https://youtu.be/c6zupQZKjSo کہتے ہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے ہیں۔ تم کوئی ایک پیغمبر بتاؤ جس کے زمانہ میں اس کے ماننے والوں نے قربانی نہ دی ہو۔ گالیاں نہ کھائی ہوں مصیبتیں نہ جھیلی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کو نہ بھیجاہو اور اُن کو کامیاب نہ کیا ہو۔ ہرایک نبی کے ماننے والوں نے اپنے حالات کے مطابق اپنے کام کے مطابق اور اپنے کام کی وسعت کے مطابق قربانی دی ہے۔ جو نبی ایک چھوٹے سے شہر میں آیا اس کے لئے چند آدمیوں نے قربانی دی۔ جو نبی ایک خاص علاقے کے لئے آیا اس علاقے نے اس کے لئے قربانیاں دیں۔ جو نبی ایک خاص قوم کی اصلاح کے لیے آیا۔ اُس قوم نے اس کے لیے قُربانیاں دیں بغیر قربانیاں دئیے اُن کو خداتعالیٰ کی نعمتیں اور رحمتیں نہیں ملیں مگر وہ رحمۃللعالمین ہوکر نوع انسانی کی طرف آیا، نوع انسانی اس کے لیے اس وقت تک سے قُربانیاں دیتی چلی آرہی ہے اس لئے تمہیں بھی قربانیاں دینی پڑیں گی اور مجھے بھی قُربانیاں دینی پڑیں گی اور بشاشت کے ساتھ ہنستے کھیلتے ہوئے قربانیاں دینی پڑیں گی۔(حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) دور خلافت ثالثہ میں الٰہی سنت کے موافق جماعت احمدیہ کو ایک بار پھر مصائب و ابتلا کے امتحان سے گزرنا پڑا اور ُاس دور کے فرعون نے یہ کہا کہ میں جماعت کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دوں گا مگر خدا تعالیٰ کی قہری تجلیوں نے اسے تختہ دار پر لٹکا کر ہمیشہ کے لیے ذلت ورسوائی اور عبرت کا نشان بناڈالا۔ اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ کی قیادت کے جھنڈے کے سائے تلے جماعت احمدیہ کا قافلہ آپ کی دعاؤں، راہنمائی اور Love for all Hatred for none کے عظیم ماٹو کا پرچار کرتے ہوئے اکناف عالم میں پھیل گیا۔ یوں جماعت آپ کی ہمیشہ مسکراتے رہنے کی نصیحت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اور ہر قسم کی قربانی راہ خدا میں پیش کرتے ہوئے مصائب و ابتلا کے اس امتحان سے کامیاب ہو کر نکلی۔ مخالفین کی خام خیالیاں حضرت مصلح موعودؓ کے بابرکت دور خلافت میں اکثر مخالفین اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے بعد کوئی شخص اس کامیابی کے ساتھ جماعت کی ولولہ انگیز قیادت نہیں کر سکےگا اور یوں جماعت کا شیرازہ جلد بکھر جائے گا۔ ۱۹۴۷ء کے بعد جماعت کے خلاف منتظم شورش برپا کی گئی، حضرت مصلح موعودؓ پر قاتلانہ حملہ کر وایا گیا اور اندرونی فتنہ پیدا کرکے جماعت کےاتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جب حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری میں اضافہ ہوا تو پھر یہ سلسلہ کچھ سالوں کے لیے رک گیا۔ اب مخالفین یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ جماعت کے موجودہ امام کے بعد بغیر کسی کوشش کے ان کے مقاصد خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔ لیکن جب خلافت ثالثہ کا مبارک آغاز ہوا تو وقت کے ساتھ ان کی خام خیالیوں کا تانا بانا ٹوٹنے لگا۔ جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر رہی تھی۔ جماعت احمدیہ افریقہ کے دُور دراز ممالک میں ۱۹۷۰ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مغربی افریقہ کا دورہ فرمایا تو وہاں کی جماعتوں کا اخلاص، ان کی تنظیم، ان کا جوش روح پرور مناظر پیش کر رہے تھے۔ نہ صرف وہاں کے احمد یوں نے اپنے امام کا والہانہ استقبال کیا بلکہ ان ممالک کے سربراہان نے، ان کے وزراء نے اور غیر از جماعت شرفاء نے بھی اپنے اپنے رنگ میں اپنی محبت کا اظہار کیا۔ وہاں کا پریس، وہاں کے ریڈیو اور ٹی وی نے بھی جماعتی تقریبات کی خبروں کو ایک خاص اہمیت کے ساتھ شائع اور نشر کیا۔ یہ مناظر دیکھ کر جہاں احمدی اپنے رب کا شکر ادا کر رہے تھے، وہاں پر یہ خبریں جماعت کے مخالف گروہوں پر بجلی بن کر برس رہی تھیں۔ وہ اب تک یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ یہ ایک حقیر معمولی گروہ ہے جسے ہم برصغیر کی حدود میں ہی کچل کر رکھ دیں گے۔ لیکن اب خدا تعالیٰ کی تقدیر انہیں یہ مناظر دکھا رہی تھی کہ یہ جماعت افریقہ کے دور دراز ممالک میں بھی تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ اب یہ لازمی بات تھی کہ جماعت احمدیہ کے معاندین اب کوئی نیاز ہریلا وار کریں گے تا کہ بزعم خود وہ جماعت کی ترقی کو روک سکیں۔ مخالفین کاغیظ و غضب حضورؒ کا دورہ افریقہ اور پھر مجلس نصرت جہاں کے آغاز نے ان مخالفین کے غیظ و غضب میں اضافہ کر دیا اور اب وہ پہلے سے بھی زیادہ زہر یلے وار کی تیاری کر رہے تھے۔ اس دورہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ جماعت اسلامی پاکستان میں جماعت احمد یہ کے خلاف ایک سازش تیار کر رہی ہے۔چنانچہ حضور رحمہ اللہ نے ۱۰؍اگست ۱۹۷۰ء کو ربوہ میں احمدی ڈاکٹروں سے خطاب فرماتے ہوئےاحباب جماعت کو اس سازش سے مطلع کرتے ہوئے فرمایا:’’ہماری اس سکیم کا اس وقت تک جو مخالفانہ رد عمل ہوا ہے وہ بہت دلچسپ ہے اور آپ سن کر خوش ہوں گے اس وقت میری ایک Source سے یہ رپورٹ ہے۔ البتہ کئی طرف سے رپورٹ آئے تو میں اسے پختہ سمجھتا ہوں بہر حال ایک Source کی رپورٹ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے یہ ریزولیشن پاس کیا ہے کہ ویسٹ افریقہ میں احمدیت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ وہاں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس واسطے پاکستان میں ان کو کچل دوتا کہ وہاں کی سرگرمیوں پر اس کا اثر پڑے اور جماعت کمزور ہو جائے۔ بالفاظ دیگر جو ہمارا حملہ وہاں عیسائیت اور شرک کے خلاف ہے اسے کمزور کرنے کے لیے لوگ یہاں سکیم سوچ رہے ہیں۔ ویسے وہ تلوار اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کسی مخالف کو نہیں دی جو جماعت کی گردن کو کاٹ سکے۔‘‘(احمدی ڈاکٹروں سے خطاب از حضرت خلیفۃالمسیح الثالث صفحہ ۲۱ شائع کردہ محمد اسمٰعیل منیر سیکرٹری مجلس نصرت جہاں ربوہ پاکستان ۳۰؍مئی ۱۹۷۲ء) ان اطلاعات سے یہ ظاہر تھا کہ مغربی افریقہ میں جماعت کی غیر معمولی ترقی بہت سے حلقوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہے۔ اور وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر پاکستان میں جماعت کو کچل دیا جائے یا خاطر خواہ نقصان پہنچایا جائے تو پھر جماعت کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ افریقہ میں اپنی تبلیغ اور دیگر سرگرمیوں کو پہلے کی طرح جاری رکھ سکے۔ استحکام پاکستان کے لیے بامقصد اور باثمر کوشش پاکستان کی نام نہاد مذہبی جماعتیں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک شورش برپا کرنے کے لیے پر تول رہی تھیں۔اسی سال ۱۹۷۰ء میں پورے ملک میں انتخابات کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ ہمیشہ کی طرح مذہبی جماعتیں کہلانے والی سیاسی پارٹیوں کو یہ توقع تھی کہ ان کو اس الیکشن میں بہت بڑی کامیابی ملے گی جس کے بعد ان کے اقتدار کا سورج طلوع ہو گا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے بعد جماعت کی ترقی کو روک دینا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔ایک محب وطن شہری کی حیثیت سے احمدیوں کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آئندہ الیکشن میں کس جماعت کو ووٹ دینے ہیں۔ یہ فیصلہ کس طرح اور کن بنیادوں پر کیا گیا اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اس وقت جبکہ پاکستان کے افق سیاست پر کئی چھوٹی بڑی پارٹیاں نمودار ہو رہی تھیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے مجھ پر اپنا یہ منشاء ظاہر فرمایا کہ اگر مغربی پاکستان میں کوئی ایک سیاسی جماعت مضبوط اور طاقتور بن کر نہ ابھری تو استحکام پاکستان کو بڑا شدید صدمہ پہنچے کا خطرہ ہے۔ میں تو اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا ہی عاجز بندہ ہوں اللہ تعالیٰ کے مجھ پر ان گنت احسانات ہیں۔ میں ان کا کماحقہ شکریہ ادا نہیں کر سکتا یہ بھی اس کا فضل اور احسان تھا کہ اس نے اپنا منشاء مجھ عاجز پر ظاہر فرمایا اور ہماری روح اور دل اور دماغ کو یہ توفیق بخشی کہ ہم اس کے اس منشا ء کے مطابق اپنے محبوب وطن کے استحکام کے لیے بامقصد اور باثمر آور کوشش کریں۔‘‘(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ برموقع ہنگامی مجلس مشاورت منعقدہ ۲۷؍ مئی ۱۹۷۳ء بمقام ایوان محمود۔ربوہ،صفحہ:۶-۷) حضور رحمہ اللہ نے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی پارٹیوں کا باری باری تجزیہ کرنے کے بعد فرمایا:’’ہمیں تو سیاسی پارٹیوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہمیں تو اس قسم کی باتوں میں پڑنے سے اپنے وقت کے ضائع ہونے کا خیال تھا لیکن چونکہ ہمیں خدا تعالیٰ کا یہ منشاء معلوم تھا کہ کسی ایک پارٹی کو مستحکم بنایا جائے۔چنانچہ جب ہم نے اپنی عقل خداداد سے پاکستان کی سیاست کا جائزہ لیا تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی ہی ایک ایسی پارٹی ہے جسے کثرت کے ساتھ ووٹ دینا ملکی مفاد کےعین مطابق ہے۔‘‘(خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ برموقع ہنگامی مجلس مشاورت منعقدہ ۲۷؍ مئی ۱۹۷۳ء بمقام ایوان محمود۔ربوہ،صفحہ۱۷-۱۸) جب جماعت احمدیہ نے ملک کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات میں ووٹ اور حمایت کے لیے مندرجہ بالا فیصلہ کیا تو جماعت اسلامی اور دوسری نام نہاد مذہبی جماعتوں کی پریشانی میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا۔ وہ اس امر کو اپنی فرضی کامیابی کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھ رہے تھے۔ انہیں یہ بات کسی طرح نہیں بھا رہی تھی کہ احمدی کسی رنگ میں بھی آئندہ انتخابات میں حصہ لیں۔ان کے لیڈریہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ اقتدار میں آکر جدا گانہ انتخابات کا نظام لائیں گے یعنی مذہبی اقلیتوں کو انتخابات میں عام نشستوں سے بھی کھڑا ہونے کی اجازت نہیں ہو گی تاکہ وہ ملکی سیاست کے دھارے سے علیحدہ ہی رہیں۔ (نوائے وقت ۱۷؍نومبر ۱۹۷۰ء) دستورِپاکستان اور دعا کی تحریک پیپلز پارٹی کے راہنما مسٹر بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی آئین کی تشکیل کی طرف خصوصی توجہ شروع کر دی اور بالآخر ایک طویل، دشوار گذار اور صبر آزما سفر طے کرنے کے بعد پاکستان کی دستور سازاسمبلی نے ۱۰؍ اپریل۱۹۷۳ءکو بھاری اکثریت سے ملک کے لیے تیسرا آئین منظور کر لیا۔ ۱۲؍ اپریل کو مسٹر بھٹو نے صدر پاکستان کی حیثیت سے اس کی توثیق کردی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ۱۳؍ اپریل ۱۹۷۳ء کو خاص اس موضوع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں ایک طرف تو اظہار مسرت کیا کہ قوم کو دستور مل گیا ہے دوسری طرف دعا کی خصوصی تحریک فرمائی کہ قبل اس کے کہ اس کی بہت سی غلطیوں اور خامیوں کے نتیجہ میں قوم میں کوئی خرابی رونما ہو اور نقصان پہنچے، اللہ تعالیٰ قوم کو ان کی غلطیوں اور خامیوں کی اصلاح کی توفیق بخشے۔(تاریخ احمدیت جلد ۲۹ صفحہ ۶۶-۶۷) بدقسمتی سے اس دستور میں بعض ایسی شقیں رکھ دی گئیں جو بعد میں ایک مستقل فتنہ کی بنیاد بنیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:’’۱۹۷۴ء کے واقعات کی بنیاد دراصل پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے آئین میں رکھ دی گئی تھی۔ چنانچہ آئین میں بعض فقرات یا دفعات شامل کر دی گئی تھیں تاکہ اس کے نتیجہ میں ذہن اس طرف متوجہ رہیں اور جماعت احمدیہ کو باقی پاکستانی شہریوں سے ایک الگ اور نسبتاً ادنیٰ حیثیت دی جائے۔‘‘(خطبات طاہر جلد ۴صفحہ ۵۴) آزادکشمیر اسمبلی کی قرارداد پر راہنمائی بھٹو حکومت سے آئین میں مسلم کی من مانی تعریف داخل کروانے کے معاً بعد احمدیت کے مخالف علماء نے آزاد کشمیر اسمبلی کی طرف رخ کیا۔۳۰؍اپریل ۱۹۷۳ء کی صبح کو پاکستان کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ آزاد کشمیر اسمبلی نے ۲۹؍ اپریل کو ایک قراد داد متفقہ طور پر منظور کی ہے جس کے تحت احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے اور آزادکشمیر میں احمدی عقائد کی تبلیغ پر پابندی لگادی گئی ہے۔ یہ خبر پاکستانی صحافت نے شائع کی تو احمدیت کے دشمن عناصر نے جن میں جماعت اسلامی اور مجلس تحفظ ختم نبوت وغیرہ پیش پیش تھے عبدالقیوم خان صدر آزادکشمیر کو مبارک باد دی اور حکومت پاکستان پر بھی دباؤ ڈالا کہ اسے بھی اس جرأت مندانہ اقدام کی تقلید کرتے ہوئے احمدیوں کو فی الفور غیر مسلم اقلیت قرار دے دینا چاہیے۔(تاریخ احمدیت جلد ۲۹صفحہ ۱۰۲) مخالفین احمدیت کی دھمکیوں کا جواب جماعت اسلامی اور ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ اس موقع پر دھمکیاں دے رہے تھے کہ ایک بار پھر ۱۹۵۳ء جیسے حالات پیدا کر دیے جائیں گے۔حضورؒ نے ۱۹۵۳ء کے فسادات کا حوالہ دے کر جماعت کو مرعوب کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’در اصل ۵۳ء کا نام لے کر وہ اپنے نفسوں کو اور اپنے ساتھیوں کو دھوکا دے رہےہیں۔ ۵۳ء کے فسادات کی حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو اُس وقت اتنی ذلت اٹھانی پڑی تھی کہ اگر وہ ذرا بھی سوجھ بوجھ سے کام لیتے تو ۱۹۵۳ء کا کبھی نام تک نہ لیتے مگر جماعت احمد یہ نے اُس فساد فی الملک میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے عظیم نشان دیکھے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نے جماعت کو بڑی ترقی عطا فرمائی اس لئے ہمارے حق میں ۱۹۵۳ء بڑا مبارک زمانہ ہے جس میں جماعت نے بڑی تیزی سے ترقی کی اور رفعتوں میں کہیں سے کہیں جا پہنچی۔ تربیت کے لحاظ سے بھی اور وسعت تبلیغ کے لحاظ سے بھی اور تعداد کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو بہت ترقی نصیب ہوئی اس وقت میرے سامنے کئی دوست بیٹھے ہیں جن کا اُن بہت ساری جماعتوں کے ساتھ تعلق ہے جو سر گودھا اور جھنگ کے بارڈر پر واقع ہیں اور ۵۳ء کے بعد قائم ہوئی تھیں۔چنانچہ ہزار ہا بلکہ لاکھوں احمدی ہوئے، یا دل سے احمدی ہوئے،میں نے پہلے بھی بتایا تھا لاہور میں میں نے بات کی تو چند آدمی جو ایک گاؤں سے ملنے آئے ہوئے تھے باتوں باتوں میں کہنے لگے ۱۹۵۳ء میں ہم احمدیوں کے گھروں کو آگ لگانے کے لئے نکلا کرتے تھے۔ پھر خدا نے ہمیں احمدیت قبول کرنے کی سعادت بخشی، ہمیں احمدیت کا فدائی اور جاں نثاربنا دیا۔ پس ۱۹۵۳ء نے اُن لوگوں پر ذلت کا داغ لگایا جو آج ۱۹۵۳ء کا نام لے رہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ۱۹۵۳ء کو احمدیت کی ترقی کا ذریعہ بنا دیا۔ وہ زمانہ احمدیت کی تاریخ میں ایک Land Mark اور ترقی کا ایک نشان ہے اس لئے جب کوئی ۱۹۵۳ء کا نام لیتا ہے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے کیونکہ جماعت احمد یہ نے اُس وقت بڑی قربانیاں دیں اور اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی مہم کو اور بھی تیز کر دیا۔‘‘( خطبہ جمعہ ۴؍مئی ۱۹۷۳ء۔ خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ۱۳۱-۱۳۲) احباب جماعت کو حسین رد عمل کی تلقین حضور ؒنے فرمایا:’’دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان حالات میں ہم کیا کریں؟ میں آپ سے کہوں گا پہلے سے زیادہ دعائیں کریں۔ آپ پوچھتے ہیں کہ ان حالات میں ہم کیا کریں میں کہوں گا کہ جس خدا پر تم نے بھروسہ کیا ہے وہ قادر توانا خدا ہے۔ اس نے تمہاری اسّی سالہ زندگی میں کبھی بےوفائی نہیں کی۔ اب بھی بے وفائی نہیں کرے گا کیونکہ وہ سچے وعدوں والا ہے۔ تم اس کے وفادار بندے بنے رہو اور اپنی زندگی کے ہر لمحہ یہ ثابت کرتے رہو کہ تم اس کے وفادار بندے ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سایہ میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ گے۔ دنیا کی کوئی طاقت خدا تعالیٰ کے منشاء کو نا کام نہیں کر سکتی خدا نے احمدیت کے ذریعہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کا فیصلہ فرمایا ہے۔ آسمانوں پر خدا کا یہ فیصلہ ہے اور زمین پر جاری ہو چکا ہے۔