاہ ایزدی میں سربسجود رہا، اور راہ میں آنے والی تمام مشکلات حقیقی مشکل کشا کے سامنے پیش کرتا رہا۔ ذرا اِس دعاکی ماہیت پر غور فرمائیں:’’۱۹؍ اپریل۱۹۰۴ء کو فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کے لیے اور قادیان کے لیے دعا کررہا تھا تو یہ الہام ہوا:زندگی کے فیشن سے دُور جاپڑے ہیں۔فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔پس پیس ڈال ان کو خوب پیس ڈالنا۔ فرمایا : میرے دل میں آیا کہ اس پِیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسُوب کیا گیا ہے۔ اتنے میں میری نظر اس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بَیت الدّعا پر لکھی ہوئی ہے اور وہ دعا یہ ہے:یَا رَبِّ فَاسْمَعْ دُعَآئِیْ وَ مَزِّقْ اَعْدَآئَکَ وَاَعْدَآئِیْ وَ اَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْعَبْدَکَ وَاَرِنَا اَیَّامَکَ وَشَھِّرْلَنَا حُسَامَکَ وَلَاتَذَرْ مِنَ الْکَافِرِیْنَ شَرِیْرًا۔‘‘یعنی اے میرے رَبّ! تو میری دعا سن اور اپنے دشمنوں اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اپنا وعدہ پورا فرما اور اپنے بندے کی مدد فرما اور ہمیں اپنے دن دکھا اور ہمارے لیے اپنی تلوار سونت لے اور انکار کرنے والوں میں سے کسی شریر کو باقی نہ رکھ۔ اِس دعا کو دیکھنے اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ میری دعا کی قبولیت کا وقت ہے۔ پھر فرمایا۔ ہمیشہ سے سُنّت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ اس کے ماموروں کی راہ میں جو لوگ روک ہوتے ہیں اُن کو ہٹادیا کرتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کے دن ہیں۔ ان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین بڑھتا ہے کہ وہ کس طرح ان اُمور کو ظاہر کررہا ہے۔‘‘( ملفوظات جلد ششم صفحہ ۱۳۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) عدُو جب بڑھ گیا شور و فُغاں میں نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں ہوا مجھ پر وہ ظاہر میرا ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ امام آخرالزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنے تمام معاندین ومکذّبین اور شریر و فتنہ پرور دشمنان اسلام واحمدیت کو دعا کا یہ چیلنج بھی ایک اعجاز ہی تو ہے جو رہتی دنیا تک آپ کی صداقت پر دلیل ناطق رہے گا، فرماتے ہیں :’’مجھ سے یہ لوگ کیوں بخل کرتے ہیں اگر خدا نہ چاہتا تو مَیں نہ آتا۔ بعض دفعہ میرے دل میں یہ بھی خیال آیا کہ مَیں درخواست کروں کہ خدا مجھے اس عہدہ سے علیحدہ کرے اور میری جگہ کسی اور کو اس خدمت سے ممتاز فرمائے پر ساتھ ہی میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ اس سے زیادہ اور کوئی سخت گناہ نہیں کہ مَیں خدمت سپرد کردہ میں بُزدلی ظاہر کروں۔ جس قدر میں پیچھے ہٹنا چاہتا ہوں اُسی قدر خدا تعالیٰ مجھے کھینچ کر آگے لے آتا ہے۔ میرے پر ایسی رات کوئی کم گذرتی ہے جس میں مجھے یہ تسلّی نہیں دی جاتی کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور میری آسمانی فوجیں تیرے ساتھ ہیں۔ اگر چہ جو لوگ دل کے پاک ہیں مرنے کے بعد خدا کو دیکھیں گے لیکن مجھے اسی کے مُنہ کی قسم ہے کہ مَیں اب بھی اس کو دیکھ رہا ہوں۔ دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں۔ مَیں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہود ا اسکریوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے۔ میں ہر روز اس بات کے لیے چشم پُر آب ہوں کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہے۔ پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے۔ مگر میدان میں نکلنا کسی مخنث کا کام نہیں ہاں غلام دستگیر ہمارے ملک پنجاب میں کفر کے لشکر کا ایک سپاہی تھا جو کام آیا۔ اب ان لوگوں میں سے اس کے مثل بھی کوئی نکلنا محال اور غیر ممکن ہے۔ اے لوگو! تم یقیناًسمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفاکرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لیے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سُنے گا اور نہیں رُکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے۔ اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لیے گواہی دیں۔ پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کاذبوں کے اور مُنہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اَور۔ خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا۔ مَیں اس زندگی پرلعنت بھیجتا ہوں۔ جو جھوٹ اور افترا کے ساتھ ہو اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے۔ وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اسی کے لیے مجھے پیدا کیا ہے ہر گز ممکن نہیں کہ مَیں اس میں سُستی کروں اگرچہ آفتاب ایک طرف سے اور زمین ایک طرف سے باہم مل کر مجھے کچلنا چاہیں۔ انسان کیا ہے محض ایک کیڑا اور بشر کیا ہے محض ایک مضغہ۔ پس کیوں کر مَیں حيّ قیّوم کے حکم کو ایک کیڑے یا ایک مضغہ کے لیے ٹال دوں۔ جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا۔ خدا کے مامورین کے آنے کے لیے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھرجانے کے لیے بھی ایک موسم۔ پس یقیناًسمجھو کہ مَیں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا۔ خدا سے مت لڑو یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو۔‘‘(اربعین نمبر ۳، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۹۹، ۴۰۰) جماعت احمدیہ روئے زمین پر وہ یکہ و تنہا جماعت ہے جس میں الٰہی بشارات اور الہامی نوشتوں کے مطابق خلافت کا نظام جاری ہے۔ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ کی جاری ازلی تقدیر کے مطابق ایک کے بعد دوسرا خلیفہ الٰہی منشا کے مطابق اس مسند پر متمکن ہو تا ہے۔ خلافت کے زیر سایہ جماعت احمدیہ کی ایک سو سترہ سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایک کے بعد دوسرے خلیفہ نے بلند نگاہ اور دلنواز سخن کے ساتھ اس درخت کی آبیاری کی۔ ایک کے بعددوسرے خلیفہ کی مقدس زندگی خدمتِ اسلام کی جہد مسلسل اور شبانہ روز عملی کوششوں جماعت کی تعلیم و تربیت اشاعتِ قرآن اور سجود و قیام سے عبارت ہے۔ دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کے ساتھ ساتھ یہ وجود ہر ایسی مشکل کے وقت اپنی جماعت کو اپنے پروں کے نیچے دبائے ہوئے مرد میدان کی طرح سینہ سپر رہے۔ ہر خلیفہ کا زندہ خدا سے زندہ تعلق رہا اور ان کی دعاؤں کی قبولیت کےایسے اثمار ظاہر ہوئے جوہرصاحب شعور انسان کے ایمان کی تقویت کا موجب بنتے ہیں۔’’میں تیرا ہوں تو میرا خدا میرا خدا ہے‘‘ کا دلربا دعویٰ صرف اور صرف خلفائے احمدیت کا خاصہ ہے۔ اور جماعت احمدیہ کی تاریخ اس حقیقت کو روز روشن کی طرح واضح کرتی ہے۔ ہر خلیفہ کے زمانے میں قبولیت دعا کے اعجاز ظاہر ہوئے۔ مختلف علماء، گروہوں اور تنظیموں کی طرف سے جاری مخالفت کا سلسلہ خلافت ثالثہ میں حکومتی اور بین الاقوامی سطح پر پہنچ گیا۔ حسد کی یہ آگ آج بھی سلگ رہی ہے، ذرائع ابلاغ کی جدت اور سوشل میڈیا کی آمد کے بعد ایک طوفان بد تمیزی ہے جو عاشق محمد مصطفیٰ ﷺ اور آپ کی جماعت کے خلاف برپا ہے۔ مگر ناکامی گذشتہ کل بھی مخالفین کا مقدر تھی آج بھی ہے اور آنے والے کل بھی انہی کا نصیب بنے گی۔جنہوں نے اپنے گھناؤنے چہروں کو علمیت دینی کے نقابوں سے ڈھانپ رکھا ہے اوراسلام خطرے میں ہےکا نعرہ لگا کر دن رات ہرزہ سرائیوں میں مصروف ہیں۔ خلیفۃ المسیح الاوّل حاجی الحرمین حضرت مولوی حکیم نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی دعا سے عبارت ہے۔ آپؓ ایک عظیم الشان عالم باعمل اور زندہ جاوید انسان تھے۔امام وقت کے قدموں پر نثار ہونے سے پہلے ہی دعاؤں کی قبولیت کے خارق عادت معجزات آپ کی پاکیزہ زندگی کا حصہ تھے اور صدیق کے مقام پر فائز ہونے کے بعد آپ کی شخصیت نئی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔ اس گوہر آبدار کا دامن مسیح سے وابستہ ہونا خود اپنی ذات میں قبولیت دعا کا ایک زندہ معجزہ ہے۔حضرت مسیح الزمان علیہ الصلوٰۃ و السلام کے قلب اطہر کے جذبات کا کیا عالم تھا، ملاحظہ فرمائیں:’’جب سے میں اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے مامور کیا گیا ہوں اور حیّ و قیوم کی طرف سے زندہ کیا گیا ہوں دین کے چیدہ مددگاروں کی طرف شوق کرتا ہوں اور وہ شوق اس شوق سے بڑھ کر ہے جو ایک پیاسے کو پانی کی طرف ہوتا ہے اور میں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور میں چلا تا تھا اور کہتا تھا کہ اے میرے رب! میرا کون ناصر و مددگار ہے۔ میں تنہا اور ذلیل ہوں۔ پس جبکہ دعا کا ہاتھ پے در پے اُٹھا اور آسمان کی فضا میری دعا سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو قبول کیا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا جو میرے مددگاروں کی آنکھ ہے اور میرے ان مخلص دوستوں کا خلاصہ ہے جو دین کے بارے میں میرے دوست ہیں۔ اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے۔ وہ جائے ولادت کے لحاظ سے بھیروی اور نسب کے لحاظ سے قریشی ہاشمی ہے جو کہ اسلام کے سرداروں میں سے اور شریف والدین کی اولاد میں سے ہے۔ پس مجھ کو اس سے ایسی خوشی ہوئی گویا کوئی جد اشدہ عضومل گیا اور ایسا سرور ہوا جس طرح کہ حضرت نبی کریم ﷺ حضرت فاروقؓ کے ملنے سے خوش ہوئے تھے۔اور جب وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے ملا اور میری نظر اس پر پڑی تو میں نے اس کو دیکھا کہ وہ میرے رب کی آیات میں سے ایک آیت ہے اور مجھے یقین ہوگیا کہ میری دعا کا نتیجہ ہے جس پر میں مداومت کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتا دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد ۵۔صفحہ۵۸۱، ۵۸۲۔ ترجمہ از عربی،ایڈیشن۲۰۲۱ء) عصر حاضر میں ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةِ کی پیشگوئی اسی وجود باجود کے ذریعہ پوری ہوئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد انکار خلافت کا فتنہ اٹھا مگر وہ دعا ہی تھی جس نے آپ کو ان فتنوں پر تسلط بخشا۔آپؓ اپنی دعاؤں کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’دیکھو میری دعائیں عرش میں بھی سنی جاتی ہیں،میرا مولیٰ میرے کام میری دعا سے بھی پہلے کردیتا ہے۔میرے ساتھ لڑائی کرنا خدا سے لڑائی کرنا ہے۔‘‘ (اخبار بدرقادیان ۱۱؍جولائی ۱۹۱۲ءصفحہ ۴۔ جلد ۱۲شمارہ ۲) جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ۱۹۵۳ء کا سال انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔پاکستان میں ایک مذہبی ٹولے نے دین یُسر کے نام پرشہر شہر گلی گلی طوفان بدتمیزی برپا کیا اور معصوم احمدیوں کی جانوں اور مالوں سے کھیلا۔ اس نازک دور میں وہ اولوالعزم خلیفہ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا مرد میدان بن کر کھڑا ہوا، آپؓ نے ایک طرف روح پرور پیغامات سے افراد جماعت کی ڈھارس بندھائی دوسری طرف ارباب اختیار اور مخالفین کو للکارتے ہوئے مکروہ حرکتوں سے باز رہنے کی تلقین کی۔پھر پسر مسیح کی دعاؤں کا اعجاز ظاہر ہونا شروع ہوا اور طوفانوں کے مالک نے طوفانوں کا رخ پلٹ دیا اور فرعون صفت ارباب بست و کشاد کی صف لپیٹ دی گئی۔ جاں نثاران خلافت کے نام فتح و ظفر کے کلید بردار کا یہ پیغام ملاحظہ ہو:’’آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں انشاء اللہ فتح ہماری ہے۔ کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا ؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑے گا ؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاءاللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ سمجھ لو کہ وہ میری مدد کےلیے دوڑاآرہا ہے وہ میرے پاس ہے وہ مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے۔ تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو۔ سلسلہ کا کام خدا خود سنبھالے گا۔‘‘آگے فرماتے ہیں:’’میں آسمان پر خدا تعالیٰ کی انگلی کو احمدیت کی فتح کی خوشخبری لکھتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ جو فیصلہ آسمان پر ہو زمین اسے ردّ نہیں کر سکتی اور خدا کے حکم کو انسان بدل نہیں سکتا۔ سو تسلی پاؤ اور خوش ہو جاؤ اور دعاؤں اور روزوں اور انکساری پر زور دواور بنی نوع انسان کی ہمدردی اپنے دلوں میں پیدا کرو۔‘‘(سوانح فضل عمر جلد چہارم صفحہ ۳۵۲، ۳۸۵،ایڈیشن ۲۰۰۶ء قادیان) ۱۹۵۳ء کے فسادات میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قید کرلیاگیا۔ سخت گرمیوں کے دن تھےکسی نے کہا دونوں کا اس گرمی میں کیا حال ہوگا؟ اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباً فرمایا:’’ان کا کوئی جرم نہیں۔ اس لیے مجھے اپنے خدا پر کامل یقین و ایمان ہے کہ وہ جلد ہی ان پر فضل کرے گا۔‘‘ اس کے بعد آپؓ نے وہ رات گریہ و زاری میں گزاری۔ چنانچہ جب دن چڑھا اور ڈاک کا وقت ہوا تو پہلا تار جو ملا وہ یہ خوشخبری لیے ہوئے تھاکہ حضرت مرزاشریف احمدصاحب اور مرزا ناصر احمدصاحب رہا ہوچکے ہیں۔(روزنامہ الفضل ربوہ سالانہ نمبر بعنوان ’’دعا‘‘۲۸؍دسمبر ۲۰۱۵ء صفحہ۴۳) حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۱۹۵۶ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے آنے والے خلیفہ سے متعلق فرمایا تھا: ’’میں ایسے شخص کو جسے خداتعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خداتعالیٰ پر ایمان لاکر کھڑا ہوجائے گا تو اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گی۔‘‘(خلافت حقّہ اسلامیہ اور نظامِ آسمانی کی مخالفت، انوار العلوم جلد ۲۶صفحہ ۳۱) حسن و احسان میں اپنے عظیم باپ کے نظیر اس موعود خلیفہ کے منہ سے نکلی یہ بات خلافت ثالثہ کے دور میں پوری ہوئی جب ۱۹۷۴ء کا دور ابتلا شروع ہوا۔ پاکستان کے بیسیوں شہروں میں توحید کامل اور رسول کاملﷺ پر ایمان رکھنے والے احمدیوں کوظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ باب لکھا گیا۔ طاقت کے نشے میں چور حاکم وقت نے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ’’قادیانیت کا ۹۰ سالہ مسئلہ‘‘ حل کرنے کی ٹھانی اور ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ یہ لوگ اپنی ناپاک خواہشات کو عملی جامہ پہنا کر بغلیں بجا رہے تھے کہ جبّار وقہّار خدا نےان کو پکڑ میں لیا۔ وہ جو عوام ا لناس کے درمیان کھڑا ہوکر یہ کہتا تھا کہ میں ان کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دوں گا اس حال میں کاٹھ پر چڑھایا گیا کہ خود اس کے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے تھے۔ دوسری طرف سالار کارواں کیا فرمارہا تھا:’’ہمارے دُکھ خواہ کسی رنگ میں ہوں، وہ ہماری مسکراہٹیں اور ہماری مسرتیں اور ہماری بشاشتیں ہم سے نہیں چھین سکتے۔ قضاء وقدر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں آتی ہیں اور ابتلا آتے ہیں تو بسااوقات سوکھی ٹہنیاں کاٹ دی جاتی ہیں مگر جن درختوں کی ٹہنیاں ہری ہوتی ہیں ان پرایک نیا حُسن اور ایک نیا جوبن نظر آتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۷۴ء۔خطبات ناصر جلد ۵ صفحہ ۶۰۳۔ ایڈیشن ۲۰۰۷ء نظارت نشرو اشاعت قادیان) اس پُرآشوب دور میں قبولیت دعا کے جو اعجاز ظاہر ہوئے ان کی جھلک درج ذیل ہے۔مکرم میاں عبد الرحمٰن صاحب صابر قائد خدام الاحمدیہ گوجرانوالہ کا بیان ہے کہ ’’مورخہ ۷؍ مارچ بعد دوپہر میری بیوی اپنے ایک سالہ بچے کو دودھ پلا رہی تھی اور میں دوسرے بچے کو سینے پر لٹا رہا تھا کہ بلوائیوں کا ایک ہجوم آیا جس نے آتے ہی ہمارے مکان کے دروازوں پر پتھر، ڈنڈے اور اینٹیں مارنی شروع کردیں۔ ہمارے ایک ہمسایہ نے انہیں کہا کہ وہ تو یہاں ہیں نہیں۔ لیکن انہوں نے اس کی بات نہ مانی اور مانتے بھی کیسے جبکہ ہم اندر سے نظر آرہے تھے۔ ہمارا ایک دروازہ مضبوط تھا اور ایک کمزور لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مضبوط دروازہ ہی ٹوٹ گیا اور اس وقت ہم نے سمجھا کہ بس ہم گئے۔ لیکن عین اسی وقت گوجرانوالہ کے ایک معزز غیر احمدی دوست قاضی محمد شریف صاحب شوق اور ان کے بھائی آگئے اور انہوں نے ہجوم کو بڑی حکمت عملی سے قابو میں کرلیا جس کی وجہ سے ہجوم مکان کے اندر نہ آسکا۔ اس طرح محض خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری جان و مال اور عزت و آبرو اور سب سے بڑھ کر قیمتی شے ہمارا ایمان بچا رہا۔ اس ہجوم کے روکے جانے کے بعد ایک مولوی صاحب میرے پاس آئے اور بزعم خویش مجھے مسلمان ہونے کو کہا۔ میں نے کہا مولوی صاحب! مسلمان تو میں پہلے سے ہوں۔ اس وقت میری بیوی زینب دوسرے کمرہ میں تھی گو اس کی جسمانی ساخت اور صحت کمزور ہے اور بظاہر اس کی طرف سے کمزوری دکھانے کا اندیشہ ہوسکتا تھا۔ لیکن اس وقت وہ بھوکی شیرنی کی طرح صحن کی طرف جھپٹی اور نہایت بارعب الفاظ میں کہا ’’خبردار ڈولیو نہ۔ مرنا اکو واری اے‘‘[خبردار! ڈگمگائیو مت۔ مرنا ایک ہی دفعہ ہے۔] اس کے ان الفاظ سے میرے جسم میں ایک لہر سی دوڑ گئی۔ بعدازاں وہ مولوی صاحب اور ان کے ساتھی خاموشی سے چلے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت بظاہر حالات ہماری حفاظت کے تمام ذرائع ختم ہوچکے تھے۔ مثلاً میرا حقیقی بھائی اس حملہ سے چند منٹ پہلے ہی باہر چلا گیا تھا۔ اور اس تمام واقعہ کے بعد گھر آیا۔ ایسے موقعہ پر ہمسایوں سے جو توقع ہوسکتی تھی وہ بھی رائیگاں گئی۔ جس دروازے پر بوجہ مضبوطی اعتماد تھا وہ بھی ٹوٹ گیا اور بظاہر ہماری حالت یہی تھی’’حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تواب ہے‘‘چنانچہ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم اور ذرہ نوازی سے ہماری شب و روز کی التجاؤں کو سنا اور ہماری بے کسی کے پیش نظر غیب سے ہماری مدد کی۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۱۵،صفحہ ۶۱، ۶۲۔ ایڈیشن ۲۰۰۷ء۔نظارت نشرو اشاعت قادیان) چودھری عبد الرشید صاحب حلقہ واٹر ورکس سیالکوٹ کا بیان ہے کہ’’ایک دن شام کے وقت میرے مکان کو جبکہ میں گھر پر ہی تھا غنڈوں نے گھیر لیا۔ اور آگ لگانے کی کوشش کی۔ اس وقت میں اور میرے تایا چوہدری محمد علی صاحب موجود تھے، ہمیں بے حد فکر ہوئی۔ اس وقت سوائے خداتعالیٰ کے ہمارا اور کوئی مددگار نہ تھا مگر ہم نے اپنے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے مکان پر رہتے ہوئے ہی اپنی جان دینے کی ٹھان لی۔ مگر قربان جاؤں اس عالم الغیب پر کہ اچانک ایک جیپ کار اور ٹینک میں چند فوجی افسر اور مسلح گارڈ نے آکر ان تمام اشخاص کو گھیرے میں لے لیا۔ اس طرح ہماری جانیں اور مکان بخیروخوبی بچ گئے۔ہمارے محلہ کی ایک قصائی عورت نے (جو ان دنوں نوجوانوں اور لڑکوں کو اکٹھا کرکے ہمارے مکان پر پتھراؤ کرواتی رہتی تھی) ایک دن شام کے وقت باہر کے دروازوں کو بہت زور سے کھٹکھٹایا۔ چنانچہ میں نے دروازہ کھولنے کے لیے دروازہ کے کنڈے کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ اچانک میرے دل کو کسی غیبی طاقت نے روک دیا۔ چنانچہ میں نے دروازہ کھولنے کی بجائے دروازہ کے اوپر جو گیلری ہے اس میں جاکر کھڑکی کھول کر جب دیکھا تو دو نوجوان لڑکے چاقو کھولے اس انتظار میں کھڑے ہیں کہ میں جونہی دروازہ کھولوں وہ مجھ پر بے دریغ وار کردیں۔ مگر الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس موقع پر بھی بچا لیا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۱۵،صفحہ ۷۳۔ ایڈیشن ۲۰۰۷ء۔نظارت نشرو اشاعت قادیان) نافلہ موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا :’’جس دن قومی اسمبلی کے سارے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی بنی اُس دن جب اعلان ہوا کہ اس کمیٹی کا اجلاسIncamera(یعنی خفیہ) ہو گا۔ اس بات نے کہ اجلاس خفیہ ہو گا مجھے پریشان کیا اور اس اطلاع کے ملنے کے بعد سے لے کر اگلے دن صبح چار بجے تک مَیں بہت پریشان رہا اور مَیں نے بڑی دُعائیں کیں۔ یہ بھی دُعا کی کہ اے خُدا خفیہ اجلاس ہے پتہ نہیں ہمارے خلاف کیا تدبیر کی جائے۔ تیرا حُکم ہے کہ مَیں مقابلہ میں تدبیر کروں تیرا حُکم ہے مَیں کیسے مانوں۔ مجھے پتہ ہی نہیں اُن کی تدبیر کیا ہے تو ان حالات میں مَیں تیرا حُکم نہیں مان سکتا۔ بتائیں کیا کروں۔ سورۂ فاتحہ بہت پڑھی، اِھدنالصّراط المستقیم بہت پڑھا۔ ان الفاظ میں دُعا بہت کی اور صبح اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے مجھے یہ کہا وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ اِنَّا کَفَیۡنٰکَ الۡمُسۡتَہۡزِءِیۡنَ۔ کہ ہمارے مہمانوں کا تم خیال کرو اور اپنے مکانوں میں مہمانوں کی خاطر وسعت پیدا کرو اور جو یہ منصوبے جماعت کے خلاف ہیں ان منصوبوں کے دفاع کے لیے تیرے لیے ہم کافی ہیں تو تسلی ہوئی۔ وَسِّعْ مَکَانَکَ جو خاص طور پر کہا گیا اس لیے میرا فرض تھا کہ جماعت کو کہوں کہ وسعتیں پیدا کرو جو اپنے مکانوں میں کمرے بڑھانا چاہتے تھے وہ بنائیں اور ہر پلاٹ میں جلسہ کے مہمانوں کو ایک کمرہ بنادو۔ رہائش کے لیے عارضی طور پر انہیں تحفہ دو اور عارضی تحفہ کے نتیجہ میں اپنے لیے ابدی ثواب کے حصول کے سامان پیدا کرو اللہ تعالیٰ سب کو نیکیوں کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر ۱۹۷۴ء خطبات ناصر جلد ۵صفحہ ۷۱۰۔ ایڈیشن ۲۰۰۷ء نظارت نشرو اشاعت قادیان) وہ سارباں جس کے ہاتھ میں جگ کی مہار ہے اس نے برسوں پہلے اپنے مامور کوآئندہ ہونے والے اس عظیم الشان واقعہ کی خبر دی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نےیہ پیشگوئی ان الفاظ میں شائع فرمائی:’’ایک شخص کی مَوت کی نسبت خدائےتعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلٰی کَلْبٍ یعنی وہ کتّا ہے اور کتّے کے عدد پر مرے گا جو ۵۲سال پر دلالت کر رہے ہیں۔ یعنی اس کی عمر ۵۲سال سے تجاوز نہیں کرے گی۔ جب ۵۲سال کے اندر قدم دھرے گا تب اسی سال کے اندر اندر راہی ملک بقا ہوگا۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ۱۹۰) رب العرش کی طرف سے ۱۸۹۱ء میں دی گئی یہ خبر ۱۹۷۹ء میں پوری ہوئی جب چشم فلک نے خدائی جماعت سے ٹکرانے والے معاند کو انتہائی بد انجام کو پہنچتے دیکھا۔ خلافت را بعہ کے پُرشوکت دور میں قبولیت دعا کے ایسے اعجاز ظاہر ہوئے جو ہمیشہ آب زر سے لکھے جائیں گے۔ ان میں ایک زریں باب طاقت کے نشے میں چور فرعون وقت کی ہلاکت کا اور دوسرا اسیران راہ مولا کی رہائی کا واقعہ ہے جب دنیاوی حاکموں نے ان اسیران کو پھانسی کی سزا سنا کر قلم توڑ دیے اور انہیں کال کوٹھڑیوں میں بند کر دیا گیا مگر خلیفہ وقت کی نیم شبی دعاؤں کے طفیل احکم الحاکمین کا قلم چلا اور یہ اسیران کھلی فضاؤں میں آگئے۔ ۲۶؍اپریل ۱۹۸۴ء کومطلق العنان آمر ضیاء الحق کے آرڈیننس کے نفاذ کے ساتھ ہی پاکستان کے احمدیوں پر مصائب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہوگیا۔ اس ظالمانہ قانون کے نتیجہ میں بے شمار احمدیوں نے جان و مال کی قربانیاں انتہائی بشاشت کے ساتھ پیش کیں۔ بہت سے بے گناہ احباب کو مختلف مقدمات میں ماخوذ کرکے کئی کئی سال پس دیوارِ زنداں رکھا گیا۔