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی توحید اور حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پیار ساری دنیا پر غالب آئے گا خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے جس طرح ہم دیکھتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے تمام ممالک اور اقوام بھی دیکھیں گی۔ خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے یہ تو ضرور پورا ہو گا البتہ جماعت احمدیہ کو قربانیاں دینی پڑیں گی بعض افراد کو شاید جان کی قربانی دینی پڑے بعض کو مال کی قربانی دینی پڑے یہ تو ضرور ہو گا لیکن جس مقصد کے لئے جماعت کو پیدا کیا گیا ہے اس مقصد میں انشاء اللہ نا کامی نہیں ہوگی۔پس گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان نعروں کو، ان فتووں کو، ان جھوٹی تحریروں کو جو اخباروں میں چھپتی ہیں ان سے ہنستے کھیلتے گزر جاؤ۔ ان کو درخوراعتنا نہ سمجھو اور دل کے اندر غصہ نہ پیدا کرو بلکہ ایسے لوگوں کے لئے رحم کے جذبات پیدا کرو۔‘‘( خطبہ جمعہ ۴؍مئی ۱۹۷۳ء۔ خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ۱۳۸) مخالفین کے تین خطرناک منصوبوں سے آگاہی اس بات کے آثار واضح نظر آ رہے تھے کہ جماعت احمد یہ کے خلاف ایک گہر ا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے لیکن ابھی تک جماعتی عہدیداران میں سے ایک بڑی تعداد کو بھی اس کی تفصیلات کا علم نہیں تھا۔ لیکن اب یہ ضروری تھا کہ کم از کم جماعت احمدیہ کے ذمہ دار افراد کو اس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔ چنانچہ حضور ؒنے ہنگامی مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقدہ ۲۷؍ مئی ۱۹۷۳ء میں نمائندگان مجلس مشاورت کو آگاہ فرمایا کہ اب جماعت احمد یہ کے خلاف تین خطرناک منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں اور ان منصوبوں سے محفوظ رہنے کی حکیمانہ نصائح سے نوازا۔ پہلا منصوبہ: حضورؒ نے فرمایا:عرصہ ہوا خدا تعالیٰ نے دو بڑے واضح اور مبارک رؤیا میں بتایا کہ ہمارے مخالفین کی دو سیاسی جماعتوں نے مل کر ہمارے خلاف بہت بڑا منصوبہ بنایا ہے جس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں امام جماعت احمدیہ اور افراد جماعت کو ہلاک کر دیں۔… اس منصوبے کا ایک حصہ تو گویا کثرت سے قتل و غارت کرانا ہے۔ اس میں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے واضح رؤیا میں دکھا دیا ہے یہ لوگ ناکام ہوں گے اور ذلت کا مزہ چکھیں گے لیکن جہاں تک انفرادی قربانی کا تعلق ہے وہ تو ہم لوگ دیتے چلے آئے ہیں۔ اب بھی ہم دیں گے میں بھی دوں گا اور آپ میں سے بھی دیں گے۔ یہ ہمارے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح احمدیوں کے دلوں میں خوف وہر اس پیدا ہو گا تو یہ ان کی غلط فہمی ہے جن کے دلوں میں خوف پیدا ہوتا ہے ان کو وہ کسی اور دنیا میں تلاش کریں۔ ہمارے دلوں میں کبھی خوف پیدا نہیں ہوتا۔… غرض ایک تو یہ منصوبہ ہے جو ہمارے خلاف بنایا گیا ہے۔ اس سے بچنے کی تدبیر کی ایک صورت یہ ہے کہ دوست دعائیں کریں، دوسرے یہ کہ چوکس اور بیدار رہیں اور تیسرے یہ کہ نڈر ہو کر اور گرد نیں اونچی کر کے چلیں اور کسی سے گھبرائیں نہیں۔… باقی جہاں تک خود حفاظتی کے سامان کرنے کا تعلق ہے اس سے تو ہم نے کبھی غافل نہیں ہونا۔ یہ بزدلی نہیں ہے بلکہ عقل و فراست کا تقاضا اور خدا کا حکم ہے۔ خدا نے ہمیں بزدل نہیں بنایا۔ خدا نے ہمیں صاحب عقل و فراست اور پیکر عزم و ہمت بنایا ہے۔ وَذٰلك فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ پس جماعت احمدیہ کے خلاف منصوبے بنانا کوئی مذاق نہیں ہے۔ احمدیت کو مٹانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘‘(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ برموقع ہنگامی مجلس مشاورت مئی ۱۹۷۳ء صفحہ۹۳ تا۹۸) دوسرا منصوبہ: حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:’’دوسرا منصوبہ بھی نہایت ہی خبیثا نہ منصوبہ ہے۔ اس کے متعلق بھی دیر سے خبریں مل رہی تھیں۔ جن لوگوں نے اس قسم کا منصوبہ بنایا ہے انہوں نے دراصل احباب جماعت کو پہچانا نہیں کہ وہ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ اس منصوبہ کے دو حصے ہیں۔ ایک(۱) یہ ہے کہ دنیوی عزت و وجاہت یا شان و شوکت یا مال وزر کے بل بوتے پر وہ احباب جماعت کے سروں کو اپنے سامنے جھکا دیں۔(۲) وہ بزعم خود جماعت کو اتنا تنگ کریں کہ دوست ان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائیں۔ ایسے لوگ جو اس قسم کے منصوبے بناتے ہیں کتنے نالائق اور بیوقوف ہیں۔ وہ سمجھتے نہیں کہ ہم تو صرف ایک آستانہ پر جھکتے ہیں۔ وہ دیکھتے نہیں کہ ایک ہی در ہے جس پر ہمارا سر جھکتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا در ہے۔ ہم تو خدا کے عاجز بندے ہیں۔ خدا اپنے پیار سے ہمیں اوپر اٹھاتا اور اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔ وہ روحانی سرور اور لذت جو خدا کے سامنے جھک کر اور اس کے پیار اور رضا کو حاصل کرنے سے ملتی ہے۔ یہ لوگ سارے مل کر اس لذت کا کروڑواں حصہ بھی نہیں دے سکتے۔ یہ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ جماعت احمد یہ اور اس کے افراد انہیں کیا وقعت دیتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے نام پر باہر سے پیسے کھا کر وہ ہم پر رعب جماتے ہیں کہ وہ یہ کر دیں گے وہ کردیں گے۔ تم کیسے کر دو گے جب کہ آنحضرت ﷺ کی سچی پیروی میں نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيْرَةَ شہرٍ کی رُو سے ہمیں بھی خدا تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ ہمیں کسی مقام پر پہنچنے میں مہینہ لگتا ہو گا مگر ہمارار عب وہاں پہلے ہی پہنچ جائے گا۔ اس رعب کا مقابلہ تم اپنے رعب کے ساتھ بھلا کیسے کر سکتے ہو۔ اس لئے کوئی احمد ی دوست تمہارے سامنے تمہارے رعب کے نتیجہ میں یا تمہاری دنیوی شان و شوکت کی وجہ سے کبھی نہیں جھکے گا۔ ہمارے سر انسان کے سامنے جھکنے کے لئے پیدا ہی نہیں کیےگئے اور نہ ہی انشاء اللہ وہ کسی کے سامنے کبھی جھکیں گے۔‘‘(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ برموقع ہنگامی مجلس مشاورت مئی ۱۹۷۳ء صفحہ۹۸-۹۹) تیسرا منصوبہ: فرمایا:’’ تیسرا منصوبہ ربوہ میں منافقین کے ذریعہ ایک متوازی جماعت قائم کرنے سے متعلق ہے۔ خدا تعالیٰ نے ایسا تصرف فرمایا کہ مجھ تک ان کی یہ بات پہنچ گئی۔ ہمارے مخالفین کچھ منافقوں کو ساتھ ملا کر ربوہ میں ہی ان کا مرکز بنا کر ایک متوازی جماعت قائم کر کے جماعت احمدیہ کو دو حصوں میں بانٹ دینا چاہتے ہیں تا کہ اس طرح جماعت احمدیہ کی طاقت ٹوٹ جائے۔ مگر وہ اس بات کو سمجھتے نہیں کہ منافق کا سر تو اس لئے بچا ہوا ہے کہ خدا کہتا ہے کہ نہیں ! میں اس کو سزا دوں گا۔ تمہاری سزا سے زیادہ سخت سزا دوں گا۔ تم خدا کے مقابلہ میں منافق کی بھلا کیا حفاظت کر سکو گے۔منافقت آج کا روگ نہیں یہ تو بہت پر انا روگ ہے۔ جماعت احمد یہ بڑے بڑے مشکل مراحل سے گذری ہے اور ہر مرحلے پر بڑے بڑے منافقوں سے اس کا پالا پڑا ہے۔… پس میں مخالفین احمدیت سے کہتا ہوں کہ ہم دنیا کی دولت سے پیار کرتے ہیں نہ اس کو کوئی وقعت دیتے ہیں۔ تم سمجھتے ہو کہ تم کوئی اس قسم کا فتنہ کھڑا کرو گے تو سو ڈیڑھ سو مخلص احمدیوں کو دولت کا لالچ دے کر یا منافقوں کے ساتھ مل کر متوازی جماعت قائم کر لو گے۔ کیا تمہیں ان لوگوں کا علم نہیں جنہوں نے پہلے ایک متوازی جماعت قائم کی تھی اور بڑے طمطراق سے کی تھی۔ اور بڑے دعوی سے کی تھی کہ جماعت کا ۹۵ فیصد حصہ ان کے ساتھ ہے انہوں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں تم ان سے زیادہ کامیابیاں تو حاصل نہیں کر سکو گے۔ آخر لے دے کر ان کی ساری کوششوں کا نچوڑ اور تجربوں کا ما حصل یہ ہے کہ جماعت مبائعین کو گالیاں دو اور بس۔ گویا گالیاں دینا ان کے نزدیک نیکی ہے اور اس طرح ان کو خدا مل جائے گا۔ پس اگر ہمارا مخالف اور معاند یہ سمجھتا ہے کہ منافقوں کو پیسے دے کر اور ان کی پیٹھ ٹھونک کر وہ مومنین مخلصین کی جماعت کے مقابلہ میں ایک متوازی جماعت بنا لے گا تو یہ لوریاں تمہیں جو دیا کرتا ہے وہی دیا کرتا ہے تم ایسی لوریاں لے کر آرام کرتے اور سوتے ہو تو سوتے رہو۔ خدا تعالیٰ کے مخلص بندوں پر ایسی لوریوں کا کوئی اثر نہیں ہوا کرتا۔…ہم مخالفین احمدیت سے کہتے ہیں تم جو تدبیر بھی کرنا چاہو کر کے دیکھ لو۔ ہمیں دکھ پہنچانا چاہو پہنچا لو۔ ہمیں گالیاں دینا چاہو دے لو۔ ہم پر رعب جمانا چاہو جما کر دیکھ لو منافقوں کو اکٹھا کر کے کوئی متوازی جماعت بناکر ربوہ میں اس کا مرکز بنانے کی کوشش کرنا چاہو کر کے دیکھ لو۔ جو تمہاری مرضی میں آئے کر لو۔ ہم تمہیں بتا دیتے ہیں کہ تم اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے اس لئے کامیاب نہیں ہو سکتے کہ یہ جماعت خدا کی قائم کردہ جماعت ہے۔… یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا قائم کردہ ایک سلسلہ ہے جسے کوئی ناکام نہیں کر سکتا۔‘‘(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ برموقع ہنگامی مجلس مشاورت مئی ۱۹۷۳ء صفحہ۹۹تا۱۰۳) مخالفت ایک بین الاقوامی اتحاد کی شکل میں دوسری مسلم سربراہی کانفرنس ۲۲تا۲۴؍فروری ۱۹۷۴ء لاہور میں منعقد ہوئی۔ یوگنڈا کے ڈکٹیٹر عیدی امین نے اس کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ سعودی عرب کے شاہ فیصل کو عالم اسلام کا خلیفہ تسلیم کر لیا جائے۔(ایک مرد خدا،صفحہ:۱۵۹) لاہور میں منعقدہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے اختتام کے صرف ڈیڑھ ماہ کے بعد اس کا ایک اجلاس مکہ مکرمہ میں منعقد کیا گیا۔اس میں یہ تجاویز پیش کی گئیں: ۱۔ تمام اسلامی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ قادیانی معابد، مدارس، یتیم خانوں اور دوسرے تمام مقامات میں جہاں وہ اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہیں ان کا محاسبہ کریں۔ ۲۔ ان کے پھیلائے ہوئے جال سے بچنے کے لیے اس گروہ کے کفر کا اعلان کیا جائے۔ ۳۔ قادیانیوں سے مکمل عدم تعاون اور مکمل اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی بائیکاٹ کیا جائے۔ان سے شادی سے اجتناب کیا جائے اور ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔ ۴۔ کانفرنس تمام اسلامی ملکوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے اوران کی املاک کو مسلمان تنظیموں کے حوالے کیا جائے۔اور قادیانیوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے۔ ۵۔ قادیانیوں کے شائع کیے گئے تحریف شدہ تراجمِ قرآن مجید کی نقول شائع کی جائیں۔اور ان تراجم کی اشاعت پر پابندی لگائی جائے۔(سلسلہ احمدیہ جلد سوم صفحہ: ۲۵۶) جماعت احمدیہ کے خلاف استعماری طاقتیں زور و شور کے ساتھ سازشیں کر رہی تھیں۔ چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے اس بین الاقوامی سازش پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکشاف فرمایا کہ ’’اب ہماری مخالفت ایک بین الاقوامی اتحاد کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ہے اور افق اسلام پر جو حالات جنگ احزاب کے موقع پرابھرے تھے کہ اہل کتاب اور مشرکین نے گٹھ جوڑ کر کے مدینہ پر حملہ کیا تھا اور اسلام کو مٹانے کی کوشش کی تھی اسلام کی اس نشأۃ ثانیہ میں پھر وہی حالات پیدا ہو گئے ہیں چنانچہ ظاہری علوم رکھنے والے اہل قرآن اور اسلام کے دشمن اہل کتاب اور انسانیت اور مذہب کے دشمن اہل الحاد یہ تینوں طاقتیں اکٹھی ہو کر نشأہ ثانیہ کو مغلوب کرنے کے لیے افق اسلام پر ابھری ہیں۔ جو وعدہ اس وقت مسلمانوں کو دیا گیا تھا میں سمجھتا ہوں انہی آیتوں میں ہمارے لئے بھی وعدہ ہے کہ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّونَ الدُّبُرَ ( القمر : ۴۶) تم جمع تو ہو گئے ہو تم مختلف متضاد طاقتیں ہو جو اسلام کو مغلوب کرنے کے لیے اکٹھی ہو کر سامنے آگئی ہو لیکن سَيُهزم الجمع تمہارا اتحاد تمہیں کامیابی کی طرف نہیں لے جائے گا بلکہ تم پیٹھ پھیر کر بھاگ جاؤ گے اور ناکام ہو گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس لئے کہ زمین کے سینے سے پٹرول کی شکل میں جو دولت باہر نکلی ہے اور ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ وہ اس دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو ایک مسلمان مخلص دل کی قربانی اور ایثار کے سرچشمہ سے نکلتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو جذب کرتی ہے۔ کیا تیل کے چشموں سے حاصل کی ہوئی دولت ایک مومن ایثار پیشہ کے دل کے چشمہ سے نکلی ہوئی دولت کا کبھی بھی مقابلہ کر سکتی ہے؟ جب سے آدم پیدا ہوئے اس وقت سے لے کر قیامت تک کبھی ایسا نہیں ہو گا یہ کبھی نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہر مذہب کے ماننے والوں کے سامنے رکھا گیا تھا جب وہ مذہب دنیا میں آئے اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں۔‘‘(رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمد یہ ۱۹۷۴، صفحہ ۴۰-۴۱ مرتبہ ملک محمد یوسف سلیم صاحب ایم اے انچارج صیغہ زود نویسی شائع کردہ پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ ) احباب جماعت کوغصہ سے بچنے کی تلقین ان حالات میں حضوررحمہ اللہ نےفرمایا : ’’ہمارا کام غُصّہ کرنا نہیں۔ ہمارا کام غُصّہ پینا ہے ہمارا کام انتقام اور بدلہ لینا نہیں ہمارا کام معاف کرنا ہے ہمارا کام دعائیں کرنا ہے اُن کے لئے جو ہمارے اشدّ ترین مخالف ہیں کیونکہ وہ پہچانتے نہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں اور اُس کے پیار کی راہوں سے وہ بھٹک گئے ہیں۔… مجھے جو فکر رہتی ہے وہ یہ ہے کہ احباب جماعت میں نئے آئے ہوئے بھی ہیں۔ ان کو کہیں اپنے مخالف کے خلاف اس قسم کا غُصّہ نہ آئے کہ جس کی اجازت ہمیں ہمارے رب نے نہیں دی۔ خدا تعالیٰ نے کہا ہے میری خاطر تم ظلم سہو میں آسمانی فرشتوں کو بھیجوں گا تا کہ تمہاری حفاظت کریں۔ اب ظاہر ہے اور موٹی عقل کا آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ اگر کسی فرد پر کوئی دوسرا فرد حملہ آور ہو اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کو اپنے دفاع کے لئے ان دو چار ہتھیاروں میں سے جو میسّرہیں کسی ایک ہتھیار کے منتخب کرنے کا موقع ہو تو عقل کہتی ہے کہ اُس کے نزدیک جو سب سے زیادہ مضبوط اور مؤثر ہتھیار ہو گا وہ اسے منتخب کرے گا تو اگر ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ ایک مومن کی عقل کو یہ فیصلہ کرنا چاہیئے کہ اگر دُنیا کے سارے دلائل بھی ہمارے پاس ہوں اور ان کے ساتھ ہم اپنے مخالف کا مقابلہ کریں تو ہماری اس تدبیر میں وہ قوت اور طاقت نہیں جو ان فرشتوں کی تدبیر میں ہے جنہیں اللہ تعالیٰ آسمان سے بھیجے اور کہے کہ میرے بندوں کی حفاظت کرو اور اُس کی خاطر مخالفین سے لڑو۔ پس جب یہ بات ہے تو ہماری عقل کہتی ہے کہ ہمیں کمزور ہتھیار سے اپنے مخالف کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیئے۔ جب ہمیں ایک مضبوط ہتھیار بھی میسّر آ سکتا ہے اور آ رہا ہے تو ہمارے خدا نے ہمیں یہ کہا کہ تمہارا کام ہے دعائیں کرنا اور میرا کام ہے (۱) تم سے قربانیاں لینا تا کہ تم میرے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بن جاؤ اور (۲) تمہاری اجتماعی زندگی کی حفاظت کرنا۔‘‘(خطبہ جمعہ۲۴؍مئی ۱۹۷۴ءخطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۵۲۸-۵۲۹) جب خلیفہ وقت کسی بھی معاملہ میں کوئی ہدایت فرمائیں تو بیعت کرنے والوں کا کام ہے کہ اس ارشاد کو غور سے سن کر اس پر بڑی احتیاط سے عمل کریں۔ اگر پوری جماعت میں سے ایک گروہ بھی خواہ وہ گروہ چھوٹا سا گروہ ہی کیوں نہ ہو اس ہدایت پر عمل پیرا ہونے پر کوتاہی کا مظاہرہ کرے تو اس کے سنگین نتائج نکلتے ہیں۔ ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ہنگامہ ۱۹۷۴ء کے آغاز میں جماعت مخالف رسائل میں یہ اشتہار چھپنے لگے کہ قادیانیت کی مخالفت کے لیے قادیانی محاسبہ کمیٹی قائم کی گئی ہے اور اس کے لیے چندہ جمع کرنے کی اپیل کی گئی۔ (ہفت روزہ چٹان ۲۸ جنوری ۱۹۷۴ء صفحہ۱۵) اس کو تو شاید معمول کی بات سمجھا جاتا لیکن اس کے ساتھ یہ اعلانات چھپنے لگے کہ مرکزی قادیانی کمیٹی کو ایک ہزار نوجوانوں کی ضرورت ہے اور کالج کے طلبہ خاص طور پر اس طرف توجہ کریں۔ (ہفت روزہ چٹان ۲۷ مئی ۱۹۷۴ء صفحہ ۱۷) یہ بات واضح تھی کہ اب جماعت کےخلاف شورش کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اس مرتبہ تعلیمی اداروں کے طلبہ کو بھی اس فساد میں ملوث کیا جائے گا۔اب چونکہ جماعت احمدیہ کے خلاف عالمی سطح پر ایک مؤثر تیاری ہوچکی تھی اور سازش کی ساری مضبوط کڑیاں مجتمع ہو گئی تھیں اس لیے معاندین سلسلہ نے ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء بروز بدھ سوچی سمجھی سکیم کے مطابق ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ ۲۲؍مئی ۱۹۷۴ء بروز بدھ نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کا ایک گروپ بذریعہ چناب ایکسپریس ٹرپ پر جاتے ہوئے شام سات بجے کے قریب ربوہ سے گزرا۔ ان طلبہ نے ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر اتر کے جماعت احمدیہ کے خلاف نعرے لگائے اور جماعتی بزرگان کے بارے نازیبا جملے کہے، پھر ریلوے لائن سے پتھر اٹھا کر قریب میدان میں کھیلنے والے لڑکوں پر پھینکے اور بعض اخلاق سوز حرکات بھی کیں۔ لیکن موقع پر موجود کسی احمدی نے اپنی روایات کے مطابق کوئی مداخلت یا مزاحمت نہ کی۔ ان طلبہ نے جاتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم ۲۹؍مئی کو واپس آئیں گے۔ چنانچہ ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو کچھ احمدی نوجوان بھی ان طلبہ کی دھمکی کے پیش نظر ربوہ ریلوے اسٹیشن پر اکٹھے ہوگئے۔ ٹرین صبح دس بج کر پانچ منٹ پر ربوہ ریلوے سٹیشن پر پہنچی تو میڈیکل کالج کے ان طلبہ نے جماعت احمدیہ کے خلاف نعرے لگانے شروع کردیے اور کچھ پتھر بھی پھینکے۔ اس کارروائی کے نتیجہ میں وہاں پر موجود احمدی نوجوانوں سے نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ کی تلخ کلامی ہوگئی اور پھر نوبت ہاتھا پائی اور لڑائی تک جا پہنچی۔ لیکن جلد ہی دوسرے احباب نے فریقین کی لڑائی ختم کروا دی۔ اس لڑائی میں نشتر میڈیکل کالج کے چند طلبہ معمولی زخمی ہوگئے۔ اس پر ان طلبہ کی فوراً مرہم پٹی کروائی گئی اور ان کو شربت وغیرہ پلایا گیا۔بعد کی تمام رپورٹس کے مطابق اس واقعہ میں جو طلبہ زخمی ہوئے تھے،انہیں بھی کوئی گہرا زخم نہیں آیا تھا۔ اس کے بعد یہ طلبہ دس بج کر پینتیس منٹ پر ٹرین میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔( ماخوذ از (i)روزنامہ مساوات لاہور ۳۰؍مئی ۱۹۷۴ء (ii)نقل ٹیلی گرام مرسلہ ۲۲ ،۲۹مئی ۱۹۷۴ء منجانب ریلوے اسٹیشن ماسٹر ربوہ) پاکستان بھر میں خونریز فسادات اس معمولی واقعہ کو بنیاد بناکر جماعت احمدیہ کے خلاف پاکستان بھر میں خونریز فسادات برپا کر دیے گئے۔ وحشت و بربریت کا بازار گرم کیا گیا۔ سماجی بائیکاٹ کے ظالمانہ فعل سے اشیائے خورونوش اور پانی تک کی فراہمی ناممکن بنا دی گئی تا کسی طرح احمدیوں کو ان کے دین و ایمان سے ہٹایا جاسکے۔ احمدی اپنے اپنے گھروں میں محصور و مقید ہو کر رہ گئے۔ مریض اور چھوٹے چھوٹے بچے طبی امداد اور دودھ کی ایک ایک بوند کو ترستے رہے۔ الغرض احمدیوں پر آلام و مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ کرب و بلا کے اس روح فرسا دور میں مسیح محمدی کے فدائیوں نے صبر و استقلال اور رضا بالقضاء اور قربانیوں کے وہ نمونے دکھلائے جن کی نظیر قرون اولیٰ کے سوا کہیں نظر نہیں آتی۔ اس دورِ ابتلا میں لوٹ مار اور آتشزدگی کی بکثرت وارداتیں ہوئیں۔ احمدیوں کی لاکھوں کروڑوں روپوں کی املاک اور جائیداد لوٹ لی گئی یا نذر آتش کر دی گئی، بیسیوں خانۂ خدا تباہ و برباد کر دیے گئے اور بہت سوں پر غاصبانہ قبضہ کر لیا گیا۔بے شمار احمدیوں کو بے سروسامانی میں اپنی بستیاں اورمکانات چھوڑنے پڑے۔ قتل و غارت گری کا ایسا بازار گرم کیے رکھا جس میں اڑھائی صدکے قریب احمدی گھائل ہوئےاور سینکڑوں احمدی راہ مولیٰ میں اسیر ہوئے، اور ۲۷؍خوش نصیبوں کو جامِ شہادت نوش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان سب انسانیت سوز مظالم میں سب سے نمایاں کردار علمائے ظاہر اور طالب علم لیڈروں نے ادا کیا جن کی اشتعال انگیز تقاریر اور دلآزار کارروائیوں کی بنا پر شر پسند اور غنڈہ عناصر کو ہر قسم کی من مانی کرنے کی کھلی آزادی مل گئی۔ جبکہ انتظامیہ باوجود ان کارروائیوں کا علم ہونے کے خاموش تماشائی بنی رہی۔ پاکستان کے بے کس، نہتے اور مظلوم احمدی ۳۰؍مئی ۱۹۷۴ء سے نومبر۱۹۷۴ء کے دوران مسلسل چھ ماہ تک جس بےدردی اور ظالمانہ طریق پر جبر و استبداد کی چکی میں پیسے گئے اس کا تصور کر کے آج بھی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کسی مؤرخ کے قلم میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ان قیامت خیز گھڑیوں کی کیفیت و کمیت کو بیان کرسکے اور ان حشر آفرین لمحوں کو احاطۂ تحریر میں لاسکے۔ یہ تمام ظلم و بربریت احمدیوں کے پائے ثبات میں لغزش نہ لا سکے اور اگر کہیں شاذ کے طور پر جبر و اکراہ کے نتیجہ میں بعض کمزوروں کے پائے استقامت میں لغزش آئی بھی تو ان کی اکثریت بعد ازاں اسی حصار عافیت میں واپس آگئی۔ واقعہ ربوہ پر حضور رحمہ اللہ کا ارشاد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا:’’ پچھلے جمعہ کے موقع پر بھی مَیں نے ایک رنگ میں جماعت کو خصوصاً جماعت کے نوجوانوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ یہ تمہارا مقام ہے اسے سمجھو اورکسی کے لئے دکھ کا باعث نہ بنو اور دنگا فساد میں شامل نہ ہو اور جو کچھ خدا نے تمہیں دیا ہے وہ تمہارے لیے تسکین کا بھی باعث ہے، ترقیات کا بھی باعث ہے۔ وہ ہے صبر اور دعا کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گزارنا۔ صبراور دعا کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گزارو مگر اہلِ ربوہ میں سے چند ایک نے اس نصیحت کو غور سے سنا نہیں اور اس پرعمل نہیں کیا اور جوفساد کے حالات جان بوجھ کر اور جیسا کہ قرائن بتاتے ہیں بڑی سوچی سمجھی سکیم اور منصوبہ کے ماتحت بنائے گئے تھے اس کو سمجھے بغیر جوش میں آکر وہ فساد کی کیفیت جس کے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی مخالفت کی اس تدبیر کو کامیاب بنانے میں حصہ دار بن گئے اور فساد کا موجب ہوئے۔…میں سمجھتا ہوں اورمیں انہیں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کم ازکم دس ہزار مرتبہ استغفار کریں اور توبہ کریں اوراللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگیں۔ جو بھی اس معاملہ میں شامل ہوئے ہیں۔ مجھے ان کاعلم نہیں لیکن جوبھی شامل ہوئے ہیں وہ کم ازکم دس ہزار مرتبہ استغفار کریں اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکیں اوراپنی بھلائی کے لئے اورخود کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچانے کے لئے دس ہزار مرتبہ اس سے معافی مانگیں اور اس کے حضور عاجزانہ جھکے رہیں جب تک اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہ کر دے۔ دوسری بات میں جماعت کے مخلص، سمجھدار، فدائی حصہ کویہ بتانا چاہتا ہوں کہ آگ تو بڑی شدت سے بھڑکائی گئی ہے لیکن یہ آگ ناکام ہوگی۔ اِنْشَاءَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔ناکامی اس معنیٰ میں نہیں کہ کسی احمدی کو بھی مختلف قسم کی قربانیاں نہیں دینی پڑیں گی۔ وہ تودینی پڑیں گی جب تک جماعتِ احمدیہ کے احباب وہ اور اس قسم کی تمام قربانیاں خدا کے حضور پیش نہیں کرتے جو قربانیاں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے خدا کے حضور پیش کی تھیں اس وقت تک وہ ان انعامات کو بھی حاصل نہیں کرسکتے جو صحابۂ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کریم سے حاصل کئے تھے۔ لیکن دنیا کے کسی دماغ میں اگر یہ بات آئے کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اللہ تعالیٰ کی غلبۂ اسلام کی اس تدبیر اوراللہ تعالیٰ کے غلبۂ اسلام کے اس منصوبہ کو ناکام بناسکتی ہیں جس غرض کے لئے کہ جماعت احمدیہ قائم کی گئی تھی توہمارے نزدیک وہ روحانیت سے دور ہونے کی وجہ سے ناسمجھی کے خیالات رکھنے والا ہے۔ یہ توہونہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ منصوبہ ناکام ہوجائے۔