رحمۃللعالمین کے لائے ہوئےمقدس دین اسلام کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے قرآن و سنت کے منافی قانون بناکر مظلوم وبے کس احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ مگر خدائے واحد و یگانہ پر کامل ایمان رکھنے والے خلیفہ وقت نے ایسے پر شوکت الفاظ کے ساتھ وقت کے آمر کو للکارا جو تاابد ہر ذی شعور کے ایمان میں حرارت پیدا کرتے رہیں گے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’وقت کے امام کے متعلق جس کو خدا نے اپنے ہاتھوں سے قائم کیا ہے اس کے متعلق زبانیں کھلتی چلی جا رہی ہیں اور کوئی کنارہ نہیں ہے ان کی بے حیائی کا۔جماعت احمدیہ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک والی رکھتی ہے ایک ولی رکھتی ہے۔ جماعت احمدیہ کا ایک مولاہےاور زمین و آسمان کا خدا ہمارا مولا ہے لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارا کوئی مولا نہیں۔ خدا کی قسم جب ہمارا مولا ہماری مدد کو آئے گا تو کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکے گا۔خدا کی تقدیر جب تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کرے گی تو تمہارے نام و نشان مٹا دئے جائیں گے۔ اور ہمیشہ دنیا تمہیں ذلت اور رسوائی کے ساتھ یاد کرے گی۔اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عاشق محمد ﷺ کا نام ہمیشہ روز بروز زیادہ سے زیادہ عزت اور محبت اور عشق کے ساتھ یاد کیا جایا کرے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍ دسمبر ۱۹۸۴ء۔ خطبات طاہر جلد ۳، صفحہ ۷۳۳) سکھر اورساہیوال کے اسیران کی رہائی حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اضطراری حالت میں کی جانے والی دردناک دعاوٴں کے نتیجہ میں ہوئی۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس منظوم کلام پر غور کریں، کیا انداز ہے التجا کا، کیا انداز ہے رحمت الٰہی کو جوش دلانے کا۔ یا ربّ! یہ گدا تیرے ہی در کا ہے سوالی جو دان ملا تیری ہی چوکھٹ سے ملا ہے گم گشتہ اسیرانِ رہِ مولا کی خاطر مدت سے فقیر ایک دعا مانگ رہا ہے جس رہ میں وہ کھوئے گئے اُس رہ پہ گدا ایک کشکول لیے چلتا ہے لب پہ یہ صدا ہے خیرات کر اَب اِن کی رہائی مرے آقا! کشکول میں بھر دے جو مرے دل میں بھرا ہے میں تجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے میں تیرا ہوں، تو میرا خدا، میرا خدا ہے ایک طرف آپ اپنے آسمانی آقا کے حضور سربسجود اس کی رحمت کے طالب تھے دوسری طرف ایک شفیق و مہربان باپ کی طرح اسیران کی دلداری میں مصروف تھے۔ مکرم محمد الیاس منیر صاحب کو ایک خط میں تحریر فرمایا: ’’میں جانتا ہوں کہ شہادت اور پھر ایسی عظیم شہادت ایک قابل صد رشک سعادت ہے۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ظاہری جان لیے بغیر بھی لازوال زندگی عطا کر سکتا ہے۔ وہ مالک اور قادراور قدیر اور مقتدر ہے۔ اسماعیلی قربانی اپنی آن بان اور شان میں اس بناء پر کم تو نہیں ہوگی کہ’’قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا‘‘ کی پُر شوکت آوازنے اسماعیل کی گردن پر چلنے والی چھری کی حرکت سلب کر لی۔ پس میرا بھکاری دل اگرمالک کون ومکان سے اپنے پیارے الیاس اورنعیم اورناصر اوررفیع کےلیے اس دُنیا کی بھیک بھی مانگتا ہے اورآخرت کی بھی تو تعلیمِ قرآن کے منافی تو نہیں۔ ہم تو گدا گر ہیں۔ راہ مولا کے گدا گر جب تک ہمارا آقا آخر ی تقدیر ظاہر نہیں فرماتا ہم ’’رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ‘‘کی صدا بلند کرتے رہیں گے۔ اورجب وہ تقدیر خیر کو ظاہر فرما دے گا تو وہ جس بھیس میں بھی آئے ہم حمدو شکرکے ترانے گاتے ہوئے اس کا خیر مقدم کریں گے۔مومن کا تو کوئی سودا بھی نقصان اور خوف اور حزن کا سودا نہیں۔ ہمیں ’’لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ‘‘ کی معرفت کا جام لبا لب پلایاگیاہے۔‘‘(خط محررہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۸۶ء(حکایات دارو رسن از محترم محمد الیاس منیر صاحب صفحہ ۴۸۰، ۴۸۱۔ سنہ اشاعت جون ۲۰۱۴ء۔ناشر فضل تعلیمی ٹرسٹ جرمنی) حضوررحمہ اللہ تعالیٰ ۱۹۹۱ء کے جلسہ سالانہ قادیان پر تشریف لے گئے۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ اپنا دورہ مکمل کرکے قادیان سے دہلی آچکے تھے اور ۱۰؍جنوری ۱۹۹۲ء کا جمعہ دہلی میں پڑھانا تھا۔ لیکن اللہ نے دل میں ڈالا کہ یہ Friday the 10th کا جمعہ ہے۔ قادیان واپس جاکر یہ جمعہ وہاں پڑھانا چاہیے اور اس میں اسیران کی رہائی کے لیے خصوصی دعاکرنی چاہیے۔ چنانچہ حضوررحمہ اللہ تعالیٰ قادیان واپس گئے اور جمعہ وہاں پڑھایا اور اسیران کی رہائی کے لیے بہت دعاکی۔ اگلے روز ہفتہ کے دن ابھی حضوررحمہ اللہ تعالیٰ امرتسر سٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ خبر مل گئی کہ سکھر کے اسیران رہا ہوگئے ہیں۔