‘‘(خطبہ جمعہ۳۱؍مئی ۱۹۷۴ءخطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۵۳۴ تا۵۳۶) صمدانی ٹریبیونل اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا بیان واقعہ ربوہ کی عدالتی تحقیقات کے لیے ۳۰؍مئی ۱۹۷۴ء کولاہورہائیکورٹ کے جج جسٹس خواجہ محمود احمد صمدانی پرمشتمل ایک رُکنی تحقیقاتی ٹریبیونل قائم کر دیا گیا۔ اس ٹریبیونل کی ذمہ داری میں بنیادی طور پر دو اُمورشامل تھے: ۱۔ربوہ ریلوے اسٹیشن پررونما ہونے والے واقعہ کی انفرادی واجتماعی ذمہ داری کا تعین کرنا۔ ۲۔ سانحہ میں ملوث عناصرکے خلاف ضروری کارروائی کے بارے حکومت کوسفارشات پیش کرنا۔ ٹریبیونل نے یکم جون سے کارروائی کاآغازکیااور ایک ماہ پچیس دن میں کل۷۰؍شہادتیں مکمل کرنے کے بعد ۳۰؍جولائی ۱۹۷۴ء کو اپنی تحقیقات مکمل کرلیں۔ جسٹس صمدانی نے مورخہ ۲۰؍اگست ۱۹۷۴ء کو وزیراعلیٰ حنیف رامے کواپنی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروائی تھی جوآج تک منظر عام پر نہیں آسکی۔ یہ رپورٹ ایک سو بارہ ٹائپ شدہ فل سکیپ صفحات اور چھ جلدوں پر مشتمل تھی۔ ۱۸؍جولائی ۱۹۷۴ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ تحقیقاتی ٹریبیونل میں اپنا بیان قلمبند کروانے کے لیے لاہور تشریف لے گئےاور ایک مفصل بیان دیاجو کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق سات گھنٹے تک جاری رہا۔ کارروائی صبح ۸بج کر ۴۵منٹ پر شروع ہوئی اور ۴ بج کر ۴۵ منٹ تک جاری رہی۔ اس دوران ۴۵منٹ کا وقفہ بھی ہوا۔ (اخبار ’’نوائے وقت‘‘ لوکل ایڈیشن ۳۱؍جولائی و یکم اگست ۱۹۷۴ء ) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا نہایت اہم پیغام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ان ایامِ کرب و بلا میں ۶؍جون ۱۹۷۴ء کو جماعت احمدیہ کے نام حسب ذیل اپنا پہلا دعائیہ پیغام دیا:’’حبّی فی اللہ۔ جان سے پیارے دوستو!۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ کی ہزاروں سلامتیاں آپ پر ہر آن نازل ہوں۔ وہ ہر آن آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے ایمان و اخلاص میں برکتیں نازل فرمائے۔ ہر حال میں آپ کو استقامت بخشے اور روح القدس سے آپ کی مدد فرمائے۔ آمین جماعت احمدیہ اس وقت جن حالات سے گذر رہی ہے ان سے دنیا کے ہر خطہ کے احمدی دوستوں کو تشویش ہے۔ وہ بےحد کرب و اضطراب کی گھڑیاں گذار رہے ہیں۔ مگر ان سب کا دکھ، ان سب کی بے چینی اور بے قراری میرے دل کی ہر دھڑکن میں پنہاں ہے اور میری ہر آن یہ کیفیت ہے کہ اِنَّمَااَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ۔ دوست دریافت کرتے ہیں کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ میرا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرو کہ اِسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۔ استقامت، صبر، دعاؤں اور نمازوں کے ساتھ اپنے رب سے مدد مانگو۔ پس صبر کرو اور دعائیں کرو، صبر کرو اور دعائیں کرو، صبر کرو اور دعائیں کرو اور اپنی سجدہ گاہ کو آنسوؤں سے تر رکھو۔ ہر لمحہ دعاؤں میں صرف کرو۔ یہی تمہاری امتیازی شان ہے اور اسی سے تمہاری دین اور دنیا کی نجات وابستہ ہے۔ گریہ و زاری کے ساتھ خدا کو تم نے کب پکارا اور وہ تمہاری مدد کو نہ آیا؟ وہ سب وفاداروں سے بڑھ کر وفادار ہے اور ہر درگذر کرنے والے سے زیادہ درگذر کرنے والا ہے اور ہر پیار کرنے والے سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے۔ کسی ماں کو اس کے بچے کی کربناک چیخ اس قوت سے اپنی طرف کھینچ نہیں سکتی جس قوت سے اپنے عاجز بندوں کی عاجزانہ آہ و زاری اسے اپنی طرف مائل کرتی ہے۔ پس راتوں کو اٹھ اٹھ کر گریہ و زاری کرو اور اپنے دن دعاؤں اور نوافل میں گذارو۔ مجسم دعا بن جاؤاور ہر آن نصرتِ الٰہی کے منتظر رہو۔ خداتعالیٰ واحد و یگانہ پر ہمارا سارا اور کامل بھروسہ ہے اور اس کی رحمت کا سایہ ہمارے سروں پر ہے۔ وہ ہمیں بےسہارا نہیں چھوڑے گا۔ تمہیں سب سے زیادہ پیار کرنے والا تمہارے لئے دن رات بے چین اور تمہارے لئے محبت بھری دعائیں کرنے والا۔‘‘(روزنامہ الفضل ۸؍ جون ۱۹۷۴ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا دوسرا پیغام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے دوسرا پیغام اگلے ہی روز ۷؍جون ۱۹۷۴ء کو دیا جس میں فرمایا:’’احبابِ کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کے الفضل میں دوست میرا پیغام پڑھ چکے ہوں گے اور دعاؤں میں مصروف ہوں گے۔ انفرادی دعاؤں کے علاوہ ان مقامات پر جہاں نماز باجماعت کا اہتمام ہے احباب کثرت کے ساتھ روزانہ نماز فجر اور نماز مغرب کے بعد ربِّ کریم، البَرُّ الرَّحِیْم کے حضور الحاح کے ساتھ عاجزانہ اور پُرسوز اجتماعی دعائیں بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین (روزنامہ الفضل ۹؍ جون ۱۹۷۴ء) احباب جماعت سے مسلسل رابطہ اور خبر گیری اس دورِ ابتلا میں ان حکایاتِ خونچکاں کو رقم کرنے اور ملک بھر کے احمدیوں سے رابطہ کے ضروری انتظام و انصرام کے لیے حضورؒ نے چند احباب کو پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں طلب فرمایا اور حضورؒ کی نگرانی میں ایک سیل نے مرکز میں کام شروع کر دیا۔ ہر طرف سے فسادات کی اور احمدیوں پر ان کے گھروں، مساجد اور دکانوں پر حملہ کی خبریں آرہی تھیں۔ جو اطلاع ملتی پہلے حضور اقدس اسے خود ملاحظہ فرماتے اور پھر قصرِ خلافت میں ایک گروپ مکرم چودھری حمیداللہ صاحب کی زیر نگرانی کام کر رہا تھا، اس اطلاع کے مطابق متاثر ہ احمدی دوستوں کی مدد کے لیے اقدامات اٹھائے جاتے اور ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے رضا کار روانہ کیے جاتے۔ اس کام کے لیے ضلع سرگودھا سے تعلق رکھنے والے رضا کار خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ اس دور میں شہر سے باہرفون ملانا بھی ایک نہایت مشکل امر تھا۔ پہلے کال بک کرائی جاتی اور پھر گھنٹوں اس کے ملنے یا نہ ملنے کاانتظار کرنا پڑتا اور اس سے بڑھ کر مسئلہ یہ تھا کہ مرکز سلسلہ کی تمام فون کالیں ریکارڈ کرکے ان کے ریکارڈ کو حکومت کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ اس لیے جماعتوں سے رابطہ کی یہی صورت تھی کہ ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے آدمی بھجوائے جائیں۔ مرکز میں کام کرنے والا یہ سیل اس بات کا اہتمام کر رہا تھا کہ ہر واقعہ کی اطلاع وزیر اعظم اور دیگر حکومتی عہد یداروں کو باقاعدگی سے دی جائے۔ اس سیل میں مکرم چودھری حمیداللہ صاحب، مکرم چودھری ظہور احمد صاحب باجوہ ناظر امور عامہ مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کام کر رہے تھے۔ جب ان فسادات کا آغاز ہوا تو کام کا دباؤ اتنا تھا کہ حضور اقدس اور ان کے ساتھ کام کرنے والے رفقاء کو کچھ راتیں چند لمحے بھی سونے کا وقت نہیں مل سکا اور کچھ روز مسلسل جاگ کر کام کرنا پڑا۔ بیرون پاکستان کی جماعتوں کو بھی حالات سے مطلع رکھنا ضروری تھا اور یہ بھی ضروری تھا کہ احمد یوں پر ہونے والے مظالم سے عالمی پریس اندھیرے میں نہ رہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح ا لثالثؒ نے لندن مشن کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ پوری دنیا کی جماعتوں کو پاکستان میں ہونے والے واقعات سے باخبر رکھے۔ چنانچہ فسادات کے دوران ہفتہ میں دو مرتبہ پاکستان سے لندن اطلاعات بھجوائی جاتی تھیں۔ لندن سے تمام جماعتوں کو حالات سے مطلع رکھا جاتا۔ حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے لندن میں ایک پریس کانفرنس بلوائی۔ اس پر یس کانفرنس میں عالمی پریس کے نمائندے شریک ہوئے۔ (سلسلہ احمدیہ جلد سوم صفحہ ۲۸۱-۲۸۲) جماعت احمدیہ کوغیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ ان دنوں جماعت کے مخالف حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ بڑے زور شور سے کیا جارہا تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ حضور ؒنے اس نامعقول مطالبہ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’دنیا کا کوئی مذہب کسی حکومت کویہ اجازت نہیں دیتا کہ اگرکوئی شخص یا کوئی جماعت یہ کہے کہ وہ مسلمان ہے توحکومت یہ کہے کہ نہیں تم مسلمان نہیں ہو۔ یہ تواتنی موٹی اوربڑی واضح بات ہے کہ وہ لوگ بھی جو خدا کی ہستی کا انکار کرتے ہیں، حیات انسانی کی اس صداقت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکے۔…ہمارا موجودہ دستور جو عوامی دستورہے، جوپاکستان کادستور ہے۔ وہ دستور جس پرہمارے وزیراعظم صاحب کوبڑا فخر ہے،وہ دستور جو ان کے اعلان کے مطابق دنیا میں پاکستان کے بلند مقام کوقائم کرنے والا اور اس کی عزت اور احترام میں اضافہ کاموجب ہے، یہ دستور ہمیں کیا بتاتا ہے؟ اس دستور کی ۲۰ ویں دفعہ یہ ہے:- a) Every citizen shall have the right to profess, practise and propagate his religion, and b) Every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institution. اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کوہمارا یہ دستور جوہمارے لئے باعثِ فخر ہے یہ ضمانت دیتا ہے کہ جواس کا مذہب ہو اور جس مذہب کا وہ خود اپنے لئے فیصلہ کرے وہ اس کا مذہب ہے۔…حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے متعلق یہ اعلان کیا کہ ہم’’احمدیہ فرقہ کے مسلمان‘‘ ہیں۔ ایک جگہ آپ نے انہی الفاظ میں یہ جملہ بولا ہے’’احمدی فرقہ کے مسلمان‘‘۔ ساری دنیا کے احمدی کہیں گے کہ ہم احمدی فرقہ کے مسلمان ہیں اوردنیا کی کوئی حکومت یہ حق نہیں رکھتی کہ وہ یہ کہے کہ تم احمدی فرقہ کے مسلمان نہیں ہو۔ پس ہزار ادب کے ساتھ اورعاجزی کے ساتھ یہ عقل کی بات ہم حکومت کے کان تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ جس کا تمہیں انسانی فطرت نے اورسرشت نے حق نہیں دیا، جس کا تمہیں دنیا کی حکومتوں کے عمل نے حق نہیں دیا، جس کا تمہیں یُو۔این۔ او کے Human Rights نے (جن پر تمہارے دستخط ہیں) حق نہیں دیا، چین جیسی عظیم سلطنت جو مسلمان نہ ہونے کے باوجود اعلان کرتی ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کوئی شخص Professکچھ کررہا ہو اور اس کی طرف منسوب کچھ اورکردیا جائے۔میں کہتا ہوں میں مسلمان ہوں، کون ہے دنیا میں جو یہ کہے گا کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ یہ کیسی نامعقول بات ہے۔ یہ ایسی نامعقول بات ہے کہ جو لوگ دہریہ تھے انہیں بھی سمجھ آگئی۔ پس تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس کا تمہیں تمہارے اس دستور نے حق نہیں دیا جس دستور کو تم نے ہاتھ میں پکڑ کر دنیا میں اعلان کیا تھا کہ دیکھو کتنا اچھا اور کتنا حسین دستور ہے۔ آج اس دستور کی مٹی پلید کرنے کی کوشش نہ کرو اور اس جھگڑے میں نہ پڑو اسے خدا پر چھوڑدوکیونکہ مذہب دل کا معاملہ ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے فعل سے ثابت کرے گا کہ کون مومن اورکون کافر ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۱؍ جون ۱۹۷۴ء ۔خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۵۶۸ تا۵۷۵) احباب جماعت کو خوش رہنے اور مسکرانے کی تلقین ایک طرف تو جماعت احمدیہ کے متعلق حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارادے اچھے نہیں معلوم ہور ہے تھے اور دوسری طرف ملک میں احمدیوں پر ہر قسم کا ظلم کیا جارہا تھا تا کہ وہ اس دباؤ کے تحت اپنے عقائد ترک کر دیں لیکن جب ابتلاؤں کی شدت اپنی انتہا پر پہنچی ہو تو ایک عارف باللہ یہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ان مشکلات کے ساتھ اللہ کی نصرت آرہی ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا:’’ہمارا زمانہ خوش رہنے مسکراتے رہنے اور خوشی سے اچھلنے کا زمانہ ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ اس زمانہ میں نبی اکرمؐ کا جھنڈا دنیا کے ہر ملک میں گاڑا جائے گا۔ اور دنیا میں بسنے والے ہر انسان کے دل کی دھڑکنوں میں محمد ﷺ کی محبت اور پیار دھڑ کنے لگے گا۔ اس لئے مسکراؤ!۔مجھے یہ خیال اس لئے آیا کہ بعض چہروں پر میں نے مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ ہمارے تو ہنسنےکے دن ہیں۔ نبی اکرم ﷺ ہی کی فتح اور غلبہ کی جسے بشارت ملی ہو وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھ کر دل گرفتہ نہیں ہوا کرتا اور جو دروازے ہمارے لیے کھولے گئے ہیں وہ آسمانوں کے دروازے ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ۲۸؍جون ۱۹۷۴ء ۔خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۵۷۵) ’’ہمارے دُکھ خواہ کسی رنگ میں ہوں، وہ ہماری مسکراہٹیں اور ہماری مسرتیں اور ہماری بشاشتیں ہم سے نہیں چھین سکتے۔…ہم اپنی قضاء وقدر کے ابتلاء کے نتیجہ میں یا مصیبتوں کے اوقات میں مایوس کیسے ہوسکتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے زور سے یا اپنی طاقت سے اسلام کو غالب کرنا تھا یا اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ میں اس زمانہ میں ایسا کروں گا۔ پس گو وعدہ تواللہ تعالیٰ کاہے لیکن وہ ہم سے قربانیاں ضرور لے گا کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس وقت تک اُس کی یہی سنت چلی آرہی ہے۔ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے دُنیا میں جو انبیاء آئے ہیں وہ گنے تو کسی نے نہیں تعداد میں فرق ہے لیکن کہتے ہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے ہیں۔ تم کوئی ایک پیغمبر بتاؤ جس کے زمانہ میں اس کے ماننے والوں نے قربانی نہ دی ہو۔ گالیاں نہ کھائی ہوں مصیبتیں نہ جھیلی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کو نہ بھیجاہو اور اُن کو کامیاب نہ کیا ہو۔ ہرایک نبی کے ماننے والوں نے اپنے حالات کے مطابق اپنے کام کے مطابق اور اپنے کام کی وسعت کے مطابق قربانی دی ہے۔ جو نبی ایک چھوٹے سے شہر میں آیا اس کے لئے چند آدمیوں نے قربانی دی۔ جو نبی ایک خاص علاقے کے لئے آیا اس علاقے نے اس کے لئے قربانیاں دیں۔ جو نبی ایک خاص قوم کی اصلاح کے لیے آیا۔ اُس قوم نے اس کے لیے قُربانیاں دیں بغیر قربانیاں دئیے اُن کو خداتعالیٰ کی نعمتیں اور رحمتیں نہیں ملیں مگر وہ رحمۃللعالمین ہوکر نوع انسانی کی طرف آیا، نوع انسانی اس کے لیے اس وقت تک سے قُربانیاں دیتی چلی آرہی ہے اس لئے تمہیں بھی قربانیاں دینی پڑیں گی اور مجھے بھی قُربانیاں دینی پڑیں گی اور بشاشت کے ساتھ ہنستے کھیلتے ہوئے قربانیاں دینی پڑیں گی۔ … میں نے ایک جگہ دو بچے بھجوائے تھے۔ راستے میں سات میل تک لوگ ان کو مارتے چلے گئے اور وہ ہنستے چلے گئے۔ ان میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ جب ہم اُن کے مکے اور چپیڑیں کھاکر بھی مسکراتے تھے تو اُن کو اور غصہ چڑھتا تھاکہ پتہ نہیں یہ کیا قوم ہے۔ ہم یہی قوم ہیں۔ ہم خدا کی راہ میں تکلیفیں بھی اُٹھائیں گے اور دنیا ہمیں مسکراتے ہوئے اور قہقہے لگاتے ہوئے بھی دیکھے گی۔ جس وقت ہم پر زیادہ مصائب نازل ہوں گے اُس وقت زیادہ قہقہے لگیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ۲۶؍ جولائی ۱۹۷۴ء ۔خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۶۰۳ تا۶۰۵) قومی اسمبلی میں اتمام حجت سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ خلیفہ وقت نے بنفس نفیس ایک ایسے ایوان میں اتمام حجت فرمائی جس میں اس وقت کے چوٹی کے لیڈر شامل تھے۔ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نےحکومت وقت کے حکم پر ۱۹۷۴ء کی اسمبلی میں جماعت احمد یہ کا موقف اور جماعت کے بارے میں اٹھائے جانے والے سوالات کے نہایت شاندار جواب اپنی زبان مبارک سے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی سربرآوردہ شخصیات کے سامنے مرحمت فرمائے اور اس طرح دین حق کا پیغام ہر مکتبہ فکر تک پوری وضاحت کے ساتھ پہنچ گیا۔ قومی اسمبلی کی اس سپیشل کمیٹی کی کارروائی ۲۲ و ۲۳؍ جولائی،۵ تا ۱۰؍ اگست اور ۲۰ تا۲۴؍ اگست ۱۳؍ دن جاری رہی۔ جماعت احمدیہ کامحضر نامہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی ہدایات کے تحت جماعت احمدیہ کا محضر نامہ تیار کیا گیا اس محضرنامہ کی تیاری میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب(خلیفۃ المسیح الرابعؒ)، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب، حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر اور حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب شامل تھے۔ یہ محضرنامہ اور اس کے ساتھ دیگر لٹریچر ۱۳؍ جولائی ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کی اسپیشل کمیٹی کے مطالعہ کے لیے پیش کیا گیا۔ اس میں بہت سے بنیادی اہمیت کے حامل اور متنازعہ امور پر جماعت احمدیہ کا موقف بیان کیا گیا تھا۔ یہ جماعت احمدیہ کا وہ موقف تھا جو کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۲۲؍ اور۲۳؍ جولائی ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں پڑھ کر سنایا تھا۔ قومی اسمبلی میں تائید الٰہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۲؍ مارچ ۱۹۸۰ء کو کراچی میں ممبران مجلس انصاراللہ سے خطاب کرتے ہوئے اسمبلی کی اس کارروائی کے متعلق فرمایا:’’۷۴ء میں جب میں نیشنل اسمبلی گیا ہوں۔ خدا تعالیٰ نے بہت نشان دکھائے۔ بہت بڑا نشان یعنی عجیب ہے اپنی کمیت VOLUME کے لحاظ سے کہ جب انہوں نے کہا کہ پہلے تو زبردستی مجھے بلایا۔ ہم نے کراس ایگزیمین(CROSS EXAMINE) کرنا ہے۔ پہلے کہا کہ محضر نامہ خود پڑھو جماعت کا۔ ہم سوال کریں گے۔ آپ جواب دیں۔ مجھے پتہ لگا تو میں نے پیغام بھیجا کہ نوے سال پر پھیلا ہوا ہے ہمارا لٹریچر۔ اور مذہب کا معاملہ ہے۔ بڑا سنجیدہ ہے۔ اور میں نے بھی دعوی نہیں کیا کہ سار الٹریچر مجھے زبانی یاد ہے۔ایک دن پہلے آپ سوال لکھ دیں، بھجوا دیں۔ ہمیں دے دیں۔اگلے دن ہم جواب دے دیں گے۔انہوں نے کہا نہیں۔ ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ اُسی وقت سوال ہوگا۔ اُسی وقت آپ جواب دیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ دعا کی بھی اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے۔ قریباً ساری رات میں نے دعا کی خدا سے۔ خیر مانگی اُس سے صبح کی اذان سے ذرا پہلے مجھے یہ کہا گیا۔ وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِئِیْنَ کہ مہمان تو پہلے سے بھی زیادہ آئیں گے۔ اتنی بڑی خوشخبری۔ یہ استہزاء کا منصوبہ تو بنا رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے۔ لیکن فکر کیوں کرتے ہو؟ ہم تمہارے لئے کافی ہیں۔ ان کی رپورٹ جو تھی، وہ یہ تھی کہ انہوں نے گیارہ دنوں پر پھیلا کر کل باون گھنٹے دس منٹ مجھے CROSS EXAMINEکیا۔ باون گھنٹے دس منٹ كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِِئِیْنَ کا مجھے یہ نظارہ نظر آتا تھا جس طرح فرشتہ میرے پاس کھڑا ہے۔ جہاں مجھے جواب نہیں آتا تھا وہاں مجھے جواب سکھایا جاتا تھا۔ بعض دفعہ یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ جواب اس طرح دینا ہے۔ مثلاً ایک رات شام کو مجھے یہ کہا گیا کہ اس کا جواب نہیں دینا اس وقت کل صبح دینا ہے۔ میرے پیچھے پڑ گئے۔ میں نے کہا میں نے دینا ہی نہیں۔ بہت پیچھے پڑے۔ میں نے کہا آپ یہ لکھ لیں، میں نہیں جواب دینا چاہتا۔ میں نے اس وقت جواب نہیں دینا۔ تو مجھے یہی کہا گیا تھا کہ کل صبح دینا جواب۔ کیونکہ کل صبح دینے میں اُن کے لئے کافی خفت کا سامان پیدا ہونا تھا۔ یعنی اس تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے راہنمائی کی۔ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ باون گھنٹے دس منٹ پر ہر ہر سوال کا جواب مجھے وصول ہوا۔یا سوال سکھایا جاتا تھا۔یا یہ کہ اس کا جواب کس طرح دینا ہے۔‘‘(تاریخ انصاراللہ جلد دوم صفحہ۹۵) قومی اسمبلی کا فیصلہ اور احباب جماعت کے نام پیغام اسمبلی کی کارروائی شروع ہونے سے قبل یہ تو واضح نظر آرہا تھا کہ حکومت اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے جماعت احمدیہ کو آئین میں غیر مسلم قرار دینے کا پکا ارادہ کر چکی ہے۔آخرکار ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد ۷؍ اور۸؍ستمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی تمام احمدی جماعتوں کے نام پیغام ارشاد فرمایا کہ ’’جس احمدی کو اپنے اسلام پر ایمان کے لئے کسی غیر کے فتوے کی ضرورت تھی اسے تو فکر ہو سکتی ہے۔ لیکن جو احمدی سمجھتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مسلمان ہے، اسے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ ہمیشہ اس کے دامن سے وابستہ رہیں۔ آمین ثم آمین۔ ‘‘(اندر کی کہانی عینی شاہد کی زبانی صفحہ۳۹۵) ۱۳؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:’’جہاں تک کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا سوال ہے یہ تو میں شروع سے کہہ رہا ہوں اس قرارداد سے بھی بہت پہلے کہتا چلا آیا ہوں کہ جس شخص نے اپنا اسلام لاہور کی مال (روڈ) کی دکان سے خریدا ہو، وہ تو ضائع ہو جائے گا۔ لیکن میں اور تم جنہیں خدا خود اپنے منہ سے کہتا ہے کہ تم (مومن) مسلمان ہو تو پھر ہمیں کیا فکر ہے دنیا جو مرضی کہتی رہے تمہیں فکر ہی کوئی نہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ۱۳؍ستمبر ۱۹۷۴ خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۶۴۱) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی زبان مبارک سے۱۹۷۴ء کے دور کا تذکرہ جماعت کے لیے شب بیداری: ’’ ۱۹۷۴ء میں جماعت کا کوئی شخص ایسا نہیں جو ان دنوں میں اتنی راتیں جاگا ہو جتنی میں جاگا ہوں، ہو نہیں سکتا۔ میرے ارد گرد بھی لوگ تھے۔ ایک پارٹی سو جاتی تھی اور ایک جاگ رہی ہوتی تھی اور ہر جاگنے والی پارٹی بعض دفعہ ہر آدھے گھنٹے کے بعد مجھے جگا دیتی تھی کہ فلاں جگہ سے فون آگیا، وہاں گڑبڑ ہو گئی۔ فلاں جگہ سے فون آگیا وہاں یہ ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ وَلَا فَخْرَ اور اس میں مَیں کوئی فخر نہیں کرتا کیونکہ میں بڑا عاجز انسان ہوں۔ خدا تعالیٰ بڑی شان اور قدرتوں والا ہے۔ وہ ایک ذرّہ سے بھی کام لے سکتا ہے اور لیتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ ستمبر ۱۹۷۸ء۔خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۴۱۲) امام جماعت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ’’علاوہ ازیں دنیوی لحاظ سے وہ تلخیاں جو دوستوں نے انفرادی طور پر محسوس کیں وہ ساری تلخیاں میرے سینے میں جمع ہوتی تھیں اُن دنوں مجھ پر ایسی راتیں بھی آئیں کہ میں خدا کے فضل اور رحم سے ساری ساری رات ایک منٹ سوئے بغیر دوستوں کے لئے دعائیں کرتا رہا ہوں۔…کیونکہ میرے اور احباب کے وجود میں میرے نزدیک کوئی امتیاز اور فرق نہیں ہے۔ ہم دونوں امام جماعت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور ایک ہی چیز کے دو مختلف زاویے ہیں۔‘‘(خطابات ناصر جلد ۲صفحہ۱۳) غلبہ احمدیت کی بشارت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’یہ ابتلاؤں کا زمانہ، دعاؤں کا زمانہ ہے اور سخت گھڑیوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت اور پیار کے اظہار کا لُطف آتا ہے۔ہماری بڑی نسل کو بھی اور ہماری نوجوان نسل اور اطفال کو بھی، مردوزن ہر دو کو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب مہدی کے ذریعہ غلبہ اسلام کا جو منصوبہ بنایا ہے اُسے دُنیا کی کوئی طاقت ناکام نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے منصوبوں کو زمینی تدبیریں ناکام نہیں کیا کرتیں۔ پس غلبہ اسلام کا یہ منصوبہ تو انشاءاللہ پورا ہو کر رہے گا۔ جیسا کہ کہا گیا ہے اسلام ساری دُنیا پر غالب آئے گا اور جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے نوعِ انسانی کے دل جماعت احمدیہ کی حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فتح کئے جائیں گے اور نوعِ انسانی کو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں رب کریم کے قدموں میں جمع کر دیا جائے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ۱۶؍ اگست ۱۹۷۴ء ۔خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۶۱۵) مزید پڑھیں: خدا تعالیٰ کی صفت المجیب، ہستی باری تعالیٰ کی زندہ دلیل