(روزنامہ الفضل ربوہ سالانہ نمبر بعنوان ’’دعا‘‘ ۲۸؍دسمبر ۲۰۱۵ء صفحہ۴۳) قبولیت دعا کا دوسرا اِعجازمارچ ۱۹۹۴ء میں ظاہر ہوا، اور ساہیوال کے اسیران بھی زنداں سےآزاد ہو گئے۔ محترم عبد الماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر بیان کرتے ہیں:’’جب ساہیوال کے اسیران ۱۹۹۴ء میں رہا ہوئے تو یہ خبر لندن میں نماز ظہر سے قبل حضوررحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پہنچی حضور نماز ظہر پڑھانے کے لیے تشریف لائے اور نماز کے بعد کھڑے ہوکر احباب سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’آج ساہیوال کے اسیران دس سال کے بعد رہا ہو گئے ہیں۔ میں نے اس رمضان میں ان اسیران کے لیے خاص دعا کی تھی کہ اے میرے اللہ! اگلا رمضان ان اسیران کو جیل میں نہ آئے۔ چنانچہ یہ دعا اتنی جلدی اور اس شان کے ساتھ قبول ہوئی کہ اس دعا کے چند دن بعد ہی یہ اسیران رہا ہو گئے۔‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ سالانہ نمبر بعنوان ’’دعا‘‘ ۲۸؍دسمبر ۲۰۱۵ء صفحہ۴۳) اُسی سال یہ اسیران ہوا کے دوش پر لندن پہنچے اور ۲۷؍ جولائی ۱۹۹۴ء کو امام ہمام کے سینے سے لگ کرحرف بحرف اس کی دعاؤں کی قبولیت کا اعجاز ظاہر کیا۔ اس پر مسرت موقعہ پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’گزشتہ دس سال کے دور میں جو نشان دیکھے ہیں وہ بھی بہت نمایاں اور غیر معمولی شان کے نشان ہیں جن کے متعلق دشمن جو چاہے کہے وہ ان نشانات کے نور کو مٹا نہیں سکتا اور ان کی پھونکوں سے یہ چراغ بجھ نہیں سکتے۔ ان میں اوّل نشان ایک ہیبت ناک جلالی نشان تھا جو ضیاء کی ہلاکت کی صورت میں پورا ہوا۔ جس کے متعلق اس نشان کے ظہور سے چند دن پہلے خطبہ جمعہ میں مَیں نے اعلان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ اب ضیاء کو خدا کی وعید سے کوئی طاقت بچا نہیں سکتی۔ وہ ضیاء جس نے چند معصوم احمدیوں کی جان لینے کی قسم کھا رکھی تھی، جس کا یہ خیال تھا کہ میرے قلم کا لکھا مٹایا نہیں جا سکتا اور اپنی طرف سے ان معصوم اسیران راہ مولا کی گردنیں پھانسی کے پھندے میں پھنسا بیٹھا تھا خود اس کی جان خدا کی تقدیر کے چنگل میں آکر اس طرح ہلاک ہوئی کہ اس کے جسم کا ذرہ ذرہ بکھر گیا اور اس کی خاک اڑ گئی۔ یہاں تک کہ اس کے وجود کی پہچان سوائے اس بتیسی کے اور کچھ نہ رہی جو مصنوعی طور پر دندان سازوں نے بنا رکھی تھی۔ اور اس کے بعد پھر دوسرا نشان ہمارے ان اسیران راہ مولاکا موت کے چنگل سے نکل آنا ہے جس پر ضیاء کے قلم کی سیاہی گواہ تھی کہ ضرور یہ موت کے چنگل میں ڈالے جائیں گے۔ لیکن خدا کی روشنائی نے کچھ اور آسمان پر لکھ رکھا تھا اور یہ گواہی بھی خدا کے فضل سے بڑی شان کے ساتھ حیرت انگیز طور پر پوری ہوئی۔ اور آج ہمارے سامنے یہ زندہ سلامت موجود ہیں۔ جب مجھے یہ اطلاع ملی کہ ضیاء الحق نے موت کی سزا صرف ایک شخص کے لیے نہیں رہنے دی بلکہ زیادہ معصوموں پر اس سزا کو پھیلا دیا ہے تو انہی دنوں میں بہت بے قراری سے دعاؤں کا موقعہ ملا اور میں نےایک رؤیا میں دیکھا کہ الیاس منیر کھلی فضا میں ایک چارپائی پر میرے پاس بیٹھا ہوا ہے۔ اسی وقت میں نے سب کو بتا دیا اور بارہا خطوں کے ذریعہ بھی تسلی دی کہ دنیا ادھر سے اُدھر ہو سکتی ہے مگر الیاس منیر کی گردن میں پھانسی کا پھندا نہیں پڑے گا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس ایک کے سایہ میں یہ سارے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل تھے۔ وہ ان کا سردار تھا وہ جماعت کا نمائندہ تھا اور خدا کے نزدیک اس کے وقف کی وجہ سے اس کا ایک مرتبہ تھا اور ہے۔ پس جو بات میں اس وقت نہیں سمجھ سکا تھا وہ بعد میں حالات نے روشن کی، وہ یہ تھی کہ محض ایک الیاس کی خوشخبری نہیں تھی بلکہ ان سب معصوموں کی رہائی کی خوشخبری اس ایک خوش خبری میں شامل تھی۔ پھر حالات بدلنے شروع ہوئے اور پھانسی کا وقت قریب تر آنا شروع ہوا۔بہت سے لوگ مجھے گھبرا گھبرا کر لکھتے رہے مگر ایک لمحہ کے لیے بھی ایک ذرہ بھی مجھے خوف نہیں ہوا۔ میں سب کو کہتا رہا کہ یہ ناممکن ہے۔ خدا کی بات جیسے ضیاء کی موت کی صورت میں پوری ہوئی تھی اسی طرح ان زندگیوں کی صورت میں پوری ہوگی۔ اور دنیا کی کوئی تقدیر اسے مٹا نہیں سکتی، بدل نہیں سکتی اور پھر اس طرح اعجازی رنگ میں یہ واقعات رونما ہوئے ہیں کہ انسان کی عقل ورطہ حیرت میں پڑجاتی ہے۔…یہ واقعات زندہ خدا کی صداقت کے وجود کے ثبوت ہیں اور عقل ان کی کوئی اور توجیہہ پیش نہیں کرسکتی سوائے اس کے کہ قادر مطلق کی تقدیر کا دخل تھا جو غالب تقدیر ہے۔ پس الحمد للہ خدا نے ہمیں وہ خوشیوں کا دن دکھایا۔ اپنے پیارے اسیروں کو ہم نے چھاتی سے لگایا، اپنے پہلو میں بٹھایا۔ وہ ساری آرزوئیں خدا نے پوری کیں جن کے لیے دل ترسا کرتا تھا کوئی امید کی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ ایک یقین تھا جو متزلزل نہیں ہوا، ساری دنیا ڈولتی دکھائی دیتی تھی مگر خدا کے وعدوں پر کامل یقین تھا جو ثابت قدم رہا۔ آج وہ یقین جیتا ہے۔ پس اللہ کے شکر کے ترانے گانے کے دن آگئے۔ الحمد للّٰہ ربّ العالمین، الحمد للّٰہ ربّ العالمین، الحمدللّٰہ ربّ العالمین۔‘‘(ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن، جمعہ ۱۲ء اگست ۱۹۹۴ء صفحہ ۱۔ جلد ۱شمارہ ۳۲) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’اس زمانہ میں اگر فتح ملنی ہے، اسلام کا غلبہ ہوناہے تودلائل کے ساتھ ساتھ صرف دعا سے ہی یہ سب کچھ ملناہے۔ اور یہ وہ ہتھیار ہے جو اس زمانہ میں سوائے جماعت احمدیہ کے نہ کسی مذہب کے پاس ہے، نہ کسی فرقے کے پاس ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے وہ ہتھیار دے دیاہے جو کسی اور کے پاس اس وقت نہیں۔ پس جب یہ ایک ہتھیار ہے اور واحد ہتھیار ہے جو کسی اور کے پاس ہے ہی نہیں تو پھر ہم اپنے غلبہ کے دن دیکھنے کے لیے کس طرح اس کو کم اہمیت دے سکتے ہیں، کس طرح دعاؤں کی طرف کم توجہ دی جاسکتی ہے۔…جماعت احمدیہ کو تو جماعتی اور دنیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے۔…تو جیساکہ مَیں نے شروع میں دعا کے بارے میں کہاتھا، دعا ہی ہے جو ہمارا اوڑھناہو، ہمارا بچھوناہو۔ دعا ہی ہے جس پر ہمیں مکمل طورپر یقین ہونا چاہئے، اس کے بغیرہماری زندگی کچھ نہیں۔…گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں سنبھالتا رہاہے، ہماری مشکلیں آسان کرتا رہاہے، آج بھی وہی خدا ہے جو ان دکھوں کو دور کر ے گا ا ن شاء اللہ۔ بظاہر ناممکن نظر آنے والی چیز، ناممکن نظر آنے والی بات محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ممکن بن جایاکرتی ہے اور ان شاء اللہ بن جائے گی۔ بڑے بڑے فرعون آئے اور گزر گئے لیکن الٰہی جماعتیں ترقی کرتی ہی چلی گئیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مضطر بن کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍نومبر۲۰۰۳ء خطبات مسرور جلد اوّل صفحہ۴۹۷تا ۵۱۱) پس یہ وہ خدائی جماعت ہے جو ہر دم اِک بلندی کی طرف چڑھ رہی ہے۔ خدا ترقی کی نئی اور بلند منازل ہمارے سامنے کھولتا چلا جارہا ہے۔ یہ جماعت غالب آنے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔کوئی ابتلا کوئی آزمائش ہمارے پائے ثبات میں لغزش کا باعث نہیں بنے گی اور وہ دن ضرور آئے گا کہ ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’یاد رکھیں کہ یہ گالیاں جو اُن کے مُنہ سے نکلتی ہیں اور یہ تحقیر اور یہ توہین کی باتیں جو اُن کے ہونٹھوں پر چڑھ رہی ہیں اور یہ گندے کاغذ جو حق کے مقابل پر وہ شائع کر رہے ہیں یہ اُن کے لیے ایک رُوحانی عذاب کا سامان ہے جس کو اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے طیار کیا ہے۔ دروغگوئی کی زندگی جیسی کوئی زندگی نہیں۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے منصوبوں سے اور اپنے بےبنیاد جھوٹوں سے اور اپنے افتراؤں سے اور اپنی ہنسی ٹھٹھے سے خدا کے ارادے کو روک دیں گے یا دنیا کو دھوکہ دے کر اس کام کو معرض التوا میں ڈال دیں گے جس کا خدا نے آسمان پر ارادہ کیا ہے۔ اگر کبھی پہلے بھی حق کے مخالفوں کو اِن طریقوں سے کامیابی ہوئی ہے تو وہ بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر یہ ثابت شدہ امر ہے کہ خدا کے مخالف اور اُس کے ارادہ کے مخالف جو آسمان پر کیا گیا ہو ہمیشہ ذلّت اور شکست اُٹھاتے ہیں تو پھر ان لوگوں کے لیے بھی ایک دن ناکامی اور نامرادی اور رُسوائی درپیش ہے خدا کا فرمودہ کبھی خطا نہیں گیا اور نہ جائے گا۔ وہ فرماتاہے: کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا و وَرُسُلِیۡ (المجادلۃ:۲۲) یعنی خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنّت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ مَیں اُس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اُسی نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پاکر اور اُسی میں ہو کر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں۔ اِس لیے مَیں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا۔ ‘‘(نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ۳۸۰، ۳۸۱) مزید پڑھیں: تربیتِ اولاد